“آپ مجھے بہت ہی بھا گئے ہیں۔”
ایک دن شرما کر جےشری نے مجھے بتا دیا اور تب مجھے ہوش آیا کہ انجانےمیں ہی میں کہاں الجھتا چلا جا رہا ہوں! اپنے عہد پر قائم شانتارام نے اسے جواب دیا، “لیکن میں شادی شدہ ہوں، بال بچوں والا ہوں۔ اور دوسری شادی میں کبھی نہیں کروں گا!”
“کوئی بات نہیں، میں بنا بیاہ کیے ہی آپ کے ساتھ رہ لوں گی!”
میں حیران ہو گیا۔ اسے سمجھانے کے لیے بولا، “بات سنو۔ میں کوئی بھی بات چوری چھپے نہیں کرتا۔ جو بھی کرنا ہو کھلم کھلا کرتا ہوں!”
اس پر جوش سے اس نے کہا، “تب تو اور بھی اچھا۔ ہم دونوں کھلم کھلا ساتھ رہیں گے۔”
میں کشمکش میں پڑا۔ کیا جواب دوں، سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ اس لیے کہہ دیا، “تم چلی جاؤ بھلا یہاں سے!”
وہ اٹھی، کچھ روٹھ کر ہی ٹھٹھکی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔
رات کو بستر پر لیٹا تو دوپہر کا وہ سین پھر یاد آ گیا۔ باتوں کا منظر ہی آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگا: ‘پڑوسی’ اور ‘شیجاری’ بمبئی میں ریلیز کر میرے پُونا لوٹ آتے ہی جےشری مجھ سے ملنے کمپنی آئی تھی اور اس نے مجھے دلی مبارکباد دی تھی۔ اس دن چونکہ مجھے خاص کام وام نہیں تھا، میں اس کے ساتھ کافی دیر تک باتیں کرتا رہا تھا۔ اس کے ساتھ باتیں کرنے سے میری ساری تھکان دور ہو گئی تھی۔
دھیرے دھیرے ہماری میل ملاقاتیں بڑھنے لگیں۔ کبھی کبھی شام کو کمپنی سے میں اس کے گھر جانے لگا، اگرچہ میں لُک چھپ کر نہیں جاتا تھا۔ میری سفید سٹوڈی بیکر کار اس کے گھر کے سامنے کھڑی رہتی تھی۔ اس طرح میرا جےشری کے گھر جانا کمپنی میں کافی چرچا کا موضوع بن گیا۔ ایک بار تو داملے جی، فتے لال جی بھی اس راستے کی سیر کر آئے تاکہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ واقعی میری گاڑی اس کے گھر کے سامنے کھڑی ہے۔
جےشری کی صحبت میں میری شامیں اچھی طرح کٹنے لگیں۔ باتیں کرنے کے لیے نئے نئے موضوعات آرام سے ہی سوجھنے لگے۔ اپنی موٹی موٹی کجراری آنکھوں اور ابھری ہوئی جوانی سے وہ مجھے موہنے کی پوری کوشش کرنے لگی۔ جےشری کی آواز بہت ہی مدھر اور ادا من بھاون تھی۔ گائیکی بہت ہی میٹھی تھی۔ یہ باتیں میرے تھکے من کو رِجھانے لگیں۔ ‘سواڈمیین گیتین، یوتیناں چ لیلیا۔ یسیہ نہ مودتے چتم س وے مکتوتھوا پش۔۔۔’] اگر کوئی شخص شعر و ادب، سنگیت اور جوان عورت کی اداؤں سے خوش نہیں ہوتا تو وہ مکتی پا چکا ہے یا جانور ہے۔[ پتنی، بال بچے، گھر گرہستی کے ہوتے ہوے بھی میں بھلا آزاد کیسے؟ اور جانور؟ وہ تو میں کبھی تھا ہی نہیں۔ میرا من جےشری کی جوانی کے کارن خوش ہونے لگا۔
لیکن اس کی سزا؟ آج تک تو میں ایسے موہ سے بچتا رہا ہوں۔ اسی لیے میرے رابطے میں آئے لوگ مجھے دیوتا آدمی سمجھتے رہے ہیں۔ اپنی اس مورتی کو مجھے قائم رکھنا ہے۔ مورتی قائم کرنا ہے؟ کیا جیون بھر؟ تب تو کیا یہ خود کو دھوکہ دینا نہیں ہے؟ تمھارا من جےشری کی صحبت میں رم جاتا ہے۔ اس کی تمھیں کشش ہے، ایک طرح کا لگاؤ ہو گیا ہے۔
— تو اب اس کا کیا حل ہے؟
—نہیں، یہ ناممکن ہے! آج تک ایسے سبھی منظروں سے میں بےداغ، بےلاگ نکل آیا ہوں۔ اس بار بھی ویسا ہی نکل جاؤں گا، مجھے پورا یقین ہے!
