(Last Updated On: )
اور اگلے دن وہ سرخ جوڑے میں سر تا پا سجی اپنے کمرے میں آئینے کے سامنے بیٹھی تھی۔
جوڑے کے اوپر بڑے سے سنہری سرخ دوپٹے میں خود کو لپیٹا ہوا تھا۔
حویلی کی روایات کے مطابق یہ دوپٹہ دلہا اپنی دلہن کے لئے لیتا اور اسے اوڑھا دیتا تو وہ۔لڑکی اسی لمحے اس کی ہو جاتی۔
اس گاؤں کی روایات جو کہ صدیوں سے چلی آ رہی تھیں ان کے تحت لڑکی کو چنر اوڑھا دینا اس سے نکاح کرنے کے مترادف ہوتا اور اس بندھن کو کسی بھی اور بندھن سے مضبوط سمجھا جاتا۔
اور اماں سائیں بتا رہی تھیں کہ آج سے کئی سال پہلے خرم احسان نے اور نو شین دونوں نے مل کر یہ دوپٹہ پسند کیا تھا۔ یہ خرم احسان کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تھا اور کئ سال پہلے ہی خرم احسان نے یہ چنر اپنے ہاتھوں سے نو شین فیضان علی شاہ کو اوڑھا دی تھی۔
۔۔۔۔۔
اس نے آئینے میں اپنی خالی آنکھوں کو دیکھا اور نظریں مہندی سجے ہاتھوں پر گئ۔ چھم سے رات کا کوئ منظر آنکھوں میں آ بسا۔
امیر حماد۔۔۔۔ نرمی سے اس کے دونوں مہندی سجے ہاتھوں کو تھامتے ہوئے۔۔۔
“امیر حماد” اس کے لبوں سے بے آواز سسکی نکلی۔عجیب سا درد اٹھ رہا تھا سینے میں
حویلی کی بیٹیاں ، اماں سائیں اور ملازمائیں اس کے کمرے میں بیٹھی تھیں اور کمرہ کھلکھلاہٹوں سے، خوشی کے نغموں سے گونج رہا تھا۔
ماتم کے نوحے تو بس اس کے اندر ہی تھے ورنہ ساری حویلی ، سارا گاؤں سید احسان علی شاہ کے اکلوتے وارث خرم احسان علی شاہ کی شادی کے شادیانوں سے گونج رہا تھا۔
اچانک کمرہ خالی کرنے کا حکم دیا گیا۔ آناً فاناً سب وہاں سے اٹھ کر خاموشی سے نکل گئے اور وہ اکیلی بیٹھی رہ گئ۔
چند ساعتوں کے بعد وہی جانی پہچانی سی د
، مدھم سی، میٹھی سی، اپنی اپنی سی، دستک کی آ واز سنائ دی۔
اس کا دل ڈوب کر ابھرا۔۔۔۔
وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ رخ دروازے کی جانب اور سانسیں تھم سی گئیں۔ ان کے قدموں کی چاپ سننے کو بے تاب ہوئیں۔
دروازہ کھلا، با با سائیں اپنے تمام تر رعب و دبدبے کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئے۔ اس نے نظریں احترامً جھکا لیں۔ بابا سائیں اس کی طرف بڑھے ان کے ساتھ وہ بھی اندر داخل ہوئے۔۔۔۔ وہ جن کے قدموں کی چاپ کی ہر آواز کے ساتھ اس کا دل دھڑک رہا تھا۔ اس کی نظریں بابا سائیں کے ساتھ کھڑے امیر حماد کے قدموں میں گڑی تھیں۔ کالی پشاوری چپل میں مقید پاؤں۔۔۔۔
بابا سائیں اس کے سر پر ہاتھ رکھے اسے دعائیں دیتے ہوئے جانے کیا کہہ رہے تھے۔ شاید اس احسان کا شکریہ ادا کر رہے تھے جو اس نے ان کے بیٹے پر کیا تھا۔
