تمہاری طرح۔۔۔
یہ حویلی، اس کے مکین میرے بھی اپنے نہیں ہیں، میرے لئے بھی یہ لوگ اجنبی تھے۔۔۔ آج سے بہت سال پہلے۔۔۔
میں نے بھی اپنی زندگی کے تیرہ سال ایک فیملی، اپنی فیملی میں گزارے تھے۔۔۔
ماں باپ کی شفقت میں۔۔۔
ماں باپ کی ضرورت سب کو ہوتی ہے مہر۔۔۔ چاہے وہ تمہارے جیسی نرم دل۔لڑکی ہو یا مجھ جیسا سخت دل انسان۔۔۔ وہ دن میری زندگی کے بہترین دن تھے۔۔۔ میں اکلوتا اور لاڈلا تھا ان کا۔۔۔ اور میں نے فقط تیرہ سال کی عمر میں اپنے ماں باپ، اپنی فیملی کو کھویا تھا۔۔۔۔ یہاں سے بہت دور تھا میرا شہر۔۔۔ اتنی گہما گہمی ہونے کے باوجود، میں اکیلا ہو گیا تھا۔۔۔ میں یتیم، بے آسرا اور بے گھر ہو گیا۔۔۔ اس تکلیف دہ وقت میں تمام رشتہ داروں نے نظریں بدلی تھیں۔۔۔ میں اب اسکول نہیں جاتا تھا۔۔۔ میرے پاس کھانے کو کچھ نہ ہوتا تھا۔۔۔ باپ کی چھاؤں سر سے ہٹی تو کڑی دھوپ میں جلنے لگی تھی زندگی۔۔۔
ایسے میں سڑکوں پر در بدر بھٹکتے ہوئے ایک فرشتہ بھیجا خدا نے،
سید احسان علی شاہ۔۔۔ مجھے انہوں نے اپنی آغوش میں لیا۔۔۔ اپنا بیٹا بنایا۔۔۔ یہاں لے آئے اور ۔۔۔ ساری زندگی میرے سامنے پھر کبھی میرا ماضی نہ دوہرایا۔۔۔ انہوں نے مجھے اپنا بڑا بیٹا مانا۔۔۔
میں کچھ بھی نہیں تھا مہر۔۔۔ اس وقت میں جو بھی ہوں سب بابا سائیں کی بدولت ہوں۔۔۔۔ مجھے مہنگے تعلیمی اداروں میں اعلی تعلیم دلوائی۔۔۔ اپنی زندگی میں اپنا دایاں بازو بنایا۔۔۔ سیاسی ، جاگیرداری، دنیا کے بہت سے کام ایک بیٹا سمجھ کر میرے ذمے لگائے۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر مجھے ایک فیملی دی۔۔۔ جہاں ایک ماں ہے۔۔ بہنیں ہیں۔۔۔ بھائی ہے۔۔۔
ہاں یہ سب میری فیملی ہیں۔۔۔ لیکن ان سب میں ہنستے مسکراتے زندگی گزارتے مجھے میرے اپنے کبھی کبھی یاد آتے ہیں۔۔۔
وہ زندگی جس پر میرا حق تھا۔۔۔ اس زندگی میں تو میں مقروض ہوں۔۔۔ میری یہ زندگی مجھے احسانات کے بوجھ تلے دبی نظر آتی ہے، مجھے لگتا ہے مرتے دم تک میری یہ زندگی سید احسان علی شاہ کے نام ہو چکی ہے ۔۔۔
مہر۔۔۔!
