My heart is beating keep song repeating, I am waiting for you, my love an۔۔۔۔۔۔۔۔۔.
زور زور سے انگلش گانا گاتے ہوئے مائشہ چائے بنانے میں منہمک تھی اور خوش بھی بہت نظر آ رہی تھی آفٹر آل ھود نامی ہٹلر سے پیچھا جو چھوٹ چکا تھا –
“ارے او ناہجار لڑکی، اب میرے ہاتھوں سے دو جوتے کھاوء گی تبھی سدھروگی تم” مریم بیگم کی کڑک دار آ واز سن کر مائشہ جو جلدی جلدی صفائی میں بھی مصروف تھی اچھل پڑی –
“کیا ہوا امی!!؟” ڈرتے ڈرتے پوچھا –
“کیا ہوا؟ کیا تمہیں پتہ نہیں ڈرائنگ روم میں تمہارے ابو کے دوست مولانا عثمان صاحب بھی بیٹھے ہیں -” “سوری امی وہ میں بھول گئی تھی “مائشہ نے شرمندہ سے لہجے میں کہا –
” مولانا صاحب ابھی بات ہی کر رہے تھے کہ زمانہ کتنا بدل گیا ہے. پہلے زمانے کی عورتیں اور لڑکیاں نعت پاک پڑھ کر کام کا آ اغازکیا کرتی تھیں، اور آ ج کل کی لڑکیوں کے زباں پر بس گانا ہو تا ہے، ابھی ان کی با ت جاری رہتی کہ تم گلا پھاڑ پھاڑکر گانے لگیں، قسم سے میں تو ڈر ہی گئی تھی کہ یہ کتو ں کے رونے کی آ واز کہا سے آ رہی ہے، پر جب تمہاری آ واز پہچانی تو مارے شرمندگی کے سر ہی نہیں اٹھا یا گیا ڈرتے ڈرتے نظریں اوپر اٹھا کر دیکھا تو دونوں حضرات مجھے اس نظر وں سے گھور رہے تھے جیسے گانا تم نہیں میں گا رہی ہو ں – مریم بیگم بولتے بولتے روہانسی ہو گئی.
“لیکن امی میں تو انگلش میں گانا گار ہی تھی ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ مولانا صاحب سمجھے ہوں میں کوئی انگلش پوئم پڑھ رہی ہوں “ڈرتے ڈرتے مائشہ نے مریم بیگم سے زیادہ خود کو تسلی دیتے ہوے کہا –
“ہاں تم ہی تو د نیا می ایک پڑھی لکھی ہو، باقی سارے جہاں کے لوگ تو جاہل اور ان پڑھ ہیں نہ ؟ مریم اسکے بات بنانے پر اور بگڑ گئی –
“کیا ہوا آ نٹی؟” راحلہ حسب معمول پیچھے کے دروازے سے اندر آ چکی تھی –
“میں تمہارے ہاتھ جوڑتی ہو ں راحلہ اسے کچھ سکھاوء، ورنہ سسرال جا کے میری ناک کٹواےء گی” مریم بیگم راحلہ سے مخاطب تھی جبکہ مائشہ تلملا کر رہ گئی –
” یہ سسرال ہے کیا بلا، جب بھی کوئی غلطی کرو تو سسرال کا طعنہ میرا تو دماغ خراب ہو گیا ہے سن سن کے” غصے میں مائشہ نہ جانے کیا اول فول بکے جارہی تھی جبکہ مریم بیگم بڑبڑاتے ہوئے باہر جاچکی تھی –
“کیا ہوا؟ تم ہی بتا دو “راحلہ حیرت سے کبھی جاتے ہوئے مریم بیگم کو دیکھتی اور کبھی منہ بنائے کھڑی مائشہ کو دیکھتی اور پوری بات معلوم ہونے پر راحلہ ہنستے ہوئے لوٹ پوٹ ہورہی تھی –
“ہاں ہاں اڑالو ہنسی “-مائشہ نے برا مانتے ہوئے کہا –
“اگر تمہیں اتنا ہی شوق ہے راحت فتح علی خان بننے کا تو پہلے پورے گھر کا دورہ کر لیا کرو کہ کوئی مہمان تو نہیں آ یا ہے پھر اپنا موسیقی کا شوق پورا کیا کرو “راحلہ نے ہنستے ہوئے نصیحت کی جبکہ اس کا منہ حسب معمول پھول چکا تھا-
