اس کھنڈر نما گھر سے نکلنے کے بعد وہ تیز تیز قدموں سے اپنی جان بچانے کے لیے بھگا رہی تھی۔ راستے میں بھاگتے ہوئے وہ کچھ دیر بعد پیچھے مڑ کر دیکھ لیتی۔ کچھ دیر بھاگنے کے بعد ایک طرف سے اسے ایک گاڑی اپنی طرف آتی دیکھائی دی۔
دوپٹے سے بے نیاز بکھرا بکھرا سا حلیہ۔۔۔ درد کی شدت سے شل بازو اور ٹانگیں۔۔۔ اس کی حالت غیر ہونے لگی۔۔ وہاں ایک طرف کھڑی ہو کر اس نے بگڑا تنفس بحال کیا اور سامنے سے آتی کے سامنے ہاتھ ہلا کر لفٹ کا اشارہ کیا۔ گاڑی پاس آ کر روکی تو ارشیہ جلدی سے گاڑی میں بیٹھی۔
“آر یو آل رائٹ (?Are you alright) ۔۔۔ کیا ہوا ہے آپ کو۔۔۔ پانی“ گاڑی میں ایک کپل بیٹھا تھا۔ لڑکی نے پیچھے مڑتے ہوئے ارشیہ سے اس کے بابت پوچھا لیکن ارشیہ کوئی۔جواب دینے کی بجائے بے آواز پانی مانگ رہی تھی۔ جس پر سامنے بیٹھی لڑکی نے جلدی سے پانی کی بوتل اس کی طرف بڑھائی جیسے وہ ایک ہی سانس میں پی گئی۔
“آپ بتائیں ہمیں آپ کو کیا ہوا ہے۔۔۔ آپ یوں بھاگ کیوں رہیں تھیں“ آدمی نے ڈرائیو کرتے ہوئے مرمرر سے پیچھے ایک نظر دیکھ کر سامنے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
“مجھے میرے فیانسی نے کڈنیپ کر لیا تھا“ ارشیہ کے منہ سے ادا ہونے والے پہلے الفاظ تھے۔ جس پر فرنٹ سیٹ پر دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
“یہ لیں۔۔ آپ اپنے گھر والوں کو انفارم کر دیے“ آدمی نے اپنا موبائل ارشیہ کی طرف بڑھایا جیسے ارشیہ نے آگے بڑھ کر پکڑا اور کچھ سوچتے ہوئے ولی کو فون ملانے لگی۔
“ہیلو۔۔۔۔ میں ارشیہ بات کر رہی ہوں“ ارشیہ نے ولی کے فون اٹھانے ہی جلد اپنا تعارف کروایا۔ جس پر ولی جلدی سے سیدھا ہو کر بیٹھا تھا۔
“تم۔۔۔ تم کہا ہوں ارشیہ“ ولی نے فکر مندی سے پوچھا۔ ارشیہ اس دن سے ولی سے ناراض تھی اور پھر ابھی تھوڑی دیر پہلے زیاد نے اس سے ارشیہ کے بارے میں پوچھا ولی کی لاعلمی کے اظہار پر زیاد نے اسے سر سری سا بتا کر رابطہ منقطع کر دیا تھا۔
ارشیہ نے تھوڑی دیر بات کرنے کے بعد حیدر صاحب کو کال کر کے بتایا پھر ان میاں بیوی کے پوچھنے پر انہیں ولی کے گھر کا ایڈریس دیا تھا۔ جس پر آدمی نے گاڑی ارشیہ کے بتائے گئے ایڈریس کی طرف بڑھا دی۔
“ویسے میرا نام ماہم آفتاب ہے اور یہ میرے ہسبنڈ آفتاب“ لڑکی نے اپنا تعارف کروایا۔ دیکھنے میں وہ تھوڑی باتونی لگ رہی تھی جبکہ اس کا شوہر خاموش ڈرائیونگ کر رہا تھا۔
