نادیہ کو معلوم ہو گیا تھا کہ ظہیر شاہ حویلی چھوڑ کر چلا گیا ہے۔اسے احساس تو تھا کہ اب اس کی اپنے شوہر کے ساتھ وابستگی تو نہیں رہے گی جو ہونی چاہیے۔کیونکہ اس تعلق کی توہین خود اس کے شوہر نے کی تھی۔وہ تو سپردگی کے لیے تیار تھی۔اس نے اپنی ہار کو ذہنی طورپر تسلیم کر کے اپنا وجود حالات کے دوش پر چھوڑ دیا تھا۔تعلق میں کوئی خوبصورت اور مضبوطی لانے سے پہلے ہی اس میں ضد اور انا کا زہر گھول دیا گیا تھا۔مگر اسے کوئی افسوس نہیں تھا۔یہ اسے پوری طرح احساس تھا کہ اس کے ظہیر کے درمیان ایسا ہی اجنبیت والا تعلق ہی ہو گا۔ہاں یہ اس کے شعور میں نہیں تھا کہ وہ تعلق کے بندھن میں باندھ کر یوں اجنبی بن جائے گا۔وہ تو چاہتی تھی کہ ظہیر شاہ یہاں رہے۔وہ یہاں رہتا تو ہی معاملات میں ہلچل رہتی۔اب تو جمود طاری ہو چکا تھا۔اس کی زندگی میں اور حالات کے بہاؤ میں۔اسے اپنا آپ بہت عجیب سا لگ رہا تھا کہ چلا تو گیا ہے ظہیر شاہ۔لیکن پوچھا اس سے جا رہا ہے کہ وہ کیوں چلا گیا؟ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ خود پر ان حالات میں ترس کھائے ،بے حس ہو جائے یا پھر اپنی مظلومیت کا احساس دلائے۔اسے واویلا کرنا چاہیے یا پھر خاموش ہو جانا چاہئے۔وہ ظہیر شاہ کے کمرے میں بیڈ پر بیٹھی مسلسل یہی سوچے چلی جا رہی تھی کہدادی اماں اس کے کمرے میں داخل ہوئی ۔وہ سمٹ کر بیٹھ گئی۔اماں بی چلتی ہوئی اس کے پاس آ بیٹھی۔چند لمحے ان کے درمیان خاموشی رہی جیسے نادیہ ہی نے تلخ لہجے میں توڑا۔
’’آپ شاید پھر یہ پوچھنے آئی ہیں کہ ظہیر شاہ کیوں چلا گیا؟‘‘
’’نہیں،میں سمجھتی ہوں کہ وہ کیوں چلا گیا۔اسے آج نہیں تو کل چلے ہی جانا تھا۔لیکن اتنی جلدی چلے جائے گا۔یہ امید نہیں تھی۔‘‘اماں بی نے نجانے کس جذبے کے تحت خود کلامی کے سے انداز میں کہا۔
’’یہ آپ کیسے کہہ سکتی ہیں؟۔۔‘‘نادیہ نے سوچتے ہوئے پوچھا تودادی اماں نے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔
’’یہ اس لیے نادیہ کہ وہ اب حویلی کی چھوٹی سی دنیا تک محدودنہیں رہا۔وہ ایک ایسی دنیا میں جا چکا ہے جہاں سے یہ حویلی بہت چھوٹی محسوس ہوتی ہے۔اس نے یہاں کبھی رہنا ہی نہیں تھا۔کیا صرف تمہی اس حویلی میں گھٹن محسوس کرتی ہو؟وہ بھی یہاں کچھ ایسا ہی احساس رکھتا تھا۔اسے کوئی بہانہ چاہئے تھا ،وہ اسے مل گیا۔اب وہ تما م تر قصور تمہی میں نکالیں گے۔‘‘
’’ یہ تو ہمارے اس معاشرے میں عورت کا مقدر ہے کہ تمام تر الزامات اسی پر لگتے ہیں ۔مرد صاف بچ جاتاہے۔لیکن شاید مرد کو یہ نہیں معلوم ،گھٹن جب حد سے بڑھ جاتی ہے تو پھر سانس لینا مشکل ہو تاہے۔ عورت کا سانس رک گیا تو مرد کی دنیا ویران ہو جائے گی۔‘‘
