(Last Updated On: )
لو آج پھر چلے آئے؟ ارے نادان اب یہ تیرا در نہیں۔۔۔
عادل بھائی کو دروازے پر کھڑا دیکھا تو جھٹ سے بولیں
“ممانی ،دربدر ہونا ہی تو نصیب میں تھا۔اب در ہو یا نہ ہو، دنیاداری تو نبھانی ہے نہ”
وہ جس کی انکھیں دہلیز در پر یوں چمکتی تھیں گویا چھوٹے بچے کو نیا کھلونہ مل گیا ہو۔۔۔۔آج جھکی جھکی ہی رہیں
“اچھا چلو اجاو اندر۔۔اور جا کر پوچھ آو ،وہ سب جو تم نے ہمیں پوچھنے سے منا کر رکھا ہے”
امی جان نے انہیں اسکے کمرے میں جانے کی اجازت دی اور وہ انہی جھکی نظروں کے ساتھ چلے گئے
“اہم۔۔۔اہممم”
عادل بھائی نے کمرے کے باہر سے ہی مخاطب کرنا چاھا۔۔۔۔اس نے آواز سنی تو بولی
“تکلفیاں کاش پہلے بھی کی ہوتیں تو حالات شائد آج کچھ بہتر ہوتے، اب آہی گئے ہیں تو اندر بھی آجایئں”
دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے تو جھکی پلکیں جھکی ہی رہیں
دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوئے اور سوال و جواب کا آغاز کیا
“حال پوچھنے کی گستاخی مجھ سے نہ ہوگی۔۔۔۔تو پھر یہ بتاو کیا ارادے ہیں؟
نیک ہیں یا بد؟”
اس سوال پر بڑی بڑی آنکھیں یوں اٹھایئں جیسے حال نہ پوچھا ہو۔۔۔۔اس کے باوجود گستاخی ہو چلی ہے
“بدی تو ساری ہو چکی ہے۔۔۔۔اب نیکی کے سوا کوئی چارہ نہی ہے،اور جو ارادے کا سوال تھا ،اس پر بتاتی چلوں ۔۔۔۔۔کچھ اینٹیں جمع کر لائی ہوں، پختہ چار دیواری اٹھانی ہے
نہ کوئی آسکے ،نہ کوئی جا سکے۔۔۔۔ایک ایسی باڑ لگانی ہے”
مریم نے جواب دیا
“لاو اینٹیں حوالے کر دو۔۔۔۔میں مستری کا کام بھی جانتا ہوں ،پکی ضمانت کے ساتھ”
عادل نے مدد کو ہاتھ بڑھایا تو بستر سے اٹھ کھڑی ہوئی
” زمانے بیت جایئں تو ضمانت کوئی نہی لیتا، کہ جن کے گھر بھی گرتے ہیں ،الزام ہوا پر لگتا ہے”
کہتے کہتے رکی ،ذرا سانس لی اور پھر گویا ہوئی
“اب مستری بھی خود ہوں ،لوہار بھی خود ہوں،اب حصے دار بھی خود ہوں اور کرائےدار بھی خود
دروازے پر گھنٹی کا کوئی خرچہ بھی نہی،نہ کھڑکیوں کی کوئی ضرورت۔۔۔۔جو گزر گیا سو گزر گیا،جو مجھ میں رہا وہ سدا میرا ہے
چلیں اب جایئں ، خدا حافظ”
اسنے صاف انکار کیا تھا ٹھیک اسی رات کی طرح
“بڑے بےآبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے۔۔
خدا حفظ۔۔”
وہ مسکرا کر کہتے ہوئے خاجی دروازے سے نکل گئے
کمرہ خالی ہوا تو زاروقطار رو پڑی۔۔اپنے ہی آنسووں سے لڑتی رہی تھی جب تک عادل سامنے رھا
کیسے بتاتی کہ ٹوٹ چکی ہے؟۔۔
تکیہ اٹھایا ،ڈائری نکالی(ہاں وہی ڈائری ) ورق پلٹے تو لکھا دیکھا
“مجھے وہ زندگی عطا کرنا جو سب سے منفرد ہو،،،جسے ہونے میں لطف ہو
آمین ثم آمین”
اپنی ہی لکھی ہوئی دعا کو پڑھا تو قہقہ لگا کر ہنس پڑی
“اللہ جی میری ہر دعا قبول کی؟ اور مجھے علم تک نہ ہوا؟مطلب یہ ہوا کہ میرا کہا بھی سچ ہوا۔۔۔
کتابوں کے ورقوں پر لکھی دعایئں کبھی نہ کبھی ضرور پوری ہوتی ہیں”
ابھی خودکلامی میں مصروف ہی تھی کہ سامنے پڑا پین اٹھا لیا، لکھنا شروع کیا اور بس دنوں ، شاموں راتوں ، پہروں لکھتی ہی رہی۔۔۔
“داستانِ محبت !!”
