” کمال ہو گیا ، بھئی کہاں تو وہ میرے بغیر ایک منٹ نہیں رہتی تھی اور کہاں یہ کہ لاکھ منتیں کرنے کے بعد بھی وہ میرے ساتھ نہیں آئی ” دادو گویا صدمے کی گرفت میں تھیں ۔
” میں نے خود اتنا کہا ، مگر آگے سے کہنے لگی کہ تم لوگ یہاں آجایا کرو ” احراز نے دزدیدہ نگاہوں سے رازی کو دیکھا جو چائے کا مگ تھامے ریلیکس انداز میں صوفے پر براجمان تھا ۔
” مجھے بھی یہی کہا انہوں نے ” بابر منہ بسور کر بولا ۔
” اب اگر وہ ھم تینوں سے خفا نہیں ہیں ۔۔۔ تو کس خفگی کی وجہ سے وہ یہاں نہیں آ رہیں !!” احراز نے گویا اھم نقطہ اٹھایا ، اشارہ درحقیقت رازی کی طرف ھی کیا تھا ۔
” پتا نہیں کیا ہو گیا معصوم سی بچی کو …” دادو اٹھ کھڑی ہوئی ۔
” میں ایسا کرتی ہوں کہ تم دونوں کی سالگرہ کی دعوت دے آتی ہوں اسے بھی اور اسکی چچی کو بھی ، اب تو آ ھی جائے گی میری بچی یہاں ”
” اگر ہمارا پوچھیں تو کہہ دیجئے گا کہ سخت ناراض ہیں ھم ان سے ” احراز نے منہ بنا کر کہا ۔
” کیا مسئلہ ھے بھئی۔۔۔ اگر نہیں آ رھی تو شکر کرو جان چھوٹی ، بائے گاڈ ، دماغ خراب کر دیتی تھی وہ اوٹ پٹانگ باتیں کر کے ، بات کرنے کی تمیز تو اسے چھو کے بھی نہیں گزری ، بس کسی نے اصل چہرہ دکھا دیا ہوگا اسی لیے منہ چھپا کر بیٹھی ھے ” رازی کے تلخی بھرے سرد لہجے پر بابر نے معنی خیز نظروں سے احراز کو دیکھا تو وہ بھی تفہیمی انداز میں سر ہلا کر رہ گیا جبکہ دادو کو اسکی ساری باتیں بےحد ناگوار گزری تبھی اسے بری طرح جھڑک دیا ۔
” یہ کیا طریقہ ھے آخر بات کرنے کا رازی ! اتنی اچھی بچی ھے وہ ، اتنی پیاری ، اتنی معصوم سی ، پتا نہیں تم کیوں اسکے پیچھے پڑ گئے ہو ۔۔۔ تمہیں کیا معلوم میرا کتنا خیال رکھتی تھی وہ ، میں بیمار ہوتی تھی تو جی جان سے میری خدمت کرتی تھی ،کبھی ماتھے پہ شکن نہیں لائی وہ ، اور تم ہو کہ اسے جانے بغیر ھی الزام دھر رھے ہو اس معصوم پر ۔ ایسے تو تم کبھی بھی نہیں تھے رازی بیٹا !!! بدتہذیب لوگوں کی ہوا لگ گئی ھے تمہیں اسی لیئے اتنی بری زبان استعمال کر رھے ہو ، مگر یاد رکھو ، آئندہ میں اسکے لئے تمہارے منہ اس طرح کی کوئی بات نہ سنوں ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ”
دادو کی جوشیلی اور جذباتی مگر کڑکدار تقریر نے رازی کو کانوں تک سرخ کردیا ۔ ان کے آگے بولنے کی ہمت تو دادا میں بھی نہیں تھی تو وہ تو پھر بھی ہوتا تھا ۔احراز اور بابر بھائی کی حالت دیکھ کر دبی دبی ہنسی ہنسنے لگے ۔
دادو اسے اچھی طرح لتاڑنے کے بعد عنبر کو منانے چل دی ۔
” بھائی ! میری سمجھ میں نہیں آتا کہ عنبر آپکو اچھی کیوں نہیں لگتی ؟” بابر نے نہایت سنجیدگی سے کہا تو وہ سٹپٹا کر رہ گیا ۔
” یہ میں نے کب کہا۔۔۔۔ !!”
