(Last Updated On: )
شام کا وقت تھا وہ ابھی ابھی آفس سے آیا تھا تو دیکھا ربیکا کہیں جانے کے کے لیے تیار ہو رہی تھی ربیکا کو نک سک سے تیار ہوتا دیکھ کے اس نے پوچھا
” آج کہیں جا رہے ہیں ہم؟؟؟” وہ اکثر شام میں کہیں نہ کہیں جاتے تھے سو جبران نے پوچھا
” ہم نہیں صرف میں” وہ تیار ہوتے ہوئے بولی
” تم۔۔۔۔۔ پر کہاں؟؟؟”
” میرے کچھ فرینڈز نے بلایا ہے”
” خیریت؟؟؟” اس نے پو ھا تو وہ چڑ گئی
” اففففف کتنے سوال کرتے ہو تم جبران”
” میں شوہر ہو تمہارا میرا حق ہے پوچھنا کہ میری بیوی کہاں جا رہی ہے”
” سو واٹ۔۔۔۔۔ شوہر ہو تو کیا ہوا میں نے پہلے بھی تم سے کہا تھا کہ مجھے یہ بے جا پابندیاں نہیں پسند”
” میں پابندی نہیں لگا رہا جسٹ پوچھ رہا ہوں”
” بتایا تو ہے ابھی” وہ بیزاری سے بولی
” اچھا۔۔۔۔۔” وہ بولا ” میں بھی چلتا ہوں آفس میں آج کوئی اتنا خاص کام بھی نہیں تھا جو۔۔۔۔۔” وہ بول رہا تھا کہ وہ اس کی بات کاٹ کے بولی
” نہیں۔۔۔۔۔ تمہارا کیا کام وہاں”
” واٹ یور مین ربیکا” اس نے ٹٹولتی نظروں سے اسے دیکھا وہ جبران کی نظروں کو خاطر میں لائے بغیر بولی
” جبران کیا میں اپنی لائف کو انجوائے بھی نہیں کرسکتی کیا۔۔۔۔۔ شادی کرکے پھنس گئی میں تو” وہ اچھا خاصا چڑ گئی تھی جبران نے گہرا سانس لیا اور اس کے پاس آیا اور اس کے ہاتھ تھام کے بولا
” یار ایسی بات نہیں ہے تمہاری مرضی ہے کہ تم جیسے چاہو ویسے اپنی زندگی گزارو”
” اوکے پھر میں جاتی ہوں دیر ہو رہی ہے” وہ ہاتھ ھڑا کر بولی اور جلدی سے اپنا پرس اٹھا کر جانے لگی پھر ایک دم رک کے پوچھا
” تم بڑے خاموش رہنے لگے ہو اپنی بیوی سے علٰیحدگی کے بعد سے”
” ارے نہیں بس ویسے ہی” وہ بولا
” اوکے” وہ لاپرواہی سے کہہ کر چلی گئی فکر کس کو تھی اس کی “رہے اپنی بیوی کی یادوں میں مجھے کیا” اس نے سوچا اور سر جٹھک کے چل دی جبران نے اس سے نہ یہ کہا کہ وہ جلدی آئے نہ یہ پوچھا کہ وہ کب آئے گی شاید وہ خود اکیلا رہنا چاہتا تھا۔
—–
کافی دنوں سے ربیکا کی یہ ہی روٹین تھی شام میں اپنے فرینڈز کا کہہ کر پتا نہیں کہا جاتی اور وہ گھر میں اکیلا پڑا رہتا یہ پتا نہیں اس کے کون سے فرینڈز تھے جنہیں اچانک ربیکا یاد آگئی تھی
شام میں جب وہ گھر پہ اکیلا ہوتا تو اسے مرال بہت یاد آتی تھی وہ بیڈ پہ آڑا ترچھا لیٹا ہوا تھا کہ اسے یاد آیا کہ
” جب وہ آفس سے آتا تھا تو وہ پہلے سے ہی اس کے کپڑے واشروم میں رکھ دیتی تھی پھر اس کے لیے چائے لاتی اس کا حال چال پوچھتی وہ اس سے بات کرنا پسند نہیں کرتا تھا پر وہ پھر بھی اس سے بولتی۔۔۔۔۔ اور اب اس کی زندگی میں ایک خاموشی نے ڈیرا ڈال دیا تھا وہ کچن میں گیا دوپہر سے اس نے کچھ نہیں کھایا تھا وہ چیک کرنے لگا کچھ بھی نا تھا کچن میں اس نے کھانا ہی نہیں بنایا تھا جبران نے فریج سے فروٹس نکالے اور کھانے لگا ربیکا کو اس سے کوئی سروکار نہ تھا اسٹارٹ میں تو وہ پھر بھی اس کا خیال کرتی تھی کچھ بنا لیتی تھی پھر آہستہ آہستہ اس نے وہ بھی چھوڑ دیا