” اچھا چھوڑ و ایسی غلطیاں ہوتی رہتی ہیں، میں تمہیں ایک چیز دکھانے لائ تھی – راحلہ نے اس کا دھیان بٹانے کے لیۓ سسپینس پیدا کیا-
“وہ کیا -“اب وہ بہت دلچسپی سے راحلہ کی طرف متوجہ تھی –
“یہ دیکھو واثق نے مجھے رنگ گفٹ کی ہے” ایک چھوٹی سی لال رنگ کی مخمل کی ڈبیہ میں اک بہت ہی پیاری ڈائمنڈ رنگ دکھا تے ہوئے راحلہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی –
“واوء یہ تو بہت سندر ہے ” مائشہ کے منہ سے بے ساختہ تعریف نکلا –
“سندر ہے نہ؟ “راحلہ نے پر جوش لہجے میں پو چھا- – “ہاں بہت زیادہ بالکل تمہاری طرح”مائشہ نے پیار سے اس کی ٹھوڑی ہلائی جس پر راحلہ جھینپ سی گئی –
“راحلہ او راحلہ کہاں ہو تم” دیوار کے قریب سے راحلہ کی امی اسے آ واز یں لگارہی تھی –
“اچھا اب بعد میں ملتے ہیں، امی آوازیں لگا رہی ہیں کہہ کر وہ جھپاک سے باہر نکل گئی جبکہ مائشہ مریم بیگم کو منانے کے لئے تر کیبں سو چنے لگی –
☆☆☆☆☆☆
ہاےء مائشہ کیا کررہی ہو؟ مائشہ لان میں بیٹھی کسی گہری سوچ میں گم تھی تبھی پیچھے سے راحلہ کی آ واز نے چونکا دیا –
“کچھ نہیں بس یہی سوچ رہی تھی کہ ایسا کونسی غلطی سرزد ہو گئی ہے مجھ سے جسکی پاداش میں مصیبتیں میرا پیچھا ہی نہیں چھوڑتی “مائشہ نے پریشانی کے عالم میں کہا –
“کیوں کیا ہو گیا، اب کونسی مصیبت نزول ہو گئی ہے تم پر ”
“امی نے میرے لئے ایک عدد لڑکا پسند کر لیا ہے” مائشہ نے پریشانی کی وجہ بتائی –
تو اس میں مصیبت والی کونسی بات ہے “راحلہ نے نا سمجھی کے عالم میں پوچھا –
“اور تمہیں پتا ہے لڑکا کون ہے؟” مائشہ شاید اپنے ہی دھن میں تھی –
کون ہے؟ راحلہ نے بھی فطری تجسس سے پو چھا –
“اپنے چار گھر کے فاصلے پر جو انوار انکل ہیں نہ انکا فرزند راشد بھائ اورغالبا” امی انہیں اک یا دو دن میں ہاں بھی کہنے والی ہیں ” اس نے رونی صورت بناتے ہوئے کہا –
“تو اس میں برائی کیا ہے شادی تو تمہیں کہیں نہ کہیں کر نی ہی ہے تو راشد بھائ کیوں نہیں، وہ پڑھے لکھے ہیں، بر سر روز گا ہیں اور اچھے لوگوں میں شمار ہو تا ہے انکا تو آ خر تمہیں پریشانی کس بات کی ہے “- مائشہ کے رونے کی وجہ ‘راحلہ کی سمجھ سے باہر تھی –
“تم نے دیکھا نہیں راشد بھائی کی توند ہے اور تم تو جانتی ہو مجھے توند والے مرد بڑے ہی زہر لگتے ہیں اور جب وہ کسی بھی بات پر اپنے پیلے پیلے دانت نکال کر ہی ہی ہی ہنستے ہیں نہ تو قسم سے دل کرتا ہے ایک ہاتھ مارکر سارے دانت ہی توڑدوں ” مائشہ نے دانت پیستے ہوئے راشد کا جو جغرافیہ بیان کیا، راحلہ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہورہی تھی –
“اوہ تو یہ وجہ ہے تمھارے پریشان ہونے کی “راحلہ کو اب دھیرے دھیرے بات سمجھ آ رہی تھی –
“اور تم جانتی ہو نہ وہ میرے سامنے کتنے پدی سے لگتے ہیں “مائشہ نے ایک اور خامی گنوائی –
