آئمہ اور کیف کی شادی کو ایک سال ہوگیا تھا آئمہ کیف کیساتھ اتنی خوش تھی کہ اسے کچھ یاد ہی نہیں کہ اس کیساتھ ماضی میں کیا کیا ہوا!
کیف آئمہ سے بےحد محبّت کرتا تھا وہ آئمہ کی خوشی کا خاص خیال رکھتا تھا جب آئمہ ہستی تھی تو اسے بہت خوشی ملتی تھی۔
آئمہ اللہ سے دعائیں کرتی نہیں تھکتی تھی کیف کی ماں نے آئمہ کو اپنی بیٹی کی طرح رکھا ہوا تھا وہ بھی اس سے اتنا ہی پیار کرتی جتنا کہ وہ کیف سے کرتی تھی اب آئمہ کی زندگی میں اتنی خوشیاں آچکی تھی کہ جسے گننا بھی مشکل تھا۔
خوش قسمتی سے اب آئمہ ماں بننے والی تھی یہ کیف اور آئمہ کی محبت کی بہت بڑی نشانی تھی جب یہ بات سب کو پتا چلی تو سب کے سب خوشی سے پاگل ہوگئے تھے۔
سب نے آئمہ کا بہت بہت بہت خیال رکھا اس کے کھانے پینے اسکے اپنے ذاتی کام سب کچھ اس کے بیٹھے بٹھائے ہوجاتا تھا۔
آئمہ کی ساس ارفہ تو آئمہ کو کسی کام کو ہاتھ ہی نہیں لگانے دیتی تھی اور کیف جب بھی کام سے آتا آئمہ کے لئے ڈھیر سارے فروٹ لے کر آتا اور پھر آکر خود اپنے ہاتھوں سے تازہ جوس بناکر آئمہ کو پلاتا تھا۔۔۔۔
یوں پھر آئمہ کو 9 ماہ پورے ہوچکے تھے۔۔۔۔
سب ہسپتال میں تھے اور آئمہ اندر کمرے میں تھی سب باہر کھڑے ہوکر اللہ سے دعا کررہے تھے۔۔۔۔
کہ اچانک بچے کی رونے کی آواز اندر سے آنا شروع ہوئ یہ آواز سن کر کیف خوشی سے جھوم اٹھا سب ہی بہت ہی زیادہ خوش تھے آئمہ کی ماں اور اس کا والد بھی وہاں موجود تھے۔
اچانک باہر ڈاکٹر اپنے چہرے پر ایک مسکراہٹ بھکیرے نکلی۔
یہ دیکھ کر کیف دوڑتا ہوا ڈاکٹر کہ پاس گیا اور کہنے لگا: ڈاکٹر صاحب آئمہ کیسی ہے اور بچہ؟؟؟؟
ڈاکٹر نے ہنستے ہوئے سب کو مبارکباد دی اور کہا: مبارک ہو بیٹا ہوا ہے۔۔۔۔
یہ سن کر سب بہت ہی زیادہ خوش ہوئے اور ایک دوسرے کو گلے مل کر مبارکباد دینے لگ پڑے۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد سب کمرے میں داخل ہوئے۔۔۔۔
آئمہ وہاں لیٹی سب کو دیکھ رہی تھی۔
ارفہ آگے بڑھی اور آئمہ کا ماتھا چومتے ہوئے کہا: میری بچی اب کیسی طبیعت ہے؟؟؟؟
آئمہ نے کہا: جی میں ٹھیک ہو۔۔۔
کیف نہایت خوشی سے آئمہ کی طرف دیکھ رہا تھا اور آئمہ بھی۔
کیف نے جب بچے کو اپنے گود میں بٹھایا تو اسکی خوشی کا کوئ ٹھکانا ہی نا رہا بچہ اتنا خوبصورت تھا کہ سب تعریف کئے بغیر نا رک سکے۔۔۔
بچہ بلکل اپنے ماں باپ پر گیا تھا۔۔۔۔
سب نے بچے کو خوب دعائیں دی۔۔۔۔
“میں تنگ آگئ ہو تم لوگوں کی اس روز روز کے ڈراموں سے…”
اسکی آنکھوں سے آنسو نکلنا بھی شروع ہوچکے تھے۔۔۔
آزر نے اپنی ماں کو روتے ہوئے دیکھا اور کہا: امی پلیز آپ لوگ مجھے فورس نہیں کرسکتے۔۔۔۔ اور پلیز میرے سامنے اس طرح سے مت رویا کرے پلیز۔۔۔
