گھر پہنچ کر ارسل نے اپنی فائلز دیکھی تو اس کے چھکے چھوٹے۔ ان سب فائلوں میں اس کی فائل نہیں تھی اس نے جلدی سے دوبارا فائلوں کو دیکھا تو وہاں کوئی فائل نہیں تھی۔
اس نے جلدی سے موبائل نکال کر ارسل کو کال ملائی تو اس کا نمبر بزی جا رہا تھا۔ زیاد نے دوبارا کال کی تو اس کا فون پاور آف تھا۔ زیاد نے اپنی گاڑی کی چابی۔اٹھائی۔اور باہر کی۔طرف بڑھا لیکن سامنے دروازے میں ہی۔ارسل۔گاڑی کے بونٹ پر بیٹھا مزے سے فائل پڑھ رہا تھا۔
“ارے۔۔ کہاں جا رہے ہوں۔۔ ادھر آؤں یہ فائل تو ریڈ کرو زرا زیاد“ ارسل نے سر اٹھا کر اسے دیکھتے ہوئے لفظ چبا چبا کر ادا کیا۔
جس پر زیاد قدم قدم چلتا اس طرف گیا تو ارسل نے گاڑی کے بونٹ سے چلانگ لگائی اور سیدھا کھڑے ہوتے ہی اس پر بندوق تان لی۔
“میرے دونوں کزنز کو تم نے مارا اور مجھے ارشیہ اور اس زوہیب کے پیچھے لگا دیا“ ارسل نے اس پر گن تانے پوچھا تھا۔
“ارسل میری بات سنو۔۔۔ پلیز اس گن کو نیچے رکھو اور میری بات“ زیاد نے اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا تھا لیکن اس کے کچھ کہنے سے پہلے ہی ارسل نے فائر کیا جو کہ زیاد کے سیدھے دل کے مقام پر لگی۔
“تم نے میرے بھائیوں کو مارا۔۔۔ میرے ماما بابا کے بعد وہ دنوں ہی میرا سہارا تھے۔۔۔ تم نے مجھ سے میرا سہارا چھینا۔۔۔ تمہیں میں زندہ نہیں چھوڑوں گا“ ارسل نے کہتے ہوئے پہ در پہ فائر کیے تھے۔ جس سے زیاد کا وجود چھلنی ہوا تھا۔ آہستہ آہستہ وہ زمین پر بیٹھتا گیا۔ اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا۔
ارسل اسے مار کر وہاں سے نکلا تھا۔ گاڑی میں بیٹھ کر اس نے گاڑی فل سپیڈ میں بھگالی۔ وہ جلد از جلد یہاں سے دور جانا چاہتا تھا۔ راستے میں اس کی گاڑی بے قابو ہوئی تھی اور گاڑی سڑک کنارے درخت کے ساتھ جا ٹکرائی۔ ارسل کا سر بری طرح سٹرنگ پر لگا۔
اچانک گاڑی کے انجن میں آگ بھڑکی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس آگ کی لپیٹ میں ساری گاڑی آ گئی۔ لوگ وہاں کھڑے اسے دیکھ بس کانوں کو ہاتھ لگاتے رہے۔ ان میں سے ایک آدمی نے جلدی سے فائر بریگیڈ کو کال کی۔ لیکن ان کے پہنچنے سے پہلے ہی ارسل جل کر مر گیا تھا۔
جبکہ زیاد وہاں ہی لیٹا اپنی زندگی کے گناہوں کو یاد کیے تڑپ رہا تھا۔ اس کی۔ذندگی کے سارے گناہ آج اس کی آنکھوں کے سامنے آرہے تھے۔ ایک آنسو اس کی انکھ سے ٹپکا تھا اور پھر آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ اور پھر اس کی زندگی کا بھی اختتام ہوا تھا۔
