(Last Updated On: )
وہ چاروں اس وقت لاہور کے ایک خوبصورت ریستوران میں موجود تھے۔،*
رات میں شامین کی فلائیٹ تھی اور کل سعدی لوگوں نے بھی مری کے لیئے نکل جانا تھا۔_”_
یہ وِداعی پارٹی دی جا رہی تھی شامین کو۔”_
ہنستے مسکراتے وہ لنچ کرنے میں مصروف تھے شامین کے جانے کا دکھ بھی تھا اور وہ ایک خوشخال زندگی گزارے گی اس بات کی خوشی بھی تھی۔_”_
ہاں یار وقت سے پہنچ جانا۔”_ فون پر بات کرتا نومی ہوٹل کا گلاس ڈور دھکیلتے اندر داخل ہوا۔
ٹیبل کے ساتھ رکھی کرسی کھینچ کر وہ بیٹھا ہی تھا کہ سامنے عینا کو دیکھ کر ٹھٹھکا۔_”_
فوراً سے اس نے موبائل سے تصویر کھینچی ۔تصویر ایسے کھینچی گئ تھی کہ اس میں سعدی عینا اور امان نظر آ رہے تھے “_”
افف میرا کام تو بن گیا ۔۔ نومی شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔_”_
اب آۓ گا مزہ۔۔”_” موبائل پاکٹ میں ڈالتا وہ حیا سے ملنے کے ارادے سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔
ہوٹل سے نکلتے ایک مکروہ مسکراہٹ ان ہنستے کھیلتے چار نفوس پر ڈالتا وہ اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔۔
__________________________________________________________________________________________________
مجھ سے ملنے ضرور آنا تمہارا اور امان کا انتظار کروں گی میں۔۔شامین جا رہی تھی تھوڑی دیر میں اس کی فلائیٹ تھی۔
سعدی عینا اور امان اسے چھوڑنے آۓ تھے۔_”_
واقعی یار جو جو بندہ محبوب کو پیارا ہوتا ہے دوستوں کو بھول جاتا تم پرائ ہو گئ ہو شامین پرائ ہو گئ ہو۔۔سعدی نے ڈرامیٹک انداذ میں کہا تو تینوں نے حیرانی سے اسے دیکھا۔۔
کیوں سعدی کیا ہو گیا۔۔_”_؟؟شامین نے بمشکل اپنی ہنسی کنٹرول کرتے پوچھا۔
ان دونوں کو کہہ رہی ہو ” میں انتظار کروں گی” اور مجھے جھوٹے منہ بھی نہ پوچھنا۔۔سعدی کے شکوے جاری تھے۔۔
تم تو انٹیلیجنس آفیسر ہو مستقبل کے کسی چور چکے غدار کو پکڑنے آتے جاتے رہو گے ان کا ذرا مشکل تھا تو انوائیٹ کر دیا۔۔شامین نے اسے پچکارا۔۔
اچھا اب مسکا نہ مار۔۔
ان کی باتیں جاری تھی تھوڑی دیر میں ترکی جانے والی فلائیٹ کی اناؤسمینٹ ہو گئ تو شامین نے الوداعی نظروں سے انہیں دیکھا۔۔
“اچھے دوست زندگی کاسکون ھوتے ہیں شامین اور تم وہ سکون ہو میری زندگی کا ملیں گے پھر کسی دن کسی موڑ پر اور مل بیٹھ کر یوں ہنسیں گے جیسے پاگل ہوں اور بےشک پرانے دوست ایک دوسرے کے لیئے پاگل ہی ہوتے ہیں”_
سعدی نے کہتے ہوۓ ہاتھ آگے بڑھایا جس پر امان شامین اور عینا نے اپنے ہاتھ رکھے تھے”_
سب کے مل کر شامین بھیگی آنکھیں صاف کرتی اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئ۔۔
___________________________________________________________________________________________________
یہ فون کیوں بند ہے حیا کا اتنی دھواں دھار نیوز دینی تھی۔۔وہ مسلسل کمرے میں ٹہلتا ہوا اسے کال ملا رہا تھا مگر ہر بار نمبر بند ہونے کی اطلاع مل رہی تھی۔۔”_
مجھے واپس جا کر اسے بتانا چاہیئے بڑی مشکل کے وہ ہاتھ لگی ہے ہاتھ سے پھسل نہ جاۓ۔۔نومی نے بڑبڑاتے ہوۓ الماری سے بیگ نکالا اور کپڑے رکھنے لگا۔۔
اوہ ڈئیر کزن یہ کیا ہو رہا ہے۔۔اک لڑکا اندر داخل ہوا تو اسے تیزی سے پیکنگ کرتے دیکھ کر چونکا۔۔
عادل مجھے روکنے کی کوشش نہ کرنا بہت ضروری کام ہے مجھے فٹافٹ نکلنا ہو گا۔۔
یار نومی تو دو ہفتوں کے لیئے آیا تھا مشکل سے ایک دن ہی ہوا ہے اور شادی ہے یار انجواۓ گھر ایسی فیملی پارٹیز روز تھوڑی ہوتی ہیں دن کو بھی ہم تجھے ہوٹل میں ڈھونڈتے رہے تھے نجانے کن چکروں میں ہو تم۔”_ اس کے کزن نے ایک ہی سانس میں اتنی باتیں کرتے اس کے ہاتھ سے شرٹ چھینی۔۔
یار کہا نہ مت روکو میں واپس آ جاؤں گا دو تین دن بعد شادی اٹینڈ کروں گا مگر ابھی جانا ہو گا مجھے ۔۔نومی نے اس کے ہاتھ سے شرٹ چھین کر بیگ میں رکھی اور جلدی سے سوٹ کیس بند کرتا قدآور آئینے کے سامنے جا کھڑا ہوا۔۔
پکا آؤ گے۔۔عادل نے اداسی سے پوچھا۔۔
ہاں یار آؤں گا۔ ۔بال ہاتھ سے پیچھے کرتا وہ سوٹ کیس گھسیٹتا وہاں سے نکل آیا تھا۔۔
وہ جلد از جلد حیا کے پاس پہنچ کر اسے عینا اور اس کے شوہر کے متعلق بتانا چاہتا تھا۔۔
__________________________________________________________________________________________________
کل پیپر ہے یار تو نے کچھ پڑھنا ہے کہ نہیں۔__” سعدی نے امان کو کشن مارا جو پچھلے دو گھنٹے سے موبائل میں گھسا ہوا تھا۔۔
اب اپنی اتنی خوبصورت بیوی کو اکیلا چھوڑ کر آیا ہوں اور کیا کروں۔۔امان پر ذرا اثر نہ ہوا تھا۔۔
ہاں بہت اچھے کہاں چھوڑ کر آۓ ہو یہ دس میٹر چلو تو سامنے دکھے وہ اور اکیلی کہاں ہے وہ اپنی دوست کے پاس ہے اس لیئے کچھ پڑھ لے تو۔۔۔سعدی نے برا سا منہ بنایا۔۔