’’ یہ بات اگر مرد کی سمجھ میں آ جائے تو گھٹن ہی نہ ہو۔ہمارے اردگر د ساری خوبصورتی عورت کی وجہ سے ہے۔اگر عورت کی سوچ میں زہر بھر دیا گیا تو سارے منظر زہر آلود ہو سکتے ہیں۔یہی بات میں تمہیں سمجھانا چاہ رہی ہوں بیٹی۔! باہر کے منظر ،حالات اور وقت جیسا بھی آجائے۔تم اپنی سوچوں کو زہر آلود مت ہونے دینا،یوں تمہاری زندگی سہل ہو جائے گی۔‘‘ دادی اماں نے بہت پیار سے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تو خیالوں میں کھوئے ہوئے بولی۔
’’میں جانتی ہوں دادی اماں۔!میں نے اختر رومانوی سے بہت کچھ سیکھاہے۔۔اس کا کہنا تھا کہ انسانی ذہن میں پڑی ہوئی سوچ ہی اس کی زندگی کی راہیں متعین کرتی ہے۔سوچ اگر منفی ہے تو انگلی کی پور تک اعمال منفی ہو جاتے ہیں۔اور مثبت ہوں تو پھر دنیا کے سارے منظروں میں خوبصورت رنگ بھرے جا سکتے ہیں۔تبھی عورت کے بارے میں کہا جاتاہے ۔کہ اس کے وجود سے تصویر کائنات میں رنگ ہیں۔‘‘
’’تم اختر رومانوی کیوں کہتی ہو۔۔۔تم شعیب بھی تو کہہ سکتی ہو۔۔؟‘‘ دادی اماں نے نجانے کس سوچ کے تحت اس سے پوچھا
’’میری زندگی میں اختر رومانوی آیا تھا۔جس نے نہ صرف میری سوچ پر بلکہ میری زندگی پر بھر پور اثرات ڈالے ہیں۔اس کے دیئے ہوئے خیال اور سوچیں ہی نے میری زندگی کی راہیں متعین کردی ہیں۔میں شاید زندگی کو اس نگاہ سے نہ دیکھ سکتی ،جیسا مجھے دیکھنا چاہئے تھا۔میرے اندر بغاوت آگ بن کر مجھے جلا دیتی،لیکن بغاوت کی اسی آگ کو اس نے میری قوت بنا دیا ہے۔میں اب سمجھ سکتی ہوں کہ زندگی کا سامنا کیسے کرنا ہے۔جبکہ شعیب۔۔۔وہ میرے لیے کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتا۔۔وہ صرف ایک ماں کا اکلوتا بیٹا ہے۔جس کے سارے خواب اس کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ممکن ہے وہ میرے لیے لڑتا۔۔لیکن جہاں اختر رومانوی آباد ہے۔وہاں شعیب بسیرا نہیں کر سکتا۔۔۔‘‘
’’کیا تم شعیب سے نفرت کرتی ہو۔۔۔؟‘‘اماں بی نے مزید کرید کی۔
’’نہ نفرت نہ محبت۔!وہ میرے لیے محض ایک اجنبی ہے۔‘‘اس نے صاف گوئی سے کہا۔
’’مگر اب تو وہ ہمارے خاندان کا حصہ بن گیا ہے۔وہ اس حویلی کا داماد ہے۔اس سے ناطہ جڑ گیا ہے تو تعلق بھی رکھنا پڑے گا۔ اب کیسے۔۔‘‘وہ کہنا چاہتی تھی کہ نادیہ نے اس کی بات قطع کر تے ہوئے کہا۔
’’وہ اس حویلی کا نہیں،پیر سائیں کا داماد بنا ہے۔۔میرا اس سے کیا تعلق ۔۔اور مجھے ضرورت بھی نہیں ہے اس سے تعلق رکھنے کی۔۔میں نے کہا نا،وہ ایک ماں کا بیٹا ہے۔جس کے سارے خواب اس سے جڑے ہوئے ہیں۔اگر وہ میرے ساتھ تعلق رکھنا چاہتا ،اس کی چاہت میں ہوتی تو وہ احتجاج کرتا۔۔انکار کر دیتا۔۔۔وہ میرے لیے لڑتا۔۔اس نے تو خاموشی سے میری بات مان لی۔جیسے کہ وہ اسی کے انتظار میں ہو۔اس نے ان سارے تعلقات کو ماں کے رشتے سے دیکھا۔کہاں وہ پیر سائیں کے ساتھ اپنی مخالفت رکھتا تھا اور کہاں میرے ذرا سے کہنے پر اس کا داماد بن گیا۔نہیں دادی اماں۔!میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اور میں اس کی کسی خواہش کی پابند نہیں ہوں۔‘‘
