انسانیت نے جب بھی قدیم زمانے میں کسی طرح کی غیر شخصی صورت حال کا سامنا کیا، تواس نے ناقابل فہم وجود کو انسانی صفات و اشکال دے ڈالیں۔ اولین زمانے کے لوگوں نےقدرت کے عناصر کو ایک بوڑھی عورت کے روپ میں دیکھا، یا نوجوان شکاری میں یا عظیم باپ کی طرح، وغیرہ وغیرہ۔اولین زمانے کے لوگوں نے رات کے آسمان کو ستاروں کے جھرمٹ کے اندر انسانی اورحیوانی شکلوں میں دیکھا۔ فطرت کے اسلوب سمجھنے کے لئے جب انسان نے پہلے کوشش کی تواس نے عجیب و غریب مفروضے قائم کئے۔ اس وقت لڑائی کی کہانیاں یا دیوی دیوتاؤں کی سازشوں کے قصے جس کا انجام فطرت کی دنیا میں قرینے مقرر کرنے پر ہوتا۔ مثال کے طورپر یونان کی دیو مالا کی کہانی، دیمیتر اور پرسیفون، جس کی یاد ہر سال ایلپس میں منائی جاتی ہے، اس میں موسموں کی تبدیلی کی وضاحت کا بیان ہے یہ ایک معاہدہ ہے جودیوتاؤں نے شیطان سے خوبصورت “پرسفیون” کو سال کے کچھ عرصوں میں بدستورقائم رکھنے کے لئے کیا۔ اس طرح عقیدہ اور شخصیت علم کے ایک ہی ڈھانچے میں آملے۔ یہ وہ وقت تھا جب انسان نے فطرت کو سمجھنے کی پہلی کوشش کی تھی۔ یہ کہنا کہ اولین لوگ قدرت کو کوئی خدائی چیز سمجھتا تھا، گمراہ کن ہو گا۔ اس طرح کی عقیدت مندی ہمارامذہبی رویہ ہے۔ اولین مذہب خطرے سے خوف کے ساتھ پیدا ہوا، اس حد تک خوف کہ اس نےفطرت کو ایک شر سمجھ لیا۔ گویا انسان کو ایک خوفناک دنیا میں بےبسی کے ساتھ پھینک دیا گیا ہو، انسان کو اس خطرے کے ساتھ وقت گزارنا پڑا۔ انسان سبب اور نتائج سےلاعلم رہا اور اس نے فطرت کو اپنی ذہنی سطح کے مطابق دیکھا، اس نے فطری مظاہر کواپنی شخصیتوں کے مطابق دیکھا۔ واقعات بلا ارادہ رونما ہوتے رہے ، جیسے کوئی انسانی ذہن انہیں ہدایات دے رہا ہو، مظاہر پرستی کا یہ نظریہ فطرت کی اس دنیا کو اس آئینےکی طرح بنا دیتا ہے جس میں انسان کو داخلی طور پر اپنی شباہت نظر آتی ہے۔ انسان کایہی اولین مذہب تھا۔ چاند ستارے اور آسمان یہ سب دیوتا تھے، جسے انسانی روح ملتی تھی، جیسے دوسرے فطری عناصر کو ملی تھی، ان کے اثرات کے الگ الگ دائرہ کار تھے اوران کو خوش رکھنا ضروری تھا، یا ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے انفرادی طور پر ان سے رجوع کرنا پڑتا تھا۔
رفتہ رفتہ دیوتاؤں کا ایک گروہ آسمان سے اور ایک زمین سےوابستہ ہو گیا، آسمانی دیوتا مرد اور زمین دیوی قرار پائے آسمان کا دیوتا مردانہ توانائی خارج کرتا ہے۔ جبکہ سورج طاقت سے بھر پور شعاعیں زمین پر پھینکتا ہے، جب زیوس کڑکتا ہے اور اپنے تخت پر بیٹھ کر وہاں سے بجلی کے جھٹکے بھیجتا ہے۔ زمین کی دیوی یا دیویاں جن میں جمادات، نباتات اور زمین خود بھی شامل ہے، سلوک کے لحاظ سےمادرانہ اور پرورش کرنے والی ہستیاں اور فطری وسائل کا خاموش وسیلہ تھیں۔ اس طرح دیوتا، سب انسان کے کنبے میں شامل ہوگئے، ان میں ایک باپ ہے اور ایک ماں، بیٹے اوربیٹیاں، اور دوسرے رشتہ دار ہیں، اور ان کے مختلف کردار مقرر کئے گئے۔ مذہب کامرکزی موضوع آسمان اور زمین کے درمیان منسلک تھا۔ آسمان سے زمین پر بارش ہوتی جسسے مٹی نرم اور سر سبز ہو جاتی اور وافر فصل تیار ہوتی، مذہب کا مرکزی مقصد زمین کی زرخیزی تھا جس سے وافر مقدار میں غذا کی پیداوار ہوتی۔ دونوں صورتوں میں بہت سےبچوں کی پیدائش کی صورت میں بھی، اور وافر مقدار غذا کی پیدائش کی صورت میں بھی،چونکہ ان سب کی وابستگی فطرت سے تھی لہٰذا مذہب کا سارا فوکس فطرت پر تھا۔ مصر،ہندوستان اور مشرق وسطی میں غذا کی پیداوار کے سلسلے کی رسوم میں جنسی رسوم بھی شامل تھیں، جس سے مراد فطرت کو یہ اشارہ تھا کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔ وہ حیوانات جن کے بارے میں یہ قیاس تھا کہ ان میں زبردست جنسی توانائی ہوتی ہے، مثلاً سانپ اورسانڈ، ان کی عبادت کی جانے لگی تاکہ پیداوار بہتر ہو، ایک اور مذہبی معاملہ کھیتوں کی زرخیزی تھا۔ ازمنہ وسطی کے انگلینڈ میں عام شادیاں مئی کے دنوں میں ہوتی تھیں یا ایسٹر کے بعد ساتویں اتوار کو، اس لئے کہ نئی فصل کے بیج کو طاقت پہنچے۔ جاوامیں کسان جوڑے دھان کے کھیت میں اسی غرض سے مباشرت بھی کیا کرتے تھے۔
یہ ساری رسوم قدیم زمانے کے “ہمدردانہ جادو” کےعمل کی وضاحت کرتی ہیں۔ نظریہ یہ تھا کہ دیوتا جو عام لوگوں کی طرح ہوتے ، انہیں اکثر بتانا پڑتا کہ انہیں کیا اور کیسے کرنا چاہیے۔ فطرت کے جلد رد عمل کو آمادہ کرنے کی خاطر ایک خاص فطری عمل کی نقل اتارتے یا جزوی طور پر ویسا ہی کرتے، یا اسطرح کا عمل دہراتے، جیسے وہ کام مرضی کے مطابق پایا تکمیل کو پہنچ چکا ہو۔ ایک بانجھ عورت ایک گڑیا حاملہ ہونے کی امید پر ساتھ لئے پھرتی ہے، ایک عامل جادو گرنی جس شخص کو ہلاک کرنا چاہتی، اس کے موم کے پتلے میں سوئیاں پیوست کرتی تھی۔
ہمدردانہ جادو سے اولین مذہب کو اس کا مؤثر ہونا تسلیم کیاجاتا تھا۔ جادوگر کے بارے میں یہ خیال تھا کہ وہ ذاتی صلاحیت یا اپنی ترکیبوں کے ذریعےمثلاً تعویذ اور ٹوٹکوں کی مدد سے، خاص طاقت حاصل کر کے فطرت کی لا متناہی طاقتمیں داخل ہوجائے گا، ایک اور جادو الفاظ کا استعمال تھا دعاؤں کے لئے یا بدعاؤں کےلئے، یا مخصوص الفاظ کا طلسماتی استعمال۔
چونکہ زراعت ہی معاشی زندگی کی بنیاد تھی اس لئے ایک پیشہ ور پجاری ان رسوم کو انجام دیتا تھا، جن کا مقصد اچھی فصل کی پیداوار تھا، ان رسوم کو مؤثر بنانے کے لئے یہ امر ضروری تھا کہ ان رسوم کی ادائیگی وہ شخص کرے جس کے پاس رسم کی ادائیگی کاباقاعدہ علم ہو، رسم کی درست ادائیگی ہی اس کے مؤثر ہونے کا سبب ہے۔ چنانچہ منظم مذہب جادوگری کا فن قرار پایا، جس کا مقصد فطرت کی دنیا سے محض نتائج حاصل کرنا تھا۔فصل کی کٹائی کے حوالے سے جو رسوم ادا کی جاتی بعض اوقات ان میں انسانی قربانی بھی شامل ہوتی۔ اولین زمانے کے لوگوں کا یہ یقین تھا کہ مٹی کو زر خیز بنانے کے لئےکسی کو زمین میں دفن کرنا ضروری تھا۔ انسانی قربانی کی رسم ان دیوتاؤں سے وابستہ ہوگی کہ مرنے والا اناج کی شکل میں دوبارہ پیدا ہو گا اور سال کے سال زمین سے اگتارہتا ہے۔
مصر میں “اوسیریز” کی رسم، ان بہت سی نباتاتی رسموں میں سے ایک تھی جو موت کی پیش بینی اور ایک مسیحا کی آمد کی خبر دیتی تھی،
ہر مذہب میں تقدس کا عنصر غالب ہوتا ہے، ابتدا میں کچھ مقدس مقامات کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہاں دیوتا رہتے ہیں، پجاری ایسی جگہوں پر معبد تعمیر کرتے تھے۔ سمیر کے لوگوں نے مقدس مقامات پر مندر تعمیر کئے یونانی اور رومن باشندے اپنے مقامی دیوتاؤں کی رسمیں ادا کرتے تھے۔ ہندوؤں کے گھروں میں ایک کمرہ دیوی اور دیوتاؤں کے لئے مخصوص ہوتا ہے، یہاں وشنو گردو پیش پر نظر رکھتا ہے اور کنبے کی حفاظت کرتا ہے۔ یعقوب نے بیت ایل میں ایک قربان گاہ تعمیر کی، یہ اس خواب کی یادگار ہے، جو اس نے دیکھا کہ ایک زینہ ہے جو جنت تک جا رہا ہے اس مقدس جگہ کا نام اس نے بیت ایل رکھا، تحریری تاریخ کی آمد کے ساتھ تقدس کا محل جگہ سےوقت کی طرف منتقل ہو گیا، یہودیوں کا یوم سبت ہفتے میں ایک دن عبادت کے لئے وقف ہوتا ہے۔ تہوار اور تعطیلات سال میں کسی خاص بزرگ یا مذہبی ہستی کی یاد میں منائےجاتے ہیں۔ وقت کے بارے میں یہ تصور کہ جب ساری دنیا اچانک خدا کی سمت مڑجائے گی،یہودیوں کی آئندہ توقعات کی پیداوار ہے۔
شخصی تصور خدا ، مذہب کی تاریخ میں دیر سے وارد ہو ابتدامیں علامتی جانوروں کی عبادت ہوتی تھی، خاص جانوروں کا انتخاب جو قبائل کی شناخت اور ان کا نشان ہوتا تھا، ایسے ہی جیسے آج کل مختلف کمپنیوں کی مختلف علامتیں ہے تاکہ دوسروں سے الگ پہچانا جائے۔ابتدا ئی معاشرے میں وہ مخصوص جانور جنہیں کوئی قبیلہ نشان کے طور پر منتخب کرتاتھا یا اسے اپنی روحانی نشان خیا ل کرتا تھا ، اسے مقدس مقام حاصل ہوتا تھا ، بہت خاص تہواروں کے مواقع کو چھوڑ کرعام طور پر قبیلے کے لوگوں کو ایسا گوشت کھانے کی ممانعت تھی ۔ پھر ایک ایسا وقت آیاجب دیوتا جانور بھی ہوتے تھے۔ مصر کا ابوالہول (سر شیر کا اور جسم عورت کا)اس کی ایک مثال ہے۔ دانیال نبی نے چار سیاسی سلطنتوں کو دیکھا، جن کی نمائندگی علامتی طور پر مختلف النسل جانور کر رہے تھے۔ اسکے بعد ایک اور حکمران تھا، “کوئی آدمی جیسا” ۔ پوری طرح انسانی دیوتاجو پہلے نظر آتے، طاقتور انسان رہے ہونگے جو مرگئے، لیکن ان کا اثر برقرار رہا۔ ابتدائی لوگوں کا عقیدہ تھا کہ ایسےمرنے والوں کے بھوت واپس آکر زندوں پر اپنا ہیبت ناک سایہ ڈال سکتے ہیں، لہذا انکو خوش رکھنا ضروری ہوگا۔۔۔۔۔۔