“میرا نام ارشیہ حیدر ہے “ ارشیہ نے مسکرا کر اپنا تعارف کرویا۔ اب وہ تھوڑا ریلکس ہو گئی تھی۔ اس نے غور کیا تو لڑکی نے اس وقت شاید کوئی بلیک فراک یا عبایہ ڈالا ہوا تھا اور چہرے یر حجاب کیا ہوا تھا جبکہ لڑکے نے بلیک کرتا شلوار ڈالی ہوئی تھی۔ اس کے چہرے پر داڑھی دیکھ ارشیہ کے دماغ میں یوسف کا تصور ابھرا جس پر وہ مسکرا دی۔
ماہم سارے راستے ارشیہ کے ساتھ باتیں کرتی آئی۔ وہ دونوں کسی دوسرے شہر سے آئے تھے۔ یونہی لونگ ڈرائیور کرنے کی وجہ سے دونوں نے یہ راستہ اختیار کیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ارشیہ کو وہ لوگ ولی کے گھر اتار کر چلے گئے۔
””””””””””””””””””””””””””””””””””””
تھوڑی دیر بعد سمیر کی گاڑی اس کھنڈر نما گھر کے باہر روکی۔ کرم دین کے جانے کے بعد سمیر کے آدمی ایک بار بھی اسے دیکھنے نہ گئے۔ وہ اس وقت سو رہے تھے۔ سمیر نے انہیں نحوست سے دیکھا اور ارشیہ کے کمرے کی طرف بڑھ گیا لیکن وہا ارشیہ کو نہ دیکھ غصے سے باہر آیا اور ان دونوں کے منہ پر پورے زور سے تھپڑ مارے جس پر وہ ہڑبڑا کر اٹھے۔
“کہاں ہے وہ“ سمیر حلق کے بل چیخا جس پر ان دونوں نے منہ پر ہاتھ رکھے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
“ارشیہ کہاں ہیں۔۔۔ تم لوگوں کو میں سونے کے پیسے دیتا ہوں۔۔۔ دفعہ ہو جاؤں اسے ڈھونڈوں۔۔۔۔ دفع ہو جاؤ“ سمیر نے چیختے ہوئے اسے ارشیہ کو ڈھونڈنے کا کہا جس پر وہ جلدی سے باہر کی طرف بھاگے۔ لیکن انہیں کہی بھی ارشیہ نہیں ملی۔
“ہیلو۔۔۔ زیاد۔۔۔ کچھ پتہ چلا ارشیہ کے بارے میں۔۔۔ میں بھی کوشش کر رہا ہوں لیکن اس کا کچھ پتہ نہیں چل رہا“ سمیر نے تھوڑی دیر بعد خود کو نارمل کرتے ہوئے زیاد کو کال ملا کر اس سے پوچھا۔
“ہاں۔۔۔ وہ مل گئی ہے حیدر انکل کو کال کر کے اس نے بتایا ہے کہ وہ اپنی کسی فرینڈ کے پاس چلی گئی تھی۔۔ اس کا موبائل کی چارج ختم ہو گئی تھی۔۔ اسی لیے فکر کی ضرورت نہیں ہے “ زیاد نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا جس پر سمیر نے سکون کی سانس لی۔
“ٹھیک ہے۔۔ میں تو پریشان ہی ہو گیا تھا… میں بعد میں کال کرتا ہوں“ سمیر نے جلدی سے کال اینڈ کی۔ تبھی اس کے آدمی اندر آئے۔
“کہی نہیں ہے بی بی۔۔۔ ہم نے چاروں طرف دیکھا ہے صاحب“ دونوں آدمیوں نے سر جھکائے بتایا جس پر سمیر نے انہیں غصے سے دیکھا اور انہیں جانے کا اشارہ کر کے گہری سوچ میں مبتلا ہو گیا کہ اسے سمیر نے کیڈنیپ کروایا یے اس بارے میں پتہ بھی چلا ہو گا کہ نہیں۔
”””””””””””””””””””””””””””””””””””
آج اکیڈمی میں کام جل ختم ہو گیا تھا اسی لیے یوسف جلد گھر آیا تو سامنے عبیرہ کے کمرے کے دروازے پر لڑکی نقاب کیے بے ہوش پڑی تھی۔
“عبیرہ“ یوسف جلدی سے آگے بڑھا لیکن اس کے قدم وہی روکے تھے۔ وہ عبیرہ نہیں تھی وہ حائقہ تھی۔