میں نے ٹاپ کرنا ہے بغیر پڑھے اور تو پڑھ کے کر لینا۔”_ امان نے بےپرواہی کا مظاہرہ کیا۔۔
کیوں کیا ارادہ ہے تیرا۔۔_؟؟ سعدی نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا۔۔
یہ دیکھ۔۔امان نے اپنا تکیہ اٹھایا تو سعدی کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔۔
“تکیے کے نیچے پرزوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا جنہیں بہت مہارت سے اوپر نیچے رکھ کر جوڑے بناۓ گۓ تھے۔
اوہ بھائ صاحب تو چیٹنگ کرے گا۔۔سعدی نے حیرانی سے پوچھا۔۔
آف کورس۔_'”_امان نے آنکھیں پٹپٹائیں ۔۔
تو یہاں کیا کر رہا تم جیسوں کو سیاست میں ہونا چاہیئے۔۔سعدی نے واپس برا منہ بناتے کتابیں کھولیں۔۔
او تیری مشورہ کمال کا دیا ہے تو نے سوچتا ہوں کچھ۔۔امان کی بات پر سعدی نے دوسرا کشن بھی اٹھا کر اسے مارا۔امان نے ہنستے ہوۓ کشن کیچ کر لیا اور دوبارہ سے موبائل پر جھک گیا۔۔
___________________________________________________________________________________________________
وہ گھٹنوں میں سر دیئے بےآواز رو رہی تھی۔وہ کم عمر تھی اس کے باوجود وہ خقیت پسند اور مظبوط تھی_یوں وہ کبھی نہیں روتی تھی مگر آج اس کی محبت کے کردار کے چیتھڑے اڑاۓ گۓ تھے آج اس کی نظروں میں اساور خاک ہوا تھا اتنا رونا تو بنتا تھا۔۔
دروازہ ناک ہونے کی آواز پر اس نے سر اٹھا کر دروازے کی سمت دیکھا۔
“اساور نے اندر داخل ہو کر دروازہ ہلکی سی آواز کے ساتھ بند کیا۔
سومو نے دونوں ہاتھوں کی پشت سے رگڑ رگڑ کر اپنے آنسو صاف کیئے۔
سومو بیٹا کیا تھا یہ سب۔_؟ اساور قدم قدم چلتا بیڈ پر اس کے سامنے آ بیٹھا۔۔
أپ کون میں نے پہچانا نہیں۔۔سومو نے سوالیہ انداذ میں اسے دیکھا۔۔
سومو تم سے جو پوچھا وہ بتاؤ۔اساور ذرا سختی سے بولا۔۔
جن کو میں جانتی نہیں ہوں یا کوئ رشتہ نہیں رکھنا چاہتی میں ان کو صفائیاں دینا تو دور بات کرنا بھی پسند نہیں کرتی اور آپ سے رشتہ ختم کر کے unknown person کی لِسٹ میں ڈال دیا ہے۔۔سومو بیزاریت سے بولی۔۔
سومو تمہارے رویے نے مجھے صدمہ پہنچایا ہے۔۔
اوہ رئیلی اور جو آپ باتوں کے نشتر سے دل لہولہان کر دیتے ہیں وہ میرے لیئے دانین کے لیئے صدمہ نہیں ہوتے۔۔
دانین کا یہاں کوئ ذِکر نہیں ہے سومو میں تم سے تمہاری بابت پوچھ رہا ہوں۔میں تم سے اتنی محبت کرتا ہوں کہ تمہاری باتیں گہرا صدمہ ثابت ہوئ میرے لیئے۔اساور کا لہجہ دانین کے ذکر پر سخت ہوا تھا۔۔
آپ کہا کرتے تھے دانین کے لیئے آپ کو اپنا دل تب سے دھڑکنا محسوس ہوا جب آپ دس سال کے تھے دانین کوئ سات سال کی تھی اور تب میں نہیں تھی کہیں بھی نہیں اس دنیا پر میرا وجود بھی ہو گا کوئ نہیں جانتا تھا کوئ نہیں۔
أپ دانین سے بیس سال محبت کے دعویدار رہے ہیں اور مجھ سے سترہ سال سے جب آپ اس کی محبت کو بھلا سکتے ہیں تو میں کیسے مان لوں کہ مجھ سے واقعی محبت کرتے ہیں آپ۔
“جو لوگ محبتوں کے مان نہیں رکھتے محبت ان پر یقین نہیں رکھتی ہے نہ دوسرا موقع دیتی ہے”_
اور آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں اس وجہ سے میری باتوں سے آپ کو صدمہ ہوا ۔کبھی سوچا وہ جو ایک لڑکی ہے دانین اس پر کیا گزرتی ہو گی آپ کی باتوں سے۔۔
میری سترہ سالہ محبت میں دی گئ اذیت آپ کو ٹھا کر کے لگی ہے تو آپ کی بیس سالہ محبت کے بعد دی گئ تکلیف اس کے لیئے موت جیسی اذیت ثابت ہوئ ہے۔_”_سومو اسے آئینہ دکھانا چاہتی تھی مگر وہ شخص محبت کا مجرم تھا اور مجرم کہاں اپنے جرائم آئینے میں دیکھتے ہیں۔۔
سعدی نے جو کیا اس کے بعد دانین کو سر آنکھوں پر نہیں بٹھایا جا سکتا تھا۔۔
اچھا چلیں ایک پل کو مان لیں سعدی نے امان بھائ کا قتل کیا ہے اس میں دانین کو سزا دینے والی کون سی لاجک ہے بقول آپ سب کے وہ اس کا بھائ نہیں ہے جیسے آپ کا کزن ہے ویسے ہی دانین کا بھی کزن ہے پھر یہ سب۔۔۔
اساور چپ رہ گیا تھا وہ کیا کہتا اب۔۔
میں امان کی موت کو بھلا نہیں سکتا۔بدلہ لوں گا اور خون کے بدلے خون کی اجازت اللہ بھی دیتا ہے۔۔
میں یہ نہیں کہہ رہی ونی یا قصاص ایک فضول رسم ہے جس بات کے لیئے ہمارا قرآن کہتا ہے وہ فضول نہیں ہو سکتی قصاص جائز ہے “اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قصاص میں تمہارے لیئے زندگی ہے ” موت کا تکلیف کا ذکر تو نہیں کیا پھر آپ کیوں اسے موت سے پہلے موت سی اذیت دینا چاہتے ہیں آپ دانین کے ساتھ جیسے پہلے تھے ویسے بھی تو رہ سکتے تھے آپ کو بدلنا نہیں چاہیئے تھا۔۔بدلے کا حکم ہے مگر اس سے بہتر ہے معاف کر دینا۔۔
“بدلاؤ ضروری ہے مگر یہ بدلاؤ محبت میں آ جاۓ تو سب تہس نہس ہو جاتا ہے”
جس گھر کا فرد یوں اندھا دھند قتل کر دیا جاۓ وہاں کے مکین پہلے سے نہیں رہ سکتے سومو۔۔!!
