ساجد اب نتاشا کو دیکھتا تو بچے اختیار اسے اس پر پیار ا جاتا۔ اسے اب وہ عروبہ سے بھی زیادہ پیاری نظر آتی۔ ابھی اس بات کو اوپن نہیں کر سکتا تھا جب تک عروبہ کی شادی نہ ہو جاتی۔ وہ جانتا تھا کہ نرگس بہن سے بہت پیار کرتی ہے اسی وجہ سے اس نے عروبہ جیسی پھوڑ لڑکی کو اپنے اکلوتے بیٹے کے لیے قبول کیا۔ جس طرح وہ خود سلیقہ مند ہے ایسی لڑکی کا وہ سوچ بھی نہ سکتی تھی۔ اب عروبہ بھی اس کی زمہ داری تھی۔ اسے وہ جلد رخصت کرنا چاہتا تھا تاکہ پھر وہ بیٹی کے رشتے کو اوپن کر سکے۔ ہما سے اس کے باپ کا اتا پتا پوچھ کر اس کی امانت اس کے حوالے کرے گا۔ اب وہ نتاشا کے رشتے پر بھی پریشان تھا اب اسے نتاشا کا رشتہ بھی معیار کا نہ لگ رہا تھا اس نے تو چھان بین بھی نہ کی تھی۔
ہما اور نتاشا کے ساتھ اب ساجد کا رویہ بہت اچھا ہو گیا تھا سب یہی سمجھتے تھے کہ عروبہ کے سسرال کی وجہ سے اس نے یہ رویہ اپنایا ہے۔ گھر کا ماحول پرسکون ہو گیا تھا عروبہ اگر کھبی نتاشا کو کچھ کہتی تو ساجد سختی سے ٹوک دیتا۔ اب وہ ساجد کے سامنے کچھ کہنے سے احتیاط برتنے لگی تھی۔
ہما خوش تھی اور وہ عروبہ کی شادی کی تیاریاں زور و شور سے کر رہی تھی۔ اچانک نرگس اور سعد آ گئے۔ نرگس نے لکھوانے پر منہ بنایا ہوا تھا سعد نے سمجھا بجھا کر ماں کو منا کر لایا۔ ہما نرگس کو دیکھ کر کھل گئی وہ بھی منہ بناے بناے بہن کو دیکھ کر پگھل گئی اور گلے ملی۔ نتاشا نے سلام کیا اس نے منہ ہلا کر جواب دیا۔
سعد نے صاف بتا دیا کہ اسے دو یا تین جوڑوں سے زیادہ نہیں چاہیے ان کا کوئی بیٹا نہیں ہے اور داماد سے لیتے ہوئے ان کو غیرت آے گی جتنا بھی ہو پیسہ اپنے بڑھاپے کے لیے سنبھال کر رکھیں۔ ان کو جب بھی بیٹے کی ضرورت ہو گی وہ ان کا سہارا بنے گا۔
ساجد دل میں پچھتانے لگا کہ اتنا اچھا لڑکا اور اتنے اچھے خیالات والا کاش اس کی بیٹی کے نصیب میں ہوتا۔
عروبہ نرگس سے پہلے کی طرح گلے میں بازو ڈال کر فری ہو رہی تھی کہ نرگس نے ٹوک دیا کہ اب بڑی ہو جاو اب یہ بچگانہ حرکتیں چھوڑ دو۔ نتاشا کی طرح بنو۔ ورنہ نتاشا تمھاری بہن تو نہیں ہے نا تو میری ساس کہہ رہی تھی اگر عروبہ نہ چل سکی تو نتاشا کو بھی بیاہ کر لے اوں گی۔ اگر تم نے اپنے آپ کو نہ بدلا تو سعد بھی دادی کے آگے نہیں بولتا دادی اسی شرط پر مانی تھی کہ وہ نہ چل سکی تو وہ اس کی نتاشا یا نتاشا جیسی دوسری لے آہیں گی۔ تم دو بیویوں کے خرچے آسانی سے اٹھا سکتے ہو اور سعد کو اپنی قسم دی تھی کہ نسل خراب نہیں کرنی ایسی لڑکی کے ساتھ۔ سب سن کر دنگ رہ گئے۔
عروبہ نے چلا کر سعد سے کہا کہ کیا یہ سچ ہے تو وہ صاف گوئی سے بولا ہاں سچ ہے اگر تم نہ بدلی تو میں دادی کی قسم کو نبھانے پر مجبور ہو جاوں گا بس تم دادی اور سب کو خوش کر دو۔ شادی کو سیریس لو۔
