(Last Updated On: )
ہندوستانیوں میں ایجاد کا مادہ ہی نہیں۔ غلط؟ تقلید اور نقل میں کمال ہے۔ نیم غلط! پہلی بات اس لیے غلط کہ ہمارے اسلاف بڑی بڑی باتوں کے موجد ہوئے ہیں! دعویٰ بے دلیل بھی کبھی ثابت تسلیم کیا ہے!! دوسری بات نیم غلط یوں ہوئی کہ ہم نے تقلید اور نقل میں ضرورت بے ضرورت کا کبھی بھول کے بھی لحاظ نہیں کیا۔
ایک میرے عنایت فرما چمچہ کانٹے سے شریفہ کھاتے تھے۔ ایک اور جنٹلمین کے خاصہ پر صرف دال روٹی کے ساتھ چھری کانٹا ضرور میز پر لگایا جاتا تھا۔ چھری زنگ آلود، کانٹا میلا سیاہ۔ ایک برہمن عنایت فرما کو میز پر لکھنے کا شوق تھا۔ مگر بجٹ میں میز خریدنے کی گنجائش کہیں سے نہ نکلی تو چیڑ کا صندوق اُلٹ لیا اور دھوتی اڑھا دی۔ سامان آرائش میں ایک بیل کی گھنٹی (کال بل)، دو عد لوہے کے قلم اور بہت سیاہی پیے ہوئے جاذب کا ایک ورق۔ ہاں بھول گیا ایک تاسدانی بھی تھی۔
ایک فیشن ایبل افسر نے یورپین معاشرت میں کمال سلیقہ حاصل کر لیا تھا مگر رنگ کالا تھا اور بہت کالا۔ ہر طرح کے صابن نے جب جواب دیا تو بے چارے مہینوں بلکہ برسوں آدھا پیٹ کھانا کھاتے رہے تاکہ نقاہت سے چہرے پر کچھ تو زردی آ جائے۔ لباس میں جس قدر تقلید کی مٹی پلید ہوئی ہے اس کا اندازہ اسی سے ہوتا ہے کہ گرمیوں میں ڈبل ٹوئیڈ کا کوٹ پتلون پہنا اور سر پر لگائی ہیٹ۔ بس کئی آدمی سڑی ہو گئے۔ دماغ پر انجرے چڑھ جانا دل لگی نہیں ہے۔
اس سے بھی بڑھ کے کچے گھڑے کی جو چڑھتی ہے تو پردے نا معقول پر اتارے ہو گئے۔ بیویوں کو باہر نکالو۔ بہنوں کو یاروں( ) کے ساتھ پبلک گارڈن جانے دو۔ بیٹیوں کو دوستوں کے ساتھ تھیٹر بھیج دو اور پھر دیکھو کیسا بھیروں ناچتا ہے۔ تہذیب اور تقلیدی تہذیب کا اس سے زیادہ کھرا مال ولایت سے آج تک ہندوستان میں ایک نہیں آیا۔
حُسن معاشرت کی تقلید اور نقل تو یوں ہوئی۔ لیاقت کے دریا الگ بہا دیے گئے۔ یورپ میں نیچرل شاعری ہے۔ ہم نے بھی مدار کے درخت اور دہاتی دوشیزہ لڑکی اور برسات کا حال نیچرل نظم کیا ہے۔ یس عین میں مدار کا درخت سامنے کھڑا ہے اور دوشیزہ لڑکی گوبر کی ٹوکری لا رہی ہے اور پانی تو برس جانے میں گفتگو ہی نہیں۔ ذری اور گرمی چڑھی تو ناول لکھے اور اتنے لکھے اتنے لکھے کہ اب ان کی انگیٹھیاں سلگیں اور پنساری جدا نوش جاں فرمائیں تب بھی دو چار کرور برس تک چکنے والے نہیں۔ ناول کے ساتھ سوانح عمریوں کا بم جو پھوٹتا ہے تو مجہول سے مجہول اور گمنام سے گمنام آدمی کو بھی نہ چھوڑا۔
میں نے کہا کہ یورپی معاشرت کو تو مجھے سلیقہ قیامت تک نہ آئے گا۔ مگر لکھا پڑھا ہوں۔ بس کچھ مضامین اخباروں میں دے دیے۔ نیچرل نظم میں اخبار اودھ پنچ میں شائع ہو چکی ہے۔ ایک ناول لکھ ڈالا جس کو نشتر کہتے ہیں۔ سوانح عمری کی کسر تھی مگر کوئی ڈھب پر نہ چڑھتا تھا۔ جتنے وائسراے آئے ان کے کسی کوچ مین کا حال معلوم نہ ہو سکا۔ نصیر الدین حیدر والی دھنیا مہری کا طرز انداز زندگی کچھ زیادہ اچھا نہ معلوم ہوا۔ ملا دو پیازہ کے حالات ایک اور ہی صاحب لے اُڑے۔ تان سین خدا جانے تھا بھی یا فرضی نام ہے۔ سور داس کا چکارہ بارہا سُنا مگر اُس کی زندگی اور خاندانی خصوصیات پر آج تک پردہ پڑا رہا۔ دکن میں ترسو نام کا ایک آسیب ہے جو سارے گھروں میں منڈلایا منڈلایا پھرتا ہے اور بلا مبالغہ ہر گھر میں وہ کچھ نہ کچھ تکلیف پہنچاتا رہتا ہے۔ مگر بد قسمتی سے اس کی اتنی حقیقت بھی نہ دریافت ہو سکی جتنی شیخ سدّو کی۔
