میں ابھی آیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
ارے بیٹا! کہاں جا رہا ہے ۔گھر میں رہتا ہی نہیں ہے۔بھگوان!اس کا پیر تو گھر میں ٹکتا ہی نہیں ۔نہ جانے اسے کیا ہو گیا ہے ۔
بیٹا کچھ بھول گیا تھا جس کی وجہ سے گھر میں آتا ہے اور جلدی جلدی اپنے میز کی دراز کھول کر کچھ لیتا ہے ۔
ماں کی نظر پڑتی ہے ،پکارتی ہے ۔بیٹا! ارے بتائو تو کہاں جارہے ہو؟ ابھی کالج سے آئے ہو تھک نہیں گئے ۔چلو تھوڑی دیر بیٹھو۔ آرام کر لو !
نہ مم! میرے دوست کھڑے ہیں اور انتظار میں ہیں !
تو بتاتے کیوں نہیں کہاں جارہے ہو ؟
کہیں نہیں مم! ہمیں پراجکٹ بنانا ہے اور اس کے لیے انفارمیشن کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ انٹر نیٹ سے ہی حاصل کیا جاتا ہے ۔اس لیے ہم انٹر نیٹ جا رہے ہیں !
ماں بڑبڑ اتی ہے کہ نہ جانے کیا تعلیم ہے صبح سے شام تک کالج میں ،شام ہوتے ہی رات گئے تک Cyber Cafeمیں ،اور رات گئے تک فون اور کتابوں میں ۔اُف! نہ نیند ڈھنگ کی ،نہ کھانا پینا چین سے،نہ آرام نہ سکون ،بھلا یہ بھی کوئی تعلیم ہے۔اتنے میں بیٹی بھی کالج سے آئی اور آتے ہی اپنے ڈیڈی سے پیسے مانگنے لگی
ڈیڈی مجھے دو سو روپے دیجیے!
ڈیڈی نے پوچھا ۔کس لیے بیٹا؟
بیٹی ۔دیکھو نہ ڈیڈی ! انٹر نیٹ پر جانے کے کم سے کم پچاس روپیے تو لگ ہی جائیں گے ۔آٹو کے لیے پچاس ۔سو ہوگئے ،اب واپسی میں سہیلیاں آرہی ہیں کچھ ٹھنڈا ونڈا اس کے لیے سو۔اس طرح دو سو بس صرف دو سو۔
بیٹے معلوم ہے ہم دو سو روپے میں مہینہ بھر کھایا کرتے تھے ۔اور تم صرف گھنٹے دو گھنٹے میں اُڑا دیتے ہو۔اور ہم نے کبھی اپنے ڈیڈی کو تکلیف نہیں دی کبھی ان سے پیسہ نہیں مانگا!
بیٹی: دیکھو پپا ! وہ تمہارا زمانہ تھا ! اور تم نے اگر اپنے پپا سے پیسے نہ لئے ہوں تو اس میں ہمارا کیا دوش ؟آپ تو ہمارے پیارے پیارے پپا ہیں اور ہمیں مایوس نہیں کرتے ۔اس طرح باپ نے بیٹی کو دو سو روپے دے دیے ۔اور گھر میں نہ بیٹی نہ بیٹا!
ماں بڑ بڑاتی ہوئی آتی ہے (شوہر سے کہتی ہے ) نہ جانے آج کل کے بچوں کو کیا ہو گیا ہے۔تمہی ہو جو انہیں سر پر چڑھا رکھا ہے ۔
شوہر ۔ ارے کیا ہوا بھاگوان کیوں جلی کٹی سنا رہی ہو ؟
بیوی۔ہاں ہاں تم کو اور تمہارے سپوت کو تو بس میری باتیں جلی کٹی اور کڑوی کسیلی لگتی ہیں
شوہر۔سپوت! کیا ہوا؟کیا کیا اُس نے ۔
بیوی۔آہا ایسے پوچھ رہے ہو جیسے کچھ معلوم ہی نہیں ۔سچ سچ بتائو کتنے پیسے دیے اُس کو ؟ جب کہ صبح ہی میرے پاس سے تین سو روپیے لیا تھا وہ۔
شوہر۔ارے کون ،ہاں کیسی باتیں کر رہی ہو ،میں نے تو روزی کو دیے
بیوی ۔کیا؟اس نے بھی پیسے لیے؟
شوہر ۔دو سو۔ارے بابا! وہ انٹر نیٹ کے لیے ،ہماری روزی ایسی ویسی تھوڑی ہے ۔
بیوی۔ارے بھگوان ! یہ کیا ہوا ۔کیا ہورہا ہے؟میں نے گڈو کی بات کی تھی
شوہر۔گڈو! وہ تو میرے پاس آیا ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کل ہی مجھ سے تین سو لیا تھا
بیوی۔کیا؟ یہ بتایا کیوں نہیں تم نے ؟
شوہر۔ارے تم نے پوچھا تھوڑی ہی تھا ۔اور تم نے مجھے پوچھے بنا تین سو کیوں دیے؟
بیوی۔ارے ہر بات پوچھنے بیٹھوں کیا؟بچے کالج میں پڑھتے ہیں ۔ضرورت ہوگی یہ سوچ کر دے دیے
شوہر۔تو اور کیا۔۔۔۔ میں نے بھی یہی سمجھا
بیوی۔دیکھو اب روزی کو پڑھانا بند کر دو ۔بارہویں پاس ہو جائے گی ۔کوئی اچھا سا ور ڈھونڈو اور شادی کے بندھن میں باندھ دو ۔
شوہر۔کیا کہہ رہی ہو؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کو تو آگے پڑھانا ہے ۔ڈاکٹر بنانا ہے
بیوی۔دیکھو اُن کے لچھن،ابھی کالج ہی میں یہ حال ہے پیسہ اُڑانے کا تو ڈاکٹری کے لیے کہاں سے لائو گے پیسے؟
شوہر۔ارے بھگوان دے گا
بیوی۔نہ پہلے دیکھو اس کی تعلیمی حالت کیسی ہے؟اور لڑکا اب فائنل میں ہے ۔آئندہ سال اس کو ملازمت تلاش کرنے کے لیے کہنا ،کب تک ہم ان کا سہارا بنیں گے۔اب تو انہیں شاہیے کہ ہمارا سہارا بنیں
شوہر ۔دیکھو بھاگوان! جب تک ہم میں ہمت ہے ہم سہارا دیتے جائیں گے ۔پھر اُن کے دن بھی کونسے ہیں ،ابھی تو کھیلنے کودنے،کھانے پینے کے تو ہیں!
