ہم ستاروں کی خاک ہیں گویا!!
خود میں ہی کائنات ہیں گویا!!
یہ شعر ویسے تو جون ایلیا صاحب کا نہیں بلکہ ناچیز کا ہے مگر کیا فرق پڑتا ہے ۔ جون ایلیا بھی کمال لکھتے تھے مگر وہ غمِ حیات میں اُلجھے رہتے اور میں غمِ کائنات میں۔
ایک کہاوت تھی:
“کائنات کو سمجھنے کے اُتنے راستے ہیں جس قدر اس میں ذی روح ہیں’
مگر یہ ایک فلسفیانہ بات ہے۔ یہ بات گو کہ درست کہ کائنات کو سمجھنا آسان نہیں۔ انسان کی عقل محدود ہے۔۔انسان اسی کائنات میں رہ کر کائنات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے مگر کیا یہ بات کم ہے کہ سوچتا ہے!!
وہ جو سوچتے ہی نہیں، وہ جو فکر ہی نہیں کرتے کیا وہ اس امیبیا سے زیادہ اہم ہیں جو اُنکی طرح زندگی گزار کر مر جاتا ہے ۔۔خوراک حاصل کر کے بس جی رہا ہے اور نسل در نسل اپنے جینز منتقل کر رہا ہے۔
فنا یعنی مر جانا انسان کے شعور کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ایسا مسئلہ کہ یہ اسے کسی طور چین سے نہیں بیٹھنے دیتا۔ آج ہم جو ایجادات، سائنسی ترقی، جدید معیشت، طب میں جدت، بیماریوں کا علاج، خلاؤں میں جانا وغیرہ وغیرہ یہ سب دیکھتے ہیں تو یہ سب کیا اور کیوں ہے؟ یہ سب انسان کی لاشعور میں چھپی موت سے جنگ ہے۔ یہ بقا کی جنگ ہے۔ ہم ہر لمحہ بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ایسے میں ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہماری عقل ہو گی۔ کیونکہ ہماری عقل نے ہی ہمیں موت سے آگاہ کیا ہے۔ ایک جانور یہ نہیں جانتا کہ اُس نے کم و بیش کتنے سال زندہ رہنا ہے۔ مگر ہم یہ جانتے ہیں کہ ہم اوسطاً اس زمین پر کتنے سال زندہ رہ سکتے ہیں۔ ہم نے ان سالوں کو مختلف کاموں اور مقاصد کے حصول میں تقسیم کر رکھا ہے۔ تعلیم مکمل کرنا، شادی کرنا، بچے پیدا کرنا، بہتر روزگار رکھنا، گھر، گاڑی، بچوں کی تعلیم ، ریٹائرمنٹ وغیرہ وغیرہ ۔
اس سب میں تگ و دو تو ہے مگر جستجو کہاں ہے؟ نئے علم کی تلاش کہاں ہے؟ انسانی عقل کی معراج کہاں ہے؟
اقبال نے کہا تھا:
عروج ِ آدمِ خاکہ سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہہِ کامل نہ بن جائے
اقبال نے یہ ہمارے جسیوں کے لیے ہرگز نہیں کہا تھا۔ ہم نے دنیا کو دیا ہی کیا ہے؟ یہ بات اقبال نے اُنکے لیے کہی ہے جو ستاروں پر کمندیں ڈالنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ جنہیں علم کی اس قدر پیاس ہے کہ خلاؤں میں جا کر بھی نہیں بجھ رہی۔ کیا علم حاصل کرنا اور نئے علوم کی راہیں استوار کرنا مذاق ہے؟
کائنات کو سمجھنے کے کئی راستے ہونگے مگر وہ جڑتے ایک ہی راستے سے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ہم اپنے اندر کائنات کو زندہ رکھیں۔ کائنات محض اُنکو نوازتی ہے جو اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب بھی اور آئندہ بھی۔
ہم جتنا سیاست میں اُلجھتے ہیں اتنا سائنس میں اُلجھیں تو کئی مسائل اپنی عقل سے حل کر لیں مگر وہ جو ہم پہ مسلط ہیں اُنکے بقا کی ضمانت ہماری جہالت کا قائم رہنا ہے۔غربت مجبوری ہے مگر جہالت پرسنل چوائس ہے۔ باقی آپ خود سمجھیں۔ دنیا میں “ٹیم پاس” کرنا ہے یا صحیح معنوں میں کچھ بامقصد کرنا ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...