پاکیزہ ان سب باتوں سے بے خبر تھی۔ پاکیزہ کی امی کو ارزانش پہلے ہی بہت پسند تھا اور اب تو انہیں لگنے لگا تھا کہ پاکیزہ کو ارزانش سے زیادہ کوئی خوش رکھ ہی نہیں سکتا۔ وہ پاکیزہ کے کمرے میں گئیں اور پاکیزہ کو سب بتا دیا۔
“مجھے نہیں لگا تھا کہ ارزانش اتنا بھی سیریس ہو سکتا ہے” پاکیزہ نے پریشانی کے عالم میں کہا۔
“تم مان کیوں نہیں جاتی پاکیزہ؟ وہ تمہیں بہت خوش رکھے گا”
“کیسی باتیں کر رہی ہیں ماما آپ؟ مجھے نہیں رہنا ایسے خوش۔ مجھے کوئی شادی وادی نہیں کرنی”
“تو کیا ساری زندگی ایسے ہی کنواری رہو گی”
“ہاں رہ لوں گی میں۔ آپ فکر نہ کریں”
“بچوں والی باتیں مت کرو پاکیزہ۔ ایسے زندگیاں نہیں گزرتیں”
“گزر جائے گی ماما۔ لیکن مجھے شادی کرنی ہی نہیں ہے”
“بچپنہ مت دکھاؤ۔ مان جاؤ”
“نہیں میں نہیں کر سکتی اس سے شادی”
“تو ٹھیک ہے۔ کرتی رہو ضد لیکن اس بار نہیں چلے گی تمہاری۔ اس بار تمہیں ماننا ہوگا اور یہی تمہارے لئیے بہتر ہے”
یہ کہہ کر پاکیزہ کی امی کمرے سے چلی گئیں۔ پاکیزہ اپنی امی کے پیچھے پیچھے ان کو مناتے ہوئے کمرے سے باہر آگئی۔
“ماما جان مان جائیں نا۔ پلیز ناراض مت ہوں”
“نہیں پاکیزہ اس بار نہیں۔ منانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ تم مانو گی شادی کے لئیے تو میں خود ہی مان جاؤں گی۔”
یہ سُن کر پاکیزہ واپس اپنے کمرے میں چلی گئی۔ اب وہ بہت بڑی کشمکش میں تھی۔ وہ رو رو کر دُعائیں مانگنے لگی۔ رب سے فریاد کرنے لگی۔ پاکیزہ کی امی نے کھانا کھانا بھی چھوڑ دیا۔ دوسری طرف ارزانش کی طبیعت بھی ابھی تک سنبھلی نہیں تھی۔ وہ ابھی تک بہت بیمار تھا۔
تین دن یونہی گزر گئے اور پاکیزہ پریشانی کی وجہ سے بس روئے جا رہی تھی۔ کھانا نہ کھانے کی وجہ سے پاکیزہ کی امی بہت بیمار ہو گئیں اور انہیں ہسپتال لے جایا گیا۔ اس رات پاکیزہ ساری رات سجدے میں روتی رہی۔ گڑگڑاتی رہی۔ دُعائیں مانگتی رہی کہ اسے سہی فیصلہ کرنے کی توفیق دے۔ جب پاکیزہ کی امی کی طبیعت تھوڑی ٹھیک ہوئی تو پاکیزہ ان کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔ پاکیزہ کی امی آنکھیں بند کر کے لیٹی ہوئی تھیں۔ پاکیزہ ان کی دائیں جانب پڑی کرسی پر بیٹھ گئی اور اُن کا ہاتھ پکڑ لیا۔
“ماما آپ اتنا ناراض کیسے ہو سکتی ہیں مجھ سے؟ مجھے پتا ہے کہ آپکی اس حالت کی ذمہ دار میں ہی ہوں۔ مجھے معاف کر دیں پلیز۔ میں بہت خود غرض ہو گئی تھی۔ اب آپ جو کہیں گی میں وہی کروں گی۔ میں ارزانش سے شادی کرنے کے لئیے تیار ہوں”
یہ سُن کر پاکیزہ کی امی کے چہرے پر ایک بڑی سی مسکراہٹ آگئی اور وہ کہنے لگیں “نہیں ساری غلطی تمہاری نہیں تھی۔ میں بھی ضِد میں آ گئی تھی لیکن بیٹا اسی میں تمہاری بھلائی ہے۔ ایسے تم اپنی پوری زندگی برباد کر بیٹھو گی”
