“بابا اتنی جلدی کیا تھی شادی کی ڈیٹ فکس کرنے کی۔۔؟ ” زمل منہ پھلائے بیٹھی پوچھ رہی تھی ۔ اور بھوک ہڑتال کے طور پر احتجاج بھی کرچُکی تھی ۔
“بیٹا آج نہیں تو کل تو کرنی ہی ہے شادی پھر دیر کیوں کرنی۔۔؟ ” جمال صاحب نے ہنسی کو چپھاتے ہوئےکہا ۔
“زمل اُنکی شرارت سمجھ کر مزید چڑکر بولی۔۔ یہ بولیں کہ آپ سب لوگ مجھ سے تنگ آُچکے ہیں اب۔۔ ”
“تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے پتہ نہیں کتنی دور جارہی ہو ایک ہی گھر میں تو سُسرال ہے تمہارا۔۔ ” شہریار نے بھی مسکرا کر کہا ۔
“بھائی پھر تو آپ لوگوں کو ٹینشن ہونی ہی نہیں چاہیئے تھی ۔جب مرضی کرتے آپ لوگ۔ ابھی نیکسٹ منتھ میرے فائنل ہیں اور اُس پر نا میں آرام کروں نہ اپنی لائف کو انجوائے کروں صحیح سے اور شادی کر لوں بس ایک یہی کام تو رہ گیا ہے ۔ آپ لوگوں کو علم بھی ہے پڑھائی کے دوران میں کہیں نہیں جاسکتی ہوں اوپر سے اب شاپنگ کے لیے الگ زبردستی کریں گے۔
آپ لوگوں نے تو ایک ساتھ ہی سب حساب چُکتا کردیے ہیں میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اس معاملے میں میری ایک بات کو بھی اہمیت نہیں دی جائے گی ۔” زمل کی آخر میں آواز رندھ سی گئی وہ رونا نہیں چاہتی تھی لیکن پھر بھی کنٹرول نہیں کرپائی ۔
“ارے چندا تو رونے کی کیا بات اس میں چلو جیسا تم چاہو گی ویسا ہی ہوگا ٹھیک ہے۔۔؟ ” شہریار نے زمل کو ساتھ لگاتے ہوئے کہا ۔
“یہاں کون سی ایموشنل فلم چل رہی ہے۔۔؟ ” حماد نے اندر آتے ہوئے پوچھا۔
ساتھ مدثر صاحب بھی تھے ۔
“ماموں آپکی بہو کل سے بھوک ہڑتال پر ہے کل ڈیٹ رکھنے کے بعد سے اتنی مشکل سے روم سے باہر آئی ہے اور یہ رونا بھی اس لیے ہے۔۔ ” ثناء نے اُنکو بتایا ۔
“میری بیٹی ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر رونے والی تھوڑی ہے ۔” مدثر صاحب کے چہرے پر شرارت تھی ۔
“ماموں آپ تو بلکل بھی مجھ سے بات مت کیجئیے یہ سب آپ کی پلاننگ ہے مجھے سب پتہ ہے آپ مجھے ایسے دھوکا دیں گے کبھی سوچا نہیں تھا ۔”زمل نے شکایتی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ۔
انہوں نے زور کا قہقہہ لگایا ”
زمل وہاں سے جانے لگی جب انہوں نے اشارہ کرکے اپنے پاس بیٹھنے کو کہا ۔
“زمل منہ نیچے کرکے اُن کے برابر میں بیٹھ گئی۔”
“زمل تم ہم سب کو جان سے بھی ذیادہ عزیز ہو ۔۔ شہریار صحیح کہہ رہا ہے جیسا تم چاہو گی ویسے ہی ہوگا میں تمہاری آنکھ میں ایک آنسو نہیں دیکھ سکتا ہوں ہم صرف نکاح کردیں گے بس اب پریشان نہیں ہونا۔۔ “انہوں نے زمل کے سر پر ہاتھ رکھا ۔
