(Last Updated On: )
غضب ہو گیا تھا۔۔۔
قیامت آ گئی تھی۔۔۔
یہ کیا ہو گیا تھا۔۔۔
سید احسان علی شاہ کے بڑے بیٹے نے چھوٹے بیٹے کی ہونے والی بیوی کو چنر اوڑھا دی تھی۔۔۔
گاؤں کے لوگ کانوں کو ہاتھ لگا رہے تھے۔۔۔ توبہ کر رہے تھے۔۔۔پھٹی آنکھوں کے ساتھ چہ مگوئیاں،سرگوشیاں بڑھنے لگیں۔۔
۔ بابا سائیں بے یقینی سے امیر حماد کو دیکھ رہے تھے۔۔۔ان کے ذہن کو سب سمجھنے میں کچھ پل لگ گئے۔۔۔
اچانک ان کے چہرے پر غیظ و غضب ابھرا۔۔۔
“امیر حماد۔۔۔” وہ غصے سے بے قابو ہو کر چلائے۔۔۔ امیر حماد ان کے اور مہر کے درمیان حائل تھے۔۔۔ “یہ کیا کیا تم نے۔۔؟؟” انہوں نے آگے بڑھ کر امیر حماد کو گریبان سے پکڑا۔۔۔امیر حماد بے تاثر نگاہوں سے انہیں دیکھتے گئے۔۔۔
“کس سے پوچھ کر۔۔۔ کس کی اجازت سے اسے چنر اوڑھائ۔۔۔؟؟ تم جانتے نہیں وہ میرے بیٹے کی ہے۔۔۔” وہ دھاڑے تھے۔۔۔
امیر حماد کے چہرے پر سختی ابھری تھی۔۔۔انہوں نے اپنے گریبان پر موجود بابا سائیں کے ہاتھوں کو پکڑا اور ہاتھ پکڑ کر نیچے کیے۔۔۔
“بابا سائیں۔۔۔ کب تک اپنی ہی بنائ گئ خیالی دنیا میں بھٹکتے رہیں گے۔۔۔بس ۔۔۔ اب ہوش کی دنیا میں واپس آئیں۔۔۔”
امیر حماد نے سختی سے ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ “حقیقتوں کو قبول کریں۔۔۔
یہ۔۔۔”
انہوں نے بازو سے پکڑا کر مہر کو آگے کیا۔۔۔”
یہ لڑکی مہر سلیمان ہے۔۔۔ نو شین فیضان علی شاہ نہیں۔۔۔” انہوں نے بلند آواز سے سب کو سنایا۔۔۔لوگوں کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔۔۔
“امیر حماد۔۔۔” بابا سائیں چلائے۔۔۔
” نہیں بابا سائیں۔۔۔”انہوں نے ہاتھ اٹھا دیا۔۔۔
“اب اس لڑکی کو اس کی پہچان واپس لوٹانی ہو گی آپ کو۔۔۔”
وہ دو ٹوک انداز میں بولے۔۔۔ “
آپ کی نو شین فیضان علی شاہ آج سے دو سال پہلے مر چکی ہے۔۔۔وہ اس دنیا میں نہیں ہے۔۔۔بند کریں حقیقت سے نظریں چرانا۔۔۔ سچائی اور حقیقت چاہے جتنی بھی تلخ ہو اسے چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی قبول کرنا پڑتا ہے۔۔۔آپ نے ایک زمانے سے نو شین کی۔موت کو چھپایا۔۔۔ کیا ایسے چھپانے سے وہ زندہ ہو گئی۔۔۔؟؟؟”
وہ دھیمے مگر سخت لہجے میں بول رہے تھے۔۔۔
“کیا کسی اور کو نو شین بنا دینے سے حقیقت بدل جائے گی۔۔۔؟؟؟ نہیں بابا سائیں۔۔۔آپ خود کو خود ساختہ خوابوں کی دنیا میں بہلاۓ ہوئے تھے۔۔۔یہ حقیقت ہے جو آج آپ کے سامنے ہے۔۔۔ یہ حقیقت ہے کہ آج اس گاؤں کے قبرستان میں منوں مٹی تلے نو شین فیضان علی شاہ دفن ہے۔۔۔حقیقت یہ ہے کہ آج اس گاؤں کے قبرستان میں دیوانوں کی طرح تڑپ تڑپ کر سید احسان علی شاہ کا اکلوتا وارث پاگل ہوئے جا رہا ہے۔۔۔یہ ہے حقیقت۔۔۔کہ آج دو سال بعد پھر سے سید احسان علی شاہ کی حویلی میں صف ماتم بچھ ہے۔۔۔آنکھیں کھولیں بابا سائیں۔۔۔ ان حقائق کو قبول کریں۔۔۔
