“یہ لو انعم بات کرنا چاہتی ہے تم سے ” بالاج نےسیل زمل کی طرف دیتے ہوئے کہا۔ اور خود وہاں سے چلا گیا ۔
“کیسی ہو انعم۔۔؟
“میں ٹھیک ہوں اور تم تو ٹھیک ہی ہو گی اپنا بدلہ لے کر۔۔ ” انعم کے لہجے کی تلخی زمل کو اپنے اندر تک محسوس ہوئی ۔
“کیا مطلب کیسا بدلہ۔۔؟ ” زمل نے نا سمجھی میں پوچھا۔
“زمل مجھ تم سے یہ امید نہیں تھی کہ تم اس حد تک جا سکتی ہو۔ ہم سب اتنے عرصے سے خاموش تھے کہ تمہیں وقت دینا چاہیے لیکن ۔۔ اب تو حد ہو گئی تم ہم سب سے ملنا نہیں چاہتی تھی شادی کے بعد یہاں نہیں آئی ہم سب خاموش رہے تم ہم لوگوں کی کال اٹینڈ نہیں کرتی ہم سب خاموش تمہیں ذرا ہماری محبتوں کا خیال نہیں آیا اور پہلی مرتبہ باری آئے اور تم ملی تک نہیں کیا سوچتے ہوں گے وہ تم اپنی مصروفیات سے تھوڑا بھی وقت نہیں نکال سکتی تھی۔۔؟ انعم کے الفاظ اُسکے دماغ پر بلاسٹ کی طرح لگے وہ کیا کہہ رہی تھی یہ سب ۔
“انعم تمہیں غلط فہمی ہورہی ہے ایسی کوئی بھی بات نہیں ہے۔۔ “زمل کو اپنی آواز کسی گہرے کنویں سے آتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔
“ہاں صحیح کہا تم نے مجھے غلط فہمی تھی کہ تم صرف محبت کرنا جانتی ہو قربانی دینا جانتی ہو لیکن نہیں تم بدلہ بھی لے سکتی ہو ۔مجھے پہلے بھائی کی باتوں پر یقین نہیں آتا تھا لیکن وہ سچے تھے زمل میں سمجھتی تھی کہ شادی کے بعد بھائی تمہیں تنگ کریں گے لیکن تم یہ سب کرو گی سوچا بھی نہیں تھا ۔تم یہ سب کرکے صرف اپنے رشتوں کو اذیت دے رہی ہو اور کچھ بھی نہیں ۔ اب بھی وقت ہے یہ سب چھوڑ دو پاپا،ماما اور انکل کا ہی خیال کر لو باقی تمہیں اپنی کرنے کی عادت شروع ہی سے ہے جو تمہاری مرضی ہو پھر۔۔ الله حافظ۔۔ ” زمل کو اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ سب انعم نے کہا ہے ۔
****
“تین دن بالاج کا سامنا نہ کرکے آج وہ خود کو سنبھال پائی تھی اور خلافِ توقع بالاج آج گھر پر ہی تھا نیچے سے آتی آوازوں نے اُسکی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی ۔
“یہ کیسے گھر پر ہیں آج اور اتنی آوازیں کس کی ہیں۔۔؟” وہ خود سے کہتی نیچے کی جانب اپنے قدم بڑھائے ۔
ڈرائنگ روم سے آتی نسوانی آوز پر وہ ٹھٹکی لیکن رُکی نہیں
“رکیہ بی کون آیا ہے۔۔؟ ” زمل نے اُنکو کچن میں مصروف دیکھ کر پوچھا۔
“چھوٹے صاحب کے مہمان آئے ہیں۔۔؟ ” اُنہوں نے مصروف سے انداز میں کہا ۔