یوسف جلدی سے ساتھ والے گھر سے جاننے والی ایک ادھیڑ عمر عورت کو بلوا لایا۔ اس عورت کے ساتھ اس کی ایک پوتی بھی تھی۔ دونوں نے حائقہ کو عبیرہ کے کمرے میں لیٹایا۔ یوسف جلدی سے جا کر وہاں پاس ہی موجود کلینک سے ڈاکٹر بلوا لایا۔ ڈاکٹر نے حائقہ کو چیک کیا تب تک وہ عورت اور اس کی پوتی حائقہ کے پاس ہی بیٹھی ہوئی تھی۔
“زیادہ سٹریس کی وجہ سے بے ہوش ہوں گئیں ہیں جلد ہی انہیں ہوش آ جائے گا“ ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد کہا اور چلی گئی۔ یوسف اپنے کمرے میں چلا گیا تو ادھیڑ عمر عورت نے اپنی پوتی زینت کو کہہ کر حائقہ کا نقاب کھول دیا۔
“ع۔۔۔عب۔۔ عبیی۔۔ عبیرہ۔۔۔ عبیرہ “ حائقہ نے ہوش میں آتے ہی عبیرہ کا نام لینا شروع کر دیا۔
“آپی آپی کیا ہوا ہے۔۔ عبیرہ آپی یہاں نہیں ہے“ زینت نے حائقہ کو آہستہ سے ہلاتے ہوئے بتایا۔
“وہ۔۔ وہ لوگ عبیرہ کو لے گئے۔۔۔ عبیرہ مجھے عبیرہ کے پاس جانا ہے“ حائقہ نے ہوش میں آتے انہیں بتایا تھا۔ دوسری طرف یوسف اپنا سر اپنے ہاتھوں میں گرائے بیٹھا تھا۔ وہ بھی گھر میں دیکھ چکا تھا اسے کہی بھی عبیرہ نظر نہ آئی۔
“یوسف بھائی۔۔۔ یوسف بھائی۔۔ وہ عبیرہ آپی“ زینت جلدی سے یوسف کے کمرے کی طرف بھگای۔ دروازے می ہی کھڑے اس نے یوسف کو آواز دی۔
“یوسف وہ کچھ لوگ عبیرہ کو لے گئے۔۔۔ میں۔۔ میں نہیں بچا سکی عبیرہ کو“ حائقہ نے روتے ہوئے بتایا۔ یوسف وہاں خاموش کھڑا نظریں زمین پر گاڑھے کھڑا تھا۔ حائقہ نے یوسف کو زوہیب کے تھپڑ مارنے والی بات بھی بتا دی۔ جس پر یوسف بے یقین سا جہاں کھڑا تھا وہاں کھڑا رہا۔
“اور آپ مجھے یہ بات اب بتا رہیں ہیں۔۔۔ اگر ان لوگوں نے عبیرہ کو کوئی نقصان پہنچا دیا تو“ یوسف نے روبدار لہجے میں دبے دبے غصے میں کہا۔ یوسف کو اپنے سر پر آسمان گھومتا ہوا محسوس ہوا۔ یہ خیال ہی اس کی جان نکال رہا تھا کہ وہ پتہ نہیں کیا کرے گئے اس کے ساتھ۔
اچانک کسی نے دروازا کھٹکھٹایا۔ یوسف باہر دیکھنے گیا تو سامنے عدیل کھڑا تھا۔
“آپ یوسف ہیں نہ۔۔۔ عبیرہ احمد آپ کی بہن ہے؟“ عدیل نے جلدی سے یوسف سے پوچھا جس پر یوسف نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔
“مجھے پتہ ہے کہ آپ کی بہن کہا ہے۔۔۔ یقین کرے مجھے پتہ ہے کہ وہ کہاں ہے۔۔۔ آپ جلدی میرے ساتھ چلے میرے پاس وقت نہیں ہے“ عدیل نے اسے یقین دلانے والے انداز میں جلد بازی میں یوسف سے کہا۔ جس پر یوسف جلدی سے اندر کی طرف بڑھا۔