چاہے دکھ سے آپ کا دل پھٹ جائے، چاہے تکلیف کی شدت برداشت سے باہر ہو جائے۔۔۔آپ ذہن کھولیں۔۔۔ سچائی کو قبول کریں۔۔۔حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا بابا سائیں۔۔۔ہم اپنے خوابوں، اپنی من مرضی کی دنیا بنا کر نہیں رہ سکتے۔۔۔ ہمیں اسی دنیا میں رہنا ہے جو اللّہ نے ہمارے لیے بنائی ہے۔۔۔
اس دنیا میں بہت سے غم، تکالیف، آزمائشیں آئیں گی۔۔۔ لیکن ہمیں زندہ رہنا ہے۔۔۔جئیے جانا ہے۔۔۔ ان سب کے ساتھ۔۔۔ کیونکہ جو ہماری مالک کی رضا وہی ہماری رضا۔۔۔ روئیں، چلائیں، سسکیں لیکن اس مالک کی رضا سے انکاری نہ ہوں۔۔۔خدائ اس مالک پر جچتی ہے۔۔۔ہم انسانوں ہر نہیں بابا سائیں۔۔۔”
وہ ۔۔۔۔ سید احسان علی شاہ۔۔۔۔ بے دم۔سے ہو کر بیڈ پر بیٹھ گئے۔۔۔ان کا وجود کانپنے لگا۔۔۔ آج پہلی بار انہوں نے اپنے مالک کی۔مرضی کے آگے، اس کے “کن” پر سر جھکایا۔۔۔دل جھکایا۔۔۔
“ہم جب خدا کی دی گئی خوشیوں کو کھلے دل سے قبول کرتے ہیں تو بابا سائیں اس کے دیۓ گئے غموں کو سر جھکا کر قبول کیوں نہیں کرتے۔۔۔؟؟؟ کیوں نافرمان ہو جاتے ہیں ہم۔۔۔ کیوں گستاخی کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔۔۔کیوں یہ نہیں کہتے کہ جیسے تو راضی میرے مالک ویسے میں راضی۔۔۔؟؟”
وہ دکھ بھرے لہجے میں بول رہے تھے۔۔۔سید احسان علی شاہ کے چہرے پر بے تحاشہ دکھ اور تکلیف تھی۔۔۔انہیں اپنی نو شین آنکھوں کے سامنے نظر آنے رہی تھی۔۔۔آج سے دو سال پہلے انہوں نے نو شین کی لاش کو ایک نظر کے بعد نہ دیکھا تھا۔۔۔اس کی موت کی خبر کو ہر ایک سے چھپا لیا تھا۔۔۔ خاموشی سے وہ اس قبرستان کے ایک کونے میں دفنا دی گئی تھی۔۔۔اور اس کے بعد کسی کی ہمت نہیں تھی کہ نو شین کی موت کا ذکر ان کے سامنے کرتا۔۔۔ انہوں نے اللّہ کے کن پر لبیک نہیں بولا تھا۔۔۔ آج دو سال پہلے والا سانحہ پھر سے زندہ ہو گیا تھا۔۔۔ آج انہوں نے اس حویلی کے دروبام موت کے نوحوں سے گونجتے سنے ۔۔۔ آج اس حویلی میں نو شین کی موت کا ماتم کیا جائے گا۔۔۔ اور آج اس حویلی میں سید احسان علی شاہ کے بیٹے کی موت کا بھی ماتم کیا جائے گا۔۔۔ انہوں نے پاگل کیا تھا اپنے بیٹے کو ۔۔۔ خود انہوں نے۔۔۔
“بابا سائیں۔۔۔ آج کانوں کو بند نہیں کریں۔۔۔ اس ماتم کو سنیں گے آپ آج۔۔۔ ان نوحوں کو سنیں۔۔۔”
امیر حماد نے بے رحمی سے کہا۔۔۔
“نہیں بابا سائیں۔۔۔ ایسے ہی نوحے آج سے ایک سال گیارہ ماہ پہلے ایک اور گھر میں بلند ہوئے تھے۔۔۔اپنی بیٹی کے مرنے پر وہاں صف ماتم بچھی تھی۔۔۔ وہ بیٹی جو آپ نے ان سے چھین لی تھی۔۔۔آج جو آپ کی حالت ہے آج سے کچھ عرصہ پہلے ایک پاگل باپ کو نہر کے کنارے ، سر پکڑے بیٹھے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے میں میں نے دیکھا تھا۔۔۔”
مہر سلیمان کی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگے۔۔۔ ابا جان۔۔۔ اس کے پیارے ابا جان۔۔۔اس کی موت کے کرب سے گزرے تھے۔۔۔جبکہ وہ زندہ تھی۔۔۔ کسی ماں باپ کو ایسا دکھ کیوں دیا۔۔۔ اس کا دل تکلیف سے بھرتا جا رہا تھا۔۔۔