اس نے چیخ چیخ کر رونا اور سعد کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا تو سعد نے اسے آرام سے سمجھایا کہ میرے دادی اد اسٹیج پر ہیں کہ وہ میری خوشی دیکھ کر مرنا چاہتی ہیں اور اگر اس طرح کا رویہ برقرار رکھا تو میں دادی کی خوشی پوری کرنے کے لیے پہلے کسی اور سے شادی کر لوں گا شکر ہے آج وہ ساتھ نہیں ہیں ورنہ وہ مجھے ابھی ساتھ لے جا کر کسی نتاشا جیسی گھریلو لڑکی سے نکاح کروا دیتی۔ عروبہ نے کہا کہ دیکھا ڈیڈ اس نے ہم سب کو دھوکہ دیا ہے اس بات کو سب سے چھپا کر۔
سعد نے گرج کر کہا کہ میں نے کسی کو دھوکہ نہیں دیا پوچھ لو اپنے والدین سے۔ ان کو سب بتایا تھا۔
نرگس نے تپ کر کہا کہ اس وقت ساجد منتیں ترلے کر رہا تھا کہ ایک موقع دے دو میں اسے سدھار لوں گا۔ وہ کچھ اور بھڑاس نکالتی سعد نے ماں کو ٹوک دیا۔
دراصل ساجد نے جو ایک نکاح کے وقت طلاق کی صورت میں ایک کروڑ لکھوایا تھا تو نرگس کو ساس سسر نے بہت طعنے دیے تھے کہ وہ خاک اپنے ہوے کہ ان کو اعتبار ہی نہیں ہے ایک تو اپنی نکمی لڑکی کو منتیں کر کے ہمارے سر مونڈھا اوپر سے اسے بسانے کا پکا کام کر دیا۔ ساس تو ہر وقت جان کھاتی رہتی اوپر سے نند نے بھی سنا دی۔ پھر جہیز بھی بیٹا لینے نہیں دے رہا۔ اس لیے اب وہ نتاشا کا رشتہ کر کے پچھتا رہی تھی۔
ساجد نے پہلی بار عروبہ کو سنا دیں کہ اس نے اسے ابھی سے سب کے سامنے زلیل کروانا شروع کر دیا ہے وہ تڑخ کر بولی ڈیڈ آپ مجھے سب کے سامنے زلیل کر رہے ہیں آپ نے مجھے دھوکہ دیا۔ ہما نے اسے ڈانٹا کہ باپ سے تمیز سے بات کرو تو اس نے ہما سے بھی بدتمیزی شروع کر دی کہ آپ بھی دھوکے باز ہیں۔ میں شادی کے بعد آپ لوگوں کی شکل تک نہیں دیکھوں گی۔ سعد پلیز مجھے یہاں سے لے چلو۔
ساجد نے اندر جا کر نکاح نامہ لے کر آیا اور سعد سے بولا اصل چیز نکاح ہوتی ہے میں نے وہ فرض پورا کر دیا ہے میں اسے اسی وقت اس گھر سے رخصت کرتا ہوں اور اس سے ہمیشہ کا ناتہ توڑتا ہوں۔ سب ہکا بکا رہ گئے۔
ہما نے روتے ہوئے کہا کہ بیٹیاں ایسے تھوڑی رخصت کی جاتی ہیں۔ سعد نے کہا کہ چلو عروبہ اور اس گھر سے سوئی بھی مت اٹھانا میں سب لے دوں گا۔ وہ اتراتے ہوئے بولی ٹھیک ہے چلو میں ان سب سے سخت ناراض ہوں۔
نتاشا اگے بڑھی اور عروبہ سے لپٹنے لگی تو اس نے اسے زور سے دھکہ دے دیا وہ دور جا گری اور دیوار کا کونا لگا اور اس کے سر سے خون نکل آیا۔ سعد آگے بڑھا تو اتنے میں ہما اسے اٹھا کر اس کے سر پر دوپٹہ رکھ چکی تھی۔
ساجد نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا کہ خدا کے لیے اسے یہاں سے لے جاو اور جو اس سے ناتہ رکھے گا سامنے یا خفیہ میں اس سے بھی ناطہ توڑ لوں گا۔ سعد نے عروبہ کا بازو پکڑا اور کہا چلو۔ وہ چل پڑی۔
نرگس نے حواس باختہ کہا کہ تمھاری دادی اسے گھسنے دے گی وہ بولا اپ چلیں تو سہی۔ نرگس سر تھامے باہر نکل گئی۔
