(Last Updated On: )
افراء بیگم کپڑے استری کرتے ہوئے ساتھ ساتھ ٹی وی پے چلتا ہوا ڈرامہ بھی دیکھ رہی تھی ، اور تھوڑی دور بیٹھ کر جائشہاپنے پاؤں کا مساج کر رہی تھی، اتنے میں ارصم دندناتا ہوا اندر داخل ہوا اور آ کر سامنے کھڑا ہو گیا۔
“اپنے چچی سے کیا کہا ہے یشب کے بارے میں”۔
“ہیں۔ ۔۔۔۔میں نے کیا کہنا ہے”، افراء بیگم نے نظریں چرا کر کہا۔
“کیا آپ نے چچی سے یشب کے بارے میں باتیں نہیں کی، وہ غلط لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے، پڑھتا نہیں ہے اور بھی پتہ نہیں کیا کیا”۔
ارصم کے غصیلے انداز پر افراء بیگم نے ساتھ بیٹھی جائشہ کو دیکھا جو لوشن کج بوتل پکڑے انہیں ہی دیکھ رہی تھی۔
“ارصم یہ کیا طریقہ ہے ماں سے بات کرنے کا”، افراء بیگم نے جلدی سے اپنی گبھراہٹ کو غصے میں کر پوچھا۔
“مجھے بات کرنے کا طریقہ آپ بعد میں بتاۓ،پہلے مجھے یہ بتاۓ آپ نے باتیں کی تھی یا نہیں”،ارصم بتمیزی سے بولا۔
“ہاں کی تھی لیکن وہ ہی کی تھی جو تم نے بتائی تھی”، افراء بیگم نے استری سٹینڈ پر رکھتے ہوئے کہا۔
اور ارصم کا دل کیا اس بات پر اپنے بال نوچ لے۔
“میں نے یہ ساری باتیں اپنی ماں سے کی تھیں یہ نہیں تھا کہا کہ اس کے گھر جا کر ڈھنڈورا پیٹ آئے”۔
“ہاں تو میں نے کیا غلط کیا ہے بس اس کے کارناموں سے اس کی ماں کو اگاہ کیا ہے ، کل کو اگر کوئی اونچ نیچ ہو جائے بدنام تو ہم ہی ہو گئے، آخر ایک ہی خاندان جو ہے”،افراء بیگم نے تپ کر کہا۔
“امی ۔۔۔۔کیا کروں میں آپ کا”،کیا ضرورت تھی آپکو پرائے پھڈئے میں ٹانگ اڑانے کی، آپ نے سارا کام خراب کر دیا، آج کے بعد قسم ہے جو میں آپ کو ایک بھی بات بتاوں”، ارصم نے غصے سے دیوار پر مکا مارا۔
“ذلیل، کمینہ ، غیر کے کے لئے ماں کو باتیں سنا گیا ہے، اللّه ایسی اولاد کسی کو نہ دے”،افراء بیگم کو اس کا پوچھنا پسند نہیں تھا آیا لیکن غلطی ماننا بھی ان کی فطرت میں شامل نہ تھا۔
امی آپ کو کیا ضرورت تھی چچی سے ایسی باتیں کرنے کی یشب ایسا بلکل بھی نہیں ہے،آپ کی ان باتوں کی وجہ سے وہ ہم سے ناراض ہوگیا”، جائشہ نے منہ بنا کر کہا۔
“اووو۔۔۔۔مینڈکی کو بھی زکام ہونے لگا ہے”،اپنی بیٹی جو افراہ بیگم کو اپنا ہم خیال لگی تھی اس کے منہ سے ایسی باتیں سن کے انہے خیرت ہوی تھی ۔
“تمہے اپنی ماں سے زیادہ اس کی ناراضگی کی پرواہ ہے”۔
“جی ۔۔۔کیوں کے اپ نے غلط کیا ہے”، اور جائشہ غصے میں اٹھ کر چلی گئی۔
