اس وقت صبح کہ نو بج رہے تھے۔الارم کی چنگھاڑتی ہوئی آواز پر کمرے کی ہر چیز بیدار ہو چکی تھی ماسواۓ سمبل کہ۔۔کھڑکیوں پر پڑے پردوں سے چھن کر آتی دهوپ سیدھی بیڈ پر پڑ رہی تھی۔مگر کمبل منہ تک تان کر سوتی سمبل کی نیند میں ہر شے خلل پیدا کرنے میں ناکام ٹھہری تھی۔
ڈریسنگ ٹیبل کہ اگے کھڑا شایان شیشے سے نظر اتے اس کہ وجود کو ہی دیکھ رہا تھا۔جو ایک بار پھر بیہوش ہوئی پڑی تھی۔۔۔
بلیک جینز پر اف وائٹ ٹی شرٹ پہن رکھی تھی۔بالوں کو جیل سے پیچھے کو سیٹ کر رکھا تھا۔ہاتھ میں ریسٹ واچ پہنے اسکی نظریں مسلسل سمبل پر تھیں۔جو کسمسا کر پھر سو گئی تھی۔کل سے اب تک وہ ایک بات تو جان ہی گیا تھا۔کہ یہ لڑکی سوتے وقت قبر کہ مردوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیتی ہے۔۔۔
الارام بیچارہ شاید خود بھی تھک ہار کر گلا خشک ہونے کہ باعث خاموش ہو گیا تھا۔شایان اپنی مکمل تیاری پر ایک طآئرانہ نظر ڈالتا اب بیڈ کہ کنارے پر بیٹھاپاؤں میں جو گرز ڈالتا کچھ سوچ کر کھڑا ہوا۔۔۔۔
“سمبل۔۔۔سمبل اٹھو میں یونیورسٹی جا رہا ہوں۔اندر سے دروازہ بند کر لو۔۔”
شایان نے ذرا اس کی جانب جھک کر ہلایا۔مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوئی تھی۔۔
“سمبل اٹھ بھی جاؤ ۔۔”شایان نے گھڑی کی بھاگتی رفتار کو دیکھ دانت کچکچا کر کہا۔۔
“جی۔۔”سمبل نے کمبل کہ اندر سے منہ نکال کر مندی مندی آنکھوں سے سوال کیا۔۔
“اٹھو کر بیٹھو صبح کہ کہ نو بجنے والے ہیں۔مجھے یونیورسٹی سے بھی دیر ہو رہی ہے۔اٹھ کر ناشتہ بناؤ۔۔”شایان نے اس کو کندھوں سے پکڑ کر ایک جھٹکے سے اٹھایا تھا۔۔
” کیا!!!میں ناشتہ بناؤ۔۔”اس کہ لفظو پر سمبل کی نیند بھک سے آڑی تھی۔۔
“تو میں کیا دیواروں سے مخاطب ہوں۔”شایان نے اس کہ ڈراموں پر سخت لہجے میں کہا۔۔
“پر مجھ سے پہلے آپ تو باہر ہی ناشتہ کرتے تھے نا۔۔”سمبل نے اپنی سوچ کہ مطابق پوچھا۔۔
شایان کہ پلٹتے ہوۓ قدم ٹھٹھک کر رکے تھے۔باقاعدہ گھوم کر اس کہ مقابل آیا۔جس کی آنکھیں کچی نیند کی وجہ سے سرخ ہو رہی تھیں۔۔
“اور یہ اتنی اہم خبر کس نے دی تمھیں۔”شایان کی کرسٹل گرے آنکھوں میں غصّہ کی جهلک تھی۔۔
“تو مطلب۔۔۔۔”ناسمجھی سے دیکھ جملہ ادھورا چھوڑا۔اس کی دانستہ میں خانزادہ خاندان کے مرد ہل کر پانی ہی پی لیں تو بہت ہے۔۔