ساجد نتاشا کو ہاسپٹل لے کر گیا اور واپس آ کر اسے روتے ہوئے گلے لگا کر سچائی بتانے لگا کہ اس نے ان دونوں کی گفتگو سن لی تھی۔ دونوں حیران ہونے لگیں۔ نتاشا بھی تڑپ تڑپ کر باپ کے گلے لگ کر روئی۔ ساجد بھی پھوٹ پھوٹ کر رویا اور ان دونوں سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنے لگا۔
ساجد پیار سے اسے دوائی کھلاتا اور چند دنوں میں اس کے زخم مندمل ہو گیے۔ ساجد اسے بازار لے کر گیا اس کے لاکھ منع کرنے کے باوجود اسے اموشنل کر کے دونوں ماں بیٹیوں کو خوب شاپنگ کروائی۔
سارے گھر کو نتاشا کی پسند سے کلر کروایا اور اسے اپنا کمرہ دیا اور خود عروبہ والا روم لیا تاکہ نتاشا کو محسوس نہ ہو۔ سارا فرنیچر نتاشا کی پسند سے نیا لیا۔ گھر کی لک ہی بدل دی۔ نیے کرٹن ڈرائنگ روم کی سجاوٹ سب نتاشا سے پسن کروایا۔ خالہ پڑوسن نے کہا کہ وہ نتاشا کے لیے بہت خوش ہے پر اس کے رشتے سے خوش نہیں جواب میں ساجد کچھ نہ بولا۔
ایک دن ساجد گھر آیا تو بہت پریشان تھا ہما نے پوچھا کیا بات ہے نتاشا پانی کا گلاس لے آئئ۔
ساجد نے سر پکڑ کر بتایا کہ نتاشا کے رشتے والے فراڈی نکلے لالچ میں اپنے سگے بیٹے کو پرایا بتایا اس نے سن لیا تھا کہ مجھے گھر داماد چاہیے تو اس نے سوچا کہ ایک بار شادی ہو جائے پھر دیکھا جائے گا مجھے اتفاق سے پتا چل گیا۔ نتاشا کے ہاتھ سے پانی کا گلاس چھوٹ گیا اور وہ روتی ہوئی کمرے میں چلی گئی۔ ہما اور ساجد اسے سمجھانے گئی تو وہ بولی ایک آس لگی تھی ماں باپ کے ساتھ ہمیشہ رہنے کی وہ بھی ٹوٹ گئی۔ اب آپ لوگ مجھے کسی اور سے بیاہ دیں گے اور مجھے آپ لوگوں سے دور جانا پڑے گا۔ دونوں اس کی معصومانہ بات پر مسکرانے لگے۔ اور وعدہ کیا کہ وہ اسے اپنے سے جدا نہیں کریں گے۔ وہ خوش ہو گئ۔
ساجد نے سوچا جب سے عروبہ گئ ہے زندگی کتنی پرسکون ہو گئ ہے گھر کا ماحول کتنا پرلطف ہو گیا ہے۔ سب اکٹھے کھاتے پیتے شام کو واک پر جاتے۔ رات کو مارکیٹ سے اہسکریم کھانے جاتے۔ کھبی باہر گھومنے پھرنے چلے جاتے۔ ایک بار بھی ساجد نے عروبہ کا نام نہ لیا نہ ہی ہما اور نتاشا نے اس کی ناراضگی کے سبب کھبی اس کے سامنے زکر نہ کیا۔
آج بھی ہما عروبہ کو یاد کر کے آبدیدہ ہو رہی تھی اور نتاشا اسے تسلی دیتے ہوئے خود بھی رو رہی تھی ماں نے دلار سے کہا کہ تجھے تو وہ تنگ کرتی تھی پھر تو اسے یاد کر کے کیوں روتی ہے تو وہ بولی نتاشا میری بہن ہے۔ وہ سمجھے نہ سمجھے مگر آپ کی تربیت نے مجھے رشتوں کا مان سکھایا ہے جو میں نبھاتی رہوں گی۔