آزر کی والدہ نے کہا: تو پھر میں کیا کرو کیا ایسے ہی سب کچھ چلتا رہے گا لوگ طرح طرح کی باتیں آکر کرتے ہے مجھ سے کہ بڑے بیٹے کی بیوی مرگئ اور چھوٹے بیٹے کی طلاق ہوگئ یہ سن سن کر میرے کانوں میں درد ہونے لگ پڑا ہے۔۔۔
اسکی ماں پھر سے رونے لگ پڑی۔۔
آزر نے کہا: امی اگر آپ لوگوں کو شادی کروانے کا اتنا ہی شوق ہے تو پھر پلیز پہلے عثمان کے لئے رشتہ ڈھونڈا۔۔۔
اسکی ماں نے کہا: عثمان کی عمر اب نہیں رہی شادی کی کوئ بھی اسے اپنی بیٹی نہیں دینا چاہتا۔۔۔۔ کم از کم تم تو اپنی زندگی جی لو کہ ہمیشہ یوں ہی مجنوں بن کر پڑے رہو گے۔۔۔
یہ سن کر آزر نے چیخ کر کہا: مجنوں کس چیز کا مجنوں امی اگر آپکا بس چکے نا تو آپ مجھے طعنے دے دے کر ہی مار دے اور یہی چاہتی ہے آپ۔
یہ سن کر اسکی ماں کو بہت تکلیف ہوئ اس نے کہا: میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں تھا۔۔۔
“بس امی بس یہ دیکھ لے میرے جڑے ہوئے ہاتھ رحم کھائے مجھ پر اور میں جیسا بھی ہو مجھے میرے ہال پر چھوڑ دے۔
یہ کہہ کر وہ غصے سے وہاں سے چلا گیا۔۔۔
اور اسکی ماں وہی بیٹھی پھر سے رو دی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کتنا پیارا ہے نا ماشاءاللہ” آئمہ بیڈ پر لیٹی تھی اور اپنے بچے سے پیار کرہی تھی اور پاس ہی بیٹھے کیف سے یہ پوچھ رہی تھی۔۔
کیف نے مسکراتے ہوئے کہا: ہاں تم پر جو گیا ہے۔۔۔
یہ سن کر آئمہ پھر سے مسکرا دی آئمہ کی مسکراہٹ اتنی پیاری تھی کہ کیف اسے دیکھتا ہی رہ جاتا تھا وہ ہروقت آئمہ کو ہنسانے کی کوشش میں لگا رہتا تھا۔
کیف کو اس طرح سے گھورتے دیکھ کر آئمہ کو شرم آنے لگ پڑی تھی آئمہ نے اپنی نگاہ نیچے کرتے ہوئے کہا: ایسا کیا دیکھ رہے ہے آپ مجھ میں۔
کیف نے کافی دیر بعد اپنی پلکیں جھپکیں اور آئمہ کو کہا: یہی کہ تم کتنی پیاری ہو ایسا لگ رہا ہے جیسے چاند زمین پر آگیا ہو۔
آئمہ نے مسکراتے ہوئے کہا: یہ ڈائلاگ بہت پرانا ہوگیا ہے۔۔۔
کیف بھی مسکرا دیا۔۔۔
اچانک آئمہ نے کیف سے کہا: اچھا چلے اب آپ اپنے بیٹے کو پیمپر پہنائے میں نے کل آپکو سکھایا تھا نا۔۔۔
کیف نے مسکراتے ہوئے کہا: ہاں ہاں کیوں نہیں میں اپنے بیٹے کو پیمپر ضرور پہناؤ گا۔۔۔
کیف ساتھ ساتھ اپنے بیٹے کی گالوں سے پکڑ کر پیار کرہا تھا اور ساتھ ساتھ اسے پیمپر پہنا رہا تھا۔۔۔
باپ اور بیٹے کا یہ پیار دیکھ کر آئمہ کی آنکھوں سے خوشی کہ انسو نکل آئے۔۔۔
اور وہ اللہ کا شکر ادا کرتی تھی کہ اے اللہ ہمیں ایسے ہی ایک ہی بنائے رکھنا آمین۔
یہ میں کیا سن رہا ہو آزر”؟
عثمان کمرے میں داخل ہوا اور آزر کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
آزر نے عثمان کی طرف دیکھا اور کہا: کیا ہوگیا اب؟؟؟
عثمان نے کہا: تم نے امی سے پھر سے بدتمیزی کی ہے پتا بھی ہے کہ انکا بی پی کتنا ہائے رہتا ہے۔۔۔