پاکیزہ سر جھکائے بولنے لگی “اب میں آپکی سب باتیں مانوں گی لیکن پلیز دوبارہ ایسے مت کیجئیے گا”
“ٹھیک ہے بیٹا”
ہسپتال سے گھر جاتے ہی پاکیزہ کی امی نے ارزانش کی امی کو فون کر کے ہاں کہہ دی۔ ارزانش کی امی نے ارزانش کو بتایا۔ ارزانش کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ وہ یوں محسوس کر رہا تھا جیسے وہ ساتویں آسمان پہ ہو۔ اُس کی طبیعت بھی اب بہت بہتر ہو گئی تھی۔ دونوں گھروں میں اب شادی کی زور و شور سے تیاریاں ہونے لگیں۔ سب لوگ بہت خوش تھے لیکن پاکیزہ کے آنسؤوں اور دعاؤں میں دن بدن شدت آتی جا رہی تھی کیونکہ اس سب کے بارے میں کبھی پاکیزہ نے سوچا بھی نہیں تھا اور سب بہت ہی اچانک ہو گیا تھا۔ وہ اپنے دل میں مُراد کی جگہ کبھی کسی کو نہیں دینا چاہتی تھی اور نہ ہی کسی کے ساتھ رہ سکتی تھی۔ یہی سوچ سوچ کر اس کے لئیے دن اور رات گزارنا مُشکل ہوتا جا رہا تھا۔
مِسِز عالمگیر پاکیزہ کو بالکل اس کی ماں کی طرح پیار کرتی تھیں اور چاہتی تھیں کہ ارزانش اور پاکیزہ ہمیشہ ساتھ اور خوش رہیں۔ جب شادی کی خریداری شروع کی گئی تو مِسِز عالمگیر چاہتی تھیں کہ کسی چیز میں کوئی کمی نہ آئے اسی لئیے انہوں نے پاکیزہ کو کہا کہ وہ خود ہی اپنی پسند کا سب کچھ خرید لے تا کہ کسی کمی کی گنجائش ہی نہ رہے۔ انہوں نے یہ کہنے کے لئیے پاکیزہ کو کال کی۔
“السلام علیکم”
“وعلیکم السلام آنٹی۔ کیسی ہیں آپ؟”
“میں بالکل ٹھیک ہوں بیٹا۔ آپ کیسی ہو؟”
“اللہ کا شکر ہے آنٹی میں ٹھیک ہوں”
“میں نے شادی کی شاپنگ کرنی تھی تو سوچا یہ ذمہ داری آپ کو دے دی جائے۔ آپ ارزانش کے ساتھ جا کر سب اپنی پسند کا ہی خرید لیں”
“جی۔۔ ٹھیک ہے آنٹی”
“آپ چار بجے تک تیار رہنا۔ ارزانش اور ہانیہ آپ کو لینے آجائیں گے”
“ٹھیک ہے”
“خیال رکھنا بیٹا اپنا۔ خدا حافظ”
“خدا حافظ”
پاکیزہ نے سب اپنی امی کو بتا دیا اور اسکی امی نے اسے تیار ہونے کو کہا۔ اس کے بعد پاکیزہ دوسرے کاموں میں مصروف ہو گئی۔ کچھ دیر بعد پاکیزہ تیار ہونے کے لئیے اپنے کمرے میں چلی گئی اور پہننے کے لئیے الماری میں لٹکے ہوئے کپڑے نکال لئیے۔ اتنی دیر میں دروازے کی گھنٹی بجی تو پاکیزہ دروازہ کھولنے چلی گئی۔ اس نے دروازہ کھولا تو سامنے ارزانش کھڑا تھا۔
“ابھی تک تیار نہیں ہوئی آپ؟”
“نہیں۔۔ بس ہونے لگی تھی تیار” پاکیزہ نے نظریں جھکائے ہوئے بولا۔
ارزانش پاکیزہ کی بائیں طرف سے راستہ بناتے ہوئے اندر آگیا۔
“اچھا چلیں بتائیں کونسا ڈریس پہننے والی ہیں”
“جب تیار ہوں گی تو دیکھ لیجئیے گا”
“نہیں مجھے پہلے دیکھنا ہے” یہ کہتے ہوئے ارزانش پاکیزہ کے کمرے کی طرف چلا گیا۔ کمرے میں داخل ہوا تو سامنے بیڈ پہ سفید رنگ کے کپڑے پڑے تھے۔
“یہ پہنیں گی آپ؟”
“جی”
“کوئی فوت ہو گیا کیا؟”
