(Last Updated On: )
احتشام آجکل میٹنگ کے سلسلے میں آؤٹ آف کنٹری تھا ادھر ا کی ملاقات جبران سے ہوگئی اسے جبران بہت پسند آیا اور جبران کو بھی وہ اچھا لگا کچھ دنوں میں ہی ان کی اچھی دوستی ہوگئی تھی نہ وہ جبران کے بارے میں کچھ جانتا تھا نہ جبران اس کے بارے میں۔۔۔۔۔ پتا نہیں قسمت اب کیا موڑ لینے والی تھی یہ کوئی بجی نہیں جانتا تھا۔
وہ دونوں ایک ہی ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے رات کو احتشام نے اس کے روم کا دروازہ بجایا جبران نے دروازہ کھولا
” ارے۔۔۔۔۔ خیریت؟؟؟”
” ہاں یار خیریت ہے بور ہو رہا تھا سوچا تھوڑی گپ شپ ہی لگا لی جائے” احتشام بولا
” ہاں کیوں نہیں آؤ” وہ اندر آیا
” کافی پیو گے؟؟؟” جبران نے پوچھا
” شیور” جبران نے انٹرکام اٹھایا اور دو کافی منگوائیں
” تم کھڑے کیوں ہو بیٹھو۔۔۔۔۔ آجاؤ بالکنی میں چلتے ہیں” وہ دونوں بالکنی کے پاس رکھی چئیر پہ جا کے بیٹھ گئے باتوں باتوں میں احتشام بولا
” کتنا عجیب لگتا ہے نا جب ہم کسی سے محبت کریں اور وہ ایک نظرِ کرم بھی ہم پہ عنایت نہ کرے” جبران چونکا
” کیا ہوا خیریت تو ہے؟؟؟”
” ہاں خیریت ہی ہے” وہ بولا
” ہمممم۔۔۔۔۔ اور یہ بھی تو کتنا عجیب ہے نا کہ کوئی ہم سے بے پنہاں پیار کرے اور ہم اس سے بے رخی برتیں اور اپنی غلطی کا ہمیں تب میں اندازہ ہو جب اس کی طرف جانے والی ہر راہ بند ہو گئی ہو۔۔۔۔۔ اور ہمارے پاس خسارے کے علاوہ کچھ نہ بچے” وہ کھوئے کھوئے انداز میں بولا
” تم بھی کسی سے؟؟؟” احتشام نے پوچھا جبران اپنی جگہ سے اٹھ گیا اور بالکنی میں کھڑا ہو گیا
” تو جاؤ جبران ہو سکتا ہے وہ تمہیں معاف کردے۔۔۔۔۔ ” وہ اس کے پاس آیا اور اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا ” محبت کا دل بہت وسیع ہوتا ہے جبران۔۔۔۔۔ وہ صرف ایک بار ہوتی ہے اور جو بعد میں ہوتا ہے وہ کمپرومائیز ہوتا ہے محبت نہیں اور اس کی مثال پہ اپنی زندگی میں دیکھ چکا ہوں اپنی منگیتر کی شکل میں” جبران نے اس کی طرف دیکھا
” سچ کہہ رہا ہوں میں۔۔۔۔۔”
” تو تم اس سے شادی کیوں کررہے ہو”
” محبت جبران محبت۔۔۔۔۔ پر تمہیں پتا ہے جبران میری محبت اس کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔ تمہیں پتا ہے اس کا شوہر اس کو چھوڑ کے جا چکا ہے وہ اس سے ڈائیورس لے چکی ہےپر۔۔۔۔۔پر پھر بھی وہ اس کی جگہ کسی اور کو دینا نہیں چاہتی اپنے ہونے والے شوہر کو بھی نہیں۔۔۔۔۔ اس نے اپنے دل کا ایک حصہ اپنے ایکس شوہر کے لیے مختص کیا ہوا ہے جب اس نے مجھے یہ بتایا نا تو مجھے اس کے شوہر سے بے حد جیلس فیل ہوئی اور ایک بار تو میری اس محبت میں ہلکی سی گرہ پڑی دل چاہا چھوڑ دوں اسے پر میں نے وہ گرہ کھول دی اور اس کو اجازت دے دی کہ وہ بھلے کبھی مجھ سے محبت نہ کرے پر کہیں دل ہی دل میں میں یہ چاہتا تھا کہ وہ بھی مجھ سے محبت کرے پر۔۔۔۔۔” اس نے سر جھٹکا جبران اسی کو دیکھ رہا تھا ” میری ماں کہتی ہے کہ چھوڑ دوں اسے کیونکہ وہ میرڈ ہے کیونکہ اس کے شوہر نے اسے چھوڑ دیا تھا پر۔۔۔۔۔ میں پھر بھی کروں گا اس سے شادی کیونکہ وہ مجھے پسند ہے میں زبان دے چکا ہوں اور اپنی زبان کا پکا ہوں میں”
” تما پنی زبان کے چکر میں پھنس رہے ہو احتشام۔۔۔۔۔ میری والی غلطی مت کرو کل کو اگر کسی کو فرق پڑے گا تو وہ تم ہو گے اور اس سے کہیں زیادہ فرق اس لڑکی کو پڑے گا کیونکہ اسے ایک بار پھر کوئی چھوڑ دے گا”
” تم کہتے ہو تمہاری ماں اسے پدند نہیں کرتی تو بتاؤ کیسے رہے گی وہ”
” میں ہوں نا مینج کرلوں گا اینی ویز بہت جلد شادی ہے میری تم چلنا میرے ساتھ پاکستان” آخر میں وہ مسکرایا جبران اسے دکھ سے دیکھ رہا تھا اسے احتشام سے زیادہ فکر اس لڑکی کی تھی س نے بھی تو کسی لڑکی کو ایسے ہی چھوڑا تھا حالانکہ جانتا تھا کہ وہ اس سے شدید محبت کرتی ہے اور اس کا اظہار کر چکی ہے
” احتشام کوئی بھی قدم سوچ سمجھ کے اٹھانا” احتشام نے سر ہلایا
“جبران تم بھی اس کے پاس لوٹ جاؤ نا۔۔۔۔۔ کیا پتا معاف کردے وہ تمہیں” جبران نے نفی میں سر ہلایا
” بہت دیر ہو چکی ہے احتشام میں نے اس کی طرف لوٹنے میں بہت دیر کردی اپنی ساری کشتیاں جلا کے آیا تھا میں یہاں اب لوٹنا بھی چاہوں تو کوئی رستہ نہیں”
” میں بہت بد نصیب ثابت ہوا ہوں۔۔۔۔۔ ایک جبران تھا جس کی جھولی میں خدا نے ساری خوشیاں ڈال دیں تھیں اور اس نے کیا کیا جھولی ہی جھٹک دی اپنی سکون اپنی خوشیاں دب پھینک آیا” وہ دکھ سے بولا
” مطلب؟؟؟”
” میری ڈائیورس ہو چکی ہے احتشام”
” اوہ۔۔۔۔۔ ایم سوری” احتشام کو حقیقتاً دکھ پہنچا تھا
” اوں ہوں کوئی بات نہیں۔۔۔۔۔ میں پتا کرتا ہوں کافی کیوں نہیں آئی ابھی تک” وہ انٹرکام کی طرف بڑھا۔
——
” کہاں ہو ربیکا کچھ دن سے نظر ہی نہیں آرہی تم” جمی کی کال تھی
” یار یہ جبران نے بڑا تنگ کیا ہوا تھا بیمار خود تھا اور پریشان میں۔۔۔۔۔ اب کچھ دن پہلے وہ گیا ہے تو سکون ہو رہا ہے آرام کررہی تھی تم سناؤ”
” یار تم جبران کو چھوڑ دو نا “
” چھوڑ دوں گی۔۔۔۔۔ میں بھی بہت تنگ آچکی ہوں اور سہی بتاؤں تو دل بھر گیا ہے میرا اس سے”وہ بولی تو جمی ہنسا