کسی کو بھی ایسی گھٹی ہوئ سی۔۔۔ قید زندگی اچھی نہیں لگتی جس میں اس کی اپنی ایک ایک ایک سانس اور خون کی ایک ایک بوند بھی کسی کے احسان اور قرض تلے ڈوبی ہو۔۔۔””
وہ اپنی تمام زندگی اس سے شیئر کر رہے تھے۔۔۔
“مجھے اپنی زندگی ، میرے اپنے یاد آتے ہیں۔۔۔ لیکن جب سے تم میرے سامنے آئی ہو۔۔۔ جب سے تمہیں دیکھا ہے وہ اور شدت سے یاد آتے ہیں۔۔۔
تمہارے آنسو اور سسکیاں مجھے میری زندگی کے وہ دن یاد دلاتے ہیں جو میں نے سڑکوں اور فٹ پاتھ پر روتے اور سسکتے گزارے تھے۔۔۔
مہر۔۔۔ جو ہمارا خون ہوتا ہے نا۔۔۔۔ جو ہماری رگوں میں دوڑتا ہے۔۔۔ اس خون کو اس خون سے جڑے لوگوں کو ہم چاہ کر بھی کبھی نہیں بھلا سکتے۔۔۔ چاہے زندگی ہمیں ان سے ہزاروں گنا بڑھ کر عطا کر دے۔۔۔ پھر بھی نہیں۔۔۔”
“آپ سمجھتے ہیں نا۔۔۔ میری تکالیف۔۔۔ میرا درد۔۔۔ ” مہر بولی۔۔۔
” تو میری۔مدد کیوں نہیں کرتے آپ۔۔۔۔”
“نہیں ۔۔۔میں نہیں کر سکتا۔۔۔ باوجود اس کے کہ میں نے اس دن تمہاری بری قسمت پر افسوس کیا تھا جب مجھے تمہاری زندگی ختم کر دینے کا حکم سنایا گیا تھا تب مجھے تمہارے لئے بہت دکھ، افسوس ہوا تھا۔۔۔ میں پھر بھی کچھ نہیں کر سکتا تمہارے لئے کیونکہ میں جن کے احسانات تلے دبا ہوا ہوں ان کا حکم میرے لیے حرف آخر ہے۔۔۔ وہ مجھے بہت عزیز ہیں اور ان سے جڑے کے تمام رشتے بھی”
وہ بولے۔۔۔
” یہاں سے رہائی۔۔۔ ناممکن ہے مہر سلیمان۔۔۔ اب رونا چھوڑ دو۔۔۔” وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولے۔۔۔۔
” تو آپ بھی ظالم ہیں۔۔۔ اس سخت دل وڈیرے کے ظلم میں برابر کے شریک ہیں۔۔۔” مہر نے غصے سے لب بھینچے ۔۔۔
“بالکل ۔۔۔ تم مجھے بھی اپنے مجرموں کی فہرست میں شامل کر سکتی ہو۔۔۔ ” انہوں نے سرد مہری سے کہا۔۔۔
لہجہ ایک دم سخت ہوا۔۔۔
“غلط کر رہے ہیں آپ لوگ۔۔۔۔ بہت غلط۔۔۔ آپ ایک رئیس زادے کی زندگی بچانے کے لئے ، اس کی خوشیاں خریدنے کے لئے کسی اور کی زندگی پر ظلم کر رہے ہیں۔۔۔
سوچیں۔۔ کیا ہو ؟؟ اگر وہ کبھی ہوش میں ہی نہ آئے۔۔۔ اگر وہ مر جائے۔۔۔ ؟؟ پھر سید احسان علی شاہ کیسے خریدیں گے اپنے بیٹے کیلئے زندگی۔۔۔ یا آپ۔۔۔ آپ کہاں سے ڈھونڈ کر لا کر دیں گے ان کا بیٹا۔۔۔؟؟؟؟”
وہ دبا دبا سا چلائ تھی۔۔۔
” خدا کے کاموں میں انسانوں کی مرضیاں نہیں چلتیں، آپ انسانوں سے خدا کیوں بن رہے ہیں۔۔؟؟؟”
“مہر سلیمان۔۔۔ چپ کر جاؤ۔۔۔” وہ تیز لہجے میں بولے تھے۔۔۔ مہر ایکدم خاموش ہوئ۔۔۔۔۔
“کبھی تو سید احسان علی شاہ کی طاقت کا غرور ٹوٹے گا۔۔۔” وہ نفرت سے بولتی ہوئی وہاں سے چلی آئ۔۔۔ اور آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر بہتے چلے گئے۔۔۔
