“یہ کیا کہہ رہی ہو۔تم میری بہن ہو آئندہ ایسے اول فول منہ سے نہ بکنا۔زیان نے لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں کہا۔یہ سچ ہے کہ وہ ساری حقیقت سے واقف تھا وہ جانتا تھا شاہزیب اسکے تایا ابو ہیں مگر اس نے ایمل کو بہنوں جیسی محبت اور پیار دیا تھا اور اب اسکے منہ سے ایسے الفاظ سن کر وہ حیرت سے گنگ رہ گیا تھا “کیا یہ میرے پیار کو غلط رنگ دیتی رہی ہے”یہ سوچ کر ہی اسکا دماغ پھٹا جا رہا تھا۔
آپ کزن ہیں میرے اور کزن سے نکاح جائز۔۔۔۔
زیان تم جاؤ نیچے۔ رابی کی آواز پر ایمل کی چلتی زبان کو بریک لگی وہ بغیر کچھ کہے دروازے سے باہر نکل کر سائڈ پر کھڑا ہو گیا۔
میں نے تمہیں منع کیا تھا نا ایمل کہ اسکے سامنے یہ بے ہودہ بکواس مت کرنا پھر تم نے زبان کھولی۔ رابی کے خطرناک تیور دیکھ کر بھی وہ اپنی جگہ کھڑی رہی نہ جانے کیسے اس لڑکی میں اتنی ہمت مجتمع ہو گئی تھی۔
کونسی بے ہودہ بکواس ہے ہر لڑکی کو اپنی پسند بتانے کا حق ہے اور اسلام میں بھی اسکی اجازت۔۔۔
وہ بھائی ہے تمہارا۔ رابی نے دانت پیس کر کہا۔
میرے کہنے یا آپ کے کہنے سے زیان میرا بھائی نہیں بن جاۓ گا دنیا والوں کی نظر میں کل بھی وہ میرے چچا کا بیٹا تھا اور آج بھی۔باہر کھڑے زیان نے دہل کر اپنے سینے پر ہاتھ رکھا جبکہ رابی نے اس پر تھپڑوں کی برسات شروع کر دی تھی۔
زیان سے صبر نہ ہوا اس نے کمرے میں داخل ہو کر ایمل کو رابی سے چھڑوایا
“یہ کیا کر رہی ہیں ممی”
ہمیں ذلیل کرنے میں اس نے کوئی کسر نہیں چھوڑی کیا کمی رہ گئی تھی میری تربیت میں۔ زیان روتی ہوئی رابی کو تسلیاں دے کر باہر نکل گیا اور وہ ٹھنڈے فرش ہر ڈھے گئی۔
___________
ایمل کافی دنوں سے بخار میں مبتلا تھی
مگر کسی نے پوچھا تک نہیں تھا جو
اسکی ذرا سی تکلیف پر تڑپ اٹھتے تھے
اب وہ بخار میں پھنک رہی تھی مگر کوئی
سامنے بھی نہیں آیا تھا۔
رابی اس پتھر کی دیوار سے ٹکریں مار مار کر
لہولہان ہو چکی تھی مگر اسکی ایک ہی رٹ تھی۔
“زیان اسکا بھائی نہیں کزن ہے اور وہ اسے پسند
کرتی ہے اسی سے ہی شادی بھی کرے گی”
سارا گھر ہی پریشان تھا اب فیصلہ زیان نے
کرنا تھا اور وہ فیصلہ کر چکا تھا۔
“میں ایمل سے نکاح کے لیے تیار ہوں”
وہ سب لان میں بیٹھے تھے جب زیان نے کہا
“میں تو اسکا کزن ہوں اس نے کبھی مجھے بھائی
سمجھا ہی نہیں نہ کل نہ آج” وہ سرجھکاۓ بولا
رابی اور شاہزیب اسکے انداز پر تڑپ اٹھے جبکہ کریم
یزدانی نے اسکی بات کی تائید کی۔
شاہزیب زیان کے سامنے سر اٹھانے کے قابل نہیں