“کیا مطلب؟” پاکیزہ نے سوالیہ نظروں سے ارزانش کی طرف دیکھا۔
“اب میری بیوی بننے والی ہیں آپ۔ ایسے پھیکے رنگ مت پہنا کریں۔ کِھلے ہوئے رنگ پہن کر گلاب کا پھول لگتی ہیں۔ رُکیں میں آپکی ہیلپ کرتا ہوں ڈریس سَلّیکٹ کرنے میں” ارزانش یہ کہتے ہوئے پاکیزہ کی الماری کی طرف گیا اور الماری میں اس کے سارے لٹکے ہوئے کپڑے دیکھنے لگا۔ پھر ایک کالے رنگ کی فراق پکڑ کر ہوا میں لہراتے ہوئے بیڈ پہ رکھ دی۔
“یہ پہنیں نہ۔ اس میں بہت اچھی لگیں گی آپ۔ بلیک کلر میں تو ویسے بھی آپ باربی لگتی ہیں”
پاکیزہ بس سر جھکائے سب سُن رہی تھی۔
“اچھا چلیں میں باہر کار میں آپکا ویٹ کر رہا ہوں۔ جلدی سے تیار ہو کر آ جائیں۔”
“جی ٹھیک ہے”
ارزانش جا کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔
“آپی کو لے کر نہیں آئے؟” ارزانش کو اکیلا دیکھ کر ہانیہ اس سے پوچھنے لگی۔
“نہیں وہ ابھی تیار ہو رہی ہیں۔ کچھ دیر تک آ رہی ہیں”
کچھ دیر بعد پاکیزہ گھر سے باہر نکلی تو ہانیہ اور ارزانش پاکیزہ کو گاڑی کی طرف سے آتا دیکھ کر گاڑی سے باہر نکل آئے۔ پاکیزہ نے وہی کالے رنگ کی فراق پہنی تھی جو ارزانش نے اس کے لئیے نکالی تھی۔ چہرے پہ ہلکا سا میک اپ کر رکھا تھا اور سر پہ دوپٹہ لئیے ہوئے تھی۔ دور سے آتے ہوئے وہ کسی حور کی مانند لگ رہی تھی۔ ہانیہ سے سلام کرنے کے بعد پاکیزہ پیچھے کی طرف بیٹھنے لگی تو ہانیہ نے اسے روک لیا۔
“آپ آگے بیٹھ جائیں آپی۔”
“نہیں نہیں کوئی بات نہیں آپ ہی آگے بیٹھ جاؤ ہانیہ۔ میں پیچھے بھی کمفرٹیبل فیل کروں گی”
“اچھا چلیں ٹھیک ہے۔ ویسے بہت پیاری لگ رہی ہیں آج۔”
“تھینک یو”
یہ کہہ کر پاکیزہ بیٹھنے لگی تو ارزانش نے آکر پاکیزہ کے لئیے گاڑی کا دروازہ کھول دیا۔ وہ بیٹھی اور پھر دروازہ بند کر دیا۔ وہ آگے جا کر بیٹھ گیا اور گاڑی چلانا شروع کی۔ ارزانش پاکیزہ کی طرف ہی دیکھے جا رہا تھا۔ سارے راستے میں وہ شیشے کے ذریعے پاکیزہ کو دیکھتا رہا اور پاکیزہ اس سب سے انجان گاڑی سے باہر کی طرف دیکھتی رہی۔ آخر تینوں ایک مال پہنچ گئے اور وہاں سے شاپنگ کرنے لگے۔ پاکیزہ اور ہانیہ کو خریداری کرتے دیکھ کر ارزانش ہانیہ کو کہنے لگا کہ “آپ دونوں اچھے سے شاپنگ کر لو۔ میں باہر دونوں کا ویٹ کر رہا ہوں”
“اچھا لیکن کہیں اور مت چلے جائیے گا۔ باہر ہی رہئیے گا۔”
“ہاں میری ماں ٹھیک ہے۔ باہر ہی کھڑا ہوں گا”
ارزانش یہ کہہ کر باہر چلا گیا اور گاڑی کے پاس کھڑا ہو کر دونوں کا انتظار کرنے لگا۔ خریداری کرنے کے بعد پاکیزہ اور ہانیہ ارزانش کو ڈھونڈنے کے لئیے باہر آئے تو ارزانش گاڑی کا پاس ہینڈ فری لگا کر کھڑا تھا۔ پاکیزہ اور ہانیہ کی آپس میں بہت دوستی ہو گئی تھی اور ہانیہ کو پاکیزہ بہت پسند تھی۔ ارزانش کے پاس جا کر ہانیہ نے ارزانش کو کندھے سے ہلاتے ہوئے کہا “ہو گئی شوپنگ ختم۔ اب چلیں؟”