“میں لڑکی کی بات کررہی ہوں۔۔ ” زمل کو بے چینی ہوئی تھی ۔
“اگر انویسٹی گیشن ہو گئی ہو تو رکیہ بی کو کام کرنے دو۔۔ ” بالاج کی آواز پر وہ پلٹی نہیں کیونکہ وہ بلکل اُسکے پیچھے کھڑا تھا ۔ اور نہ اُس نے بالاج کو پلٹ کر جواب دیا ۔ وہ اپنے روم میں جانے کے لیے بالاج کے سامنے سے گزر رہی تھی کہ سامنے ایک لڑکی اور دو لڑکوں کو کھڑا پایا ۔ وہ جھنجھلا گئی اور اپنے نیچے آنے پر پچھتارہی تھی ۔
“یہ کون ہے بالاج۔۔؟ ” لڑکی نے اُسکا جائزہ لیتے ہوئے کہا ۔
“یہ میری کزن ہے۔۔ کوئی کورس کرنے کے لیے یہاں آئی ہوئی ہیں ۔” بالاج نے زمل کی طرف دیکھتے ہوئے بتایا۔۔ زمل نے حیرانگی کے ساتھ نظریں اُٹھا کر بالاج کی جانب دیکھا ۔ رکیہ بی کے بھی کام کرتے ہاتھ تھم گئے تھے ۔
“اوکے۔۔ اچھا ہوا شہرین ہمارے ساتھ نہیں آئی ورنہ اتنی خوبصورت لڑکی کو تمہارے ساتھ دیکھ کر وہ انکا یا تمہارا قتل ضرور کرلیتی۔۔ ” تحریم نے بالاج کو آنکھ مارتے ہوئے مزاق میں کہا ۔
“ویری فنی شہرین کا مقابلہ تم ہر ایک سے نہیں کرسکتی ہو وہ بہت خاص ہے تم جانتی ہو اور اُسے یہاں ضرور آنا چاہیے تھا۔ اُسی نے تو یہاں آکر رہنا ہے اُسکا ہی گھر ہے یہ۔۔ ” بالاج نے ہر لفظ کو واضح کرکے سنایا ۔
“ایکسکیوزمی۔۔ ” زمل نے وہاں سے جانا چاہا ۔
“ارے آپ کہاں جارہی ہیں آئیں ہمارے ساتھ بیٹھیں نا ہمیں کمپنی دیں مہمان ہیں آخر آپ کے۔۔ ” تحریم نے اُسے روکنا چاہا ۔
“آپ جن کی مہمان ہیں وہ ہی آپکو کمپنی دیں گے میں خود یہاں پر مہمان ہوں ۔۔ اور ویسے بھی میرے سر میں بہت درد ہے ” زمل وہاں رُکے بنا چلے گئی ۔
“بہت پراؤڈی ہے تمہاری کزن۔۔ ” تحریم نے برا مناتے ہوئے کہا ۔
“حُسن ہو تو نزاکت آہی جاتی ہے۔۔ ” بالاج کے دوست نے کہہ کر ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارا۔
“ویسے یہ کمیٹیڈ ہیں کیا۔۔؟ بالاج کے دوست نے پوچھا ۔
“چھوٹے صاحب کھانا تیار ہے۔۔ ” رکیہ بی سے یہ سب برداشت نہیں ہو رہا تھا ۔
“آؤ یار کھانا کھاتے ہیں تم لوگ کن فضول باتوں میں لگ گئے ہو۔۔ ” بالاج نے بھی بات بدلی اُسے اپنے دوستوں کے منہ سے زمل کے بارے میں سننا اچھا نہیں لگ رہا تھا۔
****
“زمل بیٹا آپ نے کل ناشتے کے بعد سے کچھ نہیں کھایا ہے۔۔ کچھ تو کھالو ایسے تو بیمار پڑ جاؤ گی۔۔ ” رکیہ بی صبح سے اُسکے پیچھے پڑی تھی ۔
“رکیہ بی مجھے کچھ نہیں کھانا ہے پلیز آپ میری فکر نہیں کریں ۔”