—پورا یقین؟ جس سمے آدمی ‘یقین ہے’ کے پہلے ‘پورا’ لفظ زور دے کر استعمال کرتا ہے، تب یقین جانیے اس کا یقین کچھ ڈگمگا گیا ہوتا ہے۔
نہیں!— میں جےشری کو بُھلا دینے والا ہوں اور اس کی پہلی علامت کے طور پر اب گہری نیند سونے والا ہوں۔
میں نے کروٹ بدلی۔ پاس ہی میں وِمل شانت نیند میں کھوئی تھی، میرے من میں اٹھے طوفان سے بےخبر۔ میں نے اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا۔ وہ نیند میں ہی بڑبڑائی، “اجی، یہ کیا نا وقت ہی؟” میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ سویرے سویرے میری آنکھ لگی۔ اس کے بعد میں گہری نیند سو گیا۔
دوسرے دن جےشری میرے آفس میں آئی۔ میں نے اسے کچھ رکھائی سے ڈانٹ کر کہا، “سنو جےشری، میرے بلائے بِنا تم میرے کمرے میں مت آیا کرو۔”
‘ٹھیک ہے، نہیں آؤں گی! لیکن دوپہر میں تو آپ مجھے بُلوا لیں گے نا؟” ٹھٹھولی بھری مسکان بکھیر کر اس نے پوچھا۔
میں نے اس پر ایک ٹک نظر گڑائی۔ وہ چلی گئی۔
‘شیجاری’ اور ‘پڑوسی’ بھارت بھر میں ریلیز ہو گئیں اور دونوں فلموں نے ‘پربھات’ کے حسن میں چار چاند لگا دیے، اس میں کوئی شک نہیں! لیکن دس بارہ ہفتے بعد تماشائیوں کی بھیڑ دھیرے دھیرے کم ہونے لگی۔ اصل میں یہ میرے لیے غیرمتوقع نہیں تھا۔ اس فلم میں وِلن ٹھیکیدار کا کردار برٹش راج کے نمائندے کے روپ میں فلمایا کیا گیا تھا اس لیے سنسر کی قینچی کے ڈر کے کارن اسے حقیقی کرنا ممکن نہ ہو پایا تھا۔ اس کے علاوہ ان دنوں ہندو مسلمانوں میں اتنا زیادہ تناؤ تھا کہ میں ان دونوں سماجوں کا اصل دکھاتا تو کیا ہندو، کیا مسلمان، دونوں مجھ پر چیل سے جھپٹ پڑتے۔ کرداروں کے فلماتے سمے اس الجھن سے نپٹنے کی جھنجھٹ کا دھیان زیادہ رکھنا ضروری تھا۔ اسی لیے ان شخصی خاکوں میں جیون کی حقیقت کا درشن کرانے والا انتہائی ڈرامہ نہیں آ پایا تھا۔ جیوبا پاٹل کا شخصی خاکہ دیکھ کر کچھ ہندو تو آگ بگولا ہو گئے تھے۔ ممبئی کی ایک ہندو دھرم عقیدے کے کچھ افراد نے تو ایک اعلان بھی جاری کیا تھا کہ ‘ہر سچا ہندو بھائی بند اس فلم کا بائیکاٹ کر کرے۔’ اس طرح کی دوستانہ، غیردوستانہ تنقید کے کارن ‘شیجاری’ اور ‘پڑوسی’ نے سارے دیسں بہت ہی کھلبلی مچا دی۔ لیکن آدرشوں پر مبنی فلم کو معاشی یا کاروباری نظر سے ہمیشہ کم ہی کامیابی ملتی تھی۔ اس کارن میرے ساتھی ایسی فلموں کے حق میں زیادہ جوش نہیں دکھاتے تھے۔ وہ آپس میں بیٹھ کر اس پر کافی ہنسی مذاق کیا کرتے کہ: “اجی چھوڑیے ان آدرشی اور وقار دلانے والی فلموں کی بات! ان سے تو ہماری ‘تکارام’، ‘گوپال کرشن’، ‘گیانیشور’ نے ہی زیادہ آمدنی دی ہے۔” اس سوچ کی حمایت کرنے والے داملے جی، فتے لال جی کے گروپ میں راجہ نےنے، کیشوراؤ بھولے وغیرہ لوگ بھی شامل ہو گئے تھے۔ ان لوگوں کا یہ ہنسی مذاق، میرے کسی کام سے اچانک جا پہنچتے ہی یکایک بند ہو جاتا۔ ایسا اکثر ہونے لگا۔ ‘پربھات’ اب فلم میکنگ کی جگہ نہ رہ کر جگت بازی کا اکھاڑا بن گیا۔ من کو لگاتار یہی وچار پریشان کرنے لگا کہ کیسے اس آلودہ ماحول کو ٹھیک کیا جائے؟ میں خود تو ہمیشہ کام میں مصروف رہتا تھا۔ سوچا کہ ان لوگوں کو بھی اسی طرح کسی نہ کسی کام میں جٹائے رکھا جائے، تو شاید ماحول آہستہ آہستہ اپنے آپ صاف ہو جائے گا۔
حال ہی میں سُکھٹنکر نامی ایک لیکھک نے ایک اچھی پرجوش کہانی لا کر دی تھی۔ کہانی پیشوا دور کے جج ‘رام شاستری’ کے جیون پرمبنی تھی۔ اس کے ہر سین کے بارے میں سُکھٹنکر جی کے ساتھ میں نے چرچا کی اور ان کی کہانی پر آخری نظر ڈالنے لگا۔ فتے لال جی کے ساتھ بیٹھ کر سیٹس اور پوشاکوں وغیرہ کے ideas انھیں دیے۔ اس کے مطابق وہ سکیچز بنا کر بڑھئی کو دینے لگے اور رنگ ساز ڈیپارٹمنٹ میں بھی سین کھڑے ہونے لگے۔ پیشواکالین (پیشوا زمانے کی) پوشاکیں بھی بننے لگیں۔ ایک دن اچانک ‘گیانیشور’ اور ‘تکارام’ فلم کے سکرین پلے لیکھک شِورام واشیکر مجھے کمپنی میں مل گئے۔ میں نے سہجتا سے پوچھا، “کہیے واشیکر، پُونا کب آئے آپ؟”
“ہو گئے ہوں گے دس ایک دن، داملےجی نے بلوایا تھا ‘سنت سکھو’ پر سکرین پلے لکھنے کے لیے۔”
“ارے! اور مجھے اس کی کوئی جانکاری تک نہیں!”
اس پر واشیکر جی بولے، “دیکھیے، میں نے داملے ماما سے اس بارے میں کہا بھی تھا۔ لیکن انھوں نے کہا کہ اس بار کہانی کے انتخاب سے لے کر بالکل آخر تک ہم کو ہی فلم بنانا ہے۔ شانتارام بابو کو اس معاملے میں تھوڑی بھی زحمت نہیں دینی ہے۔‘‘
داملے کی بات کا ارادہ میری سمجھ میں برابر آ گیا۔ داملے، فتے لال کی نظر سے سوچ کر دیکھا۔ ان کی کوئی غلطی تو اس میں مجھے دکھائی نہیں دی۔ لیکن کلیجے میں ایک ٹیس ضرور اٹھی۔ آج تک ان دونوں کی فلموں کے موضوع، مکالمے اور کئی بار تو کئی منظروں کا سنیریو بھی میں ہی لکھ کر دیتا رہا۔ کسی مشکل سین کو فلمانے کی ذمہ داری بھی یہ لوگ بِنا جھجھک مجھے سونپتے رہے۔ لیکن آج۔۔۔ وچاروں کی ادھیڑبن کو من کے کسی کونے میں رکھ کر میں نے واشیکر سے کہا، “چلو، ٹھیک ہی ہوا ایک لحاظ سے۔ آپ اچھا سکرین پلے لکھیے گا۔” اتنا کہہ کر میں کمپنی کے کسی اور ڈیپارٹمنٹ میں جانے کو بڑھا۔ جاتے جاتے وچاروں نے پھر مجھے گھیر لیا : سچ پوچھا جائے تو داملے، فتے لال جی نے آج تک ایک دم خودمختاری سے کوئی فلم بنائی نہیں تھی۔ آج تک وہ میری مدد لیتے رہے۔ کیا اب اس مدد کے بِنا وہ ایک اچھی فلم واقعی بنا سکیں گے؟ کاش ایسا ہو پائے! تب تو میں اپنی فلم بنانے پر زیادہ دھیان دے سکوں گا۔
اس نتیجے پر پہنچتے ہی من کا سارا غبار اتر گیا۔ کافی ہلکا ہلکا سا لگنے لگا۔ چلتے چلتے میں ایسے ہی کمپنی کے کارپینٹنگ ڈیپارٹمنٹ میں پہنچ گیا۔ جوش سے میں ‘رام شاستری’ کی سیٹنگ دیکھنے کو مڑا۔ وہاں فتے لال جی اکیلے ہی تھے۔ سیٹنگ کے بارے میں باتیں ہو جانے کے بعد فتے لال مجھ سے داملے کے بارے میں شکایتیں کرنے لگے، “اس ‘سنت سکھو’ کے بارے میں انھیں میں نے چند بہت اچھے سجھاؤ دیے، پر داملے جی نے ان کی طرف دیکھا تک نہیں، پھر قبول کرنا تو دور کی بات ہو گئی۔ ایسے پیش آتے ہیں، جیسے میں نِرا بُدھو ہوں، بےوقوف ہوں۔ لیکن کیا کروں، اُن واشیکر اور داملے کے بھانجے راجہ نےنے کے سامنے مجھے چپ ہی بیٹھنا پڑتا ہے!”