’’لیکن ظہیر شاہ کے ساتھ بھی تیرا کوئی تعلق نہیں بن سکا ۔وہ تجھے توہین آمیز سلوک کے ساتھ ٹھکرا کر چلا گیا۔کیا تمہارا اس کے ساتھ تعلق بن پائے گا۔۔‘‘اماں بی نے ایک دوسرے پہلو سے اسے کریدا۔
’’میرا نام اب ظہیر شا ہ کے ساتھ جڑ گیا ہے۔۔وہ جیسابھی ہے۔اب میرے سر اک سائیں ہے۔وہ مجھے جیسے رکھے،وہ مجھے قبول ہے۔توہین کرے یا عزت دے۔۔‘‘نادیہ نے اعتماد بھرے لہجے میں کہا تودادی اماں خاموش ہو گئیں ۔اس کادل چاہ رہا تھا کہ اپنی پوتی کی حالت زار پر رو دے لیکن وہ نادیہ کو کمزور نہیں دیکھنا چاہ رہی تھی ۔اس کے اندر جو اس وقت جینے کا حوصلہ تھا وہ اسے قائم و دائم رکھنا چاہتی تھی۔اس لیے لرزتے ہوئے لہجے میں بولی۔
’’تو بتا۔!میری بیٹی، اب تو کیسے رہنا چاہتی ہے۔اب مجھے دلاور شاہ سے لڑنا بھی پڑا تو میں لڑوں گی‘‘
’’جیسے پہلے رہ رہی ہوں ویسے ہی رہوں گی۔۔آپ میرے لیے کیوں پیر سائیں سے لڑیں گی۔۔؟‘‘ نادیہ نے حیرت سے کہا۔
’’ظہیر شاہ کے بارے میں تم جو بھی چاہتی ہو۔مجھے بتاؤ ۔۔اب میں منواؤں گی۔۔‘‘دادی اماں نے پورے خلوص سے کہا۔
’’نہیں۔!میں کچھ نہیں چاہتی۔اب فیصلہ میں نے اپنی قسمت پر چھوڑ دیا ہے، جو ہونا ہے سو ہو۔۔میں اب اپنی قسمت کا سامنا کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہوں۔۔‘‘نادیہ نے دکھی لہجے میں آہستگی سے مسکراتے ہوئے کہا تودادی اماں خاموش ہو گئیں۔کافی وقت یونہی گذ ر گیا تو نادیہ اٹھی اور اس نے اپنا عروسی جوڑا اٹھایا۔اسے تہہ لگا کر ایک ڈبے میں بند کر دیا ۔ سارے زیوات بھی اٹھا کر انہیں ان کے ڈبوں میں رکھا۔اس کے علاوہ یہاں اس کمرے میں اس کا کچھ نہیں تھا۔اس نے وہ عروسی جوڑا اور زیوارتدادی اماں کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔’’یہ پیرسائیں کے گھر کی امانت ہیں،آپ انہیں دے دیجے گا۔۔میں اب اپنے کمرے میں جاتی ہوں۔‘
اس کے یوں کہنے پدادی اماں ایک بار پوری جان سے لرز گئی ،پھر گھٹی گھٹی آواز میں بولی۔ ’’یہ ٹھیک ہے کہ تم اس حویلی ہی میں رہو گی۔ایک ہی چھت کے نیچے۔۔مگر یہاں رہوں گی۔۔تو انہیں یہ احساس تو ہو گا نا کہ ان کی بہو ان کے ساتھ ہے۔‘‘
’’ظہیر شاہ نے میرے ساتھ نکاح تو کیا،لیکن ایک بیوی کا مان مجھے نہ دے سکا۔میں اب کس ناطے انہیں اپنا سسرال تسلیم کر لوں۔۔میں اکیلی تھی۔۔۔اکیلی ہوں۔۔اور اکیلی رہوں گی۔۔۔میں انتظار کروں گی کہ ظہیر شاہ کب واپس لوٹتا ہے۔۔پھر دیکھوں گی ،میرا فیصلہ کیا ہو گا۔۔‘‘نادیہ نے کہا اور اٹھ گئی۔وہ چند لمحے اس کمرے میں کھڑی گہرے گہرے سانس لیتی رہی۔پھر باہر کی جانب چل دی۔دادی اماں اسے غور سے دیکھتی رہی اسے رو ک نہیں سکی۔
