(Last Updated On: )
مرال احتشام کے کمرے میں سوچوں میں گم بیٹھی تھی پھر یک گہرا سانس لیا اور خود کو ریلکس کیا اسے سب بھلانا تھا وہ اب کسی اور کی تھی اور اس کی زندگی میں پوری ایمانداری سے شامل ہونا چاہتی تھی وہ اس سے محبت کی دعوے دار نہ تھی لیکن اسے یقین تھا کہ احتشام کی محبت اسے پچھلی محبت بھلا دے گی
اتنے میں احتشام روم میں داخل ہوا وہ سیدھی ہو بیٹھی احتشام اس کے پاس آیا اور بولا
” کن سوچوں میں بیٹھی تھیں”
” کچھ نہیں”
” جبران کو یاد کررہی تھیں” مرال نے سر اٹھا کے اسے دیکھا
” غلط کہہ رہا ہوں کیا میں۔۔۔۔۔ کیا جبران سے محبت نہیں کرتیں۔۔ کرتی ہو نا” احتشام نے اس کی آنکھوں میں دیکھا
” اچھا یہ بتاؤ۔۔۔۔۔ گھر آنے کے بعد کتنی بار وہ تمہارے قریب آیا تھا” مرال شاکڈ سی اسے دیکھنےلگی کیا احتشام اسے ایسا کہہ سکتا تھا ” یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ ” وہ شاکڈ سی اسے دیکھ رہی تھی کیا وہ ایسا کہہ سکتا تھا
” کیوں کیا غلط کہا ہے میں نے ۔۔۔۔ حیران تو ایسے ہورہی ہو جیسے تم لوگوں کا کوئی راز فاش ہو گیا ہو” مرال اٹھ کھڑی ہوئی
” شرم آنی چاہیے آپ کو احتشام کس طرح کی باتیں کررہے ہیں آپ۔۔۔۔۔”
” کیوں محبت نہیں کرتیں اس سے تم”
” احتشام میں اپنی زندگی کے ہر باب سے آپ کو آشنا کر چکی ہوں۔۔۔۔۔” احتشام اس کی بات کاٹ کر بولا
” پر اس کےلوٹنےکا نہیں بتایا تم نے۔۔ اس لیے نا کہ مجھے بتا دو گی تو میں تمہیں اس سے دور ہو نے کو کہوں گا اور تم اس سے دور رہ نہیں سکتیں اور وہ وہ بھی تب جب وہ اتنے سالوں بعد آیا ہو”
” آپ مجھ پہ بہتان لگا رہے ہیں احتشام” مرال کی آنکھیں چھلک پڑیں احتشام ہنسا
” بہتان۔۔۔۔۔ یہ بہتان نہیں سچ بیان کررہا ہوں جانتا ہوں میں جبران لتنا اتاولا تھا تم سے ملنے کو تمہیں پھر سے پانے کو اور تم۔۔۔۔۔ تم بھی تو اس سے محبت کرتی ہو پتا نہیں کب سے تو کب دونوں نے اتنے سال بعد ایکدوسرے کو دیکھا ہو گا تو کتنی بار صبر کا دامن چھوٹا ہو گا “
” ایسا نہیں ہے احتشام آپ جانتے ہیں ہماری ڈائیورس کو ایکسال ہو چکا ہے۔۔۔۔۔ شرم آنی چاہیے آپ اپنی بیوی پہاس طرح کے الزام لگا رہے ہیں”
“میں نہیں مانتا “
” تو نہ مانیں یہ آپ کی غلط فہمی ہے آپ کی سوچ کا ہے” وہ پلٹنے لگی کہ احتشام اس کا بازو پکڑ کے روکا
” پچھتا رہی ہو کیا اب؟”
” ہاں” مرال نے سختی سے کہا