“خدا اپنے بندوں سے کبھی نا انصافی برداشت نہیں کرتا۔۔ کبھی بھی نہیں۔۔۔”
سید احسان علی شاہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔۔۔
امیر حماد نے انہیں دکھ سے دیکھا۔۔۔آہستگی سے ان کے پاس، نیچے ان کے قدموں میں بیٹھ گئے۔۔۔ ان کے دونوں کانپتے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں مضبوطی سے تھاما۔۔۔ان پر بوسہ دیا۔۔۔
“میرے محسن۔۔۔ میرے پیارے بابا سائیں۔۔۔انجانے میں کوئی غلطی یا گستاخی کر گیا تو معافی چاہتا ہوں۔۔۔”
لیکن وہ اس سے نظریں پھیرے بیٹھے رہے۔۔۔
“اماں سائیں۔۔۔ مہمانوں کو عزت سے رخصت کیجئے۔۔۔ بناۓ گئے کھانوں کو گاؤں میں تقسیم کر دیجئے۔۔۔ہمت کیجئے۔۔۔”
انہوں نے اٹھ کر زاروقطار روتی ہوئی اماں سائیں کو خود سے لگایا۔۔۔ ان کے سر پر بوسہ دیا۔۔۔
انہوں نے بابا سائیں کو کندھوں سے تھاما اور سہارا دے کر وہاں سے لے آئے۔۔۔ اور کمرے سے نکلتے ہوئے انہوں نے ایک بار مڑ کر اس لڑکی کی طرف دیکھا۔۔۔ وہ جو مہر سلیمان تھی۔۔۔ وہ جو ان کی چادر میں چھپی بھیگی آنکھوں سے انہیں دیکھ رہی تھی۔۔۔انہوں نے ایک نظر اسے دیکھا۔۔۔ جیسے کہنا چاہ رہےہوں۔۔۔ رونا مت مہر سلیمان ۔۔۔ میں یہیں ہوں ۔۔۔ تمہارے ساتھ۔۔۔ تمہارے پاس۔۔۔
____________
____________
گہرا اندھیرا پھیلا ہوا تھا ہر طرف ۔۔۔ گاؤں کے کچے قبرستان کے باہر امیر حماد نے گاڑی روکی اور لکڑی کا پھاٹک کھول کر اندر داخل ہوئے۔۔۔ وہ گاؤں کے اس کونے کی طرف بڑھ رہے تھے جہاں سید احسان علی شاہ کا اکلوتا وارث ایک مٹی کی قبر کے قدموں کی جانب بےسدھ پڑا تھا۔۔۔وہ۔سارا دن حویلی میں نہیں آیا۔۔۔ رات کا دوسرا پہڑ شروع ہو چکا تھا۔۔۔ خرم احسان دیوانہ سا ہو چکا تھا۔۔۔
امیر حماد نے دیکھا۔۔۔ بکھرا حلیہ، مٹی مٹی وجود۔۔۔ وہ بکھرا سا پڑا تھا۔۔۔ ان کا دل دکھ سے بھرتا چلا گیا۔۔۔ وہ آہستگی سے اس کے پاس جا کر بیٹھے۔۔۔ “خرم۔۔۔”
انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔۔۔ خرم نے آنکھیں کھولیں۔۔۔ سرخ۔۔۔ وحشت زدہ نگاہیں۔۔۔ نیم۔بے ہوش سا بمشکل اٹھا۔۔۔ “خرم ۔۔۔ چلو گھر چلتے ہیں۔۔۔”
انہوں نے اسے اٹھانا چاہا۔۔۔ “نن۔۔۔ نہیں۔۔۔ مجھے گھر نہیں جانا۔۔۔” وہ کانپتی آواز سے بولا اور پیچھے ہوا۔۔۔
امیر حماد خاموشی سے اسے دیکھتے رہے۔۔۔ وہ کانپ رہا تھا۔۔
“نہیں جانا اس گھر میں۔۔۔ اس ظالم انسان کے سامنے جس نے دھوکا کیا۔۔۔۔ مم۔۔۔ میری نوشین کو چھینا,,, ساری دنیا سے چھپا دیا میری نوشین کو۔۔۔ اس کے جنازے کو۔۔۔ اس کی تدفین کو۔۔۔ کیا ایسی گمنام موت اور تدفین دی جاتی ہے کسی کو ؟۔۔۔ انہوں نے۔۔۔ مجھے بتایا نہیں۔۔۔ دھوکا کیا ۔۔۔
مم۔۔ میں نے سنا تھا۔۔۔ خود سنا تھا۔۔۔۔۔
وہ کل۔۔۔ اس لڑکی۔۔۔ کے سامنے اس کے احسان کا شکریہ کر رہے تھے۔۔۔۔ میں نے سنا خود۔۔۔۔ اتنا گھناؤنا کھیل کیوں رچایا انہوں نے ؟ کک۔۔۔ کیوں مجھے میری نوشین کی قبر کے دیدار سے بھی محروم رکھا۔۔۔۔۔ کیوں۔۔۔۔ ؟”