حقیقت میں داملے کے مقابلے فتے لال کہیں زیادہ امیجنیٹیو (پُرتخیل) تھے۔ ایسے ہی مجھے ‘گیانیشور” کی میکنگ کے سمے ان دونوں میں ہوے اختلاف کا سین یاد آ گیا۔ فلم کا آخری سین تھا: گیانیشور سمادھی لینے کے لیے آہستہ آہستہ سمادھستھان کی طرف جا رہے ہیں۔ دونوں طرف گانے والوں کی بھیڑ جمع ہو گئی ہے۔ سب ہاتھ جوڑے ہوے ہیں۔ اس سین کو فلماتے سمے فتے لال نے داملے کو سجھاؤ دیا کہ اس سین میں ایسا منظر لیا جائے کہ بال بچوں والی ایک ماتا بھیڑ میں سے آگے آتی ہے اور اپنے بچے کو گیانیشور کے چرنوں پر رکھتی ہے۔ واقعی میں اس چھوٹے سے منظر کے کارن سارا سین بہت ہی جاندار اور دل چُھو جانے والا ہو جاتا۔ لیکن داملے اور راجہ نےنے دونوں نے اس سجھاؤ کو ایک دم ٹھکرا دیا۔ شام کو فتے لال جی نے اپنے دل کی چوٹ بہت ہی ٹھیس لگے لفظوں میں مجھے سنائی۔ مجھے بھی بُرا لگا۔ دوسرے دن اس واقعے کے بارے میں میں نے داملے سے خود بات چیت کی۔ انھیں بتا دیا کہ فتےلال جی کا سجھاؤ واقعی اچھا ہے۔ آخر داملے اس منظر کو لینے کے لیے تیار ہو گئے۔
اب بھی فتے لال کی گئی شکایتوں کے کارن میرے من میں اس سین کے ساتھ ہی دیگر بیتی باتیں ابھر آئیں۔ میں نے فتے لال سے دل سے کہا، “داملے ماما کو ‘سنت سکھو’ کو جیسی مرضی ہو فلمانے دیں۔ آپ خودمختار روپ سے دوسری فلم کی ڈائرکشن کیجیے۔ ‘رام شاستری’ کے سکرین پلے کو میں نے بہت ہی پُراثر بنوا لیا ہے، اس کے مکالمے بھی تیار ہیں۔ آپ ہی لیجیے ‘رام شاستری’ کو۔”
“کیا میں لوں؟ اکیلے؟” فتے لال جی کچھ جھجک سے کہنے لگے۔
“جی ہاں۔ اس میں کیا حرج ہے؟ آپ گھبراتے کیوں ہیں؟ میں جو ہوں آپ کی مدد کے لیے! آپ کا معاون بن کر کام کروں گا!”
“معاون؟” کہہ کر فتے لال زور سے قہقہہ مار کر ہنسنے لگے۔
‘رام شاستری’ کی میکنگ کا کام فتے لال لیں، تو مجھے اپنے لیے کسی نئی کہانی کی کھوج کرنی ہو گی۔ مشہور لیکھک اور ڈائیلاگ رائٹر خواجہ احمد عباس اور فلم ‘انڈیا’ ماہانہ میگزین کے ایڈیٹر بابوراؤ پٹیل دونوں نے مل کر عمر خیام کے شاعرانہ جیون پر ایک بہت ہی شاندار کہانی لکھی تھی۔ میں نے ان دونوں کو فوراً پونا بُلوا لیا، ان کی نئی کہانی پر ہم لوگوں کی چرچائیں کافی رنگ پر آ گئیں۔ بابوراؤ پٹیل اور خواجہ احمد عباس دونوں مشہور لیکھک تھے، قلم کے دھنی تھے۔ عمر خیام کے جیون کے کچھ منظروں کا ذکر وہ اتنے پُربہار ڈھنگ سے کرتے کہ سنتے سنتے میں جذباتی ہو جاتا اور میری آنکھیں بھر آتیں۔ کبھی کبھی تو آنسو پھوٹ پھوٹ کر بہہ نکلتے۔ شروع میں تو میرے آنسو دیکھ کر ان دونوں کو کچھ حیرانی ہوتی۔ ‘شانتارام روتا ہے’ کے عنوان سے اس سمے انھوں نے ایک مضمون میں ان چرچاؤں کا ذکر بھی کیا تھا۔ عمر خیام کی کہانی کا موٹا خاکہ تیار ہو جانے پر میں نے فتے لال جی کو کہانی اس کے بیک گراونڈ، اس کے لیے ضروری کپڑے اور سیٹس وغیرہ کا آئیڈیا سمجھا کر بتایا۔ یہ شاعرانہ موضوع انھیں بہت ہی پسند آیا اور وہ ہمیشہ کی طرح جوش سے کام میں جٹ گئے۔
“سکھی تم ہو، تمھارا پاس ہو شباب
اور ساتھ دینے کو ہو صراحی میں شراب”
عمر خیام کی اس مشہور رباعی میں بیان کردہ سکھی کے کردار کے لیے جےشری ہی سب سے مناسب اداکارہ ہو گی، فتے لال جی نے بِلاجھجک کہہ دیا۔ یہی نہیں انھوں نے کاسٹیوم ڈیپارٹمنٹ میں مسلم کاسٹیوم کے جو بھی کپڑے تھے، اسے پہنا کر اس کی طرح طرح کے پوز میں تصویریں بھی اتاریں۔ ان تصویروں کے لیے انھوں نے اُسے اپنے سکیچز میں دکھائے گئے ڈھنگ سے کھڑا کیا تھا۔ مختلف جذباتی تاثرات میں انھوں نے جےشری کے فوٹوز لیں۔