یہ ایک رات کی بات ہے جب جبران نے اس سے کھانے کا پوچھا تھا تو وہ بولی
” شادی کی ہے کوئی گود نہیں لیا تمہیں اپنا کام خود کرو”
وہ باہر کے کھانے کھا کھا کر وہ تھک گیا تھا فروٹس کھاتے ہوئے اسے پھر مرال یاد آئی مرال اس کے لیے روز اس کی پسند کا کھانا بناتی تھی اور آفس بھی بھیجتی تھی اسے آج پھر وہ بہت شدت سے یاد آئی تھی۔
——
مرال کی شادی کی تیاریاں اسٹارٹ ہو گئیں تھیں کچھ دن میں اس کی شادی تھی سب خوچ تھے اس کے علاوہ۔۔۔۔۔ پتا نہیں دل کی زمین اتنی بنجر کیوں ہوگئی تھی صرف دل کا ایک حصہ ہرابھرا تھا اور اس حصے میں صرف جبران کی محبت کا پودا لگا تھا جو دن بدن پروان چڑھ رہا تھا باقی ساری ذمین بنجر تھی
احتشام اتنا اچھا تھا جبران سے لاکھ گنا اچھا پر پھر بھی وہ اس سے محبت نہیں کرپارہی تھی وہ جب جب احتشام کو دیکھتی اسے جبران یاد آتا
کچھ دنوں میں جبران کی محبت جبران کی یادیں اس کے لیے پرائی ہو جائیں گی اس کے دل اور اس کی یاد پہ کسی اور کا پہرہ ہو گا کسی اور کا حق ہوگا۔۔۔۔۔ پر اس انسان کے لیے تو اس کے دل میں جگہ ہی نہیں تھی وہ کیا کرے۔۔۔۔۔ اس کا دل گھبرایس
—–
” ربیکا پلیز میرے لیے کچھ بنادو پھر چلی جانا باہر کا کھانا کھا کھا کے میری طبیعت خراب ہو گئی ہے” وہ آج پھر کہیں جانے کو تیار تھی کہ وہ بولا
” جبران کیا تم نے ٹھیکا لے لیا ہے کہ میں کہیں بھی جاؤں تم نے ٹوکنا ہی ہے” وہ بیزاری سے بولی
” میں نے تمہیں نہ ٹوکا ہے نہ روکا ہے بس یہ کہہ رہا ہوں کہ پلیز کچھ ننا کے چلی جاؤ میرے لیے”
” خود بنالو میں لیٹ ہو رہی ہوں” وہ جانے لگی
” یار پلیز” وہ کھڑی ہو گئی پھر ٹائم دیکھ کے بولی اوکے آکے بنادوں گی تم ویٹ کرلو میرا”
” آکے۔۔۔۔۔۔ ربیکا تم پہلے سے ہی میرے لیے کچھ بنا دیا کرو پھر جہاں جانا ہے جاؤ میں کون سا روکتا ہوں تمہیں۔۔۔۔۔ مرال تو روز میرے لکے کچھ نہ کچھ بناتی تھی اور آفس بھی بھیجتی تھی” اسے آج پھر وہ یاد آئی تھی
” تو نہیں چھوڑنا تھا نا اسے کیوں چھوڑا۔۔۔۔۔ جبران تمہیں بیوی نہیں ایک ماسی چاہیے تھی جو تمہارے کام کرتی یہاں تو تمہیں کوئی ماسی ملی نہیں جس پہ تم بیوی کیطرح حق جتاؤ اور ماسی کی طرح کام کرواؤں۔۔۔۔۔ اس لیے تم نے مجھ سے شادی کرلی ہے نا”
“اسٹاپ اٹ ربیکا” وہ غصہ ہوا
” چیخو مت جبران۔۔۔۔۔ مجگے اپنی مرال ہر گز نہ سمجھنا جو تمہاری ہر بات برداشت کرے گی اور خاموش رہے گی ارے اس نے تو پتا نہیں کیسے تمہیں برداشت کرلیا تمہیں میرے جیسی ہوتی تو تمہیں بتاتی” وہ بھی تیش میں آگئی