” آئی نو سویٹی۔۔۔۔۔ تم وہ بھنورا ہو جو کسی ایک پھول پہ بیٹھ ہی نہیں سکتا”
” اور کیا۔۔۔۔۔ “
” پھر کب مل رہی ہو”
” جب تم کہو”
” رات کو تمہارے گھر پہ”
” میرے گھر۔۔۔۔۔”
” ہاں نا اب تو وہ تمہارا سو کولڈ شوہر بھی نہیں ہے گھر پہ سو میں ہی آجاتا ہوں” وہ ہنسا
” اوکے آ جانا میں ویٹ کروں گی” اس نے فون رکھ دیا۔
—–
آج مرال اور نشاء بڑی ماما کے ساتھ شاپنگ پہ گئی تھیں گھر آکے نشاء تو چائے بنانے چل دی تھی جبکہ بڑی ماما ارسہ اور مرال شاپنگ دیکھ رہی تھیں
” میرو دیکھو یہ کلر تم پہ کتنا سوٹ کرے گا۔۔۔۔۔ چیک کرو” بڑی ماما نے ایک گرین کلر کا سوٹ اس کی بڑھایا وہ کہیں اور ہی گم تھی اس شادی میں اس کا کوئی انٹریسٹ نہیں تھا
” میرو” انہوں نے پھر کہا وہ چونکی
” جی۔۔۔۔۔”
” بیٹا یہ چیک کرو” انہوں نے سوٹ کی طرف اشارہ کیا
” نہیں بڑی ماما ابھی موڈ نہیں ہورہا پھر چیک کرلوں گی”
” اوکے بیٹا” وہ اس کی کیفیت سمجھ رہی تھیں تبھی زیادہ زور نہ دیا
” آپی اچھا یہ بتاؤ یہ مجھ پہ کیسا لگے گا بڑی ماما لائی ہیں میرے لیے” ارسہ پنک کلر کا سوٹ اپنے ساتھ لگاتے ہوئے بولی وہ مسکرائی
” تم پہ تو ہر چیز اچھی لگتی ہے” ارسہ خوش ہوئی
” سچی” ارسہ بولی
” مچی” مرال مسکرا کے بولی تو ارسہ نے اس کو زور سے ہگ کیا” میری بیسٹ آپی” مرال ہنس دی۔
—–
جبران اس سے سب شئیر کرکے اب ریلکس فیل کر رہا تھا گھر جانے کا تو اب اس کا دل ہی نہیں چاہ رہا تھا کیونکہ گھر سے زیادہ اب اسے یہاں سکون مل رہا تھا پر جانا تو تھا نا ربیکا جیسے بھی سہی اس کی بیوی تھی دو دن بعد ان لوگوں کی واپسی تھی
میٹنگ کے بعد وہ دونوں ساتھ ہی ہوٹل آئے کچھ دیر آرام کیا پھر احتشام کے کہنے پہ وہ دونوں آؤٹنگ کے لیے نکل گئے ڈنر کرتے ہوئے احتشام نے اسے کہا
” سنو میں ایک بار پھر بتادوں تم میری شادی میں آرہے ہو سمجھے” جبران ہنسا
” افکورس یار کیوں نہیں”
” انوائیٹ کرنے میں خود آؤں گا تمہارے گھر اپنا ایڈریس بتادو مجھے” اس نے جیب سے پین نکالا اور ایک پیج لیا
” ہوٹل جا کے دے دوں گا کیا یہاں لے کر بیٹھ گئے” جبران بولا
” نہیں کل بھی ہماری میٹنگ ہے اور کل کا سارا دن ہم نے بزی رہنا ہے اور پرسوں بھی میٹنگ اور پھر آکے جانے کے لیے پیکنگ کریں گے بالکل ٹائم نہیں ملے گا ابھی دو”
” اففففف احتشام۔۔۔۔۔ لڑکیوں کی طرح ضد کرتے ہوئے ذرا اچھے نہیں لگ رہے” جبران ہنسا تو احتشام نے گھورا
” بڑا جانتے ہو لڑکیوں کے بارے میں تم ہاں۔۔۔۔۔۔”