” ہاں جو عورتیں اپنے نفس پہ قابو نہیں پاتیں نا وہ یوں ہی پچھتاتی ہیں۔۔۔۔۔ نہ وہ یہاں کی رہتی ہیں نا وہاں کی پتا ہے ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے چلو اب تمہیں ہی دیکھ لو اپنے شوہر کے آنے پہ تم نے اپنے نفس کو نا سنبھالا تو دیکھو جبران کا بھی جب تم سے دل بھرا تو اس نے تمہیں چھوڑ دیا اور جب تم شادی ہو کے یہاں آئیں تو۔۔۔۔۔” احتشام نے جیب سے ایک کاغذ نکالا اور پین سے اس پہ پین سے سائن کیے اور اس کےہاتھ میں تھمایا اور اس کی آنھوں میں دیکھ کر بولا
” میں احتشام حیدر اپنے پورے ہوش و ہواس میں اپنی بیوی مرال کو طلاق دیتا ہوں” مرال نے اپنے کانوں سے اسکے جملے سنے ایسا لگا جیسے جسم سے روح نکل گئی ہو وہ سکتہ زدہ سی اس کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی اس کی زندگی میں دو مرد آئے تھے اور ان دونوں نے اسے سنوارنے کے بجائے بکھیرا تھا بنا کسی غلطی کے کیا آدم کے بیٹے اتنے سنگدل ہیں کہ حوا کی بیٹی کو روندتے ہوئے انہیں ذرا رحم نہیں آتا احتشام نے جھٹکے سے اس کا بازو چھوڑا
” اب چلی جاؤ یہاں سے۔۔ یہ طلاق کے پیپرز ہیں سائن کردیے ہیں میں نے تم لوگوں نے کیا سوچا تھا کہ جبران کا پھینکا ہوا احتشام کبھی اٹھائے گا”
مرال ابھی بھی اسے ہی دیکھ رہی تھی جیسے یقین کرنا چاہ رہی ہو کہ یہ سچ بھی ہے یا نہیں
اسے لگا کہ ہاں اب تو وہ مر ہی جائے گی زندہ رہنے کو بچا ہی کیا ہے اب۔۔۔۔۔
” کیوں کھڑی ہو جاؤ یہ بناؤ سنگھار آج کی رات جبران کے لیے رکھ لو جاؤ” مرال سس کی بات سن کے ہوش میں آئی وہ اب بھی اس پہ بے بنیاد الزامات کی بوچھاڑ کررہا تھا وہ یہ سب کیسے سن سکتی تھی وہ اس کے پاس آئی اور پھر ایک کھینچ کے تھپڑ اس کے منہ پہ جڑا
” آئیندہ کسی لڑکی کے اوپر الزام لگانے سے پہلے کبھی یہ سوچ لینا کہ جب تمہاری اولاد پہ کوئی اتنے واہیات اور گھٹیا الزام لگائے گا تو تم پہ کیا بیتے گی” وہ بھیگی آنکھوں سے مگر سختی سے بولی وہ چار سال پہلے کی مرال نہیں تھی
” میں کل بھی پاک تھی میں آج بھی پاک ہوں۔۔۔۔۔ گھٹیا لوگوں کو سب گھٹیا ہی نظر آتے ہیں۔۔۔۔۔۔تم تو مجھ سے محبت کے دعوےدار تھے نا جہاں اعتبار کی بات آئی وہیں محبت بھی ختم۔۔۔۔۔
ہاں کرتی تھی میں اس سے محبت اور اب بھی کرتی ہوں۔۔۔۔۔ ایک نے بھروسہ کیا پر محبت اور عزت نہ دے سکا مگر اس کی ایک اچھی بات بتاؤں جب میں وہ میرا محرم تھا نا تب بھی اس نے مجھ پہ شک نہیں کیا وہ مجھے طھوڑنا چاہتا تھا پر جھوٹ کے طور پہ بھی اس نے اس لفظ کو نا چنا۔۔۔۔۔ اور دوسرا مرد میری زندگی میں تم آئے تم نے مجھ سے صرف محبت کی۔۔ صرف محبت۔۔۔۔۔ اور کطھ بھی نہیں پر پتا ہے یہاں سے جسنے کے بعد نہ میں اس آدمی کے پاس جاؤں گی نا تمہارے پاس آؤں گی کیونکہ تم دونوں مردوں نے مجھے بہت بے دردی سے توڑا ہے” اور کہہ کر چلی گئی