تھا ایمل نے باپ کا سر شرم سے جھکا دیا تھا
جبکہ رابی اسکے پاس بیٹھی آنسو بہانے میں
مصروف تھی۔ انکی خوشیوں کو نہ جانے کس کی
نظر لگ گئی تھی۔
“بابا جانی پلیز آپ کیوں شرمندہ ہو رہے ہیں”
زیان اٹھ کر اسکے پاس آکر بیٹھا
“میں نے ہمیشہ آپکو اور ماما کو “ماں باپ”
کہا نہیں سمجھا بھی ہے اور آپ کی عزت میرے لیے
بہت مقدم ہے آپکو ایسے سر نیچا کرنے کی ضرورت
نہیں ہے آپکا سر ہمیشہ بلند رہے گا۔ اس نے
شاہ زیب کے کندھے پر ہاتھ رکھا شاہزیب نے اسے
گلے لگا لیا۔
“مجھے فخر ہے تم پر” شاہ زیب نے اسے ماتھے پر
بوسہ دیا۔
۞۞
اگلے چند ہفتوں میں ایمل اور زیان کا سادگی سے
نکاح ہو گیا اور وہ ایمل شاہ زیب سے ایمل
زیان بن گئی۔رخصتی کے بعد اسے زیان کے کمرے
میں بٹھا دیا گیا سبھی گھر کے افراد اس سے
ناراض تھے مگر مہمانوں کے سامنے کسی نے بھی
ظاہر نہیں کیا۔
پھولوں کی سیج پر وہ بیٹھی بار بار مسکرا رہی تھی
اسے یہ احساس ہی سرشار کر رہا تھا کہ اب زیان
صرف اسکا ہے صرف اسکا۔ مگر وہ یہ نہیں جانتی
تھی وہ سب کھو چکی ہے زیان کو بھی اور
ماں باپ کو بھی۔
۞۞
اپنے کمرے سے ملحقہ ٹیرس پر کھڑا وہ سگریٹ پر
سگریٹ پھونک رہا تھا کتنے برس بعد اس نے
رابی سے کیا وعدہ توڑ دیا تھا۔
وہ کمرے میں آیا تو رابی بھی بیڈ پر اداس سی
بیٹھی تھی شاہ زیب کو اندر آتے دیکھ کر اس
نے جلدی سے آنسو صاف کیے۔
“مدتوں کیا وہ وعدہ آج آپ نے توڑ دیا”
رابی نے اسکے ہاتھ میں سلگتا سگریٹ دیکھ کر کہا۔
“میں خود بھی ٹوٹ چکا ہوں ربیکا”
وہ ٹوٹے ہوۓ لہجے میں بولا۔رابی اسکے پاس آئی
“جب ذیشان کی موت ہوئی تھی تو زیان کو
میں نے سنبھالا تھا تب خود سے ایک عہد
کیا تھا کہ زیان کو کبھی بھی کوئی دکھ
نہیں دوں گا وہ ذیشان اور ایمل کی نشانی ہے
مگر آج زیان کے اترے ہوۓ اداس چہرے کو
دیکھ کر مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے کسی
نے میرا دل آری سے کاٹ کر لہولہان کر دیا ہے”
وہ روتے ہوۓ سب رابی کے گوش گزار کر رہا تھا۔
“میری بیٹی نے آج میرا خود سے کیا عہد بھی
توڑ دیا ذیشان اور ایمل کی خوشیوں کا قاتل
میں خود کو سمجھتا تھا جب بھی ان کو ہنستے
مسکراتے دیکھتے میرے دل سے “آہ” نکلتی کیونکہ
کہ ایمل میری بھی محبت تھی۔ میں نے زبان سے
ہمیشہ انکی خوشیوں کی دعا مانگی ان کی
زندگیوں سے دور میں بیرون ملک لندن کا باسی
بنا رہا مگر میرے دل کی آہ لگ گئی انکو
انکا ہنستا ہوا گھر اجڑ گیا
دونوں روڈ ایکسیڈنٹ میں مر گئے۔میرا ضمیر مجھے
ہر وقت ملامت کرتا تھا مگر ذیشان کی نشانی
زیان کو خوش دیکھ کر میرے دل کا بوجھ ہلکا