اپنے کمرے میں آتے ہی اسے سکون کا احساس ہوا۔تاجاں مائی نے کمرے کو یوں صاف کر کے چمکا دیا ہوا تھا کہ جیسے نادیہ ابھی اٹھ کر وہاں سے گئی ہو۔وہ اپنے کمرے میں چند لمحے سکون سے کھڑی رہی پھر اس کھڑکی سے آلگی جہاں سے دور تک کا منظر صاف دکھائی دے رہا تھا۔اس منظر میں کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا تھا،ویسے ہی رنگ تھے اور ویسے ہی نقش۔ وہ چند لمحوں تک اسی منظر میں کھوئی کسی تبدیلی کا سراغ لگاتی رہی لیکن اسے ایسا کچھ بھی دکھائی نہیں دیا۔شاید وہ مزید کچھ دیر کھڑی رہتی تا ہم تاجاں کے کمرے میں آ جانے سے وہ کھڑی سے پلٹ کر صوفے پر آن بیٹھی۔
’’بی بی سئین۔آ پ نے صبح سے کچھ نہیں کھایا۔۔میں ناشتہ لاؤں آ پ کے لیے۔۔‘‘
’’ہاں۔!میں آج بھر پور ناشتہ کروں گی۔لیکن میں پہلے نہا لوں۔۔‘‘
ئی۔۔’’ نادیہ نے زندگی سے بھر پور لہجے میں کہا اوراٹھ
تاجاں مائی۔!آج سے تم صرف میرے ساتھ رہوگی۔اور میری معاملات دیکھوں گی۔۔حویلی سے تمہیں اب کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے۔‘‘
تاجان کمرے سے پلٹنے لگی تو اس نے حکم صادر کر دیا
’’جی بی بی سئین۔‘
‘تاجاں مائی نے آہستگی سے کہا اور باہر چلی گئی ۔نادیہ نے ایک طویل سانس لی اور زندگی کے
اک نئے دور کا آغاز کر دیا۔
***
دوپہر ڈھل گئی تھی اور دن تھا کہ تیزی سے گذر تاچلا جا رہا تھا۔فرح کی بے چینی حد سے زیادہ بڑھنے لگی تھی ۔وہ دن کا پہلا پہر تو سوئی رہی تھی جب بیدار ہوئی تو گھر میں سکوت تھا۔وہی سکوت جو حویلی میں ہوا کرتا تھا۔وہ کمرے میں تنہا تھی۔اس کی زندگی کی پہلی صبح یوں کسی ایسے کمرے میں ہوئی تھی جو حویلی میں نہیں تھا۔ایک لمحے کے لیے تو اس کا دل دھک سے رہ گیا۔پھر گذرتے لمحوں میں اس نے خود کو یقین دلایا کہ وہ اب شادی شدہ ہے اور اپنے میاں کے کمرے میں ہے۔لیکن وہ کہاں ہے؟ اسی سوال نے اسے بیڈ پر سے اٹھایا ۔ وہ کمرے سے باہر آئی۔وہاں بھی وہی حویلی والا سناٹا تھا۔وہ ڈرائینگ روم میں آئی تو وہاں زبیدہ پھوپھو سکون سے بیٹھی تسبیح کر رہی تھی۔وہ ظہر کی نماز کے بعد وہیں قریب ہی صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔جیسے ہی س کی نگاہ فرح پر پڑی تو بولی۔
’آؤ بیٹا۔!لگتا ہے خوب سوئی ہو۔‘‘
’’جی،بڑی بھرپور نیند آئی ہے۔‘‘اس نے حیار بار نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’اچھا،تم فریش ہو کر آؤ۔ میں تمہارے لیے ناشتہ بنواتی ہوں۔‘‘زبیدہ نے کہا۔
’’وہ شعیب کہاں ہیں۔؟انہوں نے۔۔فرح نے شرمندہ لہجے میں ہچکچاتے ہوئے کہا۔
’’وہ تو آفس گیا ہے۔۔ابھی کچھ دیر میں آ جائے گا۔۔‘‘زبیدہ نے اسے بتایا تو وہ چونک گئی۔
’’پھوپھو۔!مجھے جگا دیتے۔۔انہیں تیار ہونے میں۔۔‘‘وہ پھر کہتے کہتے رک گئی تو زبیدہ نے سمجھایا۔
’’کوئی بات نہیں ۔۔تم ایسے کرو۔۔فریش ہو جاؤ،ناشتہ کرو اور اس کے آنے سے پہلے پہلے تیار ہو جاؤ۔ہو سکتا ہے حویلی سے بھی تمہیں لینے کے لیے کوئی آجائے۔۔‘‘
’’جی بہتر۔۔‘‘اس نے مزید کوئی بات نہیں کی ،فوراً ہی مان گئی۔پھر وہ تیار ہو کر بھی بیٹھ گئی اور سہ پہر کا وقت ہو گیا۔نہ تو شعیب آیا اور نہ ہی کوئی حویلی سے ان کے ہاں اسے لینے کے لیے آیا۔وہ اپنے کمرے میں بیٹھی یونہی اوٹ پٹانگ سوچوں میں الجھی ہوئی تھی ۔تبھی اسے لگا جیسے باہر گاڑی رکی ہے اور شعیب آگیا ہے۔وہ جلدی سے اٹھی اور ڈرائنگ روم میں گئی۔وہ آ چکا تھا اورصوفے پر پھیل کر بیٹھا ہوا تھا۔اسے دیکھتے ہی بولا۔
