(Last Updated On: )
جبران گھر آیا تو بہت غصے میں تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ احتشام کو جان سے مار دے
” تمہیں کیا ہوا ہے اور یہ حلیہ؟؟؟” رافعہ نے اسے غصے میں دیکھا تو پوچھا
” جان سے مار دیتا آج میں اسے اگر اس کی جگہ کوئی اور ہوتا” وہ کمرے میں جانے لگا
” کیا ہوا ہے کس کی بات کررہے ہو” وہ بھی اس کے پیچھے آئیں
” احتشام کی”
” تم ہوش میں تو ہو کیا کہہ رہے ہو۔۔ وہ اس گھر کا ہونے والا داماد ہے” وہ برہم ہوئیں
” داماد۔۔۔۔۔ اس گھر کے ہونے والے داماد نے جو اس گھر کی بیٹی کے بارے میں بات کی ہے نا وہ سنیں گی نا تو برداشت نہیں کرپائیں گی”
” کیا مطلب؟؟؟”
جبران نے انہیں جب بات بتائی تو کچھ دیر تک تو وہ بول ہی نا سکیں
” ایسا نہیں ہو سکتا جبران۔۔ احتشام ایسا نہیں ہے وہ بہت اچھا ہے ضرور یہ تمہاری ہی کوئی پلاننگ ہو گی مرال کے لیے آئے ہو نا تم یہاں” جبران نے ان کا ہاتھ تھاما اور بیڈ پہ بٹھایا اور خود گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھا
” ماما اپنی اولاد پہ کیا اتنا بھی بھروسہ نہیں آپ کو۔۔ ہاں میں آیا تھا مرال کے لیے پر جب میں نے یہ دیکھا کہ احتشام مرال میں انٹرسٹڈ ہے تو میں پیچھے ہٹ گیا آپ۔۔ آپ چاہیں تو مرال سے پوچھ سکتی ہیں ماما” اس نے ان کے ہاتھوں پہ پنا سر ٹکایا
” اپنے کیے کی سزا مجھے مل رہی ہے ماما اور پتا نہیں کتنی سزا باقی رہ گئی ہے میری۔۔۔ یہ سچ ہے ماما مرال کی جدائی میرے لیے بہت تکلیف کا باعث ہو گی پر میں اسے اپنی سزا کے طور پہ تسلیم کرلوں گا ماما پر۔۔۔۔۔ احتشام کی باتوں نے مجھے ڈرا سا دیا ہے خدا کرے اب مرال کی زندگی میں کوئی دوسرا جبران نہ آئے جو اسے دکھ اور اذیت کے علاوہ اور کچھ نہ دے سکے” اس کی آنکھیں نم ہوئی رافعہ نے وہ نمی اپنے ہاتھوں پہ محسوس کی ماں تھی کب تک سخت رہتیں
” ماما احتشام نے ڈائیریکٹ اس کے کردار پہحملہ کیا تو مجھ سے رہا نہ گیا پلیز آپ ہی کچھ کریں کسی طرح اس کی غلط فہمی دور کردیں۔۔۔۔۔ میں چاہتا ہوں مرال اب بہت خوش رہے” رافعہ نے اپنا ہاتھ اس کے سر پہ رکھا جبران نے سر اٹھایا رافعہ نے جھک کے اس کا ماتھا چوما جبران نے دل میں ٹھنڈک سی اتری جیسے دھوپ سے وہ ایک دم سایے میں آگیا ہو
” کہاں چلا گیا تھا میرا بیٹا۔۔ اپنے بیٹے کا یہ روپ تو آج دیکھا ہے میں نے کہاں تھا میرا بیٹا” انہوں نے بھیگی آنکھوں سے پوچھا
” بھٹک گیا تھا ماما۔۔۔۔۔ بھول گیا تھا کہ میری جنت تو یہی ہے جہاں میں تھا جہاں میں ہوں۔۔۔۔۔ اور جب سمجھ آیا تب تک سب ہاتھ سے نکل چکا تھا سب کھو چکا تھا میں۔۔۔۔۔ ماما کیا مجھے ایک۔۔ ایک موقع نہیں مل سکتا میں۔۔ ماما مجھے معافی نہیں مل سکتی۔۔۔؟” اس نے ان کی آنکھوں میں دیکھا
“پتا ہے ماما میں اللٰہ سے مرال کو نہیں مانگتا میں اب اس کی خوشی مانگتا ہوں۔۔۔۔۔ میں چاہتا ہوں کہ اب اس کی زندگی میں خوشیاں آئیں وہ اپنے ماضی کو بھول جائے “