وہ۔انہیں نہیں سن رہی تھی۔ وہ صرف بابا سائیں کے پاس کھڑے کالی پشاوری چپل میں مقید پاؤں دیکھ رہی تھی۔ بابا سائیں نے اس کے ہاتھوں میں کچھ تھمایا تھا۔ شاید کوئی تحفہ۔۔۔
اس ایک نظر بھی اس تحفے پر نہیں ڈالی نظریں ان قدموں پر ہی گڑی تھیں۔۔۔بابا سائیں نے اس کے سر پر بوسہ دیا اور باہر کی جانب چل دیے۔ وہ ابھی بھی ان پیروں کو ہی دیکھ رہی تھی۔دروازے کے بند ہونے کی آواز سے اس کا انہماک ٹوٹا
۔۔۔ وہ کسی سحر میں جکڑی تھی جو اب ختم ہوا تھا۔ اس کی نظریں کلف لگے سوٹ پر سے ہوتی ہوئی کالی چادر اوڑھے کندھوں سے ہوتی ہوئی ان کے چہرے پر جا ٹکیں۔۔۔
یہ رات والے امیر حماد کا چہرہ نہیں تھا ۔ اتنی سرد مہری، اتنی سختی اور اتنی اجنبیت اس نے پہلے کبھی ان کے چہرے پر نہ دیکھی تھی۔ وہ پھر سے اپنے خول میں بند ہو چکے تھے۔
اُس کی آنکھیں لمحوں میں جل تھل ہوئیں۔
وہ۔بے انتہا بے بسی سے نظروں میں ڈھیروں شکوے اور التجائیں لئے ان کو دیکھ رہی تھی۔ انہوں نے گھڑی بھر کو اس کی آنکھوں میں دیکھا اور اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔
“کچھ دیر میں نکاح خواں آجاۓ گا۔۔۔ خدا آپ کو کامیاب ازدواجی زندگی عطا فرمائے اور مستقبل کی بہت سی خوشیاں۔۔۔۔”
اس نے آنکھیں شدت کرب سے میچیں اور آنسو ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگے۔۔۔وہ نکاح خواں کی آمد اور حق مہر کے بارے میں اسے مطلع کر رہے تھے۔۔۔ انہوں نے سنجیدگی سے اپنی بات مکمل کی اور لمبے لمبے ڈگ بھرتے کمرے سے چلے گئے۔
وہ کسی مجسمے کی طرح کھڑی رہ گئی۔ اس کی نظریں اس جگہ گڑی تھیں جہاں کچھ دیر پہلے پشاوری چپل میں مقید دو پاؤں تھے۔
_______
لیکن نکاح خواں نہیں آیا تھا۔ وہ آیا تھا۔۔۔ خرم احسان علی شاہ۔۔۔ کسی طوفان کی طرح۔۔۔ اور چند ہی لمحوں میں سب بدل گیا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
” دیکھیں بابا سائیں آپ کے بیٹے نے کیا کیا۔۔۔ وہ میرے سر سے اپنے نام کا چنر تک کھینچ کر لے گیا۔۔۔ بولا، اس پر صرف اور صرف نو شین فیضان علی شاہ کا حق ہے۔۔۔
آپ نے کہا تھا نہ کہ اس حویلی میں میرے ساتھ کوئی نا انصافی نہیں ہو گی۔ اب آپ کا انصاف کیا کہتا ہے۔۔۔”
وہ سائیں شاہ کے سامنے کھلے سر ، بکھرے بال اور آنسوؤں سے تر چہرے کے ساتھ پھٹ ہی تو پڑی تھی۔ وہاں سب ہی تھے۔۔۔ اماں سائیں، حویلی کی لڑکیاں ، سائیں شاہ۔۔۔