”””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””
آج حائقہ کا انتقال ہوئے ہفتہ ہونے کا آیا تھا۔ زوہیب ان دنوں میں عبیرہ کو تلاش کر چکا تھا۔ کمرے میں آ کر اس کی آنکھوں سے آنسوں نکلے تھے۔
“میرے ساتھ ہی کیوں ہو رہا ہے۔۔۔ میں اپنی زندگی میں خوش تھا۔۔ پھر وہ کیوں آئی میری زندگی میں۔۔۔ اگر آنا بھی تھا تو میرے دل میں اس کے لیے محبت کیوں پیدا کی۔۔۔ بدلہ لینا تھا میں نے۔۔۔ مجھے اس سے ملا دیے۔۔۔۔ میں ہر وہ کام کروں گا۔۔۔۔ جو تجھے پسند ہے میں ہر برا کام چھوڑ دوں گا۔۔۔“ زوہیب نے چیختے ہوئے شکوہ کیا تھا۔ دو مہینے ہونے کو آئے تھے اس نے ہر جگہ اسے تلاشا لیکن وہ اسے کہی بھی نہیں مل رہی تھی۔ آج اس کا ضبط جواب دیے گیا تھا۔
ان دو مہینوں میں اس نے ہر برا کام چھوڑ دیا تھا۔ وہ اندر بیٹھا رو رہا تھا۔ ہاتھ اس نے دعا سے انداز میں اٹھائے ہوئے تھے۔ تبھی کوئی دروازا کھول کر اندر داخل ہوا۔
“سائیں۔۔۔ سائیں وہ لڑکی کا پتہ چل گیا ہے“ اس آدمی نے ہانپتے ہوئے آ کر اطلاع دی۔ زوہیب نے ایک نظر اپنے ہاتھوں کو دیکھا اور پھر ایک نظر مڑ کر اسے دیکھا تھا۔ اور اٹھ کر جلدی سے اس شخص سے ایڈریس پوچھا تھا۔
گاڑی فل سپیڈ میں بھگاتے ہوئے وہ یوسف کے گھر پہنچا تھا۔ گاڑی سے اتر کر اس نے جلدی سے دروازا کھٹکھٹایا۔ جس پر یوسف باہر نکلا۔ یوسف نے ایک قہر آلودہ نظر زوہیب پر ڈلیا اور واپس اندر کی طرف بڑھنے لگا تو زوہیب نے کی آواز گونجی۔
“مجھے معاف کردوں۔۔۔ پلیز مجھے واپس نہ موڑوں۔۔۔ میں بھیک مانگتا ہوں۔۔ ایک دفعہ۔۔ بس ایک دفعہ مجھے اس سے ملنے دوں“ زوہیب نے ہاتھ جوڑتے ہوئے فریاد کی تھی۔ آج محبت میں اس انا کے پجاری کا انا کا بت ٹوٹا تھا۔ یوسف کے دروازا بند کرتے ہاتھ ٹہرے تھے۔ اس نے دوبارا زوہیب کو دیکھا تو اسے وہ برسوں کا مسافر لگا تھا۔
“پلیز میں اسے کچھ نہیں کہوں گا۔۔ بس ایک دفعہ دیکھنے دوں۔۔ میں میں اس سے معافی مانگنا چاہتا ہوں“ زوہیب نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا تو یوسف نے واپس مڑ کر عبیرہ کو نقاب کرنے کا کہا اور ایک طرف ہو کر اسے اندر داخل ہونے کا کہا تھا۔
زوہیب نظریں جھکائے اندر داخل ہوا تو اسے سامنے ہی وہ نظر آئی تھی۔ اس کے دل کو جیسے سکون نصیب ہوا تھا۔ اسے دیکھتے ہی اس نے نظریں جھکائی تھی۔ قدم قدم چلتا وہ عبیرہ کے پاس آیا۔
“مجھے معاف کر دوں۔۔ میں آج اپنی غلطی کی معافی مانگتی ہوں۔۔۔ مجھے معاف کر دوں۔۔ خدا کے لیے“ زوہیب نے عبیرہ کے قدموں میں بیٹھتے ہوئے کہا تھا۔ آج وہ انا کا پجاری اپنی انا کو مارے اس کے قدموں میں بیٹھا معافی مانگ رہا تھا۔ عبیرہ اس کی آواز پہچان گئی تھی۔