وہ چیخ رہا تھا۔۔۔ پاگلوں کی طرح۔۔۔
“مجھے نفرت ہے ان سے۔۔۔۔ بے حد نفرت”
میں یہیں رہوں گا۔۔۔ نہیں جاؤں گا یہاں سے ۔۔۔۔۔ کبھی نہیں۔۔۔۔۔ “
امیر حماد اس کے قریب آ گئے۔۔۔ “سارا دن گزار دیا یہاں۔۔۔ آدھی رات ہو گئی۔۔۔ کیا ملا یہاں سے خرم۔۔۔؟؟؟
کیا وہ واپس آ گئی۔۔۔؟؟” انہوں نے پوچھا۔۔۔ “حماد بھاء۔۔۔ وہ کیسے جا سکتی ہے۔۔۔ کیسے۔۔۔۔” وہ ان کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔۔۔ “میری نوشی۔۔۔ ہر پل میرے ساتھ رہتی تھی۔۔۔بچپن سے ہر لمحہ۔۔۔وہ مجھے اکیلا چھوڑ کر چلی گئی۔۔۔” وہ تڑپ رہا تھا۔۔۔ “میں کیسے یقین کرلوں کہ وہ چلی گئی۔۔۔”
“آج سے صدیوں پہلے ایک باپ اپنے بیٹے کے لاشے کے سامنے بیٹھا تھا۔۔۔ وہ اس کے بیٹے کا بے جان وجود تھا۔۔۔جس سے اس کا خون کا رشتہ تھا۔۔۔خون کا۔۔ جگر کا ٹکڑا تھا وہ۔۔۔ لیکن وہ باپ مسلسل بڑبڑاۓ جا رہا تھا۔۔۔”
بے اختیار روتے تڑپتے خرم کے آنسو ایک دم تھمے۔۔۔
آنکھ آنسو بہاتی ہے۔۔۔
دل غمگین ہے۔۔۔
لیکن ہم زبان سے وہی کہیں گے جس میں ہمارا رب راضی۔۔
۔
“ہم زبان سے وہی کہیں گے جس پر ہمارا رب راضی ہو۔۔۔”
امیر حماد بڑبڑائے رہے تھے۔۔۔
“جس پر ہمارا رب راضی ہو۔۔۔”
وہ ان سے الگ ہو کر انہیں دیکھے گیا۔۔۔ اس کے رونگٹے کھڑے ہونے لگے۔۔۔
“جس پر تو راضی اس پر ہم راضی۔۔۔”
وہ بولتے رہے اور خرم کے آنسو تھمتے چلے گئے۔۔۔
“جتنا رونا ہے رو لو۔۔۔ جتنا دکھی ہونا ہے ہو لو۔۔۔لیکن زبان سے اللہ کے سامنے سوال نہ کرو۔۔ کیوں ہوا ایسے۔۔۔ کیسے ہوا یہ سب۔۔۔؟؟ ہماری اتنی بساط کہاں کہ اس سے سوال کریں۔۔۔
“روتے رہو خرم۔۔۔ تڑپتے رہو۔۔۔ دل غم سے پھٹتا ہے۔۔۔ پھٹنے دو۔۔ لیکن زبان سے۔۔ میں راضی میرے مالک۔۔ میں راضی۔۔۔ کا ورد جاری رکھو۔۔ “
ان کا سحر پھونکتا لہجہ۔۔ خرم احسان آنسوؤں سے تر چہرے کے ساتھ گنگ
سا انہیں دیکھے گیا۔۔۔
“خدا سے سوال نہیں کرنے خرم۔۔ اس سے شکوے نہیں کرنے۔۔۔ ہماری بساط کیا ہے۔۔۔ ہم ادنی۔۔ ہم حقیر۔۔۔ ” وہ بول رہے تھے۔۔۔
“اٹھو خرم۔۔ گھر چلو۔۔ لوٹ کر تو آنا ہی ہے یہیں۔۔ سب نے۔۔۔ ” انہوں نے آگے بڑھ کر اسے اٹھانا چاہا۔۔۔
اس نے آنسو بھری آنکھوں سے امیر حماد کو دیکھا۔۔۔
اور گھٹنوں کے بل نوشین کی قبر پر گر کر۔۔۔ دونوں ہاتھوں میں مٹی بھر کر۔۔۔ اس مٹی کو آنکھوں سے لگا کر۔۔ تڑپ تڑپ کر رویا۔ ۔۔
امیر حماد نے سد احسان علی شاہ کے تڑپ تڑپ کر روتے بیٹے کو سہارا دے کر اٹھایا۔۔۔ اور اس اندھیرے قبرستان سے باہر لے آۓ۔۔۔
وہ وہاں سے نکلتے ہوۓ۔۔ زار زار رو تھا۔۔۔ لیکن لب خاموش تھے۔۔۔ کیونکہ اب۔۔۔
کوئ شکوہ نہیں کرنا تھا۔۔
کوئ سوال نہیں کرنا تھا۔۔۔
ان کے پیچھے۔۔ اس دنیا سے جا چکے وہ لوگ۔۔ اس دنیا میں اپنوں کی حالتوں۔۔ آہوں۔۔ سسکیوں۔۔۔ اور تڑپ سے بے خبر۔۔ سوتے رہے۔۔ خاموش ۔۔
اندھیرا کچھ اور بڑھ گیا۔۔
