سردی آج معمول سے کم تھی چھٹی کے دن سب اپنے معمول کے کاموں میں مصروف تھے مریم کچن میں تھی جبکہ زائر لاؤنج میں ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ عمر اور صائم اپنے دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنے گئے تھے۔ بیل کی آواز پر زائر چونکا اور سرعت سے باہر نکل گیا۔ مریم نے کچن سے باہر جھانکا۔ کچن کی کھڑکی سے گیٹ صاف نظر آتا تھا۔ زائر کے مسکراتے چہرے کو اُس نے حیرت سے دیکھا وہ مسکراتے ہوئے کسی سے بات کر رہا تھا پھر وہ باہر نکل گیا اور تھوڑی دیر بعد وہ ایک لڑکی کے ہمراہ اندر آیا۔ مریم لڑکی کو دیکھ کر چونکی۔ بلیک پینٹ کے ساتھ بلیک ہی شارٹ شرٹ پہنے ، گلے میں ملٹی کلرز کا سکارف لٹکائے، اونچی ہیل پہنے وہ اتنی خوبصورت لگ رہی تھی کہ مریم سے اس پر سے نظریں ہٹانا مشکل ہو رہا تھا۔ وہ مسکراتے ہوئے زائر سے کچھ کہہ رہی تھی جواباً زائر نے قہقہہ لگایا۔ مریم کے اندر غصے کی ایک تیز لہر اٹھی تھی اُس نے ناگواری سے دونوں کو دیکھا اور باہر نکل آئی۔
“تمہیں گھر کا اڈریس کس نے دیا ؟؟ “۔ زائر نے حیرت سے پوچھا۔
“مرسلین نے ۔۔۔ وہ ایسے کام بہت اچھے طریقے سے کرتا ہے “۔ جواباً وہ شرارت سے بولی۔
زائر ہنس دیا لاؤنج میں آ کر وہ مریم کو آواز دینے ہی لگا تھا جب مریم آتے ہوئے دیکھائی دی۔
مریم نے ایک تیکھی نگاہ زائر کے مسکراتے چہرے پر ڈالی اور آہستگی سے سلام کیا۔
اس نے سوالیہ نظروں سے زائر کو دیکھا۔
“یہ ملیحہ ہے جرنلسٹ ہے دبئی میں رہتی ہے “۔
“اور ہم بہت اچھے دوست بھی ہیں “۔ ملیحہ نے انگلش میں شرارت سے کہا۔
“اور یہ مریم ہے میری بیوی “۔ زائر کے کہنے پر ملیحہ نے چونک کر اس کی جانب دیکھا اور پھر ایک نظر مریم کو دیکھا۔ وہ بظاہر مسکراتے ہوئے مگر تیکھی نظروں سے دونوں کو دیکھ رہی تھی۔
“اوہ، تم نے بتایا نہیں پہلے ؟؟”۔
“بس جلدی میں ہو گیا تھا سب کچھ اسی لیے بتا نہیں پایا تم بیٹھو ” ۔
مریم پلٹ کر کچن میں چلی گئی اور لب بینچے چائے کا پانی چولہے پر رکھا۔ باہر سے ان دونوں کے قہقہوں کی آواز آ رہی تھی۔
مریم نے لاؤنج میں جھانکا اور ایک چبھتی نگاہ ان دونوں پر ڈالی۔
“یااللّٰہ یہ براؤن بالوں والی چڑیل کہاں سے آ گئی اب ؟؟”۔ کچھ تھا جو اسے برا لگ رہا تھا۔
چائے ٹیبل پر رکھ کر وہ زائر کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی اور مسکرا اسے دیکھا ملیحہ اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔ مریم کے دیکھنے پر مسکرائی۔