“پاپا ویسے بالاج بھائی صحیح آپ سے الجھتے تھے ہمیشہ زمل کے معاملے میں۔ ہمیں ایک بار فیصلہ سنا دیا جائے تو مجال ہمیں کچھ کہنے کی اجازت ہو اور ان محترمہ کے ایک آنسو گرنے کی دیر ہوتی ہے اور آپ وہاں ہی پگھل جاتے ہیں۔۔ ” حماد نے شکوہ کرتے ہوئے کہا ۔
“ویسے پاپا آپ غلط کررہے ہیں اس بار بھائی کے ساتھ آپ۔ اتنی جلدی شادی کا ارادہ نہیں رکھتے تھے اور بھائی نے خود آپ سے کہا اور آپ مان بھی گئے پھر ایسے اب صرف نکاح اُنکی بات کوویلیو نہیں دے کراُنکے ساتھ زیادتی کررہے ہیں ۔”
سب حماد کی اس بات پر خاموش رہے ۔
زمل کو آج سے پہلے حماد شاید ہی کبھی اتنا زہر لگا ہو زمل کا دل چاہا سامنے پڑا کانچ کا جگ اس کے سر پر دے مارے ۔
“حماد ٹھیک کہہ رہا ہے اب شادی ہی ہوگی زمل میری سمجھدار بیٹی ہے اور ویسے بھی ہمارے قریب ہی ہے اس لیے اب ایسا کچھ نہیں ہوگا۔”
زمل وہاں سے اٹھ کرجانے لگی تھی جب حماد نے اُسے روکا ۔
“باہر ذنر کرنے چل رہے ہیں تم میں اور انعم۔۔ ” حماد نے اُسکے غصے والے چہرے کوہنستے ہوئے دیکھ کر پوچھا ۔
“مجھے نہیں جانا ہے کہیں بھی۔۔ “زمل نے اُسے چبتی نظروں سے کہا اور وہاں سے نکل گئی۔
“تمہارے فیورٹ ریسٹورنٹ جارہے ہیں سوچ لو۔۔ ”
“میری بلا سے جہنم میں جاؤ” ترخ کر جواب دیا اُسے ۔
“وہاں صرف تم جیسے لوگ جاتے ہیں اور اب بھائی بیچارے کو بھی زبردستی جانا پڑے گا تمہارے ساتھ۔۔ ”
زمل نے کوئی جواب نہیں دیا وہ جاچُکی تھی ۔
“مدثر کچھ فیصلوں میں جذباتی نہیں ہوا جاتا ہے میں زمل کو سمجھا لوں گا خود ۔”
****
بالاج فائل میں جھکا آفس کے کام میں بزی تھا جب زمل ناک کرکے آفس کے روم داخل ہوئی ۔
“اسلام علیکم” زمل نے بالاج کو سلام کرکے اسکے سامنے چئیر پر بیٹھ گئی ۔
“وعلیکم اسلام ” بالاج نے حیرانگی چپھاتے ہوئے جواب دیا ۔
” میں نے سوچا مجھے جان کر اگنور کر رہے ہیں اتنے دن سے اب تو سامنا بنتا ہے آپ سے۔۔ ” زمل نے چبھتے لہجے سے کہا ۔
“آپ کو یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔۔ کس کے ساتھ آئی ہو؟ ” بالاج نے نے ضبط سے پوچھا ۔
“اکیلی آئی ہوں۔۔ اس لیے نہیں آتی کہ آپ میرے سوالوں سے خود کو بچانا چاہ رہے تھے۔۔؟
“وہ جواب میں اب بھی تم کو دینے کا پابند نہیں ہوں ” بالاج نے اطمینان سے جواب دیا۔
” بالاج مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے آپ کو پابند کرنے کا لیکن میں صرف اس ڈرامے کا مقصد پوچھنے آئی ہوں آپ سے ۔” بالاج کے اطمینان نے اُسے غصے سے دلایا تھا ۔
” شٹ اپ اپنے لہجے کو درست رکھو میرے ساتھ مجھے باقی سب کی طرح ٹریٹ کرنے کی کوشش مت کرنا اُن لوگوں کو عادت ہوگی تمہاری بکواس سننے کی مجھے نہیں ہے اور نا ہوگی سمجھی۔۔ ” بالاج نے غصے سے دیکھتے ہوئے جواب دیا ۔