” اتنی ہی یاد آتی ہے نا تمہیں وہ تو چلے جاؤ اس ماسی کے پاس یہاں کیوں ہو” جبران کو اپنی ذات پہ اس کا بولنا اتنا برا نہیں لگا جتنا مرال کے بارے میں بولنا وہ چیخا
” شٹ یور ماؤتھ اوکے ورنہ میں برداشت نہیں کروں گا”
” تو تمہیں برداشت کر کون رہا ہے تنگ آگئی ہوں میں تم سے میرا بس چلے تو تمہیں چھوڑنے میں منٹ نہ لگاؤں ذہنی مریض ہو گئے ہو اپنی ڈائیورس کے بعد” جبران کا ہاتھ اٹھا اس سے پہلے کے اسے لگتا ربیکا نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور زور سے جھٹکا دے کر نیچے کیا
” یہ ہاتھ ابھی تو اٹھ گیا آئیندہ اٹھا نا تو پولیس میں کمپلین کروا دوں گی یہ پاکستان نہیں ہے سمجھ آئی” وہ کہہ کر چلی گئی وہ غصے سے پیچ و تاب کھا کے رہ گیا
—–
رات کے دو بج رہے تھے ربیکا کا کوئی اتا پتا نا تھا اسے اس وقت ربیکا کی فکر کرنے بجائے مرال یاد آرہی تھی اس نے خود ہی کچھ نہ کچھ بنا کے کھا لیا تھا کھاتے وقت اسے مرال کی وہ سادہ سی کھچڑی بے حد یاد آئی
جب جب وہ وامیٹ کررہا تھا اسے مرال کا سنبھالنا یاد آرہا تھا وہ بیڈ پہ آکے لیٹا اور آنکھیں موند لیں اسے یاد آیا وہ کیسے اس کے بال سہلاتی تھی جب بیمار تھا تو ساری ساری رات اس کے لیے جاگتی تھی ناجانے کب اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے وہ اسے بہت شدت سے یاد آرہی تھی دل چاہ رہا تھا اس تک اڑ کے پہنچ جائے پر جاتا کس کے پاس اس سے تو سب رشتے وہ ختم کر آیا تھا
وہ جب آفس سے آتا تو وہ اسے اپنے گھر میں اپنے کمرے میں چلتی پھرتی نظر آتی اور اگر اب وہ چلا بھی گیا تو وہ تو نہیں ہوگی وہاں اس کا دل گھبرایا وہ اٹھ کے باہر لان میں آگیا وہ اس کی سوچوں میں گم تھا کہ دروازہ کھلنے کی آواز پہ اس نے چونک کے اس طرف دیکھا اور شاکڈ رہ گیا ربیکا شراب کے نشے میں دھت گھر میں ڈاخل ہو رہی تھی۔
وہ شاکڈ کھڑا اسے دیکھ رہا تھا وہ اب اندر چلی گئی تھی اس کے ہاتھ میں شراب کی بوتل تھی وہ غصے سے اس کے پیچھے پیچھے آیا وہ کمرے میں جا رہی تھی کہ اس نے اس کا زور سے بازو پکڑ کے روکا اور اس کے ہاتھ سے شراب کی بوتل لی
” تم نے ڈرنک کی ہے؟؟؟” اس نے غصے سے پوچھا
” تم کون؟؟؟” وہ بامشکل آنکھیں کھول کے بولی
” تمہارا شوہر۔۔۔۔۔ بولو کیوں کی ڈرنک؟؟؟” اس نے پھر پوچھا
” ہاتھ چھوڑو میرا۔۔۔۔۔ میری مرضی۔۔۔۔۔ میں تو ایسی ہی ہوں۔۔۔۔۔ تمہیں نہیں پتا” وہ ہنسی ” آں۔۔۔۔۔ بےبی تم کرو گے ڈرنک”
” شٹ اپ ربیکا۔۔۔۔۔ ہوش میں آؤ پھر بات کریں گے” وہ ہوش میں نہیں تھی تبھی جبران نے چپ ہونا ہی بہتر جانا کیونکہ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی
” ہوش میں۔۔۔۔۔۔ تم ہوش میں آؤ گے یا میں۔۔۔۔۔ میں تو سب کو بے ہوش کردیتی ہوں اور پھر ان کو ہوش میں آنے کی ضرورت ہوتی ہے مجھے نہیں۔۔۔۔۔ سب لوگ۔۔۔۔۔ میرے۔۔ دیوانے ہیں” اس نے اپنے ہاتھ کی انگلی چاروں طرف گھمائی شاید اس نے بہت زیادہ ڈرنک کی تھی