“تو تم کیا کرتی ہو مریم ؟؟”۔
“میں ہاؤس وائف ہوں “۔ اس نے مختصر جواب دیا۔
“مرسلین اور احمد نہیں آئے ابھی تک ؟؟”۔ ملیحہ چائے پیتے ہوئے بولی۔
“راستے میں ہوں گے “۔
سوری ! وہاں میں تم لوگوں کو ٹائم نہیں دے پائی تھی ایچولی ، مجھے انہی دنوں امریکا جانا پڑ گیا تھا تقریباً دو مہینے میں وہاں رہی تھی وہی مجھے تم پر اٹیک کی خبر ملی تھی مجھے چینل کو رپورٹ کرنا تھا اسی لئے لیٹ ہو گئی ورنہ میں پہلے ہی آ جاتی “۔
“اٹس اوکے ! میں نے تو تمہیں بہت پہلے ہی دعوت دی تھی آنے کی !!”۔ مریم خاموشی سے دونوں کو دیکھ رہی تھی۔
“تمہاری شادی نہیں ہوئی ملیحہ ؟؟”۔ یہ غیر متوقع سوال مریم کی جانب سے آیا تھا۔ زائر نے چونک کر اس کی جانب دیکھا ملیحہ نے سنجیدگی سے مریم کو دیکھا۔
“نہیں مریم صاحبہ میری شادی نہیں ہوئی ٹائم ہی نہیں ملا مجھے!”۔ وہ مسکرا کر بولی۔
“شادی کے لیے وقت کی تو ضرورت نہیں ہوتی “۔
“مریم ! تم کھانا لگاؤ “۔ زائر نے ناگواری سے مریم سے کہا۔ مریم کے دل کو دھکا سا لگا۔ لب بینچتے ہوئے وہ ایک جھٹکے سے وہاں سے اٹھی اور کچن میں چلی گئی۔
ملیحہ کو اس کا کمرہ دیکھا کر وہ بھی کچن میں ہی چلا آیا۔
“تمہیں کیا ضرورت تھی اس سے یہ سب کہنے کی ؟؟ گھر آئے مہمان سے اس طرح کی باتیں کرنا اچھا لگتا ہے کیا؟؟”۔ زائر سنجیدگی سے بولا۔ مریم کچھ کہے بغیر تیزی سے برتن لگا رہی تھی۔
زائر نے بازو سے پکڑ کر اسے اپنے سامنے کیا۔
“کیا مسئلہ ہے مریم ؟؟”۔
“کچھ نہیں ہوا جائیں اسے کسی چیز کی ضرورت ہو گی ۔۔آئی بھی تو آپ کے لیے ہے وہ !!”۔ دوسری بات وہ آہستگی سے بولی۔
زائر آہستگی سے ہنس دیا۔
“وہ صرف دوست ہے میری !”۔
مریم نے ایک جھٹکے سے اپنا بازو چھڑوایا اور وہ برتن زور سے ٹیبل پر رکھے ۔ زائر نے گہری سانس لی اور بےبسی سے اس کی جانب دیکھا۔
※••••••※
مرسلین آفس سے سیدھا زائر کے گھر آیا تھا۔ احمد پہلے سے ہی وہاں موجود تھا۔ سب سے سلام کرتا وہ احمد کے ساتھ ہی بیٹھ گیا تھا۔
“کیسی ہو بلی ؟؟”۔ اس کی گرین آنکھوں کی وجہ سے مرسلین اسے بلی کہتا تھا۔
“ٹھیک ہوں ، تم اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے نا ؟؟ زائر اور احمد کی کمپنی بھی تمہیں سدھار نہیں سکی ؟؟”۔اس کے کہنے پر احمد کا قہقہہ بےساختہ تھا۔ زائر بھی ہنس دیا۔
مریم نے ناگواری سے اسے دیکھا۔
(ہونہہ شوخی ) وہ منہ میں بڑبڑائی۔