’’سوری مجھے دیر ہو گئی ۔۔آج یکدم ہی کئی کام نکل آئے تھے۔۔امی کہاں ہیں؟‘‘
’’وہ۔۔۔اپنے کمرے میں ہیں۔۔بلاؤں انہیں۔‘‘وہ جھجکتے ہوئے بولی۔
’’نہیں،وہ خود ہی یہاں آ جائیں گی،اگر نہیں آنا ہوا تو۔۔۔‘‘اس نے کہا تو ملازم پانی کا گلاس کے کر آ گیا۔تبھی فرح کو خیال آیا یہ کام تو اسے خود کرنے چاہیں تھے۔اس لیے بولی۔
’’آپ کھانا کھائیں گے۔۔مطلب،اتنی دیر ہو گئی۔۔‘‘
’’میں نے کھانا کھا لیا ہوا ہے،بس ایک کپ چائے پیوں گا۔لیکن پہلے میں ذرا چینج کر لوں۔۔‘‘شعیب نے اٹھتے ہوئے کہا۔تو وہ بھی اٹھ گئی۔تب شعیب نے پوچھا’’تم کہاں جا رہی ہو؟‘‘
’’میں آپ کے لیے چائے بنا لاؤں۔‘‘
’’نہیں۔ وہ ملازم بنا لائے گا۔تم جاؤکمرے میں ۔۔میں ذرا امی سے مل کر آتا ہوں۔‘‘
’’جی ٹھیک ہے ‘‘اس نے دھیمے سے کہا اور کمرے کی جانب چل دی۔
کچھ دیر بعد وہ دونوں زبیدہ کے کمرے میں اس کے پاس بیٹھے چائے پی رہے تھے۔
’’آج آفس میں کوئی ضروری کام تھا۔‘‘زبیدہ نے عام سے لہجے میں پوچھا۔
’’جی ہاں۔!بہت ضروری تھے۔ورنہ شاید میں نہ جاتا۔۔انہیں ہی نمٹاتے ہوئے اتنی دیر ہوگئی۔دراصل مجھے کہیں انکوائری پر جانا تھا۔پہلے سے طے تھا،میرے نہ ہونے سے بہت سارے لوگ ڈسٹرب ہوتے‘‘
’’چلو،وہ تو ہو گیا۔اب تم تیار ہو جاؤ،تمہیں حویلی جانا ہو گا فرح کے ساتھ۔‘‘زبیدہ نے نرم لہجے میں کہا۔
’’کیا وہاں سے فرح کو لینے کو ئی نہیں آیا۔‘‘شعیب نے پوچھا۔
’’نہیں،پتہ نہیں کیا بات ہے۔‘‘زبیدہ نے تشویش سے کہا۔
’’کوئی فون۔۔؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’نہیں ۔‘‘فرح نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے دھیمے سے کہا۔
’’وہ لوگ جنہیں اپنی بیٹی کا اتنا بھی احساس نہیں،وہاں ہمیں کیا کرنے جانا ہے۔۔وہ جب آئیں گے تو لے جائیں گے۔اگر انہیں فرصت نہیں تو یہاں کون فارغ بیٹھا ہوا ہے۔‘‘اس نے کافی حد تک تلخی سے کہا۔
’’ہوسکتا ہے بیٹا،ان کے پاس کوئی ایسا معاملہ ہو گیا ہو جس کی وجہ سے۔۔۔۔‘‘زبیدہ نے کہنا چاہا تو وہ پھر تلخی ہی سے بولا۔
’’نہیں امی،دل نہیں مانتا۔ایسا ہی کوئی گھمبیر مسئلہ ہوتا تو اب تک ہمیں ضرور اطلاع مل چکی ہوتی۔اور اگر آپ کو حویلی والوں سے ہمدردی ہے تو آپ فون کر لیتں۔یہ فرح فون کر لیتی۔۔‘‘
’’اب تم اپنی ضد نہ کوئی بنا لینا۔جب ان سے رشتہ بنا لیا ہے تو پھر اس رشتے کو نبھانا تو ہے۔‘‘زبیدہ نے ایک کمزور سی دلیل کا سہارا لیا۔
’’امی۔!یہ رشتہ صرف ہم ہی نے نبھانا ہے ۔۔صاف بات ہے ۔وہ آئیں اور فرح کو لے جائیں ۔بات ختم۔اس میں اتنی الجھن والی بات کیا ہے۔‘‘ اس نے خالی کپ میز پر رکھتے ہوئے کہا۔
’’بات تمہاری ٹھیک ہے،لیکن یہ حالات،انہیں بھی تودیکھنا ہے۔‘‘ز بیدہ نے پھر ایک نئی مگر کمزور دلیل دی۔