محترمہ میں اپنے کام خود کرنے کا عادی ہوں۔اب زیادہ باتیں مت بناؤ۔اور مجھے فوراً ناشتہ بنا کر دو۔”شایان نے اپنا وقت اس فالتو بحث میں ضائع ہوتا دیکھ ہاتھ پکڑ کر بیڈ سے نیچے اتار جو شاید مزید سونے کا ارادہ رکھتی تھی۔۔
“تو اب بھی خود بنالیتے میری نیند کیوں برباد کی۔۔”سمبل واشروم میں جاتی دھیمی آواز میں بڑبڑآئی مگر الفاظ اتنے واضح ضرور تھے کہ وہ شایان کہ تیز کانوں تک پہنچ ہی گئے تھے۔۔
“تو تمھیں کیا میں یہاں مفت کی روٹياں توڑوانے کہ لئے لایا ہوں۔جب تک یہاں ہو گھر کہ سارے کام تم کرو گی سمجھیں۔اب جلدی کرو بیس منٹ ہیں تمہارے پاس۔ٹھیک بیس منٹ بعد ناشتہ میز پر ہونا چاہیے۔”شایان نے اس کی پشت کو گھور کر لفظ چبا چبا کر ادا کرتے ہدایت کی جو کل سے اب تک اسے اچھا خاصہ زچ کر چکی تھی۔۔
سمبل بھی اس پر ایک غصّہ بھری نگاہ ڈالتی باتھروم میں بند ہوگئی۔۔شایان کہ تو اس لڑکی کی اکڑ ہی سمجھ نہیں آرہی تھی۔جس کہ جب سے شادی ہوئی تھی مزاج ہی نہیں مل رہے تھے۔۔۔
شایان غصّہ سے سر جھٹکتا ماہین کو کال ملاتا کمرے سے باہر نکل گیا۔جب تک وہ منہ ہاتھ دھو کر باہر آئی کمرہ خالی تھا۔۔۔
شکن زدہ کپڑوں پر ہاتھ پھیرتی سلیکے سے دوپٹہ سر پر اوڑتی کمرے سے باہر نکل گئی۔۔
_____________
امریکن طرز پر بنے اس چھوٹے سے کچن کہ پار چار کرسیوں کہ ساتھ پڑی گول ٹیبل پر بیٹھا شایان کسی سے موبائل پر محو گفتگو تھا۔۔وہ سر جھٹک کر آگے بڑھی۔۔
سب سے پہلے ایک پین میں چاۓ کا پانی رکھا ساتھ ہی فرج سے دودھ نکال کے الگ سے برنر میں ابلانے کہ لئے رکھا۔۔سارے کیبنیٹ ایک ایک کر کہ کھنگالنے کہ بعد چینی اور پتی نکال کر سلپ پر رکھی۔۔
دودھ میں بوئل اتے ہی چولھا بند کیا۔ساتھ ہی پانی میں پتی ڈال کر دو جوش دے کر چولھا بند کر دیا۔۔
اس سارے عرصے میں شایان نے خاموشی سے اس کی کروائی دیکھی تھی۔موبائل وہ پہلے ہی بند کر چکا تھا اب بس مزے سے سمبل کو دیکھ رہا تھا۔جو اپنی مرضی کا ناشتہ بنانے میں لگی ہوئی تھی۔
فرج سے ڈبل روٹی،مكهن اور ماملیٹ نکالنے کی غرض سے فریج کا دروازہ کھولا تو اس کی تواقع کہ برعکس فرج میں وہ تمام چیزیں موجود نہیں تھیں۔محض دو تین قسم کہ فروٹس کہ علاوہ باقی ساری چیزوں کی بوتلز خالی پڑی تھیں۔جو یقیناً شایان کا بھوکا دوست خالی کر چکا تھا۔۔اس کہ مطابق تو فرج کو بھرا ہونا چاہئے تھا۔چہرہ ایک دم بجھ سا گیا تھا۔کیوں کہ اس وقت پیٹ میں چوہے ڈور رہے تھے۔
