دونوں ہی ایک دوسرے کو جھکانے کی ضد میں اپنے اندر غبار بھر رہے تھے اور دونوں کو ہی اس کے انجام کی پروا تھی ناں فکرـ
اپنا اپنا بھرم رکھنے کے چکر میں دونوں ایک دوسرے سے جدا ہو رہے تھےـ
اب بھی ثمرہ نے بے نیازی سے کام لیا تھا ـ برتن دھوتے ہوئے اس نے پلٹ کر اوزان کے چہرے پر ایک نظر بھی ڈالنا گوارا نہیں کی تھی،جہاں عجیب سی زردی کا بیسرا ہو گیا تھا ـ
ابھی کل ہی تو دونوں کے درمیان تازہ جنگ ہوئی تھی ـ اوزان نے اسے کسی بھی غلط کام سے باز رہنے کی ہدایت کی تھی،جواب سن کر وہ جذباتی ہوتے ہوئے تڑخ کر بولی تھی ـ
“میں جو کروں،جو چاہوں تمھیں اس سے کیا،تم اپنے کام سے کام رکھو،میرے ذاتی معملات میں ٹانگ اڑانے کا تمہیں کوئی حق نہیں ”
اپنی دانست میں اس نے دل کا غبار نکالا تھا،مگر اوزان نے یہ بات دل سے لگا لی ـ یہی وجہ تھی کہ پچھلے چوبیس گھنٹوں میں اس نے ثمرہ سے کلام تک کرنا گوارا نہیں کیا تھا ـ رطابہ چائے کپ میں انڈیلتے ہوئے مسکرا کر اوزان سے کہہ رہی تھی ـ
“ضرور چلوں گی ،ہم پر تو آج قدرت پوری طرح مہربان ہوئی ہے ۔ ۔۔ ۔۔۔۔،
“تھینکیو،ماریہ بھی آتی ہوگی،تب تک میں چینج کرلوں ـ ”
“ماریہ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ان کا کیا کام ہے ۔۔۔۔؟؟
جہاں رطابہ اس کے الفاظ پر چونکی تھی،وہیں ثمرہ کے ہاتھ بھی تھم گئے تھے ـ پانی خالی بہتا رہا تھا ـ
“اسی کا تو کام ہے یار،انگیجمنٹ رنگ پسند کروانی ہے اسے،سوچ رہا ہوں ایک دو روز میں امی ابو کو بھیج دوں اس کے گھر۔۔۔۔۔۔۔ ”
اس کے الفاظ اطلاع نہیں دھماکہ تھے،جن سے ثمرہ کی پوری ہستی لمحوں میں ہل کر رھ گئی تھی، قطعی ہونک انداز میں پلٹ کر حیران نگاہوں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے وہ گویا پتھرا گئی تھی،
اوزان بھی اسی کو دیکھ رھا تھا ـ خوبصورت چہرے پر بکھرتی بے یقینی کیسے سرور کا باعث بنی تھی اس کے لیے،بدلہ پورا ہو گیا تھا،مگر اس ادلے بدلے میں جو نقصان دلوں کے معصوم احساسات کا ہو رہا تھا، وہ دونوں ہی سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہے تھے ــ
بے حد عجیب محبت تھی ان کی،جن میں کسی احساس کا نام و نشان تک نہیں تھا ـ
وہ پوری رات لمحہ بہ لمحہ کڑا امتحان عذاب بن کر اتری تھی اس پر ـ کسی کروٹ قرار نصیب نہیں ہورہا تھا ـ اوزان کے الفاظ اسکا جگر کاٹ رہے تھے ـ تصور میں جیسے ہی ماریہ کو اس کے ساتھ کھڑا دیکھتی،اس کا دل سکڑ کر رھ جاتا ھے ـ سوچ سوچ کر اس اعصاب شل ہو گئے تھے ـ یوں لگتا تھا جیسے کسی بھی وقت شریانیں پھٹ پڑیں گی ـ اوازن سے ایسی بے وفائی کا تصور ہی محال تھا اس کے لیے کجا کہ وہ یہ سب حقیقت میں اسے سنا کر،جتا کر رہا ہے ـ