“تھینک یو ملیحہ ۔۔۔ ہم واقعی بہت اچھے ہیں “۔ زائر مسکراتے ہوئے بولا۔
“جس جگہ کے لوگ اچھے ہوتے ہیں نا وہاں کی مٹی اور پانی بھی اچھا ہوتا ہے اور جہاں کے لوگ اچھے نہیں ہوتے وہاں کی مٹی اچھی ہوتی ہے نا پانی “۔
“اور پاکستان کی مٹی بھی بہت اچھی ہے اور پانی بھی ۔۔۔ تم لوگوں کو دیکھ کر اس بات کا یقین آ گیا ہے مجھے “۔ وہ مخاطب سب سے تھی مگر دیکھ زائر کو رہی تھی اُس کی اس حرکت پر مریم کے تن بدن میں آگ ہی لگ گئی۔ اس نے ناگواری سے پہلو بدلا۔
“تم نے یہ تاریخی جملہ بولا ہے بلی ! دل رہا ہے اسے ریکارڈ کر کے اپنے دشمنوں کو سناؤں “۔ مرسلین کے کہنے پر ملیحہ بےساختہ ہنس دی۔
مریم معذرت کر کے وہاں سے اٹھ گئی۔
کمرے میں آ کر اس نے گہرے سانس لیے ۔
“پاکستان کے لوگ بہت اچھے ہیں ہاں جی اچھے تو ہوں گے ہی زائر عباس جو پاکستانی ہے ۔۔۔ ہونہہ ہم دوست بھی ہیں ۔۔۔ مریم اس کی نقل اتار کر بولی۔ اچھی طرح نکالوں گی تمہاری دوستی ۔۔۔ دو دن میں چلتا کروں گی تمہیں یہاں سے ، دبئی میں ڈھونڈنا اچھے لوگ ۔۔۔ وٹ ایور!”۔ وہ شدید غصے میں بھڑکتے ہوئے کمرے کی چیزیں ادھر ادھر پٹخ رہی تھی۔
زائر کمرے میں آیا تو کمرے کی لائٹ بند تھی اس نے گہری سانس لے کر لائٹ جلائی ۔ اس کی سیدھی نظر بیڈ پر پڑی مریم پر پڑی تھی وہ آنکھوں پر بازو رکھے پتا نہیں سو رہی تھی یا ویسے ہی لیٹی تھی وہ اندازہ نہیں کر پایا۔
مریم ! زائر نے اس پر جھکتے ہوئے اسے آواز دی۔
مریم ٹس سے مس نہ ہوئی ۔
“مریم یار مجھے پتا ہے تم سو نہیں رہی اٹھو !”۔ زائر نے اس کا کندھا ہلایا۔
“کیا ہے ؟؟ ” اس کا بازو جھٹکتے ہوئے وہ اٹھ بیٹھی ۔”فرصت مل گئی کمرے میں آنے کی ۔۔۔ اگر اور دکھ سکھ رہتے ہیں تو وہ بھی کر آئیں ابھی تو صرف دو بجے ہیں کہیں اچھے لوگوں کی باتیں ہی نا رہ گئیں ہو!!”۔
زائر نے بمشکل ہونٹوں پر مسکراہٹ روکی۔ اور مریم کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے۔ مریم نے ناراضگی آنکھوں میں سموئے اس کی طرف دیکھا۔ جینز پر بلیک بٹنوں والی شرٹ جس کی آستینیں پیچھے کو مڑی ہوئی تھی ، وہ سیدھا دل میں اتر رہا تھا مریم کی خفگی جاتی رہی ۔
“وہ بیچاری میری عیادت کے لیے آئی ہے اتنی دور سے۔۔۔ کتنی اچھی ہے نا ملیحہ ؟؟”۔ زائر بھرپور شرارت آنکھوں میں سموئے اس سے پوچھ رہا تھا۔
مریم نے چبھتی نگاہ سے اسے دیکھا۔ اور اپنے ہاتھ کھینچنے چاہے مگر زائر کی گرفت مضبوط تھی۔