ہو جاتا تھا مگر آج یہ دل اسکو اداس دیکھ
کر غم سے پھٹنے کو بے تاب ہے۔”
آج دل میں لگی گرہ آہستہ آہستہ کھل رہی تھی رابی خاموشی سے اس شخص کا ماضی سن رہی تھی جو اسکا شوہر تھا رابی کی آنکھیں بھی اسکے رونے سے بھیگ گئی۔
“آپ کیوں خود کو ملامت کرتے ہیں شاہ۔ ان کی
زندگی تو اتنی ہی تھی وہ اپنی عمر اتنی لکھوا
کر دنیا میں آۓ تھے اس سب میں آپ کا کیا قصور
اور آپ تو ان کے راستے سے ہٹ گئے تھے”۔
رابی نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
“خود کو سنبھالیں شاہ سب بہتر ہو جاۓ گا میں
آپ کے ساتھ ہوں۔”
رابی اسکو تسلیاں دے رہی تھی اسکا اپنا دل بھی
تو ایمل نے بہت دکھایا تھا مگر شاہ زیب کے
اگے اسکا غم کچھ نہیں تھا۔شاہزیب نے آہستگی سے
اسکے شانے کے ساتھ سر ٹکایا بے شک رابی اسکے
لیے بہت اچھی بیوی ثابت ہوئی تھی۔
۞۞
رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی مگر زیان
ابھی تک اپنے کمرے میں نہیں آیا تھا۔ایمل اسکا
انتظار کرتے کرتے تھک کر سو گئی تھی جب وہ اپنے
بیڈ روم میں آیا تو دور کہیں مؤذن صبح کی اذان
دے رہا تھا۔ بیڈ پر سوتی ایمل پر ایک نظر ڈال کر
وہ واش روم میں چلا گیا واپس آیا تو نائٹ ڈریس
میں ملبوس تھا۔صوفے پر لیٹ کر اس نے آنکھیں
موندھ لی۔
“بہت دل دکھا دیا تم نے ایمی، بہت عزیز تھی
تم مجھے اگر اسکے بدلے میری جان مانگ لیتی تو
وہ بھی خوشی خوشی میں تم پر وار دیتا مگر تم
نے تو میری جان کو ہی بے جان کر دیا سب سکون
غارت کر دیا میرا۔میری محبتوں کو غلط رنگ دیتی
رہی میں چاہ کر بھی تمہیں کبھی معاف نہیں کروں
گا”
دو آنسو آنکھوں سے نکل کر اسکے چہرے پر بکھر
گئے۔نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی بس تلخ
سوچیں تھی کو اسکا اندر باہر لہولہان کر رہی تھی۔
وہ صوفے سے اٹھا اور دوسرے روم میں چلا گیا۔
۞۞
صبح اسکی آنکھ بازو میں ہونے والی چبھن سے کھلی
اس نے اٹھ کر بستر دیکھا جہاں اسکی کانچ کی
ٹوٹی ہوئی چوڑی پڑی تھی۔ اسکی بازو پر معمولی سی خراش پڑ گئی تھی۔
وہ اٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آئی۔
“تو کیا زیان کمرے میں آیا ہی نہیں”
اس نے آئینے میں اپنے سراپے کو دیکھتے ہوۓ سوچا۔
“جس کے لیے اتنا سج دھج کے تیار ہوئی اس نے
ایک نظر بھی مجھ پر ڈالنا گوارا نہیں کی”
اس نے زیور بے دردی سے اتار کر دراز میں پٹخا
چوڑیاں اتار کم رہی تھی اور توڑ زیادہ رہی تھی۔
آنسو بے دردی سے چہرے پر بہتے چلے جا رہے تھے۔
“اب مجھے پتہ چلا کہ محبت کیا ہوتی ہے؟”