جانے کیوں اس وقت سارے رنگ جھوٹے محسوس ہورہے تھے جو اوزان کی آنکھوں میں وہ اپنے لیے دیکھتی آئی تھی ـ
اس کی شوخیاں،مستی،اپنائیت سب ایک فریب لگ رہا تھا ـ
شام سے کمرہ بند کیے وہ جانے کتنے بے شمار آنسو چپ چاپ بہا چکی تھی ـ جبکہ اوزان رطابہ کے ساتھ لاونج میں بیٹھا،اس پر ہنس رہا تھا ـ
وہ دونوں مارکیٹ بھی نہیں گئے تھے ـ اوزان رطابہ کو بتارہا تھا کہ ثمرہ کا دماغ درست کرنے کے لیے اسے گاہے بگاہے ایسے جھٹکے دینا ضروری ہیں ـ ساتھ ہی اس نے پرومس بھی کیا تھا کہ اب وہ جلد اپنے بزرگوں سے بات کرکے ثمرہ کے حقوق اپنے نام لکھوا لے گا،تاکہ ان دونوں کا مستقبل اور محبت ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائے،مگر ۔۔۔۔۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ تقدیر کبھی انسان کی سوچ اور خواہش کی تابع نہیں ہوتی ـ
مزاق مزاق میں شروع ہونے والا کھیل اب گھمبیر شکل اختیار کرگیا تھا ـ اپنا درد اور کسک ثمرہ کی جانب دھکیل کر وہ ہلکا پھلکا ہو کر اطمینان سے سو رہا تھا،جبکہ ثمرہ اس سے اپنی معصوم محبت کی توہین کا بدلہ لینے کے لیے کچھ اور سوچ رہی تھی ـ
سلگتے اعصاب کی تسکین کے لیے انتہائی جذباتیت کا شکار ہو کر۔۔۔ اس نے وہ بات ٹھان لی تھی ـ جس کے بارے میں آج تک کبھی سوچا بھی نہ تھا ـ
کپکپاتی انگلیوں سے اپنی فرینڈ مزنی کے بھائی جواد کا موبائل نمبر پریس کرتے ہوئے اسکا دل باقاعدہ تڑپا تھا ـ مگر وہ بے درد بنی دوسری طرف جاتی بیل کی آواز سنتی رہی ـ
“ھیلو۔۔۔۔۔ ”
چار پانچ بیلز کے بعد دوسری طرف سے اس کی کال پک کر لی گئی تھی ـ
“ھیلو،جواد ۔۔۔۔ ”
“جی فرمائیے۔۔۔۔”
نیند سے بوجھل بھاری آواز میں خفگی نمایاں تھی،جب۔وہ تھوڑی دیر خاموشی کے بعد بولی ـ
“مم۔۔۔۔میں ثمرہ بات کر رہی ہوں ”
“جی،پہچان گیا ہوں،آپکی آواز، فرمائیے اتنی رات گئے میری یاد کیسے آگئ آپکو۔۔۔۔”
اوزان نے اس کی خوب انسلٹ کی تھی،تبھی وہ اس سے خفا تھا ـ ثمرہ نے آج سے پہلے خود کو اس درجہ حقیر و بے بس کبھی محسوس کیا تھا،اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس سے کیا کہے؟ کیسے کہے؟ تبھی کچھ دیر خاموشی کے بعد بولی تھی ـ
“مجھے کچھ پوچھنا تھا آپ سے ۔۔۔۔؟؟ ”
بہت کمزور لہجے میں خاصی سوچ و بچار کے بعد وہ پوچھنے کی ہمت کر پائی تھی ،جب وہ بولا
” یہ سوال صبح بھی پوچھا جاسکتا تھا،اتنی رات گئے ڈسٹرب کرنے کی وجہ؟ ”
سوری۔۔۔۔اگر آپ ڈسٹرب ہوئے،اصل میں،میں بہت پریشان تھی،اس لیے سوچا سمجھا نہیں،اگین سوری۔۔۔،
“نہیں،اب ایسی بھی کوئی بات نہیں، پریشان کیوں تھیں آپ؟؟ ”
جلد ہی وہ نرم۔ہو گیا تھا،جس سے اسکی ڈھارس بندھی ـ
“کچھ خاص وجہ نہیں،آپ صرف یہ بتائیے کہ آپ فوراً میرے لیے اپنا پرپوزل بجھواسکتے ہیں؟ ”
