(Last Updated On: )
آثیر نے اپنی ٹریول ایجنسی کی ایک برانچ سعودیہ میں قائم کرنے کا کہہ کر پورے گھر کو پریشان کر دیا تھا سعودیہ میں برانچ کھولنے کا مطلب تھا اس کا پاکستان سے باہر جانا۔افروز کو گوارا نہیں تھا عاشر پہلے ہی ملک سے باہر تھا پاپا نے بھی زور لگایا کہ وہ اپنا ارادہ بدل دے پر وہ ایک نہیں سن رہا تھا۔
عاشر اور نگین کے جانے کے ایک ہفتے بعد آثیر بھی سعودیہ چلا گیا اسے وہاں جا کر اپنے بزنس کے لیے سازگار ماحول اور جگہ تلاش کرنی تھی اور اس میں وقت لگنا تھا۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
آثیر کے جانے کے بعد افروز کے کہنے پر آمنہ نیچے ہی کے ایک کمرے میں آ گئی تھی۔ دن بھر وہ عمارہ بھابی اور ان کے بچوں کے ساتھ لگی رہتی میکے جانے کا موڈ ہوتا تو یاسر بھائی افروز آنٹی ڈرائیور کے ساتھ جا کر خود چھوڑ اتیں۔ آثیر کو گئے ڈیڑھ ماہ ہو گیا تھا اس دوران آثیر نے اسے ایک بار بھی کال نہیں کی تھی کون سا آمنہ اس بات کرنے کے لیے مری جا رہی تھی۔ افروز آنٹی عمر انکل سے خیر خبر مل ہی جاتی تھی سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا سدرہ کی شادی حافظ اسرار کے ساتھ اسی ماہ متوقع تھی اس بار وہ میکے گئی تو ثمامہ بھابی نے اسے بتایا تھا۔
رات ڈھائی بجے کا ٹائم تھا جب عمارہ بھابی نے آمنہ کو جھنجوڑ کر جگایا یوں اچانک جگانے پر آمنہ کا دل دہل سا گیا۔
” بھابی کیا بات ہے خیر تو ہے ناں۔” وہ بجلی کی تیزی سے بیڈ سے اتری تھی۔
” آؤ میرے ساتھ۔” وہ عمارہ بھابی کے پیچھے چل پڑی لاؤنج کے دروازے سے اندر قدم رکھتے ہی عمارہ بھابی کے یوں اچانک جگانے کا سبب اسے معلوم ہو گیا تھا سامنے آثیر علوی انکل اور آنٹی کے درمیان بیٹھا ہوا تھا۔
” آدھے گھنٹے سے تین بار پوچھ چکا ہے میں نے سوچا تمہیں سر پرائز دوں۔” عمارہ بھابی اس کے کان کے قریب بولیں۔ آمنہ محض سلام ہی کر پائی افروز آنٹی سب کو سونے کی ہدایت کرکے اپنے بیڈ روم میں چلی گئیں آمنہ اپنی نیند حراب ہونے پر جی بھر کے جھنجلائی۔
عمارہ بھابی شرارتی نگاہوں سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی آمنہ ان کی مزید کسی شرارت سے بچنے کے لیے اوپر کے پورشن کی سڑھیاں چڑھنے لگی آثیر اس کے پیچھے ہی تھا۔
تین سڑھیاں باقی تھیں جب آمنہ کا پاؤں پھسلا غیر ارادی طور پر اس کے لبوں سے ہلکی سی چینخ بر آمد ہوئی وہ گرنے لگی تھی جب آثیر نے اسے سنبھالا جب وہ دوبارہ سنبھلی تب تک اسے پرے ہٹا کر وہ اوپر جا چکا تھا۔ ابھی تک اس کے پسندیدہ کلون اور پرفیوم کی مہک آمنہ کو اپنے قریب محسوس ہو رہی تھی اور آج اس کے بھر پور مردانہ لمس کو بھی تو اس نے پہلی بار محسوس کیا تھا۔ صرف چند سکینڈز کی بات تھی اس کے بعد وہ رکا نہیں تھا آمنہ نے وہیں رک کر اپنی اتھل پتھل سانسوں کو درست کیا۔ خاصی دیر بعد وہ اندر آئی تب تک وہ فریش ہو کر چینج کر چکا تھا اور سونے کے موڈ میں تھا۔
” میں اپنے بیڈ روم میں اکیلا سوؤں گا آپ ساتھ والے روم میں سو جائیں امید ہے آپ مائنڈ نہیں کریں گی۔ عمارہ بھابی نے سوتے ہوئے آپ کو جگا دیا ہے اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے اور ہاں سڑھیوں والا دروازہ لاک کر دیجیے گا۔”
اس کے باہر نکلنے سے پہلے ہی وہ بیڈ لائٹ کے سوا باقی لائٹیں بند کر چکا تھا یہ اس کا اشارہ تھا کہ اسے اب یہاں سے چلے جانا چاہیے۔ آمنہ کو اس کے انداز میں کسی واضح تبدیلی کا احساس ہو رہا تھا اس نے دکھاوے کو ہی سہی آمنہ کی خیریت پوچھنا بھی گوارا نہیں کیا تھا اسے پہلی بار اپنی بے عزتی محسوس ہوئی تھی۔ واقعی اس گھر میں اس کی کوئی چیز بھی اپنی نہیں تھی ورنہ وہ اسے دوسرے کمرے میں سونے کا نہ بولتا بہت دن بعد آج آمنہ کو پھر سے رونا آیا تھا۔
:∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆.