“بالاج میں صرف یہ جاننا چاہتی ہوں کہ جب آپ رشتہ کرنا ہی نہیں چاہتے تھے تو اب ہاں کرنے کی کیا ضرورت تھی اور شادی جلدی کرنے پر زور دینے کا مطلب کیا ہے آپکا جبکہ آپ تو کسی اور کوپسند۔۔ زمل کی بات درمیان میں بالاج نے کاٹ دی ۔
“وہ میرا پرسنل میٹر ہے اور شاید تم مجھے اس بات سے دھمکانا چاہ رہی ہو۔۔؟ ”
“بلکل بھی نہیں میں صرف چاہتی ہوں جب آپ کسی اور کو پسند کرتے ہیں تو شادی بھی اُسی سے کریں۔۔ ” زمل نے تحمل سے کہا ۔
“بند کرو اپنا یہ ڈرامہ میرے سامنے۔ تم چاہتی ہو بابا اور باقی سب مجھے سے متنفر ہوجائیں لیکن میں اب ایسا ہونے نہیں دوں گا تمہاری وجہ سے بہت دوری برداشت کی ہے سب سے لیکن اب نہیں۔۔ ” شہادت کی انگلی سے تنبیہ کرتا وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہوچُکا تھا ۔ زمل کے سامنے کھڑا اُسے گھور رہا تھا ۔ زمل بھی اپنی جگہ پر کھڑی ہو کر اُسکے مقابل آچُکی تھی ۔
“بہت ہی افسوس ہورہا ہے آپ کی سوچ جان کر میں نے کبھی کسی کو آپ سے دور کرنے کی کوشش نہیں کی۔۔ میں نے غلطی کری یہاں آکر آپ سے بات کرنے کا جو ارادہ کیا آپ ہر بار اپنی ایسی ہی سوچ سے مجھے تکلیف دیتے ہیں کاش آپ کو اندازہ ہوتا کہ آپ کتنا غلط کررہے ہیں۔۔ ” زمل شکوہ کرتی نظروں سے بول کر وہاں سے جانے کو پلٹی ۔
بالاج نے اُسکے بازو کو زور سے دبوچا اور اپنی طرف اُسکا رخ کیا ۔
“اور تم میری سوچ سے زیادہ چالاک ہو زمل میڈم اور تمہیں جو سوچنا ہے سوچو میں تمہارا اصل جانتا ہوں اب تمہارے ڈراموں میں آکر اپنوں کو مزید تکلیف نہیں دوں گا بلکہ میں وہ تکلیف تمہاری آنکھوں میں دیکھنا چاہتا ہوں۔۔ ” زمل کی آنکھوں میں سے آنسو نکل کر اُسکے گال پر بہہ گئے ”
“نا ابھی نہیں ان آنسوؤں کو اُس دن کے لیے بچا کر رکھو جس دن تمہارے یہ آنسو چننے والا تمہارا ایک بھی اپنا تمہارے پاس نہیں ہوگا ۔” بالاج نے ہاتھ سے اُسکے آنسو صاف کرنا چاہے اور زمل نے اپنے ہاتھ سے بالاج کا ہاتھ پیچھے کیا ۔” بالاج نے بھی اُسکا بازو زور سے جھٹک دیا
“نفرت کرتا ہوں تم سے زمل میری زندگی میں صرف تم وہ واحد انسان ہو جس سے میں اتنی نفرت کرتا ہوں۔۔ کوشش کرو میرے سامنے اپنی تکلیف کی بات نہ ہی کرنا کیونکہ میں اُس میں اضافہ تو کرسکتا ہوں لیکن کم کبھی بھی نہیں کروں گا۔۔ ”
بالاج کی لہجے کی نفرت کو وہ اپنے اندر تک محسوس کر سکتی تھی۔
” آپ بہت گھٹیا ہیں بالاج میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ آپ اس حد تک بھی آسکتے ہیں مجھے آپ پر ترس آتا ہے کہ کہیں آپ اپنی نفرت کی آگ میں سب کچھ جلا نہ دیں اور صرف پچھتاوے کے علاوہ آپ کے ہاتھ کچھ باقی نہ رہے ” زمل اپنے آنسو صاف کرتی وہاں سے نکل گئی۔
