آج سے ٹھیک 93 برس قبل یعنی 28 فروری 1930 کو بھارت کے سب سے پہلے سائنسدان کو فزکس کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ انکا نام تھا “چنداشیکرا وینکٹا رامان”. آج فزکس جاننے والے اس نام سے بخوبی واقف ہیں کہ انہوں نے روشنی اور مادے کے ٹکراؤ سے روشنی کے بکھرنے کا ایک اہم مظہر دریافت کیا۔ اسے رامان ایفکٹ یا رامان سکیٹرینگ کہتے ہیں۔
عموماً روشنی جب کسی مادے سے ٹکراتی ہے تو یہ مختلف طرح سے بکھرتی ہے تاہم بکھرتے وقت روشنی کا رنگ یا ویویولینھ ایک ہی رہتا ہے۔ اسے یوں سمجھیں کہ سنوکر کی میز پر گیندیں پڑی ہیں اور ان گیندوں سے جب سفید گیند ٹکراتی ہے تو یہ تمام بکھر جاتی ہیں تاہم ایسا نہیں ہوتا کہ انکے بکھرنے سے ان گیندوں کا رنگ بھی بدل جائے۔
البتہ رامان نے بتایا کہ روشنی جب مادے کے مالیکولز سے ٹکراتی ہے تو ٹکرانے کے بعد اسکی ویویولینھ میں فرق آ جاتا ہے۔ سادہ طریقے سے وضاحت کے لیے اسے یوں سمجھیں کہ انفراریڈ روشنی جو بالعموم نظر نہیں آتی، پر اگر رامان ایفکٹ ہو تو یہ دکھنے والی سرخ روشنی میں بدل سکتی ہے۔ یہاں مبالغہ محض سمجھانے کی غرض سے ہے۔ دراصل ویویولینھ میں یہ بدلاؤ بے حد معمولی ہوتا ہے۔ مگر ایسا کیوں ہے؟
ہم جانتے ہیں کہ ایٹم کی ساخت کیا ہے۔ ایک ایٹم کے مرکزے میں نیوٹرانز اور پروٹانز ہوتے ہیں جبکے اسکے اردگرد الیکٹران مختلف انرجی سٹیٹس میں ہوتے ہیں۔ آسانی کے لیے اسے یوں سمجھیں کہ ایک سیڑھی ہے جس پر مختلف قدم ہیں۔ یہ قدم برابر نہیں۔ کچھ قدم ایک دوسرے سے زیادہ فاصلے پر ہیں اور کچھ کے بیچ فاصلہ بے حد کم ہے۔ اگر آپ سیڑھی کے پہلے سے آخری قدم پر ڈائیرکٹ جانا چاہتے ہیں تو آپکو بے حد توانائی درکار ہو گی۔ گویا آپکو جمپ لگا کر اوپر جانا پڑے گا۔ گریوٹیی کے مخالف کام کرنا پڑے گا۔ لیکن اگر آپکو ایک قدم سے اسکے ساتھ والے قدم پر جانا ہو تو ہلکا سا پاؤں اّٹھائیں گے اور دوسرے قدم پر ہونگے۔ ایسا ہی کچھ حال ایٹمز میں الیکٹرانز کی انرجی سٹیٹس کا ہے۔ یہ گویا مرکزے سے جتنا دور جانا چاہیں گے انہیں اتنی ہی توانائی درکار ہو گی۔
عموماً جب روشنی جو توانائی کے ذرے(فوٹانز) ہوتے ہیں، ایٹموں سے ٹکراتے ہیں توان میں چند الیکٹران کم انرجی سٹیٹ سے زیادہ انرجی کی سٹیٹ میں چلے جاتے ہیں جیسے آپ چھلانگ لگا کر پہلے سے دوسرے یا تیسرے قدم پر سیڑھی پر چڑھتے ہیں۔ لیکن کچھ دیر کے بعد یہ الیکڑان واپس ویسے ہی اپنی بنیادی انرجی سٹیٹ میں آتے ہیں جیسے صبح کا بھولا شام کو گھر آتا ہے یا بیوی سے لڑ کر باہر کا بدمزہ کھانا کھا کر شوہر واپس گھر آتا ہے۔ لیکن الیکٹران جب واپس اپنی انرجی سٹیٹ میں آتا ہے جس میں وہ پہلے تھا، تو یہ وہی روشنی کا ذرہ کائنات کو واپس کرتا ہے جو یہ جذب کر کے بیٹھا تھا۔