—–
شور کی آواز سن کے وہ دونوں باہر آئے تو دونوں کے قدموں کے نیچے سے ذمین ہی نکل گئی مرال دلہن بنی کھڑی تھی اور رافعہ اور نشاء مسلسل اس سے پوچھ رہی تھیں مگر وہ کوئی جواب نہیں دے رہی تھی شور کی اسمہ اس کے پاس آئیں اور اسے گلے لگایا
” مرال۔۔ مرال میرا بچہ مرال یہاں۔۔ یہاں کیوں ہے بیٹا تمہیں تو وہاں۔۔ وہاں ہونا چاہیے تھا تم یہاں کیوں۔۔۔۔” وہ اس کا چہرہ تھام کے پوچھ ہی تھیں پر جواب ندارد۔۔۔۔۔
اتنے میں جبران اور نمیر بھی آگئے دونوں ہی مرال کو دیکھ کے شاکڈ رہ گئے
” میرو۔۔۔ بتاؤ نا میرو” نشاء نے روتے ہوئے پوچھا نمیر آگے بڑھا
” آپی کچھ تو بولو۔۔ آپی” مرال کے ہاتھ سے ایک کاغذ گرا سب چونکگ نمیر نے کاغذ اٹھا کے دیکھا اور سکتے میں آگیا
” کیا لکھا ہے اس میں نمیر” اسمہ نے روتے ہوئے پوچھا وہ خاموش تھا جبران نے اس سے کاغذ چھینا اور دیکھا اس کی حالت بھی نمیر سے جدا نہ تھی اس نے سر اٹھا کے ابتہاج اور وہاج کو اور پھر باقی خواتین کو دیکھا وہ اسے ہی دیکھ رہے تھے
” مرال۔۔ کو۔۔طلاق۔۔۔۔۔” سب سکتے میں آگئے
” ہائے میری بچی۔۔ برباد ہو گئی” اسمہ اور رافعہ زور زور سے رونے لگی ایک دم وہاج دل میں ہونے والے درد سے سیک دم نیچے گرے سب ان کی طرف بھاگے۔
وہاج صاحب کے انتقال کو آج تین دن ہو چکے تھے اور مرال وہ تو اس دن سے ہی خاموش تھی بولی تھی تو بس ایک بار ہوسپٹل میں اپنے بابا کے سامنے اور بس۔۔۔۔۔
سب نے اس کو کچھ بلوانے کی رلانے کی بہت کوشش کی مگر وہ نہ روئی نا کچھ بولی وہ تین دن سے ایک زندہ لاش کی طرح پڑی تھی
رافعہ اس کے پاس آئیں وہ چپ چاپ لیٹی دور خلاؤں میں دیکھ رہی تھی
” مرال بچے۔۔۔۔۔” انہوں نے اسے گلے لگایا ” مرال جان اٹھو میری بیٹی” انہوں نے اسے پیار کیا مرال نے آنکھیں جھپکیں آنسوؤں کا ایک ریلہ اس کی آنکھوں سے بہنے لگا وہ اٹھی
” بابا۔۔ بابا مم۔۔ میں مر گئی با۔۔بابا آجائیں۔۔ بابا میں۔۔ بابا واپس آجائیں۔۔ بابا مم۔۔میں اکیلی۔۔اکیلی۔۔۔۔ بابا” وہ ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں نے بابا کو بلا رہی تھی چیخ رہی تھی ” بابا۔۔ سمیٹ لیں نا واپس آجائیں۔۔ مجھے۔۔ مجھے سنبھال لیں نا۔۔ ایک بار۔۔ بابا”
رافعہ اور اسمہ اسے دیکھ دیکھ کے رو رہی تھیں اسمہ نے آگے بڑھ کے اسے گلے لگایا
” ماما۔۔ ماما بابا کہتے تھے نا کہ ان کے بعد اندھیرا ہے ہاں۔۔۔۔۔ دیکھیں ہو۔۔ ہو گیا اندھیرا۔۔ ماما۔۔ بابا کو بول دیں نا کہ ایک۔۔ ایک بار آجائیں”
