پھر یہ کہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ھوتا تو اس لیے سوچا جاتے جاتے آپ سے معافی مانگ لوں۔
کبھی کوئی میری بات بری لگی ہو تو اس کے لیے میں آپ سے معذرت کرتا ہوں۔۔ ہو سکے تو اس فضول آدمی کو معاف کر دیجئے گا۔۔
مناہل کا دل دکھ سے بھر گیا تھا۔۔ وہ حسین کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔
ایسے کیا دیکھ رہیں ہیں۔۔ ہم اتنے بھی برے اور فضول نہیں تھے۔۔ جتنا آپ نے مجھے سمجھا۔۔ چلیں پھر کہا سنا معاف کر دیجئے گا۔۔ اللہ حافظ۔۔
حسین لہجے کو قابو کرتے ہوئے باہر نکل گیا۔۔ ابھی وہ اپنی مردانگی کا بھرم نہیں کھونا چاہتا تھا۔۔۔
مناہل ساکت نظروں سے دروازے کو دیکھ رہی تھی جس سے حسین ابھی ابھی باہر گیا تھا۔۔
آنکھوں میں اترتی دھند اتنی گہری ہو گئی کہ سب کچھ گڈمڈ ہو گیا
اور نہ چاہتے ہوئے بھی وہ شدتوں سے رودی۔۔
اس کے جانے کا دکھ تھا یا ہمیشہ کے لیے اپنی زندگی سے نکل جانے کا یا صرف اس کے ہرٹ ہونے کا ملال آنسو بن گیا تھا۔۔
کیا وجہ تھی جو وہ یوں حسین کے لیے رو رہی تھی۔۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ جب وہ اسے چاہتی ہی نہیں تھی تو اس کی زندگی میں رہنے یا نکل جانے سے کیا فرق پڑتا تھا ۔
مناہل تم مان کیوں نہیں لتی کے تمہیں حسین سے محبت ہے۔۔ زرناب کا ایک بار کا کہا ہوا جملہ ایک بار پھر سے سماعتوں سے ٹکرایا تو وہ چیخ اٹھی۔۔۔
ہاں۔۔
ہاں محبت ھے مجھے حسین سے شدید اس محبت سے بھی زیادہ جو وہ مجھے سے کرتا رہا ہے۔۔
ہاں زرناب مجھے حسین سے شدید محبت ھے۔۔
آج تنہائی میں اس نے خود سے اس حقیقت کا اعتراف کر لیا تو جسے اس کی روح پر سکون ہو گئی۔۔
اس کو محسوس ھوا جسے اس کی تلاش کو منزل مل گئی ہو۔۔ اس کی بے چینی کو اور بے قراری کو بے وجہ قرار آ گیا تھا۔۔۔
اس رات موسم بہت اچھا تھا وہ اپنے روم کی کھڑکی کے قریب بیٹھ کر صرف حسین کو سوچنا کتنا اچھا لگ رہا تھا ۔۔
اس سے وابستہ وہ یادیں جو کبھی مجھے کوفت میں مبتلا ک دیتی تھیں۔۔ آج وہ ہی سب سوچنا کتنا اچھا لگ رہا تھا۔۔
لجیئے میں نے آپ کے ہاتھ پر اپنا نام لکھ دیا ہے اب یہ ہاتھ کسی اور کا ہو ہی نہیں سکتا۔۔
حسین کی شوخ سرگوشی پر اس نے اپنے ہاتھ کو دیکھا جس پر اس نے اپنا نام لکھ دیا تھا منہدی سے۔۔ وہ دھیرے سے مسکراتے ہوئے سوچے گئی۔
تو ایک دم اس کی نظر اپنے دوسرے ہاتھ کی انگلی میں عماد کی انگوٹھی پر گئی تھی۔۔ وہ اس حقیقت کو قطعی طور پر بھول چکی تھی۔۔ پر ایک دم چونک کر سن سی ہو گئی تھی۔