” گستاخی معاف کیجئے گا بابا سائیں، مگر آپ رئیس لوگ سمجھتے ہیں کہ طاقت اور دولت سے آپ کچھ بھی خرید سکتے ہیں۔ آپ نے اسی طاقت کے بل بوتے پر مجھے تو خرید لیا ۔۔۔ مگر اب آپ کی طاقت کیا کرے گی؟ اب کیسے خوشیاں خریدیں گے اپنے بیٹے کیلئے؟ نہیں بابا سائیں خوشیاں خریدی نہیں جا سکتیں۔۔۔ اور اگر آپ اپنی خوشیوں کی بنیاد دوسروں کے آنسوؤں ، غموں اور مجبوریوں پر رکھیں گے تو یاد رکھئے گا۔۔۔ آپ بھی خوش نہیں رہ سکیں گے۔۔۔” وہ سسکتی ہوئ نیچے بیٹھتی چلی گئی۔۔۔
_________
یہ اس کی زندگی نہیں تھی جو وہ گذار رہی تھی۔۔۔ یہ اس کی دنیا نہیں تھی۔۔۔ نہ ہی یہ اس کے اپنے تھے۔۔ اب سے کچھ عرصہ پہلے ، وہ اپنی دنیا میں،اپنے جہاں میں، اپنے لوگوں میں رہتی تھی۔
ایک سال دس ماہ اور چند دن پہلے وہ نو شین فیضان علی شاہ نہیں تھی۔۔۔
اس کی پہچان، اس کا ماحول یہ نہیں تھا۔۔۔ وہ اس علاقے ، اس صدیوں پرانے ریتوں کے اونچے قلعے کی فصیلوں میں مقید گاؤں اور آس حویلی نما قید خانے سے بہت دور ایک آزاد فضا میں سانس لیتی تھی۔۔۔ وہ جہاں تھی۔۔۔۔
وہاں رونقیں تھیں، شور، ہنگامہ ، کھلکھلاہٹیں اور آزادی اور ہاں۔۔۔۔ سب سے بڑھ کر اس کی ایک فیملی تھی۔
خاموش رہنے والے محنتی اور شفیق ابا جان تھے۔۔۔ چھوٹی امی۔۔۔ جو کچھ تلخ تھیں لیکن بہت کئیرنگ تھیں۔۔۔ اس کے چھوٹے بہن بھائی جن میں اس کی جان تھی۔
چھوٹی امی کبھی ٹھیک سے بات نہیں کرتی تھیں، اوپر اوپر سے غصہ، اجنبیت دکھاتیں۔ لیکن اس کے کھانے کا، اس کی صحت ہر چیز کی فکر تھی انہیں۔۔۔کالج سے واپسی پر ذرا سی دیر ہو جاتی تو پریشان ہو جاتیں۔۔۔اسے اپنے بچوں کے ساتھ ہنستے, کھلکھلاتے, کھیلتے دیکھ کر چپکے چپکے مسکراتیں اور پھر سے خود کو کام میں مصروف کر لیتیں۔۔۔
اسے بچپن میں ہوئے حادثے ، ماں کی وفات کی بس ذرا سی جھلک یاد تھی۔۔۔
یہ ہی اس کی ماں تھی، یہی اس کی فیملی۔۔۔ وہ لاڑ سے چھوٹی ماں کے گلے میں بانہیں ڈالتی۔۔۔ ابا جان سے ڈھیر ساری باتیں کرتی ، ان کے خاموش رہنے کے باوجود خوب سر کھاتی۔۔۔ چھوٹی دونوں بہنوں اور تین بھائیوں سے خوب لڑتی۔۔۔
ننھا گڈو تو ابھی گھٹنوں کے بل چلتا تھا۔۔۔ وہ اس کو چلنا سکھانے ،باتیں کرنا سکھانے کیلئے بہت ایکسائیٹڈ ہو جاتی۔۔۔
چھوٹا سا لوئر مڈل کلاس گھرانہ ، معمول کی زندگی اور ڈھیر ساری خوشیاں۔۔۔۔
کالج میں اس کے گرد دوستوں کا جمگھٹا ہوتا۔اسے اکیلے رہنے سے نفرت تھی۔۔۔تمام کلاس سے خوش گپیاں، ہلاّ گلاّ۔۔۔بے فکری کی زندگی۔۔۔
کالج سے واپسی پر وہ اور فاطمہ خود کو بڑی سی کالی چادر میں لپیٹے پر ہجوم سڑک کے کنارے چلتے، بے فکری کے ساتھ بھٹے، آلو چنے ، گولا گنڈا کھاتے اور ایک دوسرے سے ڈھیر ساری باتیں کرتے ہنستے مسکراتے ہوئے گھر جاتیں۔
اس کی زندگی خوشیوں سے بھرپور تھی۔
کوئی بہت اونچے خواب نہیں تھے اس کے۔ پڑھائی میں بھی اوسط درجے کے نمبر لاتی۔۔۔ سرکاری کالج میں پڑھ رہی تھی کیونکہ کہ بڑی مشکل سے ابا جان اس کی پڑھائی کا خرچ اٹھاتے۔۔