یہ وہی تھا جو اس دن اسے اندھی کہہ رہا تھا۔۔۔ عبیرہ نے ایک نظر اسے دیکھا۔
“اس دن تم فرعون بنے تھے۔۔ اس دن تم نے مجھے اندھی کہا تھا جبکہ۔یہ میرے اختیار میں نہیں تھا۔۔ اگر اس دن اللّٰہ کی مدد نہ آتی تو تم پر تو شیطان حاوی تھا۔۔۔ آج دیکھ لوں۔۔ اللّٰہ نے میری عزت بھی محفوظ رکھی اور آج مجھے میری بینائی بھی واپس کر دی“ عبیرہ نے نقاب کو دو انگلیوں میں پکڑے اسے یاد دہانی کروائی تھی جس پر زوہیب پر گھڑوں پانی پڑا تھا۔
“میں معافی مانگنے آیا ہوں۔۔۔ خدارا مجھے معاف کر دوں۔۔۔۔میں تمہیں اپنانا چاہتا ہوں۔۔۔ میں تم سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ میں اب کوئی بھی برا کام نہیں کروں گا۔۔۔ خدا کے لیے۔۔ خدا کے لیے مجھے معاف کر دوں۔۔۔ مجھے پتہ ہے کہ میرے گناہ زیادہ ہیں لیکن ان گزرتے دنوں میں میں نے ہر پل اپنے لیے معافی کے ساتھ تمہارے ملنے کی دعآ مانگی تھی“ زوہیب کی نظریں ابھی بھی زمین پر تھیں۔ عبیرہ نے ایک نظر یوسف کی طرف دیکھا۔زوہیب زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھا اپنی محبت کے اقرار کے ساتھ معافی بھی مانگ رہا تھا۔
“عبیرہ اندر جاؤں“ یوسف نے عبیرہ کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ جس پر عبیرہ جلدی سے اندر کی جانب بڑھی۔
“کیا چاہتے ہوں“ یوسف نے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے زوہیب سے پوچھا۔
“میں تمہاری بہن کے ساتھ نکاح کرنا چاہتا ہوں۔۔۔میں اپنے تمام گناہوں کی معافی مانگ لوں گا۔۔۔ پلیز مجھے خالی ہاتھ نہ لوٹانا“ زوہیب نے یوسف کے سامنے نظریں جھکائے کھڑے ہوتے ہوئے کہا تھا۔
“تمہارے ماں بابا اس رشتے سے راضی ہیں؟“ یوسف نے ویسے کھڑے ہی پوچھا تھا۔ جا پر زوہیب نے ایک نظر اسے دیکھا۔
“ہاں۔۔۔ میں انہیں راضی کر لوں گا۔۔۔ وہ میری بات نہیں ٹالے گئے“ زوہیب نے یوسف کے چہرے نظریں جمائے پوچھا تھا۔
“ٹھیک ہے پھر تم انہیں کہوں کہ وہ رشتہ لے کر آئے۔۔۔ میں عبیرہ سے اس کی رضامندی پوچھ کر تمہیں بتا دوں گا۔۔۔ کہ اس کا جواب کیا ہے۔۔۔ یاد رکھنا اس کا فیصلہ ہی آخری فیصلہ ہو گا“ یوسف نے آخر میں گویا اسے باور کروایا تھا۔ جس پر زوہیب نے بے یقینی سے یوسف کو دیکھا۔اور پھر یقین دہانی کرواتا واپسی کی راہ لی تھی۔ وہ خوش تھا جو جانتا تھا کہ نجمہ بیگم اور اکرام صاحب اس کی خوشی کی خاطر مان جائے گئے۔