پھر ایک دم اس کے جسم میں سناٹے اترنے لگے تو زرناب کی ایک اور بات اس کے زہن میں گونج اٹھی۔
عزت اور محبت اللہ تعالٰی کی خاص نعمت ہے۔۔ جب انسان اس نعمت کی قدر نہیں کرتا تو وہ نعمت اس سے چھن جاتی ہے اور نعمت چھن جانے کے بعد انسان بس پچھتاتا رہا جاتا ہے۔۔
ہاں پچھتا رہی ہوں میں زرناب آ کر دیکھ تو سہی۔۔ اور وہ دونوں ہاتھوں میں اپنا چہرہ چھپا کر رودی۔۔
ایک تو مناہل کا دل ٹوٹ گیا تھا اور کچھ عماد کی حرکتیں نا مناسب تھیں۔۔ آے دن وہ مناہل کے ہاسپٹل آ جاتا اور ساتھ گھومنے کی فرمائش کرتا تو کبھی کوئی تقاضا کرتا۔۔ تو وہ اس کی اس حرکتوں پر چڑ جاتی۔۔ اس کی آمد سب کچھ گڑبڑ کر دیتی۔۔ اس کے فرائض میں مخل ھوتا مگر وہ لحاظ میں چپ رہتی
کبھی فون کر دیتا کے دوست کی طرف دعوت ہے وہاں جانا ہے تیار ہو کر آنا میں ہاسپٹل پہنچ جاؤں گا۔۔
اور وہ غصے میں مٹھیاں بھیخچ لیتی۔۔
کیونکہ اسے ہر بار ہسپتال میں بہانے بنانے پڑے کولیگ ڈاکٹرز سے درخواست کرنی پڑتی کہ وہ اس کی جگہ ڈیوٹی کر لیں۔۔
مناہل یہ سب عماد کو بتاتی تو وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑتا۔۔
کم آن یار۔۔۔
تمہیں ضرورت ہی کیا ہے اس جاب کی کتنی تنخواہ ملتی ہے بتاؤ میں اس سے دو گنا زیادہ دے دیا کروں گا۔۔
تم بس پیسے کی خاطر میری خواہش اور خوشی برباد نہ کیا کرو ڈیر۔۔۔
کتنا اجنبی تھا وہ اسے بالکل بھی نہیں جانتا تھا وہ سمجھتا تھا کہ میں پسیے کی خاطر جاب کرتی ہوں ۔۔ اسے زبردست تاؤ آیا تھا۔۔
ٹھیک ہے اگر آپ کا خیال ہے کہ میں پسیوں کے لیے یہ جاب کرتی ہوں تو آپ دے دیں گے مگر میں جس دلی سکون کے لیے دلی اطمینان کے لیے زخموں پر مرہم رکھتی ہوں۔۔ تو کیا آپ مجھے وہ سکون اور خوشی دے سکتے ہیں۔۔ وہ جزباتی ہو گئی تو اس کی بات سمجھنے کے بجائے وہ ہنسنے لگا۔۔
وہی جزباتی مکالمے۔۔
اچھا چلو چھوڑو یہ بعد کی باتیں ہیں۔۔ چلو آج ڈنر باہر کرتے ہیں۔۔
مجھے کہیں بھی نہیں جانا۔۔ آپ جا سکتا ہیں۔۔ اس نے شدید غصے سے کہا تو وہ بھی وہاں سے پاؤں ٹپھتا ہوا گاڑی کی طرف بڑھا۔۔
کچھ ہی دونوں میں گھر میں شادی کا شور مچانا شروع ہو گیا تھا۔۔
دونوں طرف شادی کی تیاریاں عروج پر تھی۔۔
مناہل ٹوٹ سی گئی تھی۔۔
مناہل کی آج نائت ڈیوٹی تھی۔۔ سو آفس میں بیٹھی ہی تھی ابھی آ کر جب دروازے پر انگلی کی مدد سے ہلکی سی دستک دی کسی نے تو وہ چونکی۔۔
میں اندر آ سکتا ہوں ڈاکٹر صاحبہ!!