” پالا ہی اتنا پڑتا ہے لڑکیوں سے” وہ تفاخر سے بولا تو احتشام ہنس دیا
” اب ٹالو مت ایڈریس لکھو” احتشام نے اس کی طرف پیپر بڑھایا تو جبران ایڈریس لکھنے لگا۔
مرال کے کہنے پر شادی بہت سادہ طریقے سے ہو رہی تھی احتشام کی ماں خفا تھیں پہلے ہی ان کا بیٹا اک شادی شدہ لڑکی سے شادی کررہا تھا اور اب وہ لڑکی سادہ طریقے سے شادی کا کہہ رہی تھی جس کو احتشام نے مان لیا تھا ایک ہی تو بیٹا تھا ان کا وہ سخت خفا تھیں مرال ایک اچھی لڑکی تھی پر بہو کے طور پہ کبھی اسے سوچا نہ تھا۔۔۔۔۔ ان کے سرکل کے لوگ کیا کہیں گے کہ ان کا اکلوتا نیٹا ایک شادی شدہ لڑکی سے شادہ کررہا ہے وہ بھی سادہ طریقے سے لوگوں کی باتیں سننا ان کو گوارا نہ تھا مسٹر حیدر تو راضی تھے پر وہ نہیں کچھ تو وہ کریں گی پر کیا۔۔۔۔۔۔۔
—–
مرال کی شادی میں پندرہ دن رہ گئے تھے سب خوش تھے سوائے اس کے
” آپی دیکھیں آپ کی شادی کا جوڑا کتنا خوبصورت لگ رہا ہے” آج اس کی شادی کا جوڑا آیا تھا سارہ بھاگی بھاگی اسے دکھانے آئی مرال نے ایک نظر دیکھا۔۔۔۔۔ اسے اپنی شادی کا جوڑا یاد آیا کتنی خوبصورت لگ رہی تھی وہ سب سس کو سراہ رہے تھے اور جس کے سراہنے کا انتظار تھا اس نے تو ایک نظر غلط بھی نہ ڈالی تھی۔۔۔۔۔
اسمہ کسی کام سے اس کے کمرے میں آئیں تو وہ بولی
” ماما میں نے آپ کو کہا تھا نا کوئی شور ہنگاما کرنے کی ضرورت نہیں ہے سب سادگی سے ہو تو پھر یہ کیا ہے” وہ برہم ہوئی
“بیٹا میں جانتی ہوں پر احتشام کی ماما کے بھی کچھ ارمان ہیں ان کا اکلوتا بیٹا ہے بیٹا ہم ان کو کیسے منع کرتے۔۔۔۔۔ ہاں شادی سادگی سے ہو گی پر یہ اس کی ماما نے بھجوایا ہے ان کی خوشی کے لیے بیٹا تمہیں اتنا تو کرنا ہی چاہیے” وہ خاموش ہو گئی ماما نے پاس آکے اس ک ماتھا چوما
” خدا اب میری بچی کی زندگی میں خوشیاں ضرور بھر دے گا مجھے یقین ہے”
—–
احتشام پاکستان آچکا تھا اس نے سوچا تھا کہ جبران کو انوائیٹ کرنے وہ خود جائے گا ایک دو دن تک اس کا ارادہ تھا کہ جا کے جبران کو سرپرائیز دے
وہ شام میں کہیں گیا ہوا تھا جب گھر آیا تو دیکھا ماما سر پکڑے بیٹھی تھیں
” کیا ہوا ماما طبیعت ٹھیک ہے آپ کی” وہ ان کے پاس چلا آیا
” کیا ہونا ہے مجھے ٹھیک ہوں میں مسز باجوہ کا فون تھا انہیں بھی پتا چل گیا ہے تمہاری شادی کا”
” تو کیا ہوا ماما اس میں پریشانی والی کیا بات ہے”
” پریشانی والی بات یہ ہے کہ انہیں پتا ہے کہ جس لڑکی سے تم شادی کررہے ہو وہ طلاق یافتہ ہے” وہ خاموش ہو گیا