وی ساری رات سید احسان علی شاہ کی حویلی کے تمام نفوس نے جاگتے ہوۓ , بہتی آنکھوں, سسکیوں اور آہوں کی ساتھ گزاری تھی۔۔۔
اس ساری رات۔۔ اس ج
حویلی کا ہر فرد ایک کرب میں مبتلا رہا تھا۔۔۔
اندھیرا گہرا ہوتا رہا۔۔۔ اور ان سنے سے نوحے بلند ہوتے رہے۔۔۔
_____
_____
مہر سلیمان۔۔۔ بکھری سی حالت, خالی آنکھوں سے۔۔ گم سم سی اس کمرے کے بیڈ پر بیٹھی تھی۔۔۔
خود پر امیر حماد کے نام کی چادر اوڑھے۔۔۔
ساری رات گزر چکی تھی۔ اگلے دن کے جانے کتنے پہر گزرے تھے۔۔۔ وہ نہیں جانتی تھی۔۔۔
وقت جیسے کسی لمحے میں رک سا گیا تھا۔۔۔
اواس لمحے کی گرفت سے وہ باہر نہ آ پا رہی تھی۔۔۔
وہ لمحہ۔۔ جب وہ ہوا۔۔ جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔۔
وہ لمحہ۔۔ جب امیر حماد نے اس پر چادر اوڑھآئ تھی۔۔۔
ایسے لگا جیسے کسی نے ڈھال بن کر اسے۔۔ اس کے سارے وجود کو چھپا لیا تھا۔۔۔ وہ اس لمحے کے سحر میں جکڑی ہوئ تھی۔۔ اور وہاں سے واپس نہیں آنا چاہتی تھی۔۔۔
دروازہ کھلا۔۔ کوئ ملازمہ اندر آئ۔۔۔ وہ کسی گہرے خواب سے جاگی تھی۔۔۔
“بی بی جی۔۔ ! آپ کو باہر بلایا گیا ہے۔۔ “
سر اور آنکھیں جھکاۓ۔۔ وہ مودب سی کھڑی تھی۔۔۔
“مجھے ؟؟” مہر نے سوالیہ لہجے میں پوچھا۔۔۔
“جی بی بی جی۔۔ ” وہ بولی۔۔
“مجھے کس نے بلایا۔۔۔ ؟”
“باہر فیصلے کے لیے بلایا گیا ہے۔۔ پنچوں کا بلاوا آیا ہے۔۔ “
“فیصلے کے لیے۔۔ ” میر کا دل دھڑکا۔۔۔
“بی بی جی۔۔۔ جلدی آ جائیں۔۔۔ ” وہ جھکے سر سے بولی۔۔۔
مہر عجیب سے وسوسوں میں گھری اس کے ہمراہ کمرے سے باہر نکلی۔۔۔
وہ اسے باہر لے آئ۔۔۔ حویلی کے بڑے سے باغ نما لان میں۔۔۔ وہاں بہت سے لوگ جمع تھے۔۔
مہر ایکدم ٹھٹھک کر رکی۔۔۔
سامنے نشستیں لگائ گئیں۔۔۔ جن پر کچھ معزز افراد۔۔ اونچے شملے پہنے بیٹھے تھے۔۔
ان پنچوں کے سردار۔۔ سید احسان علی شاہ درمیانی نشست پر ساکت سے۔۔۔ بے تاثر چہرے کے ساتھ بیٹھے تھے۔۔۔ آج وہ فیصلہ کرنے والوں میں سے نہیں بلکہ۔۔۔ سننے والوں میں سے تھے۔۔۔
ایک طرف امیر حماد کھڑے تھے۔۔۔ بالکل سامنے۔۔ کسی نادیدہ نقطے پر نظریں جماۓ۔۔۔ خاموش اور سنجیدہ سے۔۔۔
سامنے ایک ہجوم سا تھا۔۔
گاؤں کی وہ تمام عورتیں اور وہ تمام کنیزیں, وہ لوگ جو کل کا واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے وہاں موجود تھے۔۔
مہر کا دل بری طرح دھڑکا۔۔۔ اس کے قدم سٹکت ہوۓ۔۔۔
اس نے چادر کھینچ کر چہرے کو چھپا لیا۔۔۔
“ائیے بی بی جی۔۔۔ ” وہ ملازمہ بولی ۔۔
وہ ڈری سہمی سی وہاں جا کھڑی ہوئ۔۔۔
امیر حماد کو وہاں طلب کیا گیا تھا۔۔ ان پر کسی اور کی منگ کو چنر اوڑھا دینے کا الزام تھا۔۔۔ اور ایسا ہوتے ایک زمانے نے دیکھا تھا۔۔۔
“تمہارا نام کیا ہے بیٹی۔۔۔”
اس سے پوچھا گیا۔۔
“مہر سلیمان۔۔ ” وہ بولی
“یہ لوگ تمہیں نوشین فیضان علی شاہ بتاتے ہیں۔۔۔ ” ایک اور سوال پوچھا گیا۔۔۔ اس نے لب بھنچے
“کیونکہ یہ لوگ نوشین فیضان علی شاہ کی موت سے بے خبر ہیں۔۔۔ میں مہر سلیمان ہوں۔۔۔ ” وہ بولی۔۔۔