“اوہ !!!!” احراز اور بابر نے بیک وقت اوہ کہا تو وہ خفیف سا ہو گیا۔
” بس اسکی حرکتیں مجھے پسند نہیں ” رازی نے ادھورا جملا مکمل کیا ۔
” تو حرکتیں تو درست بھی کیں جا سکتی ہیں ناں !” بابر مسکرایا تو وہ گھورنے لگا ۔
_________
” واہ بھئی ، کتنی اچھی لگ رھی ھے ناں یہ ساری تیاری …” ماحول میں چھائے ہوئے بوجھل پن کو دور کرنے کے لیے رازی نے فریش انداز میں کہا ۔
” وہ تو ٹھیک ھے بھائی مگر ہمارا گفت ریڈی رکھیئے گا یہ نہ ہو کہ آپ عین ٹائم پہ کہیں کہ میں تو بھول گیا ”
“اوہ شٹ ..” رازی نے پیشانی پہ ہاتھ مارا۔
” بھائی …!!!!” وہ دونوں احتجاجاً بیک وقت بولے تھے تو وہ ہنس پڑا ۔
” یار سوری ناں … مجھے بلکل یاد نہیں رھا گفٹ کا اور اب ویسے بھی تقریب شروع ہونے والی ھی کچھ ھی دیر میں تو ایسا کرتے ہیں کہ گفٹ میں تم دونوں کو بعد میں دے دوں گا ۔۔۔ پرامس”
” اچھا تو ۔۔۔ آپ پکا پرامس کریں کہ جو ھم مانگیں گے آپ وہ ہمیں دیں گے ۔۔.” ان دونوں نے چمکتی آنکھوں سے ایک دوسرے کو دیکھا۔
” ہاں ہاں پکا پرامس ، تم لوگ جو مانگو گے وہی دوں گا ”
” پکا ناں !!! کہیں آپ مکر تو نہیں جائیں گے ؟” بابر نے بےیقینی سے پوچھا ۔
” لو جناب جی ۔۔۔ اب اگر تم کہتے ہو تو اسٹامپ لکھ کر دے دیتا ہوں کہ نہیں مکروں گا ”
” یاہوووو …” دونوں خوشی سے اچھل پڑے ۔ جبکہ رازی کو اتنی خوشی کی بلکل سمجھ نہیں آ رہی تھی مگر وہ انکی حرکتوں پہ ہنس رھا تھا ۔
” اچھا اب آپ جا کر تیار تو ہو جائیں ، میں مووی بھی بناؤں گا ” بابر نے اسے بازو سے پکڑ کر کھینچا تو وہ سستی سے بولا ۔
“کیا یار ! ٹھیک تو لگ رھا ہوں میں ” اسنے اپنے کپڑوں کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
” مانا کہ جناب ہر حلیے میں اسمارٹ لگتے ہیں مگر رسم ء دنیا ، موقع اور دستور بھی کچھ ہوتا ھے ناں ” ۔
احراز اور بابر لاؤنج میں ھی تھے جب انکی نظر اندر آتی دادو پر پڑی تو وہ دونوں کھڑے ہو کے آگے آئے مگر فوراً ھی واپس پلٹ کر منہ بنا لیا ، کیونکہ دادو کے پیچھے عنبر بھی چلتی آرھی تھی ، اور اس سے تھوڑی تو ناراضی بنتی تھی ۔
” دیکھا دادو ! یہ لوگ سیدھے منہ بات تو کرتے نہیں ہیں مجھ سے ، بندہ یہاں آکر کیا کرے !”