میں خون کا بدلہ خون سے لوں گا معاف نہیں کروں گا اور اگر یہ غلط ٹھہرا تو میں ہاتھ جوڑ کر رب سے معافی مانگ لوں گا۔۔اساور کہہ کر رکا نہیں دروازہ دھرام سے بند کرتا باہر نکل گیا۔۔
پیچھے وہ گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھی سوچتی رہی کہ “”رحم نہ کرنے والوں پر کیا خدا کی طرف سے رحم کر دیا جاتا ہے معافی مل جاتی ہے”_
___________________________________________________________________________________________________
مری لارنس کالج__
امتخانی ہال میں سکوت چھایا ہوا تھا سب اپنے اپنے پیپر بورڈ پر جھکے لکھ رہے تھے۔۔
ممتخن پورے ہال کا چکر لگا کر سٹوڈنٹس پر نظر رکھے ہوۓ تھے۔۔__
سعدی بھی جھکا پیپر لکھ رہا تھا وہ اتنا اچھا دِماغ رکھتا تھا کہ جب پیپر دیتا تو ختم کر کے ہی سر اٹھاتا تھا__
جبکہ امان ٹیڑھی نظر سے ممتخن کو جاتے دیکھتا اور پھر اپنے لباس میں چھپاۓ پرزے نکال کر پیپر بورڈ کے نیچے رکھ کر لکھنے لگتا۔__
امان سے اگلی سیٹ پر ایک لڑکا بیٹھا ہوا تھا جو اِدھراُدھر کے نظارے کر رہا تھا صاف لگ رہا تھا اسے کچھ بھی نہیں آ رہا۔__
اس سے اگلی سیٹ پر سعدی تھا جو چپ چاپ لکھے جا رہا تھا۔__
اوۓ کیوں بیٹھا ہے ایسے۔۔__ امان اپنا لکھ چکا تو اگلے سیٹ پر بیٹھے لڑکے کو سرگوشی میں کہا۔۔
نہیں آ رہا۔۔__ لڑکے نے بےپرواہی سے جواب دیا۔۔__
اچھا یہ لے اور لکھ۔۔__ امان نے اپنے پاس موجود تمام پرزے اس کی طرف بڑھاۓ جنہیں فوراً سے پہلے اس نے اچک لیا تھا۔__
تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ان کے پاس سے گزرتے ممتخن نے اس لڑکے کو نوٹ کر لیا۔۔
کیا ہے آپ کے پاس۔__’ ‘ ممتخن نے تیز لہجے میں لڑکے محاطب کیا۔۔
کچھ بھی تو نہیں سر۔_ لڑکے کے چہرے سے ہوائیاں اڑ گئ تھیں۔۔۔
ممتخن مطمئن نہ ہوا اور تیزی سے اس کی طرف بڑھا اور تلاشی شروع کر دی اس کے پاکٹ سے خاصی مقدار میں نقل کی پرچیاں نکلی تھیں۔۔
یہ سب کیا ہے__؟؟ممتخن کے غصے کا گراف بڑھ گیا تھا۔۔لڑکے نے بےبسی سے امان کی طرف دیکھا۔۔امان نے نفی میں گردن ہلا کر اپنا نام لینے سے منع کیا اسے۔۔__:
کہاں سے آئ تمہارے پاس اتنی نقل آپ پر کمیٹی بیٹھے گی آپ کے خلاف کاروائ ہو گی۔۔_”_ممتخن کی باتوں سے لڑکے کی گھگھی بند گئ تھی ۔
اس نے اِدھراُدھر دیکھا تو سارا ہال ہی اسے دیکھ رہا تھا اس نے ایک نظر اگلی سیٹ پر بیٹھے سعدی پر ڈالی۔۔۔
سر اس کی ہیں یہ ساری پرچیاں اس نے دی ھیں ۔۔لڑکے نے فٹاک سے سعدی کا نام لے لیا۔۔
سر یہ جھوٹ بول رہا ہے میری نہیں ہے یہ۔۔سعدی پر تو حیرتوں کا پہاڑ ٹوٹا تھا اس نے شاکی نظروں سے لڑکے کی طرف دیکھا جو اپنی جان بچانے کو سارا ملبہ اس پر ڈال رہا تھا۔۔
سر مم میں جھوٹ نہیں بول رہا یہ پکا اسی کے ہیں۔۔لڑکے نے پھر وہی بات دہرائ ۔امان پہلو بدل کر رہ گیا اسے نہیں پتہ تھا اس کے گناہ میں ایسے سعدی پھنس جاۓ گا۔۔__
مسٹر سعدی رانا اپنے پیپر پر اور ان نقل کے پیپر پر لکھی لکھائ آپ کی ہی ہے۔۔ممتخن نے جھک کر اس کا پیپر اٹھا کر دیکھا تھا۔۔
سر میرا نہیں ہے یہ آپ یقین کریں۔۔سعدی کی آواز بھرا گئ تھی۔۔
مگر اب کچھ بھی تو نہ ہو سکتا تھا امان کو نوٹس بھی وہی تیار کر کے دیتا تھا اور عقل کے دشمن امان نے نقل انہیں نوٹس سے پھاڑ کر لائ تھی۔۔
چلیں آپ دونوں کاروائ ہو گی دونوں پر کیس فائل ہو گا اور اگلے تین سال تک آپ دونوں ایگزام نہیں دے سکتے۔۔”_ ممتخن کے الفاظ تھے یا ہتھوڑا سعدی کی سماعت کراہ کر رہ گئ۔۔
سعدی نے غصے اور شاکی بھری نظروں سے امان کی طرف دیکھا جو مٹھیاں بند کیئے بےبسی اور پریشانی سے اسے دیکھ رہا تھا__”_
سعدی کا پیپر اس سے لے کر ریڈ مارک لگا دیا گیا تھا۔۔
اس کا کرئیر اس کے زندگی کے اتنے سال برباد ہو گۓ تھے۔۔
___________________________________________________________________________________________________
جناح ائیر پورٹ کراچی میں معمول کی گہماگہمی تھی۔تھوڑی دیر پہلے ہی لاہور سے آنے والی فلائیٹ کی لینڈنگ ہوئ تھی۔۔
بھانت بھانت کے لوگ آ جا رہے تھے۔۔
ایسے میں وہ بھی اپنی ٹرالی گھسیٹتا آتا ہوا نظر آ رہا تھا۔۔
جب وہ بیگ لے کر باہر نکلا تو اس کا ڈرائیور گاڑی لیئے اس کے انتظار میں کھڑا تھا۔۔ڈرائیور نے بھاگ کر اس سے بیگ لے کر ڈِگی میں رکھا اور اس کے لیئے پچھلا دروازہ کھولا۔۔
کریم تم رکشہ پکڑ کر گھر چلے جاؤ مجھے کہیں کام سے جانا ہے۔۔پچھلی سیٹ کا دروازہ بند کرتا وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔۔
مگر صاحب۔۔ڈرائیور نے ابھی کچھ کہنے کے لیئے لب کھولے ہی تھے کہ وہ گاڑی سپیڈ سے بھگا لے گیا۔۔
آدھے گھنٹے کا سفر ٹریفک کے باعث ڈیڑھ گھنٹے میں تمام ہوا تھا۔۔کراچی جو کہ روشنیوں کا شہر ہے اس کی سب سے بڑی حامی بڑھتا ہوا بےہنگم ٹریفک ہے۔۔
ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد وہ حیا کے گھر کے سامنے تھا جس کا ایڈرس حیا نے اسے دیا تھا۔۔
گاڑی گیٹ کے آگے پارک کرتا وہ گاڑی سے اترا۔۔دوسری ڈور بیل پر دروازہ کھول دیا گیا تھا۔۔
ملازم اسے ڈرائینگ روم میں بٹھا کر حیا کو بلانے چلا گیا۔۔تھوڑی دیر میں حیا ڈرائینگ روم میں داخل ہوئ۔۔
تم یہاں کیسے لاہور سے کب واپس آۓ۔۔حیا نے بےچینی سے ٹہلتے نومی سے سوال کیا۔۔
کال کیوں پِک نہیں کر رہی تھی تم۔۔نومی کی بےچینی دیکھنے لائق تھی۔۔
بزی تھی کچھ۔۔حیا بےزار نظر آ رہی تھی۔۔
عینا لاہور میں ہے کسی لڑکے کے ساتھ میں نے دیکھا ہے اسے کل تمہیں بہت کال کی پھر مجبوراً مجھے شادی چھوڑ کر آنا پڑا۔۔۔۔
سچ کک کہاں ہے وہ کس کے ساتھ ہے مجھے جلدی بتاؤ۔۔حیا کے بےزاری یکدم حتم ہو گئ تھی۔۔
یہی بتانے کے لیئے تمہیں کال کر رہا تھا کہ تم فوراً آ جاتی لاہور مگر تم میری کال پِک نہیں کرتی۔۔اور یہ پکچر کھینچی ہے میں نے ریستوران میں ان کی دیکھو ۔۔نومی نے موبائل سکرین آن کر کے حیا کے سامنے کی۔۔۔
اس میں دو لڑکے ہیں۔عینا کس کے ساتھ بھاگی ہے۔۔حیا کا چہرے پر غصے کے تاثرات جمع ہونا شروع ہو گۓ تھے۔۔
یہ تو وہاں جا کر پتہ لگے گا۔۔نومی نے موبائل پاکٹ میں ڈالتے ہوۓ بولا۔۔
جلدی سے ٹکٹ کنفرم کرواؤ مجھے جلدی سے لاہور پہنچنا ہے۔۔حیا کو چکمہ دینے کے سزا تو وہ اب تاعمر بھگتے گی۔۔
_”حیا کے چہرہ بےتاثر تھا مگر برباد کر دینے کا تاثر پھر بھی رہتا تھا۔وہ اب عینا کے زندگی میں زہر گھولنے جا رہی تھی۔
___________________________________________________________________________________________________
وہ سر جھکاۓ خود کو زبردستی گھسیٹتے کسی شکست خوردہ شخص کی طرح وارڈن اور سپرڈنٹ کے پیچھے پیچھے چلا جا رہا تھا۔
آج اس کی برسوں کی مخنت تباہ ہو گئ تھی آج اس کے پانچ سال برباد ہونے جا رہے تھے۔
آج اس کے باپ کی قربانیاں اس کی ماں کے ارمان سب کچھ ختم ہو رہا تھا اور وہ کچھ نہیں کر پا رہا تھا۔۔
وارڈن اس سے آگے آگے چلتا آفس میں پہنچ گیا پھر ان کے آفس کے پاس پہنچنے تک وہ آفس سے برآمد ہوا تھا۔۔
سعدی رانا آپ یہیں انتظار کریں سر راؤنڈ پر ہیں ٹیم آتی ہی ہو گی اور آپ کو سر ہال نمبر تین میں بلا رہے ہیں۔وارڈن نے سعدی کے بعد ساتھ کھڑے ممتخن کو اشارہ کیا اور دونوں آگے پیچھے چل پڑے۔۔
“_سعدی وہیں پاس پڑے بینچ پر سر ہاتھوں میں دے کر بیٹھ گیا تھا۔اس کا دل شدت سے رونے کو کر رہا تھا وہ دھاریں مار مار کر رونا چاہتا تھا مگر وہ کمال ضبط آزما رہا تھا۔۔
تھوڑی دیر بعد پیپر ختم ہو چکا تھا سٹوڈنٹس ہاتھوں میں پیپر بورڈ پکڑے ایگزام ہال سے نکل رہے تھے۔۔
امان باہر نکل کر سعدی کو ڈھونڈنے لگا تھا اسے اپنی غلطی کا احساس تھا مگر اس کا احساس سعدی کا ازالہ نھیں ہو سکتا تھا۔وہ اساور کو کال کر کے معاملات سنبھالنے کے لیئے بلا چکا تھا اور خوش قسمتی سے اساور آج وہیں کسی کام کے سلسلے میں آیا ہوا تھا۔۔
سعدی سوری یار۔۔!! ایک بینچ پر سر ہاتھوں میں پکڑے بیٹھا وہ اسے نظر آیا تو امان فوراً اس کے پاس پہنچا۔۔
سعدی نے سر اٹھا کر اسے دیکھا آج ان آنکھوں میں دوستی محبت کچھ بھی نہیں تھا اک سردمہری اک آگ تھی جو جلا کر راکھ کر دینے والی تھی۔۔
سعدی یار مجھے نہیں پتہ تھا معاملہ اتنا سنگین ہو جاۓ گا اگر پتہ ہوتا تو میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اگر پتہ ہوتا تو کیا ہاں کیا۔۔امان کی بات منہ میں ہی رہ گئ سعدی تو بھڑک اٹھا تھا۔۔
چھوٹا بچہ ہے تو نا تجھے تو کچھ بھی نہیں پتہ مگر یہ تو پتہ ہے نا میں نے کتنی مخنت کی تھی میرے لیئے رزلٹ کتنا ضروری تھا میرے باپ کے خون پسینے کی کمائ تھی مجھے یہاں تک پہنچانے میں میری ماں کے ارمان تھے مجھے ایک اونچے عہدے پر دیکھنے کے میری بہن کے سپنے تھے یار میرا کرئیر تھا تو نے سب برباد کر دیا سب۔۔سعدی بات کرتے کرتے بےبسی سے اپنے سر کے بال نوچنے لگا اس کی آواز بھرا گئ تھی جیسے ابھی رو دے گا۔۔
“_یار سعدی۔ ۔ ۔ ۔