وہ ایک دم اٹھ کھڑی ہوئی اور بے یقینی سے سامنے کھڑے حسین کو دیکھنے لگی
۔ چند سال پہلے کا وہ شوخ کھنڑر نوجوان بہت سنجیدہ پروقار روپ میں اس کے سامنے کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔۔
آپ۔۔
وہ اپنی حیرت اور خوشی پر قابو نہ پا سکی۔۔
جی ہم۔۔
پر اب فضول آدمی نہیں ہوں بلکہ کارآمد ہو گیا ہوں۔۔ ویسے حیرت ہے آپ نے مجھے پہچان کیسے لیا۔۔ اس کے لہجے میں ہلکا سا شکوہ تھا۔۔
اب وہ اسے کیا بتاتی کہ تمہاری محبت تو خود میری پہچان بن چکی ہے۔۔ مگر وہ ضبط کر گئی۔۔
کسی کو بھول جانے کے لیے تو یہ عرصہ بہت کم ہے۔۔ اور پھر اتنا تو آپ نہ مجھے تنک کیا ہے کہ۔۔
چلے اب تو پیچھا چھوٹ گیا نا آپ کا۔۔ خیر یہ سلسلہ تو اب ختم ہو چکا ہے۔۔ اس نے شاکی سی نظر مناہل پر ڈالی وہ سادہ سے لباس میں ملبوس بھی بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔
جی نہیں کچھ سلسلہ تو دراز ہی ہوتے چلے جاتے ہیں۔۔
خیر آپ کیا پئیں گے،،
ابھی کچھ دیر میں ہمارے ہاں ایک مہمان آنے والے ہیں۔۔ غلام سعادت صاحب آنے والے ہیں۔ وہ آہستگی سے بولی۔ اچھا ہوا آپ کے مہمان آنے والے ہیں ہماری تو خیر ہے۔ یوں بار بار آپ کی راہوں میں آ جاتے ہیں۔ خیر آپ تو اپنی راہوں میں آنے والے پتھر کو ٹھوکر مار کر ہٹانا بہت اچھے سے جانتی ہیں۔۔۔۔۔۔
اوکے میں چلتا ہوں۔۔۔۔وہ اک دم آٹھ کر دروازے کی طرف بڑھا۔ وہ پچھتانے لگی کہ بلاوجہ ہی اس کا موڈ خراب کردیا۔۔۔ جب آتا مہمان میں مل لیتی اس سے بھی۔۔
مگر اب تیر کمان سے نکل چکا تھا۔۔ وہ پریشان ہو گئ۔۔ دیکھئیے حسین صاحب۔۔ وہ اصل میں غلام سعادت بہت اچھے انسان ہے۔۔ اور اسکی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھاکہ اسے کس طرح روکے اور غلام سعادت کی اہمیت کا بتائے۔۔
جی جی!!! یقین غلام سعادت بہت اچھے انسان ہو گے۔۔ اک برے تو ہم ہی ہیں۔۔ اس لیے چلتا ہوں۔۔۔ وہ سنجیدہ سا بول کر آگے بڑھ گیا۔۔۔
دیکھیے آپ سمجھنے کی کوشش کریں میرا یہ مطلب تو ہرگز نہیں تھا کہ آپ اس طرح اٹھا کر چل ہی دے۔۔
خیر آپ کا مطلب تو میں بہت اچھے سے سمجھتا ہوں اس لیے تو جا رہا ہوں۔۔ وہ دروازے کے پاس کھڑا تھا۔۔ وہ ساکت کھڑی اس کو دیکھ رہی تھی وہ اب کیا کر سکتی تھی۔۔ ہر بار غلطی اس سے ہی ہو جاتی تھی۔۔ وہ ابھی یہ سوچ ہی رہی تھی جب وہ مڑا۔۔
ویسے ڈاکٹر صاحبہ۔۔
وہ غلام سعادت صاحب میں ہی ہوں
۔ میرا پورا نام غلام حسین سعادت ہے۔۔
حسین نے گویا دھماکا کیا تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔۔
یہ انسان سیدھی بات کیوں نہیں کرتا۔۔ اس سے پہلے وہ کچھ کہتی وہ جا چکا تھا۔۔
حسین ہسپتال میں کسی کام سے آیا تو ڈاکٹر ثمر موجود نہیں تھے سو اس کو مناہل کے پاس جانا پڑا۔۔
آپ سمجھ رہی ہو گی کہ یہ انسان تو مسلط ہو کر رہ گیا۔۔ وہ ڈاکٹر ثمر “”
آپ ہر بات خود سے کیوں طے کر لیتے ہیں۔۔ یوں بھی اچھا ہی ہوا آپ آ گئے میں بھی آپ کے پاس ہی آنے والی تھی۔۔
ارے آپ کیوں ہمارے پاس آنے والی تھی۔۔
وہ اس دن آپ اپنی شادی کا کاڈ دے گئے تھے۔۔ وہ آپ کی امانت پڑی ہے میرے پاس۔۔ کیونکہ میں شادی پر نہیں آ سکتی۔۔ اس دن ہی میری بارات ہے۔۔ سو اپنی امانت لے جایئے۔۔
پھر اس نے بیگ سے وہی کاڈ نکال کر اس کی طرف بڑھایا تو وہ چونک کر اس کو دیکھنے لگا۔۔ مناہل نے بہت سو چا تھا کہ وہ اس سے کسطرح بات کرے یا پھر اس سے معزرت کرےکیو نکہ اس کی وجہ سے حسین کو بہت ہرٹ ھوا تھا۔۔ وہ اپنی ہتھیلی پر وہ کاڈ رکھے کھڑی تھی۔۔ اور حسین کا دل چاہا کہ وہ ابھی اس حسن کی دیوی کو دل میں چھپا لے۔۔ مگر جتنا وہ تڑپا تھا اس کی زرا سی سزا تو اسے ملنی چاہئے تھی۔۔
ارے بی بی!!!
