(Last Updated On: )
” اوہ آپی۔۔۔۔۔ کتنا مزا آئے گا آپ کی شادی پہ۔۔۔۔۔” ارسہ اس کے گلے لگ کے بولی
” ماما اور بڑی ماما تو آج سے تیاریوں میں لگ گئی ہیں” وہ بتانے لگی وہ ہنوز چپ تھی
” کیا ہو آپی۔۔۔۔ چپ کیوں ہو”
” ہاں ہممم۔۔۔۔” وہ چونکی ” کچھ نہیں۔۔۔۔ تم بولو” وہ پھر بولنے لگی تھی مرال کا دل اندر سے بہت خالی تھا اس شادی کو لے کر اس کے دل میں کوئی خوشگمانیاں نہیں تھیں کیوں کہ وہ جبران کو جانتی تھی وہ چپ بیٹھنے والا نہ تھا وہ فی الحال چپ تھا تو صرف اپنی ماں کی وجہ سے اسے پتا تھا اس کا کل کیا ہونے والا ہے اور اسی کو سوچ سوچ کے وہ پریشان تھی
عشاءکی نماز پڑھ کے اس نے دعا میں ہاتھ اٹھائے تو آنسو خودبخود امڈ آئے
” اے اللٰہ! کیا یہ ہی شخص میری زندگی میں آنا تھا۔۔۔۔۔ جس کے دل میں میرے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔۔۔۔۔ایک ایسے بندے کی زندگی میں مجھے شامل کررہا ہے جس کی خواہش میں نہیں جس کی منزل میں نہیں۔۔۔۔۔ اے اللٰہ بڑی ماما مجھ سے امیدیں باندھ کے بیٹھی ہیں کہ میں ان کے بیٹے کو محبت سے جیت لوں گی پر کیسے اللٰہ۔۔۔۔۔ مجھے نہیں معلوم کچھ بھی۔۔۔۔۔ نہیں معلوم اللٰہ۔۔۔۔۔ میں نے سب کچھ تجھ پہ چھوڑ دیا ہے اللٰہ۔۔۔۔۔ ہمیشہ میرا رازدار تو ہی رہا ہے جس سے اپنے دل کی ہر بات کہہ دیتی ہوں ایک تو ہی تو ہے جو میرے بنا کہے میرے دل کا حال جان لیتا ہے تجھے تو معلوم ہے نا میں اس وقت کیا محسوس کر رہی ہوں بس میں نے سب چھوڑ دیا تجھ پہ۔۔۔۔۔ جو بھی ہو میرے حق میں بہتر کرنا اللٰہ۔۔۔۔۔” اس نے آمین کہہ کر منہ پہ ہاتھ پھیرا اور جائے نماز سمیٹی اور باہر لان میں آگئی اس نے سب اللٰہ پہ چھوڑ دیا تھا اور اب وہ مطمئن تھی وہ آسمان کی طرف دیکھ کے مسکرائی
” بڑا مسکرایا جا رہا ہے” وہ چونکی دیکھا تو جبران سامنے کھڑا تھا اس کی مسکراہٹ سمٹی
” خوش ہو رہی ہو کہ اتنا ہینڈسم ویل ایجوکیٹڈ اور کامیاب انسان تمہاری قسمت بن رہا ہے رشک کررہی ہو خود پہ؟”
” نہیں بکل بھی نہیں۔۔۔۔رشک کس بات کا۔۔۔۔اگر آپ ہینڈسم ہیں تو کم خوبصورت تو میں بھی نہیں ہوں رہی ایجوکیشن کی بات تو آپ کی طرح میں بھی ویل ایجوکیٹڈ ہوں اور اگر آپ بزنس کی دنیا میں کامیاب و معتبر ہیں تو میں بھی گھر والوں کی نظروں اور ان کے دل میں معتبر ہوں مجھے کسی سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں کس کے لیے کیا ہوں یا کوئی مجھے کیا سمجھتا ہے بٹ مجھے خوشی ہے کہ اپنے گھر والوں کی نظروں میں میرا ایک رتبہ اور مقام ہے” وہ پہلی بار اس کے سامنے یوں بول رہی تھی