اس کے جانے کے بعد یوسف نے عبیرہ سے پوچھا تو اس نے اپنے فیصلے کا اختیار یوسف کو دیے دیا۔ زوہیب نے گھر پہنچ کر نجمہ بیگم اور اکرام صاحب سے بات کی۔ انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا تو زوہیب ان کے قدموں میں جا بیٹھا۔
“بابا۔۔۔ماما۔۔ پلیز میری خوشی کی خاطر آپ لوگ ایک دفعہ۔۔ ایک دفعہ میرے کہنے پر اس کے گھر رشتہ لے کر چلے۔۔ ماما میں اس سے محبت کرنے لگا ہوں۔۔۔ پلیز مجھے وہ نہ ملی تو آپ کا جیتے جی مر جائے گا۔۔۔ دو مہینوں سے پاگلوں کی طرح اسے ڈھونڈ رہا ہوں۔۔۔ اگر اب وہ مجھے نہ ملی تو ماما۔۔۔ شاید میں نہ بچو“ اکرام صاحب اور نجمہ نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر نجمہ بیگم نے آگے بڑھ کر اپنے بیٹے کو گلے لگایا تھا۔
“میں اپنے بیٹے کی خوشی کی خاطر ضرور جاؤں گئی۔۔ کب چلنا ہے“ نجمہ بیگم نے زوہیب کو گلے لگاتے ہوئے کہا تو اکرام صاحب نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اس سے مسکراتے ہوئے پوچھا تھا۔ آج ان کو لگا تھا کہ شاید وہ اسے نہ ملی تو واقعے ہی ان کا بیٹا جیتے جی مر جائے گا اسی لیے انہوں ہامی بھرلی تھیں۔
اگلے دن اکرام صاحب اور نجمہ بیگم اپنے بیٹے کی خوشی کے لیے عبیرہ کے گھر اس کا رشتہ لینے گئے تو یوسف نے عبیدہ سے پوچھتے ہوئے جواب ہاں میں جواب دیا۔ نجمہ بیگم اور اکرام صاحب نے اپنے بیٹے کی پسند کو کھولے دل سے قبول کیا تھا۔
زوہیب کی آنکھوں سے تشکر کے آنسوں بہ گئے۔ اس دن سچے دل سے دعا مانگی تھی تو وہ قبول ہو گئی۔ اب زوہیب نے ہر برا کام چھوڑ دیا۔ اور اللّٰہ کے حضور اپنے ہر گناہ کی معافی مانگی تھی۔
”””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””
آج اسے کمرے میں نظر بند کیے کافی دن ہو گئے تھے۔ جیا بیگم ماں تھی۔ اس کی حالت دیکھ ان کے دل کو کچھ ہوتا تھا لیکن حیدر صاحب پتھر کی چلتی پھرتی مورت بنے آنکھیں اور کان بند کیے ہوئے تھے۔ انہیں بھی درد ہوتا تھا لیکن وہ کسی پر ظاہر نہ کرتے۔
ارشیہ ان دو دنوں میں اللّٰہ تعالیٰ کے اور بھی قریب ہو گئی تھی۔ وہ سارا دن اپنی عبادات میں مصروف تھی۔ اس نے اپنے دل کو صرف اللّٰہ کے عشق کے لیے مختص کر لیا تھا۔ اس کا سب سے تقریباً رابطہ منقطع ہوچکا تھا۔ اسے نمرا کے بارے میں پتہ چلا تھا تو اسے دکھ تھا۔
لیکن وہ اس کے لیے ابھی کچھ نہیں کر سکتی تھی کیونکہ اسے اس کے اپنے ہی گھر والوں نے اس کے کمرے میں ہی نظر بند کر رکھا تھا۔
عشاء کی نماز ادا کر کے وہ معمول کے مطابق قرآن مجید کھول کر تلاوت کرنی شروع کر دی۔ اس نے وہاں سے پڑھنا شروع کیا جہاں اس نے تھوڑی دیر پہلے چھوڑا تھا۔ اس نے بلند آواز آیات اور ترجمہ پڑھنا شروع کر دیا۔
