تمام گوائیاں اور ثبوت شیرلالہ نے ان لوگوں کے خلاف اگھٹے کر لیے تھے ۔کیس ہر لحاظ سے ان کے حق میں تھا مقدمے کا فیصلہ سنایا جانا باقی تھا ان لوگوں کو کڑی سے کڑی سزا ملنے کی قوی امید تھی کہ اچانک سب کچھ بدل گیا وہ جو عورتوں کے حق کی بات کر رہا تھا ایک لڑکی کو بے آبرو کرنے والے کو انجام تک پہنچا دیا جائے کہ ایک لڑکی کا الزام اس پر لگ گیا ۔
ایک بکھرے حلیے میں لڑکی چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی۔اپنے ہی آفس موہ سب کو یقین دلانے کی کوشش کر رہے تھے ایک کامیاب وکیل جس کے اگے کوئی ٹک نہیں سکتا تھا وہ گردن جھکائے کھڑا تھا سب ثبوت ان کے خلاف تھے مظلوم لڑکی اپنے اوپر ہوئے ظلم کی داستان رو رو کر سنا رہی تھی میں خبر ملتے ہی پاکستان آ گیا بی جان اور کیتی بھابھی کا رو رو کر برا حال تھا ۔ہمیں ان کی بےگناہی کا یقین تھا میں ان کو حوصلہ دیتا اور سبق پڑھاتا سب سے اچھا وکیل کیا ۔۔ان کو تسلی دیتے کے ہم سب ان کے ساتھ ہیں ۔مگر وہ ثابت کیے بنا اس دنیا سے چلے گئے ان کے اس طرح خود کشی سے بہت لوگوں کو یقین ہو گیا بے ان کی بے گناہی کا کچھ کو نہیں بھی ہوا۔
ان یقین نہ کرنے والوں میں میرے چچا کی فیملی سرفہرست ہے ۔میری بچپن کی منگیتر پلوشا نے سب کی طرح مجھ سے قطع تعلق کر لیا ۔ہم بہت اچھے دوست تھے۔بہت آپس میں بنتی تھی مگر بڑے آرام سے سب رشتے توڑ گئی کیونکہ میں بدکردار بھائی کا بھائی تھا ۔
میں شیرلالہ سے زوبیہ کا موازنہ کرتا ہوں تو یہ مجھے اس مضبوط مرد سے زیادہ طاقتور لگتی ہے لیکن مجھے ڈر ہے کئ وہ بہادری کے سارے تخمے اتار نہ پھینکے اور وہ بھی بزدلانہ فیصلہ نہ کر دے۔انہیں اس کی آواز میں ہلکی سی نمی محسوس ہوئی ۔
بہت سارے لوگ دیکھنے میں کتنے خوش باش لگتے ہیں ۔ایسا لگتا ہے انہیں کوئی غم نہیں قریب جا کر دیکھو تو پتا چلتا ہے کہ سچائی یہ نہیں ۔دنیا واقعی آزمائش گاہ ہے ۔
انہوں نے گردن موڑ کر اپنے سے بہت پیچھے رہ جانے والے اسفندیار کو دیکھا جو خاموش کھڑا آتی جاتی لہروں کو دیکھ رہا تھا کسی خیال میں گم۔
اندھیرا ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا ۔مگر وہ اس اندھیرے میں بھی روشنی پا رہے تھے ۔ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے انہیں گہری نیند سے بیدار کیا ہو ۔
بہت یادیں اور آنسو کی برسات تھی جس نے وہاں موجود ہر چیز کو دھندلا کر دیا ۔اس سمندر کو بھی ۔
بھائی آبی نے آپ کو بہت زور سے مارا ہے نا لاؤ میں دوا لگا دوں۔
وہ سترہ سال کا لڑکا بغیر بتائے لڑکوں کے ساتھ سینما چلا گیا آتے ہی باپ نے بہت مارا اور پھر ایک چھوٹی سی بچی اس کو پیار کر کے دلاسہ دے رہی تھی اور بہت افسرده ہو رہی تھی وہ یہ سوچ کر اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لب لب بری ہوئی تھی ۔