تاہم رامان ایفکٹ میں اس سے کچھ مختلف ہوتا ہے۔ یہاں الیکٹران اوپر کی سٹیٹ میں جاتا ہے مگر واپس اُسی سٹیٹ میں نہیں آتا۔ الیکٹران دراصل کچھ اضافی توانائی یا تو روشنی کے اس ذرے کو منتقل کر دیتا ہے یا واپس اپنی اصل حالت میں آنے کی بجائے اس سے کچھ اوپر کی انرجی سٹیٹ میں چلا جاتا ہے۔ جس سے کم توانائی خارج ہوتی ہے۔ (یہ انرجی سٹیٹس دراصل مالیکولز کی وائبریشنل سٹیٹس ہوتی ہیں)۔ یہ سٹیٹس خاص اس وجہ سے ہیں کہ یہ ہر طرح کے مالیکول جیسے کہ میتھین، یا شوگر یا پانی کی الگ الگ ہوتی ہیں ویسے ہی جیسے ہر انسان کی اّنگلوں کے نشان دوسرے انسانوں سے مختلف ہوتے ہیں گویا یہ مالکیولز کے فنگر پرنٹ ہیں۔ اب اگر ہم اس مظہر یعنی رامان ایفکٹ کا استعمال کرتے ہوئے ہر طرح کے مالیکول کے یہ فنگر پرنٹ لے لیں اور ایک لائبریری بنا لیں(یعنی انہیں محفوظ کر لیں) تو اس سے کیا فائدہ ہو گا؟
آپ کو کیا سمجھ میں آتا ہے؟ اگر فنگر پرنٹس معلوم ہوں تو چورکہیں بھی ہو پکڑا جاتا ہے کیونکہ جایے وقوعہ پر اُسکی انگلیوں کے نشان مشتبہ شخص سے ملتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی یہ مالیکولز کہیں بھی ہوں ان کو اگر ایسے سائنسی آلات سے جانچا جائے جو ان میں رامان ایفکٹ ڈھونڈ سکے تو ہم جان سکتے ہیں کہ کسی سیارے کی فضا سے گزرتی بے حد مدہم روشنی جو ہم تک پہنچ رہی ہے اس میں کون کون سے اجزا شامل ہیں۔کیا ان نوری سالوں پر موجود سیارے جن تک ہم اپنی زندگی میں بھی نہیں پہنچ سکتے، وہاں پانی ہے؟ وہاں آکسیجن ہے؟ وہاں زندگی کے لیے ضروری اجزا ہیں؟ وغیرہ وغیرہ یا ایسے ہی خون میں موجود مضر بیکٹریا، وائیرس یا کیمکلز کے بارے میں بھی بغیر خون نکالے یا بیحد کم خون نکال کر، تھوک کا تجزیہ کر کے بیماریوں کے متعلق جاننا یا ایسے ہی دیگر بیماریوں کی تشخیص کے لیے رامان ایفکٹ کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اور آج دنیا بھر میں اس طریقے سے یہ سب ہو بھی رہا ہے اور اس پر مزید تحقیق بھی ہو رہی ہے۔ فزکس یا سائنس کے شعبے میں نوبل انعام ایسے نہیں ملتے۔ انعام دینے والے نہ صرف یہ جانتے ہیں کہ کام کیا ہے بلکہ اُنہیں اس بات کا بھی بخوبی علم ہوتا ہے کہ اس بنیادی کام سے سائنس اور انسانی معاشرے میں آنے والے زمانوں میں کیا کیا پیش رفت ہوں گی۔
چندرا رامان بھارت کی 1888 میسور میں پیدا ہوئے اور 1970 میں بنگلور میں وفات پا گئے۔ آج انکے اس رامان ایفکٹ کو دریافت کیے 90 سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا مگر یہ کام اس قدر خوبصورت اہم اور دلچسپ تھا کہ اج بھی اسکا استعمال جدید سائنس اور انسان اور کائنات کے علم میں اضافے کے لیے اہم ہے۔ وہ نہ صرف بھارت کے بلکہ ایشیاء کے پہلے نوبل انعام یافتہ تھے جنہیں فزکس میں یہ انعام ملا۔ اور بلاشبہ اُنکا یہ کام ہر طور تعریف کے قابل ہے۔
جہاں رہیں رامان صاحب، خوش رہیں، روشنی کے رنگ بکھرتے رہیں!
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...