پیار محبت
غم غصہ
رونے اور شہوت میں
وہ پیدا ہوتی ہے
پانی سے اُس کی عظیم دوستی کی
مچھلیاں قسمیں کھاتی ہیں
مچھلیاں جو اپنی دُم کے/آخری حصے میں اُسے سلا کررکھتی ہیں
شارک نے اُس کے جھٹکے کو محسوس کیا اور شِو کے تانڈوجیسا رقص دیکھا
پانی میں رقص
اس رقص کے کوئی معنی نہ تھے
اس رقص میں لفظ نہ تھے
نصاب کی کتابیں کبھی کافی نہیں ہوتیں
ربڑ کے دستانے پہن کر
لکڑی پر پیر یا ہاتھ جما لینے سے
ہم اُس سے آزاد نہیں ہو سکتے
اُس میں ایک رمز ہے
جو اس نظم میں نہیں
خالد جاوید
Tell me when the storm is over
When all the lights are down and the sound of
Thunder claps
Bringing silence than a flash
Only the electricity brings light
Shooting from the sky
Brings a new life to the ground
Killing everything around
The smell of dirt and brunt tissue forming dust and smoked death
Azzy writes
کیا
صابن سڑرہا ہے؟ اُس نے غسل خانے میں بہت ہی عجیب سی ناگوار بُو محسوس کرتے ہوئے سوچا۔ گیزر کی ٹونٹی کے نیچے بالٹی پانی سے آہستہ آہستہ بھر رہی تھی۔ بجلی چلی گئی تھی۔ بس کھڑکی کے شیشے سے پیلا غبار اپنا عکس پانی پر ڈال رہا تھا۔ اُس نے بالٹی کے پانی میں جھانکا۔ پانی زرد نظرآیا۔ باہر پھیلے ہوئے اُس حبس زدہ غبار کو دل ہی دل میں برا بھلا کہتے ہوئے اُس نے بالٹی کے پانی سے مگ بھرکر اپنے سرپر انڈیلا۔ پانی پہلے اُس کی آنکھوں میں داخل ہوا پھر وہاں سے بہتا ہوا ناک کے نتھنوں میں اوراُس کے بعد اُس کے کی گنجی اور چکنی کھوپڑی سے پھسلتا ہوا کنپٹیوں اورکانوں کے درمیان ایک پَل کو رُکتا ہوا بہت تیزی کے ساتھ دونوں کانوں کے اندر چلا گیا۔ اُس کے تازہ تازہ شیو کیے ہوئے چہرے پر سے پھسلا اور ہونٹوں کے کناروں کو گیلا کردیا۔ اُس نے ایک سانس منھ کھول کر لی تو کچھ بوندیں منھ کے اندر پہنچ گئیں۔ پانی اب گردن سے بہتا ہوا، اُس کے کندھوں، پیٹ اور پیٹھ تک آکررُک گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ دوسرا مگ بھرپتا، اُس نے اپنے منھ، چہرے، آنکھیں، ناک، کان اوریہاں تک کہ اپنے دماغ کو بھی بھیانک بدبو کی یلغار اورنرغے میں پایا۔ اُس کے منھ میں تو جیسے کھارا پیشاب بھرا جارہا تھا۔ اُس کا جی بری طرح متلایا۔ معدے میں اُلٹیوں کا اوراُبکائیوں کا ایک طوفان باہر نکلنے کو بے چین تھا۔ جسے روکتے ہوئے اُس نے مگ کو دور دیوار پر دے مارا اور بہت زور سے چیخا۔ یہ کیسا پانی ہے، دروازہ کھولو۔ بیوی نے ایک بار میں نہیں سنا اُسے پسینہ آرہا تھا۔ وہ پسینے سے پریشان تھی۔ اُس نے نہیں سُنا۔ دروازہ کھولو سُور کی بچی، کھول دروازہ۔ غصے نے اُسے دنیا کا سب سے بہادر مرد بنا دیا۔ خود کیوں نہیں کھولتا کتے، دروازہ تونے اندر سے بند کیا ہے۔ عورت دہاڑی۔ وہ دروازہ کھولتا ہے اورغصے میں حواس باختہ ہوکر ننگا ہی باہر آجاتا ہے۔ اُس کے بدن سے پھوٹنے والی بدبو لابی میں بھر گئی ہے۔ وہ اُس کےسامنے تن کر کھڑی ہے۔ اندرجاؤ، بے حیا، بے شرم، عورت چیختی ہے۔ تونے پانی نہیں دیکھا کتیا۔ صبح سے پڑی پھنّا رہی ہے۔ تو نے پیشاب اورپاخانے کی چائے مجھے پلادی۔ دیکھا نہیں پانی میں کیا ملا ہوا تھا، سُور کی بچی۔ اندر جا بے حیا، باپ کو گالی مت دے ننگے۔ ننگا ہوکر اور ذلیل لگ رہا ہے تُو اور تیرا یہ۔ عورت پوری طاقت سے چلاتی ہے۔ اُس کے سرکے بال کھل گئے ہیں جن سے اُس کی ایک آنکھ ڈھک گئی ہے مگراب وہ اس چہرے سے نہیں ڈرا۔ وہ غصے میں اپنی پرانی ہستی کھو چکا ہے۔ ابھی پوچھتا ہوں تجھ سے، آج تو نہیں بچے گی میرے ہاتھ سے ماری جائے گی۔ وہ پاگل کی طرح بڑ بڑاتا ہوا دوبارہ غسل خانے میں جا رہا ہے۔ شاید تولیہ باندھنے۔ عورت اُس سے بھی زیادہ پاگل ہوتی ہوئی اُس کے پیچھے پیچھے غسل خانے میں گھس آتی ہے، کسی بَلا یا وَبا کی طرح۔ کیا کرے گا، مار ڈالے گا، کیا پوچھے گا بھڑوے کی اولاد۔ وہ بے لباس، گیلا اور بدبودار اُس کےسامنے کھڑا غیظ و غضب سے کانپ رہا ہے۔اُس کا ہاتھ اوپر اٹھتا ہے۔ وہ عورت کو پوری طاقت کے ساتھ پیچھے کی طرف دھکا دیتا ہے۔ وہ تھوڑا سا پیچھے کی طرف جھکتی ہے اورپھر سنبھل کر جواباً اُس کی گردن پکڑ کر دیوار کی طرف دھکیلتی ہے۔ گیزر کے بالکل نیچے۔ اچانک بجلی آجاتی ہے، گیزرکی لال بتی روشن ہوتی ہے۔ اپنے آپ کو گرنے سے بچانے کے لیے وہ کسی چیز کا سہارا لینا چاہتا ہے۔ وہ دیوار پر لگے ہوئے بجلی کے ساکٹ کو تھام لیتا ہے۔ ایک دھماکہ، روشنی کا ایک جھماکہ، شارٹ سرکٹ۔ ایک زوردار جھٹکا کھاتے ہوئے اُس کا مادرزاد برہنہ جسم کسی وزنی پتھر کی مانند لڑھکتا ہوا بالٹی سے ٹکراتا ہے۔ بالٹی اُلٹ گئی، گندے بدبودار پانی سے اُس کے جسم کا نچلا حصہ ترہوگیا ہے۔ اُس کے دانت پہلے کٹکٹاتے ہیں، پھر بھنچ جاتے ہیں۔ منھ ٹیڑھا ہوکر نیلا پڑنے لگا ہے۔ نیلاہٹ آہستہ آہستہ سارے جسم میں رینگ رہی ہے۔ چند لمحوں تک کے لیے اُس کا نیلا جسم کسی عامیانہ قسم کے آلہ موسیقی کی طرح جھنجھناتا ہے۔ پھر بے جان ہوجاتا ہے۔ غسل خانے میں اب ایک بُو اوربھی آکر شامل ہوجاتی ہے، یہ موت کی بُو ہے۔ چند کھیتوں بعد یا زیادہ سے زیادہ ایک دن کے بعد، اُس کے کمرے میں الماری کے نیچے رکھے ہوئے اُس کے جوتوں کے تلوں میں چپکی ہوئی موت واپس قبرستان کی طرف رینگ جائے گی۔ موت کا یہ محبوب مشغلہ ہے، گھرسے قبرستان۔ قبرستان سے گھر۔
ساڑھے دس بجے عورت پولیس اسٹیشن فون کرتی ہے۔ پونے گیارہ بجے ایک پولیس انسپکٹر دو سپاہیوں کے ساتھ اندر داخل ہوتا ہے۔ لاش کہاں ہے؟ باتھ روم میں۔ انسپکٹر سپاہیوں کے ساتھ باتھ روم کے اندر جاتا ہے پھر ناک پر رومال رکھ کر واپس آتا ہے۔ حادثہ کیسے ہوا؟ انسپکٹر پوچھتا ہے۔ پتہ نہیں۔ عورت جواب دیتی ہے۔ پولیس اور کھلا دروازہ دیکھ کر چند پڑوسی اندرآگئے ہیں۔ دونوں میں روز جھگڑا ہوتا تھا۔ ہمارا جینا حرام کررکھا تھا۔ ایک کہتا ہے۔ شاید وہ مارا گیا۔ دوسرا کہتا ہے۔ انسپکٹر رک کر عورت سے پوچھتا ہے۔ یہ قتل ہے؟ معلوم نہیں۔ عورت جواب دیتی ہے۔ سچ سچ بتاؤ، تم نے قتل کیا ہے۔ تمہیں گرفتار کیا جارہا ہے۔ انسپکٹر کہتا ہے۔ نہیں، ہاں۔ عورت انسپکٹر کی آنکھوں میں اپنی ایک کھلی ہوئی آنکھ ڈالتے ہوئے کہتی ہے۔ اُس کے سر کےبال ماتھے پرابھی بھی لٹکے ہوئے ہیں اورایک آنکھ اِن بالوں سے بری طرح ڈھک گئی ہے۔ وہ اپنے ایک ہاتھ کو بار بار اوپر نیچے کررہی ہے۔ انسپکٹراُس کی کھلی ہوئی آنکھ کو غورسے دیکھتا ہے۔ وہ حیرت انگیز حد تک خشک ہے۔ مگراُس میں ایک بے حس سی چمک ہے جو محبت اور نفرت دونوں کے دائمی فقدان سے پیدا ہوتی ہے۔ جواب دو۔ انسپکٹر گرجتا ہے۔ ہاں وہ مارا گیا۔ اُسی چکر میں۔ عورت بڑ بڑاتی ہے۔ کس چکر میں؟ انسپکٹر چوکنا ہوکر دلچسپی سے سوال کرتا ہے۔ پانی کے چکر میں۔ وہ پانی کے چکر میں مارا گیا۔ عورت اپنے بال ماتھے سے ہٹاتی ہے اوراب دونوں آنکھوں سے انسپکٹر کو دیکھتے ہوئے اطمینان کے ساتھ جواب دیتی ہے۔