“ابھی؟ کچھ کھائے بغیر ہی گھر چلیں کیا؟” ارزانش کانوں سے ہینڈ فری باہر نکالتے ہوئے بولا۔
“آپ کہتے ہیں تو کچھ کھا لیتے ہیں تا کہ آپی کے ساتھ زیادہ ٹائم سپینڈ ہو سکے آپکا” ہانیہ ارزانش کو آنکھ مارتے ہوئے بولی۔
“ہاں چلتے ہیں نا۔ ویسے بھی آپ لوگوں نے شاپنگ میں اتنا ٹائم لگا دیا کہ ڈنر کا ٹائم ہو گیا ہے”
“چلیں ٹھیک ہے لیکن آج کھانا میری مرضی کے ریسٹورنٹ میں کھائیں گے”
“ہاں ہاں ٹھیک ہے”
وہ تینوں گاڑی میں بیٹھ گئے اور کچھ دیر میں ریسٹورنٹ پہنچ گئے۔ ریسٹورنٹ پہنچ کر تینوں ایک میز کے ارد گرد رکھی کرسیوں پہ بیٹھ گئے۔ پاکیزہ اور ہانیہ میز کی ایک طرف بیٹھے تھے اور ارزانش ان کے سامنے میز کی دوسری طرف رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔
“اب سب اپنی اپنی مرضی کا آرڈر کر لیں تا کہ بعد میں کوئی گھورے نہیں میری طرف” ارزانش پاکیزہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
“آپی آپ کیا کھائیں گی؟” یہ کہتی ہوئے ہانیہ نے مینیو پاکیزہ کی طرف بڑھایا۔
“آپ کچھ بھی آرڈرکر لو ہانیہ” پاکیزہ نے مینیو میز پہ گھسیٹتے ہوئے ہانیہ کی طرف کر دیا۔
ہانیہ اور ارزنش نے کھانا آرڈر کیا اور کچھ دیر میں کھانا آ گیا۔ تینوں نے کھانا شروع کیا لیکن پاکیزہ کھانے سے زیادہ دوپٹہ ٹھیک کر رہی تھی۔ وہ سہمی ہوئی سی لگ رہی تھی جس کے تاثرات اس کے چہرے پر واضح دکھائی دے رہے تھے۔
“اگر آپ کمفرٹیبل نہیں ہیں تو میں باہر چلا جاؤں؟ آپ آرام سے کھانا کھا لیں” ارزانش پاکیزہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔
پاکیزہ نے دائیں ہاتھ سے اپنا بایاں ہاتھ زور سے بھینچ لیا اور کہنے لگی “نہیں نہیں آپ بیٹھے رہیں۔ میں ایسے بھی کمفرٹیبل ہوں۔”
“آر یو شور؟”
“جی جی”
ہانیہ ارزانش اور پاکیزہ کو ایسے باتیں کرتا دیکھ کر ہنسنے لگی اور کہنے لگی “بھائی آپ آپی کے ساتھ آکر بیٹھ جائیں۔ زیادہ مفرٹیبل فیل کریں گی”
“گُڈ آئیڈیہ ہانیہ” ارزانش ہانیہ کی گال پہ پیار سے انگلی مارتے ہوئے بولا۔
ہانیہ کے کہنے کے بعد ارزانش اور ہانیہ نے اپنی جگہ تبدیل کر لی۔ جب ارزانش پاکیزہ کے پاس آ کر بیٹھا تو پاکیزہ کے ہاتھ کانپنے لگے۔ وہ دل میں دُعائیں کر رہی تھی کہ اللہ اسے اس رشتے کو نبھانے کی توفیق دے۔ اتنے میں اسے اپنے ہاتھ پہ کسی کا لمس محسوس ہونے لگا۔ اُس نے گردن جھکا کا میز کے اپنی گود کی طرف دیکھا تو اسے معلوم ہوا کہ اس کے ہاتھ پر ارزانش کا ہاتھ تھا۔ پاکیزہ نے ہاتھ ہٹانے کیکوشش کی تو ارزانش نے اس کے ہاتھ پہ گرفت مضبوط کر لی۔ اب پاکیزہ کے کانپتے ہاتھوں میں تھوڑا ٹھہراؤ آگیا تھا۔ ہانیہ اپنا کھانا کھانے میں مصروف تھی۔ ارزانش پاکیزہ کے تھوڑا قریب آیا اور اس کے کان کے قریب آکر بولا “فکر نہ کریں ہمیشہ ایسے ہی مضبوطی سے پکڑ کر رکھوں گا۔ کبھی ڈگمگانے نہیں دوں گا”