“پچھتاوگی تو تم زمل بابا کے سامنے جسطرح سے مجھے بدلنے کا دعویٰ کیا تھا اب میں نے تم کو سب سے الگ کر کے تڑپنے پر مجبور نہ کردیا نا تو دیکھنا خود سے نفرت کرو گی تم۔۔ ”
“انسان زندگی میں دوسروں کو رلانے میں صرف اپنا ہی نقصان کررہا ہوتا ہے اکثر رشتوں کو آزمائش میں ہم خود ہی ڈالتے ہیں ۔”
****
“آج لاسٹ پیپر دے کر فری ہوکر لیٹی تھی جب بالاج کی باتوں کو ُبھلا کر وہ خود کو بزی کرچُکی تھی پھر سے یاد کرنے لگی وہ بالاج سے اپنی آخری ملاقات نہیں بھولی تھی ۔
بالاج آپ خود کو اور مجھے ناحق اس آگ میں دھکیل رہے ہیں جس میں ہماری روح تک جھلس جائے گی۔۔ سمجھ نہیں آتا اسکے زمہ دار ماموں ہیں آپ ہیں یا میں خود۔۔
“ماموں ہمارا رشتہ اتنا کمزور تو نہیں تھا کہ آپ کو اسے مضبوط کرنے کے لیے زبردستی کے رشتے جوڑنے پڑجاتے۔ آپ نے بہت گھاٹے کا سودا کیا ہے یہ رشتہ جوڑکر ایسا نہ ہو کہ رشتے مضبوط ہونے کے بجائے پہلے سے بھی زیادہ کمزور ہوجائیں ۔۔”
یااللہ کیوں میں نے ماموں کو بالاج کا نام لیتے ہی انکار نہیں کردیا تھا ۔ کاش میں جانتی ہوتی کہ بالاج کے دل میں میرے لیے اس قدر نفرت ہے ۔
اور
اب وقت آنے پر سب نے میرا ساتھ چھوڑ دیاہے میں کس سے کہوں کہ یہ شادی روک دے کوئی ۔
“جن رشتوں کی بنیاد ہی کھوکھلی ہو وہ ذیادہ دیرپا نہیں ہوتے ہیں۔۔ ایسے رشتے کچے دھاگے کی مانند ہوتے ہیں جو تھوڑی سی کھینچ سے ہی ٹوٹ جاتے ہیں۔ ”
****
“وقت کو گزرنا ہوتا ہے اور وہ گزر ہی جاتا ہے ”
” سب کے سمجھانے پر زمل نے خاموشی اختیار کر لی تھی ۔ اور وہ دن بھی آگیا تھا جس کو وہ سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی ”
“زمل تم خوش ہو۔۔؟ ” انعم نے زمل سے پوچھا ۔
“میرا دل چاہتا ہے انعم کہ میں اپنی آنکھیں بند کر لوں اور جب کھولوں تو سب منظر بدلا ہو اور یہ سب صرف ایک خواب ہو۔۔ ” زمل نے اپنی آنکھیں موند لیں ۔
“زمل یہ حقیقت ہے اور حقیقت سے فرار حاصل نہیں ہوسکتا ہے۔۔
تم یقین جانو بھائی بدل گئے ہیں وہ اب بلکل غصہ بھی نہیں کرتے ہیں اور انہوں نے اپنی مرضی سے اس شادی کے لیے ہاں کی ہے۔ وہ خوش ہیں دیکھنا وہ تمہیں بھی بہت خوش رکھیں گے_ تم سب پرانی باتیں بھول جاؤ سب بہت اچھا ہوگا بھائی بہت اچھے ہیں زمل۔۔ ” انعم نے اُسے سمجھانا چاہا ۔
“جہاں انعم کو زمل کی بھابھی بنانے کی خوشی تھی وہاں ہی اُسے اپنی دوست کے لیے دکھ بھی ہورہا تھا اُسے دکھی دیکھ کر ۔
زمل کا کوئی جواب نا پاکر انعم نے دل میں ہمیشہ اُسکے خوش رہنے کی دعا کی تھی ” اور خود بھی زمل کے برابر میں لیٹ گئی تھی کل مہندی تھی ۔