اس نے بالوں کو کیچر سے آزاد کیا اور سادہ
سا لان کا سوٹ لے کر واش روم میں گھس گئی۔
شاور لینے سے جسم کے ساتھ ساتھ دماغ بھی تھوڑا
پرسکون ہو گیا تھا۔
وہ بال سنوار کر باہر جانے لگی تھی جب زیان اندر آیا۔
اس پر ایک ترچھی نظر ڈال کر وہ صوفے پر بیڈ گیا
“آپ کہاں تھے؟”
ایمل نے اسکے پاس آکر سوال کیا
“کیوں؟”
زیان کی نظریں فرش پر تھی۔
میں آپکا انتظار کرتی رہی۔
ایمل نے اسے جتایا
شادی کر تو لی زیان بِن ذیشان سے جو تمہاری خواہش تھی۔زیان کے لفظوں میں گہرا طنز تھا۔
“ایک بات کان کھول کر سن لو تم، یہ جو کاغذی
رشتہ قائم کیا ہے اسے غنیمت سمجھو۔ میری زندگی
میں تم زبردستی گھسی ہو اور میرے لیے تمہاری
اہمیت اتنی ہی ہے جتنے گھر کے بوسیدہ سامان کی
ہوتی ہے جسے ہر کوئی دیکھتا تو ہے مگر استعمال
کرنا گوارا نہیں کرتا بلکہ ٹھوکر مار کر گزر جاتا ہے
اس لیے میری زندگی کے معاملات سے ایک قدم دور
رہنا”
زیان تلخ لہجے میں کہتا باہر نکل گیا اور وہ بت بنی
کھڑی اسکے لفظوں پر غور کر رہی تھی۔
“اتنی تذلیل” آنکھیں آنسو سے لبالب بھر گئی تھی
وہ اب کچھ نہیں کر سکتی تھی یہ کانٹوں سے
بھرے راستے کا اس نے خود انتخاب کیا تھا اور اب
اس راستے کو اس نے خود اکیلے پاٹنا تھا۔اکثر لوگ کہتے ہیں کہ جو انسان جتنا ماں باپ کا لاڈلا ہوتا ہے
اسے اتنی ہی تکالیف اور دکھ ملتے ہیں سہی کہتے ہیں وہ۔اور ایمل بھی ان لوگوں میں سے ایک تھی۔
ناشتے کی ٹیبل پر وہ آئی تو شاہزیب اور رابی اٹھ
کر روم میں چلے گئے کریم یزدانی بھی اس سے سنجیدگی سے ایک دو باتیں کر کے روم میں
چلے گئے تھے۔ناشتے کی ٹیبل پر صرف وہ چہرے پر سوگواری طاری کیے بیٹھی تھی کون کہتا تھا کہ
وہ پہلے دن کی دلہن ہے۔
وہ بھی سب اسی طرح چھوڑ کر کمرے میں آگئی
اسے اب یہ بے رُْخیاں جھیلنی تھی سب کی ناراضگی
دور کرنی تھی جو مشکل تو تھا مگر نا ممکن نہیں۔
_________
میرے دل کی ہے یہ آرزو
مجھے تو ہی بس ملا کرے
یونہی چاہے مجھ کو تو عمر بھر
نہ شکایت نہ گلہ کرے
میری چاہتیں میری خواہشیں
میری زندگی ہے تیرے لیے
میری رب سے یہی دعا ہے بس
تجھ کو نہ مجھ سے جدا کرے
میرے خواب میرے رت جگے
میری نیند بھی ہے تیرے لیے
میری زندگی جو بچی ہے اب
تیری نام اس کو خدا کرے
مجھے زندگی سے گلہ نہیں
مجھے تجھ سے بھی یہی آس ہے
میں بھی چاہوں تجھ کو سدا یونہی
اگر تو بھی مجھ سے وفا کرے
کمرے میں اکیلی بیٹھی وہ زیان کی گزشتہ باتوں
کو یاد کر کے آنسو بہا رہی تھی۔ اسے زیان سے
یہ امید نہیں تھی کہ وہ اس سے یہ سلوک کرے