یہ سن کر آزر شرمندہ ہوا اور کہا: مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا لیکن میں کیا کرتا جب بھی میں ان کے پاس بیٹھتا ہو وہ پھر سے شادی والی بات شروع کردیتی ہے میں نے اتنی بار سمجھایا ہے مگر وہ سنتی ہی نہیں ہے۔۔۔
یہ سن کر عثمان نے کہا: وہ جو بھی کہتی ہے تمہارے بھلے کے لئے ہی کہتی ہے۔۔۔
یہ سن کر آزر نے کہا: اگر ایسی بات ہے تو پھر آپ پوری کردے نا امی کی خواہش پوری آپ کرلے نا شادی۔۔۔
یہ سن کر عثمان کو کافی دکھ ہوا اس نے کہا: مجھ سے اب اس عمر میں کون کرے گا شادی اسی لئے بہتر یہی ہے کہ تم ہی شادی کرلو تاکہ اس روز روز کی معصیت سے جان چھوٹے۔۔۔
آزر نے اپنے بھائ سے کہا: میرے کوئ ارادہ نہیں ہے شادی کا لوگ کیا کہے گے کہ سبھی باپ کو مرے ایک سال بھی نہیں ہوئے اور بیٹے نے دوسری شادی کرلی۔۔۔
عثمان نے کہا: آزر ایسا نہیں کہتے۔۔۔۔
آزر نے کہا: بہر حال آپ جاکر امی کو سمجھائے کہ وہ مجھے فورس مت کرے پلیز میں شادی نہیں کرنا چاہتا۔۔۔
یہ سن کر عثمان نے غصے سے کہا: تمہارے جو بھی دل میں آئے تم وہی کرو۔۔۔
یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا۔۔۔
سیڑھیاں اترتے وقت عثمان کو زور دار چکر آنا شروع ہوگئے پتا نہیں یہ اچانک ہی اسے کیا ہوگیا تھا۔۔۔
چکر اتنے زیادہ آرہے تھے کہ وہ لڑکھڑاتا ہوا سیڑھیوں سے نیچے گر گیا اب اچانک اسے زور زور سے کھانسی بھی چھوٹ گئ تھی۔۔۔
وہ بڑی مشکلوں سے اٹھا اور گاڑی میں جاکر بیٹھا اس نے گھر میں کسی کو کچھ نہیں بتایا اور ڈرائیور کیساتھ وہ وہاں سے سیدھا ہسپتال کی جانب چل دیا اسے اتنی زور سے کھانسی ہورہی تھی کہ اب کی بار اس کہ منہ سے خون نکلنا شروع ہوگیا تھا۔۔۔
ڈرائیور اسے سنبھالتے ہوئے اندر ڈاکٹر کے پاس لے گیا اس کی طبیعت اچانک ہی کافی بگڑ گئ تھی ڈاکٹر نے اس کہ کچھ ٹیسٹ کئے جب اس کہ ٹیسٹ آئے تو ٹیسٹ دیکھ کر ڈاکٹر بھی shocked ہوگیا وہ عثمان کے پاس گیا عثمان بیڈ پر لیٹا تھا اس کو پہلے بھی کافی دیر تک کھانسی اور چکر آتے تھے مگر وہ ہسپتال آکر اپنا چیک اپ نہیں کرواتا تھا کیونکہ اس کا ہسپتال میں آکر دم گھٹتا تھا ڈاکٹر عثمان سے مخاطب ہوا اور اسے کہنے لگا: دیکھئے میری بات دھیان سے سنے۔۔۔
عثمان نے ڈاکٹر کی طرف دیکھا اور بڑی مشکلوں سے کھانستے ہوئے کہا؛ جی جی کہئے۔۔۔؟؟؟
ڈاکٹر نے ایک لمبا سانس خارج کیا اور کہا: دیکھئے آپ کو بلڈ کا کینسر ہے۔۔۔۔
یہ سن کر عثمان کو حیرت کا ایک زور دار جھٹکا لگا۔
ڈاکٹر نے مزید کہا: آپ کے لئے بہتر یہی ہوگا کہ آپ یہاں ایڈمٹ ہوجائے کیونکہ کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔۔۔
یہ سن کر عثمان نے روتے ہوئے کہا؛ نننن نہیں نہیں ڈاکٹر صاحب کہہ دے کہ یہ جھوٹ ہے پلیز۔۔۔
ڈاکٹر نے رپورٹ عثمان کو دکھائ اور کہا: یہ بلکل سچ ہے یہ دیکھئے۔۔۔