وہ جذباتی بھی تھی، کم عقل بھی، اور اس کا احساس اسی لمحے فورا اسے ہو گیا تھا،
جب جواد نے پوچھا
“خیریت، کوئی مسئلہ ہو گیا ہے کیا؟ ”
“نہیں، خدا گواہ ہے ایسی ویسی کوئی بات نہیں، ۔دراصل آج کل میں میرا کزن اوزان
مجھے پرپوز کرنے کا فیصلہ کیے بیٹھا ہے،
لیکن میں اسے پسند نہیں کرتی، اگر اس نے کل امی ابو سے بات کر لی تو میں جانتی ہوں، وہ کسی صورت اسے انکار نہیں کریں گے جب کہ میں آپ سے شادی کرنا چاھتی ھوں”
“اس لیے ایمرجنسی آپ سے رابطہ کرنا پڑا کیونکہ میں آپکی محبت کی قدر کرتے ہوئے خود آپکی زندگی میں شامل ہونا چاہتی ہوں”
ـ وہ جتنا گر سکتی تھی اس نے خود کو گرا لیا تھا ـ صرف اپنی بلکتی انا کو تسکین دینے کے لیےاپنی خودداری اپنی شخصی وقار کا گلہ گھونٹ دیا اس نے
جواب میں جواد نے خاصی سوچ و بچار کے بعد کہا تھا ـ
“اوکے ‘فی الحال تو آپ سکون سے سو جائیں، صبح گڑیا اور امی ابو سے بات کرکے دیکھوں گا،وہ لوگ مان گئے تو ضرور آپ کی خواہش کا مان رکھوں گا ـ ”
کل تک جو اس کی آواز سننے اور ایک جھلک دیکھنے کو تڑپتا رہا تھا،اس وقت اس کا نخرہ آسمان سے باتیں کررہا تھا
مگر ثمرہ نے اس کی پروا نہیں کی ـ
اسے تو ہر صورت اوزان کے سامنے اپنا وقار بحال رکھنا تھا،اپنا قد اونچا رکھنا تھا
سو اس کے لیے وہ ہر نقصان ہر ذلت اٹھانے کو تیار تھی ـ
جواد سے بات کرنے کے بعد اس کے سلگتے عصاب کو ایک گونہ قرار نصیب ہو گیا تھا
اگلے روز صبح دیر تک وہ بستر میں ہی پڑی رہی تھی
رات میں اوزان کے آنے سے پہلے ہی پھر وہ کمرے میں بند ہوگئ ـ
اس سے اگلا دن بھی ایسے ہی گزر گیا
تیسرے روز جواد کی مما اور مزنی چلی آئیں
گو ان کی آمد پر اس کا دل پھر دکھا تھا،مگر اوزان کو سبق سکھانے کے لیے اسے بخوشی یہ تکلیف بھی قبول تھی
یہی وجہ تھی کہ خوب دل لگاکر بننے سنورنے کے بعد وہ ان کے پاس آ بیٹھی تھی کہ جن کی آمد اس کی فرمائش پر ہوئی تھی ـ
مزنی اس سے مل کر بے حد خوش دیکھائی دے رہی تھی
ڈھکے چھپے لفظوں میں اپنے بھائی کی پسندیدگی سے بھی اسے آگاہ کردیا تھا،اس کی ماں بھی گاہے بگاہے بڑی محبت بھری نگاہوں سے اس کے خوبصورت سراپے کا جائزہ لے رہی تھیں ـ
ثمرہ نے ان کی مہمان نوازی میں کوئی کمی نہیں رہنے دی ـ
اوزان آفس سے واپس آیا تو اسے بنا ٹھنا دیکھ کر حیران رھ گیا ـ
“اسے کیا ہوا ہے؟ ”
وہ پل دو پل کے لیے ڈرائنگ روم سے باہر آئی تو اس نے سرسری سی نگاہ اس پر ڈالتے ہوئے رطابہ سے پوچھ لیا جو لاتعلق سی لاونج میں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی ـ
“پتہ نہیں بھائی،مجھے تو خود کچھ سمجھ نہیں آرہی ـ ”
“آیا کون ھے؟ ”
تھکے تھکے سے وجود کو قریبی صوفے پر گراتے ہوئے اس نے پھر پوچھا تھا جب رطابہ نے بتایا