چپ میرا نام مت لے اپنی چیٹر زبان سے یہ زبان ایگزام ہال میں بھی کھل سکتی تھی مگر نہیں تم تو تماشہ دیکھ رہے تھے انجواۓ کر رہے تھے_”_تیرا باپ ایک امیر آدمی ہے تو ساری زندگی بیٹھ کر کھاۓ تب بھی ختم نہ ہو مگر میرا باپ مجھے بڑا آدمی بنانے کے لیئے مخنت کرتے کرتے مر گیا تھا تو نے یہ کیا کر دیا امان ہماری پوری فیملی کو برباد کر دیا۔۔سعدی اس کی کوئ بات سننے کو تیار نہ تھا۔۔
یار تو فکر مت کر میں سب ٹھیک کر دوں پلیز یار مجھ سے ایسے تو بات مت کر مجھے تیرا لہجہ تکلیف دے رہا ہے۔۔امان اپنی غلطی پر پشیمان تھا۔۔
باڑ میں گیا تو اور باڑ میں گئ تیری فکر دفعہ ہو جا میری نظروں سے ورنہ تیری موت کا جرم میرے سر آ جاۓ گا دفعہ ہو یہاں سے۔۔سعدی نے امان کو دھکا دیا جبکہ سامنے سے آتے اساور نے اس کا ہر لفظ سنا تھا_”_
کیا ہو گیا ہے کیوں ایسے لڑ رہے ہو اور تم نے ایمرجنسی میں کیوں بلایا۔۔اساور نے پاس پہنچ کر پوچھا اسے سعدی کا امان کو یوں دھکا دینا سخت ناگوار گزرا تھا۔۔
آگ لگی ہوئ ہے میرے اندر الاؤ بھڑک رہا ہے سب کچھ جلا کر راکھ کر دینا چاہتا ہوں میں اور سب سے پہلے اس کی جان لوں گا اسے کہیں ہٹ جاۓ میرے سامنے سے۔۔سعدی غصے سے امان کی طرف بڑھا تھا اساور نے ایک جھٹکے سے اسے دھکا دے کر پیچھے کیا۔۔
Behave your self saadi۔۔
یہ کیا طریقہ ہے ۔۔اساور کو بھی غصہ چڑھ رہا تھا۔۔
یہ آپ اپنے اس لاڈلے سے پوچھیں۔۔ٹھوڑی پر ہاتھ مارتا سعدی دوبارہ بینچ پر بیٹھ گیا۔۔۔
وہ چکس۔ ۔ ۔ ۔ امان نے سر جھکاۓ ساری بات اساور کے گوش گزار کر دی تھی۔۔
امان زندگی جہاں روکے رک جاؤ مگر آگے بڑھنے کے لیئے شارٹ کٹ کبھی نہ لو تم پڑھ نہیں پاتے تو چھوڑ دیتے مگر چیٹنگ یہ بہت غلط کیا تم نے۔_”اور خود کو بچانے کے لیئے سعدی کی مخنت پر پانی پھیر دیا بہت افسوس ہوا مجھے بیٹا۔۔اب کے بھڑکنے کی باری اساور کی تھی۔۔
چکس غلطی ہو گئ پلیز کچھ کریں نا پلیز۔۔۔امان رو دینے کو تھا سعدی اور وہ کبھی نہیں لڑے تھے اور ایسی لڑائ تو کبھی نہ ہوئ تھی۔۔
سعدی ٹیم نے تم سے کچھ پوچھا ہے۔۔اساور نے بینچ پر بیٹھے سعدی سے پوچھا۔۔۔
نہیں تھوڑی دیر میں کاروائ ہو گی۔مجھے ابھی انتظار کرنے کا کہا ہے۔۔
اچھا میں کچھ کرتا ہوں۔۔اساور کہتے ہوۓ فون کان سے لگاتا پرنسپل کے آفس کی طرف بڑھ گیا۔۔
سعدی نے ایک ناگوار نظر امان پر ڈالی تو وہ مارے شرمندگی کے سر جھکا گیا تھا۔۔۔۔
پھر اساور نے سب کیسے سنبھالا سعدی نہیں جانتا تھا بس اتنا ہوا کہ سعدی کے خلاف پرچہ نہیں کٹا تھا نہ کوئ کاروائ ہوئ تھی اور نہ اس کے پیپر پر ریڈ مارک لگا کر بھیجا گیا بس اتنا ہی ہو پایا تھا سعدی کو پیپر لکھنے کا وقت نہیں دیا گیا تھا۔مگر وہ باقی کے پیپرز دے سکتا تھا۔۔
اس کے پانچ سال ضائع ہونے سے بچ گۓ تھے ۔اور وہ ٹاپ نہ کر پایا تھا۔
“_مگر اس واقعے نے ان کی دوستی ضائع کر دی تھی امان معافی چاہتا تھا اور سعدی کچھ بھلانے کو تیار نہیں تھا۔
مگر پھر بھی سب کچھ ٹھیک تھا۔۔”_
___________________________________________________________________________________________________
کیا پتہ لگایا ہے تم نے ہاں کسی کام کے نہیں ہو تم۔۔
“حیا اور نومی آج صبح ہی لاہور پہنچے تھے مگر شامین کے گھر پر تالا تھا جس نے حیا کو مزید تپا دیا تھا۔۔”
یہیں کا ایڈرس ہے یار جہاں عینا رہائش پزیر تھی میرے سورسز غلط نہیں ہو سکتے۔۔نومی خود پریشانی سے موبائل پر ایڈرس دیکھ رہا تھا۔۔
کہاں گئ عینا پھر یہاں سے زمین کھا گئ یا آسمان نگل گیا اسے بولو۔۔حیا کی ناک غصے کی شدت سے سرخ ہو گئ تھی۔۔
ایکسکیوزمی۔!! اس کی بات نظر انداذ کرتا نومی وہاں سے جاتے ہوۓ شخص سے مخاطب ہوا۔۔
یہاں جو لوگ رہتے تھے وہ کہاں گۓ۔۔نومی نے شامین کے گھر کی طرف اشارہ کیا۔۔
شامین بٹیا کا پوچھ رہے ہیں آپ جو وکیل ہے۔۔
جی جی وہی۔۔نومی نے جلدی سے کہا۔۔
وہ تو دو دن پہلے ہی یہاں سے جا چکی ہیں۔دوسرے ملک چلی گئ ہے شامین بٹیا۔آپ لوگ کون۔۔؟؟اس شخص نے اب سوالیہ نظروں سے نومی اور حیا کی طرف دیکھا۔حیا نے بےزاری سے نظریں گھما لی تھیں۔
ہم فرینڈذ ہیں ان کے۔۔اچھا ان میں سے کسی کو شامین کے گھر دیکھا ہے آپ نے۔۔نومی نے جلدی سے موبائل اس شخص کے آگے پکڑا۔۔
ہمم ہاں یہ شامین بٹیا کی دوست ہے اور یہ والا لڑکا اس کا شوہر اور یہ اس کا دوست۔۔اس شخص نے کچھ دیر سوچتے ہوۓ بتایا۔۔
شکریہ بہت بہت آپ کا مگر آپ بتا سکتے ہیں یہ تینوں کدھر گۓ ہیں۔۔۔نومی کا تجسس بڑھتا جا رہا تھا۔۔
ویسے تو مجھے کسی کے گھر کے معاملات کا پتہ نہیں ہوتا مگر شامین بٹیا پورے محلے کی بٹیا ہیں اپ ان کے دوست ہیں اس لیئے بتا دیتا ہوں۔۔اس بوڑھے نے کہا۔۔
