مگر فرمان بھائی ایسی زحمت کبھی کبھار ہفتوں میں کیا کرتے تھے ۔ وہ حس کے جاہ وجلال کے سامنے ایک دنیا کانپتی تھی۔ آج بے بسی کئ تصویر بنا نیز زمانہ دیکھتا۔
میں نے برسوں سے خاندان کی تقربیات میں آنا جانا چھوڑ رکھا تھا۔ آبی کے رویے کئ وجہ سے خاندان میں بہت کم لوگوں سے ہمارا میل ملاپ تھا اور ان میں سے بھی کسی کے گھر سے بلاوہ آتا تو میں جانے سے معذرت کر لیا کرتی تھی۔ ایسے ہئ ایک مرتبہ میری فرسٹ کزن کئ شادی کا بلاوہ آیا۔ شیما بھآبھی نے مجھ سے بڑے اصرار سے ساتھ چلنے کے لیا کہا۔ مجھے ان کے اصرار پر تعجب تھا اگر میں جاتی نہیں تھی تو کوئ بھی مجھ سے چلنے کے لیے نہ کہتا تھا۔ ان کے بضد ہونے پر میں جانے کے لیے تیار ہو گئ تھی۔ ان دنوں میں ویسی بھی بہت خوش تھی۔ میں نے اتنے برسوں میں پہلی دفعہ ریحان بھائی کی ناراضی کچھ کم ہوتی محسوس کئ تھی انہیں بہت تیز بخار ہوگیا تھا اور میں اب اس قابل تو ہو چکی تھی انہیں ملیریا کی دوا دے سکوں میں نے خوب دل لگا کر ان کا علاج اور تیمارداری کی تھی وہ بغیر کسی ڈاکٹر کے پاس گے ٹھیک ہوگئے تھے اگرچہ انہوں نے منہ سے کچھ نہیں کہا تھا مگر ان کی نظروں میں مخصوص نفرت اور مجھے زندہ دفن کر دینے کئ خواہش بھی نظر نہیں آتی تھی۔ میں نے اس بات پر غور ہی نہیں کیا تھا کہ شیما بھابھی سے یہ بات برداشت نہیں ہورہی تھی۔ وہ ہم دونوں بھائی بہن کو ساتھ بیٹھا دیکھ نہیں پائی تھیں اور اسی لئے مجھے خاص طور پر شادی میں لے کر گئی ۔ میں بہت سالوں سے رشتے داورں سے دور تھی مگر اس روز مجھ وہاں دیکھ کر جس طرح لوگوں نے سرگوشیوں میں باتیں کرنی شروع کی تھیں وہ مجھے یہ بات سمجھانے کے لئے کافی تھی کہ میرے مہربانوں کے توسط سے میری کردہ اور نا کردہ سب غلطاں طشت اڑنا ہو چکی ہیں۔
لوگوں کی نظریں ان کی سرگوشیانہ باتیں میرا دل ریزہ ریزہ کر رہی تھیں میں اپنے آنے پر پچھتا رہی تھی مگر گھر واپس آتے ساتھ ہی شیما بھابھی کو ریحان بھائی اور فرخ کے سامنے رو رو کر واویلا کرتے دیکھ کر میں سکتے کی کیفیت میں کھڑی رہ گئ تھی۔
کتنا دل دکھا ہے آج میرا وہاں سب کئ باتیں سن کر۔ میں کس کو سمجھاوں کہ بچی تھی نادانی میں ایک بھول ہو گئ اب اسے معاف بھی کردیں۔
زوبی کو دیکھ کر سب نے مجھ سے ایسی ایسی باتیں کیں کہ میرا دل چاہ رہا تھا ان لوگوں کا منہ توڑدوں۔ اور ریحان بھائی کی آنکھوں میں دوبار وہی غصہ وہی نفرت اور وہی خون اتر آیا ۔ میرا دوا پلانے کے لیے بڑھا ہوا ہاتھ انہوں نے غصہ سے جھٹک کر سب ہی کو اپنے کمرے سے نکال دیا تھا ۔ اگلے روز انہوں نے حنا کو صرف اتنی سی بات پر تھپڑ مار دیا تھا کہ اس نے اسکول کے سالانہ فنکشن میں ڈرامہ میں حصہ لے لیس تھا۔
رات میں ابی کے لئے کمرے میں کھانا لے کر گئ تو انہوں نے بہت غور سے میری طرف دیکھا تھا۔