“فرج میں تو ناشتے کہ لئے کچھ ہے ہی نہیں۔۔”سمبل نے اس کی جانب رخ کرتے پریشانی کا اظھار کیا۔۔
“کیوں نہیں مجھے تو اتنے سارے تازہ پھل نظر آرہے ہیں۔آج کا ناشتہ ان سے بھی تو ہو سکتا ہے۔۔”شایان نے موبائل پر انگلیاں چلاتے تسلی بخش انداز میں کہا۔۔
سمبل نے ایک نظر فروٹ ٹرۓ میں پڑے سیب ،کیلا ،نارنجی اور انار پر ڈال کر پریشانی سے اسے دیکھا۔مطلب کیا آج وہ صرف یہ فروٹ کہا کر گزرا کرۓ گی۔خانزادہ خاندان کا بیٹا اتنا کنجوس اپنی بیوی کو پہلے ہی دن صرف چار پھلوں کہ ناشتہ کروارہا تھا۔۔
“مراقبے میں چلی گئی ہو کیا۔جلدی سے انار یا پھر اورینج کا جوس نکال لو۔آج واپسی میں کھانے پینے کا سامان لیتا اؤنگا۔فلحال یہ غذآیت بخش پھل کھاؤ اور جان بناؤ۔۔۔”شایان کہ حکم پر سمبل
نے تنک کر پھل نکالے۔۔
ڈھونڈ دهانڈ کر سلپ کہ ایک طرف رکھی جوسر مشین برآمد کی۔جو بند آنکھوں سے ڈھونڈنے پر تو شاید کبھی بھی نا ملتی۔ اور پھر اپنے اور اس کہ لئے دو گلاس جوس نکال کر ٹیبل پر رکھا۔۔
شایان نے اورینج جوس کا خالی گلاس ٹیبل پر رکھ کر اس کا اترا ہوا منہ دیکھا۔جو شکل ایسے بنا رہی تھی جیسے کسی قہت زادہ علاقے سے ابھی ابھی آئی ہو۔۔
“میں یونیورسٹی جا رہا ہوں۔واپسی پر شام ہو جائے گی۔میں دو پہر میں پزا آرڈر کر دوں گا۔پوچھ کر دروازہ کھولنا۔جب تک میں نا اؤ کہیں انے جانے کی ضرورت نہیں۔۔”شایان نے اپنی گاڑی کی چابی اٹھا کر حکم صدر کرتے قدم باہر کی جانب بڑھاۓ۔ ۔
سمبل کو کہاں جانا تھا۔دروازہ بند کرکہ کچن کو یونہی چھوڑ کمرے میں جا کر بستر پر لیٹ گئی۔فلحال نیند بہت ضروری تھی۔۔
___________________
“تو پھر تم نے کیا سوچا اس جاہل کہ بارے میں شایان۔۔”ماہی آج صبح سے ہی شایان کا لیا دیا سا انداز دیکھ رہی تھی۔۔
“سوچنا کیا ہے یار!!بیوی ہے وہ میری۔۔”شایان نے بیزاری سے کہا تھا۔۔
“میرا مطلب ہے۔شادی تو ہوگئی ہے نا تو اب ہمارے بارے میں کیا خیال ہے۔دو ماہ بعد یونیورسٹی بھی ختم ہو جائے گی۔”ماہی کہ انداز میں الگ ہی میٹھاس تھی۔اپنے سلکی بالوں کی ایک لٹ انگلی پر لپیٹ کر ایک ادا سے کہا۔۔
“صبر کر جاؤ ابھی۔ابھی دو دن ہی ہوۓ ہیں شادی کو ولیمہ ابھی رہتا ہے۔سمبل کافی سمجھدار ہے۔میں اسے سمجھاؤ گا وہ یقیناً ضرور مان جائے گی۔۔”شایان نے کوک کا ایک سپ لے کر تحمل سے کہا۔۔