“اسی اچھی سے باتیں کریں مجھ سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے اور ہاتھ بھی چھوڑیں میرا”۔ وہ خفگی سے بولی۔
“وہ تو اب سو گئی ہے “۔ زائر کے منہ سے بےساختہ پھسلا۔ مریم کو تو آگ ہی لگ گئی۔
“میں اٹھا دیتی ہوں جا کر کہ بہن میرا شوہر اداس ہو گیا ہے تم سے اٹھو اور اسے کمپنی دو ۔۔۔۔ “۔
“اچھا سوری نا ۔۔۔ کیوں اتنا جل رہی ہو “۔ وہ ہنستے ہوئے بولا۔
“میں کیوں جلوں گی اس سے “۔ وہ ناک سکوڑ کر بولی۔
“ایک زمانے میں وہ کہتی تھی شادی کرو گی تو صرف پاکستانی لڑکے سے ۔۔۔۔ اب شاید اس لڑکے کی شادی ہو گئی ہے “۔ وہ مسکراہٹ دبائے لاپرواہی سے بولا۔
مریم نے ٹھٹھک کر اسے دیکھا اس کی مسکراہٹ دیکھ کر وہ غصے سے بڑبڑائی اور زائر کو نظر انداز کر کے کروٹ بدل کر لیٹ گئی۔
※••••••※
“اسلام علیکم انکل کیسے ہیں آپ ؟؟ “۔ مرسلین گاڑی سے نکل کر سیدھا بلال صاحب کی طرف آیا تھا جو اخبار پڑھ رہے تھے ۔ اسے دیکھ کر چونکے۔
“وعلیکم اسلام !! کیسے ہو مرسلین ۔۔۔۔ بہت دنوں بعد نظر آئے ہو “۔ بلال صاحب نے اخبار فولڈ کر کے ٹیبل پر رکھا اور مسکراتے ہوئے اس سے بولے۔
“انکل ٹی وی پر تو روزانہ دیکھتے ہیں مجھے آپ “۔ وہ شرارت سے بولا۔ صدف نے آتے ہوئے مرسلین کی بات سنی اور بےساختہ ہنس دی۔
“جی بیٹا جی روزانہ دیکھتے ہیں آپ کو اور ماشااللّٰہ میرے دونوں بیٹے ہی چینل پر چھائے ہوئے ہیں “۔ ان کا اشارہ زائر اور مرسلین کی جانب تھا۔
“شکریہ آنٹی “۔
“احمد کہاں ہے ؟؟”۔
“کمرے میں ہے سویا ہوا ہے “۔
احمد کے کمرے کا دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوا اور اسے واقعی سویا دیکھ کر وہ جل ہی گیا تھا۔ کمبل کھینچ کر اس پر سے اتارا ۔
“کون ہے ؟؟”۔
“اٹھو پھر بتاتا ہوں میں کون ہوں “۔ وہ دانت پیس کر بولا۔
“او، تم ہو !”۔ احمد آنکھیں مسلتے ہوئے اٹھ بیٹھا۔ پھر اس کی سنجیدہ شکل دیکھ کر جلدی سے اٹھ بیٹھا۔
“خیریت ؟؟”۔
“نہیں خیریت نہیں ہے اگر تو جو خبر مجھے ملی ہے وہ سچ ہے تو بہت برا ہو سکتا ہے “۔ وہ اس وقت بلکل بھی وہ مرسلین نہیں لگ رہا تھا سب کو ہنسنے ہنسانے والا، خوش دل ۔
“کیا خبر ہے ؟؟”۔
“اصغر خان اب بھی زائر کے پیچھے ہے آنے والے دنوں میں وہ زائر پر دباؤ بھی ڈال سکتا ہے کہ وہ کیس واپس لے ۔۔۔ کل پہلی سماعت ہے کیس کی “۔ وہ انگلیوں سے ماتھا مسلتے ہوئے بولا۔ احمد نے گہری سانس لی۔