تم روئی تھیں زوبی ؟؟ بہت دیر تک ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد اچانک۔ انہوں نے سوال کرکے مجھ بوکھلا دیا تھا۔
وہ برسوں پہلے کے اس واقعے کے حوالے سے یا کسی اور بات کے حوالے سے کبھی بھی مجھ سے کوئی بات نہیں کرتے تھے بات کی تو صرف پڑھائی کے حوالے سے۔
ابی !اگر ہم سے کوئی غلطی ہو جائے اور پھر بعد میں اپنی غلطی کا احساس بھی ہو جائے اور ہم اس پاک ذات سے اپنی غلطی کی معافی بھی مانگیں تو کیا وہ معاف کر دیتا ہے ؟ میں نے سر جھکائے جھکائے سوال پوچھا تھا ۔
بے شک وہ اپنے بندون کے گناہ معاف کر دیا کرتا ہے۔ وہ پر یقین لہجے میں گویا ہوے تھے ۔ اور لوگ ؟؟؟ میں نے ان کی طرف ایک پل کے لئے نظر اٹھا کر دیکھا تھا وہ میرے سوال پر چوک گئے تھے ۔
” لوگ نہیں معاف کرتے ہے نا ابی ؟” میرا لہجہ بہت ٹوٹا ہوا تھا ۔
اتنی صابر ماں کی بیٹی ہو کر ایسی باتیں کر رہی ہو۔ ” وہ میرے ہاتھ تھام کر ٹوکنے والے انداز میں بولے تھے اور پتا نہیں ابی کا رویہ ایسا کیوں تھا مجھ سے کچھ پوچھ بھی نہیں رہے اور امی کا نام لے کر نصیحت کر دی۔
پھر جس روز میں ایم بی بی ایس کا رزلٹ ہاتھ میں لیے ابی کے سامنے گئ تو اتنے برسوں میں پہلی بار انہوں نےمجھے سینے سے لگا لیا تھا ۔ ان کے گلے لگانے کی دیر تھی میں پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی تھی ۔ وہ پیار سے میرے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوے خود بھی رو پڑے۔ میں نے انہیں اس روز سے پہلے کھبی روتے نہیں دیکھا تھا۔
“تم واقعی ماہ طلعت کئ بیٹی ہو, با لکل اسی کئ طرح ہوبہو
جیسی “انکے بھیگے ہوۓ لہجے پر میں نے چونک کر سر اوپر اٹھا اٹھایا تھا
“ابی آپ رو رہے ہیں؟”
“نہیں یہ خوشی کے آنسو ہیں۔”وہ اپنےے آنسو صاف کرتے ہوۓ مسکراۓ تھے۔امی کی نظروں میں سرخرو ہونے کے احساس کیساتھ ساتھ اس روز مجھے پہلی بار اس بات کا ادراک ہوا تھا کہ زندگی ہر قدم پر ابی کے آگے جھکتی اور مسلسل شکست کھاتی امی’مرنے کے بعد اپنی ہر شکست کا بدلہ لیں گئ تھیں۔وہ دراصل پچھتاوں میں گھرے زندگی کی جنگ لڑ رہے تھےامی کا صبر ابی کے ہر ظلم پر حاوی ہوگیا تھا۔
ابھی میں اپنی اس خوشی کو ڈھنک سے منا بھی نہ سکی تھی کہ اسی روز میرے کلاسفیلو شعیب احمد کی والدہ اور بہنیں ہمرے گھر میرا رشتہ لے کر آگئ تھیں۔ وہ ہماری کلاس کا سب سے جینۂس لڑکا تھا؛ فاۂنل ایۂر میں بھی اسنے فرسٹ پوزیشن لی تھی۔کلاس فیلو ہونے کے ناتے تو میں اسے جانتی ہی تھی اور اسکی ذہانت کی وجہ سے دیگر کلاس فیلو بھی اس سے مرعوب بھی رہا کرتی تھی۔ وہ کلاس میں موجود ہوتا تو پروفیسرز کی حالت قابل رحم ہوا کرتی تھی’اسکے مشکل مشکل سوالات کے جواب دینا اچھے اچھوں کے بس کی بات نہیں تھی۔