پاکیزہ نے ایک گہری سانس لی۔ اتنے میں ہانیہ نے اپنا کھانا کھا لیا تھا۔
“اب چلتے ہیں بھائی۔ لیٹ ہو گئے ہیں۔ ابھی مجھے پارلر بھی جانا ہے” ہانیہ ارزانش کے میز پہ رکھے ہاتھ کو ہلاتے ہوئے بولی۔
“ہاں چلتے ہیں۔ پہلے تمہیں پارلر ڈروپ کر دوں گا اور پھر پاکیزہ کو اس کے گھر”
“ہاں ہاں آپی اور آپ اکیلے اکیلے” ہانیہ ارزانش کو آنکھ مارتے ہوئے بولی۔
“زیادہ بولنے لگ گئی ہو ہانیہ۔ ماما کو بتاؤں کا گھر جا کے”
“ہاں ہاں بتا دینا۔ میں نے کونسا غلط کہا” ہانیہ نے یہ کہہ کر ایک زور دار کہکہا لگایا۔
وہ تینوں وہاں سے نکلے تو گاڑی کے قریب ہی فٹ پاتھ پر ایک فقیر بیٹھا تھا۔ وہ ارزانش اور پاکیزہ کو پاس کھڑا دیکھ کر کہنے لگا “لگتا ہے جوڑی ہیر رانجھا جیسا کمال دکھائے گی”
“بابا جی اتنی اچھی قسمت تو نہیں ابھی تک” ارزنش پاکیزہ کی طرف دیکھتے ہوئے بول رہا تھا۔
“سو سال جیو بیٹا۔ دیکھ لینا جنت تک تمہیں ساتھ لے کے جائے گی”
یہ سُن کر اب پاکیزہ کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی آگئی تھی جیسے اسے کچھ پُرانا یاد آگیا ہو۔ یقیناً وہ مُراد کے کئیے ہوئے وعدے اور اُن کی ساتھ سوچی ہوئی یادیں تھیں جو شاید اب ہمیشہ کے لئیے کہیں دفن ہونے جا رہی تھیں۔
“بابا جی کمال کرتے ہیں۔ دل خوش کر دیا آپ نے۔ ویسے بھی دکھنے میں جنت کی کسی حور سے کم نہیں لگتی” اب ارزانش کے دل کی بات اس کے لبوں پہ آگئی تھی جو کب سے وہ کہہ نہیں پا رہا تھا۔ یہ کہہ ر ارزانش نے پینٹ کی جیب سے والٹ نکال کر ہزار روپے کا نوٹ فقیر کی طرف بڑھا دیا۔
“آج اتنے مہربان کیسے ہو گئے بھائی؟” ہانیہ نے ہزار کا نوٹ دیتے دیکھا تو حیران ہو کر پوچھا۔
“بابا جی نے بات ہی اتنی کمال کی ہے کہ انمول ہے۔ اس کی قیمت تو بہت چھوٹی لگائی ہے میں نے”
“واہ! اتنی پسند آگئی آپکو بات؟”
“سیدھا دل تک گئی ہے لڑکی”
“چلیں اب۔ میں لیٹ ہو گئی ہوں” ہانیہ جلدی میں بولی۔
ان سب باتوں کے بعد تینوں گاڑی میں بیٹھ گئے اور ارزانش نے ہانیہ کو پارلر تک چھوڑ دیا۔ اب ارزانش اور پاکیزہ اکیلے تھے اور ارزانش نے پاکیزہ کو اس کے گھر تک چھوڑنا تھا۔ پاکیزہ ہانیہ کے اصرار پر گاڑی کی آگے والی سیٹ پہ بیٹھ گئی تھی۔ سخت سردی تھی اور پاکیزہ سردی کی وجہ سے کانپ رہی تھی۔ ارزانش نے اپنا کوٹ اُتار کر پاکیزہ کے کندھوں پر ڈال دیا اور گاڑی کا ہیٹر چلا دیا۔ پاکیزہ کے رُخسار اس طرح سُرخ تھے کہ لگ رہا تھا جیسے ساری شرم یہیں سے بہہ نکلے گی۔ ارزانش راستے سے زیادہ پاکیزہ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ دونوں خاموش بیٹھے تھے کہ آخر پاکیزہ نے خاموشی توڑی۔