” تم بھی تو ان ہی میں سے ہو۔۔۔۔۔ ہے نا” وہ بولی
” ہاں میں ان ہی بدنصیب لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے اپنی گھر کی جنت ٹھکرا کر جہنم خرید لی” وہ دل ہی دل میں بولا اور اسے لے کر کمرے میں گیا بیڈ پہ لٹایا اور اس کے جوتے اتار کے کمبل اس پہ دیا اور خود باہر آگیا۔ اب تو یہ روز کا معمول بن گیا تھا وہ روز ڈرنک کر کے آتی شروع شروع میں جبران نے اسے بہت سنائی تھیں پر وہ سننے والی کہاں تھیں وہ جبران کی ایک نہیں سنتی تھی جبران اس سے تنگ آچکا تھا اسے اب اپنی پسند پہ شرمندگی و ندامت ہوتی تھی اور یہ ندامت بڑھتی جا رہی تھی
—–
جبران کی طبیعت آج حد سے زیادہ خراب ہو گئی تھی وامیٹنگ حد سے زیادہ ہورہی تھی ربیکا کمرے میں آئی تو دیکھا وہ بیڈ کے پاس پڑے ڈسٹ بن میں وامیٹ کررہا تھا یہ بھی جبران نے خود رکھا تھا کہ اس میں چلنے کی بالکل ہمت نہیں تھی کہ وہ واشروم ہی چلا جاتا
” یییککھھھھ۔۔۔۔۔ جبرانیہاں کہاں تم وامیٹ کررہے ہو واشروم میں جاؤ ” وہ کمزوری کی وجہ سے کچھ نہ بولا اور ٍسٹ بن سائیڈ پہ رکھا اور لیٹ گیا
” جبران اٹھو” وہ بیڈ کی پائینتی کے پاس آکے بولی
” میری ہمت نہیں ہو رہی ربیکا پلیز۔۔۔۔۔” وہ نقاہت کے باعث بولا
” سو۔۔۔۔؟؟؟ میں کیا کروں اگر تمہاری ہمے نہیں ہورہی تو تمہاری خدمتیں کروں۔۔۔۔۔ اٹھو پلیز تمہاری وجہ سے روم میں آنے کا بالکل دل نہیں کرتا” وہ اسے بس دیکھ کے رہ گیا “مرال تو ایسی نہ تھی۔۔۔۔۔ اسے کیوں مجھ سے کراہیت نہیں آتی تھی۔۔۔۔۔ وہ تو دن رات ایک کر دیتی تھی میرا خیال رکھنے میں” وہ بس سوچ کے رہ گیا
” تم پلیز کسی ڈاکٹر کو بلا دو یا مجھے ہی کسی ڈاکٹر کے پاس لے چلو”
” واااٹ۔۔۔۔۔ اس کنڈیشن میں میں تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے کر جاؤں دماغ ٹھیک ہے تمہارا۔۔۔۔۔ تم اتنے گندے ہو رہے ہو۔۔۔۔۔ میان ایسا کرتی ہوں ڈاکٹر کو بلا لیتی ہوں۔۔۔۔۔کم از کم تمہاری وامیٹنگ تو رکے دماغ خراب کیا ہوا ہے تم نے” وہ کہہ کر چلی گئی
اس طبیعت کی وہی سیم وجہ تھی کہ باہر کا کھانا کھانا اور پھر دو دن سے اس نے کچھ کھایا نہیں تھا ربیکا کچھ بناتی نہیں تھی اور ان دو دنوں سے اسے بہت سخت بخار بھی ہو گیا تو ربیکا نے احسان کر کے اسے ٹیبلٹس دے دی تھیں
وہ ہوش میں ہوتا تب بھی مرال کو یاد کرتا بے ہوشی میان بھی اسے پکارتا تھا یہ شاید اس کے گناہوں کی سزا ہی تھی جو اسے مل رہی تھی اب وہ سوچتا تھا کہ اس بےچاری مرال کو اس نے کتنا ستایا کتنا برا بھلا کہا نا جانے کتنی بار اس پہ ہاتھ اٹھائے پر وہ اک لفظ شکایت منہ پہ نہ لائی بلکہ اس کے بدلے میں اس کی دیکھ بھال کرتی تھی اس سے بے لوث محبت کرتی تھی اور اس نے کیا کیا اس کو برباد کرتے کرتے اس نے اپنے آپ کو برباد کرلیا وہ کتنا برا تھا۔
