آج نجم شیراز کی حمد سے آغاز کیا۔یہ حمد رواداری اور ذہنی کشادگی کا احساس دلاتی ہے۔
نہ ترا خدا کوئی اور ہے نہ مِرا خدا کوئی اور ہے
یہ جو راستے ہیں جدا جدا یہ معاملہ کوئی اور ہے
اس کے بعد اعظم چشتی کی آواز میں مولانا ظفر علی خان کی یہ مقبول ترین نعت سنی۔
وہ شمع اجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں
اک روز چمکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میں
اس کے بعد نعتوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔
نوری محفل پہ چادر تنی نور کی. نور پھیلا ہوا آج کی رات ہے. (صدیق اسماعیل)
مدینے کو جائیں یہ جی چاہتا ہے. مقدر بنائیں یہ جی چاہتا ہے. (اویس رضا قادری)
ہم نے آنکھوں سے دیکھا نہیں ہے مگر
ان کی تصویر سینے میں موجود ہے. (مظہرالاسلام)
محمد کا روضہ قریب آ رہا ہے (جنید جمشید)
کرم کی اک نظر ہم پر خدارا یا رسول اللہ ( مسعود رانا)
یہ سارا کلام عقیدت و محبت سے بھرا ہوا ہے۔
ایک گروپ میں ڈاکٹر عامر سہیل نے ایک ویڈیو شئیر کی ہے۔یہ ڈاکٹر طارق ہاشمی کی بہت عمدہ کاوش ہے۔ان کےبنیادی موضوع سے بالکل متفق ہوں۔ انہوں نے فلمی نعتوں کا ذکر کیا ہے جنہیں نعت خوانوں نے جوں کا توں استعمال کر لیا ہے اور کہیں اوریجنل ماخذ کا حوالہ ہی نہیں دیا۔میں نے8 رمضان المبارک کی ڈائری میں اس سے ہٹ کر ایسی نعتوں کی نشاندہی بھی کر دی ہے جو بعض مشہور فلمی گیتوں کی دھن پر گائی گئی ہیں۔لیکن اس ویڈیو میں تحقیقی زاویے سے بعض جھول موجود ہیں ۔ ان میں سے ایک دو اہم باتوں کی نشاندہی اور درستی ضروری ہے ۔
1- ویڈیو کے مطابق شمشاد بیگم نے فلم “ماں کے آنسو” میں یہ نعت گائی تھی
پیغام صبا لائی ہے گلزارِ نبیؐ سے. آیا ہے بلاوا مجھے دربارِ نبیؐ سے
یہ نعت 1959 میں بنی فلم ” ماں کے آنسو” سے نہیں ہے۔اسے شمشاد بیگم نے 1935 میں ریکارڈ کرایا تھا۔میں اپنی 4 رمضان المبارک کی ڈائری میں اس کا ذکر کر چکا ہوں ۔
2-ڈاکٹر صاحب نے بتایا ہے کہ پاکستان کی فلموں میں سب سے پہلی نعت ثریا نے فلم “درد” میں گائی ۔”بیچ بھنور میں آن پھنسا ہے دل کا سفینہ، شاہِ مدینہ”
فلم “درد” میں یہ نعت ثریا نے گائی ہے لیکن یہ پاکستانی فلموں کی پہلی نعت نہیں ہے۔ یہ ہندوستانی فلم ہے۔ یہ نعت شکیل بدایونی نے لکھی تھی۔نوشاد نے اس کی موسیقی ترتیب دی تھی۔یہ انڈین فلم تھی،پاکستانی فلم نہیں تھی۔اسی فلم کے ایک اور دعائیہ گیت کا ذکر میں 5 رمضان المبارک کی ڈائری میں کر چکا ہوں “ہم درد کا افسانہ دنیا کو سنا دیں گے”
اسی فلم “درد” کا ایک اور گیت آج بھی ہزاروں لوگوں کے ذہن میں ہوگا۔
“افسانہ لکھ رہی ہوں دلِ بے قرار کا. آنکھوں میں رنگ بھر کے ترے انتظار کا”
اسے اوما دیوی نے گایا تھا جو فلموں میں ٹُن ٹُن کے نام سے اداکاری کرتی تھیں ۔
3- اس حساب کتاب کے بعد یہ بات واضح ہوئی کہ پاکستانی فلموں کی سب سے پہلی نعت “شاہِ مدینہ۔۔۔یثرب کے والی” تھی ۔1957 کی فلم ” نورِ اسلام ” کے لئے اسے سلیم رضا اور آئرن پروین نے گایا تھا۔یہ دونوں خوش نصیب گلوکار مسیحی تھے۔ویسے اپنے اصل اشو کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کا پروگرام بہت عمدہ ہے۔
اب آخر میں فلم “ماں کے آنسو” میں شمشاد بیگم کی گائی ہوئی نعت پیش کرتا ہوں ۔
میں سو جاؤں یا مصطفیٰ کہتے کہتے. کھلے آنکھ صلِ علی کہتے کہتے
یہ نعت نلنی پر پکچرائز ہوئی تھی۔بچے کو سلاتے ہوئے نعت شروع ہوتی ہے۔
آخر میں یہ اطلاع کہ میرا ارادہ تو یہی تھا کہ پورا رمضان شریف روزانہ یہ رمضان ڈائری لکھوں گا لیکن پہلے عشرہ کے ساتھ ہی تھکن بڑھ گئی ہے۔میں بہت ساری ویڈیوز دیکھ کر پھر ان میں سے انتخاب کرتا تھا۔پھر ان منتخب ویڈیوز کے بارے میں اضافی تحقیق بھی کرتا تھا۔پورا دن اسی میں گزر جاتا تھا۔آج طبیعت کافی ناساز رہی۔71 سال کی عمر،کینسر کے تین وار سہہ کر اٹھ بیٹھنے کے بعد اللہ کے فضل و کرم سے بہت بہتر ہوں لیکن شاید مجھے اب اپنی صحت کا خیال رکھتے ہوئے اپنی مصروفیات میں کچھ توازن قائم کرنا چاہئے ۔ اس لئے اس ڈائری کو روزانہ لکھنے کا سلسلہ اختتام پذیر ہوا۔باقی اللہ نے مزید جو توفیق بخشی اس کے مطابق ادبی کام کرتا رہوں گا۔مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔جزاک اللہ
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...