گا اس طرح اسکو دھتکار دے گا…
اس نے کمرے سے باہر نکلنا چھوڑ دیا تھا اسے کوئی
خبر نہیں تھی کون کیا کر رہا ہے؟ وہ بس اپنی ذات میں گم ہو گئی تھی۔ سب کے تلخ رویے کو سوچ کر اس نے کرب سے آنکھیں بند کی۔
۞۞
بابا جانی میں چاہتا ہوں کہ اسلام آباد کے اپارنمنٹ
میں شفٹ ہو جاؤں ویسے بھی بزنس کے سلسلے میں
بار بار وہاں جانا پڑتا ہے تو۔
اس وقت لاؤنج میں صرف شاہزیب اور زیان بیٹھے تھے۔
ہاں میں تم سے یہ بات کہنے والا تھا کہیں گھوم پھر
آؤ۔رشتہ دار تم دونوں کو کھانے پر بلا رہے ہیں اور
میں سمجھ سکتا ہوں تم ان حالات میں لوگوں کا سامنا
نہیں کر سکتے تو ہنی مون کے بہانے دعوتوں پر جانے
سے بچ جاؤ گے۔
شاہ زیب نے اپنی راۓ کا اظہار کیا۔
“مگر بابا میں اکیلے جانا چاہتا تھا۔”
زیان منمنایا
“جو تم مناسب سمجھو بیٹا مگر اسے بھی ساتھ لے جاتے تو بہتر تھا۔”
شاہ زیب نے دھیمے لہجے میں کہا
زیان نے سر کو ہلکی سی ہاں میں جنبش دی۔
۞۞
وہ بیڈ پر بیٹھی تھی جب ایک جھٹکے سے دروازہ کھلا اور زیان اندر داخل ہوا۔وہ آج کافی دنوں بعد اپنے کمرے میں آیا تھا ایمل کو خوشگوار حیرت ہوئی مگر اسکے تنے ہوۓ اعصاب دیکھ کر وہ سہم بھی گئی تھی۔
“پیکنگ کر لو کل ہمیں اسلام آباد جانا ہے”
زیان نے سخت لہجے میں کہا
“مگر ک کیوں؟”
اسکی زبان لڑکھڑائی
“ہنی مون کے لیے، زیان یزدانی سے شادی کا شوق پورا کر لیا آپ نے اب ہنی مون کا شوق میں پورا کر دیتا ہوں”
زیان نے اسکا تمسخر اڑاتے ہوۓ کہا وہ اسے نظر اٹھا کر دیکھ بھی نہ سکی۔
زیان اپنی بات کہہ کر جھٹکے سے دروازہ بند کر کے باہر چلا گیا اس نے لمبی سانسیں لینی شروع کر دی۔
“اس شخص کی نرمی تو کہیں اڑن چھو ہو گئی ہے اب
تو غصہ ناک پہ دھرا ہوتا ہے، ایسا تو خواب میں بھی
نہیں سوچا تھا”
اس نے ماتھے پر امڈنے والا پسینہ صاف کیا اور اپنے کپڑے الماری سے نکال کر بیگ میں رکھنے لگی۔
۞۞
اسلام آباد جانے سے پہلے اسنے رابی اور شاہزیب سے ملنے کی کوشش کی تھی مگر وہ اس سے ملنا تو دور
شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔
کریم یزدانی سے مل کر وہ پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی۔
“بیٹا ان کا ناراض ہونے کا حق ہے انکی بہت سی امیدیں وابستہ تھی تم سے مگر تم نے ان کے اعتبارکو ٹھیس پہنچائی ہے۔میں دعا کروں گا اور سمجھاؤں گا
بھی کہ وہ تمہیں معاف کر دیں۔”
کریم یزدانی نے اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے
ہوۓ تسلی دی تھی۔
اس نے روتے ہوۓ کریم یزدانی کو الوداع کہا اور زیان