’’امی۔!آپ حویلی والوں کی بے جا وکالت کر رہی ہیں۔میں آج آپ کو صاف بات بتا دوں ۔ جن حالات میں میری شادی ہوئی ۔وہ ایک شرط کا شاخسانہ ہے۔میں نے قبول کی۔لیکن اب اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں حویلی والوں کا دست نگر ہو کر اپنی انا گنوا دوں۔آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے بیٹے نے ہر طرح کی مزدوری تو کی ہے لیکن کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔یہی انا میرا سرمایہ ہے۔اور میں اسے کسی قیمت پر گنوانا نہیں چاہتا۔‘‘اس نے صاف گوئی سے کہہ دیا تو فرح چونک کر اس کی طرف دیکھا ۔وہ کچھ کہنا چاہتی تھی کہ زبیدہ بول پڑی۔
’’اس میں انا کہاں سے آ گئی؟‘‘ زبیدہ نے پھر بات کو بڑھانا چاہا۔
’’دیکھیں امی۔!آپ اچھی طرح جانتی ہیں کہ آپ کے بھائی دلاور شاہ نے کہا ہے کہ آپ یہ جو کچھ بھی کر رہی ہیں،جائیداد میں حصہ لینے کے خاطر کر رہی ہیں۔آپ کا اور آپ کے بھائی کا معاملہ کیا ہے اور کیا ہو گا۔مجھے اس سے کوئی سروکارنہیں ہے۔میں نہیں چاہتا کہ کوئی مجھ پر یہ انگلی اٹھائے کہ میں بھی حویلی سے کچھ حاصل کرنے کی غرض سے ان کے ساتھ ناطہ جوڑے ہوئے ہوں۔آج میں آپ پر واضح کر دوں کہ میں کبھی بھی حویلی نہیں جاؤں گا۔ آپ نے اپنا تعلق رکھنا ہے ۔آپ جائیں،میں آپ کو کبھی نہیں روکوں گا۔یہ میر احتمی فیصلہ ہے۔‘‘شعیب نے کہا اور اٹھ گیا۔زبیدہ اسے بہت کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن ایک لفظ بھی نہیں کہہ پائی۔زبان جیسے گنگ ہو گئی تھی۔بس وہ اسے اجنبی نگاہوں سے دیکھتی رہ گئی۔اور وہ کمرے سے نکلتا چلا گیا۔وہ چونکی اس وقت جب فرح کی سسکی کمرے میں گونجی۔
’’یہ کیا ہو گیا پھوپھو۔!‘‘ وہ روہانسا ہوتے ہوئے بھیگے لہجے میں بولی تو زبیدہ جیسے ہوش میں آ گئی۔
’’تو بھی اچھی طرح جانتی ہے فرح۔حویلی والوں کو اس کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرنا چاہیے تھا۔اگر اس اک ہی خیال تو کم از کم تیرے بارے میں سوچ لیتے۔تم ان کی بیٹی ،تمہیں لینے کے لیے اب تک کسی کو آ جانا چاہئے تھا۔کیوں نہیں آیا کوئی۔؟‘‘
’’آنا تو چاہیے تھا،مگر پتہ نہیں کیوں۔‘‘وہ حیرت اور مایوسی کے ملے جلے لہجے میں بولی۔
’’ویسے تمہیں ہی فون کر لینا چاہئے تھا۔‘‘زبیدہ نے تاسف سے کہا۔
’’اب کیا ہو سکتا ہے۔؟‘‘فرح نے پوچھا۔اس کے چہرے پر زردی چھا گئی تھی۔تبھی زبیدہ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’دیکھومیری بیٹی۔!شعیب جتنا نرم ہے اتنا سخت بھی ہے۔نرمی پر آئے تو بہت کچھ برداشت کر جاتا ہے۔جیسے کہ میرے بارے میں اس نے سنا اور ایک لفظ کہے بغیر سب کچھ برداشت کر گیا۔ایک ذرا بھی ماتھے پر شکن نہیں ڈالی۔اس کے رویے میں بھی تبدیلی نہیں آئی۔ مطلب اس نے میرے ماضی کو کھلے دل سے تسلیم کر لیا۔لیکن اب اگر اس نے حویلی والوں کے بارے میں ،ان کے رویے پر اپنا خیال بتایا ہے تو اب وہ اسی پر قائم رہے گا۔۔میں اس کی ماں ہوں۔اس کی رگ رگ سے واقف ہوں۔اس لیے تم اسے ایسی بات پر کچھ مت کہنا کیونکہ وہ مزید سخت ہوتا چلا جائے گا۔ممکن ہے وقت کے ساتھ اس میں نرمی آ جائے۔‘‘