آثیر کو سعودیہ میں اپنی ٹریول ایجنسی کی برانچ کھولنے کی اجازت مل گئی تھی وہ اب ابتدائی تیاری میں لگا ہوا تھا اگلے ماہ اسے پھر جانا تھا مما اس کے جانے کا سن کر پھر ناراض ہو گئی تھی پر آثیر نے منا لیا تھا۔
” مما اب تو میرا آنا جانا لگا رہے گا پندرہ دن سعودیہ تو پندرہ دن پاکستان میں۔ یہاں کے معاملات بھی تو میں نے ہی دیکھنے ہیں۔”
” پھر آمنہ کو بھی لے جاؤ اپنے ساتھ شادی کو چھ ماہ بھی نہیں ہوئے اور تم اسے چھوڑ کر وہاں چلے گے۔”
” ٹھیک ہے مما میں لے جاتا ہوں پھر وہ بھی میرے ساتھ پندرہ دن سعودیہ تو پندرہ دن پاکستان میں رہے گی بلکہ ایسا کرتا ہوں اسے سعودیہ میں ہی چھوڑ دوں گا کہاں میرے ساتھ روز سفر کرتی پھرے گی۔”
” نہیں وہ ادھر ہی ٹھیک ہے تم سارا دن باہر رہو گے وہ دیواروں سے باتیں کرے گی۔ ادھر ہم سب ہیں اسے کمپنی دینے کے لیے۔” آثیر کا حربہ کار گر رہا تھا مما مان گئی تھیں۔
” تمہارے بغیر بہت اداس رہی ہے وہ۔” مما کے بتانے پر اس کا دل چاہا زور زور سے ہنسے انہوں نے تو اسے لطیفہ سنایا تھا کہ وہ اس کے بغیر اداس رہتی ہے۔ واپس آئے ہوئے اسے چار دن ہو گئے تھے اس دوری کی کوئی رمق ڈھونڈنے سے بھی اس کے چہرے پر نہیں ملی تھی مما بھی بہت بھولی تھیں آمنہ کے سینے میں دل نہیں پتھر تھا۔
باتوں باتوں میں بچھڑنے کا اشارہ کر کے
خود بھی رویا وہ بہت ہم سے کنارہ کر کے
سوچتا رہتا ہوں تنہائ میں انجام خلوص
پھر اسی جرم محبت کو دوبارہ کر کے
جگمگا دی ہیں تیرے شہر کی گلیاں میں نے
اپنے ہر عشق کو پلکوں پہ ستارا کر کے
دیکھ لیتے ہیں چلو حوصلہ اپنے دل کا
اور کچھ روذ تیرے ساتھ گزارا کر کے
ایک ہی شہر میں رہنا ہے مگر ملنا نہیں
دیکھتے ہیں یہ اذیت بھی گوارا کر کے
موسم بدلا رت نے انگڑائی لی اب دن چھوٹے اور راتیں لمبی تھیں۔ نومبر کی بھیگی بھیگی شام میں پھپو ندا سدرہ کی شادی کا دعوت نامہ کے کر آئیں آج وہ دوسری بار آمنہ کے سسرال آئی تھیں۔ شاندار گھر بہترین فرنیچر اور آمنہ کی گریس فل ساس سے مل کر ان کی آنکھوں میں رشک امنڈ آیا تھا۔ انہوں نے سب کو خلوص سے آنے کی دعوت دی۔
مہندی پر عمارہ بھابی افروز آنٹی اور آمنہ تینوں گئے بارات پر آثیر نے آمنہ کے ساتھ جانا تھا اس دن معمولی سے ہٹ کر تیار ہوئی افروز نے دل ہی دل میں نظر بد سے بچنے کی دعا دی۔ آثیر نے حافظ اسرار کو پہلی بار دیکھا تھا اس کے مقابلے میں حافظ اسرار کا قد کم تھا دبلا پتلا سا تھا وہ پھر بھی جانے کیوں آثیر کو اس سے حسد سا محسوس ہوا۔
” یہ محبت بھی کتنی ظالم شے ہے ؟” آثیر کو ابھی کچھ دیر پہلے اس کا ادراک ہوا تھا۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
موسم بہت اداس اداس سا تھا سدرہ کی شادی سے واپس آ کر وہ جانے کیوں یا سیت زدہ لگ رہی تھی شام میں بارش ہوئی تو موسم کی خنکی میں بھی اضافہ ہو گیا عمارہ بھابی نے موسم کی مناسبت سے پکوڑے خود تلے تھے کافی کا کام کچن میں کام کرنے والی بوا نے کیا تھا۔