“کیا تمہیں اس سے پہلے کسی نے چنر اوڑھآئ ؟
کیا خرم احسان علی شاہ نے تمہیں چنر اوڑھآئ ؟”
“نہیں ” وہ سپاٹ لہجے میں بولی۔۔۔
“اس لڑکی کو کل سب کے سامنے سید احسان علی شاہ کے بڑے بیٹے نے چنر اوڑھآئ۔۔ “
سامنے موجود چشم دید گواہوں نے اپنی آنکھوں دیکھا حال بتایا۔۔۔
اور پھر پنچوں نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔۔۔
“یہ لڑکی۔۔ مہر سلیمان ہے۔۔۔ یہ لڑکی جسے آج سے پہلے کسی نے چنر نہیں اوڑھآئ تھی۔۔۔ آج صرف اور صرف امیر حماد کی منگ ہے۔۔۔ اور ہماری معتبر اور پاک صدیوں پرانی روایات کے مطابق۔۔ اس کا نکاح سید احسان علی شاہ کے بڑے بیٹے امیر حماد کے ساتھ ہونا طے پاتا ہے۔۔۔ امیر حماد کے علاوہ مہر سلیمان کا نکاح کسی سے نہیں ہو سکتا۔۔۔ یہ پنچایت کا فیصلہ ہے ۔۔۔۔ “
سید احسان علی شاہ سپاٹ چہرے کے ساتھ سنتے رہے۔۔۔
مہر سلیمان کی آ نکھیں لمحوں میں جل تھل ہوئیں۔۔۔ اس نے بے اختیار آسمان کی طرف دیکھا۔۔ اس کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو تھے۔۔۔ قدم بے جان سے ہوۓ۔۔
مہر نے کانپتے ہاتھ سے ساتھ کھڑی کنیز کا ہاتھ تھام کر سہارا لیا۔۔۔
“اللہ۔۔۔ معجزے ہوتے ہیں “
اس نے بھیگی آنکھوں کے ساتھ سامنے امیر حماد کی جانب دیکھا۔۔۔
جو خاموش سی نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔۔
سامنے بھیڑ میں شور سا بڑھا۔۔۔ چہ مگوئیاں۔۔ سرگوشیاں۔۔۔
اسے کمرے میں واپس لے جایا گیا۔۔
وہ بے یقین سی بیٹھی تھی۔۔ اسے اس کی پہچان واپس مل گئ تھی۔۔۔ اسے امیر حماد مل گیے تھے۔۔ اس کا پورا وجود شکر بن گیا۔۔ اس نے کا دل خدا کا شکر ادٹ کیے جا رہا تھا۔۔۔ زبان یا اللہ تیرا شکر کا ورد کیے جا رہی تھی۔۔۔
کوئ کمرے میں داخل ہوا تھا۔۔۔
وہ سید احسان علی شاہ تھے۔۔ وہ خود چل کر اس کے پاس آۓ تھے
۔۔
وہ اٹھ کھڑی ہوئ۔۔۔
“میں نے تمہیں بہت دکھ دیے۔۔ بہت آنسو دیے۔۔ تم سے تمہاری پہچان چھینی۔۔ تمہاری زندگی برباد کر دی ۔۔۔ میں تمہارا مجرم ہوں۔۔۔ ” وہ ٹوٹے سے لہجے میں بول رہے تھے۔۔۔
“نہیں بابا سائیں۔۔۔ ” وہ تڑپ کر آگے بڑھی۔۔
“اگر میں کہوں مجھے معاف کر دو بیٹی۔۔۔ “
“بابا سائیں۔۔۔ ایسا مت کہیں۔۔۔ ” مہر نے انکے ہاتھ تھامے۔۔ ان پر بوسہ دیا۔۔
“آپ بہت معتبر ہیں میرے لیے۔۔۔ آپ کی بہت عزت ہے۔۔۔ میں نے اپنے ساتھ ہوئ ہر زیادتی۔۔ ہر ناانصافی بھلا دی۔۔۔ “
وہ نم آنکھوں سے انہیں دیکھتی ہوئ بولی۔۔
“انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔۔ ” خوش رہو۔۔”
وہ کئ لمحے اسے دیکھتے رہے۔۔۔ ہو بہو انکی نوشین۔۔۔ وہ دیکھتے رہے۔۔۔ بہت دیر تک۔۔۔
ابھی بھی اتنی ہی تکلیف ہوتی تھی۔۔۔ ابھی بھی نوشین کی موت کی تکلیف اتنا ہی غم دیتی تھی۔۔ لیکن اب انہیں اپنی مرضی سے کچھ نہیں کرنا تھا۔۔
اب انہیں۔۔ اپنے ربکی مرضی پر چلنا تھا۔۔۔
_____
_____
وہ سفید لمبی قمیض۔۔ اور بڑے سے دوپٹے میں ملبوس۔۔۔ اپنے کمرے کی کھڑکی میں کھڑی تھی۔۔۔