” اچھا خاصہ اپنی بیٹی مائرہ کا رشتہ دیا تھا انہوں نے مجھے تمہارے لیے پر تم پہ تو وہ مرال ہی سوار ہے۔۔۔۔۔ اب دیکھنا سوسائٹی کی ایک ایک عورت کو پکڑ کے بتائیں گی وہ”
” تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے ماما”
” فرق۔۔۔۔۔ فرق کی بات کرتے ہو تم میرے اکلوتی اولاد ہو تم احتشام کبھی تم نے سیکنڈ ہینڈ چیز یوز نہیں کی اور شادی تم سیکنڈ ہینڈ سے کررہے ہو”
” ماما پلیز اس کے بارے میں ایسے مت کہیں۔۔۔۔۔ مجھے فرق نہیں پڑتا کہ وہ پہلے میرڈ تھی یا نہیں”
” ابھی فرق نہیں پڑتا نا تمہیں بعد میں پتا چلے گا کہ میں جو کہتی تھی سہی کہتی تھی” کہہ کر وہ روم میں چلی گئیں۔
——
وہ گھر آیا ربیکا گھر پہ نہیں تھی اسے معلوم تھا اس نے اپنا بیگ رکھا اور لیٹ گیا یہ دن جو اس نے بوسٹن میں گزارے تھے اس سے اس کا مائینڈ کافی حد تک فریش ہو گیا تھا اس نے تکیہ اٹھایا سر کے نیچے رکھنے لگا تھا کہ اسے ویسٹ نظر آئی اس نے اٹھا کے دیکھا یہ اس کی ویسٹ نہیں تھی پھر کس کی تھی۔۔۔۔۔؟؟؟؟
شام میں ربیکا گھر آئی
” اوہ آگئے تم” وہ جی بھر کے بد مزا ہوئی
” ہاں دوپہر میں آیا تھا” وہ ٹی وی دیکھتے ہوئے بولا
” گڈ ” وہ جانے لگی
” ربیکا۔۔۔۔۔” اس نے آواز دی
” بولو”
” روم میں ویسٹ کس کی پڑی تھی؟؟؟”
“میرے دوست آئے تھے ان میں سے کسی کی ہو گی” اس نے کندھے اچکائے اور جانے لگی جبران اپنی جگہ سے اٹھا
” واٹ یور مین۔۔۔۔۔ تمہارا کوئی بھی دوست آئے گا اور ہمارا روم یوز کرے گا۔۔۔۔۔ تم نے بتایا نہیں کہ یہ مینرز کے خلاف ہے اپنے دوستوں کو اپنے تک رکھو اور ہاں روم سے اور ہماری پرسنلز سے دور رکھو اوکے”
“ڈیٹس نن آف یور بزنس اوکے تم ہوتے کون ہو مجھے لیکچر دینے والے۔۔۔۔۔ میرا کوئی بھی دوست آئے جائے میری مرضی تم کون ہوتے ہو انہیں ان کے مینرز بتانے والے” وہ غصہ ہوئی
” میرے دوست جو بھی کریں وہ میرا درد سر ہے تمہارا نہیں” کہہ کر وہ چلی گئی جبران آج بھی کچھ نہ کرسکا تھا سوائے دل ہی دل میں غصہ ہونے کے۔
—–
ربیکا گھر سے باہر تھی دروازہ نوک ہو رہا تھا جبران نے دروازہ کھولا اور احتشام کو دیکھ کر خوشی اور شاکڈ کے عالم میں گھر گیا
” ارے یار میں ہی ہوں گلے تو ملو” احتشام نے آگے بڑھ کے اسے گلے لگایا ابھی دو دن پہلے تو ان دونوں کی بوسٹن سے واپسی ہوئی تھی جبران بھی اس سے ملا
” تم کیسے؟؟؟” وہ اسے گھر میں لے کر آیا
” بتایا تو تھا شادی کی دعوت دینی ہے تمہیں” وہ بیٹھتے ہوئے بولا
” میں تو سمجھا تھا کہ کارڈ آئے گا” جبران بولا