اچانک سعد اس کا باپ، دادا اور نرگس ا گئے۔ ساجد نے ان کو عزت سے بٹھایا اور ہما کو چاے بنانے کا کہا۔ نرگس نتاشا کو لپٹا لپٹا کر والہانہ پیار کرنے لگی اور میری بھانجی میری بھانجی کہہ کر اسے چومنے لگی۔ پھر ہما سے لڑنے لگی کہ تم نے میرے ساتھ دھوکہ کیا اپنی نند کی اسی جیسی بدتمیز بیٹی کو میرے ہیرے جیسے لال کے ساتھ پھنسا دیا کاش مجھے نکاح سے ایک منٹ پہلے بھی پتا چلتا تو میں کھبی نکاح نہ ہونے دیتی۔ شور سن کر سعد ا گیا اور ماں سے بولا ماما وہ میری قسمت میں لکھی نہ ہوتی تو میرا اس سے کھبی نکاح نہ ہوتا بس اب صبر شکر کر کے بیٹے کی شادی کی خوشی مناہیں۔ اور ہاں نتاشا تمہیں بھی والدین مبارک ہوں اور ہنس کر ماں کی طرف اشارہ کر کے بولا اور خالہ بھی۔
ساجد بڑی مشکل سے سعد کی شادی پر جانے پر راضی ہوا۔ ہما رو رہی تھی آخر نرگس کو ترس آ گیا۔ ہما نے معافی مانگی تو نرگس نے گلے لگا لیا۔
ساجد نے آنے کا وعدہ کر لیا۔
ہما اور نتاشا شوق و دلچسپی سے عروبہ کا حال احوال پوچھ رہی تھی۔ ان کے جانے کے بعد ساجد نے اجازت دے دی کہ شادی پر جانے کے لئے شاپنگ مال چلیں۔
سعد جب عروبہ کو ساتھ گاوں لے کر گیا تو دادی نے اس طرح آنے پر کافی احتجاج کیا کہ گاوں بھر میں ہماری عزت ہے۔ اور ہم گاوں والوں کو کیا کہیں گے کہ کیوں ادھر آئی ہے۔ بڑی مشکل سے دادی کو کول کیا گیا کہ اس مسئلے کا کوئی حل سوچتے ہیں۔ عروبہ جو خوشی خوشی ادھر آئی تھی تو اس کو سمجھ ا گئ کہ شادی کو نبھانے کے لیے سب کچھ سہنا پڑے گا ورنہ دادی سعد کی کسی گھریلو لڑکی سے شادی کر وا دے گی۔ وہ اس کمزور سی بوڑھی انپڑھ عورت کی value دیکھ کر حیران رہ گئی سب اس کی مانتے تھے اس کو ایک پیر کا درجہ دیتے تھے۔ نرگس بھی اس کی خوشامد اور خدمت میں لگی رہتی تھی۔ سعد نے تو آتے ساتھ ہی اسے وارننگ دے دی تھی کہ اس گھر میں سب کو خوش رکھنا ہے ورنہ مجھے ان کی خوشی پوری کرنے کے لیے وعدہ پورا کرنا پڑے گا اب تم پر ہے کل تک مجھے بتا دینا ورنہ مجھ سے کوئی امید نہ رکھنا۔ اگر میرے ساتھ رہنا نہیں چاہتی تو تب بھی بتا دو۔ یہ کہہ کر وہ باہر نکل گیا۔ نرگس خالہ بھی ساس کے پاس بیٹھی اس کے آنے کی صفائیاں دے رہی تھی۔
گاوں کا گھر بڑا سا اور درمیانے درجے کے فرنیچر سے آراستہ تھا۔ اٹیچ باتھ اور بڑا سا کچن تھا کافی کمرے تھے۔ نرگس کی نند باہر سے آ گئ اپنے شوہر اور بچوں کے ہمراہ۔ اس نے جو بات عروبہ کے بارے میں سب کو بتائ وہ سب کے لیے کافی حیران کن تھی اور عروبہ کے لیے کسی بم سے کم نہ تھی۔ کہ وہ نرگس کی نند کی سوتیلی بیٹی تھی اس کے شوہر نے شادی کے بعد بیوی کو عروبہ کی ماں کے ساتھ شادی اور بچی کا بتایا تھا اس کی اور بچی کی وفات کا بھی بتا دیا تھا۔ وہ اس وقت ایک گاوں کی مڈل پاس دبی ہوئی لڑکی تھی پہلے دن ہی اس کے شوہر نے اس کو عروبہ کی ماں کا بتا دیا تھا کہ وہ اس کو پسند کرتا ہے اور اس سے شادی کر چکا ہے۔ حالانکہ اس نے ابھی اس سے شادی کی نہیں تھی مگر اس لیے بولا کہ اگر وہ یہ کہتا کہ وہ اس سے ابھی شادی کرے گا تو وہ کوئی رکاوٹ نہ ڈال دے۔ اس کے شوہر نے اس سے کہا کہ وہ والدین کی پسند ہے اسے ماڈرن لڑکیاں پسند ہیں۔ اگر اس نے والدین کو خوش رکھا تو وہ بھی اسے خوش رکھے گا اور ویسے اس کے تمام حقوق پورے کرتا رہے گا۔ تب سے اس کی اس پینڈو بیوی نے اپنے آپ کو ماڈرن لڑکی میں ڈھال لیا ڈرائیونگ سیکھ لی۔ انگلش لینگویج کا کورس کر لیا اور ساس سسر سے آگے پڑھنے کی خواہش ظاہر کر دی اور اب ایم اے کر چکی تھی۔ اس کے تین بیٹے پیدا ہوئے تو ساس سسر کی وہ منظور نظر بن گئ۔ وہ لوگ آزاد خیال تھے اور اسے کسی بات سے نہ روکتے تھے بلکہ خوش ہوتے تھے کہ اس نے ترقی کی اور اب وہ اسے ہر کسی سے فخر سے ملاتے تھے۔ اس نے شوہر سے کہا کہ اگر اس کی بیٹی زندہ رہتی تو وہ اسے پالتی۔ اب اس کے شوہر نے ہما کو پہچان لیا اور عروبہ کے طورواطوار ماں جیسے تھے پھر اس نے سنا کہ اس کی ایک بیٹی ہے اور دوسری نند کی ہے جس کے والدین فوت ہو چکے ہیں تو اسے یقین ہو گیا کہ وہ اسی کی بیٹی ہے۔اس نے بلا خوف بیوی کو سب بتا دیا کہ نہ جانے ہما نے اس کے ساتھ جھوٹ کیوں بولا تھا مگر اب وہ اپنی بیٹی کو اپنا نام دے گا۔ بیوی پہلے حیران ہوئی پھر دوراندیشی اور سمجھداری سے کام لیتے ہوئے شوہر کا ساتھ دینے لگی۔
اب پاکستان ا کر عروبہ کو اس کے والد نے سچائی بتا دی۔ اس کے بھائی بہن کو پا کر نہال ہو گئے۔ ایک عروبہ سے بڑا تھا اور دو چھوٹے تھے۔ وہ چھوٹے تو آپی آپی پکارتے نہ تھکتے جبکہ بڑا اسے شفقت سے پیش آتا۔
اب اس کی شادی کی تیاریاں عروج پر تھی۔ عروبہ کے باپ نے اس کی شادی کی زمہ داری لے لی تھی۔ گاوں میں ہی شادی ہونا قرار پائی ولیمہ صرف دو دن کے گیپ سے شہر کے مہنگے ہوٹل میں ہونا قرار پایا۔
ساجد اور اس کی فیملی کے لیے الگ کمرے میں انتظام کیا گیا۔ نتاشا ہر کام میں نرگس کا ہاتھ بٹاتی رہی۔ عروبہ قسمت کے اس کھیل پر حیران اور دکھی تھی۔ پرانے رشتے دور جا چکے تھے اور نیے رشتے بن چکے تھے وہ کم عرصے میں ہی دب سی گئی تھی اب اس کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا سوتیلی ماں بظاہر تو اچھی تھی مگر عروبہ اس کے آگے دب سی گئی تھی۔ اس نے سوچا نتاشا کو بھی اس نے دبایا ہوا تھا اب شاید اسی کی بدعاہیں لگی تھی۔ اب اس کو اپنی زیادتیوں کا احساس ہو رہا تھا کیونکہ نتاشا کا رشتہ نرگس کی نند نے کر لیا تھا اور اس کی شادی دھوم دھام سے ہوئی تھی اس کی سوتیلی ماں نے بیٹے کی شادی میں خوب ارمان نکالے تھے وہ گلہ بھی نہ کر سکی تھی اس کی جرات ہی نہ تھی۔ نتاشا بیاہ کر امریکہ چلی گئ تھی اور بہت خوش تھی اس کی امد پر گاوں میں خوب تیاریاں کی جاتی تھی اور عروبہ کو ان کی خاطرداری میں سارا دن کچن میں گزارنا پڑتا تھا۔ اس کا سگا باپ بھی بس اس کا رشتہ اوپن کر کے بیگانہ ہو گیا تھا کھبی کبھار فون کر دیتا یا کچھ رقم اسے دے جاتا اس نے شادی کے بعد بیٹے کو جنم دیا تھا مگر وہ ہر وقت نرگس کی تحویل میں رہتا۔ اسے بیٹے کے لیے بھی ترسنا پڑتا۔ سعد شادی کے ہفتے بعد ہی چلا گیا تھا اور سال بعد ایک ماہ کی چھٹی آیا مگر اسے ساتھ نہ لے کر جا سکتا تھا۔ نرگس اور دادی کے طعنے سن سن کر وہ سوچتی کسی پر طنز کرنا دوسرے کو چھری مارنے کے برابر ہے اس نے نتاشا پر طنز کے تیر چلاے تھے کیا اسے بھی اتنی تکلیف سہنی پڑتی ہو گی۔