جی ضرور بتائیں۔نومی اس کی اتنی لمبے تعارف پر غش کھا کر رہ گیا تھا مگر ضبط کیئے ہوۓ کھڑا رہا جبکہ حیا کے چہرے سے غصہ جھلک رہا تھا۔۔ ،”_
یہ مری میں پڑھتے ہیں وہیں گۓ ہیں۔۔اچھا میں چلتا ہوں۔۔بوڑھا شخص کہہ کر اپنے گھر کی طرف بڑھ گیا۔۔
ہمیں مری جانا ہو گا فوراً ۔۔نومی گھوم کر اس جگہ کے شور سے بےزار کھڑی حیا کی طرف آیا۔۔
کیا گارنٹی ہے وہ وہاں ہوں گے۔ویسے ھی تمہیں ملا لیا اپنے ساتھ اکیلے میں جلدی ڈھونڈ لیتی عینا کو۔۔حیا بڑبڑاتے ہوۓ نومی کے پیچھے چل پڑی۔۔
اب ان کی اگلی منزل مری تھی۔
دا لارنس کالج مری۔۔
___________________________________________________________________________________________________
پانچ سال بعد۔۔
وقت گزر گیا اور یہی تو وقت کی حاصیت ہے ٹھہراؤ نہیں رکھتا اپنے اندر مسلسل پانی کے تیز بہاؤ کی مانند بہتا چلا جاتا ہے دن مہینے اور سالوں گزر جاتے ہیں۔پر وقت پھر بھی بہتا رہتا ہے۔۔
دانین کو خدا نے دو جڑواں بیٹیوں سے نوازا تھا۔۔وہ جو سوچتی تھی کیسے جیئے گی وہ ماں بنی تو جانا کیسے جیا جاتا ہے ۔۔وہ اپنے اندر سے ایک عورت کو مکمل طور پر مار چکی تھی وہ اب نہ اساور کی بیوی تھی نہ اساور اس کی محبت تھا وہ صرف اب زارا اور سارہ کی ماں تھی اور ایک قصاص میں آئ لڑکی تھی ایک قیدی تھی جس کی رہائ سعدی کی بےگناہی سے مشروط تھی۔۔۔
اسنے اپنے دل سے اساور کو نکال دیا تھا آنکھوں سے اس کے خواب نوچ پھینکے تھے۔اس کی محبت کا محور اب صرف اور صرف زارا اور سارہ تھیں۔۔
دانین اذیت شکار لڑکی تھی مگر پھر اس نے خود پر مزید ظلم نہیں ہونے دیا وہ کسی کو خود پر تشدد کی اجازت اب نہیں دیتی تھی۔مگر اس سے بڑھ کر اذیت اس کے لیئے کیا تھی کہ اس کی بیٹیوں کو پوری کاظمی حویلی میں ناجائز کا طعنہ ملتا تھا وہ تو چھوٹی تھیں مگر دانین کو یہ الفاظ نشتر کی طرح لگتے تھے جو اسے لہو لہان کر دیتے۔۔
اور اساور کاظمی وہ محبت کا مجرم تھا اور محبت کا مجرم انتہائ بدنصیب ہوتا ہے ۔
وہ بدنصیب شخص پھر بدنصیب باپ ثابت ہوا تھا وہ اپنی بیٹیوں کو پیار کرنا چاہتا مگر بھابھی کے الفاظ اسے ان کے پاس نہیں جانے دیتے تھے وہ آس سے امید سے اپنے باپ کی طرف دیکھتی تھیں جو انتقام کی جنگ میں ہر محبت کو مار آیا تھا۔۔ بھابھی کی موجودگی میں وہ سارہ اور زارا کی موجودگی نظرانداذ کر دیتا تھا چاہے وہ پکارتی رہتیں۔۔
اس وجہ سے زارا بہت دور دور رہتی تھی اس سے اور سارہ وہ تو ہر وقت اس کی ٹانگ پکڑ کر پیچھے پیچھے پھرتی تھی مگر وہ بھابھی کی نظروں میں کھڑا رہنے کو اپنی بیٹی کو پسِ پشت ڈال دیتا تھا۔۔
زائرہ ناظم کاظمی عرف سومو وہ چھوٹی سی لڑکی تو پہلے ہی کافی بڑی ہو گئ تھی وہ محبت کے معاملے میں اساور جیسی نہیں تھی وہ امان جیسی تھی محبت کا پیکر غلطی ہو جاۓ تو ڈٹ جانے ک جگہ معافی مانگ لینے والی معاف کر دینے والی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی معاف کرنے والوں کو خدا دوست رکھتا ہے۔۔
وہ صرف سعدی کا انتظار کرتی تھی جو اپنی بےگناہی کے ثبوت لاۓ اساور کے منہ پر مارے اور دانین اور اسے وہاں سے لے جاۓ۔
وہ واقعی امان جیسی تھی محبت کرتی تھی تو بس محبت کرتی تھی وہ نفرت نہیں کرتی تھی کیونکہ محبت temporary تھوڑی ہوتی ہے جب بھی ہوتی ہے بس ہمیشہ ہوتی ہے پھر۔۔۔
___________________________________________________________________________________________________
میں شادی کر رہا ہوں۔۔صوفے پر ٹانگے پھیلا کر بیٹھے اساور نے اپنی طرف سے گویا اس پر بم پھوڑا تھا مگر سب وہ رخشندہ بھابھی کی کڑوی زبان سے کئیں دن پہلے سے جانتی تھی۔۔
آنکھیں میچ کر اس نے رخ موڑے خود کو کنٹرول کیا۔۔
آج دل میں بچی آخری گنجائش بھی اساور کے لیئے ختم ہو گئ تھی۔۔
بتا رہے ہو یا پوچھ رہے ہو۔۔وہ نارمل انداذ میں کہتی زارا اور سارہ کے کھلونے سمیٹنے لگی۔۔
بتا رہا ہوں بھلا پوچھوں گا کیوں۔۔؟؟ اساور نے تیکھی نظروں سے اسے دیکھا۔۔
اور اس عنایت کی وجہ۔۔؟؟ دانین یوں ہی مصروف رہی تھی۔۔
پہلی بیوی ہو تم میری اس لیئے بتا رہا ہوں۔۔
بہت بہت شکریہ اس نوزاش کے لیئے مگر اس کی کوئ ضرورت تھی نہیں اور جہاں تک پہلی بیوی کی بات ہے ایم سرپرائز میں اتنے سالوں میں بھول ہی گئ تھی شکریہ یاد دلانے کے لیئے اور دوسری بات یہ انوٹیشن تھا یا انوٹیشن ملے گا مجھے شادی میں آ سکتی ہوں میں۔۔دانین کا لہجہ نارمل تھا ہر طرح کے جذبے سے حالی بےتاثر۔۔