“زمل جن کی وجہ سے تم نہیں کھا رہی ہو نا اُن کو تمہاری فکر بھی نہیں ہے وہ اپنے کسی کام سے شہر سے باہر گئے ہیں تین دن تک آئیں گے اور اب اگر آپ نے میری بات نہیں مانی تو میں بڑے صاحب کو کال کر دوں گی ۔” رکیہ بی نے دھمکی دی۔
“رکیہ بی وہاں کسی کو کچھ نہیں بتانا آپ پلیز۔۔ ” زمل نے منت کرتے ہوئے کہا ۔
“آپ کیوں نہیں کسی سے بات کرتی ہیں ایسے تو چھوٹے صاحب کبھی نہیں بدلیں گے۔۔ ”
“آپ ناشتا لگائیں میں آتی ہو۔۔ ” زمل نے اُنکی طرف دیکھے بنا کہا ۔
****
“محبت تسبیح کے دانوں میں پرویا وہ موتی ہے جو اگر اپنی جگہ سے نکل جائے تو اُسکی جگہ کوئی دوسرا موتی تو لے سکتا ہے لیکن پوری تسبیح کے سارے موتی مل کر بھی اُس ایک موتی کی کمی کو پورا نہیں کرسکتے ہیں۔ ”
“زمل اس بات کو اب مان جاؤ کے بالاج کے دل سے تم اپنے لیے نفرت کبھی نہیں ختم کرسکتی ہو۔
لیکن ۔۔
پھر کیوں اُس شخص کے ہر عمل سے مجھے تکلیف ہورہی ہے۔۔؟ کیوں کل مجھے ہمارے رشتے کی حقیقت نا بتانے پر دُکھ ہوا کیوں مجھے برداشت نہیں ہورہا یہ سب۔۔ اُنہوں نے تو پہلے دن ہی میری حقیقت مجھ پر واضح کردی تھی ۔ پھر بھی اس دل نے کیوں امید ختم نہیں کی اب تک اور میں کیوں یہ سب برداشت کررہی ہوں میرا دل کیوں اُس شخص کے خلاف نہیں جانا چاہتا ہے۔ چاہ کر بھی میں کچھ کرنا نہیں چاہتی ہوں۔۔ کیوں الله پاک جو انسان مجھے صرف تکلیف دے کر خوش ہے میرا دل کیوں اُس کی حمایت میں ہے۔۔ میرے دل کو اُس شخص کی محبت کا کوئی حق نہیں ہے ۔ بالاج آپ نے ساری زندگی مجھ سے نفرت کی ہے اس کے بعد بھی میرا دل آپ کے ساتھ کا طلبگار ہے۔ یہ میری بے بسی کی انتہا ہے کہ میں اس معاملے میں کچھ نہیں کرسکتی ہوں۔ لیکن یہ بات میں آپ کو کبھی نہیں بتاؤں گی کیونکہ میں اپنی محبت کو آپ کے ہاتھوں ذلیل ہوتا برداشت نہیں کر پاؤں گی اس لیے اپنے دل میں ہی دفنا دوں گی ہمیشہ کے لیے ۔
دل کا راستہ کٹھن ہی سہی
وہ قریب ہو کر دور ہی سہی
دل نے اُس کی خواہش کی ہے
ملنا نا ملنا ہمارا نصیب ہی سہی ۔۔
ذمل نے ڈائری بند کی اور اُس پر ہی جُھک کر اپنے آنسو بہانے لگی۔۔ شاید اب اس محبت میں اُسے ہر دن ایسے ہی رونا تھا کیونکہ لاحاصل کے پیچھے انسان ہمیشہ تڑپتا ہے ۔
****
“ثناء بھابھی کی ویڈیو کال آئی ہوئی ہیں وہ تم سے بات کرنا چاہتی ہیں جلدی آجاؤ۔۔وہ کہہ کر رُکا نہیں تھا۔” بالاج کی آواز وہ ایک ہفتے بعد سن رہی تھی۔