باہر ہر طرف اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔۔۔
حویلی پر عجیب موت جیسی خاموشی چھا تھی۔۔۔
کوئ بولتا نہ تھا۔۔ سب چپ سادھ لیے تھے۔۔۔
سید احسان علی شاہ کو اپنے کیے کی سزا ملی تھی۔۔۔ان کا بیٹا۔۔۔ انکے لیے دل میں ڈھیروں نفرت لیے۔۔ ایک کمرے تک محدود ہو کر رہ گیا تھا۔۔
انہوں نے اس کے ساتھ دھوکاکیا تھا۔۔
انہوں نے نوشین کو گمناموں کی طرح دفنایا تھا۔۔۔ انہوں نے ایسا کیوں کیا تھا۔۔
وہ خاموش سا کمرے میں قید ہو گیا تھا۔۔
اماں سائیں بیٹے کے پاس بیٹھیں اس کی خالت دیکھ کر آنسو بہاتی رہتیں۔۔ س پر پڑھ کر پھونکتیں۔۔۔ انکے بیٹے پر کوئ آسیب ہو گیا تھا۔۔۔ محبت نامی آسیب۔۔۔
سید احسان علی شاہ کی تینوں بیٹیاں پھر سے خاموش ہو گئیں تھیں۔۔۔
لیکن خرم احسان۔۔۔ سید احسان علی شاہ کا اکلوتا وارث۔۔ جلد ہی زندگی کی جانب واپس آ جاۓ گا۔۔۔
کیونکہ وقت سے بڑا کوئ مرہم نہیں ہوتا۔۔۔۔ یہ بڑے سے بڑے زخم کو بھر دینے کا فن رکھتا ہے۔۔۔
مہر سلیمان کے دروازے پر مدھم سی دستک سنائ دی۔۔۔
اس کا دل ایکدم زور سے دھڑکا ۔۔۔
وہ مڑی۔۔۔ دستک ایک بار پھر سے سنائ دی۔۔۔
وہ ہزار آوازوں میں اس دستک کو پہچانتی تھی۔۔۔۔وہ دروازے کی جانب بڑھی اور آ ہستگی سے دروازہ کھولا۔۔۔
وہ سامنے کھڑے تھے۔۔
سیاہ شلوار قمیص میں ملبوس۔۔ قمیض کے بازو کہنیوں تک موڑے۔۔۔ سیاہ گھنے۔۔ ماتھے پر گرے بال۔۔ سیاہ چمکدار آنکھیں۔۔۔
وہ بنا پلک جھپکے انہیں دیکھے گئ۔۔
انہوں نے اسے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔۔۔
وہ ان کے ساتھ چل دی۔۔
بیرونی برآمدے میں آتے ہی سرد ہوا نے ان کا استقبال کیا۔۔۔
سامنے بلند درخت۔۔ تیز ہوا سے جھکے جا رہے تھے۔۔
آسمان آج صاف تھا۔۔
نکھرا سا۔۔ پورا چاند ابھرا تھا۔۔۔
اور ٹھنڈی میٹھی سی چاندنی ہر طرف پھیلی تھی۔۔۔ آسمان کے تھال پر بے شمار دمکتے ہیرے ابھر آۓ تھے۔۔۔
وہ مسحور سی کھڑی سامنے دیکھے گئ۔۔۔
امیر حماد اس سے دو قدم آگے۔۔۔ اس کی طرف پشت کیے کھڑے تھے۔۔۔ سامنے آسمان کو دیکھتے رہے۔۔ کتنے ہی پل۔۔۔
سید احسان علی شاہ کی حویلی کے در و بام مسحور سے اس مکمل منظر کو دیکھ رہے تھے۔۔۔
سیاہ لباس۔۔ روشن چہرے والا وہ شہزادہ۔۔۔ اور سفید لباس میں۔۔ پریوں جیسی لڑکی۔۔
کتنے ہی لمحوں بعد وہ پلٹے۔۔۔
اس کی طرف خاموش نظروں سے دیکھا۔۔
“اپنی پہچان واپس پر مبارک۔۔۔ مہر سلیمان۔۔۔ “
وہ بولے۔۔۔
“اور امیر حماد کی زندگی میں۔۔ خوش آمدید۔۔۔ “
مہر مدھم سا مسکرائ۔۔۔
“مجھے میری پہچان واپس لوٹانے اور اپنی زندگی میں شامل کرنے کا شکریہ۔۔۔ ” اس نے کہا۔
اور ان کے پاس سے گزر کر نچلے زینے پر جا بیٹھی ۔۔۔
امیر حماد وہیں کھڑے اسے دیکھتے رہے۔۔۔
میر ان کی طرف پشت کیے۔۔ سر جھکاۓ۔ خاموشی سے کئ لمحے۔۔ اپنے ہاتھوں کو کھولے ان میں دیکھتی رہی۔۔۔
“مہر۔۔۔۔ “
جس زینے پر وہ بیٹھی تھی۔۔۔ اسی پر کچھ فاصلے پر وہ آ کر بیٹھ گیے۔۔۔