آمنہ نے برائے نام کھانا کھایا اور اوپر آ گئی جانے کیوں وہ آج بہت باغی ہو رہی تھی۔ سدرہ کے چہرے پر جو آثیر کے ساتھ کمرے میں سونے کے لیے لیٹی تو دروازہ بند کرنے کی زحمت بھی نہیں کی کوئی دیکھتا ہے تو دیکھے کسی کو پتا چلتا ہے تو چلے آثیر کا بھرم ٹوٹتا ہے تو ٹوٹے اس کی بلا سے اسے کوئی پروا نہیں ہے۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
رات کا جانے کون سا پہر تھا جب کسی کے رونے کی آواز پر اس کی آنکھ خودبخود ہی کھلی تھی عجیب سی آواز تھی کبھی لگتا کہ بچہ رو رہا ہے پھر لگتا جیسے عورت کی آواز ہے۔ خوف سے آمنہ کی بری حالت تھی جسم پسینے میں نہایا اور دل سینے کی حدود توڑ کر جیسے باہر آنے لگا تھا۔ کمرے کی لائٹ بند تھی وہ گرتی پڑتی آثیر کے بیڈ روم میں داخل ہوئی کمرے کی لائٹ آف تھی لیکن شکر ہے کہ وہ کمرے کا دروازہ کھول کر سوتا تھا۔
بدحواسی میں آمنہ سامنے پڑے ٹیبل سے ٹکرائی اتنے میں آثیر بیڈ لائٹ جلا چکا تھا وہ پاگلوں کی طرح اسے آ کے لپٹی تھی خوفزدہ ہونے کے ساتھ ساتھ آنکھوں سے آنسو بھی بہہ رہے تھے ٹیبل لگنے سے ناخن ٹوٹ گیا تھا اور خون نکل رہا تھا۔ آثیر نے نرمی سے اس کے بال سہلائے ساری لائٹیں آن کر کے باتھ روم کی کیبنٹ سے ٹنکچر پاؤڈیں اور کاٹن رول نکالا آمنہ کا انگوٹھا اچھا خاصا زخمی تھا اس نے جلدی سے بینڈیج کی۔ ہاتھ دھو کر واپس آیا تو ابھی بھی وہ دوپٹے سے آنکھیں رگڑ رہی تھی۔
” ہوا کیا تھا آپ کو جو آپ روتی دھوتی اتنی رات کو میرے پاس آئیں۔” آثیر کو پوچھنے کا دھیان آیا۔
” کسی کے رونے کی آواز سے میری آنکھ کھلی تھی مجھے بہت ڈد لگ رہا ہے میں ادھر ہی سوؤں گی۔”
” بے شک سو جائیں مجھے اعتراض نہیں ہے پر ہوس کا اسیر یہ بندہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ آپ خود آئی ہیں یہاں۔”
آثیر کے لہجے میں تلخی آ گئی تھی۔
آمنہ کو باہر جاتے ڈر لگ رہا تھا آثیر ہی دوسرے کمرے سے اس کا کمبل لے آیا وہ اچھی طرح لپیٹ کے صوفے پر دراز ہو گئی۔ آثیر نے لائٹیں بند کر دیں۔
” آپ کو وہم ہو گا کہ کوئی رو رہا ہے بلی ہو گی کوئی؟”
آثیر نے اس کا خوف دور کرنے کے لیے کہا۔
” کتنی ڈرپوک ہوں میں فضول میں ڈر گئی۔” اس نے خود کو ڈانٹا آثیر کی طرف سے خاموشی طاری تھی یقینا وہ سو چکا تھا۔
آمنہ کچھ دیر پیشتر پیش آنے والے تصادم کے بارے میں سوچ رہی تھی کوئی چیز تھی جو اس کے ذہن میں بار بار کھٹک رہی تھی کچھ تھا جو آثیر کی طرف سے پر اطمینان نہیں تھا۔ اس کے ذہن میں چھنا کا سا ہوا جب وہ بھاگتی اندھا دھند آثیر سے لپٹی تھی تو آثیر نے خوف سے چیختی آمنہ کو بانہوں کا سہارا نہیں دیا تھا یہی چیز آمنہ کو کھٹک رہی تھی اس نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ وہ یہی سوچتے سوچتے سو گئی تھی۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