اور اب تو چھوٹے بہن بھائی بھی سکول جانے لگے ۔۔۔ وہ سرکاری سکول میں پڑھی تھی لیکن اس کی ضد پر چھوٹے بہن بھائیوں کو علاقے کے نسبتاً کچھ بہتر پرائیوٹ سکول میں داخل کروایا گیا، جس میں قدرے جدید طرز کی انگلش تعلیم بھی دی جاتی۔۔۔
اسے ڈاکٹر، انجینئر یا اعلی تعلیم حاصل نہیں کرنی تھی۔ایف۔اے اچھے نمبروں کے ساتھ کرنے کے بعد گریجویشن کے پہلے سال میں تھی۔
گریجویشن کے بعد یونیورسٹی بھیجنے کی استعداد اس کے ابا جان میں نہیں تھی۔ پرائیوٹ ایم۔اے کرنا تھا اور پھر ابا جان اور امی جان کی مرضی سے شادی۔۔۔
نہ کبھی کوئی افسانوی خواب اس نے دیکھا نہ دیکھنا چاہا۔۔۔
وہ عام تھی اور عام ہی زندگی گزارے گئی۔۔۔ وہ اسی میں خوش تھی۔۔۔
اسے نہیں پتا تھا کہ اس کی عام سی زندگی میں کچھ خاص۔۔۔ بہت خاص ۔۔۔ بہت بُرا ہونے والا ہے۔۔۔
جیسا وہ سمجھتی تھی۔۔۔ اتنی عام سی تقدیر لکھوا کر وہ اس دنیا میں نہیں آئی تھی۔۔۔ اس سے یہ ساری خوشیاں، آزادی چھننے والی تھی بہت جلد۔۔۔ اس کی دنیا بدلنے والی تھی۔۔۔ وہ مہر سلیمان اپنی پہچان تک کھونے والی تھی۔۔۔
____
____
سخت گرمیوں کے طویل, تپش بھرے, جھلستے دنوں کی بات تھی۔۔۔ جب سورج سوا نیزے پر آ گ برساتا معلوم ہوتا تھا۔۔۔۔۔
وہ اور فاطمہ کالج سے پیدل ہی گھر کی جانب رواں تھیں۔ ٹریفک سے بھری سڑک کے کنارے چلتے ہوۓ بے فکری سے بھٹہ کھاتے ہوۓ فاطمہ کی کسی بات پر وہ مسکرا دیتی تو۔۔۔ اس کی شہد رنگ آ نکھیں چھوٹی ہو جاتیں اور عجیب سی چمک بھر جاتی اس کی آ نکھوں میں۔۔۔ چہرے سے پسینے کے قطرے وہ چادر کے کونےسے تھپتھپاتی ہوئ مگن سی چلی جا رہی تھی۔۔۔
سنہری گندمی رنگت میں گرمی کی تپش کی بدولت سرخی جھلک رہی تھی ۔۔۔۔
کہ اچانک کسی عجیب سے احساس کے تحت اس کے قدم سست پڑے۔۔۔ شاید کوئ گاڑی آ ہستگی سے ان کے پاس رکی تھی۔۔۔ فاطمہ رکی۔۔ اور مڑ کر دیکھا۔ فرنٹ سیٹ کا شیشہ نیچے ہوا۔
وہ شاید گاڑی کا ڈرائیور تھا۔ کسی جگہ کا پتہ پوچھنے لگا۔۔
فاطمہ رک کر اسے سمجھانے لگی۔
مہر سلیمان کی نظریں ان دونوں پر تھیں,, لیکن یہ۔۔۔یہ عجیب سی بے چینی کیوں تھی۔۔۔ ؟
اس نے ادھر ادھر دیکھا بکھری لٹوں کو کان کے پیچھے اڑسا اور سر سے چادر دو انگلیوں سے کھینچ کر آ گے کی۔۔۔۔
گاڑیوں کے ہارن۔۔ لوگوں کی آ وازیں , عجیب کان پھاڑ دینے والا شور برپا تھا۔۔۔
لیکن اس کے اندر کہیں سناٹا سا اترتا چلا جا رہا تھا ۔۔۔
ایک بار پھر اس نے ادھر ادھر دیکھا۔۔ گاڑی کے پچھلے سیاہ شیشوں کے پیچھے کوئ عجیب سی خاموشی اور سکوت تھا۔۔ اس کی نگاہ وہاں ٹھہر سی گئ۔۔۔۔۔