“کیسی ہو چندا۔۔؟ ” ثناء نے بخور اُسکا جائزہ لیتے ہوئے کہا ۔
“ٹھیک ہوں بھابھی آپ کیسی ہیں اور گھر پر سب کیسے ہیں؟ میں آپ سب کو بہت مس کررہی ہوں۔ ” باری سے نا ملنے والی بات کے بعد بھی ثناء بھابھی کتنے پیار سے بات کررہی تھیں ۔۔زمل کی آواز رندھ سی گئی تھی ۔
“سب ٹھیک ہیں لیکن مجھے تم ٹھیک نہیں لگ رہی ہو۔۔ ؟” انہوں نہیں فکر سے پوچھا۔
“بس وہ زکام ہوا تھا اس لیے۔۔ ”
“زمل مجھے تم سے کچھ کہنا تھا چھوٹی بہن سمجھ کر کہہ رہی ہوں میری بات کا مائینڈ نہیں کرنا پلیز۔۔ میں جانتی ہوں تم اس شادی کی وجہ سے ہم سب سے ہی ناراض ہو اس لیے خود کو سب سے دور کر لیا ہے ۔ لیکن تمہیں بالاج کے ساتھ آنا چاہیے تھا کراچی لاسٹ ویک صرف دو دن کی ہی تو بات تھی ہم سب اتنا یاد کرتے ہیں تمہیں۔۔ بابا اتنے اپ سیٹ ہیں تمہاری وجہ سے۔۔ ”
ثناہ نے اُسے جانچنا چاہا ۔
“بھابھی میں کسی سے نہیں ناراض ہوں یقین کریں مجھے کسی سے کوئی شکایت نہیں ہے میں بہت جلد کراچی آرہی ہوں بابا سے کہے وہ پریشان نہیں ہوں اُنکی بیٹی اُن کے پاس آرہی ہے۔۔ ” زمل نے روتے ہوئے کہا ۔
“زمل اب رو تو نہیں اس لیے تو نہیں کہا تھا یہ میں نے۔ رونا بند کرو جلدی سے۔۔ ” ثناء نے ڈانٹتے ہوئے کہا ۔
“اب نہیں رؤ گی بھابھی آپ بھی پریشان نہیں ہو۔۔ ” زمل نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا ۔
بالاج زمل کے پاس کافی کا مگ رکھتے ہوئے اُسکے روئی ہوئی آنکھوں سے نظریں چُراتا وہاں سے چلاگیا ۔
“اور ایک گڈ نیوز ہے کہ انعم کی شادی کی ڈیٹ بھی فکس ہوگئی ہے ۔اب تم آؤ تو شادی کے بعد ہی جانا پلیز۔۔ ”
“مبارک ہو بہت بہت آپ سب کو۔۔ ” زمل نے حیران ہوتے ہوئے کہا ۔
“تمہیں بالاج نے نہیں بتایا کیا لاسٹ ویک جب وہ آیا تب ہی تو ڈیٹ فکس کی وہ آیا ہی اس لیے تھا۔۔ سب نے تمہیں بہت مس کیا لیکن بالاج نے کہا تم بزی ہو اس لیے ابھی نہیں آرہی ہو شادی پر آؤ گی ۔ ”
“نہیں بتایا تو تھا انہوں نے میرے ذہہن سے نکل گیا تھا سوری۔۔ ” زمل نے کی گھبراہٹ ثناء سے مخفی نہیں رہی ۔
“زمل سب ٹھیک ہے۔۔؟
“جی بھابھی سب ٹھیک ہے آپ پریشان نہیں ہوں اور میں آپ سے پھر بات کرتی ہوں بالاج بُلارہے ہیں مجھے۔۔ الله حافظ۔۔ ”
“اچھا ٹھیک ہے اپنا خیال رکھنا ۔ خدا حافظ۔۔ ” ثناء کو عجیب لگا لیکن چُپ رہی وہ۔
کال بند کرتے ہی زمل کی سسکیاں کمرے میں گونج رہی تھی ۔