رپورٹ دیکھ کر عثمان کی روح تک کانپ اٹھی اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔
ڈاکٹر نے کہا: آپ آج ہی یہاں ایڈمٹ ہوجائے اسی میں ہی آپکی بہتری ہے۔۔۔
یہ سن کر عثمان فوراً ہی اپنی جگہ سے اٹھا اور ڈاکٹر کو نہایت غصے سے کہا: ننن نہیں رکو گا میں یہاں پر دم گھٹتا ہے میرا یہاں۔۔۔
ڈاکٹر نے عثمان کو بہت روکنے کی کوشش بھی کی مگر وہ نا رکا اور وہ وہاں سے اپنے ڈرائیور کو لے کر چلا گیا راستے میں بھی وہ بہت زور زور سے کھانستا رہا۔۔۔
اس نے ڈرائیور کو سختی سے منع کردیا کہ وہ گھر جاکر کسی کو کچھ بھی نا بتائے۔۔۔۔
آئمہ چلو آج میں تم اور ریحان باہر گھومنے چلتے ہیں”
کیف نے آئمہ کو کہا۔
آئمہ نے کہا: مگر!
کیف نے آئمہ کی بات کاٹتے ہوئے کہا: اگر مگر کچھ نہیں بہت دن ہوگئے ہے ہم فیملی کہی گھومنے نہیں گئ آج چلتے ہیں سب بس چلو تم تیار ہوجاو اور ریحان کو بھی کردو اور جلدی سے نیچے آجاؤ میں گاڑی میں انتظار کررہا ہو۔
یہ کہہ کر کیف وہاں سے چلا گیا۔
کیف کہ اتنے اسرار پر آئمہ کو مجبوراً تیار ہونا پڑا اس نے پہلے اپنے بیٹے ریحان کو تیار کیا اور پھر خود بھی جلدی سے تیار ہوئ اور پھر جلدی سے ریحان کو لے کر وہاں سے چلی گئ۔
یوں پھر وہ سب فیملی وہاں سے چلی گئ۔
جب وہ سب واپس آرہے تھے تو آئمہ کی نظر سڑک کے کنارے پر چلنے والے ایک شخص پر پڑی شاید وہ اسے جانتی تھی اسے دیکھتے ہی آئمہ نے ریحان کو گاڑی روکنے کا کہا۔
کیف نے آئمہ کے کہنے پر گاڑی روکی۔
کیف نے کہا: کیا ہوا آئمہ گاڑی کیوں رکوائی۔۔۔
آئمہ نے اس شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: کیف اس شخص کو شاید میں جانتی ہو۔۔۔
کیف نے کہا: اچھا تو پھر کون ہے وہ؟؟؟
جب آئمہ نے اسے دھیان سے دیکھا تو اس نے کہا: یہ تو علی ہے۔۔۔
کیف نے کہا: اوووو تو کیا یہ وہی علی ہے جو تم سے محبت کرتا تھا اور پھر عثمان کا راز بھی اس نے ہی فاش کیا تھا۔۔؟؟؟
آئمہ نے کہا: ہاں یہ وہی ہے مگر یہ اس حال میں یہاں کیا کررہا ہے۔۔۔
کیف نے کہا: ہاں یار حالت تو اسکی واقعی بہت خراب لگ رہی ہے۔۔۔
علی کی حالت واقعی بہت خراب تھی اسکے کپڑے دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے اس نے کہی دنوں سے کپڑے نا بدلے ہو اس کے ہاتھ میں ایک فائل بھی تھی جسے پکڑ کر وہ بڑی پریشانی کہ عالم میں سڑک کے کنارے پر کھڑا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ابھی ہی رونا شروع کردیگا۔
اچانک علی کی نظر آئمہ پر پڑی علی نے جونہی آئمہ کو دیکھا تو اس کہ آنکھوں سے آنسو نکلنا شروع ہوگئے تھے۔۔۔
وہ خود کو آئمہ کا گنہگار سمجھ رہا تھا۔
وہ بھاگتا ہوا آئمہ کی جانب بڑھا آئمہ گاڑی سے باہر نکل گئ تھی اور ساتھ ہی کیف بھی نکل گیا تھا علی آئمہ کے پاس جاکر کھڑا ہوا اور آئمہ کو دیکھ کر اسکی حالت بےحال ہوگئ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا کیف نے اس کو دیکھا اور کہا: کیا ہوا تمہیں کیوں رو رہے ہو؟؟؟