انہی باتوں میں ۹ بج جاتے ہیں اور روزی گھر آجاتی ہے اور اس کے ایک گھنٹہ بعد گڈو بھی آجاتا ہے ماں باپ کھانے کی میز پر انتظار کر رہے ہیں ۔روزی صرف ایک روٹی کھاتی ہے اور گڈو تھوڑے سے چاول ۔ماں اصرار کرتی ہے کہ بیٹا کھانا اچھا کھا لو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ مم! دیکھو نہ ڈیڈی! مم بلا وجہ زبردستی کرتی ہیں! روزی کہتی ہے
باپ۔ہاں ہاں بیٹے کھانا ٹھیک سے کھا لو تو کیوں کوئی تمہیں کچھ کہے گا ؟چلو کھا لو
روزی۔پپا آپ بھی۔ہم ہیں نہ پیزا اور بر گر کھا کر آرہے ہیں
ماں غصہ سے! کیا پیزا اور برگر؟ہے رام! یہ کیا ہوگیا بچوں کو ۔کیوں تمہاری ماں ٹھیک نہیں پکاتی ہے؟
ارے ایسے نہیں ماں ۔دوستوں کا خیال کرنا پڑتا ہے ۔سوسائٹی ہے۔گڈو کہتا ہے
ماں۔ہاں سوسائٹی! ہمیں ضرورت نہیں اس کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماں نے پوچھا ۔کیا ہوا انفارمیشن کا ! ملا؟
ہاں ماں! وہ تو ملا ۔مگر کیا ایک وقت میں سارا تھوڑی ملتا ہے وہ تو تھوڑا تھوڑا ۔
ارے بیٹا کتابوں سے انفارمیشن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ مم! انٹر نیٹ پر دنیا کے کونے کونے سے انفارمیشن حاصل کیا جاسکتا ہے !
اچھا بتا کیا ملا؟
ماں ،تمہیں معلوم ہو گیا؟
ارے معلوم کرائے نہ تو!
ہاںجب سارا انفارمیشن مل جائے گا نہ ماں تو سب سے پہلے تمہیں ہی بتائوں گا۔
اور بیٹے روزی تمہارا کیا ہوا ؟باپ نے پوچھا
جی پپا! آج ہمارے انٹر نیٹ کا سرور ڈائون تھا ۔تو مفت میں پیسے چلے گئے
باپ۔بیٹا ایک ہی شہر میں ایسا کیوں؟ تمہارا نفارمیشن مل گیا اور روزی جس Cyberمیں گئی وہاں ۔۔۔۔۔
نہ پپا! کنکشن کی بات ہے
بہر حال دونوں کا معمول ہے روزانہ Cyber Cafeجاتے ہیں ۔دونوں اپنے اپنے کمرے میں جانے سے پہلے ایک دوسرے کو خشمگیں نگاہوں سے دیکھتے ہیں ۔
ایک دن اچانک گڈو آکر ماں سے کہتا ہے ۔ماں چلو آج میں تمہیں انفارمیشن بتاتا ہوں
ماں کہتی ہے چل تیرے انفارمیشن سے مجھے کیا لینا دینا!
بیٹا۔نہ مم ! آج تمہیں میرے ساتھ چلنا ہی ہوگا
ماں ۔ارے تیرے پپا آتے ہی ہوں گے
بیٹا۔چلو نہ مم ! پپا کو آنے دو ۔ہم جلدی آئیں گے
ماں اور بیٹا دونوں مل کر ایک بڑی عالی شان ہوٹل میں چلے جاتے ہیں اور وہاں ویٹنگ ہال میں بیٹھ جاتے ہیں ۔ماں پوچھتی ہے کیا ہوا بیٹا؟ مجھے تو یہاں کیوں لایا ہے؟
بیٹا۔مم آج آپ انفارمیشن دیکھیں گی!
تھوڑی دیر میں روزی اپنے ڈیڈی کو ساتھ لاتی ہے اور ٹھٹھک جاتی ہے
کہتی ہے ۔۔۔۔بھیا !ماں!!
گڈو۔ششدر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پوچھتا ہے تم؟ تم نے Chatingکیا میرے ساتھ ؟
روزی۔تم نے کیا میرے ساتھ
ارے کیا کیا؟ماں اور باپ دونوں پوچھتے ہیں
تب گڈو کہتا ہے ۔دیکھو پپا! اس کو Cyber Cafeمت بھیجو۔یہ اپنا نام غلط بتا کر Chating کرتی ہے ۔اچھا ہوا اس نے میرے ساتھ کیا
روزی۔تو تم نے کیا کیا! اپنا نام صحیح بتایا؟
ارے تم نے اپنا ایڈریس تک غلط بتایا اور اس ہوٹل میں آنے کو کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(یہ 2007 کے زمانے کی انٹرنیٹ کی دنیا تھی۔اب تو یہ دنیا اور بھی آگے جا چکی ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...