میرے علاوہ دوسری کئ لڑکیاں تھی جو مجھ سے زیادہ ذہین اور حسین تھی’اتنی بہت سی لڑکیوں کو چھوڑ کر اس نے ایک ایسی لڑکی کا انتخاب کیا تھا جس سے کالج کے پانچ سالوں میں کبھی دعا سلام تک نہ ہوئی تھی۔مجھے اس بات پر فخر ہونا چاہیۓ تھا’ااس نے اتنے سالوں تک میرا خاموش تجزیہ کیا تھا اور یقینا”میں اسے اس قابل لگی تھی کہ وہ مجھے اپنی زندگی میں شامل کرنے کی خواہش کر بیٹھا تھا مگر اپنے حالات بخوبی جانتے ہوۓ میں انکی آمد کا مقصد جان کر پوری جان سے کانپ گئ تھی۔ابی نے ان سے بہت اچھی طرح بات کی تھی۔ بڑی خندہ پیشانی سے ملے تھے’مگر میں شیما بھابھی اور نجمہ بھابھی کی نگاہوں میں لکھے شکوک و شبہات اور معنی خیز مسکراہٹ دیکھ کر دل ہی دل میں ڈر رہی تھی۔
ابی!میری اس سے کبھی کوئی بات نہیں ہوئی۔پڑھائ کی حد تک بھی نہیں۔پتہ نہیں اسنے اسطرح کیوں۔۔۔۔۔۔۔” ابی کے سامنے یہ وضاحت کرتے ہوۓ بھی میں شرم سے زمین میں گڑ رہی تھی۔
“اب کی بار کلاس فیلو سے چکر چلایا ہے’پتہ نہیں ایسی لڑکیوں میں کیا گٹس ہوتے ہیں جو مرد اس طرح انکی طرف کھینچے چلے آتے ہیں۔”
نجمہ بھابھی کسی کو فون پر بتا رہا تھی تو شیما بھابھی ریحان بھائی کو ممیرا تازہ ترین کارنامہ مکمل سسیاق و سباق کیساتھ سنا رہی تھیں۔۔میں بغیر سنے بھی جانتی تھی کہ مجھ پر کیا کیا الزامات لگاۓ گئے ہونگے۔اگلے روز ابی کو ریحان بھائی سے اس رشتے کے بارے میں بات کرتا سنا تھا۔
“مجھے وہ لوگ اچھے لگے ہیں’ لیکن تم پھر بھی لڑکے کے بارے میں چھان بیین کروالو۔” ریحان بھائی جوابا “خاموش رہے تھے” شاید انہوں نے یہ سوچا ہوگا کہ شادیی ہوجاۓ گی تو انکو میرری منحوس شکل سے تو کم از کم چھٹکارا تو نصیب ہو ہی جاۓ گا۔مگر کسی چھان بین کی وبت کی نوبت آئ ہی نہیں تھی’ابی’شعیب کے گھر والوں کی طرف سے کسی فون کال کے منتظر تھے اور وہاں سے پھر دوبارہ کوئ کبھی نیں آیا تھا۔
رشتہ لے کر آتے وقت اتنا جوش وخروش اور جلدی اور اسک بعد اتنی خاموشی اورر سناٹا’ میں نے محسوس کیا تھا کہ ابی لاشعورری طور پر سارا دن فون کے پاس بیٹھے رہتے تھے’ شاید اسی لیے کہ انہیں پتا تھا خاندان میں اور قریبی جاننے والوں میں سے تو کسی گھر سے میرا رشتہ آنے والا نہیں تھا’ یہ واحد رشتہ ہی میری شادی کی آخری امید تھی’ مگر ان لوگوں تک جو میرے کارناموں کی مفصل رپوٹ پہنچی تھی اسکے بعد وہ ہمارے گھر کیوں آتے۔
مجھے ان لوگوں کے نہ آنے کا کوئی ملال نہیں تھا’ مگر اس سب کے نتیجے میں جو مزید ذلت اور رسوائ میرے حصے میں آئ تھی وہ ناقابل برداشت تھی۔