” سیدھے منہ بات کرنے کے لیے بندے کا میسر ہونا بھی تو ضروری ھے ناں !” بابر خفا خفا سے لہجے میں بولا تو اسنے مزید بحث کرنے کی بجائے گفٹس آگے بڑھائے ۔
” ہیپی برتھڈے بوتھ آف یو ”
دادو انہیں دوبارہ سے خوش ہوتا دیکھ کر تسلی سے بیٹھ گئیں۔
” ارے واہ ۔۔۔ تیاری تو خوب کی ھے ، مگر کیک کہاں ھے ۔۔۔؟” اسنے لاؤنج میں نظریں گھمائیں اور دل کھول کر تعریف بھی کی ۔
” یہ رھا کیک ” احراز کیک لے کر آیا تو وہ اس پہ لگانے کے لیے کینڈلز اٹھانے لگی ۔ بابر کیمرہ مین کی شفٹ سنبھال چکا تھا ۔
رازی تیار ہوکر آیا تو پہلی نظر اس پہ پڑی وہ بے ساختہ ٹھٹھک گیا ۔ وہ بہت محویت سے کیک پر جھکی کینڈلز جلا رھی تھی۔ پیلی زرد روشنی اس کے چہرے کو عجیب سا حسن بخش رھی تھی ۔ جیسے اس کے چہرے کے گرد رنگوں کا ہالہ سا بن گیا ہو ۔ وہ اپنے کام میں خاصی مصروف سی نظر آئی ۔بابر نے بہت احتیاط سے کیمرہ عنبر سے ہٹا کر رازی کی طرف کیا ، چند لمحوں میں رازی کی محویت ٹوٹی تو وہ مصنوعی غصہ چہرے پہ سجا کر آگے بڑھ گیا ، بابر نے پھرتی سے اسٹائل بدلا تھا ۔
رازی پہ نظر پڑتے ھی عنبر نے منہ پھیر لیا ۔
بہت خوشگوار ماحول میں بابر اور احراز نے کیک کاٹا ،جبکہ اس دوران کیمرہ میں کے فرائض رازی بخوبی سر انجام دے رہا تھا۔
” میں چلوں اب بہت اچھی خاصی دیر ہو گئی ھے ” وہ اٹھی تو احراز نے منہ پھلا لیا ۔
” تھوڑی دیر اور رک جائیں ناں …پلیز ” ۔
” ابھی فلحال تو جانے دو ، دوبارہ پھر آجاؤں گی ، ویسے بھی حالات بہتر لگ رھے ہیں ” وہ کن اکھیوں سے رازی کو دیکھتے ہوئے بولی ۔
” جاؤ رازی ، عنبر کو ذرا گھر تک چھوڑ آؤ ” دادو کے حکم پر رازی حیران ہوا ۔
” دادو یہ کونسا کہیں دور سے آئی ھے ۔۔۔ یہ سامنے ھی تو گھر ھے !!!!”
” رازی ۔۔!!” دادو نے گھور کر اسے دیکھا تو وہ اٹھ کھڑا ہوا ۔
وہ بہت خاموشی سے اسکے ساتھ چل رھی تھی ۔ اسنے گیٹ کھولا تو وہ باھر نکلتے ہوئے رکی اور ایک نظر اسکو دیکھا ۔
” یوں خود پہ جبر کرتے ہوئے آپ اچھے نہیں لگتے، آپ جائیے میں خود چلی جاؤں گی ” وہ سپاٹ سے لہجے میں بولی تو وہ اسے دیکھتا رہ گیا ۔ وہ گولڈن اور بلیک لونگ سکرٹ میں ملبوس تھی ، بالوں کو اٹھا کر بائیں کندھے پہ ڈال رکھا تھا ، گردن کے دائیں جانب سیاہ تل رازی کو اپنی طرف متوجہ کر رھا تھا ۔ جانے کیا بات تھی کہ آج رازی ناچاھتے ہوئے بھی اس پر سے نظریں ہٹا نہیں پا رھا تھا ۔
” آپ میری زیادہ پرواہ مت کریں ” لہجے کو مضبوط بناتے ہوئے وہ بولا تو وہ بےنیازی سے شانے اچکا کر آگے بڑھ گئی اور سر جھکائے اسکے پیچھے چلنے لگا ۔
___________________
آج پھر رازی کے سامنے ان تینوں کی پیشی تھی ۔ وہ دونوں تو سر جھکائے بیٹھے تھے مگر وہ متواتر ببل گم چباتے ہوئے بے نیازی کا عظیم الشان نظارہ پیش کر رھی تھی ۔
” تم لوگوں کو اتنا بھی احساس نہیں۔ کہ اس طرح کی حرکت کسطرح کے نقصان کا مؤجب بن سکتی ھے؟”
” واٹ ۔۔۔ نقصان کا کیا بن سکتی ھے ؟؟؟” وہ ناسمجھی والے انداز میں پوچھنے لگی تو وہ اسی پہ الٹ پڑا ۔
” شٹ اپ۔۔ جسٹ شٹ اپ، تمہیں تو اب سمجھانے کو بھی دل نہیں کرتا ”
“اوہ !! تو پہلے دل کے کہنے پہ سمجھاتے تھے ” وہ سر ہلا کر سمجھتے ہوئے بولی تو وہ لب بھینچ کر رہ گیا ۔
” گاڑی کی چابی میرے روم سے کس نے اٹھائی تھی ؟”
” بھائی , آپکو ڈانٹنا ھے تو ڈانٹ لیں ، پر اب اس طرح پوچھنے کا کیا فائدہ” بابر سنیکرز کی ٹوہ سے کارپٹ کریدتے ہوئے جھجھک کر بولا ، صاف ظاہر تھا کہ وہ بتانا نہیں چاہ رھا تھا ۔