“آنٹی میں عبیرہ کو لینے جا رہا ہوں“ یوسف نے ادھیڑ عمر عورت کو اطلاع دی اور جس پر یوسف کے منع کرنے کے باوجود حائقہ بھی اس کے ساتھ چل دی۔ عدیل انہیں زوہیب کے فارم ہاؤس پر لے آیا. راستے میں ہی اسے اکرام صاحب کے ایکسیڈنٹ کی خبر ملی جس پر انہوں نے اپنا پلین بدل دیا۔
فارم ہاوس میں صرف ایک ملازمہ کھانا پکانے اور صفائی وغیرہ کے لیے رکھی ہوئی تھی۔ گیٹ پر گارڈز کو بھی عدیل نے زوہیب کا نام لے کر کہی بھیج دیا اور انہیں لے کر اندر ایک کمرے کی طرف آیا اور پھر انہیں تھوڑی دیر بعد باہر آنے کا کہہ کر زوہیب کی طرف چلا گیا۔
”””””””””””””””””””””””””””””””””””
“ابے کیا کر رہا ہے۔۔۔ سیٹھ جان سے مار دیے گا“ وین میں عبیرہ کو بے ہوش دیکھ ایک آدمی نے اس کا چہرہ دیکھنا چاہا تو دوسرا آدمی بول اٹھا جس پر پہلے کا بڑھتا ہاتھ رک گیا۔ عبیرہ کو انہوں نے وین کے ایک طرف دروازے کے ساتھ لگایا ہوا تھا۔
“یار بس چہرہ ہی دیکھنا تھا۔۔۔۔ تصویر میں تو کیا خوبصورت آنکھیں ہیں۔۔۔ دیکھنا چاہتا ہوں کہ چہرہ بھی خوبصورت ہے کہ نہیں“ آدمی نے کہتے ہوئے دوبارا سے ہاتھ آگے بڑھایا۔ ڈرائیور نے ایک نظر اس شخص کے چہرے کو دیکھا اور پھر سامنے دیکھنے لگا۔
“ابے کیوں ہمیں بھی مروائے گا۔۔۔ پتہ ہے نہ استاد نے دس لاکھ مانگا ہے۔۔ ملک صاحب نے شرط ہی یہی رکھی تھی کہ دام منہ مانگے دوں گا لیکن وہ جیسے ہوں ویسے ہی آئے۔۔۔ استاد کو پتہ چل گیا نہ تو جان سے مار دیے گا“ دوسرے آدمی نے اس کا بڑھا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسے حقیقت سے آگاہ کیا۔
“چل نہیں کر رہا کچھ ڈرا تو نہ“ پہلے آدمی نے اپنا ہاتھ جھٹکے سے چھڑاتے ہوئے منہ بسورتے ہوئے کر کہا۔ تھوڑی دیر بعد ان کی وین فارم ہاؤس کے باہر روکی تو وہاں ایک ملازمہ کھڑی تھی۔
“تم لوگ رہنے دوں میں لے جاؤں گئی“ ملازمہ نے ان آدمیوں کو عبیرہ باہر نکالنے سے پہلے ہی روک دیا اور آگے بڑھ کر عبیرہ کو سہارا دیتے ہوئے اندر لے جا کر ایک کمرے میں لے جا کر اسے وہاں ایک طرف بیٹھا دیا۔
جب عبیرہ کو ہوش آیا اس نے ہاتھ سے ٹٹولتے ہوئے پہلے اپنا نقاب دیکھا اور پھر آہستہ آہستہ اٹھ کر محتاط قدم اٹھاتے دروازے تک گئی اور دروازا کھولنے کی کوشش کرنے لگی لیکن دروازے باہر سے لوک تھا۔ تھوڑی دیر کوشش مرنے کے بعد وہ تھک کر واپس آ کر زمین پر ہی بیٹھ گئی۔
” اللّٰہ “کمرے میں گھٹی گھٹی سی آواز گونجی۔ اس کے حلق میں آنسوں کا گولہ اٹکا تھا۔ وہ اس وقت بے آواز رو رہی تھی۔ کمرے میں اندھیرا چھایا ہوا تھا۔
کمرے میں اس قدر گھٹن تھی اسے اپنا سانس بند ہوتا معلوم ہوا۔ اس نے اپنا نقاب پکڑ کر ٹھوڑی تک کیا اور چہرہ ہاتھوں میں چھپائے رو دینے کو تھی.