الغرض میں نے راس کماری سے ہمالیہ کی چوٹیوں تک اور خلیج بنگالہ سے بحر عرب تک چپہ چپہ ڈھونڈھ مارا۔ کوئی نہ ملا جس کی سوانح عمری لکھتا۔ یورپین آلو فروش اور سور چرانے والے بہت دور ہیں، وہاں کون جائے۔ بڑا دلگیر ہوا کہ یہ تو بہت بُری ہوئی۔ ہماری نقالی میں بٹہ ہی لگا جاتا ہے، کیا منہ دکھائیں گے انگریزوں کا۔
خدا کا شکر ہے کہ ہیرو ملا اور لاجواب ملا۔ نامور، ذہین، عقیل، فخر روزگار، خاندانی، موجد، فلسفی، حکیم، شاعر، تمام خوبیوں اور بلند نامیوں کا انجن، مخزن۔ جس گھڑی “شیخ چلی” کا نام ذہن میں آیا، شادی مرگ کے قریب ہو گیا مگر ساتھ ہی ایک خیال اور آیا کہ جیسے کوئی چیز ہاتھ سے گر جاتی ہے، وہ یہ کہ ایسے نامور دانش مند کے ساتھ ایشیا والوں نے اگر بخل کیا ہے تو یورپ والوں نے کب چھوڑا ہوگا۔ یہ شخص تو اُن کے ڈھب کا تھا۔ اُس کے تجربات، اس کی قوت ایجاد، انتقالات ذہنی، سریع الفہمی، طباعی، نازک خیالی، لطافت طبعی سے سارے یورپ کو فائدہ پہنچنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اس بدگمانی نے مجھے نچوڑ لیا اور سر دھو کے رہ گیا۔ انگریزی آتی نہیں کہ خود دیکھ لوں۔ ایک لائق انگریزی دان دوست سے قسم دے کے پوچھا اور خدا اُس کا بھلا کرے کہ مجھے اطمینان دلا دیا کہ شیخ کے حالات کسی اہل یورپ نے نہیں لکھے ہیں۔ جان آئی اور گویا لاکھوں پائے۔
میرے نزدیک اس دانش مند روزگار معنی آفریں شخص کے ساتھ اہل زمانہ نے واقعی بڑی بے مروتی اور بے انصافی کی ہے۔ غضب خدا کا آج تک اس کے حالات زندگی لکھنے کی طرف کسی نے توجہ تک نہ کی بلکہ چند مشہور مہمل نقلیں جو یقینا اتہام اور بہتان سے بھری ہیں، اس کی طرف منسوب کی جاتی ہیں۔ حالانکہ اس کا رتبہ ان حکایتوں سے کہیں بلند تر تھا اور اس کے کارنامے اہل روزگار کے لیے دستور العمل قرار پانے کے قابل ہیں۔
شیخ چلی اپنے زمانے میں مشہور و معروف شخص تھا۔ افسوس اتنا ہی گمنامی کے غار میں پڑا ہوا ہے۔ اس کی سوانح عمری تو الگ رہی، پیدائش اور موت کی صحیح تاریخ کوئی نہیں بتا سکتا اور یہ صرف اہل زمانہ کی بے مروتی بے توجہی کا باعث ہے۔ ہر چند دنیا کے بہت سے نامور اسی طرح طاق نسیاں پر بٹھا دیے گئے اور ان کے تاریخی واقعات کروروں آدمیوں میں ایک بھی نہیں جانتا۔ چنانچہ جو سلوک شیخ کے ساتھ کیا گیا وہی لال بھجکڑ سے ہوا۔ ایشیائی مصنفین صرف اس عذر پر کہ ان کے ہاں اس قسم کی سوانح عمریاں لکھنے کا دستور ہی نہ تھا، کسی قدر معاف ہوسکتے ہیں۔ مگر اہل یورپ سے ہمیشہ یہ شکایت رہے گی کہ انھوں نے کیوں ایسے نامور آدمی کی طرف توجہ نہ فرمائی۔ کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ بجز اس کے کہ یہ فخر اس ناچیز کے حصے میں تھا ؎
این کار من ست و کار کس نیست
اندازہ اختیار کس نیست