“کیا سمجھاؤ گے۔۔”سمبل کی تعریف خاصی ناگوار گزری تھی۔
“یہی کہ وہ اور میں دو الگ الگ مزاج کہ لوگ ہیں۔ہمارا کوئی جوڑا نہیں۔”شایان کہ لہجے میں اطمینان تھا جو ماہین کو بری طرح کھٹک رہا تھا۔۔
“اور تمھیں لگتا ہے وہ مان جائے گی۔”ماہی نے ایک برو اٹھا کر سوالیہ انداز میں پوچھا۔۔
“بلکل مان جائے گی۔ویسے بھی کوئی بھی انسان کسی کی بھی زندگی میں ایک ناپسندیدہ شخصیت بن کر نہیں رہنا چاہتا۔۔”شایان نے چپس اٹھا کر منہ میں رکھ کر کہا۔۔
“خیر تم فکر نہیں کرو۔میں جلد ام خانم اور سمبل کو سمجھا لوں گا تم بس اب اپنی فیملی کو راضی کرو۔انہیں تو میری پہلی شادی سے کوئی اعترض نہیں ہوگا نا۔”شایان نے اب بات کا رخ دوسری جانب کیا تھا۔۔
“افکورس ناٹ۔”میرے گھر والے اتنی چیپ ذہنیت کہ مالک نہیں ہیں۔کہ وہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو ایشو بنائیں۔”ماہین نے کاٹ دار لہجے میں کہا تھا جو شایان کو ذرا محسوس بھی ہوا تھا۔جیسے وہ اس کہ گھر والوں پر طنز کر رہی ہو۔مگر اس کہ نارمل تاثرات دیکھ خاموش ہی رہا۔۔
“اچھا چلو تم اپنی باقی کی کلاسز لو۔مجھے ایک ضروری کام یاد اگیا ہے۔پھر کل ملاقات ہوتی ہے۔”شایان مزید اسے کچھ بھی کہنے کا موقع دیے بغیر قدم اٹھاتا۔کینٹین عبور کر گیا۔۔
ماہین بھی بے نیازی کندھے اچکاتی چپس کھانے میں مگن ہوگئی۔
ہیلو!!بیوٹیفل۔۔”شایان کو نظروں سے اوجھل ہوتے ہی اس کا کلاس فیلو شایان کی چھوڑی ہوئی جگہ پر ساتھ آکر بیٹھ گیا۔جیسے ماہی نے بھی خوش دلی سے ہیلو کہا۔۔
“تم تو ہر وقت اس شایان خانزادہ سے ہی چپکی رہتی ہو۔کبھی ہم سے بھی بات کر لیا کرو۔”نومی نے عجیب سی مسکراہٹ کہ ساتھ کہا۔تو ماہی اپنے چاہنے والوں کی لائن دیکھتی قہقاہ لگا اٹھی۔۔
“اچھا ایسی بات ہے۔تو کیا میں آج کا لنچ تمہاری طرف سے سمجھوں۔۔”ماہین نے ایک ادا سے بال جھٹک کر آنکھیں گھومآئیں۔
“ضرور بیوٹیفل کیوں نہیں۔نا چیز کو بھی اپنی خدمت کا موقع دیں۔”نومی کی کو خواہش بر آئی تھی۔۔
“تو پھر چلو۔۔”ماہین مسکرا کر فوری کھڑی ہوئی تھی۔
نومی نے بھی اس کا ہاتھ پکڑ کر قدم آگے بڑھاۓ۔ اب وہ دونوں کسی قریب ہی اچھے سے ریسٹورنٹ لنچ کہ لئے جا رہے تھے۔تاکہ تھوڑا ٹآئم ساتھ سپینڈ کر لیا جائے۔۔۔
_______________
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...