“خیر ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے بس تھوڑا سا ہی تو کم جاتے ہیں تمہارے سامنے ”
“جو بھی ہو میں ان سے شادی ہر گز نہیں کر سکتی، پلیز مجھے بچا لو راحلہ “مائشہ پھر سے رو دینے کو تھی –
“تو اس میں مسلہ کیا ہے تم آنٹی کو صاف لفظوں میں انکار کر دو کہ تمہیں شادی نہیں کرنی “راحلہ نے اپنے تئیں بہت صہیح نصیحت کی تھی –
“میں امی کو منع نہیں کر سکتی، میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ ھود بھائی کے علاوہ میں کسی سے بھی شادی کرنے پر راضی ہوں تو میں اب کس منہ سےانہیں انکار کردوں، میرا منہ ہی توڑ دیں گی وہ تو” مائشہ پر مریم بیگم کا خوف بری طرح حاوی تھا –
“ٹھیک ہے میں کو ئی ترکیب سوچتی ہوں ” راحلہ نے دماغ پر زور دیتے ہوئے کہا –
“سوچو، سوچو یہ تمھاری اکلوتی سہیلی کی زندگی کا سوال ہے ” مائشہ نے بھی ڈائیلاگ جھاڑنے میں کنجوسی نہیں کی –
“اک بہت زبردست آئیڈیا آیا ہے، جس سے آنٹی کو انکار بھی نہیں کرنا پڑے گا اور راشد بھائ سے تمھارا پیچھا بھی چھوٹ جائے گا “راحلہ نے پر جو ش لہجے میں کہا –
“وہ کیسے، جلد ی بتاوء ” مائشہ جو مایوسی سے کرسی پر بیٹھی تھی خو شی سے اچھل پڑی –
“دیکھو، اگر اسی دوران میں ھود سر کا پروپوزل پھر سے تمھارے لئے آجائے تو مجھے نہیں لگتا کہ آنٹی اپنے لائق فائق بھانجے کو چھوڑ کر راشد کا پروپوزل قبول کریں گی، تم آ نٹی کو انکارکرنے سےبھی بچ جاوءگی اور راشد بھائ سے بھی پیچھا چھوٹ جائے گا “راحلہ نے اپنے تئیں بت ہی بہترین آئیڈیا سنا یا تھا جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ” مائشہ جو خوشی سے اچھل پڑی تھی اسکی بات سن کر پھر مایوس ہو گئی –
“میری زندگی میں کیا بس دو ہی مرد رہ گئے ہیں” مائشہ کو تاسف نے آ ن گھیرا –
“فی الحال تو دو ہی ہیں – راشد بھائی سے لاکھ گنا اچھے ہیں سر ھود اوپر سے اتنے اسمارٹ اور ڈیشنگ بھی، راشد بھائی تو پاسنگ بھی نہیں ہے سر ھود کے دونوں کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے”راحلہ نے ھود کی سائیڈ لیتے ہوئے کہا-
“اف اللہ میں کہاں آکر پھنس گئی “مائشہ نے بیچارگی سےکہا –
” سو چ لو توند والے راشد بھائی؟ یا پھر ڈیشنگ سے سر ھود؟ “راحلہ نے ڈرامہ آنداز میں کہا –
“لیکن میں انہیں ریجیکٹ کر چکی ہوں اب کیوں وہ دوبارہ سے پروپوزل بھیجیں گے میرے لے ” مائشہ کے دماغ میں با ت آ چکی تھی اسلئے راشد سے پیچھا چھڑانے کے لئے اسکا ووٹ خود بہ خود ھود کے حق میں چلاگیا –
“اب میں ایسا کیا کرو کہ ھود بھائی پھر سے میرے لئے پروپوزل بھیج دیں “مائشہ نے منت بھرے لہجے میں کہا –
“تمہیں ھود سر کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے پہلے انہیں رجھانا ہوگا”راحلہ نے بات کی ابتدا کی –
“کیا مطلب “مائشہ نے مشکوک نظروں سے گھورا-