کیا کر رہی تم میرے کمرے میں منظر بدل گیابچی زرا بڑی ہو گئی ۔میں آپ کا روم صاف کر رہی ہوں دیکھیں میں نے آپ کے سب کپڑے کیسے رکھے وہ بڑی محبت سے صاف ستھرے طے ہوئے کپڑے دیکھا رہی تھی
تمہیں میری چیزوں کو ہاتھ لگانے کی جرت کیسے ہوئی وہ لڑ کے مارے چند قدم پیچھے ہوئی
ایندہ میری کسی چیز کو ہاتھ لگایا تو ہاتھ توڑ دونگا ۔
گیٹ لاسٹ”
وہ دھاڑاتھا اور وہ سہم کر بھاگتی ہوئی کمرے سے نکل گئی تھی،مگر اسکی آنکھوں میں شکوہ صاف نظر آرہا تھا۔باپ کے رویے سے بد ظن ہو کر وہ دونوں بھائی گھر سے باہر سکون تلاش کرتے تھے
باپ کا رویہ بیٹوں کے ساتھ بھی حاکمانہ تھا
وہ بھی اسکی رعایا تھے،مگر ان کے پاس گھر سے باہر ایک وسیع دنیا تھی۔جہاں ان کے بہت سے دوست تھے،بہت سی مصروفیات تھیں،ان کی زندگی اس چاردیواری تک محدود نہ تھی جو وہ کسی احساس کمتری کا شکار ہوجاتے یا تنہائی محسوس کرتے۔ایسے میں انہیں کبھی اس لڑکی کا دھیان ہی نہیں آیا جو ان کی اکلوتی بہن تھی۔،جس پر زندگی ہر طرح تنگ تھی،ماں کے مرنے کے بعد وہ اور تنہا ہوگئی اور خود وہ شادی کے بعد اپنی نئی زندگی میں بڑے مطمئین اور مگن ہوگئے ۔
ہاں اس سے غلطی ہو گئی تھی،مگر اس کی غلطی سے بھی زیادہ بڑی غلطیاں تو وہ کرتے رہتے تھےاور وہ بھی مسلسل۔کبھی انہوں نے سکون سے بیٹھ کر یہ بات سوچنےکی کوشش کیوں نہ کی کہ گھر کے افراد کے مابین ہونے والی ایک بات کا تزکرہ سارے خاندان میں کس طرح ہو گیا،ساتھ رہتے انہوں نے کبھی اپنی بیوی کی بری عاداتوں کو سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔بیوی کو بیوی بنا کر کیوں نہیں رکھا۔اگر وہ غیرت مند تھے،عزت پر جان دینے والے تھےتو انہیں اس بات کو اپنے گھر سے باہر نکلنے سے روکنا چاہئے تھا،وہ ایک غلطی کے بعد بدل گئی تھی،مگر آگے جو کچھ ہوااس کے ذمہ داروں میں وہ سب سے اگے تھے۔ ابی اپنے پچھتاووں میں کھوئےاور وہ دونوں بھائی نام نہاد غیرت کا راگ الاپنے میں مصروف ۔
“شیما بھابھی بھائی کو سونے سے پہلے یہ دوا ضرور دے دیجئےگا”
وہ بظاہر بند آنکھوں سے اس کا پر تشویش لہجہ سن رہے تھے۔کیسا عشق تھا اسے اپنے بھائیوں سے،جو اسے منہ نہیں لگاتے تھے،اس سے بات کرنا پسند نہیں کرتے تھے،اس وقت ان کے دل میں اس کے لیے سوئی ہوئی محبت اچانک بیدار وہ گئی تھی۔
وہ اسے ابی کی دن رات ایک کر کے خدمت کرتے ہوئے دیکھتے۔ابی سے لیکر اپنے بھتیجے بھتیجیوں تک۔وہ۔ہر ایک سے بے انتہا محبت کرتی تھی۔سب کا۔خیال۔رکھنا جیسے اس پر فرض تھااور وہ۔خواب میں اسے کیا دے رھے تھے۔صرف نفرت،حقارت اور اس کے اپنے ہی گھر میں اسے تیسرے درجے کے شہری جتنے حقوق۔