*****************
پھر ایک دن وہ اسے اس شخص کے سامنے لے گئے جو اس کی بربادی کا باعث تھا۔۔۔
سید احسان علی شاہ ۔۔۔ ان کے کہنے پر مہر سلیمان کو طلب کیا گیا تھا۔۔۔ وہ امیر حماد کے ہمراہ ایک بڑے سے ہال نما کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔ بہت سی نشستیں سجی ہوئی تھی۔۔۔ عمدہ قالین، فانوسوں اور مہنگی آرائش کی چیزوں سے آراستہ کسی دربار سا تاثر دیتا وہ کمرہ نما ہال۔۔۔ شاید وہاں کا مردان خانہ یا بیٹھک نما کوئی جگہ تھی جہاں معزز افراد کی محفلیں جمتی تھیں۔۔۔
لیکن وہ اس وقت خالی تھا۔۔۔ بالکل خالی۔۔۔ ایک بڑی سی منقش کرسی پر وہ بڑے کروفر سے بیٹھے تھے۔۔۔
سفید کڑکڑاتا لباس، اونچا شملہ جو پنچائیت کے سردار کے سر کی زینت ہوتا، بڑی گھنی مونچھیں۔۔۔ چہرے پر عمر رسیدگی کی جھلک کہیں غرور اور اکڑ کے پیچھے چھپ سی گئی تھی۔۔۔ ایک کندھے پر چادر رکھے۔۔۔ بے تاثر سی نظروں سے سامنے خلا میں دیکھ رہے تھے۔۔۔
“اسلام علیکم بابا سائیں۔۔۔” امیر حماد کی آواز پر وہ ان کی طرف متوجہ ہوئے۔۔۔
انہوں نے ویسی ہی بے تاثر سی نظروں سے مہر کی جانب دیکھا اور بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔ وہ خاموشی سے دائیں جانب رکھی نشستوں میں سے ایک پر بیٹھ گئی۔ امیر حماد خاموشی سے کھڑے رہے۔۔۔
“اسلام علیکم بیٹی۔۔۔” وہ گہری نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے۔۔۔ مہر نے لب بھینچے۔۔۔ “وعلیکم السلام”
اور پھر کئ لمحے خاموشی کی نظر ہوئے۔۔۔
وہ آنکھوں میں ہلکا سا کرب لئے اس میں کہیں اپنی نو شین تلاش کر رہے تھے۔۔ لیکن وہ آنکھوں میں اجنبیت اور سرد مہری لئے بیٹھی رہی۔۔۔
“اس گھر کی ایک بیٹی تھی۔۔۔ جو ہو بہو تمہارے جیسی تھی۔۔۔ نو شین۔۔۔ میرے جگر کا ٹکڑا۔۔۔ اور اس حویلی میں رہنے والوں کی جان۔۔۔ ”
وہ کھوۓ ہوئے سے بول رہے تھے۔۔۔
“تم ہی نو شین ہو اب۔۔۔” وہ حال میں واپس آتے ہوئے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولے۔
ان کی آواز میں ایک ٹھہراؤ، ایک تحکم سا تھا۔۔۔
“اگر میں آپ سے ایک التجا کروں بابا سائیں۔۔۔ کہ مجھے میری دنیا میں واپس بھیج دیا جائے۔۔۔” وہ منت بھرے لہجے میں بولی تھی۔۔۔
ان کے چہرے پر ایک دم سختی ابھری تھی۔۔۔
“امیر حماد۔۔۔” وہ سخت لہجے میں بولے۔۔۔
” کیا تم نے اسے بتایا نہیں کہ میرے فیصلے اٹل ہوتے ہیں۔۔۔ کبھی بدلا نہیں کرتے۔۔ میرے فیصلوں سے روگردانی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا کوئ۔۔۔”