“ان کی وہی دوست آئی ہیں جن کے بھائی صاحب فدا ہو گئے تھے محترمہ پر، ساتھ میں والدہ محترمہ کو بھی لائی ہیں، مجھے تو حالات کچھ سازگار نہیں لگ رہے ”
“وہاٹ ”
ایک اور جھٹکا، وہ بے ساختہ صوفے سے کھڑا ہوا تھا
“ایسا نہیں ہو سکتا،وہ بیوقوف لڑکی اتنا بڑا قدم نہیں اٹھا سکتی ”
لمحے میں جذباتی ہوتے ہوئے اس نے اپنا کوٹ اتار کر پھینک دیا تھا ـ
تھوڑی دیر بعد مہمان رخصت ہو گئے تو اسکی ماں آسیہ بیگم اور ثمرہ کی ماں نادیہ بیگم متغیر چہروں کے ساتھ وہیں لاونج میں آبیٹھیں
جبکہ ثمرہ اپنے کمرے میں روپوش ہو گئ تھی ـ
“مما۔۔۔۔ سب ٹھیک تو ھے ناں؟ ”
اوزان تا حال وہیں بیٹھا تھا ـ
اس وقت اسے اپنی تھکن کی بھی پروا نہیں تھی اس کے دل کی جو کیفیت ہو رہی تھی وہ کسی کو بھی بتانا اس کے لیے ممکن نہ تھا ـ
آسیہ بیگم نے اس کے سوال پر نگاہ اٹھ کر بڑے دکھی انداز میں اسکی طرف دیکھا تھا ـ
“ٹھیک کہاں ہے بیٹا،کچھ بھی ٹھیک نہیں ـ
“لیکن ہوا کیا؟ ”
وہ مچلا تھا ـ نادیہ بیگم یوں خاموش بیٹھی تھیں گویا لب سل گئے ہوں ـ
“پتہ نہیں، ایسا تو کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ ثمرہ اس گھر سے باہر کہیں جائے گی ـ پتہ نہیں کب اور کیسے ہماری نظر چوک گئ اور وہ اس بھول کا فائدہ اٹھا کر غلط راستے کا انتخاب کر بیٹھی،میرا تو دل ڈوب رہا ہے اوزی، کیسے ضد مان لوں اس کی؟ ”
وہ واقعی پریشان دیکھائی دے رہی تھیں ـ
اوزان کا دل ڈوب کر رھ گیا ـ
“کیا ضد کررہی ہے وہ ”
“شادی کی ضد کررہی ہے”
وہ بھی اس لڑکے کے ساتھ جس کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے عجیب محبت کا بھوت سوار ہوا ہے اس پر کسی کی نہیں سن رہی۔۔”
“وہاٹ؟”
اس کے اعصاب پر گویا کسی نے بم پھوڑ دیا تھا ایسا کیسے ہو سکتا تھا۔
“نہیں۔۔۔۔ ضرور اس کے ساتھ کوئی مسلئہ ہے میں ابھی خبر لیتا ہوں اس کی”
بڑے مان بھرے انداز میں کہتا وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوۓ ثمرہ کے کمرے میں چلا آیا۔۔
“کیا بدتمیزی ہے یہ؟ میں نے کہا تھا کوئی غلط قدم مت اٹھانا وگرنہ میں بالکل معاف نہیں کروں گا تمہیں پھر یہ حماقت کیوں”۔
اس کا ٹمپر لوز ہو رہا تھا۔۔۔ اور یہی نظارہ تو وہ دیکھنا چاہتی تھی ، تبھی اس کے حال سے یکسر بے نیازی جتاتے ہوۓ بولی۔۔
“مجھے تمہاری معافی کی بھی ضرورت نہیں ہے جیسے تم اپنی زندگی میں اپنی مرضی کے مالک ہو ویسے میں بھی اپنی زندگی میں اپنی مرضی کی مالک ہوں تم نے کوئی خریدا نہیں ہوا مجھے جو میں ہرکام تم سے پوچھ کر کروں۔۔”
“بکواس بند کرو تمہیں اندازہ ہے تم کتنا غلط فیصلہ کر رہی ہو۔۔ کیا ہم سب سے جدا ہوگر خوش رہ سکو گی تم ؟”
“ساری لڑکیوں کی شادی ہوتی ہے سبھی اپنے والدین سے جدا ہوکر جاتی ہیں وہ سب کیا زندہ نہیں رہتیں۔۔”
