گزشتہ برس جب سوشل میڈیا پر عورتوں کے حقوق کے حوالے سے گرما گرم بحث جاری تھی اور ۸ مارچ کو عورتوں کے عالمی دن کی تیاریاں زور شور پر تھیں اور کہا جا رہا تھا عورت مارچ خواتین کے لیے مسلسل کم ہوتی ہوئی اسپیس کے لیے آواز بلند کرنے کا نام ہے۔ ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ، اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ہر عورت کا بنیادی حق ہے۔ ان حالات میں دنیا بھر کرونا وائرس کے بڑھتے ہوئے وار نے باقی تمام سرگرمیوں کو ختم کر دیا،سب لوگ مقید ہو کر رہ گئے۔ ان حالات میں حیدر قریشی کی مرتب کی گئی کتاب ’’ حیاتِ مبارکہ حیدر ‘‘ کو تفصیل سے پڑھنے کا موقع ملا ۔ کتاب کے سرورق پر اُن کی زندگی کے چار اہم ادوار کی تصاویر نے انسانی زندگی کی تغیراتی چال کی داستان سنا ڈالی۔
پہلے صفحہ پر قرآن پاک کی سورۃ البقرہ کی آیت مبارکہ ’’ تمہاری بیویاں تمہارا لباس ہیں اور تم اپنی بیویوں کا لباس ہو۔‘‘ کے حوالے نے مجھے دورِ حاضر کی اس بیوی کے کردار پر بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔ مبارکہ حیدر کی زندگی میں جب ایک مقالہ نگار نے اُن سے یہ سوال کیا کہ آپ دونوں میاں بیوی میں مکمل ہم آہنگی ہے ؟ تو اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’’ ایک جائز تعلق میں جتنی ہم آہنگی ہوسکتی ہے اتنی ہم دونوں میں ہے ،ویسے ہمارے Taste ایک دوسرے سے بالکل متصادم ہیں مگر رشتہ بہت ہی پکا ہے۔مرنے کے بعد بھی نہ ٹوٹنے والا۔‘‘اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ رشتہ مرنے کے بعد بھی نہ توحیدر قریشی کے دل و دماغ سے دور ہوا نہ ہی ان کے قلم نے اسے فراموش کیا۔ حیدر قریشی کی مرتب کردہ کتاب ’’ حیاتِ مبارکہ حیدر‘‘ جب مبارکہ حیدر کی وفات کے نہایت مختصر عرصے کے بعد منظر عام پر آئی تو جہاں بہت سے لوگوں کو ان دونوں شخصیات کی زندگی کے بارے میں مزید جاننے کا موقع ملا وہاں جس بات نے مجھے متاثر کیا وہ یہ تھی کہ اپنی علالت اور ہسپتالوں کے چکر وں یہاں تک کہ ہسپتال میں داخل ہونے کے باوجود بھی حیدر قریشی اس کتاب کو مرتب کرتے رہے۔ اپنے ہم سفر کی جدائی نے زندگی کی بے ثباتی کے احساس کو مزید شدید کر دیا اور حیدر قریشی اپنی علالت اور کمزوری کے باوجود جلد از جلد اس کتاب کو منظر عام پر لانا چاہتے تھے جس میں وہ کامیاب بھی ہوئے۔ عمر کے ایسے حصے میں جہاں پے در پے بیماریوں کے حملے انسانی دماغ پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں وہاں حیدر قریشی نے یہ ثابت کیا کہ وہ ذہنی اور جذباتی طور پر کس قدر مضبوط انسان ہیں اور اس کی بنیادی وجہ ان کا اپنی شریک حیات سے وہ مضبوط رشتہ ہے جسے اپنے بے لوث پیار، محبت، وفا ، خدمت اور دوستی سے مرحومہ سینچتی رہیں اور اپنی زندگی میں ہی یہ دعویٰ کر دیا کہ ’’ ہمارا رشتہ بہت ہی پکا ہے ، مرنے کے بعد بھی نہ ٹوٹنے والا‘‘ اور وقت نے اس وعدے کی صداقت کو ثابت کیا۔