ان کی با رعب آواز اور سخت لہجہ۔سن کر مہر سہم سی گئی۔۔۔
“احسان علی شاہ کی دنیا میں خوشآمدید لڑکی۔۔۔ اب کسی باغی سوچ کو ذہن میں بھی مت لانا۔۔۔ اب تمہاری زندگی پر تمہارا کوئی حق نہیں۔۔۔ تم یہاں سے جا سکتی ہو۔۔۔”
سید احسان علی شاہ کو جانے کس چیز پر اتنا غصہ آیا۔۔۔ اس لڑکی کی نافرمانی پر دماغ کھولا تھا یا انہیں اس لڑکی میں اپنی نو شین نہیں مل پا رہی تھی۔۔ اس چیز پر جھنجلاۓ تھے وہ۔۔۔
مہر اٹھ کر کمرے سے نکل گئی۔۔۔
آج امید کی آخری کرن بھی ختم ہوئی تھی۔۔۔ وہ بہتے آنسوؤں کو ہاتھوں کی پشت سے رگڑتے ہوئے مختلف راہداریوں میں گم ہوتی چلی گئی۔۔۔
اسے سید احسان علی شاہ سے نفرت محسوس ہوئی۔۔۔ بے حد نفرت۔۔۔۔
_______
_______
امیر حماد اپنے کاموں سے وقت نکال کر اکثر ہی اس کے پاس آ جاتے۔۔۔۔۔۔
وہ اپنی سوچوں میں بیٹھی ہوتی اور اسے ان کے آ نے کی بھنک بھی نہ پڑتی۔۔۔۔
وہ بے حد خاموشی سے اس کے پاس آ کھڑے ہوتے۔۔۔۔۔
اور وہ چونک سی جاتی۔۔۔۔۔
آ ہستہ آ ہستہ, ایسا ہونے لگا کہ وہ ان سے چھوٹی چھوٹی باتیں کرنے لگی۔۔۔۔
امیر حماد اسے نوشین اور خرم احسان کا ماضی بتاتے۔۔۔۔
ان دونوں کی بہت سی باتیں اور قصے سناتے۔۔۔۔
ان کی عادات بتاتے۔۔۔۔
اور وہ۔۔۔
محویت سے انہیں سنتی رہتی۔۔۔
ان کا لہجہ, مہر پر جادو سا کرتا جاتا۔۔۔۔
ان کا لہجہ۔۔۔۔۔
ہاں,,,, وہ بہت نرم, اور میٹھے سے لہجے میں بات کرتے۔۔
سنجیدگی چہرے پر سجاۓ, وہ ہمیشہ مہر کی طرف بنا دیکھے بات کرتے۔۔۔۔
جانے کیوں, لیکن وہ ان کی عادی ہونے لگی۔۔۔
اسے امیر حماد کے چہرے کو دیکھنے, انکی آ واز سننے کی عادت سی ہونے لگی تھی۔۔۔۔۔
اور وقت,, اکثر ہی ان دونوں کے قریب سے گزرتے ہوۓ رک کر مسکرا دیتا۔۔۔۔
ایک عجیب سی مسکراہٹ۔۔۔۔
جیسے وہ ان دونوں کیلئے کسی پر اسرا سی, خوفناک سی سازش کی تیاری کر رہا ہو۔۔۔۔۔
_____
_____
اور پھر ایک دن, ۔۔۔ خرم احسان علی شاہ کو ہوش آ گیا۔۔۔۔۔ اس نے ہوش میں آ تے ہی پہلا نام نوشین کا لیا تھا۔۔۔۔ اور پھر سے ہوش و خرد سے بے گانہ ہو گیا تھا۔۔۔۔۔
سید احسان علی شاہ کو ڈاکٹرز نے اور تمام زمانے نے مبارکبادیں دیں تھیں۔۔۔۔
اور پھر۔۔۔ ہر طرف شادیانے بجاۓ گئے۔۔۔۔
دعوت عام کی گئ۔۔۔
لوگوں میں دل کھول کر سوغاتیں تقسیم کی گئیں۔۔۔
یتیموں, غریبوں اور مفلسوں کو کھانے کھلاۓ گیۓ ۔۔۔۔ کپڑے دیے گۓ۔۔۔۔
بیٹے کے صدقے خزانوں کے منہ کھول دیے گیۓ۔
دوسری بار اس کی آ نکھ کھلی تو مہر سلیمان اس کے سامنے تھی۔۔۔۔ وہ شاید کوئ بہت برا خواب دیکھ کر جاگا تھا, ۔۔۔۔ اس کی آ نکھوں میں بہت زیادہ خوف تھا۔۔۔۔