اور پیچھے سے افراء بیگم دونوں بہن بھائی کو حیرت سے دیکھ رہی تھی۔
______________________
ارصم سڑھیوں پر بیٹھا ہوا سامنے دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا ، غصہ اس کے چہرے سے عیاں ہو رہا تھا اسے پچھتاوا ہو رہا تھا۔
کہ کیوں اس نے یشب کے بارے میں ایسی باتیں کی تھی اپنی ماں کی عادت کے بارے میں پتہ تو تھا۔
یشب سے دوستی کے اسے بڑے فائدے تھے، آمدنی کم ہونے کی وجہ سے اور کچھ بچوں پر کنٹرول رکھنے کے لئے تینوں کو پاکٹ منی بہت کم ملتی تھی ، باقیوں کا تو پتہ نہیں لیکن ارصم کاگزارہ بہت مشکل سے ہوتا تھا ایسے میں یشب کی دوستی اس کے لئے تحفہ خدا وندی تھی۔
ارصم کو جب بھی ضرورت ہوتی اس کے برانڈڈ کپڑے پہن لیتا، اس کا موبائل استعمال کر لیتا، بائیک تک لے لیتا،یشب کی پاکٹ منی کا زیادہ تر حصہ وہ استعمال کرتا، یشب سے پیسے بھی ادھار لے لیتا اور یشب واپس بھی نہیں لیتا ،”ہاں وہ ایسا ہی تو تھا دوستوں کا دوست”۔
لیکن جو اب ہوا تھا نہ بہت برا ہوا تھا ، ارصم نے خود کو اچھا اور یشب کوبرا ثابت کرنے کے لیے جو کوشش کی تھی اس کی چال اس پر ہی الٹ گئی تھی۔
آج وہ چار دن بعد وہ یشب سے ملنے گیا تھا اس کو لگتا تھا اس کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا ہو گا لیکن یشب نے ملنے سے انکار کر دیا۔
ارصم کو مسئلہ اس بات سے نہیں تھا کہ یشب سے ملاقات نہیں ہوئی، اس کو پریشانی اس بات کی تھی کہ اج اس نے آرزو سے ملنے جانا تھا جس کو وہ یشب کے نا م اور موبائل سے میسج کرتا تھا اور ملتا تھا،اس کام کے لیے اسے پیسے اور یشب کی بائیک کی ضرورت تھی۔
______________________
آج سرفراز صاحب اور افتحار صاحب رونوں بھائی فیملی سمیت خالد صاحب کے گھر موجود تھے، وجہ اجالا کا اچھے نمبروں سے ٹاپ کرنا تھااس نے اج اپناگریجویشن آج کمپلیٹ کر لیا تھا۔
“واہ۔۔۔۔۔اجالا یہ ہوا نہ اچھے نمبروں سے پاس ہونے کا طریقہ دل خوش کر دیا میری بچی نے”، افتحار صاحب نے اجالا کی حوصلہ افزائی کی۔
اور وہی افراء بیگم نے افتحار صاحب کی بات پر برا سا منہ بنایا۔
“تم بہت خوش قسمت ہو جو اجالا اور درِ فشاں جیسی بیٹیاں ملیں ہیں”،افتحار صاحب نے خالد صاحب کو دیکھتے ہوئے کہا۔
افتحار صاحب شروع سے ہی اجالا کی قابلیت کے گن گاتے تھے اور وہاں سرفراز صاحب اور زرینہ بھی درِفشاں کو پسند کرتے تھے۔