“زائر جیسا شخص اس کے دباؤ میں نہیں آ سکتا اور جہاں تک دوسری بات ہے تو میرا نہیں خیال کہ وہ اب ایسی بیوقوفی کرئے گا کیونکہ اس کا نام پہلے ہی پولیس کی نظر میں آ چکا ہے “۔
“اور تم سناؤ جس کیس پر تم کام کر رہے تھے وہ کہاں تک پہنچا؟؟”۔ احمد کے پوچھنے پر مرسلین مسکرایا۔
“آہا! کیا پوچھتے ہو میرے بھائی جانتے تو ہو میں جس کام کے پیچھے پڑ جاؤں اسے کر کے ہی رہتا ہوں “۔ وہ دونوں ہاتھوں کا تکیہ بنا کر لیٹتے ہوئے بولا۔
“ہاں وہ کام چاہے ہادیہ کے متعلق ہی کیوں نا ہو “۔ احمد جل کر بولا۔
مرسلین کا قہقہہ کمرے میں گونجا۔
“اگر اسے پتا چل گیا نا تمہارے کرتوتوں کا تو گلہ ہی دبا دے گی وہ تمہارا “۔ احمد جل کر بولا۔
چھ فٹ کا بھر پور مرد ، اتنا ہینڈسم ، سمارٹ ، لڑکیاں جس کو دیکھ کر آہیں بھرتی ہوں وہ اگر تمہاری بہن کو پسند کرتا ہے تو تمہیں اور اسے میرا شکر گزار ہونا چاہیئے”۔ وہ مسکراہٹ دبائے شرارت سے بولا۔
“ہاں قتل ہی نا کر دیں تمہارا “۔ مرسلین ہنس دیا۔
“زائر کا میسج آیا ہے ملیحہ کو اسلام آباد گھومنا ہے اور ہماری خدمات چاہیئے اسے چلو جلدی سے ریڈی ہو جاؤ “۔ مرسلین اجلت میں بولا۔
احمد بیزاری سے وہاں سے اٹھ گیا۔
※••••••※
“آپ اکیلی کیسے رہتی ہیں وہاں ؟؟ ڈر نہیں لگتا آپ کو ؟؟”۔ ڈائیننگ ٹیبل پر صبح کے وقت سب ہی جمع تھے عمر مٹھی پر چہرہ ٹیکائے ملیحہ کو دیکھ رہا تھا۔
اس کے سوال پر وہ آہستگی سے ہنس دی ۔ مریم کی نظریں زائر کے اردگرد گھوم رہی تھی ۔ عمر کے سوال پر وہ بھی آہستگی سے ہنس دیا۔
“ارے نہیں ! بابا کی ڈیتھ کے بعد ماما شادی کر کے امریکا چلی گئی۔ پہلے میں ان کے ساتھ ہی رہتی تھی مگر پھر میں دبئی شفٹ ہو گئی۔ مجھے دبئی والا گھر کبھی نہیں بھولا تھا ۔ یو نو ہمارا گھر بہت چھوٹا ہے دبئی والا اور جب میں نے امریکا والا گھر دیکھا اتنا بڑا گھر اور خوبصورت جیسے میں سوچتی تھی کہ بڑی ہو کر اپنا گھر بناؤں گی۔۔۔۔۔ وہ گھر بلکل ویسا ہی تھا کہ انسان ایک نظر دیکھے تو بس ادھر ہی ٹھٹھک کر رک جائے ۔۔۔۔۔ مگر وہاں مجھے کبھی خوشی نہیں ملی ۔۔۔۔ کبھی کبھی ہوتا ہے نا کہ دنیا کی ہر چیز آپ کے قدموں میں ہوتی ہے مگر دل خالی خالی سا ہوتا ہے ۔۔۔۔” وہ نم آنکھوں سے غیر مرئی نقطے کو دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ اس کا ماضی فلم کی مانند اس کے سامنے سے گزر رہا تھا۔