مہر نے خاموشی سے انہیں دیکھا۔۔۔
“مجھے میری پہچان تو مل گئ۔۔۔ ” وہ کہیں کھوئ سی بولی۔۔۔
“لیکن کیا میرے اپنے تمام عمر۔۔۔۔ میری موت کا سوگ مناتے رہیں گے۔۔۔ ؟”
اس کے سوال پر امیر حماد نے لب بھینچے۔۔۔۔
“امیر حماد۔۔۔! ‘”
وہ آنکھوں میں آنسو لیے ان کی طرف مڑی۔۔۔
“میرا اس حویلی میں دم گھٹتا ہے۔۔۔ یہاں سے وحشت ہوتی مجھے۔۔۔۔
یہ حویلی۔۔ اور اس کے مکین۔۔
ایسے جیسے یہاں بدروحیں بستی ہیں۔۔۔ اتنی خاموشی۔۔
اتنا سناٹا ہے یہاں۔۔۔ مجھے یہاں نہیں رہنا۔ “
وہ کتنے لمحے خاموشی سے اسے دیکھتے رہے۔۔۔
“ہم یہاں نہیں رہیں گے مہر۔۔۔ ” وہ بہت دیر بعد سنجیدگی سے بولے ۔۔۔
وہ چونکی۔۔۔ دل ایکدم سے دھڑکا۔۔۔
انہوں نے کہا تھا “ہم۔۔۔”
انہوں نے کہا تھا۔۔۔ “ہم۔۔۔ “
“ہم نہیں رہیں گے یہاں۔۔۔ ؟”
اس نے بے یقینی سے پقچھا۔۔۔
“نہیں۔۔۔ ” وہ بولے۔۔
“یہاں نہیں رہیں گے۔۔۔ ت ۔۔۔ تو کہاں جائیں گے۔۔۔ ؟”
“میں کہیں بھی لے جاؤں گا۔۔۔ تم بتاؤ۔۔۔ چلو گی میرے ساتھ ؟ جہاں بھی میں لے جاؤں۔۔۔ ؟ وہ بولے۔۔۔
مہر نے بے اختیار سر ہلایا۔۔۔
امیر حماد بے ساختہ مسکرا دیے۔۔۔۔
مہر کے چہرے پر بار بار بال اڑ کر آ رہے تھے۔۔
اس کا چہرہ دیکھنے میں رکاوٹ بن رہے تھے۔۔
“اس سے پہلے ہم جائیں گے۔۔ تمہارے بابا جان کے پاس۔۔ “
انہوں نے ہاتھ بڑھا کر نرمی سے اس کے چہرے سے بال پیچھے کیے۔۔۔
“کیا کہا۔۔۔ ؟” وہ خوشگوار حیرتوں میں۔۔۔ گھری بولی ۔۔۔
“ہاں۔۔۔ تمہارے اپنوں کے پاس۔۔۔ اجازت لینے۔۔ “
“آپ مجھے وہاں لے جائیں گے۔۔ “؟
وہ خوشی سے کانپتی آواز میں بولی۔۔
امیر حماد نے اس کے چہرے پر در آنے ووالی خوشی اور آنکھوں میں بے تحاشا ابھرتی چمک کو دیکھا۔۔۔ اور دل سکون سے بھرتا چلا گیا۔۔
انہوں نے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔۔
“ان سے کیا کہیں گے۔۔۔۔ ؟”
وہ فکر مند ہوئ۔۔۔
“سچ۔۔۔۔ ” وہ بولے۔۔۔
“سچ کہیں گے مہر۔۔۔ جو سچ ہے۔۔ وہ۔۔۔ “
امیر حماد بولے۔۔۔
مہر کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو چمکنے لگے۔۔۔
اس نے سر ہلا دیا۔۔۔
“ہاں ہم سچ کہیں گے۔۔۔ “
“لیکن۔۔۔ ” وہ بولے۔۔۔ “اب کبھی رونا مت۔۔۔ “
انہوں نے اس کے آنسوؤں کی طرف اشارہ کیا۔۔۔
میر ایکدم بھگی آنکھوں سے کھلکھلا کر ہنسی۔۔۔
“کبھی نہیں روؤں گی۔۔۔ “
اس نے ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کیے۔۔۔
امیر حماد نے ہولے سے مسکرا کر آنکھوں کا رخ بدل لیا۔۔
وہ سامنے آسمان کو دیکھنے لگے۔۔۔
اور مہر انہیں۔۔۔
وہ جانتے تھے۔۔ وہ پیاری لڑکی۔۔ اب کئ گھنٹے انہیں بنا پلک جھپکے دیکھے گی۔۔۔ دیکھتی رہے گی۔۔۔
بہت خوبصورت منظر تھا۔۔۔
ہر منظر سے زیادہ خوبصورت
محبت آس پاس ہی کہیں گنگنا رہی تھی۔۔۔ گھوم رہی تھی۔۔۔
جھوم رہی تھی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
کوئی لڑکی تھی۔۔
پریوں جیسی۔۔۔۔
کوئی شہزادہ تھا۔۔۔
خوابوں جیسا۔۔۔۔
کوئی عشق تھا۔۔۔
کوئی عشق تھا۔۔۔۔
_______
ختم شد ❤