” خوش قسمت تو میں ٹیب ہوتا جب اللّه بیٹا دیتا ، میری تو بیٹیاں ہیں چاہے جتنی بھی لائق ہوں ، بیٹیاں تو نری گھاٹے کا سودا ہیں کیا فائدہ ان کا پہلے پڑھاو لکھاو اور پھر اگلے گھر بھیج دو ، خوش قسمت تو سرفراز بھائی ہیں جن کی کوئی بیٹی نہیں ہے صرف بیٹا ہے اور افتحار بھائی کے بھی دو بیٹے ہیں ایک دایاں اور دوسرا بایاں ، بڑھاپےمیں کام آئے گئے”، خالد صاحب نے کہا ۔
وہاں موجودہر کوئ ساکت تھا ، اجالاجو پہلے اتنی خوش تھی اس کاچہرہ بجھ گیا۔
مبشرہ بیگم خالد صاحب کی ذہنیات سے واقف تو تھی لیکن اس طرح یہ بات سر عام کر دے گے انہیں یقین نہ تھا وہ تو پہلے ہی ان چاہی تھی اور اوپر سے دو بیٹیاں ان کا سر مزید جھک گیا۔
افراء بیگم تو مبشرہ کا جھکا ہوا سر دیکھ کر ان کے کلیجے میں ٹھنڈ پڑ گئی ، لیکن ان کی یہ خوشی بہت تھوڑے وقت کے لی تھی جب ان کے اپنے ہی بیٹے نے جلتے توے پر بیٹھادیا۔
“چاچو آپ ایسا کیوں سوچتے ہیں میں ارصم اور یشب سب آپ کے بیٹے ہی تو ہیں” ، فائق نے کہا۔
ساکت ماحول میں ہلچل پیدا ہوئی۔
“تمہاری سوچ بھی پتہ نہیں کب بدلے گی خالد، نا شکرے پن کی بھی حد ہوتی ہے”، سرفراز صاحب نے ماتھے پے بل ڈال کر کہا۔
“اگر تمہے اتنی ہی تکلیف ہے تو اجالا مجھے دے دو، تم تو اس کے باپ کہلانے کے لائق ہی نہیں ہو”، افتحار صاحب نے خالد کو دیکھ کر کہا ۔
اور افراء بیگم اور فائق نے چونک کر دیکھا، فائق کی تو جیسے دلی مراد بر آی،اور افراء بیگم کی تو گویا سانس اٹھک گی ہو۔
اجالا اٹھ کر کچن میں چلی گئی اور اس کے پیچھے ہی درِفشاں اٹھ کر چلی گئی۔
اجالا اپنے ابو کو جتنا بھی خوش کرنے کی کوشش کرتی اتنا ہی ناکام ہو جاتی ۔
اجالا کی درِفشاں کی طرف پشت تھی لیکن وہ جانتی تھی اس کی بہن رو رہی ہے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
______________________
اجالا اور درِفشاں کچن میں چائے بنانے میں مصروف تھیں کہ یشب اور ارصم اندھی طوفان کی طرح کچن میں داخل ہوئے۔
اجالا آپی!!! یشب نے کندھوں سے پکڑ کر سیدھے کرتے ہوا، “بہت افسوس کی بات یے کم از کم میں آپ جیسی پرفیکٹ لڑکی سے یہ کچھ اکسیپٹ نہیں تھا کر رہا”، یشب نے اجالا کی روتی ہوئی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔
“آپ کو پتا تو ہے چاچو کی عادت ہے پھر بھی اپ نے ان کی بات کو دل پے لے لیا ہے”، اب ارصم نے بھی قریب ہوتے ہووے کہا۔
“لیکن ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہےپتہ نہیں ابو کو ہم سے کیا پرابلم ہے، اگر ان کا کوئی بیٹا نہیں تو اب اس میں ہمارا کیا قصور ہے”، اجالا نے سنجیدگی سے کہا۔