میں نے شیخ کے حالات جمع کرنے میں معمولی سامانوں پر نہ بھروسا کیا، نہ اس کی ضرورت سمجھی۔ بلکہ جہاں تک میرے امکان میں تھا واقعات کی ترتیب محض تنقید اور درایت پر رکھی ہے۔ روایت سے جس قدر کام چل سکا وہ بہت تھوڑا تھا اور لازم ہو گیا کہ ایسی مہمل روایتوں پر درایت کی روشنی ڈالی جائے۔
الغرض حتی الامکان میں نے اس کے حالات زندگی کے ہر پہلو کو لیا ہے اور جہاں تک بن پڑا خاصی داد تحقیق دی ہے۔ با ایں ہمہ مجھے اطمینان نہیں کہ کل حالات میں دریافت کر سکا اور یہ محال بھی ہے کہ اتنے بڑے آدمی کے حالات زندگی اس قدر مختصر ہو نہیں سکتے اور محال عقل ہے کہ اس کے کارنامے سب کے سب محفوظ اور قلم بند ہو سکیں۔ تاہم جو کچھ ہے غنیمت ہے اور اہل روزگار کے لیے ایک مکمل دستور العمل ضرور سمجھنا چاہیے اور مجھے کبھی اس قدر ناز و فخر کا موقع نہ ملا ہوگا جیسا اس سوانح مفید کی ترکیب سے ہوا۔ یہ گنج شائیگاں ملک اور قوم کے لیے میری طرف سے مفت نذر ہے ؎
صد شکر کہ این نگارخانہ
بس رنگ بہ نو بہار بستم
بانگ قلمم درین شب تار
از ہر چہ گذشت روے بر تاب
خورشید گو ست اندرین کار
می ریخت زخردہ کاری ژرف
دارم ز قلم بہ غیب راہے
این خط کہ دہد بہ نور مایہ
ہر معنی ازو چو آب در جوے
صد سحر و فسون بہ تار بستم
ترکیب طلسم خوانیم بین
صد دیدہ بورطۂ دل افتاد
دکان ہنر بہ چین کشودم
بگداختہ آبگینۂ دل
بگداختہ ام دل و زبان را
آتش کدہ ہا گداز دادم
آنم کہ بہ سحرکاری ژرف
افشاندہ ہزار در نایاب
کلکم زسر بلند نامی
بکشود کلید آسمانی
دارد قلم بہ نکتہ سازی
تا این گل تازہ نقش بستم
طرز دگراں وداع کردم
نادان کند فسانہ خوانی
ایزد چو نہفت در دلم راز
کس را قدم سلوک من نیست
رو بہ منشان بمن چہ دارند
من سیر نظر زخوان قدسم
با عیسی جان صبوح کردم
بس گرد شرر زسینہ رفتم
الماس بدشنہ تاب دادم
از خامہ ہزار دام بستم
نشتر برگ قلم شکستم
چون از نقش من این سخن زاد
بگرفت نگار جاودانہ
کین غنچہ بہ خون نگار بستم
بس معنی خفتہ کرد بیدار
وین بادہ سرگذشت در باب
من بودم و صبح ہر دو بیدار
از صبح ستارہ و زمن حرف
کوہے بہ نہفتہ زیر کاہے
از کلک من ست نیم سایہ
ہر نکتہ درو چوں آب در جوے
کاین نقش بر وے کار بستم
این خدمت جاودانیم بین
کین موج گہر بساحل افتاد
سامان سخن چنین نمودم
آئینہ دہم بدست محفل
کین نقش نمودہ ام جہان را
کین شعلہ بستہ باز دادم
از شعلہ تراش کردہ ام برف
در دامن موج جیب گرداب
طغراکش قادر الکلامی
بر فکرت من در معانی
چون مغ بچگان شرارہ بازی
دردست خسان قلم شکستم
طرز دگر اختراع کردم
بازیچہ شمار این معانی
کے این گرہ از خسان شود بار
این کار دلست کار تن نیست
پیشانیِ شیر را چہ خارند
نعمت خور دودمان قدسم
دریوزۂ عمر نوح کردم
کین لعل بنوک آہ سفتم
یاقوت بشعلہ آب دادم
بر کبک رہ خرام بستم
کین نقش بہفت پردہ بستم
خضر آمد و عمر خود بمن داد
نوٹ: مجھے انگریزی نہیں آتی۔ اس لیے درخواست ہے کہ ملک کے لائق اور انگریزی دانوں میں کوئی صاحب اس کتاب کو انگریزی میں ضرور ترجمہ فرمائیں تاکہ ہمارے یورپین بھائی اس گراں مایہ سوانح عمری کے فوائد سے محروم نہ رہیں۔ دیکھوں اس مفید کام کا سہرا شمس العلما مولوی سید علی بلگرامی کے سر رہتا ہے یا آنریبل مسٹر محمود کے۔ کوئی ہو ؎
اسراف معانیم نظر کن
زین گنج بہ مفلساں خبر کن
خاکسار
سجاد حسین
نمک خوار سرکار نظام