فطرت کی پرستش کے بعد سیاسی طور پر منظم، انسانی معاشرے کی پرستش شروع ہوئی۔ فطرت کے خداؤں کو بدل دیا گیا ، ان کی جگہ مقامی ریاستوں کےدیوتاؤں نے لے لی۔ ریاستیں اس وقت محض سیاسی وحدتیں نہیں تھیں، بلکہ عبادت کے لئےبھی تھیں ، ہر شہر کا اپنا دیوتا ہوتا، جو اس شہر کی بھلائی کا خیال رکھتا تھا۔مقامی دیوتا پوری انسانی برادری کا برائے نام آقا ہوتا تھا، جس کی جگہ پر پجاری بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ سومیز میں ایک شہر کی حیثیت کا انحصار اس بات پر ہوتا تھاکہ خدا اسے کون سا مرتبہ دیتا ہے۔ اریدو سب سے زیادہ متبرک شہر تھا کیونکہ یہاں دیوتا کا معبد تھا ، جس نے انسانیت کو پیدا کیا تھا۔ خانقاہیں مندر کے اندر تعمیرکی جاتی تھیں اور وہ شہر کی اجتماعی زندگی کا محور ہوتی تھیں۔ وہاں عام طور پردیوتا کا ایک باری بھرکم بت رکھا ہوتا تھا ، جو نصف جانور کی شکل میں ہوتا تھا اوروہیں قربان گاہ ہوتی جہاں لوگ قربانیاں پیش کرتے تھے ۔ اس بت کو کبھی کسی دیوتا کاروپ قیاس کیا جاتا اور بعض اوقات وہی دیوتا ہوتا ، پجاری اور داسیاں، جو دیوتا کےخدمتگار ہوتے، قربانی کی رسم ادا کرتے، پجاری بادشاہ بیک وقت دیوتا کا سب سے بڑاخادم بھی ہوتا اور اس کا ذاتی نمائندہ بھی۔
ابتدا میں مذہب کے نئے نظام کو جو سیاسی اداروں کے ساتھ پہچانا جانے لگا تھا، فطرت کی پرستش کی ماقبل تاریخ رسوم قبول کرنی پڑیں۔ بس یہ سمجھ لیں کہ اب دو مذہبی نظاموں نے ایک ساتھ رہنے کا طریقہ سیکھ لیا تھا ۔ مصر میں سورج، فصل اور دریائے نیل کی عبادتوں کے ساتھ ہم مقامی بتوں کی عبادت بھی ہوتی تھی۔ سمیر اور اکاد میں ہمیں تموز اور اشتار کی عبادت کے ساتھ شہری ریاستوں کی عبادت بھی نظر آتی ہے۔ چین میں ہمیں ایک سالانہ زراعتی رسم کے مظاہرے نظر آتے ہیں جن میں شہزادہ بہشت سے ہم کنار ہوتاہے اور نئے زراعتی سال کے لئے ہل کے ساتھ پہلی کیاری بناتا ہے ، یہ رسم دعویدار ریاستوں کی پرستش کے ساتھ ساتھ چلتی ہے، اسپرامن اور غیر محسوس مذہبی انقلاب میں نئے مذہب نے پرانے پر غلبہ پا لیا بلکہ بعضاوقات اس نے عملاً فطرت کے پرانے خداؤں کو ہدایت کی ہے کہ نئی عبادت کے نمائندے کےطور پر قریبی اجتماعی انسانی قوت کی نمائندگی بھی کریں گے۔
فطرت کے دیوتا جنہیں شہروں نے اور قبائل نے بھی اپنا لیا ۔
جیہودا” اسرائیل کے قبیلے کا جنگی دیوتا ہونے سے پہلے آتش فشاں کا یا موسم کا دیوتا تھا۔”