’’جی پھوپھو ۔!میں سمجھ گئی ،لیکن حویلی ،فون کریں نا آپ۔۔‘‘
’’اب فون کیا کرنا ،ہم دونوں ہی چلتی ہیں۔شام تک لوٹ آئیں گی۔۔میں خود جا کر معلوم کروں گی کہ بات کیا ہے۔تم تیار ہو جاؤ۔‘‘
’’مگر وہ ان کی اجازت ۔۔۔‘فرح نے لرزتے ہوئے یوں پوچھا جیسے کہ وہ کسی شکنجے میں آچکی ہو۔اسے کون سا ان باتوں کا تجربہ تھا۔یا پھر احساس ۔۔جس کے تحت اسے اپنی ہی کسی سوچ کا سہار ا مل جاتا۔
’’تم جاؤ،اسے بتا دو۔پھر جو کہے اس پر بحث مت کرنا۔۔‘‘زبیدہ نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا تو فرح اٹھ گئی۔وہ اندر سے بری طرح کانپ رہی تھی۔شعیب کا رویہ جہاں اسے دہلائے دے رہا تھا ۔وہاں حویلی والوں کا اسے نظر انداز کر دینا بھی خوف زدہ کر رہا تھا۔یہی سوچ اس کے حواسوں پر چھا گئی تھی کہ وہ کہیں اکیلی تو نہیں ہو گئی ۔حویلی کے شجر سے گرا ہوا پھول جیسے زندگی کی شاہراہ پر پھینک دیا گیا ہو۔اس کی ذات ایک ایسی کشتی کی مانند ہو گئی ہو جیسے نا خدا کے بغیر سمندر میں دھکیل دیا گیا ہو۔وہ دبے قدموں جا کر اس کے قریب بیٹھ گئی۔اس کی آمد کا احساس کر کے شعیب نے اس کی طرف دیکھا اور اٹھ بیٹھا۔وہ چند لمحے اس کی طرف دیکھتی رہی اور پھر بولی۔
’’اگر آپ کی اجازت ہو تو میں۔۔میں ۔۔۔اور پھوپھو ۔حویلی۔۔ہو آئیں۔‘‘
’’بالکل۔!تم جب چاہے اور جس وقت چاہے جا سکتی ہو۔میری طرف سے تمہیں اجازت ہے ۔وہاں جانے کے لیئے مجھ سے پوچھنے کی بھی ضرورت نہیں ۔‘‘اس نے خوشدلی سے کہا۔
’’آپ کہیں ناراض تو نہیں ؟‘‘ اس نے لرزتے ہوئے کہا۔
’’میں تم سے کیوں ناراض ہونے لگا۔۔دیکھ فرح ۔!عزت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہوتی۔ جنہیں ہم اپنا کہتے ہیں تو انہیں فقط لفظوں میں اپنا نہیں کہنا چاہئے۔بلکہ اپنے عمل سے ثابت کرنا چاہیے ۔اب حویلی والوں کا رویہ تمہارے سامنے ہے۔خود بتاؤ ،مجھے کیا کرنا چاہیے؟‘‘
’’آپ کا فیصلہ ٹھیک ہے۔اگر آپ کہیں کہ میں نہ جاؤں تو نہیں جاتی۔۔‘‘اس نے کافی حد تک اعتماد پکڑتے ہوئے کہا۔
’’فرح تم کبھی بھی خود کو ڈانواں ڈول محسوس نہیں کرنا۔۔کبھی بھی یہ مت سمجھنا کہ اگر حویلی والوں نے تمہیں نظر انداز کر دیا ہے تو میں تمہیں اکیلا چھوڑ دوں گا۔دیکھو،تم میری عزت ہو ،میں ہی تمہیں مان نہیں دوں گا تو پھر کون دے گا؟ رات میں نے یونہی لفاظی نہیں کی ،جو کہا اس پر کاربند رہوں گا۔‘‘شعیب نے کہا تو فرح کے آنسو نکل آئے۔وہ جذبات میں مغلوب لہجے میں بولی۔
’’میرا مان تو آپ ہی ہیں۔۔‘‘