آخر بولنا تو وہ پہلے سے ہی جانتی تھی
مگر اب جب محشر برپا ہوا تو لکھنا بھی جان گئی۔۔،
کچھ امی کی نوازش تھی اور کچھ خضر کا ٹھہرا ہوا ،نفیس لہجہ
گنگناتے خوابوں میں ہر رات خضر ہی سفر کرتا، اور ہر رات سفر میں ادھورا ساتھ دے کر راستہ بدل لیتا تھا۔۔۔۔
****** “”””””””” ******* “”””” *******
خواب بےنام سے بیدار ہوتی تو یہ ماجرہ بھی عجیب تھا کہ تکیہ اور چہرہ انسووں سےتر ملتے۔۔۔۔یوں وہ آنسووں سے ہر رات اپنی محبت کو تازہ کر دیتی
وہ ان سارے احساسات کو زبان دینا چاہتی تھی جو سننے میں شائد آسان لگے،مگر لفظ لفظ جب روتا ہے تب سیاہی کے پھیلنے کا خطرہ کس حد تک معلوم ہوتا ہے
لہذا جو اسکو آسان سمجھتے ہیں وہ پانی کو پانی سے پانی پر لکھنے میں کامیاب ہو جایئں تو مجھے ضرور اطلاع دیجئے گا
بلآخر اس بےمروت سے شخص کی سبق آموز یا یوں کہئے کسی مردہ سے جسم میں جان بھر دینے والی کہانیاں مکمل لکھنے میں تقریباً ڈیڑھ ماہ سے زیادہ کا وقت درکار ہوا
شروع سے لے کر انجام تک کی سب صورت حال، بچپن کی تباہی، ماں باپ کی حکم ادولی
جھوٹ سچ کے قصے ، بے لوث محبت کو ٹھوکر اور پھر زورو شور سے دستبرداری شامل تھی۔۔۔!!
کبھی بابا جانی جھانکتے تو کبھی بھائی،اور رہی امی کی بات۔۔۔۔وہ تو ہر دس منٹ بعد کمرے کا چکر کاٹتی رہتیں
کبھی اوندھے منہ بھی پڑا دیکھ لیتی تو فوراً معلوم کر لیا کرتیں تھیں ، کہ گر کر پڑی ہے یا جان کے پڑی ہے۔۔
سانحہ جو گزرا تو یشفہ بھی مریضہ کا حال پوچھنے نازل ہو گئی
“السلام علیکم آنٹی کیسی ہیں آپ؟”
یشفہ نے پوچھا
“وعلیکم السلام ، اللہ کا فضل ہے،
کیا ضرورت آن پڑی آج؟”
یشفہ کو دیکھ کر امی آگ بگولہ سی ہو گئی تھیں
“میں کچھ سمجھی نہی آنٹی،یہ تو مجھے پوچھنا چاہیئے کہ پڑوس میں رہتے ہوئے بھی ہمیں نکاح میں شرکت کی دعوت نہ دی گئی؟،،بھلا کیوں؟
نیز بڑے دن گزرے سنا ہے مریم پر ظلم کے سبب میرے گھر آنے پر بھی پابندی ہے؟”
وہ ایک منہ پھٹ اور بد لحاظ لڑکی تھی اور اماں کا یہ فیصلہ بالکل درست تھا کہ مریم کو اسکے گھر جانے سے روک دیا جائے
خیر اسنے یوں سوالات کا سلسلہ گھر کے دروازے پر ہی شروع کیا تو امی بھی کہاں ہاتھ آئے شکار کو چھوڑنے والی تھیں۔۔۔۔کہنے لگیں