” میری بچی بس۔۔۔۔۔” ماما اسے چپ کروا رہی تھی مگر اس کے آنسو تھے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے
—–
دن یوں ہی گزر رہے تھے زندگی کا تو کام ہے چلنا اور وہ چل رہی تھی مگر وہ رک گئی تھی وہ بہت کم بولنے لگی تھی نا زیادہ بولتی نا کسی سے زیادہ بات کرتی
ابتہاج صاحب کے کہنے پر اس نے آفس پھر سے جوائن کرلیا تھا
چھہ ماہ ہو گئے تھے وہاج صاحب کو گزرے ہوئے
اس دوران نشاء کا بھی سادگی سے نمیر سے نکاح کردیا گیا تھا کیونکہ اسمہ کو ہمیشہ سے نمیر کے لیے نشاء پسند تھی اور نمیر کو بھی۔۔۔۔۔
جبران اس سے شرمندہ شرمندہ سا رہنے لگا تھا وہ سمجھتا تھا کہ اس کی وجہ سے مرال کی زندگی پھر سے تباہ ہوئی لیکن وہ اس سب کا ذمہ دار نہ تھا ہ احتشام کی سوچ کا قصور تھا۔۔۔۔۔
مرال بھی اب اس سے دور رہتی تھی جہاں وہ آتا وہاں سے اٹھ جاتی اتنا کچھ ہو چکا تھا اس کی لائف میں وہ اب کس پہ اعتبار کرتی اس کو ہر کوئی دھوکے باز لگتا
رات کے کھانے کے بعد وہ چن میں کھڑی چائے بنا رہی تھی کہ جبران چلا آیا وہ آج لیٹ گھر آیا تھا رات کے کھانے پہ بھی وہ نا تھا اور ابھی بھی وہ یہی سمجھا تھا کہ نشاء ہے کچن میں لیکن مرال کو دیکھ کے اس کے قدم رکے مرال اپنی ہی سوچوں میں گم جبران کی آمد سے بے خبر کھڑی تھی اب زیادہ تر وہ یوں ہی کھوئی کھوئی پائی جاتی
جبران نے ابلتی ہوئی چائے کو دیکھا اور تیزی سے آگے بڑھ کے چولہا بند کیا مرال یک دم چونکی اور دور ہوئی
” ابھی چائے گر جاتی ” مرال نے چائے کو دیکھا جو بالکل برتن کے کنارے پہ تھی
وہ آگے بڑھی اور خاموشی سے چائے کے لیے کپ نکالنے لگی جبران کھڑا اس کی تمام حرکات و سکنات نوٹ کررہا تھا
” کھانا مل سکتا ہے؟” جبران بولا
مرال خاموش سے اس کے لیےکھانا نکالنے لگی کھانا ٹیبل پہ رکھ کے وہ کپوں میں چائے نکالنے لگی
” مرال کیا ہو گیا ہے تمہیں اس طرح کیوں کھوئی کھوئی رہتی ہو” وہ جانتا تھا مگر وہ اس کی بھڑاس نکلوانا چاہتا تھا
” یوں خاموش رہ کر تم سب گھر والوں کو تکلیف ہو رہی ہے۔۔۔۔۔ پلیز مرال” مرال نے کچھ نا کہا اور چائے لے کر باہر چلی گئی
——
جبران اسمہ کے پاس آیا وہ بیٹھیں سبزیاں کاٹ رہی تھیں وہ ان کے پاس آیا اسمہ نے نظر اٹھا کے اسے دیکھا اور پھر کام میں لگ گئیں جبران ان کے پاس نیچے بیٹھا اسمہ نے کوئی دھیان نہ دیا
” چاچی۔۔۔۔۔” انہوں نے کوئی جواب نہ دیا
” چاچی میں گنہگار ہوں آپ کا اور مرال کا۔۔۔۔۔ میں آپ کی بیٹی کے دکھوں کی بھر پائی نہیں کرسکتا آپ کو آپ کی بیٹی کو بہت تکلیف دی اپنی ضد میں آپ کے آپ کی بیٹی کے ساتھ بہت غلط کیا ہو سکے تو معاف کردیں۔۔۔۔۔ میں جانتا ہوں آپ کے لیے یہ آسان کام نہیں ہے پر۔۔۔۔۔ چاچی بھٹک گیا تھا میں معاف کردیں”
