عامر سہیل اردو ادب کی ایک ایسی شش جہتی شخصیت ہیں جن کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے جس موضوع پر قلم اٹھایا، اسے یوں پیش کیا کہ پڑھنے والے دنگ رہ گئے۔ وہ ایک ایسے بے مثال نقاد و محقق ہیں اور انہوں نے اس شعبے میں جو طریق اختیار کیا ہے وہ انہیں اپنے ہمعصروں میں ممتاز کرتا ہے۔ اْن کی حالیہ تصنیف ’’ جدید لسانیاتی اور اسلوبیاتی تصورات ‘‘ میں قرۃ العین حیدر کی ناول نگاری پر ، صوتی، صرفی اور نحوی و معنیاتی اطلاق کا یوں تجزیہ کیا گیاہے کہ اس سے پہلے قرۃ العین حیدر کی تصنیفات کا اس طرح تجزیہ کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی گئی تھی۔ عامر سہیل نے بڑی خوربینی سے جائزہ لینے اور تجزیہ کرنے کے بعد یہ ثابت کرنے کی بڑی کامیاب کوشش کی ہے کہ قرۃ العین حیدر کا اسلوب اردو ادیبوں کے روائتی اسلوب سے کہیں زیادہ منفرد و یکتا ہے۔ لیکن اس تجزیے میں انہوں نے اس نبیادی اصولی بات کو بھی ٹھیس نہیں پہنچنے دی کہ ہر ادیب کا اپنا اسلوب ہے اور وہ جس طرح کا بھی ہو ’’وہی اس کی شناخت ‘‘ بھی ہے۔ اس طرح قرۃ العین حیدر بطور ادیبہ ہمارے سامنے ایک ایسے ادیبانہ رخ سے آتی ہیں جو پہلے کبھی دیکھا ہی نہیں گیا تھا۔
عامر سہیل کی یہ متذکرہ بالا کتاب دراصل ان کے ڈاکٹریٹ کا مقالہ ہے جو ان کی اْس عرق ریزی کا نتیجہ ہے جس میں انہوں نے اپنی خداداد صلاحیت و اہلیت کو بڑے گہرے تنقیدی شعور سے استعمال کرتے ہوئے قرۃ العین جیسی ادیبہ کے ناولوں اور خاص کر اْن کے ناول ’’ آگ کے دریا ‘‘ کا اسلوبی جائزہ لیتے ہوئے اردو فکشن میں ایک نئے تنقیدی روّیے اور معیار کی ایسی مثال قائم کی ہے جو ناقدین کے لیے تقلید کی نئی راہیں وا کرتی ہے۔یہ تو ہم جانتے ہی کہ ادب میں ’’ ادبی اصطلاحات‘‘ کی کیا اہمیت ہے۔ ان کا استعمال مصنفین اور قارئین کو رجحانات اور مجموعی طور پر معاشرے پر تبصرہ کرنے کی اجازت دیتا ہے ، مکالمہ بازی کا استعمال دلائل کو تقویت اور قارئین کو سوچ و فکر کے نئے طریقے اپنانے کی ترغیب دیتا ہے اور یہ سبھی کچھ تب ممکن ہو سکتا ہے جب کوئی نقاد تنقیدی بصیرت رکھتا ہو اور تنقیدی عمل کے دوران اپنے شخصی نظریات ٹھونسنے اور رواداری کا کمبل اوڑھنے سے محفوظ رہے ۔
عامر سہیل نے قرۃ العین حید کی ادیبانہ سوچ و فکر اور ادبی کٹھاس مٹھاس کو نئی فکرو سوچ سے یوں متعارف کرایا ہے کہ اس کا پوشیدہ پن کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ اور یہاں تک کہا جا سکتا ہے کہ اپنی اِس تحقیق میں عامر سہیل نے قرۃالعین حیدر کی سنجیدہ و مزاحیہ اور سنکی پن تک کی صلاحیتوں کو اجاگر کر دیا ہے۔ اور انہوں نے ادیبہ کے علامتی زبان کے استعمال اور اس سے مفہوم کے نئے نئے معنی اخذ کرنے اور الفاظ و فقروں کے تعمیری ہنر کو بڑے منفرد انداز میں پیچیدہ تخلیقی سوچ کے عمل کی نشاندہی کرتے ہوئے، بڑے خوبصورت، عجیب اور منفرد تصورات کو جنم دیا ہے اور جدید سائنسی انداز میں تنقید کا اپنا ہی ایک نیا طریق اختیار کرکے سوچ کی منطقی اور مخصوص حدوں کو سامنے رکھتے ہوئے نقادین اور قارئین ادب کو سمجھنے، اس کی تشریح کرنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے کی تحریک دی اور نئے گر بتائے ہیں۔
قراۃ العین حیدر جیسی ادیبہ کے ناولوں کا تجزیہ، تشریح یا تشخص پیش کرکے عامر سہیل نے جو مقالہ پیش کیا ہے وہ ہر لحاظ سے ادبی تنقید کے کام کو ترقی دینے اور گہرا کرنے کے مترادف تو ہے ہی، اس سے ادب کے قارئین کو ادب کو سمجھنے اور اس کی تشریح کرنے میں بھی مدد ملے گی اور انہیں نئے ادبی افق دکھائی دیں گے۔ یہ ایک ایسا مقالہ ( کتاب ) ہے جس سے نہ صرف ادبیات کے طلبہ کو فائدہ ہو گا بلکہ عصری نقاد بھی اس سے بہت کچھ سیکھ سکیں گے۔ لازم ہے کہ اس ’’ کتابی مقالہ‘‘ کو ملکی کالجوں اور جامعات میں متعارف کرایا جائے۔ تاکہ ہمارے کل کے نقاد جدید تنقیدکا ہنر سیکھ سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...