[حوالہ: سورۃ الانبیاء (سورۃ نمبر 21) آیت نمبر 35]
کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ ؕ وَ نَبۡلُوۡکُمۡ بِالشَّرِّ وَ الۡخَیۡرِ فِتۡنَۃً ؕ وَ اِلَیۡنَا تُرۡجَعُوۡنَ ﴿۳۵﴾
ہر جان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔ اور ہم تمہیں آزمانے کے لیے بری بھلی حالتوں میں مبتلا کرتے ہیں ، اور تم سب ہمارے پاس ہی لوٹا کر لائے جاؤ گے ۔
[حوالہ: سورۃ الانبیاء (سورۃ نمبر 21) آیت نمبر 36]
وَ اِذَا رَاٰکَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِنۡ یَّتَّخِذُوۡنَکَ اِلَّا ہُزُوًا ؕ اَہٰذَا الَّذِیۡ یَذۡکُرُ اٰلِہَتَکُمۡ ۚ وَ ہُمۡ بِذِکۡرِ الرَّحۡمٰنِ ہُمۡ کٰفِرُوۡنَ ﴿۳۶﴾
اور جن لوگوں نے کفر اپنا رکھا ہے ، وہ جب تمہیں دیکھتے ہیں تو اس کے سوا ان کا کوئی کام نہیں ہوتا کہ وہ تمہارا مذاق بنانے لگتے ہیں ( اور کہتے ہیں : ) کیا یہی صاحب ہیں جو تمہارے خداؤں کا ذکر کیا کرتے ہیں؟ ( یعنی یہ کہتے ہیں کہ ان کی کوئی حقیقت نہیں ) حالانکہ ان ( کافروں ) کی اپنی حالت یہ ہے کہ وہ خدائے رحمن ہی کا ذکر کرنے سے انکار کیے بیٹھے ہیں !
دو آیات پڑھ کر ہی اس کی بس ہوئی تھی اس کی آنکھوں سے آنسوں رواں تھے۔وہ رو رہی تھی۔ ان آیات کو پڑھتے اس کی ہچکی بندھی تھی۔ اس کی آنکھوں سے اپنے رب کے عشق میں آنسوں بہہ رہے تھے۔
“لوگ کیسے خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر خود خدائی کا دعویٰ کر سکتے ہیں کیا وہ دیکھ نہیں رہے کہ زمین اور آسمان کا مالک اللّٰہ ہے۔۔۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔۔ اے اللّٰہ میں جتنا تیرا شکر ادا کروں اتنا کم ہے۔۔ تو نے مجھے اس دلدل سے نکالا، میری انا کے بت کو توڑا۔۔۔ اور مجھے سجدہ ادا کرنے والوں میں شامل کیا“ ارشیہ نے ہاتھ باندھ کر ہونٹوں پر لگائے اللّٰہ کا شکر ادا کیا تھا۔
اس کی ہچکی بند گئی تھی۔ وہ رب کتنا مہربان تھا۔ کتنا اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے۔۔ انہیں دن میں پانچ دفعہ اپنی طرف بلاتا ہے۔ لیکن کچھ منکر اس سے انکار کر کے کان منہ لپیٹے بیٹھے رہتے ہیں۔
حیدر صاحب جو کہ ارشیہ سے بات کرنے آئے تھے دروازے پر ان کے قدم رکے تھے۔ ان کے کانوں میں ارشیہ کی آواز گونجی تھی۔ ان آیات کا ترجمہ۔۔
حیدر صاحب کا سارا جسم پسینے میں شرابور تھا۔ وہ جو بات کرنے آئے تھے وہ بھول چکے تھے۔ وہ فوراً سے پہلے وہاں سے واپس گئے۔ ان کو بے چینی ہونے لگی تھی۔ جبکہ ارشیہ ابھی تک دعا مانگ رہی تھی۔
