رادھا اور جونی سرکس کے دو کردار تھے جو اپنے فن سے لوگوں کو متاثر کر کے پیسہ کماتے تھے،رادھا کی ماں ایلیسا بھی اسی سرکس کا حصہ تھی مگر اب بوڑھی ہو چکی تھی اس لئے اب کام نہیں کرتی تھی،اپنے خیمے میں پڑی یا کے ٹو کے سیگریٹ پیتی رہتی یا پھر کھانستی رہتی،رادھا نے جب سے ہو ش سنبھالا تھا خود کو اسی سرکس میں پایا تھا،وہ یہیں بچپن گزار کر جوان ہو گئی تھی،اسے چار سال کی عمر میں ہی سرکس کے پھٹے پر چڑھا دیا گیا تھا اور رسیوں سے باندھ کر فضا میں جُھلا دیا گیا تھا،اس کے جسم کا انگ انگ ہلتا تھا،کبھی کبھی اسے لگتا وہ پلاسٹک کی گڑیا ہے،بنا ہڈی کی،وہ خود کو ٹٹو ل ٹٹول کر اپنی ہڈیاں گنتی،پانچ،چھ،سات۔۔۔۔۔۔۔۔رادھا شو کا ٹائم ہو گیا ہے رنگ میں آجاو۔وہ بےجان قدموں سے جاندار پرفارمنس دکھانے کے لئے بڑھی،ہڈیاں گننے کی گنتی ادھوری رہ جاتی،آخری شو بارہ بجے ختم ہوتا تو وہ سر پٹ اپنے خیمے کی طرف بھاگتی،جہاں آدھی سوئی آدھی جاگی ایلیسا بیٹی کا راہ دیکھ رہی ہوتی۔رادھا جاکر خیمے میں رکھے گھڑے کے ٹھنڈے پانی کی چھینٹے منہ پر مارتی،سستے میک اپ کا رنگ بے ترتیب ہو کر گالوں۔ناک اور ہونٹوں پر بہہ کر پھیل جاتا وہ جسم پر پہنا ہوا ساٹن کا ریشمی سکرٹ اور بروکین کی لال چولی اتار کے خیمے میں یوں اچھالتی جیسے کسی طوق سے نجات پا چکی ہو،اور چھوٹی سی شرٹ اور کیپری پہن کر ماں کی ہی ملگجی رضائی میں گھس کر اسکی کمر سے لگ کر سو جاتی،ایلیسا بڑبڑاتی،رادھا الگ سویا کرو تم ساری رات مجھے ٹانگیں مارتی ہو،مگر رادھا کو سکون ملتا تھا،اسے ماں کے بالوں سے آتی سوکھی ہوئی لال مہندی کی بو اور جسم میں بسے سگریٹ کے دھوئیں سے محبت تھی،کیونکہ اس کے پاس ماں کے سوا کوئی اور رشتہ نہ تھا نہ ہی اس نے کوئی اور خونی رشتہ دیکھا تھا،میاں جی ان کے ان داتا تھے۔جو انہیں کھانا پینا اور عید تہوار پر جوڑے لے دیتے تھے۔اور باقی سرکس والے ہی اس کے ماموں،خالہ ،چاچا،اور بہن بھائی تھے،کبھی وہ لڑتے کبھی ایک دوسرے پر جان دیتے،ماں کے علاوہ ایک رشتہ اور بھی تھا،پیار کا رشتہ۔نہ جانے کب اور کیسے رسیوں پر جھولتے ایک دوسرے کو تھامتے وہ اور جونی ایک دوسرے کو چاہنے لگے تھے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...