“کلاس فیلو سے عشق لڑا لیا’ساتھ پڑھتے تھے’پانچ سال سے چکر چل رہا ہوگا” ایسی ہی کہیں باتیں مجھے لہولہان کرتیں اور میں چپ بیٹھی رہتی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس روز ابی کی طبیعت کافی خراب تھی’میں بیڈ پر ان کے پاس بیٹھی انکا سر دبا رہی تھی۔ وہ آہستہ آواز میں مجھے پتہ نہیں مجھے کیا بتا رہے تھے ۔
طارق روڈ کی ایک دوکان میرےنام ہے، لاکر میں رکھا امی کا سارا زیود میرا ہے، ابی نے اپنے اکاؤنٹ میں موجود سارا پیسہ میرے اکاؤنٹ میں ٹراسفر کروادیا ہے،۔
میں نے اکتاۓ ہوۓ انداز میں انھیں ٹوک دیا۔۔
“ابی مجھے یہ سب نہیں چاہئیے”۔
“پھر کیا چاہیۓ؟ ” وہ تھوڑا سا مسکراۓ تھے۔
“آپ کی دعائیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ یقین دہانی کہ آپ مجھ سے خفا نہیں ہیں ”
انہوں نے اپنے ماتھے پر رکھا میرا ہاتھ اپنے سینے پر رکھ لیا، ” میری سب دعائیں تمھارے ساتھ ہیں اور میں کیوں تم سے خفا ہونگا؟ ” وہ میری طرف دیکھ کر محبت سے بولے۔
“واقعی آپ مجھ سے خفا نہیں ہیں؟” میں نے دوبارہ پوچھا تو انہوں نے میرا ہاتھ پیار سے چومتے ہوۓ گردن ہلادی۔
“اچھا آپ میرے لۓ کیا دعا کرتے ہیں؟” میں نے لاڈ سے انکے گلے میں بانہیں ڈال کر پوچھا تھا اور وہ ہنستے ہوۓ بولے۔
“تمھیں کیوں بتاوں، یہ میرا اور میرے اللہ کا بڑا ہی پرسنل تعلق ہے۔ ”
۔۔۔۔ زندگی میں پہلی بار وہ مجھے اس طرح پیار کر رہے تھے، کبھی میرے ہاتھ چومتے، کبھی ماتھے پر بوسہ دیتے، میں اس پل بہت خوش تھی، مگر مجھے پتا نہیں تھا کے یہ پہلی بار ہی آخری بار بھی ہے۔ مجھ سے باتیں کرتے کرتے انہوں نے اپنی آنکھیں موندی تھیں۔ میں نے خود انکی دھڑکنوں کو خاموش ہوتے سنا تھا، میرے چیخنے پر سارا گھر وہاں جمع ہوگیا تھا۔
امی کے بعد اب ابی بھی۔ ایک ایک کر کے میرے اپنے مجھ سے چھنتے جارہے تھے، فرمان بھائ کو تو مجھ سے کوئ سروکار نہیں تھا مگر ریحان بھائ کو میں نے ابی کے بعد اکثر اپنی شادی کے متعلق فکرمند دیکھا تھا۔۔۔
ریحان بھائ کو کاروبار میں خاصا بھاری نقصان ہوا تھا، جو پیسہ ڈوبا وہ قرض لیا ہوا تھا، قرض کی ادائیگی کے لۓ فوری رقم کی ضرورت تھی ، انھیں الجھا الجھا اور پریشان دیکھ کر میں خود بھی پریشان ہوگئ تھی۔
سبب مجھے ریحان بھائی اور فرمان بھائی کی کھانے کی میز پر ہونے والی گفتگو سے پتا چلا تھا ۔میں نے اپنے اکاونٹ میں موجود دس لاکھ روپیہ انہیں دیا تو وہ لینے سے انکاری ہو گئے تھے مگر میں زبردستی انہیں وہ چیک دے دیا تھا اور ایسا کر کے مجھے خوشی ہوئی کیا پتہ اسطرح میرے بھائیوں کے دل میری طرف سے صاف ہو جائیں ۔