“میں نے کھبی شکوہ نہیں کیا تھا۔۔۔ اگر کھبی غلطی سے کیا بھی تو تب ہی اپنی غلطی کی معافی مانگ لیتی۔۔۔ اے میرے پروردگار۔۔ مجھے یہاں سے نکال دیے۔۔ تُو تو دلوں کے حال جانتا ہے میرے مولا۔۔۔ مجھے سیدھا راستہ دیکھا میرے مولا“ چہرہ ہاتھوں میں چھپائے اس اندھیرے کمرے میں عبیرہ مسلسل اپنے پروردگار سے ہم کلام تھی۔
وہ یہ بات جانتی تھی کہ اگر کوئی اس اندھیرے میں اسے روشنی دیکھائے گا۔۔ اس زندان سے نکلنے کے لیے وسیلہ پیدا کرے گا اور اس کی مشکل آسان کرے گا تو وہ وہی مالکِ کُل جہان ہے۔
“یا اللّٰہ میری عزت کی حفاظت کرنا“ پھر سے عبیرہ کی آواز اندھیرے میں گونجی۔ کافی دیر وہ دعا کرتی اپنے خدا سے ہم کلام تھی۔
اچانک کوئی دروازہ کھول کر بنا چاپ پیدا کیے اندر داخل ہوا۔ عبیرہ کا رخ دروازے کے مخالف سمت تھا۔جلدی ہی عبیرہ کو کسی کے اندر داخل ہونے کا احساس ہوا تو اس نے چہرہ جھکائے اپنا حجاب جلدی ٹھوڑی سے اوپر کر کے نقاب کیا۔
“ک۔۔۔ کو۔۔ کون ہو۔۔۔۔ تت۔۔ تم“ اس نے چہرہ اٹھائے سامنے نظریں جمائے لڑکھڑاتے لہجے میں پوچھا جس پر مقابل کا قہقہہ برآمد ہوا۔
“دیکھ لوں کون ہوں میں۔۔۔ ارے یار۔۔۔ چچچچچ۔۔۔ تم تو اندھی ہوں۔۔ تم کیسے دیکھو گئی“ زوہیب نے خوشگوار حیرت سے عبیرہ کو دیکھ کر کہا جس پر عبیرہ کی آنکھ سے آنسو ٹوٹ کر گرا تھا۔
“چلو اب یہ پردہ کس سے کر رہی ہوں۔۔۔ دیکھو کمرے میں صرف میں اکیلا ہوں۔۔ مجھے اپنا حسین چہرہ نہیں دیکھاؤ گئی“ زوہیب نے رازداری سے کہا جس پر عبیرہ کا شدت سے دل چاہا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔ اس نے اپنے ہاتھ سے اپنے دوپٹے کو مضبوطی سے پکڑا تھا۔
“اَللّٰھُمَّ لَا سَھْلَ اِلَّا مَا جَعَلْتَہٗ سَھْلًا وَّاَنْتَ تَجْعَلُ الْحَزَنَ اِذَا شِئْتَ سَھْلًا“
(اے اللہ! کوئی کام آسان نہیں ہے مگر وہی جسے تو آسان کردے اور تو مشکل کام جب چاہے، آسان کردیتا ہے۔)
Reference:
[موارد الظمآن :72/8، حدیث:2427، وصحیح ابن حبان :161,160/2، حدیث:970، وعمل الیوم واللیلۃ لابن السنی، حدیث:351]
عبیرہ نے آنکھیں بند کیے زیرِ لب دعا پڑھنی شروع کر دی۔ یہ دعا اس کے بابا نے اسے سیکھائی تھی کہ جب کوئی مشکل پیش آئے تو یہ دعا پڑھنا۔