“بالاج آپ نے صحیح کہا تھا کہ میں اپنے آنسو اس دن کے لیے بچا کر رکھوں جب میرا کوئی اپنا نہیں ہوگا میرے ساتھ۔۔ اور آج میرا کوئی اپنا میرے ساتھ نہیں جو میرے آنسو پونچھ سکے یا مجھے تسلی دے سکے۔۔ آپ بہت کم ظرف نکلے۔۔ زمل نے سامنے دھواں اُڑاتا کافی کا مگ اُٹھا کر نیچے پھینک دیا جس کی آواز سن کر بالاج بھی روم میں آگیا ۔
“یہ کیا تماشا ہے اب۔۔ ” بالاج نے غصے سے پوچھا۔
“تماشہ تو آپ نے بنا کر رکھ دیا ہے میرا اپنی بے وجہ کی نفرت میں آپ نے اپنوں کو تو چھوڑ دیا ہوتا۔۔ ” زمل نے بالاج کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے کہا ۔
“کیا بکواس ہے یہ۔۔؟
“یہ بکواس نہیں ہے بالاج آپ نے اچھا نہیں کیا یہ سب اس حد تک گرگئے میں نے کبھی نہیں سوچا تھا یہ ۔ ”
“یہ تکلیف جو آج تمہاری آنکھوں میں ہے نا اپنوں کے لیے جو دُکھ تمہارے لفظوں میں ہے یہ ہی دیکھنا چاہتا تھا- مجھے تمہارے ان آنسوؤں سے سکون مل رہا ہے آج زمل مجھے لگ رہا ہے آج میرا بدلہ پورا ہوگیا ہے ۔۔”
“ہوگیا نا بدلہ پورا آپ کا اب آپ مجھے آذاد کردیں چھوڑ دیں مجھے اور وآپس جانے دیں مجھے میری دنیا میں اب۔۔ ” زمل نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا ۔
“اتنی آسانی سے کیسے تاکہ تم وہاں جاکر اپنی مظلومیت کا رونا رو سب کے سامنے اور سب مجھے غلط سمجھیں ایسا ہونے نہیں دونگا اب میں۔۔ ”
“بے فکر رہے آپ اب وہاں جاکر ایسا کچھ نہیں ہوگا آپ نے سب کو دور کرنا تھا وہ آپ کُرچکے ہیں۔۔ اور وہاں اب شاید وضاحت کی ضرورت کسی کو نہ ہو ۔۔میں آپ کے فریب کو ہی آگے بڑھاؤ ں گی اور سب سے کہہ دوں گی میں یہ رشتہ نبھانا نہیں چاہتی ہوں۔ آپ سے کوئی کچھ نہیں پوچھے گا آپ کو تو شاید اندازہ بھی نہیں ہے کہ آپ نے اپنے ہی گھر میں کیسی آگ لگائی ہے جو سب کو اپنی لپیٹ میں لے چُکی ہے بہت پچھتائے گے آپ بالاج ۔”
“جسٹ شٹ اپ میں تمہاری بکواس سننے کے موڈمیں نہیں ہوں۔۔ ”
“مجھے بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے کیونکہ آپ سننے سنانے کی حد سے بہت آگے نکل چُکے ہیں اور مجھ میں اب مزید ہمت نہیں کہ میں آپ کا اور بھیانک روپ دیکھ سکوں۔۔ ”
بالاج کا ہاتھ اُٹھا اور زمل کے باقی الفاظ اُسکے منہ میں ہی رہ گئے۔
