صبح جب زوہیب کی آنکھ کھولی تو اسے اپنا سر بھاری ہوتا محسوس ہوا۔ اس نے اٹھ کر اپنے موبائل کو دیکھا تو وہاں دوپہر کے دو بج رہے تھے۔ اس نے جلدی سے اٹھ کر کھڑا ہونے کی کوشش کی تو ایک دم سے اسے چکر آئے۔ کچھ نیند اب بھی اس کی آنکھوں میں باقی تھی۔
دیوار کا سہارا لے کر وہ کھڑا ہوا۔ آگے بڑھ کر اس نے باتھروم کا دروازا کھولا اور اندر جا کر شاور چلائے ویسے ہی کھڑا ہو گیا۔ پانی کی وجہ سے اس کی باقی بچی کھچی نیند بھی اڑ گی۔ اب وہ قدرے بہتر محسوس کر رہا تھا۔
تھوڑی دیر بعد وہ چینج کیے باہر کی طرف چلا گیا۔ جاتے جاتے وہ کسی کو کال کر رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد رابطہ ہوا۔
” اس بینک اکاؤنٹ اور نمبر کے بارے میں پتہ چلا“ زوہیب نے فون کان سے لگاتے ہوئے پوچھا۔ جس پر دوسری طرف سے تسلی بخش جواب نہیں ملا تو اس نے ٹھیک ہے کہہ کر کا کاٹ دی اور گاڑی کو منزل کی جانب موڑ لیا۔
“ہاں عدیل۔۔ اس لڑکی کا کیا بنا؟“ زوہیب نے عدیل سے حائقہ کے بارے میں دریافت کیا۔ اس وقت وہ اپنے فارم ہاوس پر موجود تھا۔
“سر ان کی حالت تشویشناک ہے۔۔ نرس کا کہنا ہے کہ بلڈ کافی بہہ گیا تھا تو ان کا بچنا مشکل ہے“ عدیل نے تفصیل بتائی تو زوہیب ہمم کہتے ہوئے آگئے بڑھ گیا۔
“عدیل۔۔ ارشیہ کے بارے میں مجھے معلومات لا کر دوں۔۔ وہ کہا جاتی ہے۔۔ کیا کرتی ہے۔۔ ایک ایک منٹ کی ڈیٹیلز۔۔۔ جتنی جلدی ہو سکے“ سیڑھیاں چڑھتے زوہیب نے ایک دفعہ مڑ کر عدیل سے کہا جس پر وہ ٹھیک ہے سر کہہ کر باہر کی طرف چلا گیا۔
عدیل ابھی باہر ہی نکلا تھا جب اسے ہاسپٹل سے کال آئی۔ اس نے کال پک کرکے فون کان سے لگایا۔
“ہیلو جی کہیے“ عدیل نے فون کان سے لگاتے ہی پوچھا تھا۔ اس نے ہی وہاں موجود ایک نرس کو حائقہ کی طبیعت سے آگاہ کرنے کا کہا تھا۔
“آپ کی پیشنٹ کی ڈیتھ ہو گئی ہے“ نرس نے عدیل کو اطلاع دی۔ جس پر اس نے ٹھیک ہے کہہ کر فون کان سے ہٹا کر کال کاٹ دی اور یوسف کے گھر کی طرف چل پڑا۔
اس دن جب عبیرہ کو زوہیب کے فارم ہاوس سے نکلوانا تھا تو زوہیب کے ساتھ حائقہ ہی تھی اسے اس بات کا شک تھا کہ یہ لڑکی وہی ہوں گئی اسی لیے اس نے اپنے شک کی تصدیق کرواتے ہوئے کسی سے حائقہ کی ڈیٹیلز نکلوائی تھیں۔
”””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””
کل جب وہ آدمی عبیرہ کو لیے کر جا رہے تھے تو غالباً تبھی یوسف نے انہیں دیکھ لیا۔ وہ زینب کے گھر عبیرہ سے ملنے جا رہا تھا۔ عبیرہ اور حائقہ کو زینب کے گھر رہتے دو ماہ ہو گئے تھے۔ یوسف ان کے بارے میں لاعلم نہیں تھا۔