اس کا غرور چکنا چور ہو چکا تھا۔ اگرچہ دادی فوت ہو چکی تھی مگر نرگس نے اس کی جگہ سنبھال لی تھی وہ اس سے سارے گھر کے کام کرواتی۔ اب وہ پکی دیہاتن لگنے لگی تھی۔ سر پر ہر وقت دوپٹہ، کپڑے سادے اور سستے سعد تو اسے پھنسا کر چلا گیا تھا سال بعد ایک ماہ کی چھٹی آتا تو وہ سب کے ملنے ملانے اور اپنی ماں کے پاس بیٹھنے میں ہی گزر جاتا۔ دو سال بعد وہ فیملی کو بلا سکتا تھا مگر نرگس پوتے کے بغیر نہیں رہ سکتی تھی اس لیے سعد نے عروبہ سے کہا کہ بچے کو دادی کے پاس چھوڑ کر جا سکتی ہو تو چلو۔ مگر اس بھری دنیا میں اب ایک بچہ ہی اسے اپنا لگتا تھا۔
نتاشا نے بچے کو جنم دیا تو اس کا خوب جشن منایا گیا اور پاکستان آ کر اس کا شاندار عقیقہ کیا گیا بڑی شہر کی مارکی میں اس کی سالگرہ کی گئی۔ جبکہ عروبہ کے بچے کا عقیقہ گاوں میں کیا گیا۔
عروبہ ملک سے باہر جانے کا شوق رکھتی تھی مگر ملک کیا وہ تو گاوں سے شہر بھی اپنی مرضی سے نہ جا سکتی تھی۔ اس کو ڈرائیونگ آتی تھی مگر وہ کہاں جاتی۔
نتاشا نے بھی پاکستان میں ہی باپ سے ڈراہیونگ سیکھ لی تھی اس کا شوہر اس پر جان دیتا۔ وہ پاکستان آتی تو ساس اسے اکیلے شوہر کے ساتھ جب چاہے جدھر چاہے جانے دیتی۔ وہ میکے بھی چلی جاتی۔ ملکوں ملکوں سیر کرتی اور عروبہ اس کے قیمتی لباس اس کے بچے کے قیمتی لباس اس کے ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر اہ بھر کر رہ جاتی۔
نتاشا میں غرور نام کو نہ تھا گاوں والوں سے بھی بہت بااخلاق طریقے سے ملتی۔ سب اس کی تعریف کرتے۔ نتاشا عروبہ کی پسند کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی پسند کا میک اپ اس کے بچے کے لیے بھی ڈھیروں گفٹ لاتی۔ نرگس عروبہ کی موجودگی میں اس پر واری صدقے جاتی۔ جبکہ عروبہ کو طنز کا نشانہ بناتی رہتی۔ اس کو کہیں جانے نہ دیتی کوئی شاپنگ نہ کرنے دیتی غرض بہت کنجوسی کرتی۔ عروبہ ساجد پر حیران ہوتی کہ کہاں وہ ہما سے سیدھے منہ بات نہ کرتا تھا اب جب سے اس نے ہما سے بدتمیزی کی تھی اس نے اسے گھر سے ہی نکال دیا تھا اور بڑی مشکل سے ہما کے سمجھانے پر اس سے راضی تو ہو چکا تھا مگر اب فالتو لفٹ نہ کراتا تھا۔ بس ایک ہما ہی تھی جو اس کو ماں کی طرح چاہتی تھی۔ روز فون کرتی تو عروبہ اس کے فون سے جی اٹھتی۔ ہما اسے نرگس سے بمشکل اسے گھر لانے کی اجازت مانگتی مگر وہ ساتھ ضرور آتی اور دو دن رہ کر چلی جاتی وہ عروبہ پر پوری نظر رکھتی۔ سعد سے بات کرتے وقت بھی سامنے بیٹھ کر اسے دیکھتی رہتی تو عروبہ کی جرات نہ ہوتی کہ وہ نرگس کی شکایت لگا سکے۔ عروبہ ہما کے گھر کو دیکھتی تو سوچتی اسے اب سٹور میں سونا پڑتا ہے جہاں نتاشا سوتی تھی اور نتاشا اور اس کا شوہر کمرے میں سوتے عزت سے رہتے اور نرگس ان کی خدمت پر اسے لگاے رکھتی۔ نرگس نتاشا کو بیٹی کہتی۔ جبکہ عروبہ کو لگتا نتاشا نہیں اس کی نند آ گئ ہے۔