” بہت ہمت آگئی ہے تم میں۔۔۔۔ جو کبھی میرے سامنے آنے سے کتراتی تھی آج میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بول رہی ہے یہ جانے بغیر کہ تمہارا فیوچر کیا ہے”
” ہمت تو پہلے بھی تھی مجھ میں پر آپ کی عزت کرتی تھی اس لیے چپ تھی اور آپ نے مجھے کمزور سمجھ لیا”
” تو کیا اب عزت نہیں کرتیں”
” کرتی ہوں۔۔۔۔بہت کرتی ہوں۔۔۔۔اور اب تو زیادہ کروں گی آپ کی عزت پتا کے کیوں۔۔۔؟کیونکہ اب تو آپ میرے ہونے والے شوہر ہیں اور آنے والے دنوں میں میں بھی آپ کی عزت بن جاؤں گی سو کچھ بھی کرنے سے پہلے آپ اپنی عزت کے بارے میں تو ضرور سوچیں گے۔۔۔۔ ہیں نا؟؟؟” وہ بول کے جانے لگی کہ جبران نے غصے سے اسـکا ہاتھ پکڑ کے روکا اور بولا
” بہت بولنا آگیا ہے نا تمہیں ۔۔۔۔ بے فکر رہو ایسی جگہ پہ لا کے تم کو ماروں گا جہاں تمہیں پانی نہیں ملے گا گھٹ گھٹ کے مرو گی تم۔۔۔۔ اور رہی عزت کی بات تو وہ تمہیں مجھے سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے میں اچھی طرح سے اپنی عزت کو سنبھالن جانتا ہوں میری ماں کی قسم میری کمزوری ہے صرف وہی نبھا رہا ہوں اور اس کے بعد اپنی قسمت پہ رو گی تم” وہ کہہ کر چلا گیا تھا مرال نے آنکھ میں آئی نمی کو صاف کیا اب اسے رونا نہیں تھا اب اسے مضبوط بننا تھا۔
——
ماما اور بڑی ماما شاپنگ کر کے آئے تھے اور اب دسکشن جاری تھی نشاء بھی سب دیکھ رہی تھی
” واؤ آپی تو پری لگیں گی جب یہ پہنیں گی” سارہ بلیک ساڑی کو ستائش سے دیکھ کے بولی جس پہ سلور کام ہوا وا تھا
” آپی۔۔۔۔ اوہ بہن اب تو بھابی بولو انہیں۔۔۔۔ہمارے بھائی کی ہونے والی وہ ہیں یہ” نشاء کے کہنے پہ جہاں ماما بڑی ماما مسکرائیں وہاں مرال جھینپ گئی
“مرال بھابی آپ پہ یہ کلر بہت اچھا لگے گا جبران بھائی تو دیکھ کہ ہی بیہوش ہو جائیں گے آپ کو” نشاء بولی تو مرال نے اسے گھورا بڑی ماما نے مرال کے گلابی ہوتے چہرے کو دیکھا “خدا کرے ایسا ہی ہو” ان کے دل سے دعا نکلی اتنے میں زیان اور نمیر بھی آگئے اب تو مرال پھنس گئی تھی وہ سب مل کے اب مرال کو چھیڑ رہے تھے
“خاموش۔۔۔۔۔خبردار جو میری بہو کو تنگ کیا اور نشاء خاص کر تم ورنہ تمہیں بھی رخصت کردوں گی میں” نشاء کی تو آنکھیں نکل آئیں