“رہتی ہوں گی میں صرف تمہاری بات کر رہا ہوں تم یہ احمقانہ فیصلہ یوں اکیلے نہیں کرسکتیں۔۔”
“یہ احمقانہ فیصلہ نہیں ہے میں اس سے محبت کرتی ہوں بالکل ویسی ہی محبت جیسی تم ماریہ آفندی سے کرتے ہو۔۔”
“ماریہ آفندی کو درمیان میں مت گھسیٹو تمہارا معاملہ اس سے الگ ہے۔”
” تمہیں لگتا ہو گا بہرحال فضول میں اپنا اور میرا دماغ خراب مت کرو میں نے جو فیصلہ کرنا تھا کرلیا اب تمہارا جو دل چاہتا ہے وہ تم کرو۔۔”
وہ اتنی تلخ کیوں ہو رہی تھی اسے خود بھی معلوم نہیں تھا۔ اوزان کے اندر اس لمحے جیسے بہت کچھ ٹوٹا تھا۔۔۔۔۔
ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺲ ﺿﺒﻂ ﮐﮯ ﻋﺎﻟﻢ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﭘﺮ
ﮐﻨﭩﺮﻭﻝ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺑﻞ
ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ
” ـﮐﯿﺎ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ
ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﺳﭻ ﻣﺎﻥ ﻟﻮﮞ ﮐﮧ ﺗﻢ ﺻﺮﻑ ﺟﻮﺍﺩ
ﺣﺴﻦ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮ” ؟؟۔۔۔
ﺟﺎﻧﮯ
ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻟﻤﺤﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ
ﻣﯿﮟ،ﻭﮦ ﭼﻨﺪ ﻟﻤﺤﻮﮞ ﺗﮏ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ
ﺑﻮﻟﻨﮯ ﮐﮯ ﻗﺎﺑﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ـ ﺍﺱ
ﻟﻤﺤﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻭﮦ ﺍﻭﺯﺍﻥ ﮐﮭﮍﺍ
ﺗﮭﺎ،ﺟﺲ ﮐﯽ ﺫﺍﺕ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺩﯾﻮﺍﻧﮕﯽ ﮐﯽ
ﺣﺪ ﺗﮏ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ ـ ﺟﺲ ﺳﮯ
ﺍﺱ ﮐﺎ ﺗﻌﻠﻖ ﺩﻭﺳﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻋﺘﻤﺎﺩ ﮐﺎ
ﺗﮭﺎ،ﺍﻧﺎ ﭘﺮﺳﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﻀﻮﻝ ﺿﺪ ﮐﺎ ﻧﮩﯿﮟ،
ﻭﮦ ﺍﺳﮯ ﮐﮩﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﺗﮭﯽ “ﻧﮩﯿﮟ، ﻣﯿﮟ
ﺻﺮﻑ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮﮞ ﻣﮕﺮ ۔۔۔
ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﮧ ﭘﺎﺋﯽ ــ ﮐﮩﺎ تو ﻣﺤﺾ
ﯾﮩﯽ ﮐﮩﺎ
“ھاں”
ﺍﻭﺭ ﺍﻭﺯﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﯿﺴﮯ
ﮐﯿﺴﮯ ﻃﻮﻓﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﭨﮭﺎ ﺩﯾﮯ ﺗﮭﮯ اس ھاں نے ـ
ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﺮﺧﯽ ﺛﻤﺮﮦ ﮐﺎ
ﺩﻝ ﻣﭩﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﺟﮑﮍ ﮔﺌﯽ،ﻣﮕﺮ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ
ﺳﻠﺠﮭﺎ ﻧﮩﯿﮟ اور الجھ گیا تھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...