“نصیب میں لکھا مل کر رہتا ہے چاہے وہ خوشی ہو یا دُکھ۔۔ ”
****
“زمل طبیعت کیسی ہے تمہاری۔؟ جمال صاحب نے زمل کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا ۔
“ٹھیک ہوں بابا۔۔ ” زمل نے مختصر سا جواب دیا اور اُٹھ کر بیٹھ گئی تھی ۔
“زمل بابا سے ناراض ہو۔۔؟ انہوں نے پیار سے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
“نہیں بابا۔۔ آپ کیوں پوچھ رہے ہیں۔۔؟ زمل نے زبان تک آتے شکوے کو روک کر پوچھا۔
“بابا کی جان اتنی چُپ جو ہوگئی ہے بابا سے باتیں بھی نہیں کرتی ہے۔۔ زمل میں جانتا ہوں کہ تمہیں مجھ سے شکوہ ہے اور ایسا نہیں ہے کہ میں لاعلم ہوں سب سے لیکن ایک سچ یہ بھی ہے کہ جو ذیادتی تمہارے ساتھ مجھ سے ہوئی ہے میں اُس کے لیے خود کو اب تک معاف نہیں کرسکا ہوں اور نا شاید کرسکوں گا۔
زمل کو بولتے دیکھ انہوں نے ہاتھ سے خاموش رہنے کا کہا ۔
تمہیں ہم سب غلط لگ رہے ہوں گے۔۔ لیکن بیٹا ہم سب تم کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں اور اپنی نظروں کے سامنے دیکھنا چاہتا ہیں۔۔ مدثر سے ہمیشہ ہی تمہاری بہت اٹیچمنٹ رہی ہے اور اُس نے جب بالاج کے لیے تمہارا ذکر کیا تو مجھے لگا جیسے اُس نے مجھ زندگی کی سب سے بڑی خوشی دے دی ہو لیکن میں نے ساتھ ہی فیصلہ تم دونوں پر چھوڑ دیا تھا ۔
“بیٹا بالاج سے جو غلطیاں ہوئی وہ اُسکا بچپنا تھا وہ اب بدل چُکا ہے۔ تم ہم سب کے ساتھ رہو گی خوش رہو گی اس سے زیادہ تو ہمیں کچھ نہیں چاہیے اس لیے تم بھی دل میں کسی بھی قسم کا کوئی ڈر خوف مت رکھو۔ میں جانتا ہوں میری بیٹی بہت سمجھدار ہے وہ رشتوں کونبھانا جانتی ہے۔۔ بیٹا میں چاہتا تو تمہارے کہنے پر مدثر سے وقت مانگ سکتا تھا انکار بھی کرسکتا تھا لیکن بیٹا ہمیشہ ایک بات یاد رکھنا رشتوں میں اگر دلوں میں بال آجائے نا وہ پہلے جیسے کبھی نہیں رہتے ہیں۔۔ مدثر کو انکار کرنے کی ہمت میں کبھی نہیں کرسکتا تھا بیٹا مجھ میں بیٹی کے بچپنے کو دوست کی محبت پر حاوی کرنے کی ہمت نہیں آسکتی ۔مدثر نے میرے ہر برے وقت میں قدم قدم پر میرا ساتھ دیا ہے ۔
اور اُس نے رشتے کی بات حق سمجھ کر اور ایک مان سے کی تھی۔ مجھ میں اُسکا مان توڑنے کی ہمت نہیں تھی ۔اگر اس سب میں تمہارے ساتھ کوئی ذیادتی ہورہی ہے تمہیں لگتا ہے تو اپنے بابا کو معاف کردینا بیٹا۔۔ ”
“نہیں بابا ایسا مت کہے پلیز آپ اور ماموں کو سارے حق حاصل ہیں اور مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں پلیز آپ کی باتیں مجھے تکلیف دے رہی ہیں آپ سب بھول کیوں نہیں جاتے ہیں۔۔؟ آپ بس پُرامس کریں کہ آج کے بعد آپ کچھ نہیں سوچے گے اس بارے میں۔۔ “زمل نے آنسو صاف کرتے ہوئے ہتھیلی سامنے کی ۔
