نظامِ شمسی ایک حیرت کدہ ہے۔ یہاں زمین کے علاوہ کئی سیارے، چاند اور سیارچے ہیں۔ ان تمام اجرامِ فلکی میں ہر ایک کی اپنی کہانی ہے ویسے ہی جیسے ہر چہرے کی ایک کہانی۔ گو نظامِ شمسی کے تمام سیارے اپنے اندر ایک جہانِ حیرت ہیں تاہم ان سیاروں سے زیادہ دلچسپ انکے چاند ہیں۔
تصور کیجئے آپ محبوب کی بانہوں میں ہوں اور اوپر آسمانوں میں چودھویں کا چاند پوری آب و تاب سے چمک رہا ہو۔ مگر ساتھ ہی ساتھ اس چاند سے پانی کے فوارے اُڑ رہے ہوں جو آپکے اس رومانوی تجربے کو مزید چار چاند لگا دیں۔ ایسا پانی اُڑاتا چاند زمین کا تو نہیں ہے البتہ ملیے Enceladus سے۔ یہ سیارہ زحل کا چھٹا بڑا چاند ہے۔ زحل نظامِ شمسی کا وہ سیارہ ہے جسکے سب سے زیادہ چاند ہیں۔ کتنے؟ حال ہی میں اس سیارے کے گرد گھومتے 62 چھوٹے بڑے اجرام کو چاند کا درجہ دیا گیا اور یوں اب زحل کے کل ملا کر 145 چاند ہیں۔
زحل کا چاند Enceladus برف سے ڈھکا چاند ہے۔ اسکا قطر تقریبا 500 کلومیٹر ہے ۔ ہماری زمین کے چاند کا قطر 3474 کلومیٹر ہے۔ اسکا مدار زحل کے گرد بیضوی ہے۔
اوسطاً یہ زحل سے 2 لاکھ 38 ہزار کلومیٹر دور رہ کر مدار میں گھومتا یے۔ ہمارا چاند زمین کے گرد اوسطاً 3 لاکھ 84 ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر گھوم رہا ہے۔
زحل کے اس منفرد چاند Enceladus کی سطح برفیلی ہے
اور یہاں برف کی تہوں پر کئی بڑی بڑی دراڑیں ہیں۔
سورج کی روشںی جب اسکی سطح پر پڑتی ہے تو برف ہونے کے باعث تقریباً 99 فیصد روشنی واپس خلا میں منعکس ہو جاتی یے۔ تقابل میں ہماری زمین کے چاند پر جب سورج کی پڑتی ہے روشی محض 11 فیصد روشنی ہی منعکس ہوتی ہے۔ اگر ہمارا چاند Enceladus کی طرح برف سے ڈھکا ہوتا تو آج آسمان پر تقریباً 9 گنا زیادہ روشن ہوتا۔ تصور کیجئے چودویں کا چاند اس قدر روشن کہ جیسے دن کا سماں ہو۔
2005 میں ناسا کا کاسینی سپیسکرافٹ اسکے قریب سے گزرا اور اس نے اس چاند کا تفصیلی جائزہ لیا۔ اس چاند کی تصاویر سے یہ معلوم ہوا کہ اسکی سطح سے 800 میپ فی گھنٹہ کی رفتار سے برف کے ذرات اور گیسیں پھوٹتی ہیں۔ ان گیسیوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ ، میتھین، نائٹروجن، ایمونیا وغیرہ شامل ہیں۔ اسکے علاوہ مختلف نمکیات بھی برف کے ذرست اور گیس کی پھواروں میں شامل ہیں۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اسکی سطح سے پھوٹنے والے یہ برفیلے ذرات اور گیسیں اسکی اندر موجود گہرے اور گرم سمندروں سے آتے ہیں جہاں ممکن ہے بنیادی زندگی جیسے کہ مائیکروبس، بیکٹریا وغیرہ موجود ہوں۔
ناسا نے ارادہ ظاہر کیا ہے کہ وہ 2038 میں اس چاند پر شندگی کے آثار ڈھونڈنے کے لیے ایک مشن بھیجے گا جو 2050 میں اس چاند کے گرد مدار میں پہنچے گا۔ اور اس سے اٹھنے والے بخارات کا 200 روز تکجائزہ لے گا۔ جسکے بعد یہ اسکی سطح پر اُترے گا اور یہاں زندگی کے ممکنا آثار ڈھونڈے گا۔ اس مشن پر تقریباً 4.9 ارب ڈالر کی لاگت آئے گی۔
اردو لسانیات
زبان اصل میں انسان کے تعینات یا اداروں میں سے ہے۔ وہ ان کی معمول ہے جن کی کار بر...