عبیرہ کی آنکھوں سے آج پٹی اتر چکی تھی۔ اس نے اپنی آنکھیں کھولی تو اسے سارا منظر دھندلا دکھائی دیا تھا۔ اس نے اپنی آنکھیں پوری نہیں کھولی تھی۔ آنکھیں کھولنے کے بعد اس نے فوراً سے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔
کچھ پلوں بعد اس نے آہستہ آہستہ اپنی آنکھیں کھولیں۔ اس کے سامنے ایک لیڈی ڈاکٹر کھڑی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ یوسف کی نظریں بھی عبیرہ کے چہرے پر ہی ٹکی تھیں۔
“آپی۔۔ بھائی“ آنکھیں کھولتے ہی اس نے حائقہ اور یوسف کو پکارا تھا۔ جس پر یوسف جلدی سے آگے بڑھا۔
“عبیرہ میں یہی ہوں“ یوسف نے عبیرہ کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا تھا جس پر اس نے چہرا موڑ کر اپنے بھائی کو دیکھا۔ اور مسکرا دی۔
“عبیرہ کیا تمہیں نظر آ رہا ہے“ ڈاکٹر نے اس سے پوچھا تو اس نے آہستہ سے اثبات میں سر ہلایا تھا۔
“حائقہ آپی“ عبیرہ نے سوالیہ نظروں سے یوسف کو دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔ جس پر یوسف نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ تبھی کسی نے آ کر دروازا کھٹکھٹایا۔ یوسف دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
“اسلام و علیکم! جی کہے “ یوسف نے دروازا کھولا تو سامنے عدیل کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔ وہ اسے پہچان گیا تھا۔
“اس دن آپ کے ساتھ جو لیڈی میرے ساتھ گئی تھی۔۔۔ ان کی ڈیٹھ ہو گئی ہے“ عدیل نے یوسف کو بتایا تو یوسف نے بے یقینی سے اسے دیکھا تھا۔ وہ کیا کہہ رہا ہے۔۔
تھوڑی دیر بعد ایک ایمبولینس یوسف کے گھر کے باہر آ کر روکی تھی۔ وہ لوگ حائقہ کو وہاں اندر رکھ کر واپس چلے گئے۔ انہیں یوسف کے گھر کا ایڈریس بھی عدیل نے دیا۔تھا۔
کمرے میں آ کر یوسف نے عبیرہ کو بتایا تو اس نے حیرانی سے یوسف کو دیکھا اور نفی میں سر ہلانے لگی۔ اس خبر کو سن عبیرہ کی آنکھوں سے آنسوں نکلے تھے۔ لیکن ڈاکٹر کے کہنے پر اس نے اپنے آنسوں پر بندھ باندھا تھا۔ کیونکہ یہ اس کی آنکھوں کے لیے نقصان دہ تھا۔ عبیرہ نے باہر آ کر حائقہ کا چہرہ دیکھا تو وہ اسے دیکھتی رہ گئی۔ وہ واقعے ہی کوئی اپسرا تھی۔ اتنی خوبصورت۔۔۔۔
عبیرہ نے کھبی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ اس کی خواہش یوں پوری ہو گئی۔ ضبط کرنے کے باوجود اس کی آنکھیں لبالب پانی سے بھر گئی تھی۔
“میں خود کو دیکھنا چاہتی ہوں۔۔ میں آپ کو دیکھنا چاہتی ہوں“ عبیرہ کو اپنے کہے گئے الفاظ یاد آئے تھے۔ اس نے کھبی سوچا نہ۔ہو۔گا کہ۔اس کی خواہش تب پوری ہو گئی جب وہ اپنے آخری سفر پر روانہ ہو گئی۔