” میں نے اٹھائی تھی چابی ” جواب انتہائی پرسکون لہجے میں عنبر کی طرف سے دیا گیا ۔
” جاؤ تم لوگ یہاں سے ” رازی غصے کو مشکل سے ضبط کرتے ہوئے انکی طرف پیٹھ پھیر کر کھڑا ہوگیا ۔
وہ دونوں تو تقریباً بھاگنے والے انداز میں وہاں سے نکل گئے مگر عنبر بےپرواھی سے وہیں ٹانگ پہ ٹانگ رکھے بیٹھی رھی ۔
وہ کچھ دیر اسکے جانے کا منتظر رھا مگر وہ ڈھیٹوں کی طرح بیٹھی رھی ۔
” شام ہونے والی ھے۔ اٹھو ، جاؤ اپنے گھر کی راہ لو”
عنبر نے اطمینان سے اسے دیکھا پھر اپنے مخصوص انداز میں بولی ۔
” آپکو اتنی فکر کیوں ھے “۔
ایک تو یہ لڑکی بات ایسے کرتی تھی کہ رازی کا دل چاہتا تھا کہ ایک تھپڑ تو لگا ھی دے . پھر بھی اپنے غصے کو کنٹرول کرتے ہوئے بولا ۔
” تمہیں اچھی طرح پتا ھے کہ دادو دو دن پہلے اسلام آباد گئی ہیں ، چچا کی طبیعت جب تک ٹھیک نہیں ہوتی تب تک تو دادو نہیں آئیں گی واپس ” وہ سانس لینے کو رکا ۔ ” اب جب تک وہ واپس نہیں آتیں تب تک تم اپنے گھر تک ھی محدود رھو ” ۔
” دادو نہیں ہیں تو پھر کیا ہوا ؟” وہ نہایت دلچسپی سے اسے دیکھتے ہوئے بولی ۔ تو وہ بھی بڑے رسان سے بولا ۔
” پھر یہ کہ تمہارا یہاں آنا مناسب نہیں ھے ”
” دادو نے کہا تھا کہ یہ گھر انکے نام ھے ، اس لیے آپ مجھے یہاں آنے سے نہیں روک سکتے ”
” یہ جیسی تمہاری حرکتیں ہیں ناں ، میرا دل کرتا ھے تمہیں اٹھا کر باھر پھینک دوں ”
” افف ! ذرا سی گاڑی کیا چلا لی ، آپکا تو غصہ ھی ختم ھی نہیں ہو رھا ، دو چار سکریچز ھی آئیں ہیں ناں ، پیسے لے لیجئے گا آپ مجھ سے ”
” کاش دو چار سکریچز تمہیں بھی آجاتے ، اسی بہانے تم اپنے گھر میں تو ٹکتی ” وہ حسرت بھرے لہجے میں بولا تو اسنے شرارت سے اسے دیکھا ۔
” اگلی دفعہ جب آپکی گاڑی لیکر جاؤں گی تو یہ دھیان ضرور رکھوں گی ” ۔
” اب بک بک بہت ہو گئی ۔۔۔ یو کین گو ناؤ” وہ جس طرح حکمیہ اور سرد لہجے میں بات کرتا تھا ، یہی عنبر کی چڑ تھی ۔ اسے رازی کی بات ماننا اپنی ہار اور شرمندگی کے مترادف لگتا تھا ۔
” آپ کیا ڈرتے ہیں مجھ سے !!!” وہ بڑے سکون سے بولی تو وہ جزبز سا ہو کر اسے دیکھنے لگا ۔
” اصولاً تو تمہاری شکل سے ڈرنا چاہیے مگر میں تمہاری عقل سے ڈرتا ہوں ”
اسکا طنز عنبر کو سمجھ تو کیا آتا ، الٹا وہ خوش فہمی کا شکار ہوگئی ۔
” ڈیڈ بھی یہی کہتے ہیں کہ میں بہت ذہین ہوں ” وہ فخریہ لہجے میں بولی تو وہ اکتا کہ رہ گیا ۔
رازی ہاتھ پہ بندھی گھڑی ، چہرے کے آگے کر کے دیکھنے لگا ۔ مطلب واضح تھا کہ اسکے پاس فضول بحث کا کوئی ٹائم نہیں ھے تو مجبوراً اسے بھی اٹھنا پڑا ، مگر ایک دم سے جتانے والے انداز میں بولی ۔
” مجھے ذرا کام ھے اس لیے ابھی چلتی ہوں ” ۔
” تم اپنا کام اطمینان سے تین چار ہفتوں تک کمپلیٹ کر سکتی ہو ، کوئی مسئلہ نہیں ” وہ عاجز آکر بولا اور گیٹ بند کرنے کے خیال سے اسکے پیچھے چل پڑا ۔
وہ گیٹ کراس کر گئی تو اسنے کھٹاک سے کنڈی لگائی ، اندر آنے تک ناچاھتے ہوئے بھی وہ اسی کے بارے میں سوچ رھا تھا ۔
رازی ان دونوں کے کمرے میں آیا تو وہ دونوں اپنی سامنے کتابوں کو ڈھیر لگائے ان میں غرق نظر آئے ۔ رازی وہیں بیڈ پہ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا ۔
” بھائی ۔۔۔ آپ نے عنبر کو ڈانتا تو نہیں ” احراز نے کچکچاتے ہوئے پوچھا تو وہ مسکرا دیا
” وہ کسی کی ڈانٹ کھانے والی ھے کیا !”