فتے لال جی کو یہ شاندار کہانی اتنی راس آ گئی کہ اس موضوع پر بننے والی فلم کی ڈائرکشن خود کرنے کا وچار ان کے من میں اٹھنے لگا۔ عمر خیام ایک ایسا موضوع تھا، جس کی ڈائرکشن بہت ہی ٹیڑھی کھیر تھی۔ لیکن میں اگر صاف صاف ویسا کہہ دیتا، تو شاید ان کے دل کو پھر ٹھیس پہنچتی۔ لہٰذا میں نے ان سے کہا، “ہم لوگوں نے ‘پڑوسی’ میں جیسا کیا تھا، ویسا ہی کرتے ہیں۔ اس میں جس طرح ہندو پڑوسی کا کام مسلمان اداکار کو اور مسلمان پڑوسی کا ہندو اداکار کو سونپا تھا، اسی طرح ہماری آئندہ فلموں کی ڈائرکشن کا بھی انتظام کرتے ہیں۔ آپ مسلمان ہیں، لہذا پیشوا دور کی کٹر براہمن ماحول والی ‘رام شاستری’ کی ڈائرکشن آپ کیجیے، اور اس فارسی بھاشا مسلمان شاعر پر مبنی فلم میں ڈائرکٹ کرتا ہوں۔ اس میں ہم دونوں کے ڈائرکشن سٹائل کا امتحان ہو جائے گا۔ کیوں، کیسا لگا یہ چیلنج؟”
“یہ چیلنج مجھے قبول ہے،” فتے لال نے ایک دم زور سے کہا۔
کچھ دنوں بعد واشیکر ‘سنت سکھو’ کی کہانی اور مکالموں کی کاپی لے کر میرے پاس آئے۔ کہنے لگے، پڑھ کر بتائیے کیسا لگا۔ میں نے انھیں دو دن بعد ملنے کے لیے کہا۔
میں یہی نہیں جان پایا کہ ‘سنت سکھو’ کی کہانی واشیکر جی خود مجھے دکھانے کے لیے لے آئے تھے یا داملے کے کہنے پر۔ میں نے کہانی پورے دھیان سے پڑھی مجھے وہ قطعی پسند نہیں آئی۔ کہانی کی رچنا میں کسی بھی طرح کا نیاپن نہیں تھا۔ میں نے کہانی کو دوبارہ پڑھا اور کہاں پر کیا کیا سدھار کرنے کی ضرورت ہے، نوٹ کیا۔ دوسرے دن جب واشیکر رائے پوچھنے کے لیے آئیں گے، تو انھیں اپنی رائے ایک دم صاف صاف اور دوٹوک لفظوں میں کہہ دینے کا بھی میں نے من ہی من طے کر لیا۔ آخر پربھات’ کے نام پر وہ فلم ریلیز ہونے والی تھی۔
دوسرے دن واشیکر آئے۔ بات کس طرح شروع کی جائے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ تھوڑی دیر ادھرادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ بعد میں واشیکر نے ہی معاملہ سیدھے اٹھایا، “کیسی لگی کہانی آپ کو؟” کہانی کی کاپی سامنے ہی پڑی تھی۔
میں کچھ پل من ہی من کچھ سوچتا رہا۔۔۔۔ کہانی ٹھیک سے جمی نہیں کہہ دوں، اور داملے جی نے کہیں یہ سوچ لیا کہ ایسا میں اپنی اہمیت بڑھانے کے لیے ہی جان بوجھ کر کہہ رہا ہوں تو؟
میں نے کاپی وشیکرن جی کے سامنے کھسکاتے ہوے کہا، “ٹھیک ہے۔”
میرا خیال تھا کہ میرے اس بےرخی بھرے جواب کا مطلب ان کے دھیان میں آ جائے گا، لیکن وہ کچھ نہ بولے۔ تھوڑی دیر اور اِدھراُدھر کی باتیں کرنے کے بعد اپنی کاپی اٹھا کر چلتے بنے۔
میرا من غصے سے بھر گیا۔
کیوں نہ میں نے صاف گوئی سے کام لیا؟ کیا اس لیے کہ داملے کو غلط فہمی ہوتی؟ یہ تو سچ ہے کہ وہ میری بات نہ مانتے تو مجھے بُرا لگتا، لیکن پھربھی مجھے ایمانداری سے اپنی رائے دے دینی چاہیئے تھی۔ کاش! میں ایسا کر پاتا۔ ‘پربھات’ کے لیے اپنے فرض کی ادائیگی کرنے سے میں چوک گیا ہوں!
‘سنت سکھو’ کا پہلا شاٹ شروع ہونے کی اطلاع دینے والا بھونپو بج اٹھا۔ اپنے آفس میں بیٹھے جب اس کی آواز مجھے سنائی دی، تو ایسا لگا جیسے بجلی کا کرنٹ لگ گیا ہو۔ یہ تو مان لیا کہ انھیں خود مختار روپ سے فلم بنانی تھی، لیکن معمولی مہورت کی بات بھی مجھ سے چھپائے رکھنا کہاں تک مناسب تھا؟ آج تک ہر فلم کے مہورت کے سمے ہم سبھی حصہ دار سٹوڈیو میں برابر حاضر رہتے آئے تھے۔ ہر مہورت ایک تقریب بن جاتا تھا ہمارے لیے۔ ایک تہوار سا مناتے تھے ہم سب۔۔۔ فلم ان کی تھی تو، میں دور کونے میں کھڑا رہتا اور فلم کا مہورت دیکھ لیتا۔۔۔ کیا میں اِن لوگوں سے اتنا اکیلا پڑ گیا ہوں؟ الگ تھلگ رہ گیا ہوں؟ ان کے کندھے سے کندھا لگا کر پچھلے بارہ سالوں سے لگاتار ‘پربھات’ کی ایک ایک اینٹ جوڑنے کی خواہش سے دن رات ایک کرتا رہا۔۔۔ میں کیا ان لوگوں کے لیے آج اچانک بیگانہ ہو گیا ہوں؟
ماتھا ایسا ٹھنکا کہ مانو کوئی اندر گھن چلا رہا ہو۔ اپنے آفس کے کمرے میں اکیلا ادھر سے ادھر بےچینی سے چکر کاٹتا رہا۔ بیچ بیچ میں شوٹنگ کے بھونپو کی آواز سنائی دیتی رہی۔ لگتا کہ سب چھوڑچھاڑ کر کہیں دور بھاگ جاؤں۔ غضب کی گھٹن محسوس ہوتی رہی۔ پھر بھی میں کمپنی میں ہی سارا دن بیٹھا رہا۔