مسجد میں اعلان کروایا گیا۔ تھوڑی دیر بعد اسے اچھے سے نہلا کر خوشبو لگا کر تیار کیا گیا۔ اس کے آخری سفر کی تمام تیاریاں کر کے اسے شان سے رخصت کیا گیا تھا۔ وہ اپنے رب سے ملاقات کے لیے جا رہی تھی اسی لیے اسے اچھے سے تیار کر کے رخصت کیا گیا تھا۔
جب حائقہ کا جنازہ اٹھایا گی اتو ہر آنکھ اشک بار تھی۔ لیکن عبیرہ۔۔۔ اس کی آنکھیں خشک تھیں۔۔ اگر کھبی کوئی پانی کا قطرہ آنکھ کی حدود پار کرنے کی کوشش کرتا تو وہ اسے اپنی انگلی کے پوروں سے چن لیتی۔۔۔ وہ مسلسل ایک ہی ورد کیے جا رہی تھی
اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔
”””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””
زوہیب موبائل، کیز اور والٹ اٹھائے نیچے آیا۔ سامنے ہی نجمہ بیگم ٹی وی دیکھ رہیں تھی۔ زوہیب کو آتا دیکھ انہوں نے اسے اپنے پاس بلایا۔ زوہیب قدم قدم چلتا ان کے پاس آیا تو انہوں نے ٹی وی بند کر کے زوہیب کا سر اپنی گود میں رکھا۔
“کہاں رہتے ہوں۔۔۔ ماں کو بھی وقت دیے دیا کروں۔۔ ہر وقت تو تم گھر سے باہر رہتے ہوں یا پھر کچھ دیر کے لیے گھر کی بجائے اپنے کمرے کا چکر لگا کر چلے جاتے ہوں“ نجمہ بیگم نے پیار سے اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے شکوہ کیا تھا۔ جبکہ زوہیب تو آنکھیں بند کیے ماں کی گود کا سکون محسوس کر رہا تھا۔
“مصروف تھا ماما“ زوہیب نے آنکھیں بند کیے جواب دیا تھا۔
” ہاں اب تو کام ماں سے بھی ضروری ہو گئے ہیں “ نجمہ بیگم نے انگلیاں اس کے بالوں میں چکاتے خفگی سے پوچھا تھا۔جس پر زوہیب نے جواب دیے بنا ان کا ہاتھ پکڑ کر اس پر بوسہ دیا اور ہلکا سا مسکرایا تھا۔
“اب ناراضگی دور کرنے کے مکھن لگا رہے ہوں۔۔ چلو چلو۔۔ آج جلدی گھر آنا پھر مجھے اچھا سا ڈنر کروانا” نجمہ بیگم نے پیار بھرے لہجے میں اسے ڈانٹتے ہوئے ڈنر کی فرمائش کی جس پر زوہیب ہنس دیا۔
“اوکے ماما میں چلتا ہوں “ کچھ دیر بعد زوہیب کے موبائل پر عدیل کا میسج آیا تو وہ دیکھتے ہوئے زوہیب نے نجمہ بیگم کی گود سے سر اٹھایا اور ان کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے باہر چلا گیا۔ اس نے گاڑی کا رخ حیدر صاحب کے گھر کی طرف کیا۔
””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””
ارشیہ صبح اٹھی تو رات رونے کی وجہ سے اس کا سر بھاری ہو رہا تھا لیکن اس کے دل کا بوجھ سرک چکا تھا۔ صبح نماز پڑھ کر تلاوت کی اور پھر دوپٹہ اٹھا کر اپنے چہرے کے گرد باندھا۔دوپٹے کے ہالے میں اس کا چہرا اور خوبصورت لگ رہا تھا۔