وقت کا پہیہ کیسے گھومتا ہے۔ عروبہ کو غرور کی سزا مل چکی تھی اور نتاشا کو صبر کا پھل۔ اب اسے اپنی زیادتیوں کا احساس ہونے لگا تھا اور اس نے اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنی شروع کر دی تھی بےشک وہ بڑا غفور روحیم ہے۔ سچے دل سے توبہ کرو پھر اس پر قاہم رہو تو وہ ضرور سنتا ہے۔ اب تو عروبہ نے نماز وغیرہ کی پابندی بھی شروع کر دی تھی۔
ہما نرگس کو عروبہ کی فیور میں سمجھاتی کہ وہ اس پر اتنی سختی نہ کرے اسے شہر شفٹ ہونے دے تو وہ تڑخ کر بولتی ارے گاوں کی فریش ہوا میں رہ کر میری صحت اچھی ہو گئی ہے اور میرا پوتا بھی تازی ہوا میں سانس لیتا ہے۔ تازہ خوراک کھاتا ہے شہر کی مصنوعی زندگی مصنوعی خوراکیں اور مصنوعی لوگ جو کسی کی خیر خبر ہی نہیں رکھتے پاس پڑوس کی خبر نہیں کوئی زندہ ہے مر گیا ہے۔ گاوں میں سب الگ الگ رہنے کے باوجود ایک دوسرے کی خبر رکھتے ہیں ہمدردی کرتے ہیں ایک کا مہمان سب کا مہمان ہوتا ہے۔ میں تو اس زندگی میں بہت خوش ہوں۔
سعد کو کچھ کچھ اندازہ ہونے لگا کہ اس کی ماں عروبہ پر زیادتی کرتی ہے مگر وہ اسی کے فاہدے کے لیے اسے کندن بنانا چاہتا تھا اس کا باہر سے کنٹریکٹ ختم ہو چکا تھا اب وہ پاکستان مستقل آ رہا تھا آج اس نے آنا تھا تو اسے ماں کے مرنے کی اطلاع ملی۔ جسے دل کا اٹیک ہوا تھا وہ پہلی فلاہیٹ میں آ پہنچا۔ سب آ چکے تھے ہما کا برا حال تھا۔ عروبہ بھی رو رہی تھی اس کے بیٹے پر جان چھڑکنے والی جا چکی تھی۔
نرگس کے چالیسویں کے بعد سب مہمان رخصت ہو گئے۔ اب عروبہ کو نرگس کی قدر آئی اس نے کیسے سارے گھر کے نظام کو سنبھالا ہوا تھا اسے بچے کی طرف سے بےفکری تھی۔
اس نے سعد سے کہا کہ جب تک بچہ اسکول جانے کے قابل نہ ہو وہ بچے کو گاوں کی تازہ ہوا میں رکھے گی اس کادل اب ان معصوم ہمدرد لوگوں میں لگ چکا تھا جہاں اسے عزت و پیار ملا تھا۔
سعد نے دیکھا اب وہ نتاشا کو اپنی بہن بتاتی ہے۔ اور اس کے آنے پر خوش ہوتی ہے اور اب اسے دل سے پیار کرتی ہے۔
نتاشا کے سمجھانے پر اس کے سسرال والوں نے پاکستان شفٹ ہونے کا فیصلہ کر لیا ان کے بچے پاکستان میں ا کر بہت خوش رہتے تھے۔