” بالکل ٹھیک ماما اس چڑیل کو جلد رخصت کردیں تاکہ۔۔۔۔ اہم اہم۔۔۔۔ مابدولت ک بھی نمبر آئے”
” تم تو ٹہرو ذرا کرتی ہوں میں تمہاری شادی”
” رئیلی ماما” زیان چمک کے بولا
“کوئی ضرورت نہیں ہے تمہارا نمبر سب سے لاسٹ میں آئے گا۔۔۔۔ میں بڑا ہوں تم سے تو میری ہو گی اور ویسے بھی مرال آپی کے بعد تو میں ہی ہوں تم ابھی کہاں۔۔۔۔۔ پہلے جبران بھائی چلو وہ تو نبٹے پھر نشاء جس کی شادی کے دور دور تک کوئی چانسز نہیں ہیں” نشاء نے نمیر کو گھور کے دیکھا”پھر تم آؤ گے۔۔۔۔ بھئی خیال سے کہیں بوڑھے نہ ہو جانا اپنی بہن کے پیچھے۔۔۔۔۔ ذرا سوچو اس چڑیل کے ساتھ ساتھ تم بھی سر جھاڑ منہ پھڑ بیٹھے رہو گے جب ہم اپنے بچوں کو لے کے آیا کریں گے تمہارے پاس تو تم ٹھنڈی آہیں بھرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکو گے۔۔۔۔۔ سوچو میرے بھائی تم تو گئے ” نمیر نے مستقبل کا خاکہ اسے کھینچ کے بتایا
” اللٰہ نہ کرے نمیر میں کیوں بیٹھی رہوں توبہ کرو”
” اوہ بھائی بددعائیں تو نہ دے” زیان بھی بولا
” میں تو تمہاری شکل کی وجہ سے کہہ رہا تھا کہ۔۔۔۔”
” کہ۔۔۔؟؟؟؟ کیا مطلب ہاں “
” کچھ نہیں۔۔۔۔ ہاں بس تھوڑی سرجری کروالینا بر دکھوے سے پہلے کہیں کوئی معصوم دھوکا نہ کھا جائے۔۔۔۔ سرجری سے زیادہ نہیں تو اتنا ضرور ہو جائے گا کہ تم تھوڑی قبول صورت ہو جاؤ گی” نمیر کے بولنے پر سب ہنسنے لگے نشاء کو تو صدمہ ہو گیا
” کیاااااااااا۔۔۔۔۔۔ چچی آپ دیکھ رہی ہیں اسے”
” نمیر انسان بن جاؤ کیوں میری بچی کو تنگ کررہے ہو اتنی پیاری تو ہے”
” اور کیا ان لوگوں کی تو آنکھیں خراب ہیں ہیرے کی پہچان صرف جوہری کو ہوتی ہے تم ٹہرے کوئلے تمہیں کیا پتا ہونہہ۔۔۔۔”
” بندریا تم۔۔۔۔”،وہ کچھ بولنے ہی لگا تھا کہ نمیر کی کال آئی اور وہ اٹھ گیا
” چلو شکر گیا یہ ماما شاپنگ دکھائیں نا” وہ شاپنگ کی طرف متوجہ ہوئی
” تمہیں لڑائی سے فرصت ملے تو تم لوگ دیکھو”
‘” چھوڑیں نا بھابی ان سے ہی تو گھر میں رونق ہے” اسمہ بولیں تو رافعہ نے بھی ان کی بات کی تائید کی
——–
دن ایسی تیزی سے گزرے کہ پتا ہی نہ چلا آج جبران اور مرال کی شادی ہوئی تھی اور اب وہ جبران کے روم میں بیٹھی اس کا ویٹ کر رہی تھی مرال کو اس سے کوئی اچھی امید نہیں تھی اور نہ اس کے دل میں جبران کے لیے کوئی جذبات تھے وہ سوچوں میں گم تھی کہ جبران دروازہ کھول کے اندر داخل ہوا وہ سیدھی ہو بیٹھی وہ چلتا ہوا اس تک آیا اور اسے زور سے کھینچ کر بیڈ سے نیچے اتارا اور اس کا گھوگھٹ الٹا دیا ایک بار جو اس کی نظر پڑی تو جیسے پلٹنا ہی بھول گئی اسے سب لوگوں کی باتیں یاد آئیں نشاء کہہ رہی تھی