وہ دونوں اسکی بات پر جیسے مطمئن ہو گئے ۔
” ویسے تم لوگ مجھ سے پوچھ کر گاڑی لے جاتے تو اور بات تھی ، اور سب سے فضول بات یہ کہ گاڑی عنبر صاحبہ چلا رھی تھی ”
” سچی بات بتاؤں بگ برادر۔۔۔” بابر سر کھجاتے ہوئے بولا ” آئیڈیا میرا ھی تھا ۔۔۔ وہ ناں بہت شوخیاں مار رھی تھیں ۔۔۔ اپنے آپ کو کنگ آف ڈرائیونگ سمجھتی تھیں مگر ساری پول کھل گئی ” اسکی بات پر رازی نے تاسف سے سر دائیں بائیں ہلایا ۔
” شکر کرو کہ صرف گاڑی کو ھی سکریچز آئے ہیں ، خیر اگر کبھی تم لوگوں نے گاڑی استعمال کرنی ہو تو مجھ سے پوچھ کر لے لینا ، ویسے میں سوچ رھا ہوں کہ تم دونوں کو گاڑی ھی گفٹ کردوں ! کیا خیال ھے ؟” دونوں کے سر بیک وقت نفی میں ہلے ۔
” کیا ؟” رازی حیرانی سے انہیں دیکھنے لگا ۔
” وہ بھائی ابھی ھم سوچ رھے ہیں کہ کیا لیں آپ سے ، کچھ ایسا کہ آپکو بھی سوچنا پڑجائے”
وہ مسکرا دیا اور کندھے اچکائے ” اوکے ۔۔۔ ایز یو لائیک ” ۔
______________________
” کیا کوئی ھے گھر پہ ۔۔۔۔۔۔؟ کہاں گئے سب ۔۔۔۔؟ ”
اس نے لاؤنج میں کھڑے ہو کر گلا پھاڑ کر کہا ۔
بابر اور احراز کالج گئے ہیں وہ اچھے سے جانتی تھی مگر یونہی رازی کو تنگ کرنے کے خیال سے وہ ادھر چلی آئی ۔
کمرے کا دروازہ کھول کر اندر جھانکا وہ اندر نہیں تھا، باتھ روم میں پانی گرنے کی آواز آ رھی تھی تو وہ مسکراتی ہوئی اطمینان سے اندر آگئی ۔
” مسٹر رازی فاروقی، اسٹون مین ”
اس نے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر پڑی رازی کی تصویر کو دیکھ کر منہ چڑایا ۔پھر بڑے اطمینان سے اس کے بیڈ پر تکیہ اونچا کر کے ٹیک لگا کر نیم دراز ہو گئی۔
چند لمحوں بعد ھی باتھ روم کا دروازہ کھلا اور وہ نمودار ہوا ۔ سامنے بیڈ پر بیٹھی عنبر کو دیکھ کر وہ ٹھٹھک گیا اور پاس ھی صوفے پر پڑی شرٹ اٹھا کر فوراً پہنی ۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ اس قدر بے خوف اور بے اختیار لڑکی ھے ، ایکدم سے رازی کا پارہ ہائی ہونے لگا ۔
” تم میرے بیڈروم میں کیا کر رھی ہو ؟” اسنے تیز لہجے میں پوچھا تو وہ سیدھی ہو کے بیٹھ گئی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...