میں اب اس کاڈ کا کیا کروں گا۔۔ آپ ہی رکھ لے اسے اپنے پاس۔۔ بشک شادی پر مت آئیے گا۔۔۔
اس نے تو زرناب کے کہنے پر ایسا کیا تھا ورنہ تو وہ یہ سب پسند ہی نہیں کرتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے دل کے ہاتھوں اتنی بھی مجبور نہیں تھی کہ یہ سب خود کرتی۔۔۔۔ وہ تو اپنی غلطی کا ازالہ کرنا چاہتی تھی اس نے تو اس سے معزرت کرنے کے لیے اس کارڈ کا سہارا لیا تھا۔۔۔۔۔ پر اس وقت تو وہ حسین کی بات سن کر سکتے میں آ گئی تھی۔۔۔۔۔
چہرہ غصے سے تپ کر سرخ ہو گیا۔۔آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب آگیا۔۔۔ اس نے غصے سے کاڈ حسین کے منہ پر مارا اور باہر جانے کے لیے آگے بڑھی۔۔۔ مگر حسین نے اس وقت ہی اس حسن کی دیوی کی کلائی تھام لی
۔۔
یہ ہی تو میں چاہتا تھا۔۔ میں تمہارے جس انداز سے جس وقار سے محبت کی ہے میں نہیں چاہتا تھا کہ تم اس سے نیچے آؤ۔۔
قسم سے بہت چاہا تمہیں۔۔ پر یہ کبھی نہیں چاہا کہ تم اپنے خوبصورت انداز بدلو۔۔
محترم شاید یہ بات آپ کے لے خوشی کا باعث ہو۔۔ کہ وہ شادی کا کاڈ صرف میری شادی کا نہیں بلکہ ہم دونوں کی شادی کا ہے۔۔
یہ آپ کیا کہا رہے ہیں آپ کی شادی تو ماہا سے ہو رہی۔
اوہو تو مطلب آپ نے کاڈ کھول کر نہیں دیکھا۔۔
اور دوسری بات کہ زرناب اور دانش مجھے سے رابطہ رکھا اور مجھے ہر بات کا علم رہا۔۔
وہ اور بھی بہت کچھ کہا رہا تھا اور اسے تو غصہ آ رہا تھا۔۔
جھوٹ بولتی ہے زرناب!!
اس نے ہاتھ چھڑانا چاہا۔۔ مگر اس کی گرفت مضبوط تھی۔۔
ویسے ڈاکٹر صاحبہ کتنا اچھا اور خوبصورت جھوٹ ہے کہ نثار ھونے کو دل چاہتا ہے۔۔ دیکھا آپ نے جزبے صادق ہوں اور دعاؤں میں شدت ہو تو اللہ تعالٰی دل کے ستارے ضرور ملا دیتا ہے۔۔ حسین نے کاڈ دوبارہ اس کی ہتھیلی پر رکھا اور جبیب سے انگوٹھی نکل کر اسے پہنا دی تو وہ اسے دیکھنے لگی۔۔
متحرم۔۔۔
دونوں طرف کی مشر اجازت کے بعد یہ قدم اٹھایا ہے۔۔ اور اب آپ کی رضا مندی کی ہمیں ضرورت نہیں۔۔ کیونکہ یہ تو ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ محترم ہم پر مرتی ہیں۔
ارے آپ کیا ڈھیروں لڑکیاں مرتی ہے۔۔
وہ اپنے پرانے رنگ میں لوٹ آیا۔۔
زیادہ اترئیے مت۔۔اس کے چہرے پر کئی رنگ بکھر گئے۔۔
چلئے نہیں اتراتے۔۔
سہاگ کی مہندی تو ابھی پندرہ دن بعد لگ گئی۔۔ اس سے پہلے عید کی مہندی لگائیے۔۔ کہا تھا نا کہ اب یہ ہاتھ کسی اور کا ہو ہی نہیں سکتا۔۔ حسین نے پھر سے منہدی سے اس حسن کی دیوی کے ہاتھ پر اپنا نام لکھ دیا۔۔ تو حیا کے ہزاروں رنگ مناہل کے چہرہ پر پھیل گئے۔۔۔
ختم شدہ۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...