علی نے روتے ہوئے کہا: مممم میں میں آئمہ کا مجرم ہو۔۔۔
یہ سن کر آئمہ نے علی سے کہا: کیا مطلب؟؟؟
علی نے روتے ہوئے کہا: ممم میری وجہ سے آزر اور تمہاری طلاق ہوئ اگر میں وہ عثمان کی ریکارڈنگ جاکر آزر کو نا سناتا تو شاید تم اور آزر کبھی الگ نا ہوتے۔۔۔ میں ہاتھ جوڑ کر تم سے معافی مانگتا ہو میں نے تمہارا دل دکھایا تھا جس کی وجہ سے آج میں اس حال تک پہنچا ہو مجھے تمہاری بددعا لگ گئ آئمہ پلیز خدا کے لئے مجھے معاف کردو۔۔۔
علی ہاتھ جوڑ کر رو رو کر آئمہ سے معافی مانگ رہا تھا۔۔۔
آئمہ نے حیرانگی سے علی کی طرف دیکھا اور کہا: معافی! کس چیز کی معافی مانگ رہے ہو تم؟
علی نے حیرانگی سے کہا: میری وجہ سے تم اور آ۔۔۔
علی ابھی کہنے ہی لگا تھا کہ آئمہ نے غصے سے علی کی بات کاٹتے ہوئے کہا: نام مت لو اس کا میرے سامنے۔۔۔۔
یہ سن کر علی خاموش ہوگیا۔۔۔
علی نے کیف کی جانب دیکھا۔۔۔
آئمہ نے کہا: یہ جسے تم دیکھ رہے ہو یہ شوہر ہے میرا۔۔۔
کیف نے علی سے کہا: کیا ہوا ہے تمہیں اس طرح سے سڑک پر اس حال میں کیا ہوا؟
کیف نے کی حالت پر ترس کھاتے ہوئے کہا۔
علی نے روتے ہوئے کہا: میرا پاس کچھ نہیں رہا گھر پر کھانے پینے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے عثمان نے مجھے نوکری سے نکال دیا تب سے مجھے آج تک کوئ نوکری نہیں ملی میں ہرروز نوکری کی تلاش سے نکلتا ہو مگر مجھے نوکری نہیں ملتی دو دن سے کچھ نہیں کھایا اور میں جانتا ہو اگر میں آئمہ کا دل نا دکھاتا میرے ساتھ ایسا نا ہوتا۔۔۔
یہ کہہ کر وہ پھر سے رو دیا۔
آئمہ نے کہا؛ تمہاری کوئ غلطی نہیں ہے میں تم سے خفا نہیں ہو تم نے جو کچھ بھی کیا ٹھیک کیا اگر تم ایسا نا کرتے تو آج میری زندگی میں کیف جیسا ایک اچھا نیک انسان نا آتا میں بہت خوش قسمت کو جو مجھے کیف ملا اور اب تو ہماری زندگی میں اور بھی خوشیاں آگئ ہے ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایک پیارے سے بیٹے سے بھی نوازا ہے۔۔۔
علی یہ سن کر بہت خوش ہوا۔۔۔
علی نے کہا: ہمیشہ خوش رہو اچھا میں چلتا ہو۔۔۔
یہ کہہ کر علی وہاں سے جانے ہی لگا کہ کیف نے اسے روک دیا علی نے پلٹ کر دیکھا۔
کیف نے علی سے کہا: کیا تم میری کمپنی میں کام کرو گے۔۔۔
یہ سن کر علی کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھی اسے یقین نہیں آرہا تھا اسے لگ رہا تھا جیسے وہ خواب دیکھ رہا ہو۔۔۔
علی نے فوراً خوشی سے جھومتے ہوئے کہا: ہا ہا ہاں ضرور بلکل مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا میں آپکا شکریہ ادا کیسے کرو بہت شکریہ۔
یہ کہہ کر علی کی آنکھوں سے خوشی کہ انسو نکل گئے۔