” آپ احتشام کو سمجھائیں نا ماما۔۔۔۔۔ کہ مرال پاک ہے وہ ایک نیک عورت ہے کہ جسے دیکھ کے اس کی پاکیزگی کا پتا چلتا ہے” جبران سے زیادہ اور کون جان سکتا تھا کہ مرال کتنی پاکیزہ ہے وہ تب بھی اس کی پاکیزگی کا دعوے دار تھا جب وہ اس کی بیوی نہیں تھی وہ تب بھی دعوے دار تھا جب وہ اس کی بیوی تھی اور تب بھی جب وہ اس کی بیوی نہیں رہی تھی
” آپ بات کریں گی نا” رافعہ نم آنکھوں سے مسکرائیں اور اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لیا اور پھر سے اس کا ماتھا چوما کتنے سال بیت گئے تھے ان کے بیٹے کو ان سے بچھڑے ہوئے
وہ جب آفس جایا کرتا تھا تو وہ روز اس کا ماتھا چومتی تھیں اور آج چار سال بعد وہ اس کا ماتھا چوم رہی تھیں جبران نے پرسکون ہو کر ان کی گود میں سر رکھ لیا۔
—–
جبران نے اسمہ کو یہ بات بتانے سے منع کیا تھا وہ ان کو اور دکھ نہیں دینا چاہتا تھا اس نے رافعہ کو کہا تھا کہ وہ احتشام سے بات کر کے معاملہ ہینڈل کر لیں
رافعہ نے احتشام کو کال کی سلام دعا کے بعد وہ بولیں
” بیٹا تم جو جبران اور مرال کے لیے سوچ رہے ہو ویسا کچھ بھی نہیں ہے تم مرال کو تو جانتے ہو نا وہ۔۔۔۔۔” وہ بات کررہی تھیں کہ وہ ان کی بات کاٹ کے بولا
” جی جی میں جانتا ہوں مرال کتنی اچھی ہے جس نے مجھے یہ بتانا ضروری نہیں سمجھا کہ اس کا شوہر آچکا ہے”
” بیٹا وہ بتانا بھول گئی ہو گی ورنہ وہ ایسی نہیں ہے اور جیسا تم سوچ رہے ہو ایسا بالکل نہیں ہے”
” آپ بہت بھولی ہیں آنٹی آپ کو مرال کی آنکھوں میں جبران کے لیے محبت نہیں دکھی حیرت ہے”
” میں ابھی آپ لوگوں کے گھر ہی آرہا تھا یہ بتانے کہ میں اس سے شادی نہیں کرسکتا وہ چاہے تو دوبارہ سے آپ کی بہو بن سکتی ہے جبران بھی تو یہ ہی چاہتا ہے نا”
” نہیں نہیں بیٹا ایسا مت کرنا وہ بس تم دونوں کو خوش دیکھنا چاہتا ہے اسے جب پتا چلا کہ تم مرال کے ہونے والے شوہر ہو تو وہ خود ہی پیچھے ہٹ گیا”
” تو یہ بتائیں جب وہ میرے بارے میں اور اس شادی کے بارے میں لاعلم تھا تب بھی کیا وہ مرال کو نہیں چاہتا تھا۔۔۔؟” وہ کچھ دیر کو خاموش ہوئیں پھر بولیں
” بیٹا تم جو سوچ رہے غلط سوچ رہے ہو تم۔۔۔۔۔”
” بس آنٹی میں کچھ نہیں سننا چاہتا اب جو بھی بات ہو گی گھر پہ آکے ہی ہو گی”
” خدارا احتشام کل شادی ہے یہ غضب مت کرنا مرال کے ساتھ پہلے ہی اس کے ساتھ بہت کچھ غلط ہو چکا ہے جس کا ذمہ دار میرا بیٹا ہے۔۔۔۔۔”
” تو اب تو وہ اپنی غلطی سدھارنا چاہتا ہے نا تس اس میں غلط کیا ہے”