حیدر صاحب اپنے کمرے میں آکر بیڈ پر بیٹھ گئے۔ ان کا ذہین ان آیات کے ترجمے میں اٹکا تھا۔ ان کا دماغ مختلف سوچیں سوچ رہا تھا۔ وہاں بیٹھے بیٹھے سوچتے ہوئے اچانک ان کی آنکھ لگ گئی۔
“چھوڑوں۔۔۔ چھوڑوں مجھے۔۔۔کہاں لے کر جا رہے ۔۔۔ چھوڑوں“ حیدر صاحب نے اپنے آپ کو چھڑوانے کے لیے ہاتھ پاؤں مارے لیکن بے سود۔ انہیں کوئی ان کے بالوں سے پکڑے گھسیٹتے ہوئے لے جا رہا تھا۔ ان کو اپنا پورا جسم آگ کی لپیٹ میں آتا ہوا محسوس ہوا۔
“بابا۔۔۔ بابا۔۔ چھوڑیں میرے بابا کو۔۔۔ یہ میرے بابا ہیں۔۔ رحم کرو۔۔ خدا کے لیے رحم کرو۔۔۔ یا خدایا رحم۔۔ میرے بابا کو اس جہنم کی آگ میں نہ پھینکا۔۔۔ جیسے بھی تھے میرے بابا ہیں۔۔ اے میرے مولا تجھے تیری رحمت کا واسطہ ہے۔۔ رحم کر“ ارشیہ نے حیدر صاحب کو دیکھتا تو چیختے ہوئے پکارا۔ لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوا تو ارشیہ نے اپنے ہاتھ دعا سے انداز میں اٹھاتے ہوئے اپنے رب سے التجاء کی تھی۔
حیدر صاحب ہڑبڑا کر اٹھے۔ انہوں نے خود کو دیکھا۔ اپنے آپ کو ٹٹولتے ہوئے انہوں نے اپنے سہی سلامت ہونے کی یقین دہانی کی۔ انہوں نے گھڑی پر نظر دوڑائی۔ یہ تہجد کا وقت تھا۔ وہ جلدی سے اٹھے اور ارشیہ کے کمرے کی طرف تقریباً بھاگتے ہوئے گئے۔
وہ اپنی بیٹی سے معافی مانگنے کے لیے بھاگے۔ انہیں یہ یاد تھا کہ ان کی جان بچانے کے لیے ان کی بیٹی دعا مانگ رہی تھی۔ وہ اپنی بیٹی سے ملنا چاہتے تھے۔ ارشیہ کے کمرے کا دروازا کھول کر وہ اندر داخل ہوئے۔
”””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””
“اے میرے مولا تجھے تیری رحمت کا واسطہ۔۔۔ مجھے معاف فرما۔۔ میں بہت گناہگار ہوں۔۔ میرے ماں باپ کو بھی اپنی رحمت سے معاف فرما۔۔ تو تو رحیم ہے۔۔۔ رحمان ہے میرے مولا۔۔۔ اے میرے اللّٰہ ! آج میں اپنے گناہوں کی معافی مانگنے آئی ہوں۔۔۔ میری توبہ قبول فرما“ ارشیہ نے تہجد پڑھ کر جائے نماز پر بیٹھے دعا مانگی۔ دعا مانگنے کے بعد جانے کس خیال کے تحت اس نے دعا مانگ کر ایک بار نم آنکھوں سے کمرے کی چھت کی طرف دیکھا اور پھر سجدے میں چلی گئی۔
“اے۔۔۔ میرے۔۔۔ مولا“ سجدے میں اس کے منہ سے بس یہ الفاظ نکلے تھے۔ اس کی آنکھوں سے ایک آنسوں ٹوٹ کر جائے نماز میں جذب ہوا تھا۔ اس نے آہستہ سے اپنی آنکھیں بند کیں تھیں۔ مسکراہٹ نے اس کے چہرے کا احاطہ کیا تھا۔
“ارشیہ۔۔۔ ارشیہ میری بچی“ حیدر صاحب نے کمرے کا دروازا کھولتے ہوئے ارشیہ کو آوازیں دیں۔ اسے سجدے میں دیکھ وہ اس کے پاس ہی بیٹھ گئے۔