کیف نے اپنے پرس سے اپنی کمپنی کا کارڈ علی کو تھامتے ہوئے کہا: یہ کارڈ ہے اس میں کمپنی کا مکمل ایڈریس ہے تم کل آجانا۔
علی نے آئمہ کی طرف دیکھا آئمہ بھی علی سے یہی کہہ رہی تھی کہ وہ یہ کارڈ لے لیں۔
علی کی خوشی کی کوئ انتہا ہی نا رہی وہ اتنا خوش تھا کہ اس کی آنکھوں سے خوشی کہ انسو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔۔۔
کیف نے کہا؛ ایسے مت رو اب تم بلکل بھی فکر مت کرو۔۔۔
علی نے وہ کارڈ پکڑا اور کہا: جی جی میں ضرور آؤ گا ضرور آؤ گا بہت شکریہ اللہ آپکو اور آپکی فیملی کو ہمیشہ خوش رکھے۔۔۔
علی وہاں سے جھومتے ہوئے واپس اپنے گھر گیا۔۔
آئمہ کیف سے بہت خوش تھی وہ کتنا اچھا تھا آئمہ نے کیف سے کہا: تم کتنے اچھے کو کیف میں بہت خوش قسمت ہو جو مجھے تم جیسا شوہر ملا۔۔۔
کیف نے مسکراتے ہوئے کہا: یہ میرا فرض تھا چلو ریحان گاڑی میں اکیلا ہے۔۔۔
یہ کہہ کر وہ دونوں فورا گاڑی میں جا بیٹھے اور خوشی خوشی وہاں سے چلے گئے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عثمان کیا ہوا تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے”
اس کے لگاتار کھانسنے پر اسکی ماں نے اس سے پوچھا۔
وہ سب کھانے کہ ٹیبل پر بیٹھے تھے اور ناشتہ کررہے تھے اور آزر بھی وہی موجود تھا۔
عثمان نے کہا: ککک کچھ کچھ نہیں امی۔۔
آزر نے کہا: نہیں بھائ مجھے آپکی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی سب ٹھیک ہے نا۔
عثمان نے کہا: میں نے کہا نا کچھ بھی نہیں ہوا۔۔۔
یہ کہہ کر وہ وہاں سے اٹھا اور آفس کے لئے جانے ہی لگا کہ اچانک اسے ایک زور دار دل کا دورہ پڑا اس نے اپنے دل کو پکڑ لیا درد اتنی زیادہ تھی کہ اسکی چیخیں نکل گئ وہ لڑکھڑاتا ہوا نیچے گر گیا اس کے منہ سے خون بھی نکلنا شروع ہوگیا۔۔۔
عثمان کا یہ حال دیکھ کر آزر اور اسکی ماں کی تو جیسے جان ہی نکل گئ ہو وہ بھاگتے ہوئے عثمان کے پاس گئے۔۔۔
عثمان کہ منہ سے خون نکل رہا تھا وہ جیسے جیسے کھانس رہا تھا اس کہ منہ سے ویسے ہی خون نکل رہا تھا۔۔۔
عثمان زمین پر لیٹا کسی مچھلی کی طرح تڑپ رہا تھا۔۔۔
یہ سب دیکھ کر اسکی ماں کی تو جان ہی نکل گئ ہو اس نے چیختے ہوئے آزر سے کہا کہ گاڑی نکالے تاکہ عثمان کو جلدی سے ہسپتال لے جایا جاسکے۔۔۔
آزر کسی بجلی کی سی اسپیڈ سے گیا اور گاڑی نکلوائیں اور نوکروں کیساتھ مل کر عثمان کو گاڑی میں اٹھا کر بٹھایا۔۔۔
عثمان کی والدہ کی تو سانسیں ہی پھول گئ تھی۔
آزر کا بھی برا حال تھا۔
عثمان کی آنکھیں باہر آرہی تھی اس کہ منہ سے مسلسل خون نکل رہا تھا۔۔۔
جب وہ سب ہسپتال پہنچے تو اسے جلدی سے ڈاکٹر آپریشن تھیٹر لے گئے۔
آزر کے سفید کپڑے خون سے بھر گئے تھے۔۔۔
آزر اور اسکی ماں تھر تھر کانپ رہے تھے۔۔۔
اسکی ماں کا رو رو کر برا حال تھا اور آزر بھی سر پکڑ کر بیٹھا تھا۔۔۔۔