شیشے میں اپنا عکس دیکھ مسکراہٹ نے ارشیہ کے لبوں کو چھوا تھا۔ اس نے ایک بھرپور نظر خود پر ڈالی اور بار بار دوپٹے کو سیٹ کرتی باہر نکلی۔ اسے حجاب کرتے دو دن ہوں چکے تھے۔ جیا بیگم اور حیدر صاحب نے اس کا فیشن سمجھ اسے کچھ نہ کہا تھا۔
“ارے کدھر“ لاؤنچ سے گزرتی ارشیہ کے آگے لاؤنچ کے دروازے کے پاس کھڑے زوہیب نے اچانک سے ہاتھ آگے بڑھا کر اس کا راستہ روکا تھا۔ ارشیہ جو کہ دوپٹے کا ہالے اپنے چہرے کے گرد لپیٹے حجاب کیے باہر جا رہی تھی۔ اس کے اس طرح روکنے پر اچھل کر دو قدم پیچھے ہٹی۔
زوہیب نے ایک تفصیلی نظر سے ارشیہ کو دیکھا جو کہ پہلے تو پیاری تھی لیکن اب دوپٹے کو چہرے کے گرد لپیٹے اور بھی خوبصورت لگ رہی تھی۔
“ہٹو میرے راستے سے“ ارشیہ نے اپنے دوپٹے کو سیٹ کرتے ہوئے نظریں جھکا کر کہا تھا جس پر زوہیب نے قہقہہ لگایا۔
“تمہیں ایک بات بتاؤں۔۔۔ جس کے پاس تمہارے راز ہوں نہ اسے کھبی ہلکا نہیں لیتے۔۔۔ یہ جو تایا، تائی اور موم ڈیڈ تمہارا فیشن سمجھ رہے ہیں۔۔۔ انہیں کیا پتہ کہ یہ فیشن کی بجائے ان کی چہیتی کیا گل کھلا رہی ہے۔۔۔ ڈروں اس وقت سے ارشیہ بی بی جب میں سب کے سامنے تمہارا یہ راز افشاں کروں گا“ زوہیب نے راز داری سے کہتے ہوئے نحوست سے ارشیہ کے حجاب کو دیکھتے ہوئے کہا اور آخر میں اسے دھمکی دی۔جس پر ارشیہ نے حیرت سے اسے دیکھا تھا۔
اس کا مطلب تھا کہ وہ اس کا پیچھا کر رہا تھا۔ ارشیہ کا حیرت سے کھلا منہ دیکھ زوہیب نے طنزیہ مسکراہٹ اس کی طرف اچھالی اور باہر جانے کے لیے مڑا جب ارشیہ کے لفظوں نے اس کے قدم زنجیر کیے تھے۔
“یہ راز نہیں ہے۔۔۔ بتا دوں تم سب کو۔۔۔ میں ڈرتی نہیں ہوں نہ تم سے نہ ہی ڈیڈ موم یا چاچو چچی سے۔۔ سمجھے تم“ ارشیہ نے جلد ہی اپنی حیرت پر قابو پاتے ہی اسے پیچھے سے پکار کر اونچی آواز میں کہا تھا جس پر زوہیب نے واپس مڑ کر اسے دیکھا۔
“ہاں میں نے حجاب شروع کیا ہے۔۔۔ کیونکہ یہ میرے اللّٰہ کا حکم ہے۔۔ سمجھے تم۔۔۔ میں تم جیسے بزدلوں سے نہیں ڈرتی“ ارشیہ نے پر اعتماد لہجے میں بغیر ڈرے کہا تھا۔ زوہیب کی نظر اس کے پیچھے بت بنے حیدر صاحب پر پڑی تو اس کے لب ایک طرف سے مسکراہٹ میں ڈھلے تھے۔
اچانک بت بنے حیدر صاحب میں غصے کی لہر اٹھی اور وہ غصے سے بھرے ارشیہ کی جانب بڑھے اور اسے اپنی طرف موڑ کر کھینچ کر اس کے منہ پر تھپڑ مارا تھا۔
“تم۔۔۔ تمہیں شرم نہ آئی یہ سب کرتے ہوئے۔۔۔ اتارو اسے“ حیدر صاحب غصے سے دھاڑے تھے جس پر ارشیہ نے صدمے سے انہیں دیکھا۔ بے اختیار ہی اس کی پکڑ اپنے حجاب پر مضبوط ہوئی تھی.