ان ہی دنوں نجمہ بھابی کے ایک کزن جو ہیوسٹن میں رہتا تھا پاکستان آئے یہاں ان کے قریب ترین رشتہ دار بھابی نجمہ ہی تھی اس لیے وہ ہمارے گھر رکے۔ان کی غیر ضروری گفتگو اور دولت کی نمائش مجھے بہت کوفت دیتی۔وہ آئے بھی شادی کے ادارے سے تھے اور سب کے ساتھ خوب انجوائے کر رہے تھے ۔میری ان سے واجبی سلام دعا ہوئی اگے پیچھے آتے جاتے وہ مجھے دکھ کر عجیب سی مسکراہٹ دیتا اور نجمہ بھابی کو شاید یہی خوف کے ان کا کزن مجھے پسند نہ کر لے اس رات میں سو چکی تھی جب میرا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا کوئی۔اندر اندھیرے کی وجہ سے آنے والے کا چہرہ پہچان تو نہیں پائی مگر اٹھ ضرور گئ تھی ۔وہ میری طرف بڑھا میں گھبراہٹ سے بیڈ سے آٹھ گئ۔آپکی ہمت کیسے ہوئی میرے کمرے میں آنے کی میں بغیر لحاظ کے چلائی وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے دروازہ بند کر کے پلٹا۔میں جس جگہ سے آیا ہوں میرے لئے یہ عام سی بات ہے اتنے غصے میں آنے کی کیا ضرورت ہے میں نے پورے زور سے اس کے چہرے پر تھپڑ مارا وہ لڑکھڑا گیا میں سمجھ گئ اس نے شراب پی رکھی ہے اس کی لڑگھڑاہٹ سے فائدہ اٹھا کر کمرہ کھول کر چلا چلا کر ریحان بھائی اور فرمان بھائی کو آوازیں دینے لگی ایک منٹ میں سب پہنچ آئے۔وہ مجھ سے ایسی توقع نہیں رکھتا تھا اس لیے بری طرح گھبرا گیا تھا
کیا ہوا ریحان بھائی کو دیکھ کر مجھے ایک دم رونا آ گیا اپنے ہی گھر میں غیر محفوظ تھی ابھی میں نے کچھ کہنے کے لئے لب کھولے شیما بھابی طنزیہ انداز میں بول پڑی
ہم تو سمجھتے تھے تم بدل گئی ہو بدلنا تو دور کی بات اب گھر میں ہی بھائیوں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہو میں ان کے الزام پر بلبلہ اٹھی جب غلطی پر تھی چپ کر کے ہر الزام سہا مار بھی کھائی مگر اب بے قصور یہ سب نہیں سہ پا رہی تھی میں نے کچھ نہیں کیا اگر آنکھوں میں دھول جھونکنی ہوتی تو ایسے نہ بلاتی سب کو میں بلند آواز میں بول رہی تھی ۔وہ تمارے ہی کمرے میں کیوں گیا حنا کے کیوں نہیں گیا ۔نجمہ بھابی اپنے کزن کو سر جھکائے دیکھ کر دانت پیستے ہوئے بولی۔
صرف اور صرف تم دونوں کی وجہ سے میں جنونی ہو کر ان کو جھنجوڑ ڈالا میں نے آپ لوگوں کا کیا بگاڑا تھا میں ان کو جھنجوڑ رہی تھی کے فرمان بھائی اگے بڑھ کر مجھے رکنا چاہا اور ہاتھ اٹھانے لگے میں نے بے خوفی سے ان کا ہاتھ روک لیا اس پل میں شاید اپنے آپ میں نہیں تھی ۔
زلیل بے غیرت ہاتھ روکتے شرم نہیں آئی پھر انہوں نے ہاتھ اٹھایا میں چند قدم پیچھے ہو کر چلائی تم سب زلیل ہو اب مجھ پر کسی نے ہاتھ اٹھایا تو میں اس کے ہاتھ توڑ دوں گی
نکالیں اسے ایک چوری اوپر سے سینہ زوری بجائے غلطی ماننے کے ہم پر چڑ رہی ہے وہ دونوں اپنے اپنے بول رہی تھی ۔تم لوگ مجھے کیا نکالو گے میں خود یہاں سے جا رہی ہوں جب میں چلی جاؤں تو ایک ایک کو فون کر کے بتانا کے ہماری نند گھر سے بھاگ گئی تم لوگ اس کام میں ماہر ہو نا۔