“بلکل ویسے ہی مجھے کبھی وہاں خوشی نہیں ملی پھر میں نے دبئی اپنے گھر شفٹ ہونے کا فیصلہ کر لیا اور اب میں اپنے گھر رہتی ہوں ایک دو دوستیں ہیں میری جو میرے ساتھ رہتی ہیں اور میں ۔۔۔ میں بہت خوش ہوں ۔۔۔ ” اس نے سارے آنسو اپنے اندر اتارے اور مسکرا کر ان سب پر ایک نظر ڈالی جو سانس روکے اسے سن رہے تھے سوائے ایک شخص کے ۔۔۔۔ وہ بڑی رغبت سے اپنا ناشتہ کر رہا تھا۔
” یہ ہمیشہ ایسے ہی کرتا ہے ۔۔۔ اس نے مسکرا کر زائر کی طرف اشارہ کیا۔ کبھی میری باتوں کو غور سے نہیں سنتا اب بھی دیکھو کیسے اگنور کیے ناشتہ کر رہا ہے “۔
“ہاں تو کیوں سنو میں تمہاری “الم ناک داستان ” سنا تو ایسے رہی ہو جیسے “الف لیلویٰ” کہانی ہو “۔ زائر کے کہنے پر وہ نم آنکھوں سے ہنس دی۔
“جانتی ہوں تم مجھ سے کتنا پیار کرتے ہو “۔ ملیحہ کی بات سن کر زائر کا منہ کی طرف جاتا چائے کا کپ والا ہاتھ رک گیا اس نے بیساختہ مریم کی طرف دیکھا جس کی آنکھیں غصے سے جل رہی تھی اس نے ایک تیکھی نگاہ زائر پر ڈالی اور پھر ملیحہ کو دیکھا جو مسکراتے ہوئے زائر کو دیکھ رہی تھی۔ اس کا دل جل کر رکھ ہو گیا۔ کرسی گھسیٹ کر وہ کھڑی ہوئی اور تیزی سے وہاں سے نکل گئی۔
زائر نے گہری سانس لے کر پورے ٹیبل پر نگاہ دوڑائی۔ وہ غصہ سے اپنا ناشتہ بھی ادھورا چھوڑ گئی تھی۔
“آہم !!” عمر کھنکارا۔ “آپی ناراض ہو گئی ہیں چچ چچ ” وہ مسکراہٹ دبائے بولا۔
“ہونہہ میری بیوی کیوں ناراض ہو گی تم لوگ ہو ہی فسادی !!”۔ زائر کے کہنے پر عمر کی آنکھیں پھٹ سی گئی۔
“اللّٰہ ہو اکبر بھائی ، بہت چھوٹی بات کہی ہے آپ نے “۔ وہ جل کر بولا۔
“ہیلو گائز!!”۔ مرسلین بلند آواز میں کہتا اندر داخل ہوا۔
“آؤ بیٹھو !! ”
“ہماری مہمان تیار ہو جائیں ہم جا رہے ہیں گھومنے “۔ مرسلین کے کہنے پر ملیحہ جلدی سے اٹھی ۔ احمد نے زائر کا کپ اچک کر چائے پینی شروع کر دی۔
“بھوکا “۔ زائر نے اسے گھورا۔
“تم لوگ جاؤ میں بعد میں جوائن کرو گا “۔ زائر مرسلین سے بولا۔ اسے ابھی اپنی بیوی کو بھی منانا تھا۔
※••••••※
عمیر خان اصغر خان کے آفس میں بیٹھا مختلف فائلز دیکھ رہا تھا۔ اصغر خان ایک میٹنگ کے سلسلے میں مانچسٹر گیا تھا اس کی غیر موجودگی میں سارا کام عمیر ہی سنبھال رہا تھا۔
موسیٰ بھی اُس کی ہیلپ کے لیے یہاں موجود تھا۔
فون بجنے پر وہ چونکا نام دیکھ کر مسکرایا۔
“کہیے شاہ صاحب کیسے ہیں آپ ؟؟ آپ کو کام کہا تھا امید ہے آپ کا جواب ہاں میں ہو گا”۔ پین کو انگلیوں کی مدد سے گھوماتا کرسی پر نیم دراز وہ مسکراتے ہوئے دوسری طرف کی بات سن رہا تھا۔