لائف
اپارٹمنٹس کے ہرگھر میں اب گندا اور بدبودار پانی آرہا تھا۔ تین دن گزر چکے تھے۔ انھوں نے پینے کا پانی نہانے اور ٹوائلٹ کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا تھا۔ مگرپینے کے پانی کا ایک وقت مقرر تھا اور وہ بہت کم مقدار میں آتا تھا۔ تین ہی دنوں میں وہ سخت بیمار پڑگئے۔ بیمارہونے والوں میں زیادہ تعداد بچوں کی تھی۔ انھیں دست آنے لگے جن میں خون ملا ہوا تھا۔ اُن کے پیت میں اینٹھن اور مروڑ رہنے لگی۔ پھرانھیں بے تحاشہ خون میں ملی ہوئی اُلٹیاں شروع ہو گئیں۔ اُنھیں تیز بخار رہنے لگا۔ یہاں سے آدھے کلو میٹر کی دوری پر ایک نرسنگ ہوم تھا۔ جب اُس میں مزید مریضوں کے لیے کوئی بیڈ خالی نہیں رہا تو وہ شہر کے دوسرے اسپتالوں کی طرف بھاگنے لگے۔ مریضوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی۔ بورنگ والے گندے پانی کی سپلائی روک دی گئی۔ کچھ لوگ سوسائٹی چھوڑ کر اپنے رشتہ داروں یا احباب کے یہاں منتقل ہوگئے۔ یا کسی دوسری جگہ ضروری سامان ساتھ میں رکھ کر کرایہ پر رہنے لگے۔ ماہ کی آخری تاریخ تھی جب اس بیماری میں مبتلا ایک آٹھ سالہ بچے کی موت ہو گئی۔ کسی بھی پھیلنے والی بیماری میں پہلی موت کی ہی سب سے زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ جس طرح پہلی محبت کی۔ اُس کے بعد تو سب عمومی بن کر رہ جاتا ہے۔ مریضوں کے لواحقین اوراسپتال کے عملے کے بیچ جھگڑا شروع ہوگیا۔ سب کا خیال تھا کہ محض اسپتال والوں کی لاپرواہی کی وجہ سے بچے کی جان گئی ہے ورنہ کالراسے آج کے زمانے میں کوئی نہیں مرتا۔
مگرکیا یہ واقعی وہی تھا؟ یعنی محض کالراجس سے اب کوئی نہیں مرتا۔ ضلع سرکاری اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کے سامنے ایک طویل راہداری میں کھڑے ہوئے لمبی ناک والے اور ایک پیشہ ورمکے باز کا سا چہرہ رکھنےو الے نوجوان ڈاکٹر نے کہا، اُلٹیاں ہو رہی ہیں، کھال سوکھ رہی ہے، رگ پٹھے سکڑ رہے ہیں۔ ہاتھوں اورپیروں پر جھریاں پڑرہی ہیں۔ دست رُک نہیں رہے ہیں، بخار اُتر نہیں رہا ہے۔ آنکھوں سے چمک غائب ہو رہی ہے۔ یقیناً یہ علامات کالرا کی ہیں یا بگڑی ہوئی پیچش کی مگراینتی بائیوٹک دوائیں اثر نہیں دکھا رہی ہیں۔ سیلائن اور گلوکوز چڑھانے پر بھی جسموں میں پانی کی مقدار بڑھ نہیں پارہی ہے۔ ایک ہزار ملی گرام پیراسیٹامول دینے پر بھی بخار ایک ڈگری بھی نیچے آرہا ہے۔ مریض کے جسم کے دوسرے ضروری اعضا گردے، جگر، پھیپھڑے اوردل آہستہ آہستہ اپنا کام چھوڑ رہے ہیں۔ کالراجراثیمی بیماری ہے مگرمریضوں کے خون کی جانچ میں کسی جراثیم کا سراغ بھی نہیں مل رہا ہے۔ دوسری بات یہ کہ وائرس سے پھیلنے والی پیٹ کی بیماری میں اس طرح کے دست نہیں آتے اور نہ ہی مریض کا جسم اس حد تک پیلا پڑجاتا ہے۔ مگرممکن ہے کہ یہ کسی نئے وائرس سے پھیلنے والی بیماری ہو۔ اس پر تحقیق شروع ہو چکی ہے۔ مگریاد رکھئے جو بھی ہو رہا ہے وہ اُس پانی کے استعمال کی وجہ سے ہورہا ہے۔ جس میں سیورلائن کا گندا پانی آکر مل گیا ہے۔ اب ہمیں کرنا یہ ہے کہ کسی مریض کو بغیر دستانے پہنے چھونا نہیں ہے۔ مریض کے گندے کپڑوں کو جلانا ہے اوراس کے فضلے کو بھی۔ جی جی، ہم اپنا کام کررہے ہیں۔ آپ یہ کیمرہ تھوڑا مجھ سے دور رکھئے۔ جی، اب بالکل ٹھیک ہے۔ جی تو آپ لوگ بھی اپنا کام کیجئے۔ اب میرے پاس اورکسی سوال کا جواب نہیں ہے۔ آپ لوگ چیف میڈیکل آفیسر سے بات کرسکتے ہیں۔ سی۔ایم۔او۔، جی ہاں سی۔ ایم۔او۔ صاحب سے۔ وجہ؟ میں نے بتایا نا کہ وجہ صرف گندا پانی ہے۔ پانی سے آپ لوگوں کو معلوم نہیں کہ کتنی بیماریاں پھیلتی ہیں۔ مثلاً معیادی بخار تک۔ بہت سی بیماریوں کے بارے میں ابھی پتہ نہیں۔ یہ کیمرہ تھوڑا، اوراِدھر اُدھر پیچھے کر لیجئے۔ شکریہ، جی اب ٹھیک ہے۔ لیکن پانی کی سپلائی روک دینے کے بعد بھی کیس لگاتار بڑھ رہے ہیں۔ ایک رپورٹر نے پوچھا۔ وائرس نہیں مرتا۔ ڈاکٹر نے جواب دیا۔ سوکھی ہوئی سطح پر عام وائرس ایک گھنٹہ فعال رہ سکتا ہے اور گیلی سطحوں یا پانی میں تو لگاتار اپنی نسل بڑھاتا رہتا ہے۔ باتھ روم کی ٹونٹیوں، بالٹیوں، مگوں سے بہت ہوشیار رہنا ہے۔ استعمال شدہ صابنوں کو پھینک دیجیے، باتھ روم کی دیواروں اورفرش کو ہاتھ نہیں لگانا ہے۔ ایسی جگہوں پر تو وہ بارہ بارہ گھنٹے تک فعال رہ سکتا ہے۔ پانی سے بہت بچنا ہے، بہت ہوشیار رہنا ہے۔ آپ لوگ تو باتھ روم جانا ہی بند کردیجئے۔
باتھ روم جانا بند کردیں؟ اس کا کیا مطلب ہوا۔ کیمرہ مین کے برابر میں کھڑی ہوئی چشمہ لگائے ایک جاذب النظر لڑکی نے سوال کیا۔ لڑکی ٹی۔ وی۔ کے کسی چینل کی رپورٹر معلوم ہوتی تھی۔ وہی مطلب ہوا جو آپ سمجھ رہی ہیں۔ ڈاکٹر نے جواب دیا۔ تو کیا جنگل میں فارغ ہونا پڑے گا۔ لڑکی بولی، اُس کے ہاتھ میں مائیک تھا جو اُس نے ڈاکٹر کی طرف برھا دیا۔ یہ۔۔۔۔۔۔یہ میں نہیں جانتا۔ ڈاکٹر نے لاپرواہی سے اپنے کندھے اُچکانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ اُس صورت میں خواتین کا کیا ہوگا۔ ان کالونیوں کے آس پاس اب ایسے جنگل یا زمینیں نہیں بچی ہیں جہاں خواتین اپنی شرم و حیا کو برقرار رکھتے ہوئے فارغ ہو سکیں اوراپنی عزت و عصمت بھی برقرار رکھ سکیں۔ کیا آپ کے خیال میں یہ ممکن ہے؟ لڑکی نے پیشہ ورانہ انداز میں تیزی کے ساتھ جملے اداکیے جس کی وجہ سے اُس کی آنکھوں کی چمک اڑگئی۔ اور کیسے؟ دیکھئے ہمارا کام صرف مریضوں کا علاج کرنا ہے۔ ہم اس صنفی ڈسکورس میں پڑکراپنا وقت کیسے برباد کرسکتے ہیں۔ ڈاکٹر نے جواب دیا۔ مگرآپ ایک ذمہ دار شہری بھی ہیں اور دانشور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ اس بارے میں کیا کہنا چاہیں گے کہ کیا ایسی بیماری سے خواتین کی ذہنی اور معاشرتی زندگی پر منفی اثرات پرنے کا خدشہ ہے۔ لڑکی نے اپنا سنہری فریم کا چشمہ اُتارا اوراپنی آنکھوں کو رومال سے صاف کرتے ہوئے پوچھا۔ لڑکی کی آنکھیں بہت خوبصورت تھیں۔ اُس کے چشمے سے بھی زیادہ خوبصورت۔ ڈاکٹرایک پَل کو اُس کی آنکھوں میں دیکھتا ہی رہ گیا۔ پھر کہا، مردوں کے لیے بھی شرم و حیا اُتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ خواتین کے لیے۔ کیا آپ واقعی اس پر یقین رکھتے ہیں؟ آپ نے جرنلزم کا کورس کب مکمل کیا؟ اچھا ابھی ایک ماہ پہلے ہی، ویری گُڈ۔ کِس انسٹی ٹیوٹ سے؟ اوہ اچھا، وہ تو بہت اچھا انسٹی ٹیوٹ ہے۔ دیکھئے میں لگاتار آپ سے گزارش کیے جارہا ہوں کہ اپنے کیمرے مجھ سے دور رکھئے۔ جی براہِ کرم مجھے کیمرے سے وحشت ہوتی ہے۔ آپ مجھ سے خالی وقت میں میرے کمرے میں آکر مل سکتی ہیں۔ ڈاکٹر نے لڑکی کی طرف مسکراتے ہوئے کہا اور لڑکی نے مسکراتے ہوئے اپنے وینٹی بیگ سے سفید رنگ کا وِزیٹنگ کارڈ نکالا اورڈاکٹر کے ہاتھ میں تھمادیا۔
لائف
اپارٹمنٹس کے فلیٹ آدھے سے زیادہ خالی ہوچکےے تھے۔ چالیس مریض جو شہر کے مختلف اسپتالوں میں بھرتی تھے اُن میں سے صرف پندرہ مریض ہی جانبرہوسکےہیں۔ ضلع کے حکام اورانتظامہ کے لیے یہ ایک لمحہ فکریہ تھا۔ جگہ جگہ اعلیٰ افسران کی میٹنگیں ہونے لگیں۔ مقامی سطح کے سیاست دان بھی فعال ہو گئے اور مخالف پارٹیوں پر خطرناک سازش کا الزام دھرنے لگے۔ وہ بلڈر بھی اُن کی زد میں آگیا جس نے لائف اپارٹمنٹس کی سوسائٹی کے لیے فلیٹ تعمیر کروائے تھے۔ اس بلڈر کی ایک مخصوص سیاسی پارٹی کے ساتھ سانٹھ گانٹھ تھی۔ یہ مخصوص پارٹی کچھ ماہ پہلے ہی اقتدار کی کرسی سے نیچے آئی تھی اس لیے بلڈر پر مقدمہ چلوانے کے مطالبے اور اپیلیں ہونی شروع ہو گئیں۔ میونسپل کارپوریشن کےدفتر میں بے چارے بلڈر کو طلب کیا گیا۔میٹنگ میں ضلع مجسٹریٹ اور میئر کے علاوہ دوسرے کئی اعلیٰ افسران شامل تھے۔ علاقے کا کارپوریٹر بھی موجود تھا۔ سوال یہ ہے کہ سوسائٹی میں پانی فراہم کرنے کے لیے آپ نے کس کمپنی کو ٹھیکہ دیا تھا۔ ضلع مجسٹریٹ نے سوال کیا۔ وہ ایک نوجوان آئی۔اے۔ایس آفیسر تھا، ٹرینگ کے بعد اس کی پہلی پوسٹنگ اسی شہر میں ہوئی تھی، وہ سفیدبے داغ قمیض اور فاختئی رنگ کی پتلون میں ملبوس تھا، اس کی آنکھیں الو کی طرح گول گول تھیں جن پراس نے گول شیشوں والی عینک لگا رکھی تھی۔ فی الحال اس کےسرخ و سپید چہرے پر چالاک قسم کی ایمانداری کی چکنائی تھی مگرجلد ہی وہ ایمانداری کے اس روغن کو اپنے خشک چہرے پر لگانا چھوڑدے گا۔ کسی کمپنی کو نہیں جناب۔ پانی فراہم کرنے کے لیے کسی کمپنی کو ٹھیکہ نہیں دیا جاتا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ پینے کے پانی کے لیے جل نگم میں عرضی دینا کافی ہوتا ہے۔ جل نگم کی فیس ادا کردی جاتی ہے اور نگم وہاں اپنی پائپ لائن بچھا دیتا ہے۔ بلڈر نے ادب کے ساتھ جواب دیا۔ ٹھیک ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ وہاں پینے پانی بھی آلودہ ہوچکا ہے۔ وہ پیلا اور بدبودار ہے۔ اُس میں انسان کے پیٹ سے نکلا ہوا فضلہ موجود ہے۔ ضلع مجسٹریٹ نے بلڈر کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا، نہیں جناب! مجھے اس بارے میں علم نہیں۔ آپ کو کس بارے میں علم ہے؟ بلڈر نے خاموشی کے ساتھ سرجھکا لیا، اسے پہلی بارکسی سرکاری میٹنگ میں شرکت کرنے کا شرف حاصل ہوا تھا اس لیے اس نے اپنی کالی قمیض کے کالر میں تیز نیلے رنگ کی ٹائی بھی لگا رکھی تھی۔ ٹائی کی گرہ اتنے کامل طریقے سے باندھی گئی تھی کہ اس کے ایک چھوٹے بندر جیسے چہرے کو مضحکہ خیز بنا رہی تھی۔ کاملیت میں حماقت کا یک پہلو ہمیشہ نمایاں رہتا ہے خاص طورپر جب آدمی بلڈر کی طرح جوانی کے دورسے باہر نکل گیا ہو۔ سیورلائن بچھانے کا کام کس شعبہ کا ہے؟ میونسپل کارپوریشن کے چیف انجینئر نے ہاتھ اٹھایا اور کہا، ہمارا شعبہ اس ذمہ داری کو نبھاتا ہے۔ یہ کام آپ کی نگرانی میں ہوا تھا؟ جی جناب، مگرہم بعض معاملات میں پی۔ ڈبلیو۔ ڈی۔ والوں سے بھی مشورہ کرتے ہیں کیونکہ وہ لوگ سڑکیں وغیرہ بنواتے رہتے ہیں اورسڑک کے نیچے ہی نالیوں کے پاس تھوڑا اوپر کی طرف سیورلائن بھی ڈالی جاتی ہے۔ چیف انجینئر نے اعتماد کے ساتھ جواب دیا۔ مگرشاید ضلع مجسٹریٹ کو اُس کا یہ پُراعتماد لہجہ اچھا نہیں لگا کیونکہ وہ آئی۔ اے۔ ایس۔ تھا۔ ضلع مجسٹریٹ نے برا سا منھ بنایا اور کہا یہ آپ مجھے مت بتائیں ہم لوگوں کو سب پڑھایا جاتا ہے۔ انجینئرنگ سے لے کر شاعری تک۔ یس سر، ساری۔ میرا مطلب تھا کہ۔ P.W.D والوں کا بھی اس کام میں رول رہتا ہے۔ چیفف انجینئر نے اپنی غلطی سدھارتے ہوئے کہا۔ آپ کے خیال میں پینے کے پانی میں یہ گندگی کیوں آرہی ہے؟ سر، ہمارا خیال ہے، یہ سیورلائن کا پائپ کہیں کریک ہوگیا ہے یا کسی جنکشن پر لیک ہوررہا ہے۔ زمین کھودکھود کر دیکھنا پڑے گا کہ کہاں خرابی پیدا ہوئی ہے۔ اچھا۔ ہوں، اب یہ بتائیے کہ آپ لوگ سیور کے پائپوں کی فراہمی کے لیے کس کمپنی کو ٹھیکہ دیتے ہیں؟ سر، ہر بارٹینڈراِیشو ہوتے ہیں۔ کوئی ایک کمپنی کا اجارہ نہیں، ہم سب کو موقع دیتے ہیں اوراُن کو کو ٹیشنز کا بغور مطالعہ کرتے ہیں۔ چیف انجینئر نے جواب دیا۔ ضلع مجسٹریٹ نے کہا۔ ان پائپوں کی سپلائی کرنے والی کمپنی اورٹھیکے دار دونوں کو فوری طورپر نوٹس بھیجئے۔ اُس کا لہجہ تحکمانہ تھا۔ یس سر، بالکل سر۔ مگرمیں ایک بات اور کہنا چاہوں گا۔ چیف انجینئر نے کچھ لجاجت سے کہا۔ ہاں بتائیے، کیا بات ہے؟ چیف انجینئر نے کنکھیوں سے میئر کی طرف دیکھا۔ اُس کی میئر سے ایک آنکھ نہ بنتی تھی کیونکہ وہ مخالف پارٹی کے ٹکٹ پرالیکشن جیت کرآیا تھا۔ چیف انجینئر ایک ادھیر عمر کا موٹا آدمی تھا۔ اتنا زیادہ موٹا کہ اس کے بیٹھنے کے لیے یہ کرسی ناکافی پڑ رہی تھی اوروہ اس میں کچھ اس طرح پھنس گیا تھا جیسے چوہے دان میں کوئی موٹا سا چوہا پھنس کر ہانپتا ہے اس کی توند کے دباؤ کی وجہ سے اس کی قمیض کے درمیان میں لگے ہوئے بٹن بار بارکھل جاتے تھے جس کی وجہ سے اس کی ناف کے اوپر پیٹ پر سفید بالوں کی ایک بدنما لکیر نمایاں ہو جاتی تھی۔ اچانک ہال کا دروازہ کھلا۔ علاقے کا ایم۔ایل۔ اے۔ اندر داخل ہوا۔ سارے افسران مع ضلع مجسٹریٹ مؤدبانہ انداز میں اُٹھ کر کھڑے ہو گئے کیونکہ اُن کا نہ اُٹھنا پروٹوکول کی خلاف ورزی کرتا تھا۔ اب کھادی کے سفید کُرتے اور پاجامے کا زمانہ بیت چکا تھا۔ وہ تیز گیروئے رنگ کا اونچا سا کُرتہ پہنے ہوئے تھا اوراُس نے موٹی موٹی ٹانگوں پر نیلی جینز منڈھ رکھی تھی جس پر عورتوں کے آڑے تنگ پاجامے کا گمان گزرتا تھا۔ اُس کے کو لہے بھی عورتوں کی طرح پیچھے نکلے ہوئے تھے۔ وہ جوان آدمی تھا اوراُس کی رنگت جی گھبرا کررکھ دینے کی حد تک سفید تھی۔ گلے میں گیروئے رنگ کا انگوچھا ڈال رکھا تھا۔ سر تقریباً گنجا تھا۔ مگرمونچھیں لٹک کر ٹھوڑی پر آرہی تھیں۔ چند ماہ پیشتر تک وہ صرف ایک ٹرانسپورٹ کمپنی کا مالک تھا جس کے ٹرکوں پر گھٹیا اشعار لکھے ہوئے تھے۔ الیکشن کے بعد وہ ایم۔ایل۔ اے۔ ہو گیا، ایم۔ایل۔ اے ہونے سے پہلے وہ شہر میں بہت بڑے اغلام باز کی حیثیت سے مشہور تھا اگرچہ اب وہ عورت اور مرد کے فطری اور اخلاقی رشتے کی اہمیت پر اخبارات میں بیان دینے لگا تھا۔ ایم۔ایل۔ اے۔ نے ہاتھ جوڑ کر سب کو نمسکار کیا اورمسکراتے ہوئے کرسی پر بیٹھ گیا۔ اب وہ سب بھی اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ باہر آندھی آنے والی ہے۔ وہ بولا۔ اچھا۔ سارے افسروں نے حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر کہا۔ سیاسی لیڈروں کی چمچہ گیری کرنے کا یہ ایک پرانا طریقہ تھا۔ اچھا آندھی آنے والی ہے۔ اوہ آندھی، وہ کہتے رہے۔ ہاں آنا چاہیے، بہت دنوں سے آسمان پر غبار چھایا ہوا تھا۔ بہت دن ہو گئے سرجی۔ ایم۔ایل۔اے۔ نے انگوچھے سے ماتھے کا پسینہ پونچھتے ہوئے کہا۔ یہاں اے۔سی۔ چل رہا ہے نا۔ جی سر، چل رہا ہے۔ ضلع مجسٹریٹ نے کہا، کولنگ اور بڑھا دوں؟ نہیں مجھے نزلہ ہوجاتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے، ایم۔ایل۔اے۔ تو کاروائی چل رہی ہے آپ لوگوں کی؟ جی بالکل، ہاں تو آپ کیا کہہ رہے تھے؟ ضلع مجسٹریٹ نے چیف انجینئر سے پوچھا جو ایم۔ایل۔اے۔ کے آجانے کے بعدسے کچھ زیادہ خوش اورپُراعتماد نظرآنے لگا تھا۔ جی سر، میں عرض کررہا تھا کہ ہمارے میئر صاحب کے زوردینےپر شہر کے چند علاقوں میں رسوئی گیس کی پائپ لائن ڈالنے کا کام بھی ایک گیس کمپنی نے میرا مطلب ہے کہ پرائیویٹ گیس کمپنی نے کیا تھا۔ ان علاقوں میں لائف اپارٹمنٹس والی سوسائٹی بھی آتی ہے۔ اس گیس کمپنی میں میئر صاحب کی پارٹی کے کئی عہدے داروں کے بڑے بڑے شیئر ہیں۔ چیف انجینئر بول کر چپ ہوا تو میئر کہہ اُٹھا کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ میئر پختہ عمر کا ایک وجیہہ آدمی تھا۔ اس کے چوڑے چکلے چہرے پر ایک قسم کا خاندانی وقارتھامگراس وقار میں بے رحمی اور غرور کے رنگ زیادہ شامل تھے۔ اس کی بالوں سے صاف اور چکنی کھوپڑی ان رنگوں کواوربھی چمکیلا بناتے ہوئے منعکس کررہی تھی۔ چیف انجینئر نے جواب دیا، کچھ نہیں بس یہی کہ گیس کمپنی نے بھی تو سڑکوں کی کھدائی کروائی تھی۔ تو؟ تواس سے کیا ہوتا ہے۔ سڑک کی کھدائی تو بجلی والے بھی کرتے ہیں، زیرِ زمین تارڈالنے کے لیے ٹیلی فون والے بھی کرتے ہیں۔ ان سب کو بھی بلائیے اورجواب طلب کیجئے۔ گیس کمپنی – آپ کو بس گیس کمپنی یاد آئی۔ میئر نے ناخوشگوار اور بلند لہجے میں کہا۔ ایم۔ایل۔ اے۔ نے میئر کی طرف ہاتھ اُٹھا کر اشارہ کیا اور بولتا رہا۔ میں چاہتا تھا کہ رین بو گیس کمپنی کو یہ کام سونپا جائے وہ بہت شریف لوگ ہیں۔ یہ اسٹار گیس کمپنی تو بدنام رہی ہے۔ یہ تو غنڈے موالی قسم کے لوگوں کو اپنی لیبرکے لیے ہائر کرتی ہے۔ سیورلائن کے پائپ انھیں مزدوروں نے توڑے ہیں۔ ایم۔ایل۔اے۔ بولا۔ آپ کے پاس کیا ثبوت ہیں؟ میئر نے کہا انکوائری ہونے دیجئے، ثبوت مل جائیں گے۔