“موقع ڈھونڈنے والوں کو موقع فراہم کرنا ہمارے عادت و اطوار کے خلاف ہے،اور اگلا سوال جو کہ مریم کو اجازت سے محروم رکھنے کا ہے اسکا جواب کچھ یوں ہے کہ اپنی بربادی وہ آدھی چھٹانک اپنے پڑوسیوں کے گھر سے بھر کر لائی تھی اور باقی کی چھٹانک کا تبصرہ اسکی اپنی نیتوں پر منحصر ہے۔۔۔میں امید کرتی ہوں کہ آیئندہ آپ اس گھر کا رُخ کریں تو یہ نہ بھولیں کہ کس عزت کے ساتھ آپکو رخصت کیا گیا تھا۔۔”
پھر سر پر انگلیوں کے وار کے بعد بولیں
“اوہ میں تو بھول ہی گئی آدھی بیلی ہوئی روٹی چھوڑ آئی ہوں۔۔۔۔،مجھے جانا ہوگا،،چلئے محترمہ۔۔فی امان اللہ “
امی نے اسے ٹکا سا جواب دیا اور اسکے منھ پر دروازہ بند کردیا۔۔۔۔۔مریم یہ سب بیٹھی سن رہی تھی
اسکا اب اٹھ کر آنا بیکار تھا۔۔۔۔۔
اور یوں یشفہ کا قصہ بھی امی نے تمام کیا۔۔
طوفان کو تھمے اب پندرہ دن سے زائد ہو چلے تھے،امی نے اس سے بات کرنا چاہی
“اب کیا امیدیں ہیں ؟ ہم سے ؟ خود سے ؟ یا کسی اور سے؟ مگر سوال یہ نہی ہے کہ کس سے امید ہے بلکہ سوال صرف اتنا ہے کہ کیا ہیں؟”
“امید پر دنیا قائم ہے، حوصلے جب بلند ہوں تو خدا بھی ساتھ نہی چھوڑتا،
تہجد کا اصل مزہ تو اب آتا ہے ورنہ پہلے تو نمازیں سوچوں میں ہی گزر جاتی تھیں۔۔۔۔امیدیں ایک دن پوری ہو جایئں گی،یہ امید ہے
باقی میں جانوں ،میرا خدا جانے”
مریم نے تفصیل سے کہا
مزید سوال و جواب کی اب ضرورت نہ تھی لہذا قدم بڑھائے اور مریم کے کمرے سے چلی آیئں
******* “”””””””” ******** “”””” ******
کتاب عشق مکمل ہوئی تو اب مقصد تھا کسی اعلی معیار کے صفحوں پر شائع کرنا
ڈیڑھ ماہ کے عرصے کے بعد شام ڈھلی تو سر پر چادر تان کر گھر سے نکل پڑی
گھر سے تھوڑے ہی فاصلے پر ایک پبلیکیشن پوائنٹ تھا جہاں کے بزرگ انکل بابا کے اچھے دوست تھے،مریم اپنی کہانی لئے انکے پاس پہنچی۔۔۔۔دریافت کیا تو کہنے لگے
“بٹیا اسے شائع کرنا تو مشکل کام نہی ،مگر تمہیں بھاری قیمت کی ضرورت پڑے گی
میں سید صاحب کے حواے سے قیمت کم بھی کر دوں تب بھی لگ بھگ بیس ہزار تک کی رقم چاہیے ہوگی۔۔”
مریم جو ہاتھوں میں چند ہزار کے نوٹ لئے کھڑی تھی،جب مطلوبہ رقم سنی تو اوسان خطا ہو گئے
“اچھا ،مگر اتنے پیسے تو میرے پاس نہیں ہیں چاچا۔۔۔۔کوئی اور آسان حل نہی ہے اسکا؟”
مریم نے پوچھا
“اک حل ہے۔۔۔اگر بات بن گئی تو سمجھو نصیب ہے تمہارا۔۔۔!”