دوسری طرف سے پتا نہیں کیا کہا گیا اس کی بات سن کر اُس نے بےاختیار قہقہہ لگایا۔
“شاہ صاحب مجھے یہی امید تھی آپ سے ، آپ پاپا کی فکر مت کریں میں وقت آنے پہ سمجھا لوں گا ان کو ۔۔۔ اور ویسے بھی یہ سرپرائز ہے ان کے لیے “۔
“آپ مجھے بھیج دیں سارے ڈاکومینٹس اور میں اس احسان کو یاد رکھوں گا ہمیشہ !!”۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ الوادعی کلمات کے بعد اس نے فون بند کر دیا۔
اس کی آنکھوں میں گہری سوچ کی پرچھائیاں تھی۔
※••••••※
مریم شائستہ سے بات کر رہی تھی جب زائر اندر داخل ہوا۔ وہ اس کے ساتھ ہی بیڈ پر بیٹھ گیا۔ مریم نے سنجیدہ نظروں سے اسے دیکھا۔
“جی اماں یہاں سب ٹھیک ہے ۔۔۔ آپ بتائیں کب آ رہی ہیں ؟؟”۔
“جلدی ہی آ جائیں گے بیٹا ، فیاض بھائی کی طبعیت خراب ہو گئی ہے اب بیمار کو ایسے چھوڑ کر تو نہیں آ سکتے “۔
“مگر کوشش کریں نا کہ جلدی آئیں “۔ زائر خاموشی سے اسے سن رہا تھا۔
“ٹھیک ہے بیٹا “۔
“اچھا اور بتائیں شادی کیسی گزری ؟؟ مزہ آیا ؟؟”۔ اس کی بات پر اماں ہنس دی۔
“بیٹا اس عمر میں ہم نے کیا مزہ کرنا ہے شادی میں تم لوگوں کو کہا تھا آ جاؤ مگر ٹائم ہی نہیں تھا تم لوگوں کے پاس !!”۔ وہ کچھ کہنے ہی لگی تھی جب زائر نے موبائل اچک لیا اس کے ہاتھ اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے جانے سے روکا۔
“کیسی آپ خالہ اور امی کیسی ہیں ؟؟ “۔
“ٹھیک ہیں بیٹا وہاں سب ٹھیک ہے نا؟؟”
“جی خالہ یہاں سب ٹھیک ہے آپ بےفکر رہیں “۔ کچھ دیر اور بات کر کے اس نے موبائل بند کر کے بیڈ پر اچھال دیا اور مریم کی جانب متوجہ ہوا۔
“مریم کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ ؟؟ وہ بےضرر سی لڑکی ہے کچھ دن کے لیے رہنے آئی ہے پھر چلی جائے گی”۔ زائر سنجیدگی سے بولا۔
“ہاں ایک وہی تو اچھی ہے یہاں ہم سب تو بہت برے ہیں “۔ اس کی بات پر زائر نے سر ہاتھوں میں گرا لیا۔
“تمہیں جو سمجھنا ہے سمجھو مگر اُس کے سامنے اس طرح کے ریکشنز سے پرہیز کرو ۔۔۔۔ وہ مہمان ہے ہمارے گھر میں نہیں چاہتا کہ اس کو کچھ بھی برا لگے میں بلکل بھی برداشت نہیں کرو گا “۔ وہ لگی لپٹی رکھے بغیر بولا۔
مریم نے شاکڈ کی سی کیفیت میں زائر کو دیکھا۔اُس کی آنکھوں میں بےساختہ آنسو امڈ آئے جسے اس نے اندر اتار لیا اور زائر سے اپنا ہاتھ چھڑوا کر کمرے سے نکل گئی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...