ہماری تہذیب دائیں ہاتھ سے کام کرنے والی ہے۔ دروازوں کے ہینڈل، فریج کے دروازے، نٹ بولٹ کسنا، پنکھے کا ریگولیٹر (dimmer)، گاڑی کا انڈیکیٹر سوئچ وغیرہ سب کچھ دائیں ہاتھ والوں کے لیے بنے ہیں۔
زبان اور محاوروں میں بھی دایاں ہاتھ حاوی ہے۔ دستِ راست بھی دایاں ہاتھ ہے۔ نر بچہ دائیں خصیے کی پیداوار ہوتا ہے، حمل دائیں طرف سے بھاری ہو تو بیٹا پیدا ہوتا۔ دائیں ہاتھ سے پانی پینا باعث ثواب بھی ہے۔ رائٹ بھی خدا سے تصدیق یافتہ ہے، جبکہ لیفٹ منحرف۔
دنیا میں دس سے پندرہ فیصد بائیں ہاتھ سے کام کرنے والے لوگ ہیں۔ یعنی دنیا کی آبادی کا تقریباً دس بارہ فیصد لیفٹ ہینڈڈ ہے۔ ہم دائیں ہاتھ کو سیدھا ہاتھ اور بائیں کو الٹا ہاتھ کہتے ہیں۔ ہم نہ صرف چیزوں کو اُن کے متضاد کے حوالے سے بلکہ اپنے نقطۂ نظر سے بھی دیکھنے کی عادت ہے۔ زمین گھومتی ہے اور ہمارے گھر والا حصہ اُس کی روشنی کے سامنے آتا ہے تو ہم کہتے کہ سورج ’’نکل آیا‘‘ ہے (حالانکہ وہ نہیں ڈوبتا)۔ اگر کوئی کہے کہ زمین گھوم گئی ہے تو عجیب لگے گا، اور شاید سمجھ بھی نہ آئے۔
مختلف چیز اجنبی ہے، مکروہ اور ناقابلِ قبول ہے، خلاف وضع اور کجرو ہے۔ کوریا والے کتا کھاتے ہیں۔ چینی مینڈک کھاتے ہیں۔ غالباً مالکیوں کے خیال میں کچھوے کھانا بھی جائز ہے کیونکہ ’’جو چیز پانی میں ہو پاک ہوتی ہے۔‘‘
اپنے جیسے یا قبول وضع کے مردود ترین لوگ بھی ہمیں اچھے لگتے ہیں۔ ہمیں اپنے سے مختلف لوگوں کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے جیسوں سے تھک گئے ہیں۔ لیکن خواہ مخواہ کی امید پرستی بھی صحت کے لیے اچھی نہیں۔ یہ آدمی خلافِ معمول ہے۔ ہم معمول کے پرستار ہیں. ہم اِس پر ہنسیں گے اور اِسے تضحیک کا نشانہ بنائیں گے۔ ہم تو نرالے ذہن اور خیال تک کو قبول نہیں کرتے، یہ تو پھر جسم ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...