“بابا میری بات سنیں۔۔ بابا یہ اللّٰہ کا حکم ہے۔۔ جو کہ سب سے معتبر ہے۔۔ میں۔۔۔ میں اسے نہیں اتار سکتی۔۔ بابا“ ارشیہ نے سمجھانے سے انداز میں حیدر صاحب کو سمجھانا چاہا لیکن وہ اس وقت کچھ بھی سمجھے کے موڈ میں نہیں تھے اسی لیے اس کے سر سے حجاب پکڑ کر اسے گھسیٹتے ہوئے ارشیہ کے کمرے کی طرف بڑھے۔
زوہیب وہاں کھڑا صورتحال کا جائزہ لے رہا تھا۔ سمجھ آتے ہی وہ آگے بڑھا تھا۔ وہ تو صرف ارشیہ کو ڈرانا دھمکانا چاہتا تھا۔ اس دن کلینک میں جو ارشیہ نے کہا اور آفس میں اسے تھپڑ کا کہا تھا وہ صرف اس کے بدلے اس کے دل میں اپنا ڈر پیدا کرنا چاہتا تھا تاکہ آگے سے وہ اس سے بات کرتے ہوئے سو بار نہ سہی ایک بار تو سوچے۔
“تایا۔۔ تایا۔۔ بابا۔۔ بابا چھوڑیں مجھے درد ہو رہا ہے“ زوہیب نے حیدر صاحب کو پکارا تھا۔ ارشیہ بھی حیدر صاحب کے ہاتھ سے خود کو چھوڑوانے کی کوشش کی۔ حجاب کے کپڑے کے ساتھ ارشیہ کے بال بھی ان کے ہاتھ میں تھے۔ درد کی شدت سے ارشیہ کی آنکھوں سےآنسوں نکل آئے۔
“اب یہاں ہی سڑو جب تک تمہارے دماغ کا یہ فتور نہیں نکل جاتا۔۔۔ کمرے سے باہر قدم رکھے تو جان لے لوں گا“ارشیہ کے کمرے کا دروازا کھول کر حیدر صاحب نے اسے اندر کی طرف دھکا دیتے ہوئے کہا اور پھر دروازا بند کرکے دروازے کو کنڈی لگا دی۔
“تایا۔۔ تایا کیا کر رہے ہیں آپ“ زوہیب نے ان کو کنڈی لگاتے دیکھ پوچھا تھا۔
“اور تم۔۔ تمہیں جب پتہ تھا تو مجھے کیوں نہیں بتایا۔۔ ہاں۔۔ کوئی بھی۔۔۔ کوئی بھی اس کمرے کا دروازا کھولنے کی جرات نہ کرنا “ حیدر صاحب نے زوہیب کی بات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے چبا چبا کر ہر لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا تھا۔ جیا بیگم بھی شور کی آواز کی وجہ سے وہاں آگئی تھی تو حیدر صاحب نے دونوں کو تنبیہ کی اور غصے سے اپنے کمرے کی طرف چلے گئے۔
“ک۔۔ کیا ہوا ہے۔۔ اور یہ۔۔ حیدر کیا کہہ کر گئے ہیں زوہیب“ حیدر کی باتیں جیا بیگم کے سر کے اوپر سے گزر رہیں تھیں اور اندر سے مسلسل ارشیہ کے دروازا کھٹکھٹانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔
“تائی امی۔۔ ارشیہ نے وہ نقاب وغیرہ شروع کر دیا ہے۔۔ اسی وجہ سے تایا کو غصہ آ گیا“ زوہیب نے ایک بے بسی نظر دروازے پر ڈالی۔ اگر اسے حیدر کے اس ردعمل کا زرا بھی پتہ ہوتا تو کھبی نہ کہتا۔ کیونکہ وہ بھی تو اب عبیرہ سے محبت کر بیٹھا تھا۔ جانے یہ بدلہ کب محبت میں بدلہ تھا لیکن اب زوہیب اسے ہر حال میں ڈھونڈنا چاہتا تھا۔
“یہ لڑکی اسے ہمارے پیار کا یہ صلہ دیا ہے ہمیں۔۔۔ کیا کمی رہ گئی تھی“ جیا بیگم زوہیب کی بات سن کر غصے میں آئی تھی اور کہتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔
ارشیہ نے ابھی صرف حجاب کیا تھا تو حیدر کا رد عمل اتنا شدید تھا تو اگر انہیں عبیرہ کے بارے میں پتہ جاتا تو۔۔ زوہیب نے بے اختیار جھرجھری لی تھی۔ وہ بے بسی بھری نگاہ ارشیہ کے کمرے کے دروازے پر ڈال کر واپس چلا گیا۔ ابھی اسے عبیرہ کو ڈھونڈنا تھا۔جبکہ ارشیہ کی صدائیں اب بھی کمرے سے آ رہی تھیں جو کہ خالی لوٹ رہیں تھیں۔
”””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””
زیاد اور ارسل اس وقت سمیر کے فارم ہاوس پر تھے۔ نمرا بار بار زیاد کو کال کر رہی تھی۔ کل اس کی منگنی تھی۔ نعمان صاحب نے اس سے پوچھا تو اس نے خاموشی سے رشتے کے لیے ہاں کر دی۔ اب نعمان صاحب اور نمرا کی والدہ اس کی شادی کرنے کا کہہ رہے تھے۔
اس دن کے بعد نمرا زیاد کو میسیجز اور کال پر کال کر رہی تھی۔ لیکن وہ اس کے ہر میسج ہر کال کو نظر انداز کر رہا تھا۔ زیاد نے جھنجھلاتے ہوئے فون کو دیکھا جہاں نمرا کے کافی میسیج اور کال آئی ہوئی تھیں۔ ابھی بھی وہ مسلسل کال کر رہی تھی۔ زیاد ارسل سے ایکیسوز کرتا باہر آیا اور نمرا کی کال پک کی۔
“ہیلو۔۔ ہیلو زیاد۔۔ میں کتنے دنوں سے تمہیں کال کر رہی ہوں۔۔ نہ تم میری کال پک کر رہے ہوں نہ ہی میرے میسیج کا جواب دیے رہے ہوں۔۔ مجھے کیوں اگنور کر رہے ہوں۔۔ مجھے میری غلطی تو بتا دوں۔۔۔ یوں بے رخی کی سزا تو نہ دوں“ نمرا نے زیاد کے فون اٹھاتے ہی مسلسل بولنا شروع کیا۔
“کیا ہو گیا ہے نمرا۔۔ میں بزی تھا“ زیاد نے بے زاری سے اسے کہا تھا جس پر دوسری طرف نمرا کی آنکھوں میں پانی آیا تھا۔
“کیا کام مجھ سے بھی ضروری تھا۔۔ زید میں مر رہی ہوں۔۔ میرے بابا۔۔ میرے بابا میری کسی اور سے شادی کروا رہے ہیں۔۔ پلیز کچھ کرو۔۔ پلیز میں مر جاؤں گئی“ نمرا نے دکھ سے پوچھا تھا۔ آخر میں اس کی آواز بھاری ہوئی تھی۔
“تو مر جاؤں میں کیا کروں“ زیاد کے لہجے میں بے زاری کے سوا کچھ نہیں تھا جبکہ دوسری طرف نمرا نے بے یقینی سے زیاد کی بات سنی تھی۔
“تم۔۔ تم کیا کہہ رہے ہوں۔۔ تمہیں یاد ہے۔۔ تم نے مجھے پرپوز کیا تھا۔۔ تم۔۔ تم اپنے ماما بابا کو بھی میرے گھر بھیجنے والے تھے۔۔ تم۔۔ تم ایسا کیسے کہہ سکتے ہوں۔۔ دیکھو اگر تم کوئی مزاق کر رہے ہوں تو پلیز نہ کرو۔۔ میں واقعے ہی مر جاؤں گئی زیاد“ نمرا نے اٹکتے ہوئے کہا تھا۔ اسے کہاں گمان تھا کہ وہ شخص جیسے وہ چاہے گئی وہ یوں بھی اسے ٹھکرا دیے گا۔۔
“ہاں وہ پرپوز۔۔ وہ تو میں نے اس لیے کیا تھا کہ تمہارے ذریعے ارشیہ سے کام نکلوائے جا سکے۔۔ آخر تم دونوں
BFF (Best Friend Forever)
جو ہوں۔۔ تو بس اب میرا کام ختم۔۔ میری طرف سے جیو یا مروں۔۔ مجھے کیا۔۔۔ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا“ “ زیاد نے اس کے سر پر گویا بم گرا تھا۔
“تم۔۔ تم میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے۔۔۔۔ تم مجھ سے محبت “ نمرا نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا تھا۔ آنسوں اس کی انکھوں سے بہہ رہے تھے۔