سٹوڈیو کی گھڑی نے چھ بجنے کا گھنٹہ بجایا اور میں بھاری قدموں سے کمپنی سے باہر آیا۔
گھر پر کوئی نہیں تھا۔ وِمل بچوں کو لے کر مہابلیشور ہواخوری کے لیے گئی تھی۔ کھانا تیار تھا، لیکن میں نے نوکر سے کہہ دیا کہ بھوجن نہیں کروں گا۔ آخر میں نے نوکر کے ہاتھوں اپنا ٹھنکتا ماتھا زور زور سے دبوا لیا۔ تبھی جےشری نے چٹھی بھجوائی: ”آج رات بھوجن کے لیے دعوت دے رہی ہوں۔ آپ پدھاریں، تو مجھے بےحد خوشی ہو گی۔ میرا ممیرا بھائی بمبئی گیا ہے۔ گھر میں اکیلی ہوں۔”
چٹھی لانے والے کو میں نے اسی قدم لوٹا دیا۔ لیکن گھر میں بیٹھنے کو من نہیں مان رہا تھا۔ یہ سوچ کر کہ شاید ذرا ٹھنڈی ہوا میں گھوم آؤں تو اُکھڑا ہوا من اور بھبھکا ہوا ماتھا شانت ہو جائے گا، میں باہر نکلا۔
اپنی ہی غنودگی میں کھویا ہوا، پتا نہیں کہاں چلا جا رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اچانک رُکا تو پایا کہ جےشری کے گھر کے سامنے کھڑا ہوں۔ دروازے پر دستک دی۔ وہ میرا انتظار ہی کر رہی تھی۔ اس نے پوچھا، “بھوجن کریں گے نا؟” میں ایک دم مکمل گونگا بنا بیٹھا رہا۔ وہ دو تھالیاں لگوا کر لے آئی۔ بھوجن ختم ہوا۔ پھر اس نے اپنی سریلی آواز میں گوا میں گائے جانے والے دو ایک کونکنی گیت گا کر سنائے۔
آہستہ آہستہ من کا بوجھ اترتا گیا۔ تکلیف دینے والے وچار چھٹ گئے۔ ہم دونوں کافی دیر تک باتیں کرتے رہے۔۔۔ اور۔۔۔ وہ ساری رات ہم نے باہمی صحبت میں بِتا دی۔
تڑکے پانچ بجے کے لگ بھگ میری آنکھ کھلی۔ میں اٹھ بیٹھا۔ من بھی ہوش میں آ گیا۔ کل رات میں یہ کیا کر بیٹھا ! کیا من کا بوجھ اتارنے کے لیے؟ یا جےشری سے مسحور ہو گیا اس لیے؟ منھ اندھیرے ہی جےشری کے گھر سے میں واپس اپنے گھر آنے کے لیے تیزی سے قدم بڑھاتا ہوا پربھات نگر کی طرف چل پڑا۔ من میں وچاروں کا طوفان اٹھا تھا۔۔۔
ــــ آخر آج میں نے ایسا طرزِعمل کیوں اختیار کیا؟ سینما جیسے کاروبار میں رہ کر بھی آج تک بےداغ سنبھالا ہوا اپنا کردار اپنے ہی ہاتھوں میں نے اس طرح کیوں لٹا دیا؟ کیوں؟ آخر کس لیے؟ جےشری کے پاس مجھے نرالا کیا ملا؟
— نرالا؟ کیا تھا نرالا؟ صرف چہرہ، ایک آزاد سائنس دان کی طرح گذشتہ رات کے تجربے کا خشک تجزیہ میں کیے جا رہا تھا۔ ـــ تو پھر تم نے ایسا کیوں کیا؟
ـــ ہو سکتا ہے، کل سٹوڈیو میں ہوے واقعات کے کارن من کچھ اُکھڑا اُکھڑا سا تھا اور اسی حالت میں اپنی تلخی کو مٹانے کے لیے ہوش نہ رہا ہو۔۔۔۔ لیکن اپنے اس طرز عمل کے کارن تم نے ایک اور شخص کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی ہے — یہ تم نے کیا کیا؟
من میں اٹھے اس طوفان کے کارن کلیجہ دھک دھک کرنے لگا۔ اب اس سے نکلنے کا راستہ کیا ہے؟۔۔۔۔۔۔ایک ہی۔۔۔ دوسری شادی!
دوچار دنوں بعد وِمل مہابلیشور سے لوٹی۔ معاملے کی بھنک شاید اس کےکانوں میں بھی پڑ گئی۔ لیکن اس بچاری نے کبھی اس بارے میں مجھ سے پوچھنے کی ہمت نہیں کی۔ شاید ایک کڑوی سچائی وہ میرے منھ سے سننا نہیں چاہتی تھی۔ اسے ڈر لگتا ہو گا کہ کہیں اس نے پوچھ لیا اور میں نے ‘ہاں’ کہہ دیا تو؟ کمپنی کا کام ختم ہونے پر شام کو میں جےشری کے گھر جاتا۔ وِمل ہمارے گھر کی چھت پر کھڑی ہو کر دور سے دکھائی پڑنے والے جےشری کے گھر کا کھلا زینہ چڑھتے ہوے مجھے دیکھا کرتی۔ یہ بات اسی نے کچھ سالوں بعد مجھے بتائی۔ ظاہر تھا کہ وہ من ہی من بہت ہی پریشان رہتی ہو گی۔ لیکن اس بات کا احساس اس نے مجھے کبھی ہونے نہیں دیا۔
ایک اتوار کی صبح جےشری نے ہمارے گھر فون کیا۔ فون وِمل نے لیا۔ اس نے مجھے بتایا، “فون آیا تھا—”
“کس کا؟”
“تمھاری مہارانی کا!”
“مہارانی؟ کون مہارانی؟”
“جےشری! میں نے اسے صاف صاف کہہ دیا، پھر تمھیں یہاں فون نہ کرے۔ پتہ ہے اس نے اس پر کیا کہا؟”
”کیا کہا؟”
“کہہ رہی تھی، میرا بھی حق ہے ان پر!”