ایسے۔۔۔ جیسے کوئ تھا وہاں۔۔۔۔ وہ دیکھ نہیں پا رہی تھی لیکن اسے خود پر کسی کی گہری نظروں کا حصار محسوس ہو رہا تھا۔۔۔
تو۔۔۔۔ یہ تھی اس کی بے چینی کی وجہ۔۔۔
“مہر۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟؟”
فاطمہ نے اسے کندھے سے ہلایا۔۔۔۔
“چلو۔۔۔۔ ” وہ اسے ہاتھ سے پکڑ کر فٹ پاتھ پر آ گے بڑھ گئ۔۔۔
“کہاں گم سم ہو۔۔۔۔۔ ؟”” فاطمہ نے اسے پکارا۔۔۔
“کہیں نہیں۔۔۔ تم یہ بتاؤ بھابھی آ گئیں مائیکے سے ؟؟؟”
“نہیں یار۔۔۔ ابھی کہاں۔۔۔ بھائ کتنی بار کالز کر چکے ہیں۔۔۔۔ “
فاطمہ کے پاس اسے سنانے کے لیے اپنے گھر کے ڈھیروں مسائل تھے۔ وہی جوائنٹ لوئر مڈل کلاس فیملی کے دکھڑے۔۔۔
گھر کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر نند بھابھی, ساس بہو والے روایتی جھگڑے۔۔۔۔۔
مہر سلیمان کے ذہن سے کچھ دیر قبل ہونے والا معمولی سا واقعہ مکمل طور پر محو ہو چکا تھا۔۔۔ وہ عجیب سا لمحہ اس کو بھول چکا تھا۔۔۔۔
وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ گزرا ہوا لمحہ اس کی پوری زندگی پر حاوی ہونے والا تھا۔۔۔ کبھی نہ بھولنے کے لیے۔۔۔۔
___
___
“بڑا سا اور خوبصورت سا گھر ہو , ایگ گاڑی ہو , اور گھر میں نہ ہونے کے برابر آ بادی ہو۔۔۔۔۔ ہر وقت کی چوں چاں سے میں تنگ آ گئ ہوں۔۔۔ “
آ دھے گھنٹے سے فاطمہ کی زبان بنا بریک لگاۓ چل رہی تھی۔۔۔ اس کے خواب بے شمار تھے۔۔۔ اتنے کہ اس سے سنبھالنا مشکل ہو جاتا۔۔۔۔
مہر سلیمان اس کی بات پر کھلکھلا کر ہنس اٹھی۔۔۔
ساتھ ہی گول گپے کو۔۔۔ تیکھے کھٹے مرچی والے پانی سے لبا لب بھر کر منہ میں رکھا اور آ نکھیں بند کر کے اس کے ذائقے اور اس لمحے میں ملنے والی معصوم سی خوشی کو محسوس کیا۔۔۔
“تمہیں نہیں چاہیے عالیشان گھر۔۔۔۔ ؟؟
” نا۔۔۔۔۔ ” وہ شرارت بھری مسکراہٹ لیے فاطمہ کو دیکھتی رہی۔۔۔۔
“بڑی سی گاڑی۔۔۔۔ ؟؟؟”
“نا۔۔۔ ” اس نے مزے سے نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔
” امممممم۔۔۔ کوئ پرنس۔۔۔۔ ؟؟؟”
فاطمہ نے پہت سوچنے کے بعد چٹکی بجا کر ایک اور سوال پوچھا۔۔۔
ایک لمحے کو مہر سلیمان کی آ نکھیں چمکیں۔۔۔ لیکن۔۔ بس ایک لمحے کو۔۔۔ پھر اس نے سر جھٹکا۔۔۔
“بالکل نہیں۔۔۔۔۔ “
چہرے پر ابھی بھی شرارتی اور محفوظ سی مسکراہٹ۔۔۔ اور عجیب سی معصومیت تھی۔۔۔ وہ فاطمہ کے سوالوں کو انجواۓ کر رہی تھی۔۔۔۔
لیکن۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن۔۔۔ ابھی جو لمحہ گزرا تھا۔۔۔ اس نے مہر سلیمان کی آ نکھوں میں۔۔ ابھرنے والی وہ چمک۔۔۔ چپکے سے دیکھ لی تھی۔۔۔۔
وہ چمک۔۔ جسے اس نے سر جھٹک کر ختم کر دیا تھا۔۔