“ارے بابا دیکھو تمہیں یاد ہے نہ اس دن تم نے سفید رنگ کا سوٹ پہنا تھا – تو سر نے کسطرح بے اختیار تمھاری تعریف کردی تھی جبکہ تم عام سے حلیے میں تھی – اب کل سفید رنگ کا ہی سوٹ پہن کے اور اچھے سے تیار ہو کے چلنا پھر دیکھنا وہ خود کو تمہاری تعریف کر نے سے روک نہیں پائیں گے –
” تمہیں کیا لگتا ہے، ساری کلاس کے سامنے سر میر ی تعریف کریں گے – نا ممکن!! مائشہ نے نفی میں سر ہلایا –
نہیں، جب سر لیکچر لے کر باہر نکلیں گے تو میں بہانے سے انکے پیچھے جاکر نوٹس کے متعلق ڈسکس کرنے لگ جاوءگی تم بھی میرے ساتھ ہی رہنا اور جب وہ تمہیں دیکھیں گے تو تمھاری تعریف کرنے سے باز نہیں آئیں گے – راحلہ نے چٹکی بجاتے ہوئے سارا مسئلہ حل کر دیا –
“کیا تمہیں سچ میں لگتا ہے ایسا کچھ ہوگا “- مائشہ نے بے یقینی سے پو چھا –
“ہاں – انشاءاللہ – ضرور ایسا ہی ہو گا ” اور ہاں کل اچھے سے تیار ہو کر آنا -، اب چلتی ہو اللہ حافظ کہہ کر وہ گیٹ عبور کر گی-
____________
اگلی صبح راحلہ تیار ہوکر مائشہ کے پاس چلی آئ تو حیران رہ گئی – سفید رنگ کے چوڑی دار پا جامے پر سفید کلر کا کلی والا چھوٹا سا مگر خوب گھیر والا گول فراک جبکہ دوپٹہ رنگین لیا ہوا تھا، میک اپ کے نام پر ہونٹوں پر ہلکا سا لپ گلاس اور کٹا ری آنکھوں میں کا جل کی ایک ہلکی سی دھار جبکہ سیمپو کئے ہوئے بالوں کو ہیئر بینڈ لگا کر سر پر رنگوں سے بھرا دوپٹہ اوڑھ لیا تھا، حسن اور معصومیت کا اگر کوئی ملاپ ہوتا تو وہ مائشہ ہوتی-
“واوء یارا تم تو کوئی اسپرا لگ رہی ہو -“راحلہ تعریف کئے بغیر رہ نہ سکی جبکہ اس ریمارکس پر مائشہ جھینپ سی گئی-” اچھا اب چلو بھی ” مائشہ اس کا ہا تھ کھینچ کر سڑک پر لے آئ جہاں سے انہیں آٹو پکڑنی تھی –
“راحلہ سر آج کالیج تو آئیں گے نہ پتہ چلا میری ساری محنت بر باد گئی-“کالیج پہنچ کر مائشہ نے تشویس بھرے لہجے میں کہا –
“شبھ شبھ بو لو لڑکی، سر ضرور آئیں گے ” راحلہ نے کہا اور اسے لے کر کلاس روم کی طر ف چل پڑی-
“یہ لقمان سر بھی نہ جب دیکھو پکاتے ہی رہتے ہیں” پہلا پر یڈ Bc کا تھا جو لقمان سر لیتے تھے انکے جانے کے بعد مائشہ نے برا سا منہ بناتے ہو ئے کہا –
“وہ دیکھو سر ھود آرہے ہیں ” راحلہ نے اسکی توجہ کلاس روم میں داخل ہورہے ھود کی طرف مبذول کرائی ان کے ساتھ ہی باقی ساری کلاس بھی گڑمارننگ سر بول کر کھڑی ہوگئی –
گڈ مارننگ، پلیز سٹ ڈءون ” بینچ پر کتابیں رکھنے کےبعد چاک لے کر وہ بورڈ کی طر ف مڑگیا، بورڈ پر caning process ہیڈنگ ڈال کر اب وہ اسی کے متعلق سبھی طلبہ کو سمجھا رہا تھا اس دوران اس نے اک غلط نگاہ بھی مائشہ پر نہیں ڈالی –
اک گھنٹے بعد جب وہ کلاس روم سے باہر جانے لگا اتنی دیر میں راحلہ مائشہ کا ہاتھ کھینچ کر ھود کے پیچھے باہر کی جا نب لپکی –
“ایکسکیو ز می سر ” راحلہ نے ھود کو مخاطب کیا –