اتنا کہہ کر وِمل وہاں سے سسکتی ہوئی چلی گئی۔ آج تک بڑے صبر سے روک رکھے اس کے احساسات ایک دم امڈ آئے تھے۔
اس طرح یہ معاملہ اجاگر ہو جانے کے بعد تو ہم دونوں میں اس کو لے کر باربار جھڑپیں ہونے لگیں۔
بیچ بیچ میں خبریں سنائی پڑتیں کہ کمپنی میں ‘سنت سکھو’ کا کام جاری ہے۔ شوٹنگ کے سمے کبھی کبھار ناخوشگوار واقعات ہو جانے کی بھی خبریں ملتیں تو من کو بڑی تکلیف ہوتی۔ شوٹنگ کرتے سمے ان لوگوں میں کافی کنفیوژن پیدا ہو جاتا۔ تب تو ایسا لگتا، جاؤں اور سب کچھ ٹھیک سے سنوار دوں۔ لیکن یہ انھیں بالکل نہ بھاتا۔ یہی سوچ کر میں بڑی کوشش سے اپنے آپ پر قابو پا لیتا۔ کمپنی میں کام ختم ہونے کے بعد میں حسب معمول ہر شام جےشری کے یہاں ہو آتا۔ اس کے لیے میں نے ایک بڑا مکان کرائے پر لے لیا۔ وہاں میرا سمے مزے سے کٹتا۔ ہم دونوں کے رشتے کے بارے میں اخباروں میں بھی کافی چٹپٹی خبریں چھپتیں۔۔۔ ”شانتارام کا پاؤں پھسلا”۔۔۔ “وشوامتر کی تپسیا مینکا کے ہاتھوں بھنگ”۔۔۔۔ “جےشری نے شانتارام کی تپسیا توڑ دی”۔۔۔ “جےشری دوارہ شانتارام کلین بولڈ”، ”مٹی کے چرنوں والا دیوتا!”۔۔۔
کئی بار تو یہ خبریں اتنی نوکیلی ہوتیں کہ جےشری کے آنسو نکل آتے۔ ایسے سمے میں اسے سمجھاتا، “اچھا ہو کہ تم ایسے اخباروں کو پڑھنا ہی بند کر دو، پھر تمھیں کوئی تکلیف نہیں ہو گی۔”
طنزبھری ایسی مخالفت کا منھ توڑ جواب ایک ہی تھا: جےشری کے ساتھ قاعدے سے شادی!
لیکن ایسی باقاعدہ شادیوں کے سمے موت دینے والے منتروں پر میرا یقین نہ تھا۔ دُلہا یا دلہن دونوں میں سے کسی کو، یہاں تک کہ ان کے سگے رشتوں اور پنڈت پروہتوں کو بھی جن منتروں کے معانی معلوم نہیں ہوتے، ایسے ایسے منتروں کے پڑھنے سے عورت اور مرد میں جنم جنم کا ناتا بندھ جاتا ہے، میں یہ ماننے کو تیار نہیں تھا۔ میں اتنا پران پنتھی کبھی نہ تھا۔ اس طرح کی لمبی مذھبی رسموں کی ادائیگی کے بعد شادی کے دھاگے میں بندھے اور بڑی دھوم دھام سے بارات لے آئے دُلہوں کی بربادی میں نے خود دیکھی تھی۔ یہ ضروری بھی نہیں تھا کہ اتنا سب کچھ کر لینے کے بعد پتی پتنی میں پیار کا ناتا پیدا ہو ہی جائے، پیار کی پہلی بہار کی پت جھڑ ہوتے ہی زیادہ تر جوڑے اپنے جیون ساتھی کو اپنا غلام ماننے لگ جاتے ہیں۔ ایسی رسمیں ایک بار پوری ہو جائیں، تو جیون بھر کے لیے دونوں کو باندھ دیتی ہیں۔ اس بندھن سے پھر رہائی کہاں؟ ان دنوں علیحدگی کا قانون نہیں بنا تھا۔ آج وہ بنا ہے۔ لیکن اکثر دیکھا یہ گیا ہے کہ وہ بیاہتوں کے سامنے ایک ہوّا بن کر موقع کی تلاش میں کھڑا رہتا ہے۔
میری تو پکی رائے تھی کہ پرانے سات پھیروں کی رسم کے بجاے ہم دونوں باہمی محبت سے جڑے ہیں، وعدے سے جڑے ہیں۔ ان سات لفظوں میں ظاہر ہونے والی گندھرو طریقے کی شادی ہی کہیں معتبر ہے۔ اس کے کارن عورت اور مرد دونوں کے بیچ نرم بندھن رہ سکیں گے۔ دونوں ایک دوسرے کے سکھ دکھ میں ہاتھ بنٹا سکیں گے۔ پرانے زمانے میں دُشینت اور شکنتلا نے گندھرو بیاہ ہی تو کیا تھا اور سماج اور کنو جیسے مہان تپسوی نے بھی انہیں آشیرواد عطا کیا تھا۔ یہی سب سوچ کر میں نے فیصلہ کیا: روایتی طریقہ سے بیاہ کرنے کے بجاے جےشری کےساتھ سپت (سات) شبدوں میں بندھ کر رہوں گا۔
میں نے اپنا ارادہ جےشری کو بتایا۔ اس کو تو اسی بات کی خوشی تھی کہ میں اس کے محبت کے بندھن میں بندھ گیا ہوں۔ میں جو بھی کہتا، وہ بِنا سوچے سمجھے قبول کر لیتی۔ میرے اس سجھاؤ پر بھی اس نے اسی طرح ‘ہاں’ بھر دی۔
لیکن کیا آج کا یہ سماج اس بات کو قبول کرے گا؟
کچھ ماہ بیت گئے، ایک دن شام بابوراؤ پینڈھارکر سٹوڈیو میں ملے، انھیں اس طرح اچانک پُونا آیا دیکھ کر کچھ حیرانی سے میں نے پوچھا، “کہیے؟ آج یہاں کیسے پدھارے آپ؟ کوئی خاص بات؟”
“خاص بات نہیں تو اور کیا ہے؟ اجی، آج ‘سنت سکھو’ کی ٹرائل ریلیز جو ہے۔”
“چھوڑو بھی، آپ کو بھی اچھا مذاق سوجھا ہے یہ!”
“مذاق نہیں، مجھے بمبئی فون آیا تھا۔”
میں سن کر دیکھتا ہی رہ گیا۔
“آپ کو بمبئی فون کر کے بلوا لیا گیا اور یہاں مجھے خبر تک نہیں لگنے دی!” ایسے ہی میرے منھ سے بات نکل گئی، “کی ماں کو، کتنے نالائق لوگ ہیں یہ!”