لیکن مہر سلیمان پر نظر پڑتے ہی جیسے اس کی بے چینی, خوف, اضطراب۔۔۔۔ سب ختم ہوتا چلا گیا۔۔۔۔
مہر نے اس کی آ نکھوں میں سکون سا اترتے دیکھا۔۔۔
وہ اپنی نوشین کو اپنے سامنے بالکل محفوظ, بالکل ٹھیک دیکھ کر سکون سے مسکرایا تھا۔۔۔۔
“نوشین۔۔۔۔۔ ” وہ بہت ہلکی سی آ واز میں بولا۔۔۔
وہ ایک قدم اس کے بیڈ کے قریب آ ئ۔۔۔۔
“تم ٹھیک ہو۔۔۔۔ ؟”
وہ اب بھی نوشین کے بارے میں۔۔۔ اس کی صحت کے بارے میں فکر مند تھا۔۔۔۔
اسے اس بات کی کوئ پرواہ نہیں تھی کہ وہ خود بھی موت کے منہ سے نکل کر آ یا ہے۔۔۔۔۔۔
“میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔۔ ”
وہ بدقت مسکرائ تھی۔۔۔۔
اور خرم احسان نے پر سکون ہو کر پلکیں موند لیں۔۔۔۔۔
_____
_____
دن گزرتے چلے گیۓ۔۔۔ احسان علی شاہ کا وارث روبہ صحت تھا۔۔۔۔
وہ تیزی سے ری کور کر رہا تھا۔۔۔
لیکن۔۔۔ کچھ عجیب سے انکشافات سامنے آ رہے تھے۔۔۔۔
اسکا ذ ہن بری طرح متاثر ہوا تھا۔۔۔۔ کوئ گہری چوٹ تھی یا کوئ گہرا صدمہ یا دھچکا۔۔۔۔ وہ بہت کچھ بھول چکا تھا۔۔۔ اسے لوگوں کے چہرے یاد تھے۔۔۔ نام بھول چکے تھے۔۔۔
کبھی وہ کچھ ناموں کو دہراتا رہتا, لیکن ان ناموں سے ملتا کوئ چہرہ اس کی یادداشت میں نہ آ پاتا۔۔۔۔
اس کا ماضی دھندلا سا گیا تھا۔۔۔۔
کئ جگہوں کو دیکھ کر اسے وہاں ہوۓ واقعات یاد کرنے میں دقت پیش آ تی۔۔۔۔ اور وہ سوچ سوچ کر پاگل سا ہو جاتا۔۔۔
ڈاکٹرز پر امید تھے۔۔ وہ جلدی ٹھیک ہو جاۓ گا۔۔ اس کا بچنا اور ہوش میں آ جانا ایک معجزہ تھا۔۔۔ وہ جلد ہی ایک نارمل زندگی گزارنے لگے گا۔۔۔ ابھی وہ جھنجھلا سا جاتا تھا ماضی کو یاد کرنے کی کوشش میں۔۔۔ لیکن جلد ہی وہ اس کا عادی ہو جاۓ گا۔۔۔۔۔ ”
جلد ہی وہ حویلی آنے والا تھا۔۔۔ مہر یہ سوچ کر الجھتی رہتی۔۔۔ وہ اس شخص سے نفرت کرے,یا اس پر رحم کھاۓ۔۔۔۔۔
_____
_____
خرم احسان کے حویلی آ نے پر ویران سی حویلی میں ایکدم سے رونقیں جاگ اٹھی تھیں ۔۔۔۔ اماں سائین نے سجدوں میں گر کر اللہ کا شکر ادا کیا تھا۔۔۔ بہنوں کا بھائ ان کے مسکراہٹیں لیے واپس آ گیا تھا۔۔۔۔
وہ پہلا دن تھا جب عرصے بعد حویلی کے تمام مکینوں نے ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا تھا۔۔۔ اور مہر سلیمان, حویلی کے ایک فرد کی حیثیت سے ان میں شامل تھی۔۔۔
اماں سائین نے اپنے ہاتھوں سے اپنے جوان بیٹے کو کھانا کھلایا تھا اس دن۔۔۔۔
بابا سائیں کا فخر اور غرور لوٹ آ یا تھا۔۔۔ اور وہ سرشار سے کھانا تناول فرما رہے تھے۔۔۔
مہر اور خرم احسان کی تینوں بہنیں ہاتھ باندھے ڈائیننگ ٹیبل کے پاس کھڑی تھیں ۔۔۔