—-
ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد اسے ریسٹ کا کہا تھا اور سختی سے باہر کے کھانے کھانے سے منع کیا تھا ربیکا مجبوری میں ہی سہی اسے کچھ نہ کچھ بنا کے دے رہی تھی مگر وہ کطھ بھی بناتی اسے اچھا نہ لگتا اسے مرال کے ہاتھ کے کھانے یاد آتے جو وہ خاص اس کے لیے بناتی تھی وہ اس کے بنائے ہوئے کھانے میں مرال کے ہاتھ کا ذائقہ ڈھونڈنے لگا تھا ربیکا آتے جاتے اسے باتیں سناتی رہتی تھی اسے لگتا تھا جیسے ربیکا سچ کہتی ہے وہ ذہنی مریض ہی ہے ار اگر نہیں ہے تو بہت جلد بن جائے گا اکثر رات میں یا وہ ج بھی اکیلا ہوتا اسے مرال کی آوازیں شنائی دیتیں کبھی اس کی درد میں ڈوبی چیخیں۔۔۔۔۔ اور اس وقت وہ دھاڑیں مار مار کے روتا اس کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اپنے ساتھ کرے تو کیا کرے یہ آئیڈیلازم اسے لے ڈوبا تھا۔۔۔۔۔
وہ بھی ایک ایسا ہی دن تھا ربیکا حسبِ معمول باہر گئی ہوئی تھی وہ گھر پہ اکیلا تھا ایک تنہائی ہی تو اس کی ساتھی بن گئی تھی اب جو اس کا دکھ درد بانٹ لیتی تھی وہ شدت سے رو رہا تھا اور روتے ہوئے بار بار یہ ہی کہہ رہا تھا
” ماما آپ۔۔۔۔۔ آپ ٹھیک کہتی تھیں میرا سکون میرا چین وہ ہی تھی اب چلی گئی ماما تو میرا سکون میرا چین سب لے گئی۔۔۔۔۔ آپ نے ٹھیک کہا تھا وہ ہی میرا حاصل۔۔۔۔۔ میری زندگی ہے”
“اے اللٰہ یہ میں نے کیا کردیا ” وہ اپنے خالی ہاتھوں کو دیکھنے لگا ” میں نے اپنا لک خود اپنے ہاتھوں سے گنوا دیا۔۔۔۔۔ اس کو برباد کرتے کرتے میں خود برباد ہو گیا۔۔۔۔۔ تباہ ہو گیا میں” وہ رو رہا تھا گڑگڑا رہا تھا پر اب کیا فائدہ۔۔۔۔۔وہ اپنی تباہی کا زمہدار خود تھا اور یہ تباہی اس نے خود اپنے لیے چنی تھی
—–
اس کی طبیعت بہتر ہوئی تو اس نے پھر آفس جوئن کرلیا وہ گھر سے زیادہ آفس میں ریلکس فیل کرتا وہ اب دیر سے گھر جاتا اسے پتا تھا کہ اگر وہ نہ بھی جائے تب بھی ربیکا کو کوئی فرق نہیں پڑنا تھا اس کے دل ودماغ میں ایک پکڑ دھکڑ سی چل رہی تھی وہ سوچ رہا تھا وہ کیسے مرل کو اپنی زندگی میں واپس لائے وہ اس کو کھونا نہیں چاہتا تھا پر کھو چکا تھا اور اب جب کھو دیا تھا تو دوبارہ اسے پانا چاہتا تھا
بوسٹن میں اس کی ایک بہت بڑی میٹنگ تھی بہت سے ملکوں سے بزنس مین نے آنا تھا اور وہ اپنے آفس کی طرف سے اس میٹنگ میں جا رہا تھا
شام میں وہ گھر آیا پیکنگ کرنے لگا تو اسے پھر مرال یاد آئی جب وہ اسے چھوڑ کے جا رہا تھا اور وہ کانپتے ہاتھوں سے اس کی پیکنگ کررہی تھی۔۔۔۔۔ اا نے سر جھٹکا کسی طرح تو اس کی یافہں پیچھا چھوڑیں پر یہ ممکن کہاں تھا وہ اپنا سر پکڑ کے بیٹھ گیا
—–