نتاشا نے کہا کہ اپنا ملک اپنا ہوتا ہے جہاں ہم آزاد ہیں۔ یہ ملک بہت سے لوگوں کی قربانیوں سے ملا ہے۔ پھر ہم اپنے ملک میں رہنے پر فخر کرنے کی بجائے دوسروں کے ملک میں رہنے پر کیوں فخر کریں۔ ہمارا ملک بہت خوب صورت ہے ہم اگر اس کی طرف دھیان نہیں دیں گے اور اپنی زندگی جیں گے تو یہ ملک ترقی کیسے کرے گا اور جو ہم باہر ملک رہتے ہوئے بھی اپنے آپ کو پاکستانی کہتے ہیں تو ہم نے کھبی سوچا کہ ہم پاکستان کی فلاح وبہبود کے لیے کیا کرتے ہیں۔ کتنے لوگ غربت وافلاس کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جتنے کا ہم لوگ ایک پیزا، برگر کھاتے ہیں اتنے پیسوں میں ایک پورا غریب گھرانہ کھانا کھا سکتا ہے اپنے اس پیزے اور برگر کو قربان کر کے ہم کسی غریب کی فیملی کو ایک وقت کا کھانا کھلا کر جنت کما سکتے ہیں اور اپنے اوپر آئی بلاوں کو ٹال سکتے ہیں اپنے بچوں کا صدقہ نکال کر ان کے سر سے بلاوں کو ٹال سکتے ہیں۔
نتاشا نے کہا کہ میرے والدین کا کوئی بیٹا نہیں اور میں بیٹی ہونے کے سبب ان کے ساتھ نہیں رہ سکتی نہ وہ رہ سکتے ہیں حالانکہ ایسا ناممکن نہیں ہے مگر ہمارے معاشرے کا دستور ہے کہ صرف بیٹا ہی والدین کا سہارا بن سکتا ہے وہی بوڑھے والدین کو رکھ سکتا ہے بیٹی نہیں۔ وہ لوگ بھی جانتے ہیں جو اس گھر سے بیٹی کو بیاہتے ہیں کہ ہم ان کے بڑھاپے کا سہارا لے کر جا رہے ہیں تو یہ بوڑھے ہو کر کیا کریں گے اس طرف کوئی دھیان نہیں دیتا نہ کوئی کسی کی زمہ داری کو اٹھاتا ہے حتی کہ بیٹی بھی سسرال اور معاشرے کے ڈر اور دستور کے مطابق کچھ نہیں بولتی یا ڈیمانڈ کرتی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ یہ ناممکن ہے۔ مگر میں آواز اٹھاوں گی۔ شکرالحمدوللہ کہ میرے والدین معاشی طور پر کسی پر بوجھ نہیں بنیں گے۔ ایسے کیا ہو سکتا ہے کہ ہم ان کے قریب گھر بنا لیں یا ان کو بھی اپنے قریب گھر بنانے پر مجبور کریں تاکہ وقت بے وقت ان کی خبرگیری کر سکوں۔ یہ تجویز سب کو بہت پسند آئی۔
نتاشا کا سسر ہما اور ساجد کے پاس گیا اور نتاشا کی تجویز پیش کی اور ہاتھ جوڑ کر اس کی بہن کو بھگانے کی معافی مانگی تو ساجد نے کہا کہ کہ اگر میرے دل میں کچھ ہوتا تو میں نتاشا کا رشتہ کیوں دیتا۔ عروبہ کے باپ نے کہا کہ میں ہما بہن کا خاص طور پر شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میری بیٹی کا جھوٹ بول کر اسے پالنے سے میری شادی شدہ زندگی کو بےسکون ہونے اور اجڑنے سے بچایا اس کو نازو نعم سے پالا اس کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ طے یہ پایا کہ کسی اچھی سوسائٹی میں قریب قریب پلاٹ لے کر گھر تعمیر کیے جائیں جب تک گھر بنتا ہے نتاشا اور اس کا شوہر ساجد کے گھر رہیں گے اور ہم لوگ گاوں کی زندگی کو اتنا وقت انجوائے کریں گے۔ سعد نے کہا کہ وہ بھی ان لوگوں کے ساتھ گھر بناناچاہتا ہے۔ اور گاوں میں َایک اسکول اور ایک کلینک کھولنا چاہتا ہے تاکہ گاوں کے لوگوں کے لئے بھی کچج کر سکوں۔ نتاشا کے سسر نے کہا کہ اس کار خیر میں میں بھی حصہ ڈالوں گا۔ ساجد نے بھی آفر کردی۔
اس طرح سب اکٹھے بھی ہو گئے اور قریب رہنے سے ساجد اور ہما کا بیٹا نہ ہونے کا مسلہ بھی حل ہو گیا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...