امیر حماد ہر چیز سے لا تعلق, خاموشی سے کھانا کھا رہے تھے۔۔۔
اور خرم احسان۔۔۔۔
وہ ماں بابا سے ڈھیر ساری باتیں کرتا۔۔۔ مسکراتے ہوۓ کبھی کبھی ایک نظر اٹھا کر مہر سلیمان کو دیکھ لیتا تو مہر کے اندر تک بے چینی سی بھر جاتی۔۔۔
____
____
“نوشین۔۔۔۔ ”
وہ اپنے کمرے میں تھی جب دروازے پر دستک کی آ واز سنائ دی۔۔۔
دروازہ کھولنے پر سامنے خرم احسان کھڑا تھا۔۔۔
اسے دیکھ کر کھل کے مسکرایا۔۔۔۔
“ڈسٹرب تو نہیں کیا ۔۔۔؟
“نن۔۔۔ نہیں۔۔۔ بالکل نہیں۔۔ ”
وہ ایکدم اسے دیکھ کر سٹپٹائ تھی۔۔۔
“چلو باہر چلتے ہیں۔۔۔ کتنا عرصہ ہوا۔۔۔ ڈھیر ساری باتیں نہیں کیں۔۔۔ ایکدوسرے کا سر نہیں کھایا۔۔۔۔ ”
اس لڑکے میں زندگی واپس آ نے لگی تھی۔۔۔ لیکن اس کی زندگی کیلئیے کسی اور کی زندگی چھینی گئ تھی۔۔۔
“بولو نوشی۔۔۔! ” خرم نے اسے پھر سے پکارا۔۔۔
“تم۔۔ جاؤ۔۔ میں آ تی ہوں۔۔۔۔ ”
وہ شش و پنج میں مبتلا تھے۔۔۔۔
“آ جاؤ۔۔۔ باہر لان میں بہت اچھا موسم ہے ”
اور کچھ لمحوں بعد وہ, خرم احسان کے ہمراہ ٹھنڈی, نرم سی گھاس پر چہل قدمی کے سےا انداز میں چل رہی تھی۔۔۔
خرم ڈھیر ساری باتیں کر رہا تھا۔۔۔۔
وہ کہاں کہاں آجکل بابا سائیں کے ہمراہ جا رہا تھا۔۔۔ اس کی کیا کیا مصروفیات تھیں ,کون کون سی بزنس اور سیاسی پارٹیز اٹینڈ کی تھیں۔۔۔۔
مہر اسے بے توجہی سے سنتی رہی۔۔۔۔
“تم بہت چپ رہنے لگی ہو ۔۔۔ ” وہ چلتے چلتے رکا اور الجھن بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔۔
“عرصہ ہوا, تم سے بات نہیں کی نا۔۔۔ باتیں کرنا بھول گئ میں ۔۔۔ ”
وہ ہلکا سا مسکرائ۔۔۔۔
“اب جلدی سے ویسے ہی ٹرٹر کرنا سیکھ لو۔۔۔ تم جانتی ہو نا۔۔۔۔ میرا گزارا ہی نہیں۔۔ تمہاری بے تکی سی باتیں سنے بنا۔۔۔۔ ”
وہ اس کی ناک ہولے سے دبا کر شرارت سے بولا۔۔۔۔
مہر پھیکا سا مسکرائ۔۔۔
اور وہ پھر سے چلنے لگے۔۔۔
خرم پھر سے ڈھیر ساری باتیں اور قصے شروع کر چکا تھا۔۔۔۔
مہر نے۔۔ بلیو جینز اور بلیک شرٹ میں, کھلتی ہوئ رنگت اور بھر پور مسکراہٹ والے اس لڑکے کو دیکھا ۔۔۔۔۔۔ جو آ ج اسے دیکھ دیکھ کر زندہ تھا۔۔۔۔۔
اور وہاں سے دور۔۔۔۔
اوپری منزلوں کے ایک کمرے کی کھڑکی میں کھڑے, شلوار قمیص میں ملبوس, کندھوں پر چادر اوڑھے, سیاہ چمکدار , جادوئ آنکھوں والے شہزادے نے بے حد خاموش نظروں سے دونوں کو دیکھا۔۔۔۔
ان کو اپنے سینے کے بائیں پہلو میں موجود دل میں سناٹے سے اترتے محسوس ہوۓ۔۔۔۔
لیکن۔۔۔
وہ کھڑے رہے۔۔۔۔
سنجیدہ۔۔۔ اور خاموش۔۔۔!!!!
بے حد خاموش۔۔۔۔۔۔!!!!
______________
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...