حیدر قریشی اور مبارکہ حیدر جس کم عمری میں رشتہ ازدواج میں بندھے اور ساری عمر یک جان دو قالب کی طرح رہے تو ایسے مضبوط اور گہرے رشتے میں دونوں نے اپنے اپنے کردار کو اس رشتے کے حقیقی تقاضے کے مطابق نبھایا ۔ دونوں نہ صرف ایک دوسرے کا لباس بنے بلکہ حیدر قریشی نے تو اِس دنیا میں اپنے شریک سفر کے بچھڑ جانے کے بعد بھی اس لباس کی تزئین و آرائش کچھ ایسے انمٹ نقوش و نگار سے کی کہ مرحومہ پر بہ حیثیت ایک عورت رشک کیا جا سکتا ہے اور یہ بات سمجھ آنے لگتی ہے کہ عورت پوری دنیا کے سامنے جب اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاتی ہے تو مختلف مکتب فکر کے لوگ اس پر مختلف آرا کا اظہار کرتے ہیں لیکن جب ایک عورت ’’مبارکہ حیدر‘‘ کی طرح اپنے شوہر سے بے لوث محبت کر کے جو مقام حاصل کرتی ہے وہ کسی تحریک، کسی لانگ مارچ ،کسی پوسٹر کا محتاج نہیں۔ حیدر قریشی کی صحت اور زندگی کے لیے دُعا کرنے والوں کی کمی نہیں لیکن ایک مرد اگر اپنی بیوی کی قبر پر لگے کتبے پر مرحومہ کے نام کے ساتھ اپنا نام اور تاریخ پیدائش لکھ کر تاریخ وفات کی جگہ خالی چھوڑ دے اور اپنی زندگی میں اپنی بیوی کے پہلو میں خود اپنا مدفن مختص کرلے تو گویا آج کے دور میں یہ محبت کی ایسی مثال ہے جیسی شاہ جہاں نے اپنی زوجہ ممتاز کے لیے تاج محل تعمیر کر کے قائم کی تھی۔بادشاہِ وقت نے اپنی محبت کا اظہار اپنی مرحومہ بیگم کے لیے اس انداز میں کیا جب کہ حیدر قریشی جیسی ادبی شخصیت نے اپنی شریکِ سفر سے محبت کا اظہار اس انداز میں کیا جس کے بغیر زندگی کی وقعت نہیں رہی ،جس کا اندازہ حیدر قریشی کے اس شعر سے لگایا جا سکتا ہے جو دونوں کے مشترکہ کتبے پر درج ہے:
اور تھے حیدر جو اِس کی چاہ میں مرتے رہے
ہم نے الٹے ہاتھ سے جھٹکی ہوئی ہے زندگی
مبارکہ حیدر ایک صاف دل کی سچی اور ہمدرد خاتون تھیں۔ اگر چہ اُن کا ادب سے تعلق نہیں تھا لیکن ان کا وجود حیدر قریشی کی ادبی صلاحیتوں کو متحرک رکھنے میں سب سے اہم رہا جس کا اعتراف حیدر قریشی نے اپنی تحریروں میں بر ملا کیا۔حیدر قریشی کا یہ ماہیا دونوں میاں بیوی کے گہرے رشتے کی ترجمانی کرتا ہے۔
بیوی
اک روح کا قصہ ہے
میرے بدن ہی کا
جو گم شدہ حصہ ہے
حیدر قریشی نے اپنا مدفن مبارکہ کے پہلو میں مختص کر کے بدن کے رشتے کو اور اپنی محبت کے انمول رنگوں کو ادب کے قالب میں ڈھال کر روح کے رشتے کی گہرائی اور سچائی کو ثابت کیا اور یہ قابلِ رشک مقام بہت ہی کم خواتین کے حصے میں آتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ محبتوں کے یہ لازوال رنگ قائم رہیں اور وفائوں کی یہ دھنک اس رشتے میں جڑے تمام جوڑوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہو۔ (آمین)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...