کیساتھ اسلام آباد کی طرف روانہ ہو گئی۔
ایمل کو اپارنمنٹ میں چھوڑ کر زیان کہیں غائب ہی ہو گیا تھا۔
اسلام آباد میں موسم کافی سرد تھا۔ وہ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد شال لپیٹ کر بالکنی میں آ کھڑی ہوئی۔
بھوک بھی محسوس ہو رہی تھی مگر زیان اسے یہاں چھوڑ کر بھول ہی گیا تھا۔
شام کے ساۓ پھیل رہے تھے۔پرندے چہچہاتے ہوۓ اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔
“یہ زیان کدھر رہ گئے ہیں”
اسے پریشانی ہوئی تھی۔ اس نے سیل پر اسکا نمبر ڈائل کیا مگر زیان کا نمبر آف جا رہا تھا۔
“اللہ خیر کرے۔”
وہ بار بار اسکا نمبر ٹرائی کر رہی تھی آخر وہ شال کو اپنے گرد درست کر کے باہر نکلی۔
“کہاں جاؤں یہاں کے راستوں کا بھی مجھے نہیں پتہ”۔
وہ گیٹ کے باہر ٹھنڈے فرش پر بیٹھ کر رونے لگی
کافی دیر بعد اسے زیان کی گاڑی کا سائرن سنائی دیا
وہ جلدی سے اٹھ کر زیان کی طرف آئی۔
“کہاں چلے گئے تھے آپ اتنی پریشان ہو گئی تھی میں۔” وہ روتے ہوۓ اس سے لپٹ گئی۔
رو رو کر چہرہ سرخ ہو گیا تھا وہ اسے تھام کر اندر لے کر آیا اسے اپنی غلطی پر ندامت ہوئی اسے اسطرح ایمل کو انجان جگہ چھوڑ کر باہر نہیں جانا چاہیے تھا۔
“مجھے اکیلا کیوں چھوڑ گئے تھے آپ؟”
وہ آنسو صاف کرتے ہوۓ بولی
“کھانا لینے گیا تھا خودکشی کرنے نہیں گیا تھا۔” وہ واپس اپنی جُون میں لوٹ آیا تھا۔
“کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ، اللہ نہ کرے کبھی آپ۔۔۔۔۔”
“بس بس کھانا نکال کر کھاؤ اور سو جاؤ”
زیان نے درشتی سے اسکی بات کاٹی۔
وہ کھانے کو ایک نظر دیکھ کر بیڈ پر کمبل بچھا کر لیٹ گئی۔ بھوک تو بہت محسوس ہو رہی تھی مگر دل
بھر گیا تھا اسکا۔وہ کافی دیر کمبل میں منہ چھپا کر روتی رہی۔
زیان نے کھانا گرم کر کے کھایا اور ٹیرس پر آگیا وہ بزنس کے سلسلے میں جب بھی اسلام آباد آتا تھا اسی اپارنمنٹ میں ٹھہرتا تھا۔
اس نے دونوں بازو سینے پر باندھے۔سردی سے اسکا
جسم کپکپا رہا تھا مگر اسکے دل کا موسم تو باہر کے موسم سے زیادہ سرد تھا۔ وہ چاہ کر بھی ایمل سے
نرم رویہ نہیں رکھ پا رہا تھا۔۔۔
ایمل کے آنسو اسکے دل کو تڑپا رہے تھے پگھلا رہے تھے
مگر ماضی کا نقشہ سامنے آتے ہی اسکا لہجہ چٹان سے
بھی سخت ہو جاتا۔لفظوں میں درشتی آجاتی۔خود بخود ۔ہی دل کا شکوہ زبان پر آجاتا مگر زہر سے بھرا ہوا۔جو ایمل کے دل کو لہولہان کر دیتا۔
۞۞
وہ صبح ایمل کے اٹھنے سے پہلے ہی گھر سے چلا گیا تھا۔وہ نیم گرم پانی سے شاور لے کر کچن میں آئی جہاں صرف چاۓ کا سامان پڑا تھا۔