زیوس کی بیٹی پلاس ایتھینا بیک وقت جنگ کی دیوی بھی تھی اورزیتون کی کاشت کی سرپرست بھی تھی۔ اس پہلے وہ ایتھنز کی شہری ریاست کی روح اورمحافظ ہوتی تھی۔ مصر کا سب سے بڑا دیوتا “امون ری” ، امون یعنی زندگی کا سانس ہونے کے علاوہ اکثر دنبےکی شکل میں پیش کیا جاتا تھا اور” ری” سورج دیوتا تھا۔ گیارہویں خاندان کے بعد مصر کی سلطنت کے دارالحکومت تھیبس کا بڑا دیوتا امون تھا۔ یہ فرعون زندہ خدا سمجھا جاتا تھا جو”ری”(سورج دیوتا) کا بیٹا تھا، اس کی پیدائش کے متعلق پاکیزہ اور صاف ستھراتصور تھا۔ پانچویں خاندان سے قبل فرعون خود ایک دیوتا تھا، لیکن فرعون کی عبادت کی رسم فطرت کی عبادت کے پرانے مذہب سے متصادم تھی ۔ ری کے مقدس شہر ہیلیو پولس میں،جو مصر کے شمال میں تھا، پجاریوں کے ایک با اثر ادارے نے فطرت پرستوں کو غیرانسانی دیوتاؤں کے ایک الگ گروہ میں منظم کردیاتھا، جن کا سربراہ سورج کا دیوتا”ری” تھا۔ ری کے بیٹے کے طور پرفرعون کا تقرر یعنی “ری” کے تقدس سے اس کی وابستگی ہیلیو پولس کےپجاریوں کی طرف سے ایک خاص رعایت اور فرعون کے کمزور ہوتے ہوئے اقتدار کی علامت تھا۔ پھر فرعون کی سورج پرستی اور دریائے نیل اور اس کے شاداب ساحل کے دیوتا”اوری سس” جو بہت مقبول تھا، کہ درمیان تنازعہ پیدا ہو گیا۔ نباتات کیزندگی ہر سال پیدا ہوتی ہے اور مر جاتی ہے ۔ اس طرح “اوری سس” اپنے ایک بڑے بھائی جس کا نام “سیٹ” تھا کے ہاتھوں قتل ہو جاتا ہے ، لیکن اپنی بیوی “ایسس” کی سخت محنت کے نتیجے میں زندہ ہو گیا۔ اس کے بعد حکومت اسکے بیٹے “ہورس “کو منتقل ہو گئی جس کی نیابت ایک باز کر رہا تھا۔”سیٹ” پر “ہورس” کی فتح سیاسی طور پر بہت اہم تھی۔ کیونکہ اسکے جادو منتر والے کرنے والے نمائندوں نےیعنی پہلے خاندان کے فراعین جن کا تعلق ملک کے جنوبی علاقے سے تھا، شمال کے دو آبیکو فتح کر لیا تھا جو “سیٹ” کی پرستش کا مرکز تھا، “اوسیرس”کی مافوق الفطرت کہانی نے بھی شخصی دائمی زندگی کے مسلک کو تقویت دی جس کا مرکز فرعون کے جنازے کا بندوبست تھا۔ فرعون کی موت کے بعد فرض کر گیا تھا کہ وہ دیوتاؤں سے جا ملا ہے اور پاتال کے آقا کے ساتھ اس کا تعلق قائم ہو گیا ہے۔ فرعون نے جس کے بدن کو مسالہ لگایا گیا تھا، لا تعدادرسوم کی ادائیگی اور دعاؤں کے ساتھ خود کو زندہ رکھا۔ فرعون کی وفا دار رعیت خودبھی فرعون کی سفارش کے ساتھ اس کی بعد از حیات زندگی میں شریک ہو سکتی تھی۔
میسو پوٹیمیا میں سیاسی قائدین عام طور پر دیوتا کے فرستادہ کی حیثیت سے حکومت کرتے۔ عظیم بادشاہوں لوگل زاگسٹ اور سارگن اول میں سےکسی نے(جنہوں نے 24 ویں صدی قبل مسیح میں اس علاقے کو منظم اور متحد کیا تھا )خدائی کا دعوی نہیں کیا حالانکہ سارگن کے پوتے نے ایسا کیا۔ مصر اس لحاظ سے منفردتھا کہ یہاں خدا کا تعلق زندہ انسان سے تھا۔ زندہ مورتیوں کی روایت نے یونان اور روم کی سلطنتوں کی مذہبی رسوم پر اثرڈالا۔ مغربی وضع کے یہ دونوں عظیم فوجی لیڈر اپنی فتوحات کے دوران جب مصر آئے تومذہب کی اس روایت کو اپنے ساتھ لے گئے۔ سکندر 332 قبل مسیح میں آیا، اس کے ساتھیونان کی ایک بڑی فوج تھی۔ مصری مذہب سے وہ بہت متاثر ہوا، چنانچہ چار سو میل کافاصلے طے کر کے وہ ایک دور افتادہ نخلستان پہنچا جو مغرب کے ریگزار میں واقع تھا۔وہ امون ری کے دیوتاؤں سے مشورہ کرنا چاہتا تھا۔ پجاریوں نے سکندر سے کہا کہوہ امون ری کا بیٹا تھا ۔ اس کے بعد سکندراور ہیلن کے جانشینوں نے مصر کے شاہی فرمانروا ہونے کے ساتھ الوہیت کا دعوی کر دیا۔ سکندر کے ایک مداح جیولس سیزر نے بھی دیوتا بادشاہ کی روایت کے آگے سر جھکا دیا،جن دنوں وہ 48 قبل مسیح میں کلوپیٹرا کے ساتھ محبت کر رہا تھا۔ پھر ایک رسم وضع کیجس کے تحت اسے دیوتا بنا دیا گیا اور اس کی عبادت شروع ہو گئی۔ روم کی سینیٹ نےسیزر کی موت کے دو سال بعد آکیٹوین کے زور دینے پر اس رسم کی توثیق کی۔ بادشاہ کودیوتا بنانے کے طریقے نے اس کی خود ستائی کے علاوہ ایک سود مند سیاسی مقصد پوراکیا۔ اس بات نے کہ بادشاہ کو خدائی مدد حاصل ہے، اقتدار پسند یا ناراض سپاہیوں کو اسے قتل کرنے کی ممکنہ کوشش سے باز رکھا۔ چند بادشاہوں نے دیوتا کے حکم کے طور پرحکومت کرنے کو ترجیح دی۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ قتل کا ارادہ کرنے والوں کو زیادہمؤثر طور سے خوف زدہ رکھا جا سکے گا کیونکہ انہیں یقین ہوگا، ایک دیوتا قتل کی کامیاب کوشش کے بعد بھی سلامت رہجائے گا۔ بادشاہ اپنے خاص سیاسی مقاصد کی خاطر بھی مذہب کو استعمال کرتے تھے۔
چند رومن بادشاہوں نے جو طاقت کے جوش میں دیوانے ہورہے تھے،الوہی حیثیت کا دعوی اشتعال انگیز انداز سے کیا۔ کیلی گیلا نے اعلان کیا کے وہجوپیٹر کے مرتبے کا دیوتا ہے اور اس نے ایک مندر تعمیر کیا جہاں پر بادشاہ کی عبادت ہو سکے ،۔ نیرو نے حکم دیا کہ خود اس کا 120 فٹ مجسمہ تراشا جائے اور اس کےسر آفتابی شعاعیں ہر طرف نکل کر پھیل رہی ہوں۔
بادشاہ ڈومیشین نے اپنے خاندان کے قریبی عزیزوں کے بت بنوائے اور پجاریوں کا ایکنیا گروہ تیار کیا جو اس کی عبادت میں شریک ہو اکریں اور سرکاری عہدیداروں کو حکمدیا کہ سرکاری کاغذات میں اس کو ” میرے آقا، میرے خدا ” لکھا کریں۔ انبہت سے عیسائیوں کو قتل کر دیا گیا جنہوں نے اس کے آگے قربانی دینے سے انکار کردیاتھا۔
تاہم زیادہ تر بادشاہ مذہب کو حکومت چلانے کا محض ایک آلہ سمجھتے تھے۔
دیوتاؤں کا وجود تھا یا واقعی ان کے پاس طاقت تھی، اس بارےمیں کوئی سوال نہیں کرتا۔ عقیدہ فطرت کے خداؤں سے شہر کے خداؤں کو یا قوموں کو یاحکومتوں کو منتقل ہو گیا تھا، سیاسی مذاہب نے قدیم روایات کا احترام کرتے ہوئےاورمقامی لوگوں کے جدی پشتی دیوتاؤں کو خراج عقیدت پیش کر کے عوامی تائید حاصل کرلیتھی۔ اس میں وہ احترام بھی شامل تھا جو دنیاوی طاقت کے لحاظ سے ان کو حاصل تھا
ختم شد