” ہاں سدھارنا چاہتا ہے پر ایسے نہیں جیسے تم سوچ رہے ہو پلیز احتشام۔۔ یہ ایک ماں کی التجا سمجھ لو یا کچھ بھی اس شادی سے انکار مت کرنا ورنہ سب برباد ہو جائے گا بیٹا۔۔ ایک ماں کا مان رکھ لو احتشام” وہ رو رہی تھیں پھر اسپیکر سے انہیں احتشام کی آواز سنائی دی “ٹھیک ہے میں شادی سے انکار نہیں کروں گا رکھ لیا آپ کی بات کا مان” اور فون بند کردیا وہ بہت دیر تک بے آواز روتی رہیں مرال کے لیے دعائیں کرتی رہیں۔
—–
آج مرال کی شادی تھی اس نے سوچ لیا تھا وہ سب بھلادے گی اور احتشام کو دل سے قبول کرنے کی بھرپور کوشش کرے گی وہ اپنا ماضی بھول جائے گی
وہ اتنے اچھےانسان کے ساتھ برا کیسے کرسکتی تھی
نکاح سادگی سے ہونا تھا نکاح سے ایک دن پہلے سب کزنز نے اس کا سادہ سا مایوں کیا تھا
وہ تیار ہو چکی تھی کچھ ہی دیر میں احتشام والوں نے آنا تھا وہ تیار ہو چکی تھی پانی پینے کے لیے وہ اپنے روم سے باہر نکلی ریڈ کلر کی فراک میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی
وہ کچن کی طرف جا رہی تھی کہ جبران سامنے سے آتا دکھائی دیا وہ کسی سے فون پہ بات کرتا مسکرا رہا تھا مرال کے دل کو کچھ ہوا پھر خود کو کمپوز کرلیا جبران کی نظر اس پہ پڑی تو پھر پلٹنا ہی بھول گئی پھر خود کو سنبھالا اور اسے دیکھ کر مسکرایا اور چلا گیا مرال وہیں کھڑی رہ گئی کیا وہ خوش تھا اس کی شادی سے۔۔؟؟
اگر وہ خوش تھا تو وہ کیوں نا ہوتی اسے بھی حق تھا خوش ہونے کا
—–
جبران اپنے کمرے میں آیا اور بیڈ پہ بیٹھ گیا دل میں ایک غبار سا بھر رہا تھا اس نے اپنا سر ہاتھوں میں تھام لیا اسے یاد آیا جب اس کی شادی مرال سے ہوئی تھی تب بھی تو وہ ایسے ہی اتنی حسین لگ رہی تھی تب اس نے اس کا کتنا دل دکھایا تھا اور آج بھی وہ دلہن بنی ویسے حسین لگ رہی تھی
دل بہت بھاری بھاری ہو رہا تھا وہ اٹھ کے بالکنی میں چلا آیا تب بھی سکون نہ ملا وہ واپس کمرے میں آیا دل کا بوجھ کہیں سے تو نکلنا ہی تھا وہ وہیں بیڈ سے نیچے بیٹھ گیا اور پھوٹ پھوٹ کے تو دیا یہ کیا ہو گیا تھا اس سے۔۔۔۔۔
یہ کیا کردیا تھا اس نے۔۔۔۔۔
اپنی زندگی کو اپنے سکون کو تباہ کردیا تھا اس نے۔۔۔۔۔
—–
احتشام والے آچکے تھے اور نکاح ہو رہا تھا سب کچھ بھلا کے مرال نے پیپرز پہ سائن کیے تھے وہ نہیں جانتی تھی کہ اب اس کی زندگی میں کیا ہونے والا ہے کوئی کچھ نہیں جانتا تھا۔
جبران نے اس کے سائن کرتے ہاتھ کو دیکھا تو آج وہ اس سے سہی معنوں میں دور ہو ہی گئی پہلے تو اسے یہ امید تھی اسے کہ چلو ان کے درمیان کوئی رشتہ نہ سہی مگر دل کا رشتہ تو ہے نا آج وہ رشتہ بھی ختم ہو گیا تھا جبران نے دل سے اس کی آنے والی زندگی کے لیے دعا کی اور کمرے سے باہر چلا گیا جہاں احتشام اور باقی مرد حضرات بیٹھے تھے وہ احتشام کے پاس گیا
” بہت بہت مبارک ہو احتشام تمہیں ” وہ اس کے پاس بیٹھا اور اسے مبارک باد دی احتشام نے صرف سرہلانے پہ اکتفا کیا
” احتشام پلیز میں اپنےاس دن کے رویے کی تم سے معافی چاہتا ہوں پلیز مجھے معاف کردو۔۔۔۔۔”
” کردیا معاف اور کچھ”
جبران خاموش ہوا پھر بولا