“کتنے بے حس ہیں میں کیا کھاؤں؟ کل سے کچھ نہیں کھایا” وہ روہانسی ہوگئی۔
رات کا ادھ کھلا کھانا سلیب پر پڑا تھا جس پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھی۔اس نے وہ ڈسٹ بن میں ڈالا اور اپنی لیے چاۓ بنا کر کمرے میں آگئی۔
چاۓ پی کر اس نے کمرے کی حالت سیٹ کی اور بور ہونے سے بچنے کے لیے کچن اور بیٹھک کی بھی صفائی کر دی۔
“یہ کیسا ہنی مون ہے؟” اس نے جمائی لیتے ہوۓ سوچا۔
زیان رات کو گھر آیا تو وہ اسی کا انتظار کر رہی تھی
“کھانا کچن میں پڑا ہے کھا لینا”. وہ اپنے حصے کا کھانا کھا چکا تھا۔اسے کھانے کی کہہ کر وہ کمبل لے کر بیٹھک میں چلا گیا۔
ایمل نے جلدی سے سالن گرم کیا اور جب ہاٹ پاٹ کھولا تو ایک روٹی اسکا منہ چڑھا رہی تھی۔ دل میں آیا کہ ابھی جا کر وہ بھی زیان کے منہ میں ٹھونس آۓ مگر معاملہ بھوک کا تھا اس نے ایک روٹی کھا کر اللہ کا شکر ادا کیا۔
۞۞
“مجھے گھر جانا ہے”۔ جب وہ شام کو گھر آیا تو ایمل نے اس سے کہا اسے یہاں آۓ 15 دن ہو گئے تھے۔پورا دن وہ اکیلی یہاں بور ہو گئی تھی راستوں کا بھی اسے پتہ نہیں تھا کہ باہر کی ہوا کا ہی مزہ لے لے۔
“اتنی جلدی میرے ساتھ رہ کر دل بھر گیا۔تم نے زندگی بھر ہمسفر بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔” زیان مذاق اڑاتے لہجے میں بولا۔
“میں نے ایسا تو نہیں کہا، میں یہاں اکیلے بور ہو جاتی ہوں۔” ایمل نے انگلیاں مروڑتے ہوۓ کہا
چھوڑ دوں گا کل۔ زیان نے جلدی سے کہا
“کیا آپ مجھے معاف نہیں کر سکتے؟ ” ایمل نے ہچکچاتے ہوۓ کہا
ایک پل میں زیان کے اعصاب تن گئے تھے اس نے زور سے مٹھیاں بھینچ لی اور جب بولا تو لفظوں میں چٹانوں جیسی سختی تھی۔
“نہیں، کبھی نہیں تم معافی کے قابل ہی نہیں ہو تم نے دل کیساتھ میرے اعتبار اور مان کا بھی خون کیا ہے میں چاہ کر بھی کسی کو بہن نہیں بنا سکوں گا۔”
“میں اپنی غلطی مانتی ہوں پلیز معاف کر دیں آپ جیسا کہیں گے وہی کروں گی آپ کے رنگ میں ڈھل جاؤں گی مگر یہ آپ سب کی بے رخی مجھے مار ڈالے گی۔”
وہ رونے لگی تھی
مگر زیان جھٹکے سے اٹھا تھا۔
“میری نظر میں تم بے حیا لڑکی ہو اگر بابا کا خیال نہ ہوتا تو ابھی کے ابھی۔۔۔” وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا تھا۔
“تیار رہنا کل چھوڑ آؤں گا گھر۔”
وہ تیزی سے کہتا باہر نکل گیا مگر وہ روتے ہوۓ فرش پر بیٹھ گئی اسکا دل چاہ رہا تھا چیخ چیخ کر روۓ وہ نادانی میں اپنا سب کچھ گنوا بیٹھی تھی۔…..¤
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...