“بابا آپ کو خوش دیکھے گے سب کچھ خود بھول جائیں گے۔ میری بیٹی کا دل بہت اچھا ہے کوئی انسان تمہیں پیار کیے بنا نہیں رہ سکتا۔تم ہمیشہ بہت خوش رہو گی مجھے یقین ہے۔ زمل جس گھر تم جارہی ہو وہاں تمہیں مجھ سے زیادہ چاہنے والے موجود ہیں۔۔ ”
زمل اپنے آنسوؤں پر کنٹرول نہیں کرپائی اور اُنکے سینے سے لگ کر رو دی ۔”
“آج کے بعد تمہیں کبھی نہیں رونا ہے آگے ایک خوبصورت زندگی تمہارا انتظار کررہی ہے ” انہوں نے زمل کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔
“کاش بابا یہ سچ ہوتا لیکن آگے کی زندگی ایک دھوکہ ہوگی جو مجھے گزارنی ہے صرف آپ سب کی محبت میں۔۔
میں خود غرض نہیں ہوسکتی ہوں بس دُعا کیجئیے گا کہ آپکی بیٹی مضبوط رہے رشتوں کو جوڑے رکھنے کی کوشش میں۔۔ ”
****
“اے لڑکی میں نے سنا ہے کہ صبح سے بیمار ہونے کی ایکٹینگ کر کے اور مگر مچھ کے آنسو بہا کر تم نے سب کو اپنے پیچھے لگایا ہوا ہے۔۔؟ حماد نے اسٹیج پر بیٹھی زمل سے مخاطب ہو کر کہا جو کہ زمل کے ساتھ بیٹھا بالاج باآسانی دونوں کی گفتگو سن رہا تھا ۔
“تم تو پھر بھی نہیں گئے تھے اُسکی طبیعت کا پوچھنے۔۔ ” انعم جو زمل کے برابر کھڑی بول پڑی درمیان میں ۔
“تم سے کس نے بات کی میں زمل سے پوچھ رہا ہوں زمل میڈم نکاح نامے پر خاموش رہنے کی شرط تو نہیں لکھی تھی جو آپ کسی کو جواب ہی نہیں دے رہی ہیں۔۔؟ حماد نے زمل کو کافی دیر سے خاموش رہتے دیکھ کر کہا ۔
“ایسی کوئی بات نہیں ہے ” زمل نے جواب دیا ۔
“یہ تم ہی ہو نا۔۔؟ مجھے یقین نہیں آرہا ہے کہ تم اور مجھ سے اتنی تمیز سے بات کر رہی ہو مجھے لگتا ہے بھائی کے ڈر سے شادی سے پہلے ہی خود کو اُنکی پسند کے سانچے میں خود کو ڈھال رہی ہو اب سمجھا ہوں تمہاری خاموشی کا مطلب۔۔ ” حماد مہندی کے فنکش اسٹارٹ ہونے سے پہلے ہی سے اُسے تنگ کرنے میں لگا ہوا تھا ۔
“زمل یلو ڈریس میں پیاری لگ رہی تھی اور بالاج بھی وائٹ شلوار قمیض میں ہینڈسم لگ رہا تھا۔۔ ہر کوئی ان دونوں کی جوڑی کو بہت سرا رہے تھے ”
“حماد میں تمہاری شکایت بابا سے کرتی ہوں کہ تم زمل کو تنگ کررہے ہو۔۔ ” انعم سے اب برداشت نہیں ہوا تھا ۔
“تمہارا یہی کام رہا ہے ساری زندگی آگے باری بھائی کی بھی زندگی ایسے ہی عذاب کرنا تم۔۔ کہا بھی تھا ماما پاپا سے کہ زمل کو تو میں برداشت کر ہی لیتا ہوں پہلے تمہاری شادی کردیں۔۔ ”
“حماد تم بے فکر رہو بہت جلد ہم اسے لےجائیں گے ” ثناء اور نرمین نے اسٹیج پر آتےہوئے کہا ۔
“کیا نرمین باجی اسکی تو فضول بولنے کی عادت ہے آپ کہاں اسکی باتوں میں آرہی ہیں۔۔ ” انعم نے حماد کو گھورتے ہوئے کہا ۔