تم کچھ کہو گی نہیں ۔۔اساور اس سے یہ ایسپیکٹ نہیں کر رہا تھا۔۔
اس سے ذیادہ اور کیا کہوں۔؟؟ دانین نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔۔
تمہیں برا نہیں لگا۔۔اساور اسے ہی دیکھ رہا تھا جس کا چہرہ کسی بھی تاثر سے حالی تھا۔۔
اگر تم اے۔کے ہوتے اور میں ڈی۔جے تو لگتا برا مجھے برا کیا لگتا دل رک جاتا میرا مگر اب نہ میں ڈی۔جے ہوں نہ تم ڈی۔جے کے اے۔کے ہو میرا دل تمہارے نام پر دھڑکتا ہے نہ مجھے تمہارے کچھ بھی کرنے سے کچھ فرق پڑتا ہے جو مرضی کرو۔۔
دانین اس کی طرف نہیں دیکھ رہی تھی وہ تو اب اسے دیکھتی ہی نہیں تھی۔۔
پوچھو گی نہیں کس سے کر رہا ہوں شادی۔؟؟ اساور چاہتا تھا وہ کچھ کہے مگر وہ چپ تھی اور اس کی لاپرواہی اساور کو چب رہی تھی۔۔
نہیں جس سے بھی کرو مجھے نہیں جاننا ۔۔۔دانین کہتی ہوئ دروازہ کھول کر باہر نکل گئ۔وہ مزید اس کی بکواس سننے کے موڈ میں نہیں تھی۔۔
___________________________________________________________________________________________________
بابا۔۔!! وہ ڈریسنگ کے سامنے کھڑا گھڑی پہن رہا تھا کہ چار سالہ سارہ اس کی ٹانگ پکڑ کر بولی ۔۔
جی بابا کی جان۔!! وہ اس کے ننھے ننھے ہاتھ پکڑ کر اس کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔۔
باہر سے آتی دانین کے قدم جامد ہوۓ تھے ہینڈل کھولتا اس کا ہاتھ رک گیا تھا۔۔وہ وہیں کھڑی ہو گئ تھی۔۔
بابا وہ نئ آنٹی کون ہیں وہ مجھے اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے ایسے دیکھ رہی تھی کہ میں ڈر گئ۔۔وہ اساور کے گلے میں بازو ڈالے لاڈ سے بولی۔۔
اوہ بابا کی جان کو ڈر بھی لگتا ہے مگر میرا بچہ تو بہت بہادر ہے ۔۔اساور نے اس کے گال پر بھوسہ دیا تھا۔۔
دانین ہینڈل گھماتی اندر داخل ہوئ ۔اساور اسے دیکھتا سارہ کا گال تھپتھپاتا دوبارہ أئینے کے سامنے کھڑا ہو گیا۔۔
ماما اتنے لوگ کیوں آۓ ہوۓ ہیں گھر پر۔۔۔سارہ اب دانین کے پیچھے پڑ گئ تھی۔۔
زارا اور سارہ جڑواں تھیں مگر زارا کی برعکس وہ ذیادہ باتونی تھی زارا جھجھکتی تھی اساور سے جبکہ سارہ بلاجھجھک اس سے ہر بات منوا لیتی تھی۔۔
سارہ جاؤ یہاں سے ذیادہ سوالات مت کیا کرو۔۔دانین الماری کھول کر اس میں اپنے تہہ کیئے کپڑے رکھنے لگی۔۔
ماما۔۔!! سارہ نے مسکین سی شکل بنا کر کہا تو دانین نے اس کی طرف آنکھیں نکالی تو وہ منہ بنا کر کمرے سے باہر چلی گئ۔۔
ایسے مت ڈانٹا کرو پہلے ہی زارا سہمی سہمی رہتی ہے۔۔اساور نے ٹیڑھی نظر اس پر ڈالی۔الماری میں کپڑے رکھتے اس کے ہاتھ رکے تھے۔۔
وہ میری بیٹیاں ہیں اساور کاظمی ان کے اچھے برے کی ذمہ دار ہوں میں آپ کو اس تکلیف کی ضرورت نہیں ہے آپ بس اتنی مہربانی کریں میری بیٹیوں سے دور رہیں انہیں اپنی عادت مت ڈالیں میں نہیں چاہتی وہ جب یہاں سے جائیں تو تمہیں یاد بھی کریں۔۔
کہاں جائیں گی وہ۔۔اساور ٹھٹھکا تھا۔
جب تم یہ بدلے کی جنگ ہار جاؤ گے تو صرف جنگ نہیں ہارو گے سارہ اور زارا کو بھی ہار دو گے اور مجھ سے تو پھر بھی تمہارا کچھ لینا دینا ہی نہیں ہے۔۔دانین ایسے ہی چہرہ الماری میں دیئے بولتی رہی۔۔
یہ تمہاری بھول ہے مس دانین جمشید علی کہ میں اپنی بیٹیوں کو کہیں جانے دوں گا وہ میری بیٹیاں ہیں اور ہمیشہ یہیں رہیں گی اور جہاں تک بدلے کی جنگ کی بات ہے وہ میں جیت کر رہوں گا کیونکہ میں جانتا ہوں میں سچائ پر ہوں اور سچا کبھی ہارتا نہیں ہے۔۔اساور نے تیزی سے جا کر اس کا بازو دبوچتے اسے زور سے اپنی طرف گھمایا۔۔
دانین بازو میں اٹھتی تکلیف کو نظر انداذ کرتی زور سے ہنسی تھی اتنی کہ اس کی آنکھیں نمکین سمندر بن گئیں۔۔
تو تمہیں یاد ہے وہ تمہاری بیٹیاں ہیں ورنہ اپنی اس ایک رات کی بےاختیاری کو تم نے بھول کر انہی بیٹیوں کو ناجائز کہا تھا مجھ سے حساب مانگا تھا ان کی رگوں میں دوڑتے خون کا۔۔
آج وہ تمہاری بیٹیاں ہیں یہ کایا کیسے پلٹ گئ ہاں بلکہ کایا کا کیا پلٹنا ہے تمہیں پتہ ہے تم ایک بزدل مرد ہو تم مجھ پر الزام لگاتے ہوۓ بھی جانتے تھے کہ یہ تمہارا ہی خون ہیں مگر تم چپ رہے تمہاری بھابھی نے ناجائز کا طعنہ دیا تم تب بھی جانتے تھے یہ ناجائز نہیں ہیں پھر بھی تم چپ رہے کیونکہ تم ایک بزدل مرد بزدل باپ ہو اور میں نہیں چاہوں گی زارا اور سارہ میں تمہاری خصلتیں جنم لیں ۔۔