’’ڈونٹ وری۔۔تم جاؤ امی کے ساتھ۔۔‘‘ اس نے پیار سے کہا تو وہ اٹھ کر تیار ہونے لگی۔وہ بہت حدتک سبنھل گئی تھی۔اسے شعیب کا رویہ بہت اچھا لگا۔یوں جیسے تپتی دوپہر میں کوئی سائبان میسر آ گیا ہو۔ اسے زندگی کا رخ ہی کچھ اور طرح کا لگا جیسے دھوپ چھاؤں میں زندگی کا حسن اس پر عیاں ہو نے لگا ہو۔نادیہ کی وہ باتیں جو کبھی اسے اوٹ پٹانگ سی لگتی تھیں۔کچھ کچھ اس کی سمجھ آنے لگی تھی۔وہ جو دنیا کے متضاد وریے کی بات کیا کرتی تھی۔تب اسے معلوم ہی نہیں تھا رویہ کیا ہوتا ہے اور پھر اس پر متضاد رویہ۔اب اسے احساس ہو گیا تھا۔
شام ڈھلنے سے پہلے فرح اپنی پھوپھو زبیدہ کے ساتھ حویلی پہنچ گئی۔شعیب کا ڈرائیور انہیں پورچ تک لے آیا تو انہوں نے وہیں سے اسے واپس بھجوا دیا۔حویلی میں داخل ہوتے ہی انہیں حویلی کا سناٹا کہیں گہرا لگا۔وہ دونوں چلتی ہوئیدادی اماں کے کمرے میں گئیں۔وہ افسردہ سی اپنے بیڈ پر بیٹھی ہوئی نجانے کن سوچوں میں کھوئی ہوئیں تھیں۔انہیں دیکھ کر یکبارگی وہ کھل اٹھی۔پھر اٹھ کر انہیں گلے لگا یا تو آنسو روک ہی نہ سکی۔
’’اماں بی کیا ہوا۔بتائیں تو ۔۔خیریت تو ہے ۔۔‘‘زبیدہ نے چونکتے ہوئے کہا تو فرح بھی اپنے تئیں دہل گئی۔
’’بیٹھو۔!‘‘اماں بی نے انہیں اشارہ کرتے ہوئے کہا۔پھر ملازمہ کو بلانے کے لیئے گھنٹی دے دی۔
’’اماں بی ،سب ٹھیک ٹھا ک تو ہے نا۔۔امی کہاں ہیں۔۔؟‘‘ فرح نے پوچھا تودادی اماں نے کھوئے لہجے میں کہا
’’پتہ نہیں ٹھیک ہے یا نہیں۔۔۔تمہاری امی کمرے ہی میں ہوں گی۔۔میں اسے یہیں بلوا لیتی ہوں۔‘‘
لفظ اس کے منہ ہی میں تھے کہ ملازمہ اندر آ گئی۔وہ فرح بی بی سے ملی ،زبیدہ سے حال احوال پوچھا اوردادی اماں کا حکم پا کر واپس الٹے قدموں چلی گئی۔
’’اماں کچھ تو ہے جو فرح کو لینے کوئی۔۔۔‘‘زبیدہ نے کہنا چاہا تودادی اماں نے کہا۔
’’ظہیر شاہ رات ہی کسی وقت حویلی سے چلا گیا۔پتہ چلا ہے کہ واپس لندن چلا گیا۔۔دلاور شاہ نے اسے روکنے کی بھی کوشش کی ۔لیکن وہ پاکستان سے پرواز کر گیا ہے۔ابھی کچھ دیرپہلے ڈرائیور واپس آ گیا ہے۔ساری تفصیل اسی نے بتائی ہے۔‘‘
’’اوہ۔!بے چاری نادیہ۔۔میں پہلے ہی کہتی تھی اسے۔۔۔اس حویلی سے اسے کبھی وفا نہیں ملے گی۔یتیم بچی ہے نا۔اس لیے اس کے ساتھ ایسا ہو رہا ہے۔ہر کوئی اس پر ظلم کرنا چاہتا ہے۔اور کرتا چلا جا رہا ہے۔ کہاں ہے وہ ؟‘‘ زبیدہ نے ایک دم سے تلخ ہوتے ہوئے کہا۔
’’اپنے کمرے میں ہی ہو گی۔‘‘اماں بی نے دھیرے سے کہا تو وہ چند لمحے سوچتی رہی پھر اٹھ گئی۔
’’میں معلوم تو کروں وہ بے چاری کس حال میں ہے۔بہت ظلم کیا ہے حویلی والوں نے اس کے ساتھ۔۔‘‘وہ بڑبڑاتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی۔جبکہ فرح نجانے کن سوچوں کے تحت لرز کر رہ گئی۔اسے لگ رہا تھا کہ جیسے صحرا بالکل اس کے قریب آ گیا ہے۔تپتی ہوئی لو اسے ابھی سے جھلسانے لگی ہے۔نادیہ کی زندگی اگر تلخ ہو گئی ہے تو پھر اس کی زندگی کو بھی زہر آلود ہونے سے کوئی نہیں بچا پائے گا۔یہ مکافات عمل ہو یا کیا ہو وہ کچھ نہیں کہہ سکتی تھی۔
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...