اجالا کی بات پر ارصم نے بے چارگی سے یشب کی طرف دیکھا۔
“اپی چھوڑیں یہ فضول باتیں”، یشب نے کہا ۔
“یشب یہ فضول باتیں نہیں ہےابو نے میری انسلٹ کی ہے”،اجالانےکہا۔
“اپی انسلٹ غیروں کے سامنے ہوتی ہے اپنوں کے سامنے نہیں اور وہاں سب آپ کے اپنے تھے، کیا کسی نے آپکو برا کہا یا چاچو کا ساتھ دیا۔ سب ان کو ہی ڈانٹ رہے ہیں، باہر جا کر دیکھ لے، تایا جان اور ابو ابھی تک چاچو کو ڈانٹ رہے ہیں اگر آپ کہتی ہیں تو میں بھی ان کو جا کر ڈانٹ آتا ہوں۔ ان کی ہمت کیسے ہوی میری گھبرو جوان بہن کے ہوتے ہوۓ بیٹے کے نہ ہونے کا شکوہ کرنے کی، میری اپی کی مو نچھیں لگا دیں کیا وہ کسی سے کم ہیں”، یشب نے ہنستے ہوئے کہا۔
یشب کی مثال پر اجالا بے ساختہ انداز میں ہنسنے لگی۔
اور کب سے کونے میں کھڑی درِفشاں نے بہن کو ہنستے ہوئے دیکھ کر گہری سانس لی۔
یہ ہوی نہ بات !! اب یشب نے جیب سے دو پیکٹ نکال کر اجالا کو دیئے۔
اجالا نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا، “یہ کیا ہے”؟
“یہ اپکا گفٹ ہے اور انکار کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، بہن تو بھائی سے حق سے لیتی ہیں اور یہ تو پھر میں اپنی خوشی سے دے رہا ہوں”، یشب نے درِفشاں کی جانب دیکھ کر بولا۔
اجالا نے نظریں اٹھا کر یشب کی طرف دیکھا اور بے ساختہ انداز میں اس کے ساتھ لگ گئی۔
“آپی میں آپکو بہن کہتا نہیں مانتا بھی ہوں، اور اب یہ چھوڑیں رونے دھونے کا پروگرام اور زبردست قسم کی ٹریٹ کے لیے تیار ہو جائے”، یشب نے اجالا کا سر سہلاتے ہوئے کہا۔
“ہاں جیسا تم لوگ کہو”،اجالا نے کہا۔
“اور میرا گفٹ ڈیو رہا، کیونکہ میرا ہاتھ ابھی ہولا چل رہا ہے “، ارصم نے سر کو کجھاتے ہوئے کہا۔
“تمہاری جیب بھاری کب ہوتی ہے”، اجالا نے اس کے سر پر چپت لگاتے ہوئے کہا۔
“اور تم یہاں کھڑی ہو کر ہماری باتیں سن رہی ہو، جا کر چائے بناو،” یشب نے درِفشاں کی طرف دیکھ کر کہا۔
اور درِفشاں جو کچھ دیر پہلے یشب کے بارے میں اچھا سوچ رہی تھی، اپنی سوچ پر لعنت بیھجی۔
آپی آپ کی بہن بالکل آپ کے الٹ ہے ،کہاں آپ اتنی ڈیسنٹ،ہر فن مولا ،مسکراہٹ آپ کے ہونٹوں سے جدا نہیں ہوتی،اور کہاں یہ”، یشب نے برا سا منہ بنا کر کہا۔
“ہر وقت سڑیل انداز”، بندہ ہنستا ہوا اندر داخل ہوتا ہے لیکن اس کی شکل دیکھ کر ایسا لگتا ہے پتہ نہیں کون سا غمگین واقع ہو گیا ہو،