” اتنا بڑا کارڈ آیا تو ہے خود چل کے اب کس کارڈ کی ضرورت تمہیں” وہ ہنسا تو جبران بھی ہنسا
” ہاں واقعی۔۔۔۔۔ سو کب ہے شادی”
” پندرہ دن بعد”
” آہاں ویری گڈ مبارک ہو”
” خیر مبارک” وہ خوشی سے بولا
” اور ہاں پرسوں کی تمہاری فلائٹ ہے تم پاکستان آرہے ہو” احتشام بولا
” پرسوں۔۔۔۔۔؟؟؟؟ شادی تو تمہاری پندرہ دن بعد ہے”
” تو کیا عین ٹائم پہ پہنچو گے تم”
” پر۔۔۔۔۔”
” کوئی پر ور نہیں۔۔۔۔۔ تم سیٹ بک کراؤ پرسوں کی فلائیٹ ہے سمجھے تمہاری میں تمہارا ویٹ کروں گا”
” یار اتنی جلدی آکے میں کیا کروں گا”
” کیا مطلب اتنے دنوں بعد تم پاکستان آؤ گے گھومنا اپنی فیملی دوست سب سے ملنا”
” یار میں۔۔۔۔۔”
” میں کچھ نہیں سن رہا بس جو میں نے بول دیا وہ بول دیا بس” وہ ہاتھ اٹھا کے بولا تو وہ خاموش ہو گیا۔
—–
وہ شام میں باہر نکلا سڑکوں پہ گاڑی دوڑاتے ہوئے اس نے ربیکا کو کچھ آدمیوں کے ساتھ ہوٹل میں داخل ہوتے دیکھا اس کے دماغ میں کلک ہوا وہ گاڑی سے اترا اور اس ہوٹل کی طرف بڑھا تب تک وہ جا چکی تھی وہ اندر آیا سیڑیوں سے اوپر گیا وہ ہوٹل ٹو فلورز پہ مشتمل تھا ایک طرف چلتے ہوئے اسے ایک۔ادھ کھلے روم میں سے کچھ آوازیں آرہی تھیں اس نے جانی پہچانی آواز کو سنا اور دھاڑ سے دروازہ کھولا سامنے کا منظر دل دہلا دینے والا تھا ربیکا کسی اور آدمی کے ساتھ۔۔۔۔۔۔
وہ بے یقینی سے اسے دیکھنے لگا س کو وہ ویسٹ یاد آئی ربیکا نے اسے دیکھا اور پھر غصے سے بولی
” تم۔۔۔۔۔ یہاں کیا کررہے ہو دفع ہو جاؤ” وہ چیخی جبران اس کی طرف بڑھا اور تھپڑ لگاتے لگاتے رک گیا
” تمہیں تو ہاتھ لگاتے ہوئے بھی گھن آرہی ہے۔۔۔۔۔ میرا دل چاہ رہا ہے تم جیسی عورت کو جان سے مار دوں۔۔۔۔۔ میری پیٹھ پیچھے میری کمر میں چھرا گھونپا تم نے”
” میں نے تم سے شادی سے پہلے بات کی تھی اور تم نے خود ہی اجازت دی تھی نا کہ میں اپنے ہر فعل میں آزاد ہوں”
” یہ۔۔۔۔۔ یہ کام بولے تھے میں نے تم سے کہ یہ کام کرو کسی اور آدمی کے ساتھ۔۔۔۔۔”
” میں شروع سے ایسی ہی ہوں اینی پروبلم” وہ ڈھٹائی سے بولی
” تمہیں بھی تو مجھ میں اسی لیے اٹریکشن فیل ہوئی تھی نا”
” افسوس کہ تم میری پاک محبت کو محبت نہیں بلکہ ہوس سمجھیں۔۔۔۔۔ دفع ہو جاؤ میری زندگی سے”
” میں تو خود رہنا نہیں چاہتی تمہارے ساتھ ڈائیورس دو مجھے”
اور پھر دو دن کے بعد وہ اس رشتے سے آزاد ہو گیا تھا دو دن بعد اس نے پاکستان کے لیے نکلنا تھا پر نہیں جا پایا تھا اور دو دن بعد وہ پاکستان ائیر پورٹ پہ کھڑا تھا احتشام اسے لینے آیا تھا۔