“یس مس راحلہ اینی پرابلم ” ھود نے مڑ کر بڑی حیران نظروں سے دیکھا کیونکہ یہ پہلا موقع تھا جب وہ خود ھود سے مخاطب تھی – ورنہ ان دونوں کو جھوڑ کر تقر بیا کلاس کی ساری لڑکیاں بہانے بہانے سے اسکے گرد منڑلایا کرتی تھیں –
“سر جو topic آ ج آپ نے پڑھایا ہے اسمییں مجھے کچھ ڈاوءٹس ہے تو کیا آپ کلیئر کرواسکتے ہیں ” راحلہ نے بات بڑھانے کی غرض سے کہا جبکہ مائشہ چپ چاپ کھڑی تھی –
“اچھا ایک کام کرتے ہیں، آ دھے گھنٹے بعد میں فری ہو ں آ پ اسٹاف روم میں آکر مجھ سے سمجھ لیجئے گا “ھود نے عجلت بھرے لہجے میں کہتے ہوئے ایک غلط نگاہ بھی مائشہ پر نہیں ڈالی مانو وہ وہاں ہے ہی نہیں –
“سر آج کل آپ سفید رنگ کا لباس زیب تن نہیں کر رہے، آپ کا تو فیورٹ کلر تھا نہ؟؟ مائشہ کا لٹکا ہوا منہ دیکھ راحلہ کو ڈھیٹ بن کر کہنا ہی پڑا تاکہ اس پر ھود کی ایک نظر پڑجا ئے-
“نہیں، مجھے سفید رنگ با لکل بھی پسند نہیں اور اگر کو ی پہن بھی لیتا ہے تو ایسا گمان ہو تا ہے جیسے کفن پہن لیا ہو، ھود نے بے تاثر لہجے میں کہا جبکہ لفظ کفن پر تو مائشہ دہل کے رہ گئی –
“لیکن سر آپ کو تو بہت پسند تھا نہ سفید رنگ ” راحلہ نے سکتے کی حا لت میں پوچھا –
“تھا پر اب نہیں ہے “کہہ کر ھود رکا نہیں لمبے لمبے ڈگ بھرتے آگے بڑھ گیا –
“کمینی میری بے عزتی کرواکے مل گئی تمھارے کلیجے کو ٹھنڈک ” مائشہ دانت ہنستے ہوئے راحلہ پر الٹ پڑی –
“دل چھو ٹا نہ کر و مائشہ ہم اتنے جلدی ہار نہیں مانیں گے – اور بھی طریقے ہیں سر ھود کو منانے کے ” راحلہ نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا –
“تمہیں کیا لگتا ہے اب میں انہیں مناوءں گی؟؟ منائے میری جوتی، ارے اب تو میں انکی شکل بھی دیکھنے کی روادار نہیں “مائشہ نے بھپر کے کہا-
“سوچ لو پھر زندگی بھر راشد بھائی کا چھلے ہو ئے انڑے کی طرح منہ دیکھتے رہنا ” راحلہ نے ا سے ڈرانے کی بھر پور کو شش کی – اب وہ مسکین سی صورت بناےء کہہ رہی تھی –
“راحلہ اب میں کیا کرو ں؟؟ ”
“ہم ہمت نہیں ہاریں گے – اب میں کو ئی نیا آئیڈیا پلان کروں گی فی الحال چلو اگلی کلاس کر تے ہیں – راحلہ نے کہا اور اسکا ہاتھ پکڑ کے کلاس روم کی طرف چل پڑیں –
” نہیں میں اگلی کلاس نہیں کروگی – اب میں گھر جانا چاہتی ہوں “- مائشہ نے اسکا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا –
“کیوں ؟ ابھی تو صرف دو ہی کلاس ہوئی ہے” – راحلہ نے حیرت سے اسے دیکھا –
“دیکھو یہ سارے لوگ مجھےکیسے گھور گھور کے دیکھ رہے ہیں -شاید انہیں بھی لگ رہا ہیں کہ میں نے کفن پہن لیا ہے- مائشہ کے دماغ پر ھود کی بات بری طرح حاوی ہو گئی تھی شاید –
“پاگل مت بنو, وہ تو سر خفا تھے اس لئے کہہ گئے ورنہ سفید رنگ تو اللہ رب العزت کا پسندیدہ رنگ ہے، اپنے دماغ سے یہ فتور نکال دو “راحلہ نے اس کے سر پر ہلکا سا چپت لگاتےہوئے کہا-
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...