اور اوپر سے نکمی چائے تک نہیں بنانی آتی اور سڑسڑ کر الگ کالی ہو چکی ہے ،”کون کرے گا اس سے شادی”، یشب نے درِفشاں کو دیکھ کر پھر پٹڑی سے اتر گیا۔
“نہ کرے کوئی شادی، کم از کم آپ کے پاس نہیں آئوں گی”، درِفشاں نے تپ کر کہا۔
ارصم اور اجالا اس کی بات سن کر ہنسنے لگے ۔
اور درِفشاں اجالا کو مسکراتے ہوئے دیکھ کر غصہ آنے لگا،سب اس کا مذاق اڑائے جانے پر مسکرا رہے تھے۔
“اپنی شکل دیکھی ہے، اب میرا دماغ اتنا بھی خراب نیہں ہوا جو میں تم جیسی بندریا سے شادی کے بارے میں سوچوں، لڑکیاں میرے آگے پیچھے پھرتی ہیں لیکن میں ان کو لیفٹ بھی نہیں کرواتا، اور میرے ابھی اتنے بھی برے دن نہیں آئے کہ تم سے سے شادی کر لوں ، جو شکل اور عقل دونوں سے پیدل ہو”۔
وہ واقعی اجالا جتنی خوب صورت اور کانفیڈینٹ نہ تھی ،لیکن اتنی کم بھی نہ تھی کہ یشب اس کا مزاق اڑاتا،اس کو بس رونا آتا تھا جو وہ اس وقت کر رہی تھی۔
درِفشاں کو روتے ہوئے دیکھ کر اجالا نے بیساختہ سینے سے لگایا۔
“روندو کہیں کی”، یشب نے سر جھٹک کر کہا۔
“یشب نہ میری بہن کو تنگ کیا کرو وہ آگے ہی تمہیں پسند نہیں کرتی”، اجالا نے غصے سے کہا۔ اور ارصم تم اسے باہر لے کے جاو۔
“میں تو جیسے مرا جا رہا ہوں نہ اسے پسند کروانے کے لئے۔میں تو آج رات سو نہیں سکوں گا ،مس وڑلڈ ،حسن کی دیوی، درِفشاں خالد ،یشب سرفراز کو سخت نا پسند کرتی ہیں میرا کیا ہوگا”۔ اور دروازے کے ساتھ کھڑے ہو کر رونے کی ایکٹینگ کرنے لگا۔
اجالا نے قہقہ روکنے کی کوشش کی اور ارصم۔کو اشارہ کیا کہ وہ یشب کو باہر لے کے جائے۔
______________________
زرینہ!!! گھر میں داخل ہوتے ہی سرفراز صاحب نے غصے میں آواز دی، گھر میں جو ملازم کام کر رہے تھے وہ بھی سرفراز صاحب کو غصے سے دیکھنے لگے کیونکہ ان کو غصہ کم ہی آتا تھا اگر آج ان کو غصہ آیا تھا تو کوئی نہ کوئی بات ضرور ہو گی۔
“یشب کہا یے”، انہوں نے پوچھا
“کیوں کیا ہوا ہے”، زرینہ بیگم گھبرا کر پوچھنے لگی۔
“میں کیا پوچھ رہا ہوں کہاں ہے وہ”، اب وہ خلق کے بل چلائے تھے۔
“وہ گھر پر نہیں ہے ہے”۔
“بلاو اسے جہاں کہیں بھی ہے”، سرفراز صاحب یہ کہ کے اس کے کمرے کی طرف بڑ گئے۔
اور پیچھے سے زرینہ بیگم اسے پریشانی سے کال کرنے لگی۔
پندرہ منٹ بعد یشب بائیک لے کر گھر واپس آگیا۔
“خیریت امی !!! اتنی ایمرجنسی میں بلوایا ہے”، یشب نے پریشان کھڑی زرینہ بیگم سے ہوچھا۔
“تمھارے ابو بہت غصے میں ہیں”۔
“کیوں انہیں کیا ہوا ہے”، یشب نے کہا۔
“بیٹا پتہ نہیں وہ تمھارے روم میں ہیں”۔