” مرال تو آج کوئی اور ہی دنیا کی لڑکی لگ رہی ہے” زیان کہہ رہا تھا
” بھائی تو آج گئے مرال آپی آج تمام ہتھیاروں سے لیس ہیں بھائی کی خیر نہیں” اوت سب ہنس رہے تھے
واقعی آج مرال غضب ڈھا رہی تھی ایک مرال کا حسن دوسرا تنہائی اور تیسرا اپنے رشتے کا خیال اسے کمزور کررہا تھا سوچا کہ سب بھلا دے پر۔۔۔۔۔ وہ ہوش کی دنیا میں واپس آیا
” نہیں مرال میری منزل نہیں ہے۔۔۔۔۔ اور خوبصورتی تو صرف ابھی ابھی کی ہے پھر بعد میں۔۔۔۔۔” اس نے سر جھٹکا اسے اپنہ سوچ پہ غصہ آیا اور ایک زور دار تھپڑ کھینچ کے اس کے گال پہ مارا
” کیا سمجھتی ہو تم ہاں کیا سمجھتی ہو۔۔۔۔۔ مجھ سے نکاح کرلیا ہے تو مجھے حاصل بھی کرلو گی غلط فہمی ہے تمہاری مرال مر بھی جاؤ گی نا تو تمہیں پوچھنے تک نہیں آؤں گا میں تمہیں۔۔۔۔۔ مجھے دیکھنے کو میری محبت کو ترسو گی پر جب بھی آؤ گی مایوس لیٹو گی۔۔۔۔۔” وہ پھٹی آنکھوں سے بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی اسے پتا تھا کہ وہ اس شادی سے خوش نہیں ہے پر اتنا خلاف تھا وہ اس شادی کے یہ معلوم نہ تھا اسے
” تم سے آج مجھے جتنی نفرت فیل ہو رہی ہے نا مرال بی بی شاید ہی کسی سے ہو۔۔۔۔۔ اور میری نفرت کبھی محبت میں نہیں بدلے گی ترسو گی تم سمجھی۔۔۔۔۔” کب آنسو آنکھوں کی باڑ توڑ کے گالوں پہ بہنے لگے اسے پتا ہی نہیں چلا جبران بیڈ پہ جا کے
لیٹ گیا وہ وہیں کھڑی سوچنے لگی کتنا سنگدل تھا وہ شخص اسے کسی کے دل کے خیال ہی نہ تھا فکر تھی تو بس اپنے دل کی اپنی خواہشوں کی اپنے سے جڑے رشتوں کی اس کے دل میں کوئی اہمیت کوئی وقعت نہیں تھی۔۔۔۔۔
” اب کون سے مراقبے میں بزی ہو۔۔۔۔۔ یہ سوچ رہی ہو کہ آکے میں تمہارے آنسو پونچھو گا۔۔۔۔۔سوچ ہے تمہاری۔۔۔۔۔ لائیٹ آف کردو پھر روتی رہنا جتنا رونا ہے کیونکہ اب تو ویسے بھی ساری زندگی رونا ہی ہے تم نے اچھا ہے ابھی سے اپنے آپ کو سنبھالنا سیکھ لوگی” کہہ کر وہ کروٹ لے کہ لیٹ گیا وہ وہیں کھڑی رہی رہی
” رونا ہے نا اگر تو دفع ہو جاؤ میرے سامنے سے کہیں اور جا کے رو” وہ غصے سے بولا وہ گئی اور لائیٹ آف کردی اور وہیں بیڈ کے پاس بیٹھ کر رونے لگی۔
پتا نہیں کب وہ روتے روتے سو گئی تھی اسے پتا نہیں چلا وہ سو رہی تھی کہ کسی نے اس کا کندھا زور سے ہلایا وہ ہڑبڑا کے جاگی