“مجھے معاف کر دوں میں بہت برا باپ ثابت ہوا ہوں۔۔۔ میں نے تمہیں صحیح غلط سمجھانے کی بجائے خود جیسا ضدی بنایا۔۔۔ خود میں اپنی ضد پر اڑھا۔۔۔۔ ارشیہ۔۔۔ ارشیہ میری بچی۔۔۔ مجھے معاف۔۔۔۔“ حیدر صاحب اس کے پاس ہی بیٹھے مدھم آواز میں اپنی غلطی مان رہے تھے۔ ارشیہ میں کوئی ہل چل نہ ہوئی تو انہوں نے ہاتھ بڑھا کر ارشیہ کو ہلانا چاہا لیکن ان کا ہاتھ لگتے ہی ارشیہ ک بے جان جسم ایک طرف کو گر گئی جس کی وجہ سے حیدر صاحب کے باقی الفاظ ان کے منہ میں ہی رہ گئے۔
“ارشیہ“ الفاظ بامشکل ان کے حلق سے نکلے تھے۔۔۔ انہوں نے اٹکتے ہوئے ارشیہ کو پکارا لیکن وہ شاید اب کسی کی نہیں سننے والی تھی۔ دوپٹے کے ہالے میں بہت خوبصورت سی مسکراہٹ ارشیہ کے چہرے کا احاطہ کیے ہوئے تھی۔ انہوں نے آگے بڑھ کر اس کا سر اپنی گود میں رکھا۔
“مجھے معاف کردوں۔۔ میں معافی مانگتا ہوں اپنے زیادتیوں کی۔۔ ار۔۔ ارشیہ ایک۔۔ بار کہوں۔۔۔ صرف ایک بار کہہ دوں۔۔۔ تم۔۔ تم نے اپنے بابا کو معاف کیا۔۔ ارشیہ۔۔ میری۔۔ پیاری بیٹی۔۔ تم۔۔ تم تو اپنے بابا سے پیار کرتی ہوں نہ۔۔ پلیز۔۔ بابا کی بات مان لوں۔۔ ایک بار۔۔ ایک بار کہہ دوں۔۔ اٹھو ارشیہ۔۔ میں تمہارا بابا تمہیں کہہ رہا ہوں۔۔ جیا۔۔۔ جیا ادھر آوں۔۔ ارشیہ“ حیدر صاحب ہزیانی کیفیت میں ارشیہ کا چہرہ تھپتھپاتے ہوئے اسے اٹھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ٹوٹے پھوٹے الفاظ کے ساتھ وہ اپنی بیٹی کو اٹھانے کی کوشش میں تھے۔ اسے نہ اٹھتا دیکھ انہوں نے جیا بیگم کو آوازیں دیں۔
جس پر جیا بیگم ہڑبڑا کر اٹھی تھی۔ ایک پل کو تو ان کا دماغ مؤوف ہوا۔ پھر حیدر کی آوازیں سن کر وہ اٹھ کر آواز کی سمت بھاگی۔
“ایک۔۔ ایک بار اٹھ جاؤں۔۔ دیکھو آج تمہارا بابا تم سے معافی مانگنے آیا ہے۔۔ تم جو کہو گئی۔۔ ویسے ہی ہوں گا۔۔ پلیز میرے بچے۔۔ میری ارشیہ “ حیدر صاحب مسلسل اس کا چہرہ تھپتھپا رہے تھے۔ آخر میں انہوں نے ارشیہ کو اپنے سینے میں بھینچا تھا۔ آنسوں ان کی آنکھوں سے رواں تھے۔ ان کی بیٹی ان سے کوسوں دور ہو گئی تھی۔ جیا بیگم تقریباً بھاگتے ہوئے اندر آئی تھی۔
“جیا ارشی سے کہوں نہ کہ۔۔ اسے کہے میری بات مان لے۔۔ میں بات نہیں مان رہی یہ مجھے معاف نہیں کر رہی۔۔ میں معافی مانگ بھی رہا ہوں“ حیدر نے دروازے میں کھڑی جیا بیگم سے کہا جس پر انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے منہ پر رکھ کر چیخ کا گلہ گھونٹا اور مسلسل نفی میں سر ہلایا۔