یشب اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا اور پیچھے پیچھے زرینہ بیگم بھی آگئی۔
یشب جب کمرے میں داخل ہوا تو سرفراز صاحب کا غصہ اسے دیکھ دیکھ کر بڑھنے لگا۔
“یہ کیا ہے”، سرفرازصاحب نے بند مٹھی کھولی جس میں سگریٹ کی ڈبیاں تھی۔
ذرینہ بیگم حیرت اور پریشانی سےآگے بڑھ کر دیکھنے لگی۔
“میں پوچھ رہا ہوں یہ کیا ہے”، سرفراز صاحب گرج کر بولے۔
“آئ ڈونٹ نو ابو!!! میں نہیں جانتا یہ کہاں سے آئی ہیں یہ میرے روم میں”۔
“اچھا تم نہیں جانتے پھر یہ تمھارے سائیڈ ٹیبل کے دراز میں کیا کر رہی ہیں”۔
“تم سموکنگ کرتے ہو یشب”، زرینہ بیگم نے روہانسی ہو کر پوچھا۔
“نہیں امی !!!! قسم لے لے مجھ سے جو آج تک میں نے سگریٹ کو ہاتھ بھی لگایا ہو”، یشب ماں کے آنسو اور باپ کا غصہ دیکھ کر کنفیوز ہو کر بولا۔
“اچھا جب تم نہیں پیتے تو پھر یہ تمہارے کمرے میں کیا کر رہی ہیں”، سرفراز صاحب رھاڑے۔
“ابو یہ سگریٹ ارصم کے ہیں اور وہ سموکنگ کرتا ہے”، یشب نے صرف ایک لمحہ سوچا اور سچ بول دیا۔
زرینہ بیگم نے منہ پر ہاتھ رکھ لیا، اور سرفراز صاحب نے غصے سے ڈبیاں نیچےپھینک دی۔
“بکواس کرتےہوتم،اپنی غلطی ارصم پر ڈال رہے ہو۔”
انہوں نے اس کا رزلٹ کارڈ اس کے آگے کیا، جس میں وہ سب مضا مین میں فیل تھا۔
اب اس کا تمہارےپاس کیا ثبوت ہے کہ یہ سب بھی ارصم نے کیا ہےیہ مارکس شیٹ تمہاری نہیں ہے۔
” اب یشب کچھ نہیں تھا بو لا” ،اس کا سر جھکا ہوا تھا
ہمارے لاڈ پیار کایہ نتیجہ نکلا، اوپر سے پڑھائ میں صفر، غلط حر کتیں ،ہر وقت آوارہ گردی اور جھوٹ بولنا اور اگلا کارنامہ بھی سنو اپنے لا ڈلے کا لوگوں کی بیٹیوں کو تنگ کرتا ہے ۔
ان سے رات کو میسجز پہ باتیں کرتا ہے اور پھر ان کے سا تھ ڈیٹ پہ جاتا ہے۔
وہ با ت تو زرینہ بیگم سے کر رہے تھے، جن کے چہرے پر کی رنگ آ ریے تھے اور کی جا رہے تھے مگر دیکھ وہ یشب کو رہے تھے۔
“اس با ت پر یشب نے چو نکہ سر اٹھایا تھا۔”
” اب یہ آدذو کو ن ہے؟ اب یہ بھی کہنا کہ یہ ارصم کا کام ہے۔
“پاپا میں نہیں جانتا اسے یہ کون ہے،” یشب حیران ہو کر بولا۔
لیکن اگلے ہی لمحے میں سرفراز صاحب کا تھپڑ اس کو دن میں تارے دیکھا گیا تھا۔
وہ شاکڈ ہو کر باپ کو دیکھنے لگا کیونکہ بچپن سے لے کر آج تک اس کےماں باپ نے اس پر ہاتھ نہیں اٹھایا تھا۔
زرینہ بیگم نے آگے بڑھ کر سرفراز صاحب کا ہاتھ تھام لیا۔ کیاکر رہے ہیں جوان اولاد پر ہاتھ اٹھا رہے ہیں۔