تقریباً ایک گھنٹہ گزر چکا تھا۔۔۔
آزر اور اسکی ماں اللہ سے رو رو کر دعا کررہے تھے کہ عثمان ٹھیک ہو جائے۔۔۔۔
اچانک ایک ڈاکٹر باہر آیا اور ڈاکٹر بھاگتا ہوا آزر اور اسکی ماں کہ پاس گیا ڈاکٹر نے جلدی سے آزر اور اسکی ماں سے کہا: آپ لوگ جلدی سے اندر آجائیے وہ patient آپ دونوں کو ہی بلا رہا ہے۔۔۔
یہ سن کر آزر اور اسکی ماں بھاگتے ہوئے اندر گئے اندر عثمان اپنی زندگی کی آخری سانسیں بڑی مشکلوں سے لے رہا تھا عثمان نے آزر اور اپنی ماں کی جانب دیکھا اس کی ماں اور آزر روتے ہوئے اس کہ پاس گئے۔۔۔
عثمان کا یہ حال ان سے دیکھا نہیں جارہا تھا وہ بہت تکلیف میں تھا اس کا سارا جسم بلکل سن ہوچکا تھا۔۔۔
عثمان نے آزر کی طرف دیکھا اور اسے اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا۔۔۔
آزر جلدی سے عثمان کہ پاس گیا اور روتے ہوئے کہا: بھائ یہ یہ آپکو کیا ہوگیا بھائ۔۔۔؟؟؟؟
عثمان نے تڑپتے ہوئے بڑی مشکلوں سے کہا: ممممم میرے پپپ پاس زیادہ وقت نہیں ہے مممم میری بات دھیان سے سنو۔۔۔
آزر نے عثمان کا بےجان ہاتھ پکڑا اور کہا: جی جی بھائ بولے۔؟؟؟؟
عثمان نے بڑی مشکلوں سے کہا: ااا آزر ااا آئمہ آئمہ بےکسور تھی اسکی کوئ غغغغ غلطی نہیں تھی ممم میں نے اس پر جھوٹا الزام لگایا تھا میں نے اس کی عزت پر ہاتھ ڈالا پھر ااا اس کو تم سے الگ کروا دیا مجھے معاف کردو ممم معاف کردو۔۔۔۔ میرے بھائ معاف کردو۔۔۔
یہ سن کر آزر کو ایک زور دار دھچکا لگا اس کہ ہاتھوں سے عثمان کا ہاتھ حقیقت جان کر خود بخود چھوٹ گیا وہ اپنی پھٹی آنکھوں سے عثمان کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔
عثمان نے مزید کہا: ااا آزر خدا کے لئے میرے ساتھ ایسا مت کرو اگر تم اور آئمہ مجھے معاف نہیں کرو گے تتتت تو تو میرا خدا بھی مجھے معاف نہیں کرے گا۔۔۔۔
عثمان کی حالت نا دیکھنے والی ہوگئ تھی وہ پتا نہیں کیسے یہ سب کچھ آزر سے کہہ رہا تھا۔۔۔
عثمان نے کہا: آئمہ سے کہنا کہ وہ بھی مجھے مممم معاف کردے۔۔۔۔۔۔
یہ کہہ کر عثمان کو ایک زور دار جھٹکا لگا اور اسکی آنکھیں باہر کو آگئ تھی اسکی جان نکل چکی تھی۔۔۔۔
یہ سب دیکھ کر عثمان کی ماں چیخ چیخ کر عثمان کو ہلاتے ہوئے کہہ رہی تھی: عثمان! نہیں عثمان تم ہمیں چھوڑ کر نہیں جاسکتے عثمان۔۔۔
اسکی ماں پاگلوں کی طرح دھاڑے مار مار کر رو رہی تھی۔۔۔
آزر وہی بت بنا کھڑا تھا اور ابھی تک عثمان کو اپنی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر آگے بڑھا اور عثمان کی آنکھیں اپنی ہاتھوں سے بند کردی۔۔۔۔۔
عثمان کی ماں تڑپ تڑپ کر رو رہی تھی ہسپتال کی نرسز انہیں سنبھال رہی تھی۔۔۔۔
آزر دیوار کہ سہارے دیوار کیساتھ کھڑا تھا اور ابھی بھی وہ آنکھیں پھاڑے عثمان کو ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