ترجمے کا عمل کسی زبان کے ساتھ ساتھ اس کے اسالیب کو وسعت بخشتاہے اور پڑھنے والے بھی دوسری زبان کے بنیادی مزاج اور تہذیب سے واقف ہونے لگتے ہیں اس کے علاوہ نئی اصناف سخن کو متعارف کروانے کی راہیں کھل جاتی ہیں ۔ترجمے کے عمل کے مثبت اثرات کسی بھی ترقی پذیر زبان کو ترقی کی راہوں میں تیز قدم ہونے میں مد د دیتے ہیں۔ ان اوصاف کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر جیلانی کا مران لکھتے ہیں:
’’ترجمہ جہاں الفاظ کے ذریعے انسانی علوم میں اضافہ کرتاہے اور ذہن کی سرحدوں کو کشادہ کرنے میں مد د دیتاہے اور اس میں ترجمے کی تمدنی اور ثقافتی ضرورت بھی مضمر ہوتی ہے وہاں ترجمے کا عمل زبان کی ساخت کو بھی متاثر کرتاہے خیالات اور جذبات کو بیان کرنے کے لیے نئے نئے اسلوب مل جاتے ہیں ۔ نئے الفاظ وضع کرنا پڑتے ہیں۔ پرانے الفاظ کو دوبارہ استعمال کرنے سے ان میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ نئے محاورے اور نئے محرکات دستیاب ہوتے ہیں اور نئے علوم سے آشنائی ہوتی ہے علاوہ ازیں نئی نئی اصناف کے ساتھ ذہن کا تعارف ہوتاہے اور فکر اور تحقیق کے لیے نئے سانچے اور نئے اسالیب مل جاتے ہیں۔‘‘ (جیلانی کامران، پروفیسر،ترجمے کی ضرورت (مضمون) مشمولہ ، تراجم کے مباحث، مرتب ،محمد ابوبکر فاروقی،)
ہر زبان کو اپنے ابتدائی دور میں علمی وادبی طور پر مستحکم ہونے کے لیے ترجمے کی ضرورت رہی ہے۔ ترجمے کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ ایک سے زائد زبانوں کے وجود میں آنے اور مختلف اقوام او ر تہذیبوں کے ایک دوسرے سے معاشرتی اور معاشی تعلقات استوار کرنے کی ہے۔ اور پھر ترجمے کا عمل بھی وقت اور ضرورت کے مطابق ارتقائی مراحل طے کرتے کرتے علمی وادبی شعبوں میں اپنے اثرات دکھانے لگا، یوں صرف ایک زبان دوسری زبان کے مزاج وآہنگ اور تہذیبی موضوعات اور اصناف سخن سے آشنا نہیں ہوتی بلکہ دنیا میں آباد اور ایک ہی ملک میں مختلف بولیاں بولنے والے لوگوں کو ایک دوسرے سے ذہنی ، تہذیبی اور علمی سطح پر قریب لانے کا سبب بنی ۔پروفیسرجیلانی کامران اس حوالے سے رقم طراز ہیں:
’’ترجمے کی ضرورت تہذیبی نشوونما کے لیے بھی لازمی ہے کیوں کہ تہذیب ایک عرصے کے بعد اپنے سر چشموں کو خشک کر دیتی ہیں اور اپنے آپ میں سے پھر کوئی نئی شے پید ا نہیں کر سکتیں ۔اس طر ح وہ ذہنی علیحدگی اور یک طرفہ تہذیبی تعصب کا شکا ر ہوجاتی ہیںاور اس بیماری کو ترجمے کا عمل دور کرتا ہے۔ قومیں اور تہذیبیں مسافت اور جغرافیے کی دقتوں کے باوجود ایک دوسرے سے آشنا ہوتی ہیں اور انسانوں کے گروہ، مختلف دوسرے گروہوں کو پہنچاننے لگتے ہیں اور انسانی برادری کا چہرہ نظر آنے لگتاہے جس کی جانب انسان ہمیشہ سے سفرکررہا ہے، کئی ایک دوسری سرگرمیوں کی طرح ترجمے کا عمل بھی انسان کو انسان کے قریب تر لاتاہے اور ذہن کی سرحد یں پھیلاتے ہوئے کہتاہے۔ زبانیں مختلف سہی ، مگر انسان ایک غیر منقسم صداقت ہے ۔‘‘ (جیلانی کامران، پروفیسر،ترجمے کی ضرورت (مضمون) مشمولہ ، تراجم کے مباحث، مرتب ،محمد ابوبکر فاروقی،)