” بھٹک گئے تھے۔۔۔۔۔ تمہارے یوں بھٹکنے نے میری بیٹی کو تباہ و برباد کردیا۔۔ میری مرال کو دیکھ رہے ہو نا تم دیکھی اس کی حالت” ان کی آنکھیں نم ہوئیں
” معاف کردوں تمہیں۔۔۔۔۔ میری بیٹی کو پہلے جیسا کردو میں معاف کردوں گی تمہیں۔۔۔۔۔ بتاؤ کرسکتے ہو”
” میں وعدہ نہیں کرتا مگر کوشش ضرور کروں گا کہ آپ کی بیٹی کو پھر سے پہلے جیسا کردوں کیا اس سے پہلے آپ میری ایک بات مانیں گی” اس نے پوچھا
” میں آپ سے آپ کی مرال کس ہاتھ مانگتا ہوں اپنے دل کی پوری رضامندی کے ساتھ” اس کے کہنے پر اسمہ شاکڈ سی اسے دیکھنے لگیں
” تمہیں یہ سب مذاق لگتا ہے شادی کوئی مذاق نہیں ہے جو جب دل چاہے تب کردی جائے تم نے کھیل سمجھا ہوا ہے زندگی کو” اسمہ غصہ ہوئی
” نہیں چاچی۔۔۔۔۔ایسی بات نہیں ہے صرف ایک بار۔۔ ایک بار بھروسہ کرلیں”
” جاؤ یہاں سے جبران میں نے اس بارے میں تم سے کوئی بات نہیں کرنی”
” چاچی پلیز۔۔۔۔۔احتشام پہ بھی تو بنا سوچے سمجھے بھروسہ کیا تھا نا ایک بار مجھ پہ بھی کرلیں”
” تم پہ بھی تو کیا تھا۔۔ تم نے کیا کیا” جبران کا سر جھکا
” جانتا ہوں چاچی۔۔۔۔۔ پر صرف آخری بار “
” اور ایک بار پھر اپنی بیٹی کی زندگی داؤ پہ لگا دوں”
” نہیں چاچی اس بار آپ مجھے اپنی امیدوں پہ پورا اترتا پائیں گی۔۔۔ مرال کو چھوڑنا میری بےوقوفی تھی پر اب ایسا نہیں ہو گا میں اسے بے حد خوش رکھوں گا” اسمہ نے اس کی آنکھوں میں دیکھا جیسے اس کی باتوں کا یقین کرنا چاہ رہی ہوں
” میں وعدہ کرتا ہوں چاچی جو عزت محبت اور مان میں اسے کبھی نہیں دے سکا جس کی وہ حقدار تھی وہ سب اسے دوں گا صرف ایک بار” وہ ان کے ہاتھ تھام کے یقین دلاتا بولا
” میں مرال سے بےحد شرمندہ ہوں اس کی تباہی کا ذمہ دار میں ہوں اب میں ہی اس کی خوشیوں کی ذمہ داری لیتا ہوں”
—–
” ماما پلیز اب میں شادی نہیں کرنا چاہتی لوگوں کے بہت بھیانک روپ دیکھیں ہیں میں نے اب ان پہ اعتبار ممکن نہیں” اسمہ نے اس سے بات کی تو وہ بگڑ گئی
” بیٹا جبران نے مجھے یقین دلایا ہے کہ۔۔۔۔۔”
” یہ آپ کہہ رہی ہیں۔۔۔۔۔ آپ ماما” وہ حیرانی سے انہیں دیکھنے لگی
” میں جانتی ہوں مرال پر۔۔۔۔۔”
” کیا پر۔۔۔۔۔ آپ کو شادی ہی کرنی ہے نا تو نمیر اور نشاء کی کروادیں نکاح تو ان کا ہو ہی چکا ہے”
” مرال بیٹا تم بات تو سنو”
” نہیں ماما میں اب کسی کی بات نہیں سنوں گی کھلونا ہوں نا میں تو جو آتا ہے کھیلتا ہے پھر توڑ کے چلا جاتا ہے۔۔۔۔۔ ماما انسان ہوں میں بھی کیوں نہیں سمجھتے آپ لوگ”