اور اس گزرے ہوۓ لمحے نے ہولے سے مہر سلیمان سے سرگوشی میں کہا ۔۔۔
” پرنس کی خواہش ہر کسی کے دل میں ہوتی ہے۔۔۔۔۔ چھوٹی لڑکی۔۔۔ “
“تو پھر کیا خواہش ہے تمہاری ؟؟”
فاطمہ نے آ نکھیں میچ کر گول گپوں کا بچا ہوا پانی پیا۔۔۔”سسسسسسس۔۔۔۔۔۔ “
اور دونوں اپنے بیگز اور کتابیں اٹھاۓ کالج کینٹین سے باہر کی جانب چل دیں۔۔۔۔
سفید یونیفارم اور سفید دوپٹوں میں ملبوس۔۔ چھوٹی چھوٹی خواہشیں کرتیں۔۔۔ چھوٹے چھوٹے خواب بنتیں۔۔ وہ معصوم پریوں جیسی لڑکیاں۔۔۔۔۔
“میری خواہش ہے۔۔۔ میں کھلکھلاؤں, ہنسوں,, کبھی نہ روؤں۔۔۔۔۔ میں خوشیاں بکھیروں۔۔۔ آزادی سے ہر جگہ گھوموں۔۔ جھوموں۔ ایک تتلی کی طرح۔۔۔۔ “
وہ کالج کے بڑے سے گراؤنڈ میں چہل قدمی کے انداز سے چلنے لگیں۔۔۔
ارد گرد سفید یونیفارم میں ملبوس کئ لڑکیاں, گروپس کی صورت بیٹھیں, اپنے اپنے کاموں میں مگن تھیں۔۔۔۔۔
“اور میری خواہش روز پوری ہوتی ہے۔۔ کتنی آ زادی بھری زندگی ہے نا۔۔۔ کتنے قیمتی خزانے ہیں میرے پاس۔۔ بہن بھائ۔۔ چھوٹی اماں۔۔۔ ابا۔۔۔ سب کو تنگ کرتی ہوں۔۔ ہنستی ہوں۔۔۔ ہنساتی ہوں۔۔۔۔ اور کیا چاہیے زندگی سے۔۔۔ ؟”
“بس یہ خواہش۔۔ ؟ اتنی سی ؟”
فاطمہ نے رک کر اسے گھورا۔۔۔۔ وہ ہنس دی۔۔۔۔
“میری سکھی سہیلی۔۔۔۔! “
وہ چلنے لگی۔۔۔
” جتنی کم اور چھوٹی خواہشات ہوں, زندگی اتنی ہی پر سکون, خوشیوں بھری گزرتی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔
اگر خواہشات بڑی ہونے لگیں تو زندگی سے سکون غائب ہونے لگتا ہے اور نا رسائ کا کرب بڑھنے لگتا ہے۔۔۔۔ “
فاطمہ نے سر ہلایا۔۔۔
“کہتی تو تم ٹھیک ہو۔۔۔ “
“فاطمہ۔۔ میں عام ہوں۔۔۔ تم عام ہو۔۔۔ ہم عام ہیں اور اسی عام ہونے میں بے تحاشا خوش ہیں۔۔۔۔ “
“لیکن مجھے جوائنٹ فیملی تو بہت ہی بری لگتی ہے۔۔۔۔ ہاۓ اللہ۔۔۔ اتنے سیاپے۔۔۔ اتنے رولے۔۔۔ “
فاطمہ نے ناک چڑھائ۔۔
“اپنی اس خواہش کو تو نہیں بھولنے والی میں۔۔۔ “
مہر اس کے انداز پر کھلکھلا کر ہنس دی۔۔۔۔
“کملی سی۔۔۔۔۔ “
“تم جھلی سی۔۔۔۔ “
آگے بڑھتے ہوۓ لمحے نے رک کر ان دونوں کے قہقہے سنے اور مسکرا کر آگے بڑھ گیا۔۔۔۔۔
____
____
فاطمہ نے ناگواری سے ذرا سا پیچھے مڑ کر دیکھا اور بڑبڑاتے ہوۓ قدموں کی رفتار تیز کی۔۔۔ مہر نے حیران ہو کر اسے دیکھا۔۔ “کیا ہوا۔۔۔ ؟”
اس نے فاطمہ کی رفتار سے قدم ملاۓ۔۔۔
“آ ج تیسرا دن ہے۔۔۔ اس کار کو دیکھ رہی ہوں۔۔۔ کالج سے فالو کرنا شروع ہوتی ہے۔۔۔۔ “
مہر نے مڑ کر پیچھے دیکھا۔۔۔۔ سیاہ شیشے بند تھے۔۔۔ جانے کون تھا ان کے پیچھے۔۔۔ اس کا دل زور سے دھڑکا۔۔۔ اور حلق خشک ہوا۔۔۔
“کچھ نہیں ہوتا۔۔۔ ایسے ہی وہم مت کرو۔۔۔ “