” اٹھو محترمہ صبح ہو گئی ہے” جبران نے کہا وہ یک دم ہڑبڑا کے اٹھی گالو پہ انگلیوں کے نشان واضح تھے
” اب کیا ہونقوں کی طرح دیکھ رہی ہو اٹھو” وہ بیزاری سے بولا وہ اٹھ گئی تو وہ واشروم چلا گیا وہ وہیں بیڈ پہ بیٹھ گئی اور گزشتہ رات کے بارے میں سوچنے لگی جبران کے الفاظ پھر سے اس کے کانوں میں گونجنے لگے
“کیا سمجھتی ہو تم ہاں کیا سمجھتی ہو۔۔۔۔۔ مجھ سے نکاح کرلیا ہے تو مجھے حاصل بھی کرلو گی غلط فہمی ہے تمہاری مرال مر بھی جاؤ گی نا تو تمہیں پوچھنے تک نہیں آؤں گا میں تمہیں۔۔۔۔۔ مجھے دیکھنے کو میری محبت کو ترسو گی پر جب بھی آؤ گی مایوس لیٹو گی۔۔۔۔۔” اس کی آنکھوں میں پھر سے جلن ہونے لگی بار بار وہ الفاظ اسے تنگ کر رہے تھے
” مجھے دیکھنے کو میری محبت کو ترسو گی۔۔۔۔۔ ترسو گی۔۔۔۔۔ترسو گی” اس نے تنگ آکے کانوں پہ ہاتھ رکھ لیے دل چاہا کہ دھاڑے مار مار کے روئے
” اللٰہ۔۔۔۔۔ اللٰہ مر جاؤں گہ میں اللٰہ۔۔۔۔۔ کہاں جاؤں۔۔۔۔۔ کس سے کہوں میں” وہ ہاتھوں میں چہرہ چھپائے رو رہی تھی کہ جبران واشروم سے نکلا اور اسے روتا دیکھا تو ایک دم غصہ آگیا اور اس کے قریب آکے زور سے اس کا بازو پکڑ کے اپنی اور کھینچا وہ اس کے سینے سے آلگی یہ سب اتنی بے دھیانی میں ہوا کہ کچھ دیر تو وہ بول ہی نا سکا بس اس خوشبو کو محسوس کرتا رہا جو اس کے آس پاس بکھر گئی تھی وہ اس کا بھیگا چہرہ اس کی آنکھیں دیکھتا رہا دل کو پھر کچھ ہونے لگا کل سے یہ کیا ہو رہا تھا کہ دل اس کی اور کھنچا جا رہا تھا شاید نئے رشتے کا احساس تھا یا کچھ اور وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا پھر ایک دم ہوش میں آیا اور اس کو اپنے سے الگ کیا اور بولا
” یہ رونا دھونا بند کرو جو ہوا ہے تمہاری ہی رضا تھی نا اس میں تو پھر رونے کا فائدہ ” مرال کا بازو اب بھی سختی سے اس نے پکڑا ہوا تھا
” بکواس لگتی ہیں تم جیسی لڑکیاں مجھے۔۔۔۔۔اور روتی ہوئی تو ذہر لگتی ہو” وہ تکلیف سے اور رونے لگی تو جبران نے ایک اور تھپڑ اسے مارا “منہ بند نہیں کرو گی تو ایک اور لگے گا۔۔۔۔۔ چپ کرو۔۔۔۔ بالکل چپ۔۔۔۔۔” مرال خوفزدہ سی آنسو روکنے کی کوشش کرنے لگی
” دفع ہو جاؤ تم۔۔۔۔۔ اور ہاں گھر والوں کے سامنے یہ روتا بسورتا منہ لے کے گئی تو جان لے لوں گا تمہاری سمجھ آئی” اس نے جھٹکے سے اسے چھوڑا