تحقیق سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہر زبان میں نثری، شعری اورہر طرح کے تخلیقی ادب سے پہلے تراجم کے عمل نے کسی نئی زبان کو سہارا دیا۔ خاص طور پراُردو زبان اور اس کے بعد پاکستان کی علاقائی زبانوں سندھی، پنجابی اور سرائیکی کی تاریخ یہی حقیقت بتاتی ہے ۔ بعد ازاں ادباء تراجم شدہ ادب سے متاثر ہو کر تخلیق کی راہیںڈھونڈنے لگتے ہیں گویا ترجمے کا عمل کسی غیر مستحکم زبان کے ادبا ء کے لیے تحریک ثابت ہوتا ہے ۔ ترجمے کا عمل نہ صرف زبان کوبلکہ اس زبان کے ادباء کے لیے بھی سودمند ہے۔ جب ادباء کو ترجمہ شدہ ادب میں الفاظ کی وسعت اور خیال کی منتقلی کی گنجائش نظر آتی ہے تو وہ بھی ان راہوں پر چل کر خود سے نیا ادب تخلیق کرنے کے لیے آمادہ ہونے لگتے ہیں اور کسی زبان کو تقویت دینے کے لیے اُس زبان کے ادباء کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ترجمے کے عمل سے اپنا کردار ادا کریں۔انیس ناگی اس نکتے کو یوں بیان کرتے ہیں:
’’جب شعر وادب ایسی نزاعی موقعیت میں الجھاہوکہ زبان بالیدگی فکر کی متحمل نہ ہو تو اس وقت تمام شاعروں اور ادیبوں کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ من حیث المجموع شعروادب اور زبان میں مختلف ذرائع سے توانائی پیدا کر یں ، اس کے مزاج ، رنگ وآہنگ اور ذرائع کے امکانات کا جائزہ لیں ۔ ‘‘ (انیس ناگی، ترجمے کی ضرورت (مضمون) مشمولہ، تراجم کے مباحث، مرتب ،محمد ابوبکر فاروقی، ص:۲۰)
کوئی زبان جب ارتقا کے ابتدائی مراحل میں ہوتی ہے تو بلا شبہ ترجمے کا عمل اس زبان کو سہارا دیتاہے لیکن اس حقیقت سے یہ نتیجہ اخذ کرنا ہر گز درست نہیں کہ ترجمہ صرف کسی زبان کے ابتدائی مراحل میں اسے تقویت دیتاہے بلکہ ترجمے کا عمل ایک ترقی یافتہ اور مستحکم زبان کے لیے بھی بہت سود مند ثابت ہوتاہے اور ترجمے کی ضرورت ہر دور میں اور زبان کے ہر مرحلے میں ضروری ہے کیوں کہ دنیا میں ہر طرح کے دور اور تیزی سے بدلتی ہوئی روایات واقدار ادب پر اثرانداز ہوتی ہیں اور دنیا میں اپنے مختلف اقوام اور مختلف تہذیبوں کو اپنے اپنے مقام پررہتے ہوئے متعارف کروانے کے لیے سب سے بہترین اور موثر عمل ترجمے کا عمل ہے۔ ڈاکٹر غلام علی الانا لکھتے ہیں:
’’ہر زبان کے نثری ادب میں تخلیقی اور شعری ادب میںپہلے تراجم کا عمل شروع ہوتاہے ہماری زبانوں خصوصا اُردو، سندھی اور پنجابی وغیرہ میں ایساہی ہوا ہے ۔نثری ادب کا دور بیشتر تراجم سے شروع ہوتاہے ہمارے ادیبوں نے ترجمہ شدہ شہ پاروں سے متاثر ہوکر تخلیقی کا م شروع کیا گویا تراجم کے دور ادب کا تخلیقی دور شروع ہوتاہے یعنی تخلیقی ادب کا انحصار بڑی حد تک ترجمہ شدہ پاروں پر ہے ۔ ‘‘
(غلام علی الانا، ڈاکٹر، ادب میں تراجم کی اہمیت (مضمون) مشمولہ ،اُردو زبان میں ترجمے کے مسائل، )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...