اس نے فاطمہ کے لال بھبھوکا چہرے کو دیکھا اور چادر کا پلو کھینچ کر سر کے بال۔۔ ماتھا تک چھپا لیا۔۔۔۔
وہ بہادر نہیں تھی۔۔۔ فاطمہ کی طرح تو بالکل نہیں۔۔۔ کبھی کبھی تو سڑک پار کرتے ہوۓ بھی ڈر جایا کرتی تھی۔۔۔۔
” اور۔۔ تمہیں ہی شوق تھا گائیڈ بننے کا۔۔۔ اس دن ایڈریس۔۔ اتنی تفصیل سے کیوں بتایا۔۔۔ اب بھگتو۔۔۔۔ ” اس نے فاطمہ کو گھرکا۔۔۔۔
“چھوڑو یار۔۔۔ دفع کرو۔۔۔ اب نہیں ہے وہ پیچھے۔۔۔۔ “
فاطمہ نے ہاتھ جھٹکا
“چلو وہ سامنے۔۔۔ آ ئس کریم کھاتے ہیں۔۔۔ ” اس نے شرارت سے آ نکھ ماری۔۔۔
“ہاں چلو۔۔۔۔ ” وہ بے ساختہ مسکرائ
کچھ دیر پہلے کی پریشانی بھلا کر وہ بے فکری سے مسکراتی ہوئیں۔۔۔ اس رونقوں بھرے شہر کی۔۔ آ زاد اور پر رونق سڑک کے کنارے آ گے ہی آ گے بڑھتی گئیں۔۔۔۔۔۔
____
____
اس نے گھر میں داخل ہتے ہی سامنے نظر آ تے تمام نفوس کو سلام کیا۔۔۔۔ اس کے سب بہن بھائ چہکتے ہوۓ اس کے پاس آ گیۓ ۔۔۔
مہر وہیں فرش پر بیگ رکھ کے نیچے بیٹھ گئ۔۔۔۔ ان کو گلے لگا کر دونوں گالوں پر باری باری پیار کیا۔۔۔۔ ننھا گڈو بھی رینگتے رینگتے اس کے پاس آ یا۔۔ اس کی اشاروں کی زبان اورغوں غاں سن کر مہر بے تحاشا ہنسنے لگی۔۔۔ اور پیار سے اسے جھنجھوڑ ڈالا۔۔۔۔۔
پھولے پھولے گالوں پر نرمی سے چٹکیاں بھریں اور اپنے ساتھ لائ گئ آ ئسکریم اور چاکلیٹس سب کو دیں۔۔۔۔
وہاں سے سیدھا وہ چھوٹی سی رسوئ میں آ ئ۔۔۔۔ جو گرمی اور حبس سے بھری ہوئ تھی۔ مہر نے پسینے میں تر اور گرمی سے بے حال چھوٹی امی کو دیکھا۔۔ جو دو ہاتھوں سے دس کام سنبھالے ہوۓ تھیں۔۔۔۔ چولہے پر چڑھا کھانا۔۔۔۔ سلاد بناتی ہوئیں۔۔۔۔
ساتھ تازہ پکی ہوئ گرم روٹیاں بھی پڑی تھیں ۔۔۔
انے پیار سے انہیں دیکھا اور ان کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔۔۔۔
“اسلام علیکم۔۔۔۔ چھوٹی امی۔۔۔۔ “
وہ ایکدم بوکھلا گئیں۔۔۔۔
“وعلیکم سلام۔۔۔۔ ادھر بہت گرمی ہے لڑکی۔۔۔۔ جاؤ یونیفارم بدلو جا کے۔۔۔ اور پھر آ کے کھانا کھاؤ۔۔۔ “
انہوں نے ڈپٹتے ہوۓ کہا۔۔۔۔
وہ زبان دانتوں تلے دباتی ہلکا سا مسکراتی پیچھے ہوئ ۔۔۔۔
“میں ابھی آئ۔۔۔۔۔۔ “
وہ باہر بھاگی۔۔۔۔۔
___
سارے دن کے مختلف کام کرتے۔۔۔ سب کے ساتھ ہنستے مسکراتے, وہ بھول ہی چکی تھی۔۔۔۔
لیکن رات کو اپنی چارپائ پر سونے کے لیے لیٹی تو چھت پر لگے کم رفتار پنکھے کی گھرر گھرر کو سنتے ہوۓ اچانک ہی وہ گاڑی اس کے ذہن میں آ ئ تھی۔۔۔۔ اور برا ہوا تھا۔۔۔۔۔
وہ خوف کے غلبے سے کانپ اٹھی تھی۔۔۔۔۔
“توبہ۔۔۔ “
اس نے اپنی سوچوں کو جھٹکا اور آ نکھیں موندے نیند کا انتظار کرنے لگی۔۔۔۔۔
____
____
آ ج فاطمہ نہیں آ ئ تھی۔۔۔۔۔ آ ج پہلی بار اسے سڑک پار کرتے ہوۓ بے تحاشا ڈر لگا تھا ۔۔۔۔