“ماما نے مجھے تمہیں خوش رکھنے کا کہا ہے سو خوش ہی نظر آنا اور اگر۔۔۔۔۔” وہ دوبرہ اس کے قریب آیا ” کسی کے سامنے یہ آنسو باہر آئے تو تمہارا وہ حشر کروں گا کہ یاد رکھو گی” وہ اسے وارن کراتا تیار ہونے لگا
” اب کھڑی کیوں ہو جاؤ فریش ہو کے آؤ نئی دلہن کو پہلی صبح فریش ہی نظر آنا چاہیے نا” وہ گھبرائی ” جی ” کہہ کر واشروم میں چلی گئی
واشروم سے وہ آئی تو وہ بیڈ پہ بیٹھا تھا اس کے بھیگے لمبے بالوں کو دیکھ کر بولا
” ہمممم گڈ۔۔۔۔۔ عقلمند ہو چلو اب تھوڑا میک اپ بھی کرلو تاکہ رخسار پر سے میری محبت کے نشانات چھپ جائیں” وہ نظریں جھکائے ڈریسنگ ٹیبل کی طرف گئی اور تیار ہونے لگی لائیٹ یلو کلر کی مناسبت سے اس نے ہلا سا میک اپ کیا تو جبران بولا
” اونہہہ۔۔۔۔۔ نئی دلہن کے لیے تو یہ کلر بہت لائیٹ ہے” اور وارڈ روب سے میرون کلر کی فراک نکالی “جاؤ یہ چینج کر کے آؤ”
” پر۔۔۔۔۔” وہ کچھ کہنے لگی تو وہ غصے سے ہاتھ اٹھا کہ بولا
” بس۔۔۔۔۔زیادہ بولتی عورتیں پسند نہیں مجھے جاؤ” وہ خاموشی سے گئی اور چینج کر آئی
” اب میک اپ کرو اور ہاں تھوڑا ڈارک کرو یہ نشان چھپاؤ میری ماں کو پتا نہ لگے” اپنی ماں کا کتنا خیال تھا اسے اور خود بھول بیٹھ تھا کہ جس کو وہ بیاہ کے لیا ہے وہ بھی کسی کی بیٹی ہے اس کی ماں کا بھی تو دل ہے مرال نے سوچ اور خاموشی سے تیار ہونے لگی
” مسکراتی رہنا سمجھی” جبران نے اسے باور کرایا تیار ہو کے وہ دونوں ساتھ ہی روم سے باہر آئے ایک زبردستی کی مسکراہٹ اس نے نے ہونٹوں پہ سجالی تھی سب سے مل کے وہ لوگ ناشتے کے لیے ڈائیننگ ہال میں پہنچے رافعہ کب سے مرال کو دیکھ رہی تھی جو مسکرائے جا رہی تھی اور جبران کو جو خلاف عادت مدکرا رہا تھا
” ماما دیکھیں تو سہی بھابی کے آجانے سے بھائی کی مسکراہٹ کو بریک ہی نہیں لگ رہے ہیں مسکرا ہی رہے ہیں” نشاء چھیڑنے والے انداز میں بولی
” اوہ گوشت کی پہاڑی تم خاموش ہی بیٹھو اب اگر اتنا کھا کے بھی تمہیں نظر نہیں لگتی تو کیا بھائی بھابی کو بھی نہیں لگے گی کیا۔۔۔۔۔ بندہ ماشآاللٰہ ہی بول دیتا ہے بد نظر کہیں کی” زیان بولا تو نشاء چڑ گئی سارہ ہنسنے لگی
” تم چپ کرو تم سے پہلے دل میں بول چکی ہوں میں ماشآاللٰہ۔۔۔۔۔ اور بائے دا وے میری صحت سے جلتے کیوں ہو تم بھی ہو جاؤ میری طرح”
” اللٰہ معافی۔۔۔۔۔” زیان نے ہاتھ جوڑے ” تم جیسا ہو کے کنوارا تھوڑی مرنا ہے”