وہ کیا چاچا جی؟مریم نے پھر پوچھا
“ہمارے پاس کئی لکھک اور اخبارات میں کہانیاں شائع کرنے والے اپنی کہانیاں لے کر آتے ہیں ۔۔۔۔تم اپنی کہانی میرے پاس چھوڑ جاو،اب کہ کوئی ایا تو اسے تمہاری کہانی کا پتہ دے دوں گا مجھے یقین ہے کہ اگر انہیں تمھاری لکھی کہانی پسند آگئی تو وہ اسے اپنی طرف سے شائع کر دیں گے۔۔۔۔ورنہ پھر تم پیسے جمع کرلو اور میرے پاس آجاو”
چاچا جی نے جو مشورہ اسے دیا تھا وہ اسے مانتے ہوئے اپنی کہانی انہی کے پاس چھوڑ آئی
مگر اس آسرے پر بیٹھے رہنا کہ کوئی آئے گا اور اسکی کہانی کو اپنے اخبار کا حصہ بنا لے گا۔۔۔۔بےمعنی سا تھا
لہذا اب پیسوں کی قلت پوری کرنے کیلئے اسے کمانا تھا
اور کمانا مطلب گھر سے باہر نکل کر سو لوگوں کی باتیں سننا اور انہیں برداشت کرنا تھا۔۔مگر جاب ہی ایک واحد حل تھا اس کے پاس، جو اسے خضر کے قریب لے جا سکتا۔۔۔۔
“بابا جانی۔۔مریم کی ہر اچھی بری بات مانی،ہر ضد پر لبیک کہا
اسکا ہر رویہ سہا۔۔۔۔آج ایک آخری بات منوانے آئی ہوں
ہو سکے تو مان جایئں “
وہ نظریں جھکائے ساکن کھڑی تھی،بس لفظوں کے سہارے ہی کام چلا رہی تھی
“اب تک کی مانی ہوئی ہر بات میرے غلط کیلئے تھی،پر اب کی میرے صحیح کیلئے ہے۔۔۔میں چاہتی ہوں مجھے اجازت دے دیجئے،میرا خالی بیٹھنا مجھے کاٹتا ہے۔۔۔
میں بچوں کو سکول میں پڑھانا چاہتی ہوں،میرا وقت بھی کٹ جائے گا
اور اپنے کمائے ہوئے پیسوں سے پیسے کی قدر بھی آجائے گی”
یہ میری نیک خواہش ہے اگر مان لیں تو شکریہ کہوں گی،اور اگر نہ بھی مانیں تو اس بار شکریہ ہی کہوں گی۔۔”
وہ اخلاق و تمیز کے دائرے کو وسیع کر چکی تھی
اور اس اخلاق کو دیکھتے ہوئے بابا نے اسے نوکری کی اجازت دے دی تھی
وہ نوکری اور ساتھ یونیورسٹی کا بوجھ اٹھا اٹھا کر ڈھانچے کی مانند ہو گئی تھی
سر پر چادر اوڑھے وہ ننھے بچوں کو بڑے دل سے تعلیم دیتی رہی۔۔۔۔۔مرد حضرات بھی جہاں استادی نبھارہے تھے وہاں انکی بےحیا نظروں کا روز سامنا کرنا اب اسکے لئے مشکل ہوتا جارہا تھا
تو کبھی بس سٹاپ پر کھڑے آوارا لڑکوں کا چھیڑتے ہوئے گزر جانا۔۔۔۔۔سہنا بہت مشکل ہورہا تھا
پر اسکے سر پر جو مقصد سوار تھا وہ کسی بھی مشکل کے بارے میں اسے زیادہ دیر سوچنے کی مہلت نہ دیتا تھا
اگلے چھ ماہ لگا کر اسنے بیس ہزار یا شائد اس سے زیادہ کی کچھ رقم جمع کی اور ایک بار پھر چاچا جی کے پاس پہنچ گئی
“چاچا جی سلام ! کیسے مزاج ہیں آپ کے؟”
حال احوال کے بعد مدے پر آئے تو چاچا نے افسردہ لہجے میں کہا۔۔۔
“بڑی دیر ہو گئی اب بٹیا ،تمہاری محنت کی کمائی اب تمہارے کام نہ آسکے گی”
انکی بات سن کر وہ سہم کر بولی