اور دوسری بات تم خق پر نہیں ہو تم کو یہ ایک دن پتہ لگے گا اور پھر تاعمر سر پکڑ کر بیٹھے رہنا۔۔دانین نے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش نہیں کی تھی باوجود درد کے کہ وہ اب ان تکلیفوں کی عادی تھی۔۔۔
وہ کچھ پل اسے دیکھتا رہا پھر ایک جھٹکے سے اسے دھکیلتا لمبے لمبے ڈگ بھرتا کمرے سے نکل گیا۔۔
دانین نے بروقت اپنا توازن قائم رکھا ورنہ سیدھی الماری سے جا ٹکراتی۔۔
آنکھوں میں اٹھتے نمکین پانیوں کو آنکھیں زور سے میچ کر اندر اتارا کہ وہ اب آنسو پینا سیکھ گئ تھی۔۔
___________________________________________________________________________________________________
کاظمی حویلی میں آج شہنائیاں گونج رہی تھیں۔موسیقی کی آواز کانوں کے پردے پھاڑ رہی تھی۔۔
ہر طرف گہماگہمی تھی۔پورے شہر کو دعوت دی گئ تھی اور دعوت کا انتظام حویلی میں ھی کیا گیا تھا۔۔
سائرہ اور رخشندہ بھابھی کے چہروں سے ہنسی جدا نہیں ہو رہی تھی ۔۔
دانین اپنے کمرے میں زارا اور سارہ کے درمیان لیٹی دونوں کا سر سہلاتی ان اونچی شہنائیوں کی آوازیں سن رہی تھی۔۔
اس کے چہرہ ہر تاثر سے حالی تھا مگر ایک آنسو آنکھ سے نکلتا ہوا گال کے رستے اس کے گلے پر بہہ گیا تھا۔۔
آج اساور کی شادی تھی دوسری شادی۔۔وہ اساور جو کبھی صرف اور صرف اس کا ہونے کا دعویدار تھا جس کی نظریں اس سے ہو کر اسی پر ٹکتی تھیں۔۔
وہ اس سے محبت نہیں کر سکتی تھی مگر وہ محبت پر کوئ خق کیوں نہ رکھتی تھی یہ بات اسے کھاۓ جاتی تھی۔۔
باہر اونچا شور تھا ہر کوئ خوش تھا اور شائد اساور بھی وہ مسکرا رہا تھا سائرہ کے ساتھ اسٹیج کے سامنے رقص کر رہا تھا۔اور اسٹیج پر بیٹھی اس کی خوبصورت دلہن اسے کھلکھلا کر محبت پاش نظروں سے دیکھ رھی تھی۔۔
اساور بھی رقص کرتے ہوۓ اس پر ایک نظر ڈالتا اور مسکرا دیتا تھا۔۔
رقص کرتے ہوۓ اساور کی نظر اسٹیج کی طرف آتی دانین اور سومو پر پڑی۔۔
دونوں پیچ کلر کی گھٹنوں تک آتی فراک زیب تن کیئے ہوۓ تھیں۔بالوں کا جوڑا بنایا ہوا تھا جس کے اطراف سے دو لٹیں نکل کر چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔۔ دوپٹہ ہاتھوں پر ڈالے میچنگ جیولری پہنے وہ دونوں ایک سی معلوم ہوتی تھیں۔۔خوبصورت بہت خوبصورت۔۔
رقص کرتا اساور ساکت ہوا تھا اس کی نظریں دانین پر ٹھہر گئیں تھیں اس کی نظروں کے تعاقب میں سائرہ رخشندہ اور اسٹیج پر بیٹھی دلہن نے اس حسینہ کو دیکھا آنکھوں میں بےانتہا نفرت سمو کر۔۔۔۔
دانین اور سومو مسکراتے ہوۓ مہمانوں سے مل رھی تھیں۔۔
رخشندہ جو پےچینی دانین کے چہرے پر ڈھونڈنا چاہتی تھی وہ کہیں نہیں تھی دانین مطمئن تھی جیسے اسےکوئ فرق نہیں پڑتا مگر اسے فرق پڑتا تھا صدیوں کی محبتیں دنوں میں کہاں بھلائ جاتی ہیں مگر ہاں ہم محبت سےدستبردار ہو جاتے ہیں۔۔
دانین کو مظبوط کر کے سب کے سامنے لانے والی سومو تھی اس نے دانین کو بہت مظبوط بنا دیا تھا کیونکہ وہ محبت کا پیکر تھی۔۔
محبت جن لوگوں کے لیئے نایاب ہوتی ہے ان پر ہی نازل ہوتی ہے اور سومو ان ہی لوگوں میں سے تھیں۔۔
خوش لگ رہی ہو بہت۔۔اساور کو دانین کی مسکراہٹ چبی تھی بہت وہ اس سے رونے چلانے کی امید کرتا تھا مگر اس نے تو اف تک نہیں کیا تھا۔۔
اپنی بیوی کے تیور دیکھے ہیں آپ نے اساور کاظمی۔؛؛!! کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رھی ہے اس کی نظریں صاف بتا رہی ہیں وہ دانین کو برداشت نہیں کر پاۓ گی مجبوراً آپ دانین کو گھر سے نکال دیں گے اور دانین آزاد ہو جاۓ اور آزادی کی نوید پر انسان خوش تو ہوتا ہے۔۔دانین کی جگہ جواب سومو نے دیا تھا۔۔
“وہ اب اساور کو چکس کہتی تھی نہ چاچو اب وہ اس کا نام لیتی تھی کہ وہ شخص رشتوں کے قابل نہیں تھا ۔۔
یہ بھول ہے کہ اساور کی قید سے دانین اتنی آسانی سے نکل جاۓ گی نو نو کبھی نہیں۔۔دانین کی طرف دیکھتا وہ چبا چبا کر کہتا ہوا اپنی دلہن کی طرف بڑھ گیا۔۔
وہ جو کچھ دیر پہلے دانین کو دیکھ کر مبہوت رہ گیا تھا اب سنبھل چکا تھا۔۔
دانین نے سجی سنوری دلہن کو دیکھا جو انتہائ ناگواری سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔
دانین نے جواب میں ایک تپا دینے والی مسکراہٹ اس کی طرف اچھالی اور سومو کا ہاتھ تھامے ایک ٹیبل پر جا بیٹھی۔۔
میرا محبوب کسی ہور دا ہوئ جاندا ہے۔۔
بیک گراؤنڈ میں گانا اونچی آواز میں چلایا تھا کسی نے ۔۔
دانین نے چونک کر سر اٹھا کر اِدھر اُدھر دیکھا اور پھر سر جھٹک کر مہمانوں سے باتیں کرنے لگ گئ۔۔
_________________________________________