اسی جھلاہٹ میں تنک کر اپنے آفس میں جا بیٹھا۔ من میں کہیں ایک دھندھلی سی امید تھی کہ ہو سکتا ہے، وہ ٹھیک سمے پر مجھے بلاوا بھیجیں گے۔ اسی لیے کافی دیر تک آفس کی بتیاں جلائے رکھ کر مَیں انتظار میں بیٹھا رہا۔
لیکن میری امید، ناامیدی میں بدل گئی۔ آفس بوائے نے آ کر اطلاع دی کہ تھئیٹر میں ٹرائل شروع ہوچکا ہے۔
دوسرے دن سٹوڈیو آنے پر معلوم ہوا کہ ‘سنت سکھ’ کے بمبئی میں ریلیز کی تاریخ بھی پکی ہو گئی ہے۔ اس خواہش سے کہ ہمارے بیچ بڑھتے جا رہے اس اختلاف کی بات اجاگر نہ ہو، میں نے ساری باتیں پی کر جان بوجھ کر ہی ‘سنت سکھو’ کی ریلیز کے سمے بمبئی جانا طے کیا۔
شام کو میں نے جےشری کو بتایا کہ بمبئی جا رہا ہوں۔ وہ کافی دیر چپ ہی بیٹھی رہی۔ میں نے پوچھا، “بات کیا ہے؟ اس طرح چپ سادھے کیوں ہو؟”
وہ کچھ رک رک کر بولی، “آپ سے کچھ کہنا چاہتی ہوں۔۔۔۔”
“تو کہو بھی۔۔۔”
“شاید میں ماں بننے جا رہی ہوں۔۔۔”
میں نے ہنس کر پوچھا، “بیٹی کی یا بیٹے کی؟” لیکن فوراً ہی میں سنجیدہ ہو گیا۔ یکایک دماغ میں بجلی سی کوندھ گئی: —اب اس کی کوکھ سے دنیا میں آنے والا یہ بچہ سماج میں کیا جگہ پائے گا؟ یہ بچہ کس کا ہے؟ جےشری آخر تمھاری کون ہے؟
جےشری میری محبوبہ ہے۔ میں نے من سے اس کے ساتھ بیاہ کیا ہے۔ گندھرو بیاہ سے بندھی وہ میری اپنی پتنی ہے۔۔۔
—پتنی؟ کبھی نہیں! سماج تو اسے تمھاری ‘رکھیل’ (داشتہ) ہی مانےگا اور اب پیدا ہونے والے بچہ کو ‘رکھیل کا بچہ’ کہے گا!
—رکھیل؟ گندھرو بیاہ سے دشینت سے بیاہی شکنتلا کو کسی نے دشینت کی رکھیل نہیں کہا تھا۔۔۔ سیدھے ان دونوں کے ملن کے کارن جنمے بھرت کے نام پر آریہ ورت کا نام بھی بھارت ہو گیا۔
—لیکن آج وہ زمانہ کہاں رہا؟ نہ ہی آج رہے اُس طرح کے ترقی پسند وچاروں کے لوگ۔ آج کا سماج ترقی پسندانہ وچاروں والا سماج نہیں ہے، تمھارے ارادوں کے کارن اس نوزائیدہ بچے کے ساتھ ناانصافی ہونے جا رہی ہے۔ ان سبھی کٹھنائیوں سے پار ہونے کا راستہ ایک ہی ہے: جےشری کے ساتھ پرانی روایت کے مطابق شادی!
ـــ لیکن آدرشی بیاہ کے بارے میں میری اپنے یقین کا، میرے اپنے وچاروں اور اصولوں کا کیا ہو گا؟
ـــ تمھارے ان نظریات کو، ان وچاروں اور اصولوں کو اپنے ہی من کے دائرے میں رکھو! سماج میں آج کے رائج اصولوں کی پناہ لینے کے علاوہ تمھارے لیے کوئی چارہ نہیں ہے۔
ـــ میں سماجی بندھنوں سے ہار گیا۔ من ہی من طے کیا کہ جےشری سے قانونی بیاہ کروں گا۔ میں نے اس سے کہا، “دیکھو، میرے ساتھ تم بھی ممبئی چلنے کی تیاری کرو۔”
بمبئی میں ‘سنت سکھو’ ایک دم فیل ہو گئی۔ ‘پربھات’ کی آج تک یہ خاصیت رہی تھی کہ کسی بھی موضوع پر مبنی فلم ایک دم نئے خیالات کا استعمال کر کے فنکارانہ بنائی جاتی ہے۔ اس فلم میں کہیں پر بھی اس خاصیت کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ ‘سنت سکھو’ کو ملی ناکامی کے کارن مجھے دلی دکھ ہوا اور اسی کے ساتھ یہ بھی خیال آ گیا کہ ممکنہ طور پر اس ناکامی کے کارن داملے، فتے لال کی جھوٹی خوداعتمادی کا غبارہ پھٹ جائے گا اور اس کے ساتھ ہی ہم حصہ داروں کے من میں جو بے وجہ ہی غبار سا بھر آیا ہے، وہ بھی ہٹ کر ‘پربھات’ کا ماحول پھر پہلے جیسا صاف اور ملنساری کا ہو جائے گا۔
دو چار دنوں کے بعد میں نے بابوراؤ پینڈھارکر سے کہا، “کسی تنہا جگہ پر شادی کا بندوبست کیجیے۔ پروہت پنڈت کو بلوا لیجیے۔ میں جےشری کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہوں!”
سن کر بابوراؤ کو جیسے کرنٹ لگ گیا۔ وہ بیٹھے تھے، ایک دم اچھل کر کھڑے ہو گئے۔ جےشری کی خوشیوں کا تو ٹھکانہ نہ رہا۔ بابوراؤ مجھے ایک طرف الگ لے جا کر پوچھنے لگے، “آخر اس کے ساتھ شادی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ وہ تو آپ کے ساتھ ویسے بھی رہ لے گی۔”
“لیکن میں جیسے ویسے رکھنا نہیں چاہتا!”
“تب تو آپ ہم پر بات چھوڑ دیجیے ہم جےشری بائی کو پُونا چھوڑ کر جانے کے لیے مجبور کر دیں گے اور بمبئی میں ہی کسی دوسری فلم کمپنی میں انھیں کام بھی دلوا دیں گے۔ اس طرح آپ سبھی جھنجھٹوں سے آزاد ہو جائیں گے اپنے آپ!”
“اس کا مطلب تو یہی ہوا نا کہ اسے دھوکا دیا جائے اور پھر ایسا ہو جائے جیسے اسے جانتے بھی نہیں؟ یہ مجھے قطعی منظور نہیں!”
مجھے اپنے ارادے سے منھ پھیر لینے کے لیے مجبور کرنے کے ارادے سے بابوراؤ ایک کے بعد ایک ترپ کی چالیں چلنے لگے۔ “اجی، داملے، فتےلال جی کیا کہیں گے؟”
“وہ دونوں کون سے دودھ کے دھوئے ہیں، جو مجھ سے آنکھیں اٹھا کر بات کر سکیں۔ اور میں تو کھلم کھلا سب کے سامنے بیاہ کرنے جا رہا ہوں!”
“لیکن آپ نے کیا یہ بھی کبھی سوچا ہے کہ وِمل بائی کیا سوچیں گی؟”
اس بات پر میں لاجواب ہو گیا۔ آہستہ آہستہ تتلاتے ہوے بولا، “بچاری وِمل پر تو آسمان ٹوٹ پڑے گا۔۔ وہ بہت ہی رونا دھونا کرے گی، لیکن وہ مجھ سے محبت کرتی ہے اور اسی محبت کے سہارے اس اگنی پریکشا (آگ کے امتحان) کو بھی پار کر جائے گی۔۔۔ مجھ سے یہ غلطی ہو رہی ہے، مجھے قبول ہے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میری اس بھول کے نتیجے ان سبھی کو بھگتنے پڑیں گے جو مجھ سے محبت کرتے ہیں۔۔۔” کتنا خودغرضانہ وچار تھا یہ!