“جانتے ہیں بالاج آج آپ نے مجھ پر ہاتھ اُٹھا کر ثابت کردیا ہے کہ آپ بہت کم ظرف انسان ہیں۔ بلکل عام مردوں کی طرح عام اور سطحی سوچ رکھنے والے۔ جو اپنے سامنے بولتی عورت کو برداشت نہیں کرپاتا اُسکے منہ سے نکلنے والی حقیقت نہیں سن سکتا ہے اس لیے اب میرا آپ سے کوئی شکوہ بنتا ہی نہیں ہے ” زمل یہ کہہ کروہاں سے گزرنے لگی اُسکے پاؤں پر کانچ کا ٹکڑا لگا لیکن وہ رُکی نہیں اور اپنے کمرے میں آکر بند ہوگئی۔۔ اور اپنے آنسوؤں کو اُس نے بہنے دیا- آج وہ ہمیشہ کے لیے اپنے آنسو ختم کردینا چاہتی تھی آج اُسکی برداشت ختم ہوگئی تھی۔ ایک ایسے انسان کے سامنے جسکی نفرت کے باوجود بھی وہ اُس سے محبت کر بیٹھی تھی ۔”
****
“ثناء ہمارے لیے چائے بناؤ بیٹا ۔” مدثر صاحب نے بیٹھتے ہوئے کہا ۔
“جی ماموں لاتی ہوں۔۔ ”
“خیریت ہے آج آپ دونوں دوست اتنی لیٹ نائٹ تک باہر تھے۔۔؟ ” شہریار نے شرارتی انداز میں پوچھا۔
“کیوں ہمیں منع ہے کیا۔۔؟ ماموں نے بھی مسکرا کر پوچھا ۔
“آپ دونوں کو روکنے کی کس کی مجال ہوگی۔۔؟ ”
“بس بیٹا وقت کے ساتھ یہ دور بھی چلا جاتا ہے جب آپ صرف اپنی مرضی کرسکتے ہو یا چلاسکتے ہو۔۔” مدثر صاحب نے آسودگی سے کہا ۔
“ماموں آپ تو سیریس ہی ہوگئے ہیں میں مزاق کررہا تھا آپ دونوں کا حکم تو سر آنکھوں پر ہے۔۔ ” شہریار نے بات کا رخ بدلنا چاہا ۔
“یہ لیجیئے آپ سب کی چائے۔” ثناء نے چائے اور کباب سامنے ٹیبل پر رکھ دی ۔
“بابا میری زمل سے بات ہوئی تھی کہہ رہی تھی کہ وہ کسی سے ناراض نہیں ہے اور بہت جلد کراچی آئے گی ۔میں نے اُسے کہہ دیا ہے کہ اب وہ انعم کی شادی کے بعد ہی جائے گی بہت یاد کررہی تھی ہم سب کو۔۔ ”
“ہاں اب تو وہ آجائے گی ضرور۔۔ ” جمال صاحب نے رنجیدگی سے کہا ۔
“بابا ایوری تھنگ از اوکے۔۔؟ ” شہریار نے پہلے کبھی اتنا اپ سیٹ نہیں دیکھا تھا اُنہیں۔
“شہریار مجھ سے ایک وعدہ کرو گے۔۔ ” انہوں نے امید سےدیکھا ۔
“جی بابا آپ بولیں ۔ ” پریشانی سے گویا ہوا ۔
“میرے بعد میری بیٹی کا ہمیشہ خیال رکھنا وہ بہت معصوم ہے بس مجھ سے وعدہ کرو۔”
“جمال کیا ہوگیا ہے بچوں کو کیوں پریشان کررہے ہو ہمت رکھو۔۔ ” مدثر صاحب نے تسلی دینا چاہی ۔
“میری بیٹی کے ساتھ بہت برا کیا میں نے ہمیشہ میری زمل۔۔ میری بچی ۔” سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ نیچے کی طرف ہوئے ۔
“بابا ۔۔ بابا کیا ہوگیا ہے آپ کو۔۔ ” شہریار نے دوڑ کر انہیں تھاما ۔
“شہریار فوراً ہاسپٹل لے چلو انہیں۔۔ ” مدثر صاحب نے بھی گھبرا کر کہا ۔
****
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...