عجیب سا خوف اس کے حواسوں پر سوار ہو رہا تھا۔۔۔۔ سڑ ک پر بلا کا ٹریفک تھا۔۔۔۔۔
آ نکھوں میں سورج کی تیز چبھتی ہوئ روشنی۔۔۔۔۔
وہ بیگ سنبھالے, تیز قدم اٹھاتی سڑک پار کرنے لگی۔۔۔۔
ہر سیکنڈ میں ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ابھی کوئ تیز رفتار گاڑی اسے کچل کر آ گے بڑھ جاۓ گی۔۔۔۔
اسے کیا ہو رہا تھا۔۔۔۔۔؟ اتنی گبھراہٹ کیوں ہو رہی تھی۔۔۔۔۔۔؟
سفید یونیفارم پر بڑی سی کالی چادر لپیٹے وہ نازک سی لڑکی کچھ لمحوں بعد ہونے والے اپنی زندگی کے سب سے بڑے حادثے سے بالکل بے خبر تھی۔۔۔۔۔
نہیں جانتی تھی کہ آ نے والا وقت اس کے لیے کس سازش کا منصوبہ کیے ہوۓ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ فٹ پاتھ پر چلی جا رہی تھی۔۔۔۔ گبھراہٹ کچھ کم ہوئ تھی۔۔۔ کہ اچانک وہی منحوس سی گاڑی اسکے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔
اس کا رنگ فق ہوا اور دل خوف سے لرزنے لگا۔۔۔۔۔
گاڑی رکی اور اس میں سے دو عجیب سے, نا شناسا اور اجنبی سے شخص باہر آ ۓ۔۔۔۔
وہ سہم کر رکی۔۔۔۔ وہ اس کے سامنے آ کھڑے ہوۓ۔۔۔۔۔
” کک۔۔۔۔ کون۔ ۔ کون ہو آ پ لوگ۔۔۔۔ “
اس نے تھوک نگلا۔۔۔۔۔۔۔
ارد گرد بے بسی سے نظر دوڑاتی مہر سلیمان۔۔۔۔۔
اس پر اس حقیقت کا ابھی ابھی انکشاف ہوا تھا کہ وہ بے تحاشا رونقوں, ہنگاموں میں ہونے کے باوجود۔۔۔۔ اس وقت اکیلی تھی۔۔۔۔ بالکل اکیلی۔۔۔۔۔ تنہا۔۔۔۔۔
لمحوں میں اس کے چہرے پر کچھ رکھا گیا۔۔۔۔
اور کلورو فارم کا اثر اس کے حواسوں پر چھانے لگا۔۔۔۔۔
ماؤف ہوتے ذہن نے جو آ خری چیز محسوس کی تھی۔۔۔۔۔۔ وہ یہ تھی کہ اس کے وجود کو آ ہستگی سے گاڑی میں ڈالا جا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
بند ہوتی آ نکھوں نے جو آ خری منظر دیکھا تھا۔۔۔۔ وہ سڑک کے دوسرے کنارے کھڑا۔۔۔۔۔۔۔ سیاہ لباس۔۔۔ سیاہ آ نکھوں والا شخص تھا۔۔۔۔۔۔
جس کی نظریں اسی پر جمی تھیں۔۔۔۔
بے حد خاموش۔۔۔۔ بے تاثر سی آ نکھیں۔۔۔۔۔۔
مہر نے ہاتھ اٹھا کر اس کی طرف بڑھایاتھا ۔۔۔۔۔ اس کو بلانا چاہا تھا ۔۔۔۔
مدد کے لیے۔۔۔۔ اس کو پکارنا چاہا تھا۔۔۔۔۔
لیکن اس کا وجود بے جان سا ہو کر جھول گیا۔۔۔۔۔۔۔
اس کے ذہن پر تاریکی چھاتی چلی گئ۔۔۔۔۔
آ خری چہرے جو اس کے تاریک ہوتے ذہن کی سوچوں میں ابھرےتھے۔۔۔
وہ اس کے ابا جان تھے۔۔۔ اس کی چھوٹی امی اور بہن بھائ تھے۔۔۔۔۔۔
اس کے اپنے۔۔۔۔
اس کی فیملی۔۔۔۔۔۔
اور بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب ختم۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔۔۔۔
گہرا اندھیرا۔۔۔۔۔۔۔
_________________