پُونا لوٹنے کے بعد آہستہ آہستہ میں نے وِمل کو بتا دیا کہ میں جےشری سے بیاہ کر چکا ہوں، وِمل کے لیے یہ ٹوٹنا ناقابل برداشت تھا۔ اس نے خوب رونا رو لیا۔ جےشری کے ساتھ انصاف کرنے کی دھن میں وِمل کے ساتھ میں نے بڑی بھاری ناانصافی کی تھی۔ میں نے اسے بار بار سمجھانے کی کوشش کی، “دیکھو، جےشری کے ساتھ بیاہ کرنے کا مطلب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ میں تمھیں دور کر رہا ہوں۔ ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ میں تمھیں اور اپنے بچوں کو کسی بات کی کمی محسوس نہیں ہونے دوں گا!”
اس پر تلملا کر ومل گڑگڑائی، “ہمیں کسی بات کی کمی ہو جائے تو بھی چلے گا، لیکن آپ اس دوسری شادی سے فوراً آزاد ہو جائیے۔”
“یعنی تمھاری نظروں میں تو میں مجرم ہو ہی گیا ہوں اور اب اس دوسری شادی سے آزاد ہو کر جےشری کی نظروں میں بھی گناہ گار ہو جاؤں؟ سب لوگ تھوکیں گے مجھ پر، وہ کیا تمھیں اچھا لگے گا؟”
اس پر وِمل بےچاری کیا کرتی!
اُن دنوں میرا من ہمیشہ اکھڑا اکھڑا سا رہتا تھا۔ من کی ایسی ہی ایک کمزور حالت میں کسی جوتش کا بتایا گیا ایک مستقبل یاد آیا: ‘تمہاری قسمت میں دوسری پتنی کا یوگ ہے۔’ یاد آتے ہی من حمایت کرنے لگا کہ بھاگ میں لکھا کون ٹال سکتا ہے۔ میرے بھاگ میں یہی بات لکھی تھی۔ تبھی تو یہ دوسری شادی ہو گئی۔ اس میں میری کوئی غلطی نہیں ہے۔
—اپنی اس سوچ کی کمینگی پر مجھے بھاری غصہ آیا اور اپنے آپ پر غصہ ہو کر اپنے ہاتھوں اپنے ہی منھ پر میں نے ایک زور سے طمانچہ دے مارا۔
— آدمی کے جیون میں سبھی واقعات اس کے اپنی کرنی کے کارن ہی ہوتی ہے، ایسا سب کو بار بار جتانے والا تو اب اپنی غلطی کی حمایت کرنے کے لیے ‘جوتش’ اور ‘قسمت’ کی باتوں کا سہارا کب سے لینے لگا ہے؟
سٹوڈیو میں تو ہم پر تنقید کی بوچھار ہونے لگی تھی۔ تنقید کی آندھی سی آ گئی تھی۔ پُونا لوٹتے ہی ہم نے ایک کام کیا۔ جےشری نے فوراً ہی کمپنی سے استعفٰیٰ دے دیا۔ کلاکاروں کا ڈیپارٹمنٹ چونکہ میں خود ہی سنبھالتا تھا، میں نے اس کا استعفٰیٰ لگے ہاتھ قبول بھی کر لیا۔
اس کے سات آٹھ دنوں بعد داملے جی نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا، یہاں فتے لال اور سیتارام پنت کلکرنی پہلے سے ہی موجود تھے۔ داملےجی، فتے لال جی ‘سنت سکھو’ کی ناکامی کے کارن ان دنوں مایوسی سے گِھرے تھے اور عادتاً کچھ چڑچڑے بھی ہو گئے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی داملے جی نے کہا، “ہم لوگوں نے جےشری بائی کے گلے میں منگل سوتر دیکھا۔”
“پھر؟”
“اب ان کا کمپنی میں رہنا مناسب نہیں!” ان کی آواز تیز ہو چلی تھی۔
ان کی باتوں کو ہنسی میں لے کر میں نے سوال کیا، “بھلا وہ کیوں؟” میرے سوال کا کیا جواب دیں، ان کی سمجھ میں نہیں آیا۔ ہنستے ہوے میں نے ہی بات آگے بڑھائی، “پہلے پربھات کے قیام کے سمے سے ہی کافی سال تک صاحب ماما کی گلاب بائی ہماری کمپنی میں اداکارہ کے روپ میں کام پر تھیں۔ شروع شروع کی چند فلموں میں انھوں نے اہم کردار بھی کیے تھے۔ پھر جےشری نے ہی کسی کا کیا بگاڑا ہے؟”
“یہی کہ اس نے آپ کے ساتھ بیاہ کیا ہے!”
“اچھا؟ تو اس کا مطلب یہ کہ گلاب بائی کی طرح وہ میرے ساتھ بِنا شادی کیے رہ لیتی، تو آپ اسے کمپنی میں کام پر رہنے دیتے!”
“جی ہاں۔ آپ صحیح فرما رہے ہیں۔”
”تو کیا کمپنی کی زنانہ فنکاروں کے لیے شادی کرنا جرم ہے؟ اگر ہاں، تو ہم لوگوں نے درگا کھوٹے جیسی شادی شدہ اداکارہ کو لے کر ایک دو نہیں، تین فلمیں بنائیں، تب کیوں نہیں آپ نے اس بات کی مناہی کی؟” میرے دوٹوک سوال کے کارن سبھی لاجواب ہو گئے۔
میں نے ہی آگے کہا، “میں آپ لوگوں کو ایک بات صاف صاف بتا دینا چاہتا ہوں۔ سن کر آپ کی جان میں جان آ جائے گی۔ میں جانتا تھا کہ آپ اس طرح کا مدعا اٹھائیں گے، اسی لیے میرے کہنے پر جےشری نے پچھلے ہفتے ہی کمپنی سے استفعیٰ دے دیا ہے۔ اب وہ پربھات کی نوکر نہیں ہے۔ پچھلے ہفتے آپ لوگوں نے جےشری کے گلے میں منگل سوتر دیکھا، تب وہ آپ لوگوں سے یہی کہنے آئی تھی کہ اس نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ لیکن اس سمے ہچکچاہٹ کے مارے وہ کچھ کہہ نہ سکی۔ اب وہ پھر کبھی سٹوڈیو کے احاطے میں پاؤں نہیں رکھے گی، آپ لوگ بےفکر رہیں!”