وہ اپنے کلاس فیلو کا رشتہ آجانے پر چوروں کی طرح سب سے منہ چھپائے پھر رہی تھی۔کیا اسکا اتنے برسوں کا زندگی گزارنے کا ڈھنگ ان لوگوں کے سامنے نہ تھا۔انہوں نے کبھی یہ بھی نہیں سوچا کہ اتنی محبت سے رشتہ مانگنے والے کبھی دوبارہ ان کے گھر کیوں نہیں آئے۔ان کی آنکھوں سے گرنے والے تمام آنسو اس لڑکی کے نام تھے،جسے وہ بہن کہتے ہوئے ہچکچاتے تھے۔جس کے ساتھ تعلق اور وابستگی نے انہیں برسوں ندامت میں مبتلا کیے رکھا تھا۔
منظر پھر بدل گیا تھا اب وہ چیخ چیخ کر سب کو برا بھلا کہہ رہی تھی ۔فرمان کا ہاتھ بےخوفی سے پکڑ کر وہ چلا رہی تھی۔
“تم سب زلیل ہو ،بے غیرت ہو،تم لوگ مجھے کیا نکالو گے میں خود تمہارے اس گھر پر تھوک کر جا رہی ہوں ۔”
وہ چپ چاپ تماشائی بنے کھڑے رہے تھے۔حالانکہ اس لمحہ ان کے دل نے اس کے حق میں گواہی دی تھی،مگر وہ دل کی بات سننے پر آمادہ ہی کب تھے،وہ بھائیوں کے ہوتے بےامان ہو گئی تھی۔
” میں آپ لوگوں کو ستانےواپس نہیں آؤں گی،آپ لوگ چاہیں تو سب سے کہہ دیجیئے گا کہ زوبیہ ہمیشہ کی لیے چلی گئی ہے یا مر گئی ہے”
” ہم نے تمہیں جیتے جی مار ڈالا،زوبی!کبھی پلٹ کر دیکھنے بھی نہیں گئے کہ ہماری بہن کس حال میں ہے۔یہ کیسی انا تھی،کیسی ضد،کس بات کا غصہ تھا۔”
وہ نڈھال ہو کرساحل کی گیلی ریت پر بیٹھ گئے تھے ۔گزرا ہوا وقت واپس کس طرح لایا جا سکتا تھا،اب جب اپنی ہر غلطی نظر آنی شروع ہو گئی تھی تو دل کو اس ملال نے گھیرے میں لے لیاتھا کی اپنی زیادتیوں کا ازالہ کس طور ہو۔۔
اپنے کندھے پر ہلکا سا دباو محسوس کر کے انھوں نظر اٹھا کر دیکھا تو اسفند یار اپنے برابر میں بیٹھا نظر آیا۔۔۔”مجھ سے بہت بڑی زیادتی ہوگئی اسفند اس گناہ پر تو شاید خدا مجھے کبھی معاف نہیں کریگا”
وہ گلوگیر لہجے میں بولے تھے۔۔۔
مگر تمھیں پتہ ہے جس روز سے وہ گھر سے گئی ہے میں سکون کی نیند نھی سویا۔
اب تو قدرتی نیند سوئے عرصہ ہوگیا اکثر وحشت سے آنکھ کھل جاتی ہے میری میں اسے کاروباری تھکن سمجھ کر خود کو دھوکا دیتا رہا۔
تم نے ٹھیک کہا تھا کہ جب ہم کچھ غلط کرتے ہیں تو ہمارا ضمیر ہمیں کچوکے لگاتا ہے جواب طلبی کرتا ہے ہم نہ سمجھیں وہ الگ بات ہے۔۔ہ
وہ خاموشی سے اس اونچے پورے مرد کو روتا بکھرتا دیکھتا رہا۔۔۔
اسے اپنی آنکھوں پر یقیں نہیں ارہا تھا ایسا کیسے ہوسکتا ہے ۔وہ حیران تھی کہ سامنے کھڑا شخص واقعی اسکے سامنے ہے یا دھوکا ھے۔۔۔اسے لگا وہ شاید اب جاگتے ہوئے خواب دیکھ رہی ہے۔۔ہ۔اسے اسی طرح گم صم دیکھ کر وہ ایک قدم آگے بڑھکر بانہیں پھیلائے تھے۔۔۔
(مکمل ناول پڑھنے کے لیے فس بُک پیج ناول ہی ناول لائیک کریں)
زوبیہ مجھ سے ملوگی نہیں؟؟۔۔یہ آواز کتنی جانی پہچانی تھی مگر لہجہ قطعا نا مانوس۔۔!!