عبیرہ نے شدت سے دعا کا ورد کرنا شروع کر دیا۔ زوہیب نے اس کہ بڑبڑاہٹ سن کر آگے بڑھ کر اس کا نقاب نوچنا چاہا۔ اپنے ارادے پر عمل کرتے اس نے اپنے قدم عبیرہ کی جانب بڑھائے۔
اچانک سے کسی نے ہڑبڑاتے ہوئے دروازا کھولا۔ آنے والے کو دیکھ زوہیب کے ماتھے پر بل پڑے جبکہ اس کا ہاتھ ہوا میں ہی رہ گیا۔
“دفعہ ہو جاؤ ابھی کے ابھی عدیل یہاں سے“ زوہیب نے سیدھے ہوتے ہوئے عدیل کو غصے سے کہا۔عبیرہ نے مضبوطی سے اپنے نقاب کو پکڑا ہوا تھا۔
“سوری سر لیکن۔۔۔ سر وہ اکرام صاحب کی کار کا ائیرپورٹ سے واپسی پر ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے“ عدیل نے پریشانی سے زوہیب کو بتایا۔ ابھی تھوڑی پہلے اسے پتہ چلا تھا۔ زوہیب عبیرہ کو چھوڑ باہر کی طرف بھاگا جس پر عدیل بھی اس کے پیچھے بھگا۔ان کے جانے کے کچھ دیر بعد کمرے میں حائقہ اور یوسف داخل ہوئے۔
“عبیرہ“ حائقہ نے تڑپ کر عبیرہ کو آگے بڑھ کر گلے لگایا تھا۔ یوسف وہاں دروازے کے پاس کھڑا رہا۔
“جلدی چلو عبیرہ۔۔۔ چلو اٹھو“ حائقہ نے جلد ہی اپنے آنسوں صاف کرتے ہوئے اسے اٹھایا اور پھر وہ تینوں جلدی سے باہر نکلے اور اپنی منزل کی طرف چلے گئے۔
””””””””””””””””””””””””””””””’”””””’
“ارشیہ تم ٹھیک ہوں نہ“ ولی نے کہی بار پوچھا سوال ایک بار پھر پوچھا۔ ارشیہ کو یہاں آئے کافی دیر ہو گئی تھی۔ وہ جب سے آئی تھی یونہی گم سم سی بیٹھی تھی۔
“ولی مجھے سمیر نے کیڈنیپ کیا تھا “ ارشیہ نے اس کے سوال کا جواب دیے بنا کھوئے کھوئے سے لہجے میں کہا۔
“اس نے ایسا کیوں کیا“ ولی نے ارشیہ کے سامنے کرسی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
“اسے لگتا ہے کہ میری وجہ سے اس کا بھائی مرا ہے۔۔ تمہیں یاد ہے رحمان احمد۔۔۔ جس کا میں نے تمہیں بتایا تھا“ ارشیہ نے ولی کے چہرے پر نظریں جمائے جواب دیا۔
“ہاں جس نے تمہیں پرپوز کیا تھا تو تم نے تھپڑ مارا تھا اسے“ ولی کہہ کر ہلکا سا مسکرایا لیکن ارشیہ نے بغیر مسکرائے ہاں میں سر ہلایا۔
“اس نے اگلے دن ہی خودکشی کر لی تھی۔۔ سمیر کو لگتا ہے کہ میری وجہ سے اس نے خودکشی کی۔۔ لیکن وہ تو زیاد نے اسے مارا تھا۔۔۔ اور کور اپ کے لیے اس کو پنکھے سے لٹکا دیا تھا “ ارشیہ نے ولی کے چہرے پر نظریں جمائے کہا تھا جبکہ ولی کا چہرا سفید ہوا تھا۔
””””””””””””””””””””””””””””””””””’”
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...