افروز آنٹی نے اسے کہا تھا کہ سدرہ اور اس کے شوہر کو کھانے پر انوائٹ کرو ندا پھپو نے بھی تو شادی کے بعد اس کی دعوت کی تھی۔ جس دن دعوت تھی افروز نے آثیر کو جلدی گھر آنے کے لیے کہا تھا آج کل وہ لیٹ آ رہا تھا سدرہ اور اس کا شوہر اسرار ٹائم پر آئے تھے کھانے کی سب چیزیں تقریبا تیار تھیں سدرہ بہت پیاری اور بے پناہ خوش نظر آ رہی تھی سدرہ کے شوہر کے پاس گھر کے سب فرد بیٹھے تھے سدرہ نے آمنہ سے کہا۔
” مجھے اپنا گھر دکھاؤ۔” نیچے کا پورشن دکھانے کے بعد آمنہ اسے اوپر لائی۔
” یار بہت گریٹ ہیں آثیر بھائی! جہیز کے نام پر تم لوگوں سے ایک تنکا تک نہیں لیا۔” وہ ان کے بیڈ روم میں کھڑی تھی اس کی نگاہ ہر چیز ہو سراہ رہی تھی۔
” تم خوش ہو سدرہ !” آمنہ کو بات ہی نہیں مل رہی تھی کیونکہ سدرہ کی ہر بات اسرار کی تعریف پر ختم ہو رہی تھی۔
” میں بہت خوش ہوں اسرار نے مجھے دنیا کی ہر خوشی دی ہے مجھے اپنے گزشتہ بچکانہ خیالات پر ہنسی آتی ہے۔
اسرار کی محبت میرے لیے اثاثہ ہے قیمتی اثاثہ۔” غرور سے سدرہ کی گردن تن سی گئی تھی۔
” مگر تم مجھے کچھ آپ سیٹ سی لگ رہی ہو لگتا ہے تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے کہیں کوئی خوشخبری والا چکر تو نہیں ہے۔” آثیر کو کھانے کے لیے بلانے آ رہا تھا سدرہ کا آخری جملہ اس نے بھی سن لیا تھا بے چاری آمنہ کی شکل دیکھنے والی ہو رہی تھی ایسے موقعوں پر اسے جواب ہی نہیں بن پڑتا۔
” نہیں ابھی خوشخبری والا چکر نہیں ہے دیکھ نہیں رہی میری بیوی کتنی نازک سی ہے ابھی شادی کو صرف ساڑھے چھ ماہ تو ہوئے ہیں۔ ہم نے ابھی لائف انجوائے کرنی ہے اس کے بعد یہ خوشخبری بھی آپ سن لیں گی۔” سدرہ ادھر ہی خاموش ہو گئی اس کی بے باکی پر آمنہ پانی پانی ہو گئی۔
کھانے کے بعد چائے کا دور چلا سدرہ اور وہ سب سے الگ صوفے پر بیٹھ گئیں سدرہ کے پاس اپنے شوہر کی باتیں اور اس کی محبت و وفا کے طولانانی قصے تھے۔ آمنہ احساس زیاں میں گھر گئی تھی سدرہ کی شادی کو ابھی دو ہفتے بھی نہیں ہوئے تھے اور اس نے اسرار کی محبت پالی تھی خود اسے کیا ملا تھا خاندان بھر میں بدنامی فلرٹ شوہر جو ہوس کو محبت کا نام دیتا تھا وہ شدید خود ترسی کا شکار تھی سدرہ کتنی خوش اور پر سکون تھی ایسی خوشی اس کے نصیب میں کیوں نہیں ہے اس نے ساری عمر اپنا آپ سمیٹ کے سنبھال کے رکھا تھا اپنے ہر جذبے کی ایک شخص کے لیے حفاظت کی جس کے لیے وہ اپنا آپ قیمتی خزانے کی طرح سنبھالتی آئی وہ خود کیا تھا کتنی لڑکیوں سے تو اس کی دوستی تھی فائقہ کو تو اس نے خود دیکھا تھا کھلی کتاب کی طرح تھی وہ تو اس کھلی کتاب کا تو آثیر نے ورق ورق پڑھا ہو گا ٹریول ایجنسی کا مالک ہے روز بھانت بھانت کے لوگوں سے ملتا ہو گا ابھی ملک سے باہر رہ کر آیا ہے پتا نہیں کیا کیا کرتا پھرتا ہے۔ دن بھر باہر رہتا ہے کیا پتا کتنی لڑکیوں سے ملتا ہو گا جب ہی تو شادی کر کے گھر میں ڈال کر مجھے بھول گیا ہے ورنہ اتنا فرشتہ تو لگتا نہیں ہے کہ عورت کی طرف متوجہ نہ ہو۔ آثیر اپنے بارے میں اس کی سوچ جان لیتا تو یقینا زور کا تھپڑ رسید کرتا۔