“چاچا جی ایسا کیوں کہ رہے ہیں آپ؟میرا مقصد حیات ہے اس کہانی کو شائع کرنا ،خدارا کچھ تو کریں۔۔۔۔”
وہ کچھ جان ہی نہ سکی تو چاچا بے مسکراکر کہا
“ارے پگلی، میرا مشورہ کام اگیا ۔۔۔۔اک بی بی ہیں سویرا نامی خاتون، ایک کتاب یا یوں سمجھو ایک ڈائجسٹ کیلئے کام کرتی ہیں۔۔۔انہیں تمہاری کہانی بےحد پسند آئی ہےاور اب انکے دیئے ہوئے پیسوں سے اسکی آدھی طباعت بھی ہو چکی ہےمیں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا،انہیوں نے مجھسے تمہارا نام و پتا طلب کیا
پر بغیر اجازت میں کہسے دے سکتا تھا”
اتنا ہی سننے کی دیر تھی کہ اسکے بجھے ہوئے چہرے پر چاند کی پوری روشنی پھیل گئی،چاچا نے دراز ڈھونڈ کر انکا پتا نکالا اور مریم کے حوالے کیا
یہ لو بٹیا انکا پتا،اور ساتھ نمبر بھی درج ہے۔۔۔۔چاہو تو انہیں خود فون کرلو یا اپنا بر اور پتا مہرے پاس چھوڑ جاو
جب انکا آنا ہوا تو میں انہیں تھما دوں گا
“چاچاجی اپکو معلوم نہی ہے مجھے کتنی بڑی خوشی دی ہے آج اپنے
اللہ اپکو لمبی اور تندرست زندگی عطا کرے
آمین”
اسنے اپنا بھی نام وپتا ایک کاغذ پر لکھ کر دیا اور خوشی سے چہکتی گھر آگئی
یہ اسکا پہلا قدم تھا جس سے وہ خخر کا پتا لگا سکتی تھی
اک بڑی لکھاری بننا ہی اسکا ااب ساحد خواب تھا۔۔۔
” امی امی۔۔۔۔۔آج میں بہت خوش ہوں۔۔”
گھر پہنچی تو خوشی کے مارے پھولے نہ سما رہی تھی،اب تک کی جو بھی پیشِ رفت تھی اس میں کسی لو شاملِ حال نہ رکھا تھا
مگر اب تو بتانا ضروری تھا
امی کےگلے لگ کر کہنے لگی تو جواب ملا
“خود ہی بتا دو وجہ تو۔۔۔اب قیاس کرنا تو میرے لئے بیکار ہے”
“امی رات دن جس شخص کی شخصیت کے قصیدے مینے لکھے، انکی اشاعت میں ماری ماری پھرتی رہی،اس طباعت کی دکان پر اخبارات کے ایڈیٹر بھی آیا کرتے تھے۔۔۔۔چاچا جی نے میرے لکھے قصیدے کو ان میں سے ایک کے حوالے کیا اور وہ میرے لکھے ہوئت سے بہت متاثر ہویئں اور اب وہ مجھسے رابطہ کرنا چاہتی ہیں”
امی جانتی تھیں مریم کو لکھنے کا بچپن سے ہی شوق تھا،اب جبکہ یہ بات سنی تو اسکی خوشی میں بھرپور ساتھ دیا
اب بس اگلا مرحلہ طے کرنا تھا،پر ابھی تو دیکھنا یہ تھا کہ ایڈیٹر رابطہ کرنے پر کیا فرماتی ہیں؟،
خوشیاں تو خوب منائی گیئں مگر سوال اب یہ تھا کہ کس کی ذات پر مریم نے کہانیاں لکھی ہیں آخر۔۔۔اور اتنا اہم کون جسکو حرف بہ حرف اسنے صفحوں پر اتا دیا ۔۔؟
امی تنہائی میں یہ سب سوچتی رہی پھر خودکلامی کے انداز میں کہنے لگیں
“مریم کی اماں اگر ازادی دینے کا سوچ ہی لیاہے تو اب پوری طرح سے دو،وہ اس عمرِ رواں سے نکل آئی ہے کہ جب غلط فیصلے کرنا عام سی بات تھی”
******* “””””””” ****** “””””” ****””**