وہ انکی طرف ایسے آہستگی گے بڑھی جیسے اسے پتہ تھا کے وہ بڑھے گی اور وہ غائب ہو جائینگے۔
مگر نہ وہ غائب ہوئے نہ منظر بدلا ۔۔اس سے ایک قدم فاصلے پر اسکا بھائی کھڑا تھا اور اس مے پیچھے وہ شخص مسکراتی نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا جسے وہ اپنے تمام کھوئے ہوئے رشتوں کی طرح رو چکی تھی۔اپنے حساب سے جس نے اسے کھو دیا تھا۔۔۔
بھائی۔۔!چیخ کی صورت یہ لفظ اسکے منہ سے نکلا۔۔
اگلے پل وہ انکی بانہوں میں چھپی تھی اور زار و قطار رو رہی تھی اسے چپ کراتے کراتے وہ خود بھی رو پڑے۔۔
چلو زوبی میں تمھیں گھر لے جانے آیا ہوں تمھارا گھر تمھارا انتظار کر رہا ہے۔۔
وہ حیرت سے انکو تکنے لگی۔۔وہ اس کا سوال سمجھ گئے تھے۔۔ہم نے تمھارے ساتھ بہت زیادتی کی ہے۔۔گزرا وقت واپس نہیں آسکتا ۔۔میری جان -!!میں اپنی ہر زیادتی کا ازالہ کرونگا۔۔
اسفند یار بہن بھائی کے اس ملن پر طمانیت محسوس کرتا خاموشی سے چلا گیا۔۔۔ساری رات جاگ کر وہ دونو آپس میں بہت سی چھوٹی۔۔۔۔
چھوٹی باتیں کرتے رہے جو کبھی نہیں کی تھیں۔۔
اذان کی آواز پر دونوں چونکے۔۔۔
جب ہم۔اللہ سے شکوہ کرنے میں دیر نہیں کرتے تو شکر میں کیوں۔۔؟؟
وضو کرتے وقت اسنے سوچا۔۔
وہ ہسپٹل کےتمام وارڈز میں گھومتے وہاں کے لوگوں سے اسکی تعریفیں سن رہے تھے۔۔۔کسی نہ کسی کے پاس اسکے بارے میں قابل ذکر بات موجود تھی
وہ حیرانگی کے ساتھ فخر محسوس کررہے تھے۔۔
وہ جانے سے پہلے اس سے ملکر جانا چاہتی تھی۔۔جس نے اسکی زندگی سے خار ہٹائے تھے۔۔
لیکن جانے کا وقت آگیا پر اس سے بات کس موقع نہ ملا۔۔
کیا کہنا چاہتی ہو۔۔۔وہ جاتے وقت پیچھے رہ گئی تھی اور وہ دانستہ۔۔۔سب پارکنگ کی طرف بڑھگئے تھے جبکہ وہ دونوں کوریڈور میں آمنے سامنے موجود تھے۔۔
“لیکن اس سے پہلے یہ بتائو تم نے صرف ان دودنوں میں میرے بارے میں کتنی منفی سوچیں سوچ ڈالی تھی سچ بتانا؟؟”
خفگی سے پوچھا
آپ نے کچھ کہا جو نہیں تھا کوئی بھی تسلی۔۔۔وہ اعتراف کرتے ہوئے بولی۔۔۔
مجھےبعمل کرنا پسند ہےتمھارے پاس بیٹھ کر تسلی کے بجائے میں سب ٹھیک کر نے چلا گیا تمھیں پتہ ہے مجھے تقریریں پسند نہیں۔۔آپ نے میرے لئے اتنا کچھ کیا کہ میں۔۔۔۔
اسنے زوبیہ کی بات فورا کاٹی