” ماما۔۔۔۔۔ماما دیکھیں زیان کو” نشاء نے ماما کو آواز لگائی جو کچن میں تھیں سب ہنس رہے تھے سوائے مرال کے کچھ دنوں پہلے وہ بھی تو ان میں ہی شامل تھی اور اب۔۔۔۔۔
جبران نے اس کا ہاتھ پکڑا وہ چونکی
” مسکراؤ کیا کہا تھا میں نے” وہ کان کے قریب آکے بولا اس نے سر ہلایا
” اوہ ہو بھائی بپلک پلیس ہے یہ تھوڑا آوائیڈ شاوائیڈ کریں اور اگر ضروری بات ہے ےو پلیز روم میں چلیں جائیں یہاں ان میرڈ بچے بیٹھے ہیں” زیان نہیں دیکھ کر بولا تو مرال جھینپ گئی اور وہ مسکرادیا اتنی دیر میں ناشتہ بھی آگیا اور بڑے بابا ماما بھی آگئے اور سب ناشتہ کرنے لگے۔
——-
آج ان کا ولیمہ تھا وہ لوگ گھر پہنچے نشاء مرال کو روم میں لے جانے لگی مرال کا آج کا ڈریس پنک کلر کا تھا دلہن کے لوازمات سے سجی وہ نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تھی پورے ولیمے میں وہ زبردستی مسکراتی رہی اسے لگ رہا تھا بہت جلد وہ مر جائے گی
” نشاء تم جاؤ میں لے کے چلی جاؤں گی مرال کو روم میں” نشاء سر ہلا کے چلی گئی تو رافعہ نے مرال سے پوچھا
” مرال بچہ سب ٹھیک تو ہے نا۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے جبران کا رویہ۔۔۔۔۔” مرال انہیں دیکھ کر رہ گئی کیا بتاتی انہیں کہ ان کے بیٹے نے اسے قبول ہی نہیں کیا جو اس سے بے حد نفرت کرتا ہے جو اس پہ پہلی رات اور پہلی صبح ہی ہاتھ اٹھا چکا ہے
” مرال بولو نا بیٹا” رافعہ اس کی خاموشی سے گھبرائیں اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں اس نے نظریں اٹھئیں تو سامنے جبران کو پایا
” کیا ہو رہا ہے بھئی” وہ ان دونوں۔کو دیکھتا ہوا بولا
” مرال اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے تم بتاؤ اس نے کچھ کہا تو نہیں تمہیں” ماما بولیں جبران نے مرال کو دیکھا
” بتاؤ مرال میں نے کچھ کہا ہے تمہیں” وہ اس کی۔طرف دیکھ کے بولا اور مسکرایا مرال زخمی سا مسکرائی
” نہیں۔۔۔۔۔ نہیں بڑی ماما انہوں نے کچھ نہیں کہا مجھے”
” سہی بتاؤ مرال مجھے یقین نہیں۔۔۔۔۔ جبران تمہیں میں جانتی ہوں تم اور آرام سے مان جاؤ ” انہو نے پہلے مرال اور پھر جبران کو دیکھ کے کہا
” میں سچ کہہ رہی ہوں۔۔۔۔۔ سس سب ٹھیک ہے”
” ماما میں مانتا ہوں کہ میں نے وہ سب بولا تھا پر کل تو سیدھا انہوں نے میرے دل پہ انٹری ماری ہے” وہ دل پہ ہاتھ رکھ کے بولا تو روشانے بڑی ماما کے سامنے نہ چاہتے ہوئے بھی جھینپ گئی رافعہ نے اس کا گلابی چہرہ دیکھا تو مطمئن ہو گئیں۔
——-