“ہر رشتے کی بنیاد یقین پر ہوتی ہے اور اسی یقین کو بحال رکھنے کے لئیے مجھے آپکو کچھ بتانا ہے”
“جی بولیں”
“اس کے بعد ہمارا رشتہ۔۔۔”
اتنے میں ارزانش کے موبائل کی گھنٹی بجنے لگی اور ارانش نے دیکھا تو اس کی امی کی کال تھی۔ اس نے کال کاٹ دی۔
“آپ کچھ کہہ رہی تھیں۔”
“جی میں یہ کہہ رہی تھی کہ میرے سب بتانے کے بعد شاید۔۔”
“آپ پہلے میری بات سُنیں۔ آپکی تو ساری زندگی سُنوں گا” ارزانش پاکیزہ کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔
“جی جی کہیں”
“میں بس اتنا کہوں گا کہ واقعی ہر رشتے کی بنیاد ہی اعتبار ہوتا ہے اور میں آپ پہ اپنی ذات سے بھی زیادہ اعتبار کرتا ہوں۔ آپ مجھے کچھ بھی بتائیں گی یا کچھ بھی کہیں گی تو میں اپنے دماغ میں دوسری سوچ لائے بغیر آپکی بات پہ سر جھکا دوں گا کیوں کہ چاہے میں جیسا بھی ہوں لیکن میری محبت شفاف پانی کی طرح ہے جس میں آپکو اپنا عکس واضح دکھائی دے گا۔ میں پانی کی طرح ہی آپکی کسی بھی ڈھالی ہوئی صورت میں ڈھل جاؤں گا۔ کبھی بھی آپکو آپ کے فیصلے پہ پچھتانے نہیں دوں گا۔”
“آپکا بہت شکریہ” پاکیزہ جھکی نگاہوں سے بول رہی تھی۔
“شکریہ کیسا؟ آپ میری شریکِ حیات بننے جا رہی ہیں اور یہ آپکا حق ہے۔ میں کچھ زیادہ انوکھا نہیں کروں گا۔ ہاں بس میرا اندازِ محبت انوکھا ضرور ہو سکتا ہے۔ اسی لئیے اس شکریہ کو اپنی میموری سے ڈیلیٹ کر دیں”
پاکیزہ ارزانش کی بات پہ مُسکرانے لگی اور اتنے میں پاکیزہ کا گھر آگیا۔ ارزانش نے گاڑی سے اُتر کر پاکیزہ کے لئیے گاڑی کا دروازہ کھولا۔ پاکیزہ گاڑی سے اُتری اور خدا حافظ کہہ کر گھر کی جانب جانے لگی۔ کچھ قدم آگے جا کر پاکیزہ واپس مُڑ گئی۔ اتنی دیر میں ارزانش گاڑی میں بیٹھ چکا تھا۔ پاکیزہ گاڑی کے قریب آئی اور جھک کر گاڑی کے کھلے شیشے سے کوٹ اندر کی طرف بڑھایا۔
“آپکا کوٹ تو رہ ہی گیا۔ بہت ہیلپ کی آج اس نے مجھے سردی سے بچانے میں” پاکیزہ مسکراتے ہوئے بولی۔
“اب پاس ہی رکھ لیجئیے کیونکہ اس کوٹ سمیت سب آپکا ہی تو ہے۔ یہاں تک کہ میں بھی کب سے آپکا ہو گیا ہوا ہوں”
پاکیزہ یہ سب سُن کر پھر سے شرما سی گئی تھی اور کچھ کہے بغیر کوٹ بازو پہ ڈال کر گھر چلی گئی۔
پاکیزہ ساری رات ارزانش کی باتوں کو سوچتی رہی۔ اس کے لئیے یہ سب بہت مشکل تھا۔ وہ اپنے رب کے سوا کسی کو کچھ کہہ بھی نہیں پاتی تھی اور شاید اسکا رب ہی اس کی سب سننے کے لئیے کافی تھا۔ اسے اپنے رب پہ کامل یقین تھا لیکن وہ اس بات سے بہت ڈرتی تھی کہ اگر اس سے کسی طرح کا حق ادا کرنے میں کوتاہی ہو گئی یا کسی نا محرم کا خیال اس کے ذہن میں رہا تو وہ ایک گناہ گار عورت بن جائے گی۔ اس کے دن اور رات یہی سب سوچنے میں گزرتے تھے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...