” جتنی جلدی تمہیں اسے یہاں سے نکالنے کی ہو رہی آٰئی مین کے بھیجنے کی اُس سے کہیں ذیادہ جلدی اسے وہاں لے جانے کی ہے لوگوں کو “باری کو دیکھتے ہوئے انہوں نے اشارے سے کہا ۔
“کیا نرمین باجی آپ بھی اس کے ساتھ مل گئی ہیں “انعم نے جھینپتے ہوئے کہا ۔
“آج تو بہت خوش ہوں گی آپ کیونکہ جو آپ چاہتی تھی وہ جو ہو رہا ہے۔۔ پھر اس سب ڈرامے کا مقصد۔۔؟ ” بالاج نے بظاہر مسکراہتے ہوئے زمل سے پوچھا۔
“آپ سے زبردستی رشتہ جوڑنے کی خواہش کبھی نہیں رہی بالاج۔۔ ” زمل نے دل میں سوچا تھا ”
لیکن بالاج کو اُسکی بات کا کوئی جواب نہیں دیا تھا ۔
****
“بہت ہی خوبصورت لگ رہی ہو زمل۔۔ بالاج بھائی کی تو خیر نہیں آج۔۔ ” انعم کی خالہ زاد کزن نے زمل کو پارلر سے وآپسی پر چھیڑا۔
زمل اُسکی بات پر مُسکرا بھی نہیں سکی تھی ۔
“تم ٹھیک ہو۔۔؟ بھابھی نے زمل کو خاموش دیکھ کر پوچھا ۔
“بھابھی یہ ابھی سے اُنکے خوابوں میں کھوگئی ہیں لگتا۔۔” وہاں موجود سب لڑکیوں نے قہقہہ لگایا ۔
“بارات کے آتے ہی سب وہاں سے جاچُکی تھیں ۔
رخصتی کے بعد سب رسمیں ختم ہوتے ہی زمل کو بالاج کے روم میں بٹھا دیا گیا ۔
“کمرے میں چاروں طرف سرخ گلاب کی پتیوں کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی ۔کمرا بہت ویل ڈیکوریٹیڈ تھا۔ اُسے یاد ہے کہ بچپن کے بعد شاید ہی وہ بالاج کے کمرے میں آئی ہو۔ یہاں کی ہر چیز چینج کردی گئی تھی ۔
“ساری زندگی انسان جس سے بھاگ رہا ہوتا ہے قسمت گُھما کر اُسے وہاں ہی لے آتی ہے۔ ”
“روم کے باہر سے شور کی آوازیں آرہی تھیں ۔”
بالاج نے روم میں قدم رکھا تھا ۔ اور سامنے زمل کو سر جھکائے بیٹھے دیکھ کر اُسکی مسکراہٹ سمٹی تھی ۔
“تم کس امید پر بیٹھی انتظار کررہی تھی۔۔؟ ” بالاج کے الفاظ زمل کے کانوں میں سیسے کی طرح گئے تھے ۔
“بے شک وہ کوئی امید لیے وہاں نہیں بیٹھی تھی لیکن اس قدر تذلیل کا بھی اُس نے نہیں سوچا تھا ۔ پل میں اُسکی انا جاگی تھی ۔”
“میں بھی یہاں شوق سے نہیں بیٹھی تھی مجبوری میں بیٹھی ہوئی تھی۔۔ ” زمل نے سب لحاظ بالائے طاق رکھ کر جواب دیا تھا ۔ اور اپنا لہنگا سنبھال کر بالاج کے سامنے سے گزر کر جانے لگی تھی ۔جب بالاج نے اُسکا بازو کھینچا اور وہ توازن قائم نا رکھ سکتے ہوئے بالاج کے سینے سے ٹکراتی زمل نے اپنے دونوں بازوؤں سے درمیان میں لاکر فاصلہ لے آئی تھی ۔
لیکن پھر بھی اُسکے اتنے قریب ہونے پر وہ اپنی نظروں کو جھکا گئ تھی ۔۔ پر بالاج کے لہجے کی تپش پر اگلے ہی لمحے اُس نے اپنی نظریں اُٹھا کر دیکھا تو وہاں نفرت کے سوا کچھ نہیں دکھا ۔