” تم تو جبران سے محبت کرتی ہو نا تب بھی منع کررہی ہو”
” کرتی ہوں ماما” وہ نم آنکھوں سے بولی ” پر پتا ہے محبت اور اعتبار میں بہت فرق ہے ماما۔۔۔۔۔ مجھے اعتبار نہیں اس پہ”
” ایک بار اور سہی مرال۔۔۔۔۔ ایک بار اعتبار کرلو”
” آپ کیا سمجھتی ہیں ماما اعتبار کیا خود سے کیا جاتا ہے میں کوشش بھی کروں نا تب بھی مجھے اعتبار نہیں آتا اب اس پہ۔۔ نہیں آتا”
” اب پلیز مجھ سے آپ اس بارے میں کوئی بات نہیں کریں گی” وہ کہہ کر چلی گئی۔
——
آج اس نے آفس کی چھٹی کی تھی رافعہ اور اسمہ کسی کی عیادت کو گئی تھی نشاء اپنے کمرے میں تھی سارہ اور ارسہ یونی گئی ہوئی تھیں مرال کچن میں مصروف تھی کہ جبران چلا آیا
” مرال انکار کی وجہ پوچھ سکتا ہوں” وہ چپ رہی
” مرال۔۔۔۔۔” اس نے پھر پکارا
” کیا مسئلہ ہے آپ کو۔۔۔۔۔ جب دیکھو مجھے مخاطب کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں مجھے نہیں پسند آپ سے بات کرنا۔۔۔۔۔پھر کیوں کرتے ہیں مجھ بات۔۔۔۔۔ اور رہی بات انکار کی تو میں آپ کو جواب دینے کی پابند نہیں ہوں” وہ پھر سے برتن دھونے لگی
” اور اگر میں کہوں کہ میں تم سے بےحد محبت کرتا ہوں تمہارے بغیر رہ نہیں سکتا تو” مرال کا کام کرتا ہاتھ ایک لمحے کو رکا اور پھر ستمے کام میں لگ گئی
” مجھے فرق نہیں پڑتا” جبران نے آگے بڑھ کے اس کا ہاتھ تھاما
” نہیں کرتیں؟؟؟” وہ اسے کمزور کررہا تھا
” ہاتھ چھوڑیں میرا” وہ پھر بھی اس کا ہاتھ پکڑا رہا
” میں نے کہا ہاتھ چھوڑیں” اب کی بار وہ چیخ کے بولی
” اگر میرے ساتھ یہ سب کچھ ہو چکا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اب آپ کا چانس ہے۔۔۔۔۔ سمجھتے کیا ہیں آپ ہاں کیا سمجھتے ہیں آپ مجھے محبت کا واسطہ دیں گے اور میں آجاؤں اور جب بھی دل چاہے گا چھوڑ دیں گے کیا سمجھا ہے آپ نے مجھے” وہ بےتحاشا رونے لگی
” آپ خود رستے سے ہٹ گئے تھے نا تو اب کیوں میرے رستے میں آرہے ہیں” وہ رو رہی تھی یہ وہ شخص تھا جس کے سامنے وہ پگھل جاتی تھی بھلے وہ سو بار اس کو چھوڑتا مگر وہ اس کی ایک آواز پہ آجاتی وہ آج تک سمجھ نہ سکی تھی کہ اس شخص میں ایسا کیا ہے جو اسے بےبس کرتا ہے
” تمہاری خوشی کے لیے ہٹ گیا تھا اور آج تمہاری خوشیوں کے لیے ہی تمہیں اپنانا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔ تمہیں پتا ہے تم ناجانے کب سے میری روح کی مکین ہو میرے دل کی مکین ہو یہ میں خود بھی نہیں جانتا کب سے اور جب سمجھ آئی نا تو میں تم سے بہت دور ہو گیا تھا اور تم مجھ سے۔۔۔۔۔ میں یہاں آیا بھی تمہارے لیے تمہارے رستے سےہٹا بھی تمہارے لیے اور اب آنا چاہتا ہوں تمہارے لیے” جبران مرال کا ہاتھ تھام کے بولا وہ رونا بھول کر خاموشی سے اس کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی
” تم میری زندگی نہیں میری روح کا حصہ ہو میری جان ہو بھلا روح کے بغیر بھی کوئی زندہ ہوتا ہے بھلا جان کے بغیر کوئی زندگی ہوتی ہے” اس نے مرال کی بھیگی آنکھوں کو دیکھا اور انگلیوں کی پوروں سے آنسو صاف کیے
” میں ان آنکھوں میں خوشیاں دیکھنا چاہتا ہوں مجھے میری مرال چاہیے۔۔ دو گی؟؟؟” جبران نے اس سے پوچھا مرال اس کی باتوں پہ دل سے ایمان لا رہی تھی اس کی بات پہ اس نے کہا
” آپ احتشام کی بات سچ کرنا چاہ رہے ہیں”
” جب میں ہوں نا تو تمہیں کسی کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے اب مرال کے پاس جبران ہے وہ اکیلی نہیں ہے” مرال مسکرائی
” بولو۔۔۔۔۔ چاچی کو تمہاری ہاں پہنچادوں؟؟؟” وہ بھی مسکرا دیا ایک دم جیسے سارے گرد کے بادل چھٹ گئے تھے مطلع اب صاف تھا
مرال جھجکی ” میں خود بتادوں گی آپ جائیں”
” کیوں۔۔۔۔؟؟؟ تم مجھے بتاؤ”
” آپ جائیں۔۔۔۔۔ مرال بھیگی آنکھوں سے ہنستی بہت پیاری لگ رہی تھی
جبران ڈھیٹ بنا اس کے جعاب کے انتظار میں میں تھا کہ
” میرو میں آجاؤں۔۔۔۔۔” نشاء کی شرارت بھری آواز آئی مرال چونکی تو دروازے پہ نشاء کو ایستادہ پایا
” تمہیں ابھی ہی آنا تھا بولا تھا نا میں نے تمہیں کہ بتادوں گا”
” نشاء تم۔۔۔ بھی؟” مرال حیرت سے بولی
” ہاں میں بھی۔۔۔۔۔ کیونکہ تم دونوں کی راز دار تو میں ہی ہوں نا۔۔ تو میں نے ہی کہا تھا بھائی کو موقع اچھا ہے چوکا لگا دیں پر بھائی نے تو چھکا لگا دیا واہ” جبران ہنسا مرال جھینپ گئی۔
—–
مرال میں اپنی ذات کو لے کے جو کمپلیکس تھا وہ جبران کی محبت نے آہستہ آہستہ ختم کردیا تھا وہ پہلے سے زیادہ حسین ہو گئی تھی شادی کے بعد وہ دونوں اسلام آباد شفٹ ہو گئے تھے کیونکہ جبران کی محنت کی وجہ سے ان کے کمپنی کی ایک برانچ اسلام آباد میں بھی کھلی تھی اور وہ اب ادھر کا بزنس سنبھال رہا تھا
جبران اور مرال کی شادی کو پانچ سال گزر گئے تھے اور ان دونوں کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا تھا جبران خدا کا لاکھ شکر کرتے نا تھکتا تھا کہ جس نے مرال کو اس کی زندگی میں پھر سے شامل کردیا دن بہ دن ان کی محبت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا کیونکہ وہ اس کی روح تھی اس کی جان تھی اور اب ان کی زندگی محبت سے پُر تھی۔