“او شٹ اپ… کوئی محبت وحبت نہیں ہے مجھے تم سے۔۔۔ اور ہاں۔۔ منگنی کی مبارک ہوں۔۔۔ آئندہ مجھے کال نہ کرنا۔۔۔ بائے“ اس سے پہلے وہ اپنی بات مکمل کرتی زیاد اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا اور آخر میں کہہ کر کھٹاک سے فون بند کیا اور اندر کی طرف بڑھ گیا۔ ارسل کو کچھ فائلز پکڑا کر وہ واپس گھر کی طرف چلا گیا۔
جب کہ دوسری طرف نمرا بے یقینی سے موبائل کو دیکھ رہی تھی۔ آنسوں اس کی آنکھوں سے نکل کر اس کے گال پر لڑھک رہے تھے۔ وہ آہستہ آہستہ زمین پر بیٹھتی گئی۔ اس نے اپنے ہاتھ زمین پر مارے۔۔ زمین پر ہاتھ مارتے ہوئے وہ رو رہی تھی۔۔ چیخ رہی تھی۔ اس کی محبت اس سے دور ہو گئی۔۔۔
زمین پر ہاتھ مارتے ہوئے وہ پاگلوں کی طرح چیخ رہی تھی۔۔ اسے بس اتنا یاد تھا کہ زیاد نے اس کو کہا تھا کہ میری طرف سے مر جاؤں اسے فرق نہیں پڑے گا۔۔۔۔وہ اپنے غم پر قابو پانے کی کوشش میں خود بے قابو ہو رہی تھی۔ کوئی کیسے یہ برداشت کر سکتا ہے کہ وہ شخص جیسے اس نے دل میں بسایا ہوں وہ کہہ دیے کہ تم جیوں یا مروں مجھے فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔
آج اسے اپنی پھپھو اور ماما کی نصیحت یاد آ رہی تھیں۔ وہ ہمیشہ اسے اپنے آپ کو سنبھالنے کا کہتی۔۔ وہ ہمیشہ اسے کہتی تھیں کہ کسی نامحرم کو اپنے دل میں جگہ نہ دینا۔۔ اس دل میں صرف اللّٰہ کی محبت کو آنے دینا۔۔ کسی نامحرم کے لیے اپنے دل کے دروازے بند رکھنا۔۔ ورنہ بہت نقصان اٹھاؤں گئی۔۔۔
“وہ ٹھیک کہتی تھیں۔۔۔ سب ٹھیک کہتے تھے۔۔ میں غلط تھی۔۔ سب ٹھیک کہتے تھے “ نمرا نے اپنے بال مٹھیوں میں جکڑے ایک ایک لفظ پر زور دیتے چیختے ہوئے کہا تھا اس وقت وہ ہزیانی کیفیت میں چیخ رہی تھی چلا رہی تھی۔۔ زیاد کو واپس آنے کی فریاد کر رہی تھی لیکن سب بے سود۔۔
اس کی چیخوں پکار سن کر سب گھر والے اس کے کمرے کی طرف بھاگے۔ نعمان صاحب نے کمرے کا دروازا کھولا تو سامنے نمرا زمین پر پاگلوں سی حالت میں بیٹھی چیختی چلا رہی تھی۔
نمرا کی والدہ اور پھپھو نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی چیخ روکی۔ اس وقت سامنے بیٹھی نمرا کسی پاگل سے کم نہیں لگ رہی تھی۔ اچانک چیختے چیختے وہ ہنسنے لگی۔ اس کی ہنسی پورے کمرے میں گونجنے لگی تھی۔
دحیہ وہاں کھڑا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ وہ اپنی آپی کو دیکھ رہا تھا۔ نمرا نے ہمیشہ اسے اپنا چھوٹا بھائی مانا تھا۔ وہ بھی اسے اپنی آپی مانتا تھا۔ اس کی ہر خواہش پوری کرنا نمرا پر فرض ہوتا تھا۔ دونوں مل کر نعمان صاحب سے چپ چپ کر کھٹی چیزیں کھاتے تھے۔ کیونکہ ڈاکٹر نے کھٹی چیزیں دحیہ اور نمرا دونوں کو منع کی ہوئی تھیں۔