آپ کیا کہیں گے؟ ضلع مجسٹریٹ نے بلڈر سے پوچھا، جو اَب تک سرجھکائے بیٹھا تھا۔ جناب میں کیا کہوں، میں نے تو صرف مکان بنوائے ہیں وہ بھی ٹھیکیداروں کے ذریعے، بلڈر پشیمان سا ہو کر بولا۔ اچھا مگرکیا آپ نے مکان خریدنے والوں سے یہ وعدہ کیا تھا کہ آپ بجلی پانی کی سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اُنھیں پائپ لائن والی گیس بھی فراہم کریں گے؟ جی وعدہ کیا تھا۔ اچھا کتنے عرصے بعد؟ جناب، میں نے میئر صاحب کے رشتہ داروں کے لیے دو ایچ۔ آئی۔ جے۔ فلیٹ بُک کیے تھے۔ تب میئر صاحب کے مشورے سے یہ طے کیا گیا جناب کہ پائپ لائن گیس کی سہولت حاصل ہو جانے سے سوسائٹی میں رہنے والے لوگوں کو زیادہ اچھی زندگی، میرا مطلب ہے کہ کوالٹی لائف مل سکتی ہے۔ بلڈر نے جواب دیا اور میئر کی طرف چور نظروں سے دیکھنے لگا۔
اسٹارگیس کمپنی کو بھی نوٹس بھیجئے۔ ضلع مجسٹریٹ نے فیصلہ سنایا۔ میئر ایک بار زورسے کھانسا پھر کہا۔ ہم اس بات کو فراموش کررہے ہیں کہ سب سے پہلے بورنگ والا پانی جو سب مر سبل پمپ (Submersible Pump) کے ذریعے زمین کے اندر سے کھینچا جاتا ہے، آلودہ ہوا ہے۔ یہ کام ظاہرہے کہ مقامی سطح پر کام کرنے والے پلمبروں اورنل لگانے والوں نےکیا ہوگا، ہمیں سب سے پہلے اُن سے رابطہ قائم کرنا ہوگا کہ انھوں نے مقررہ اور طے شدہ گہرائی میں ہی بورنگ کیا تھا یا نہیں؟ اُن سے دریافت کرنا پڑے گا کہ جہاں انھوں نے بورنگ کیا تھا۔ وہاں سے سیور لائن کتنی دور تھی۔ میراخیال ہے کہ انھیں پلمبروں کے ذریعے پائپ لائن ڈ میج ہوئی ہے۔ جناب ہم نے سارے پلمبروں کے ذریعے پہلے ہی ساری لائن چیک کروالی ہے۔ کہیں کوئی خرابی نظر نہیں آرہی ہے۔ بلڈر نےاپنی صفائی پیش کی۔ میونسپل کارپوریشن کے چیف انجینئر نے فوراً ہی لقمہ دیا۔ سر، میں نے انجینئروں کی ایک ٹیم وہاں روانہ کی تھی۔ اُن کی رپورٹ کے مطابق پینے کے پانی والی لائن میں کہیں کوئی خامی نہیں ہے، وہ محفوظ ہے۔ ضلع مجسٹریٹ نے بلڈر کی طرف سردمہری سے دیکھا، پھر کہا۔ آپ اُن سارے نل کا کام کرنے والوں اور پلمبروں کو دوبارہ طلب کیجئے اور محکمہ صحت کے کارکنوں کی موجودگی میں کل اُن کے ساتھ میٹنگ کیجئے۔ کارپوریٹر صاحب آپ بھی شامل رہئے گا۔ اورایم۔ایل۔اے۔ صاحب کو اگروقت ملے تو پبلک کا حوصلہ بڑھ جائے گا۔ ایم۔ایل۔اے۔ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ میں ضرور سیوا میں حاضررہتا مگرکل مجھے راجدھانی جانا ہے۔ وزیرِ داخلہ نے بلایا ہے۔ کچھ خاص بات کرنے۔ کوئی بات نہیں یہ لوگ دیکھ لیں گے، تو آج کی میٹنگ برخواست میرا مطلب ہے کہ ختم ہو گئی ہے۔ اس کے مِنٹس تیار کرکے ایک گھنٹے کےاندر سارے ممبران تک پہنچا دو۔ ضلع مجسٹریٹ نے اپنے بوڑھے اسٹینو سے کہا جو ایک ماہ پہلے ملازمت سے سبکدوش ہوچکا تھا، مگرابھی تک کسی نے اُس کا چارج نہیں لیا تھا۔ چائے نہیں آئی ابھی تک۔ ضلع مجسٹریٹ نے تھکی ہوئی آواز میں کہا اور اردلی کو بلانے کےلیے گھنٹی بجائی۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...