یہ تھپڑ تو مھجےزرینہ بہت پہلے مار لینا چاہئے تھا تکہ یہ دن نہ دیکھنا پڑتا مجھے ،اب بھی ایک تھپڑ کھا کہ تمہاری یاداشت واپس آئی ہے کہ نہیں کہ دو چار اور لگاوں۔
یشب اب بھی کچھ نہیں تھا بولا۔
لیکن اس کے بھینچھے ہوئے ہونٹ اس بات کی نشاندہی کر رہے تھے، کہ وہ بہت غصے میں ہے۔
“آرزو وہ لڑکی ہے جس کا تم کالج تک پیچھا کرتے ہو اسے میسیجز کرتے ہو، آج اس کے والد میرے آفس آے تھے کہ میں تمھے سمجھاو نہیں تو وو تمھے سمجھا ئے گئے”، زرینہ سے بات کرتے ہوئے سرفراز صاحب نے یشب کی طرف دیکھا۔
“میں آرزو نامی جیسی کسی لڑکی کو نہیں جانتا”،یشب ایک ایک لفظ پر زور دے کے بولا۔
“کیا یہ تمہاری بائیک کا نمبر نہیں ہےیا یہ تمھارے موبائل فون کا نمبر نہیں ہے میں nay تمھارے سارے بے ہودہ میسج پڑے ہیں ، میرا دل کر رہا تھا کے زمین پٹھے اور میں اس میں سما جاؤں، کیا ہم نے تمہیں یہ سیکھایا ہے، اب تمھاری کوئی بہن نہیں تو تم دوسروں کی بہنوں کی عزت کے ساتھ کھیلو گے،”سرفراز صاحب نے کہا۔
“ابو میں کہہ رہا ہوں نہ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا ہے یہ سب ارصم کی حرکت ہے وہ ہی میری بائیک استعمال کرتا ہے ، وہ ہی میرے موبائل میں سے آرزو نامی لڑکی کو میسج کرتا ہے”۔
“انف یشب بند کرو اپنی بکواس تم باربار ارصم کا نام کیوں لے رہے ہو ، سب جانتے ہیں کہ وہ ایسا نہیں ہے”۔
یشب نے بے بسی سے اپنے ماں باپ کو دیکھا۔
“بہتر ہے تم اپنی غلطی مان لو”،سرفراز صاحب نے جتاتے ہوئے کہا۔
“جب میں نے کوئی غلطی کی ہی نہیں تو کیسے مان لو”۔
“تو تم نہیں مانو گے”۔
“ابو میں نے کچھ نہیں کیا”، یشب نے سنجیدگی سے کہا۔
“ٹھیک ہے پھر تم جیسے نا فرمان کے لیے کوئی جگہ نہیں، تمہاری وجہ سے میں اپنی مزید بے عزتی برداشت نہیں کر سکتا، تم جا سکتے ہو”۔
“سرفراز !!!! کیسی باتیں کر رہے ہیں،بچہ ہے بچوں سے ایسی غلطیاں ہو جاتی ہیں”، زرینہ بیگم کے دل پر گھونسا سالگا تھا۔
“تو اس سے کہو اپنی غلطی مانے”، سرفراز صاحب نے کہ کر رخ موڑ لیا۔
بیٹا ہم تمھارے پرنٹس ہیں اگر تم سے کوئی غلطی ہو گئی ہے تو مان لو ہم تمہیں معاف کر دے گے۔
“اگر میں نے کچھ ایسا کیا ہوتا تو مان لیتا، لیکن کسے دوسرے کی غلطی میں اپنے سر کیوں لوں، اپ لوگ ارصم سے جا کر کیوں نہیں پوچھتے”، کہہ کر یشب رکا نہیں اور باہر چلا گیا۔
“یشب!!!! ذرینہ بیگم پکارتے ہوئے اس کے پیچھے تک گئیں، اور سرفراز صاحب وہی ڈھے گئے۔
______________________