ہنستے ہنستے نمرا اپنے ناخنوں سے اپنے منہ کو نوچنے لگی۔ اس نے اس شخص سے بے انتہا محبت کی تھی جو کہہ رہا تھا کہ میری طرف سے مر جاؤں مجھے فرق نہیں پڑتا۔ اپنے محبوب کے منہ سے اپنے لیے یہ الفاظ سنانا کتنا تکلیف دہ تھا یہ اس وقت کوئی نمرا سے پوچھتا۔
اس نے پہلے دن سے ہی صرف اسے سوچا تھا۔ نمرا نے اس کو اپنے دل میں بسایا تھا۔ اس کی وجہ سے اس نے اپنا سبجیکٹ چینج کر کے زیاد والا سبجیکٹ رکھا تھا۔ وہ آج تک سمجھتی آئی تھی اسے نمرا سے محبت تھی لیکن نہیں۔ وہ خوش تھی کہ اس کی محبت اسے مل جائے گئی لیکن دنیا میں صرف چند خوشنصیب لوگ ہوتے ہیں جنہیں ان کی محبت ملتی ہے ورنہ اس دنیا میں بہت کم لوگوں کو ان کی۔محبت قسمت سے ملتی ہے۔۔۔ اگر ہر ایک کو اس کا من چاہا شخص مل جاتا تو سب ہی الٹ ہو جاتا۔ کیونکہ انسان کی پسند ناپسند ہمیشہ بدلتی رہتی ہے۔۔۔
نمرا کی والدہ اور پھپھو نے آگئے بڑھ کر اسے سنبھالا۔ نعمان صاحب نے جلدی سے ڈاکٹر کو بلایا۔ ان دونوں سے نمرا کو سنبھالنا مشکل ہوا تھا۔ دحیہ وہاں دروازے میں کھڑا اپنی کزن کی حالت دیکھ رہا تھا جو کہ کھبی اونچی آواز میں ہنسنے لگتی اور کھبی چیختے ہوئے خود کو چھڑوانے کی کوشش کرتی اور کھبی اپنے ناخنوں سے اپنا منہ نوچنے لگتی۔
ڈاکٹر نے آ کر نمرا کا چیک اپ کیا تو انہوں نے جلدی سے اس کی حالت کے پیشِ نظر اسے نیند کا انجیکشن لگا دیا۔ جس کی وجہ سے وہ جلدی ہی غنودگی میں چلی گئی۔
“ان کو کافی گہرا صدمہ لگا ہے۔۔۔۔ جس کی وجہ سے ان کے دماغ پر کافی اثر ہوا ہے۔۔ ان سیمپل ورڈز یہ پاگل ہو گئیں ہیں۔۔ میرا سجیشن ہے کہ آپ انہیں کسی پاگل خانے جمع کروا دیں۔۔ ورنہ یہ خود کے ساتھ ساتھ باقی گھر والوں کے لیے بھی نقصان کا باعث بنے گئیں“ ڈاکٹر اپنے پروفشنل انداز میں کہتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔
ڈاکٹر کے جاتے ہی نعمان صاحب اپنا سر پکڑ کر وہاں بیٹھ گئے۔ ان کی آنکھوں میں پانی تھا۔ اولاد کا دکھ ماں باپ کو زندہ رہتے ہی مار دیتا ہے۔ اولاد کے دکھ کے علاوہ کوئی دکھ ماں باپ کے لیے بڑھا نہیں ہوتا۔
نمرا کی والدہ بھی اپنی بیٹی کی طرف دیکھتے ہوئے بے آواز رو رہی تھیں۔ دحیہ کی والدہ نے آگے بڑھ کر اپنی بھابھی کو دلاسہ دیا تھا۔ ان کی نظریں بھی نمرا کے چہرے پر تھیں جس پر خراشیں آئی ہوئی تھی۔
دحیہ دہلیز کے ساتھ سہما سا کھڑا کھبی بار بار سب کو دیکھ رہا تھا۔ ابھی کل ہی تو ان کے گھر خوشیاں آنی تھیں۔ کل اس کی آپی کی منگنی تھی۔ وہ چھوٹا بچہ تھا لیکن اتنا بھی نہیں کہ ڈاکٹر کی کہی بات اسے سمجھ نہ آئے۔
نعمان صاحب نے جب نمرا کو پاگل خانے بھیجوانے کا سب کو بتایا تو نمرا کی والدہ نے منع کر دیا۔ وہ کیسے اپنے ساری زندگی کی کمائی اپنی کی اولاد کو پاگل پاگل خانے بھیج سکتی تھیں۔ نعمان صاحب اپنا گھر بار سب بیچ کر دوسرے ملک شفٹ ہو گئے۔
”””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...