“ارشیہ۔۔ ارشی میری بچی۔۔ دیکھو ماما بابا آئے ہیں۔۔ چندا اٹھو۔۔ دیکھو تمہارے بابا کتنا پریشان ہو رہے ہیں۔۔ اپنی ماما کی بات بھی نہیں مانوں گئی۔۔ ارشیہ تمہیں سنائی دیے رہا ہے میں کیا کہہ رہی ہوں۔۔ میں بلا رہی ہوں تمہیں ارشیہ۔۔ اپنے ماما بابا کی بات کا جواب دوں۔۔ کیوں نہیں مان رہی تم ہماری بات۔۔ ارشیہ۔۔ ارشی میری بچی۔۔ حیدر اسے کہنے نا میری بات مانے۔۔ ورنہ میں۔۔ میں۔۔ اسے معاف نہیں کروں گئی۔۔۔ ارشی“ جیا بیگم نے خود پر قابو پاتے ارشیہ کا سر حیدر صاحب کی گود سے اٹھا کر اپنی گود میں رکھا اور اسے آوازیں دیں۔۔۔ وہ بہت پیار سے اسے بلا رہی تھیں۔۔ لیکن جب ارشیہ کچھ نہ بولی تو انہوں نے چیختے ہوئے اسے اٹھانا چاہا لیکن بے سود۔ آخر میں جیا بیگم حیدر کے گلے لگ کے پھوٹ پھوٹ کے رو دیں۔
اس وقت ارشیہ کا سر جیا بیگم کی گود میں تھا۔ حیدر صاحب کی نظر اس کے چہرے پر تھیں۔ اس کے چہرے کی چمک اور بڑھ گئی تھی۔ اس کے چہرے پر نور کی تازگی تھی۔ حیدر کی آنکھوں سے آنسوں رواں تھے۔ جیا بیگم کے لیے بھی یہ کسی صدمے سے کم نہ تھا۔
دوسری طرف ارشیہ کو ایک بات کی خوشی تھی کہ وہ اس نے اس قید سے چھٹکارا حاصل کرلیا تھا۔ وہ اپنے رب سے ملاقات کرنے جارہی تھی۔ اس دنیا کے قید خانے سے اسے رہائی نصیب ہو چکی تھی۔ وہ مرنے سے پہلے اپنے لیے آخرت کا زیادہ نہ سہی کچھ تو سامان ساتھ لے گئی تھی۔
”””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””
زوہیب نے جب آ کر عبیرہ کو ارشیہ کی موت کے بارے میں بتایا تو وہ بے یقین سی اسے دیکھنے لگی۔ اور اسے دیکھتے ہوئے وہ وہی زمین پر بیٹھ گئی۔ اس کی ارشیہ انسیت ہو چکی تھی۔
زینب کو جب ولی نے ارشیہ کے انتقال کی خبر سنائی تو وہ اسے دیکھنے لگی۔ انہوں نے کھبی سوچا بھی نہ تھا کہ وہ اتنی جلدی اس دنیا سے رخصت ہو۔جائے گئی۔ انہوں نے اس کے لیے دعا کی ایک طرف سے وہ اس کے لیے خوش تھیں کہ وہ مرنے سے پہلے دنیاوی رنگینیوں کی بجائے اپنے رب تعالیٰ سے عشق کر چکی تھی۔
نمازِ فجر کے بعد یوسف مسجد میں بیٹھا نماز پڑھنے کے بعد عبادت کر رہا تھا جب زوہیب نے کال کر کے اسے ارشیہ کے انتقال کی خبر سنائی۔ چند پلوں کے لیے یوسف پر سکوت طاری ہوا۔ کال کاٹ کر اس کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوئے تھے:
اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ
بے دھیانی میں ایک آنسو اس کی آنکھ سے نکل کر گال پر بہہ گیا۔ اس نے اس کی مغفرت کی دعا کی تھی۔
”””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...