” احتشام مرال اب صرف تمہاری ہے میں قسم کھاتا ہوں کہ آج تک میں نے اسے چھوا تک نہیں ہے وہ پاک ہے احتشام میں سب بھولچکا ہوں کہ میرے اور اس کے درمیان کبھی کوئی رشتہ بھی تھا۔۔۔۔۔ پلیز احتشام اسے ہمیشہ خوش رکھنا۔۔۔۔۔ تم دونوں خوش رہو مجھے اور کچھ نہیں چاہیے”
” تو تم کا چاہتے ہو؟؟؟”
” میں چاہتا ہوں کہ بس تم اپنے دل کو میری اور مرال کی طرف سے صاف کرلو”
“اوکے” اس نے بس اتنا کہا اور خاموش ہو گیا
کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس کے دماغ میں کیا چل رہا ہے
خیر سے رخصتی کا وقت بھی آپہنچا رافعہ احتشام کے پاس آئیں اور اس سے کہا
” بیٹا مرال اور جبران کے حوالے سے تمہارے دل میں جو بھی سوچ ہے اسے جھٹک دو وہ سب سچ نہیں ہے تمہارا وہم ہے۔۔ اسے خوش رکھنا احتشام عورت کو مرد سے عزت پیار اور بھروسے کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہیے ہوتا تم اسے یہ سب دو گے نا تو دیکھنا وہ صرف تمہاری ہو جائے وہ اپنے ماضی کو بھول جائے گی احتشام” وہ خاموش رہا رافعہ کچھ دیر اس کے بولنے کا ویٹ کرتی رہیں پھر چلی گئیں
احتشام کو اب کسی کا یاین نہیں تھا اسے یقین تھا تو صرف اپنی ماں کا جو اسے بہت کچھ سمجھا کے لائیں تھیں پر آج تو وہ بھی نہیں جانتی تھیں کہ ان کا بیٹا کیا کرے گا
—–
باہر مرال کی رخصتی ہو رہی تھی اور جبران اپنے کمرہ تاریک کیے چئیر پہ بیٹھا تھا آنسو اس کی آنکھوں سے گر رہے تھے وہ مر چکا تھا شاید پر نہیں اس کی سانسیں تو چل رہی تھیں۔۔۔۔۔
اس نے چئیر کی پشت سے اپنا سر اٹھایا اور سر ہاتھوں میں گرا لیا
وہ مر کیوں نہیں گیا وہ کیوں زندہ تھا اب تک۔۔۔۔۔ دل نے سوچا کاش۔۔۔۔۔ کاش ایک قتل کا حکم ہوتا تو وہ اپنے آپ کو ختم کردیتا
—–
اسمہ اور وہاج آج بے حد خوش تھے
” اسمہ آج میرے دل کو سکون ملا ہے میری بچی کی زندگی میں خوشیاں تو آئیں۔۔ اللٰہ میری بیٹی کو بہت ساری خوشیاں نصیب کرے” انہوں نے دل سے دعا کی اسمہ بھی مسکرائیں
” آمین”
” وہاج مجھے احتشام کی ماں اس شادی سے خوش نہیں لگتیں۔۔ کہیں وہ میری بچی کے ساتھ برا سلوک نہ کریں “
” اللٰہ نہ کرے اسمہ آج اتنا اچھا دن ہے اور تم کیسی باتیں کررہی ہو تمہارا وہم ہو گا اور اگر یہ سچ بھی ہے تو دیکھنا مرال اپنی محبت اور خدمت سے سب کو اپنا بنالے گی”
” جی کہہ تو آپ ٹھیک رہے ہیں پر پتا نہیں کیوں دل گھبرا سا رہا ہے مرال کی شادی جب جبران سے ہوئی تھی تب دل ایسے نہیں گھبرایا تھا جیسے اب گھبرا رہا ہے”
” پہلے بات گھر کی تھی اس لیے دل میں کوئی بھی شبہ نہیں تھا اب اس کی شادی خاندان سے باہر ہوئی ہے اور بالکل انجان لوگوں میں تو اس لیے گھبراہٹ ہو رہی ہو گی”
” جی شاید آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں”اتنے میں باہر سے شور کی آواز آئی تو وہ دونوں چونکے
—–