اب خدا کیلئے یہ شکریہ کرنے مت بیٹھ جانا میں نے جو کیا صرف اپنے لئے کیا۔۔۔
اسکو یہ بات سمجھ نہ آئی اسفند اسکی حیرانگی بھانپ گیا
ہو نہ بےوقوف ایسے میری بات سمجھ نہیں آئیگی جب تک تقریر نہ کردوں۔۔۔
وہ آج اپنے بےوقوف کہے جانے پر ناراض نہیں ہوئی تھی۔۔
میں وہاں اپنے لئے گیا تھا کیونکہ تمھاری عزت میری عزت ہے۔۔تمھارے خوشی غم سب میرا بھی ہے ۔۔۔اسی لئے میں وہان اپنے لئے گیا۔۔۔تم مجھ سے روز یہ سننا چاہتی تھیں ۔۔میں نے تمھارےچہرے پر لکھی خواہش پڑھی تم تسلی چاہتی تھیں مگر تم سے یہ باتیں کہتے ہوئے میں تب اتنا اچھا۔۔۔ Chilli Milli
Pg 185
محسوس نہیں کر سکتا تھا جتنا آج کر رہا ہوں ۔ اب یہ بولتے ہوے مجھے ایسا نہیں لگ رہا کہ میں کھوکھلے لفظ ادا کر رہا
ہوں وہ بس خاموشی سے ایک ٹک ایسے دیکھ جا رہی تھی۔ اس نے اس کے ہاتھ بڑی محبت سے اپنے ہاتھوں میں لیے اور بہت مستحکم لہجے میں بولی۔
“وہ سب لوگ جو مجھ سے پیار کرتے ہیں ۔ میری عزت کرتے ہیں۔ انہیں تم سے بھی اتنا پیار کر پڑے گا جتنا مجھ سے کر تے ہیں تمہاری بھی اتنی عزت کرنی پڑے گی جتنی میری کرتے ہیں۔ تم چاہو تو اسے میری طرف سے کوئی وعدہ سمجھ سکتی ہو, کوئی عہد کوئی پیمان ۔”وہ پاس کھڑا اس کی آنکھوں میں جھلملاتے ستارے دیکھ رہا تھا جبکہ وہ دل ہئ دل میں کہہ رہی تھی۔
تمہارے آنے کئ خوش خبری میری امی نے برسوں پہلے مجھے دے فی تھی۔ امی آپ نے بالکل سچ کہا تھا واقعی ایسا شخص میری زندگی میں آچکا ہے وہ جو مجھ سے صرف پیار ہی نہیں کرتا بلکہ میری عزت بھی کرتا ہے۔ ”
وہ دونوں ساتھ چلتے ہوے سیڑھیوں کئ طرف بڑھے تھے ۔ اسفندیار آہستہ آواز میں اس سے مخاطب ہوا تھا۔
اور یہ بھی یاد رکھو زوبیہ انقلاب کا نعرہ لگا دینے سے انقلاب آہیں جاتا۔ اس کے لئے بہت سی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ مسلسل جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ تمہیں حجت۔ کے مرنے کا دکھ ہے مگر یہاں مسلہ ایک حجت کا نہیں ۔ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر عورتوں پر ہونے والے مظالم پر ڈھکا اظہار کرنے سے عورت عورتوں کا دن منانے سے ان کے حقوق کے لیے واک کرنے سے ان کے مسائل کبھی بھی حل نہیں ہو سکتے ۔ ہم دن منانے اور جذباتی نعرے لگانے والی قوم ہیں لیکن کسی کو تو عملی قدم اٹھنا ہی ہوگا اور وہ کسی میں اور تم کیوں نہیں ہوسکتے ہم اپنے اسی گاؤں سے ہی کیوں نہ شروعات کریں۔ جس طرح میں نے ہاسپٹل کا خواب دیکھا تھا اسی طرح ہم یہاں ایک سکول بھی سکتے ہیں۔ ہماری یہ کوشش بہت چھوٹی بہت معمولی سی ہی سہی لیکن یہ اطمینان تو ہوگا کہ ہم نے اچھائی کئ طرف ایک قدم تو بڑھیا ہی ہے۔
کیا پتا یہ ننھا سا دیا آگے جا کر کتنے چراغ روشن کرنے کا باعث بنے کیا پتا وہ صبح بہار آہی جائے, جب کوئی حجت ظلم کی چکی میں پستی اپنی جان سے نہ چلی جائے۔ میں کتابوں میں لکھی ہر بات سچ کرنا چاہتا ہوں۔ تم اس کام میں میرا ساتھ دو گی۔۔ ؟
وہ پارکنگ کے پاس پہنچ گے تھے۔ گاڑی کے پاس کھڑے سب لوگ ان ہئ کے منتظر تھے۔
ہاں میں ہمیشہ آپ کا ساتھ دوں گی۔۔ اس نے صدق دل سے اسے اپنی وفاوں کا یقین دلایا تھا۔ ڈاکٹر شہروز ,ڈاکٹر آصفہ شہاب تاجدار سسٹر رضیہ سب لوگ اسے خدا حافظ کہنے ریحان بھائی کے ساتھ کھڑے ہوے تھے۔
آپ کے جانے پر اصولا تو ہم لوگوں کو افسردہ ہونا چاہیے تھا مگر سنا ہے کہ یہ جانا عارضی ہے۔ اب ہوسکتا ہے کہ یہ ڈاکٹر شہروز کا پھیلایا ہوا کوئی پروپیگنڈا ہو مگر سننے میں یہی آیا ہے کہ آپ کچھ ہی دنوں میں واپس آجائیں گئ۔ ہمیشہ یہاں رہنے کے لئے۔ ”
شہاب نے بڑی شوخ سی مسکراہٹ سمیت اسے مخاطب کیا تھا۔ اس بات پر اس کے پیچھے کھڑا اسفندیار بھی ہنس پڑا تھا۔
ڈاکٹر شہروز نے آپ کو بالکل ٹھیک بتایا ہے۔
اس نے مسکراتے ہوے اعتراف کیا تو وہاں موجود سب ہی لوگ ہنس پڑے تھے ۔ سب کو خدا حافظ کہتی وہ گاڑی میں بیٹھ چکی تھی۔ گاڑی لمحہ لمحہ اس چھوٹے سے گاؤں سے دور ہوتی چلی جا رہی تھی مگر وہ وہاں سے دور جانے پر بالکل بھی اداس نہیں تھی ۔ اسے پوری عزت اور چاہتا کے ساتھ واپس یہیں ہی آنا تھا ۔ جہاں وہ شخص اس کا بڑی شدت سے منتظر تھا جس سے مل کر اسے کھانوں میں لکھی ہر بات سچ کرنی تھی ۔کچھ دیے جلانے تھے۔ کچھ چراغ روشن کرنے تھے کچھ ایسے کام کرنے تھے جہنیں کرنے سے ہی انسان انسانیت کی معراج پر پہنچتا ہے ۔
ختم شد
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...