میں وہاں سے بھاگ کر کمرے میں آئی سب پر سکتا طاری بے زبان ایک دم اتنا بول کر سب کو حیران پریشان کر دیا میں اپنے گھر محفوظ نہیں چار دیواری میں عزت نہیں محفوظ تو کھلا آسمان برا نہیں ۔دو بھائیوں کو موجودگی میں محفوظ نہیں تو اس گھر میں رہا کیوں جائے ۔
رات بھر میں اپنا سامان پیک کرتی رہی میں روئی نہیں عجیب بے کسی نے مجھے لپیٹ میں لیا ہوا تھا ۔
خالہ امی میری امی کی کزن ہیں یہ بہت غریب راشتےدار دار تھی جن کی امی ساری زندگی مالی امداد کرتی رہی۔
اس معاملے میں امی کو ابی کی طرف سے کوئی روک ٹوک نہیں تھی امی اپنے رشتےداروں کی بہت خفیہ مدد کرتی تھی ان کے جانے کے بعد ابی نے وہی سلسلہ جاری رکھا مدد کا۔جب تک محسن بھائی کی جاب نہیں لگی وہ باقاعدگی سے انہیں پیسے بھیجنے رہے خالہ امی میرے امی ابی کی بہت احسان مند تھی مجھے بہت پیار کرتی میں نے ان کے گھر جانے کا ارادہ کر لیا ورنہ ان کے دھکے مار کر نکالنے کا انتظار کرتی۔گھر سے نکلتے وقت میں جب ریحان بھائی کے پاس گئ انہوں نے مجھے دیکھ کر نفرت سے منہ پھیر لیا ۔
میں خالہ امی کے پاس جا رہی ہوں چاہو تو کنفرم کر لینا فون کر کے ایسا نہ ہو یہ سوچو کے کسی کے ساتھ بھاگ رہی ہوں جھوٹ بول کر ۔اب میں دوبارہ کبھی واپس نہیں آؤں گئی لوگوں کو بول دینا ہمیشہ کے لیے چلی گئی یا مر گئی جو دل چاہیے بول دینا
وہ اسی طرح منہ پھیرے بیٹھتے رہے شیما بھابی جو ان کے برابر میں بیٹھتی تھی منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑا رہی تھی
گھر سے نکلتے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے اپنے گھر کو جی بھر کے دیکھا بے حسی کی کیفیت یک لخت ختم ہو گئی ۔
گاڑی تیز رفتاری سے چل رہی تھی اس سے بھی تیز رفتاری سے میری آنکھوں سے پانی بہہ کر میرا گربان بھگو رہا تھا
اور سب کی طرح خالہ امی بھی میرے بارے میں جانتی تھی مگر انہوں نے پھر بھی مجھے اپنے گھر میں پناہ دی
ماہ طلعت کی بیٹی ہونے کے ناتے ان کے احسان کے بوجھ تلے دبے بدلہ چکانا چاہتے تھے وہاں سب نے کھلے دل سے میرا ویلکم کیا۔میں جاب کرنے لگی زندگی سکون سے گزرنے لگی تھی میں نے اپنے آنے کی وجہ خالہ امی کو سب سچ سچ بتا دی۔انہوں نے میرے فیصلے کو درست مانا اور فرقان بھائی اور فرمان بھائی کو غلط کہتی تھی ۔کہ ان سے ایک بہن نہیں سنبھالی گئی میرا یہ سکون بھی کچھ ٹائم کا تھا ۔میری بدقسمتی میرا پیچھا کرتی ہوئی وہاں آ پہنچی
صرف ایک سال بعد میں دوبارہ گھر بدر ہو گئی ۔
میں زندگی سے مایوس ہو گئی تھی مجھے آنے والے وقت سے کوئی امیدیں نہیں تھی ۔
پھر میری زندگی کا نیا دور شروع ہوا اور میں یہاں پہنچ آئی۔شروع میں یہاں بہت گھبرائی رہی مگر سب بہت احترام عزت دیتے۔
ان سب میں کسی کو میری اصلیت پتہ چل جائے تو سب کے روایے بدل جائیں گے ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...