اردو کا ہندفاربی (Indo-Perso-Arabic) رسمِ خط دائیں سے بائیں لکھنے جانے والے قدیم رسومِ خط کا حسین امتزاج اور جدید ترین اور ترقی یافتہ ترین صورت ہے۔ اردو کا مشین ریڈ ایبل فانٹ بن جانے کے بعد سے یہ سوشلستانی ہندفاربی رسمِ خط پورے زور شور سے سائبر دنیا کی مختلف ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر مصنوعات میں استعمال ہو رہا ہے۔ اِس فانٹ کی وجہ سے یہ رسمِ خط پلیٹ فارم سے ناوابستہ ہوچکا ہے یعنی کم و بیش ہر مشین اور ایپ کے لیے مہیا ہے۔
اردو میں اِعراب کی ضرورت شروع سے ہے چنانچہ زبر زیر پیش، کھڑا زبر کھڑا زیر الٹا پیش، جزم، تنوین، مد وغیرہ کی صورت میں یہ علامتیں سہولت کے لیے موجود ہیں۔ اردو تحریریں اکثر پڑھتے رہنے والوں کو اِن میں سے بیشتر علامات کی ضرورت نہیں ہوتی البتہ متون میں کچھ علامتیں مفہوم کی درست تفہیم کے لیے لگائی جاتی ہیں۔
کسی متن میں علامتوں کی تعداد زیادہ ہوجائے تو اردو پڑھنے والوں کو یہ بوجھل لگنے لگتا ہے۔ اِس مسئلہ سے عہدہ برا ہونے کے لیے رفتہ رفتہ یہ ترتیب اختیار کی گئی ہے کہ ابتدائی ریڈروں اور چھوٹے بچوں کے لیے لکھے گئے متون میں اِعراب زیادہ تعداد میں ہوں جب کہ باقی متون میں یہ تعداد صرف ضروری الفاظ تک محدود رہے۔
چنانچہ میں لوگوں سے جس ترتیب کو اپنانے کو کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ:
1: جن الفاظ میں کسی کی طرف اشارہ پایا جائے اُن پہ ہمیشہ اِعراب لگائیں جیسے اِس، اُس، اِسی، اُسی، اِسے، اُسے، اِتنا، اُتنا، اِتنی، اُتنی، اِتنے، اُتنے، اِن، اُن، اِنہی، اُنہی، اِنھیں، اُنھیں، وغیرہ۔
2: جن الفاظ میں زبر یا زیر دو مختلف الفاظ بناتا ہو یعنی confusing یا الجھن پیدا کرنے والے الفاظ، اُن پہ لازمًا اِعراب لگائیں جیسے اَعراب/ اِعراب، اَمثال/ اِمثال، اَقدام/ اِقدام، اَڑنا/ اُڑنا، مخاطَب/ مخاطِب، مرتَّب/ مرتِّب، مرتَّبہ/ مرتِّبہ، مصنِّفہ/ مصنَّفہ، وغیرہ۔ ایسے لفظوں کے خصوصًا پہلے حرف کی حرکت کو ضرور واضح کرنا چاہیے۔
3: اُن الفاظ پہ اِعراب نہ لگائے جائیں جن پر صرف ایک ہی اِعراب آتا ہے، جیسے الجھن، الٹ، سورج، اردو، روداد، چورن، چلن، امن، چلنا، افسر، دھیما، وغیرہ۔
4: جن لفظوں میں جن حروف سے اگلا حرف کوئی حرفِ علت/ مصوتہ ہو جو آواز کو کھینچنے کے لیے آیا ہو اُن پر کوئی حرکت نہیں لگانی چاہیے، جیسے اچار، اذان، رسالت، چیخ، مولوی، گونج، وغیرہ۔ اِن لفظوں میں اچار کے چ، اذان کے ذ اور رسالت کے س پر زبر، چیخ کے چ کے نیچے زیر یا مولوی اور گونج کے م اور گ پر زبر یا پیش نہیں لگانی چاہیے۔ وجہ یہ کہ اِن حروف کی آوازیں کھینچی جا رہی (اشباع) ہیں۔ البتہ اگر آواز کھینچی نہ جائے جیسے مآب، بیاد، پیار، موذن، وغیرہ، میں مآب کے م اور بیاد کے ب پر زبر، پیار کے پ کے نیچے زیر اور موذن کے م پر پیش لگانی درست ہے اگر ایسی ضرورت ہو۔
5: اضافت کا زیر ہمیشہ لگانا چاہیے جیسے سرِ دست، آخرِ کار، ردِ عمل، برِ صغیر، وغیرہ وغیرہ۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ ہر سافٹ ویئر میں تمام اِعرابوں کے لیے الگ الگ بٹن (keys) مخصوص ہوتے ہیں جنھیں اچھی طرح یاد کرلینا چاہیے۔ تنوین کے دو زبر (ً) یا دو زیر (ٍ) کا دو پیش () سافٹ ویئر میں اُنہی بٹنوں سے لگانے چاہییں جو اِن کے لیے مخصوص ہیں۔ بعض لوگ تنوین کے دو زبروں کی جگہ ایک زبر والا بٹن دو بار دباتے ہیں (اِسی طرح دو زیروں اور دو پیشوں کے لیے بھی)۔ ایسا کرنا درست نہیں۔ اِسی طرح بعضے لوگ پیش کی جگہ جزم لگا دیتے ہیں۔ اِس قسم کی ناہنجاریاں اگر آنکھ سے چھپ بھی جائیں تو مشین سے بہرحال نہیں چھپتیں۔ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
کچھ علامات کو لوگ لاعلمی میں غلط استعمال کر جاتے ہیں۔ سرِ دست صرف ایک علامت کا صرف ایک لفظ کے لیے ذکر کرتا ہوں۔ درست لفظ اَڑے ہے جو اَڑنا سے بنا ہے۔ اِس سے محاورہ “اَڑے آنا” مشہور ہے۔ بہت سے لوگ اِس میں اَڑے کو آڑے لکھ دیتے ہیں، جو درست نہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...