“تمہاری یہی اصلیت کاش میں سب کو دکھا سکتا تمہارا اصل روپ دیکھ کر کچھ تو دھوکہ ختم ہوتا سب کا ۔
“دھوکہ تو آپ دے رہے ہیں بالاج سب کو۔۔ میرے دھوکہ دینے میں اور آپ کے دھوکہ دینے میں فرق ہے۔۔ آپ کی بلاجواز نفرت نے آپکو دھوکہ دینے پر مجبور کیا ہے اور مجھے سب کی محبت میں اُنکی خوشی نے یہ دھوکہ دینے پر مجبور کیا ہے۔ ” زمل نے اپنا بازو چھڑانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی ۔
“تمہارے اسی ڈرامے نے سب کو آج تک دھوکے میں رکھا ہوا ہے زمل میں مزید نہیں ہونے دوں گا یہ سب۔۔ ” بالاج نے اپنی انگلیاں زمل کے بازو میں پیوست کرتے ہوئے کہا۔۔ بالاج کا بس نہیں چل رہا تھا اپنے سامنے سجی سنوری نازک سی لڑکی کا حشر نشر کردیتا کہ اُسکی پچھلے سالوں کی ہر اذیت کا بدلہ لے لیتا ۔
“بالاج چھوڑیں مجھے تکلیف ہورہی ہے۔۔ ” زمل کی آنکھوں میں درد سے آنسو آگئے تھے ۔ اُسے بالاج کی نظروں سے عجیب وحشت ہوئی اُسکے بس میں ہوتا وہ وہاں ایک پل بھی نا رکتی ۔
“کیوں ابھی سے ہمت ہار گئی تم۔۔ ” بالاج نے مزید زور دے کر کہا ۔اُسے زمل کے آنسو سکون دے رہے تھے ۔
“آہ، آپ انتہائی جنگلی انسان ہیں “زمل سے برداشت نہیں ہوا۔
“آئندہ اگر میرے سامنے ایسی کوئی بکواس کی نا تو وہ حشر کروں گا کہ ساری زندگی یاد رکھو گی کہ جنگلی انسان ہوتا کیسا ہے ” بالاج نے اُسے تھوڑی اوپر کر کے کہا اور زور سے پیچھے کی طرف دھکا دیا ۔خود کوسنبھالنے میں بھی اسکا بازو ڈریسنگ ٹیبل پر لگ کراُسکے ہاتھوں کی کئی چوڑیاں ٹوٹی تھی اور خون کی چھوٹی چھوٹی بوند ابھری تھی ۔
زمل وہاں نیچے ہی بیٹھ کر اپنے منہ سے نکلنے والی سسکیوں کو روکنے کی کوشش کرنے لگی ۔
بالاج شیروانی بدل کر آچکا تھا ۔
“اپنا یہ رونا دھونا کہیں اور جاکر کرو مجھے نیند آرہی ہے ” بالاج نے لیٹ کر لائٹ آف کردی اور نائٹ بلب کی روشنی میں زمل اٹھ کر اپنی ہر تکلیف کو پیچھے دھکیلتی باقی کی جیولری اور چوڑیاں اتار کر چینج کرنے چلے گئی ۔کافی دیر رونے کے بعد بلیو کلر کا پلین ڈریس پہن کر باہر آئی تھی۔
اُسکا سر بھاری ہورہا تھا اُسے یاد آیا صبح ایک کپ چائے کے علاوہ اُس نے پورا دن کچھ نہیں کھایا تھا اور انکار ہی کرتی رہی تھی۔۔ اُسے فیور بھی ہورہا تھا ۔ اس وقت ہر درد اس درد کے سامنے کچھ نہیں تھا ۔ وہ بالاج کے برابر سے تکیہ اٹھا کر صوفےپر لیٹ گئی تھی ۔
“بالاج تم نے یہ شادی کیوں کی تھی میں تمہارا اتنا بھیانک روپ خواب میں بھی نہیں سوچ سکتی تھی ۔ اور آنسو پلکوں کی باڑ توڑکر پھر سے بہہ نکلے تھے ۔
رات کے کسی پہر اُسکی آنکھ لگی تھی رہی سہی کسر سردی نے پوری کردی تھی ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...