ہر زی روح کی زندگی ہوتی ھے، لیکن مکمل طور پر زندگی میں زندہ کوئی کوئی رہتا ھے، زندگی کے کئی روپ اور موسم ہیں- کبھی موسم سرد کا کرب تو کبھی موسم گرما کا درد، کبھی بہاروں کی رعنایاں تو کبھی خزاؤں کی بکھرتی تلخیاں- بدلتے موسم وجود اور ارادوں کے بدلاؤ کا بھی سبب بنتے ہیں- آج میری زندگی کا اک یادگار دن ھے، دل فرط انبساط سے سرشار ھے، زیست کا موسم بہاروں کے چکر کاٹ رہا ھے، خوش ہوں کہ اس سے ملاقات ھے اور افسردہ بھی کہ شاید آخری— آنے والے کل کا غم میری آج کی خوشیوں پر غالب ھے- موسم خزاں قبل از وقت ہی تلخیوں کو بکھیر رہا ھے ۔
میں پارک کے ایک بینچ پر بیٹھے ڈوبتے سورج، چہکتی چڑیوں، جھولتے پتوں اور کھیلتے بچوں کا نظارہ کررہا ہوں، بچوں کو کھیلتے دیکھ کر میرا دماغ میری روح کو بچپن کی وادیوں میں لے اترا ھے، کتنا پیارا وقت تھا، بالکل ان بچوں کی طرح، نہ غم دوراں و جاناں، نہ کرب عشق۔۔ بچے ایک دوسرے کو خوبصورت اور ملائم گھاس پر گھسیٹ رھے ہیں، قبل از وقت ہی مجھے ان بچوں پر ترس آرہا ھے، کسطرح یہ وقت کی ڈور میں لپیٹے جائینگے، آج ایک دوسرے کو پیار سے ملائم گھاس پر گھسیٹ رھے ہیں کل کو وقت انہیں بڑی بے رحمی سے کھردرے رستوں پر گھسیٹے گا، بالکل میری طرح _ سورج ڈوب رہا ھے، خود کو بلند و بالا پہاڑوں کے پیچھے چھپا رہا ھے، جیسے میں اس بھرے ہجوم میں اپنے آنسوں ۔۔۔۔ میرا اکلوتا دوست شعیب خلیل سامنے سے میری جانب اپنے قدموں کو حرکت دے رہا ھے،میری آج کسی سے آخری ملاقات پر میرا دوست مجھے بے تحاشہ تسلیاں دے گا اور دل بہلانے کی ناکام کوشش ۔۔۔۔۔۔
شعیب مجھے خدا حافظ کہہ کر گھر جاچکا ھے، میں بھی اس منزل کی جانب گامزن ہوں جہاں آج کی گئی غلطی کے انجام پر پہنچنا ھے اور سزا بگھتنی ھے۔ آج ہم ہمیشہ کیلئے جدا ہورھے ہیں– اب وہ بالکل سامنے کھڑی میرا اپنی انگلیاں مروڑے بے صبری سے انتظار کر رہی ھے، شاید بہت جلدی ھے بچھڑنے کی –
میں پاس پہنچتا ہوں،
وہ پوچھتی ھے کیسے ہو ۔ ۔ ۔ ؟
کچھ پل اسے دیکھنے کے بعد جواب، بالکل پہلے جیسا، ذرا بھی نہیں بدلا تمھاری طرح، آج بھی محبت کے ہزاروں دیے سینے میں جلا رہا ہوں ___
کیا ھے یہ سب ، میں کہاں بدلی، مجبوریاں لی ڈوبی، اس نے اپنا سکوت توڑا ۔۔
پھر میں نے تنگ آواز میں کہا_مجبوریاں تمھیں اور تم مجھے لے ڈوبی__
مجھے فضول بحث نہیں کرنی، مجھے ساری نشانیاں تھما کر وہ جانے کو ہوئی تو میں نے پکارا،
سنو یہ گانا ضرور سننا “دل میرا چرایا کیوں جب یہ دل توڑنا ہی تھا ہم سے دل لگایا کیوں ہم سے منہ موڑنا ہی تھا” ۔۔۔
اچھا مجنوں! وہ بات کو مذاق سمجھ کر چلی گئی، شاید اسے میری محبت بھی مذاق لگتی تھی__ دو سینوں میں محبت کی آگ جلائی، اپنی تو بجھا گئی پر میری جلتی چھوڑ گئی، منہ موڑ گئی، دل توڑ گئی۔۔۔۔۔ واپس کی ہوئی نشانیوں کو پہاڑی سے پھینک کر کچھ دیر آنکھیں آسمان پر لگائے سوچوں میں گم رہا، اتنے قریب نہ آئی تھی جتنا دور چلی گئی، افسوس 5 منٹ بھی بات نہ کی، دل کی بہت سی باتیں دل میں رہ گئیں_
آسمان سے سوچیں اتارنے کے بعد رسوایاں سمیٹے میں واپس گھر کی جانب پلٹا ۔۔۔
ٹوٹتی امیدوں،ریزہ سپنوں، بکھرے خوابوں اور ادھوری خواہشوں کے ہمراہ میں نے اپنے قدموں کو گھر کی راہ دکھائی تو اچانک میرا فون بجا__
ہیلو! فوڈ سنٹر کے ساتھ والے پارک میں آؤ—
ٹوٹتی امیدوں کو جوڑنے اور بکھرے خوابوں کو پھر سے سمیٹنے لگا، دل خوشی سے جھوم اٹھا کہ شاید اس بار وہ مجھ سے ڈھیروں باتیں کرے گی، بے رخی اور لاپرواہی کو کوسوں دور رکھ کر کچھ پل ہی سہی مگر جھوٹی محبت تو جتائے گی۔۔۔
میں پارک کے گیٹ پر پہنچا، جوں جوں اسکی جانب بڑھتا ہوں وہ مسکراتی ھے، میرا ہر ہر قدم اسکے ہونٹوں پر مسکراہٹیں بکھیر رہا ھے، میری آنکھیں خوشی کے اشکوں سے بھر گئیں، وہ جو کچھ وقت پہلے سیدھی بات نہیں کررہی تھی اب میرے لوٹنے پر کتنی خوش ہورہی ھے، سوچ رہا ہوں پاس پہنچتے ہی وہ میرے لئے رونے لگ جائے گی، آہیں بھرے گی، سسکیاں لے گی، کہے گی میں صرف تمھاری ہوں، میں اپنے رویے پر شرمندہ ہوں– میں سوچ رہا ہوں اسے جلدی معاف نہیں کرونگا، تھوڑا تڑپاؤنگا، پھر کہونگا جو ہوا سو ہوا۔ ۔ ۔ ۔ جتنا قریب ہوتا جارہا ہوں خوشی بڑھ رہی ھے، وہ ابھی بھی مسکرا رہی ھے، میں اسکے پاس پہنچ چکا مگر پھر بھی اسکا مسکرانا جاری ھے ، اسکی نظریں اب بھی وہیں پارک کے گیٹ پر لگی ہیں جہاں سے میں اسکی جانب بڑھا تھا، میں نے مڑ کر دیکھا تو ایک لڑکا تھری پیس میں ملبوس ہاتھ ہلائے ہماری جانب بڑھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...