” میرے گھر میں رشتے کی بات ہو رہی ہے وہ چاہتے ہیں میری شادی ہو جائے اب ۔۔”۔ وہ دونوں یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں بیٹھے تھے۔
“ہاں تو ! اچھی بات ہے ۔۔” عمیر پرسکون آواز میں بولا۔
مریم نے بےیقینی سے اُسے دیکھا ۔
“میں مذاق نہیں کر رہی عمیر۔۔۔”۔ وہ لرزتی آواز میں بولی۔
“میں بھی مذاق نہیں کر رہا ۔ آئی مین اگر تمہارے گھر والے چاہتے ہیں کہ تمہاری شادی ہو جائے تو کر لو سمپل۔۔۔”۔ وہ کندھے اچکا کر بولا۔
“اگر گھر والے میری شادی کر رہے ہیں تو میں کر لو کسی سے بھی؟؟”۔ اُس نے “کسی سے بھی” پر زور دیتے ہوئے کہا۔
“ہاں “۔ مریم کا دل ڈوبا۔
“تمہیں۔۔۔ تمہیں کوئی فرق نہیں پڑئے گا؟؟”۔
“نہیں مجھے کیوں فرق پڑے گا۔ میں دوست ہوں تمہارا اور تمہاری شادی کی سب سے زیادہ خوشی مجھے ہی ہو گی۔۔۔”۔
“ہاں تم دوست ہو میرے ۔۔۔”۔ مریم کی حلق میں آنسوؤں کا پھندہ لگا وہ بمشکل بولی۔
“میں ۔۔۔۔ میں چلتی ہوں اماں انتظار کر رہی ہوں گی۔۔۔”۔
“ارے اتنی جلدی یار ۔۔۔۔؟؟”۔
“ہاں وہ اماں گھر میں اکیلی ہیں ۔۔۔”۔ وہ غائب دماغی سے بولی۔
مریم کے جانے کے بعد وہ ہاتھ جھاڑتے ہوئے اٹھا ۔
“چلو شکر ہے یہ باب تو بند ہوا۔ مفت کی مصیبت تھی یہ تو ۔۔”۔ وہ ناگواری سے بولا۔
وہ چلتے ہوئے تھوڑی دور لڑکوں کے گروپ کی طرف بڑھ گیا۔۔۔
※••••••※
زائر عباس جرنلسٹ تھا اس کی محنت اور لگن کو دیکھتے ہوئے اسے پروموشن ملی تھی ۔ وہ رات آٹھ بجے کا ٹاک شو کرتا تھا۔ فاطمہ ہر وقت اس کے لیے دعا کرتی رہتی تھی کیونکہ عباس صاحب بھی اسی پروفیشن سے وابسطہ تھے کوریج کے دوران دھماکے میں وہ شہید ہوئے تھے۔
زائر عباس بھی اپنے باپ کے نقشے قدم پر چلا تھا۔ عباس صاحب کی وفات کے بعد سارے گھر کی زمہ داری اس پر آ گئی تھی ۔ عمر اور صائم سیکنڈ ائیر کے سٹوڈنٹ تھے عمر کو آرمی کا شوق تھا جبکہ صائم بھی صحافت میں آنا چاہتا تھا۔
مریم رجب علی , رجب علی اور شائستہ کی اکلوتی اولاد۔ رجب علی کی محلے میں دوکان تھی جس کی آمدنی سے ان کا گھر چلتا تھا۔ وہ دونوں اسی میں خوش تھے مگر مریم خوش نہیں تھی اس کے خواب بہت بڑے تھے ۔ اسے دولت کی چاہ تھی مہنگے کپڑے ، گاڑی ، نوکر ، اور ایک بڑا سا گھر جس میں اُس کی حکمرانی ہو جہاں اس کی مرضی چلے ۔ یونیورسٹی میں لڑکیوں کو دیکھ کر وہ بعض دفعہ رشک اور بعض دفعہ حسد میں مبتلا ہو جاتی تھی۔ اسے بھی وہ سب کچھ چاہئیے تھا جو ان کے پاس تھا۔ آزادی , بےفکری , اور پیسہ چاہے کسی بھی طریقے سے ۔۔۔۔۔ اُس نے بہت سوچنے کے بعد ان لڑکیوں سے دوستی کر لی۔ بہت چاہنے کے باوجود وہ کبھی ان کے ساتھ پارٹیز پہ نہیں گئی تھی اور نا ہی گھومنے پھرنے۔۔۔۔
عمیر سے اس کی دوستی بھی انہی لڑکیوں کی وجہ سے ہوئی تھی۔
“مریم تم کتنی بور ہو یار ۔۔۔”۔ اس کی دوست اسمارہ بولی۔
“ہاں ہوں تو “۔ مریم نے شرمندگی سے اعتراف کیا۔
“چلو آج تمہارا بھی انتظام کرتے ہیں “۔ سامیہ معنی خیزی سے بولی۔
اور تب ہی اس کی دوستی عمیر سے ہوئی۔ اُسے جیسے عمیر کی شکل میں اپنے سارے خوابوں کی تعبیر مل گئی تھی۔ اور اب عمیر اس سے جان چھڑوانا چاہتا تھا اُس کی شادی کی بات سن کر اس نے خوشی کا اظہار ہی اس لیے کیا تھا تاکہ مریم خودبخود اسے چھوڑ دے۔۔۔
اور ایسا ہی ہوا تھا مریم کی حالت دیکھ کر اس نے بمشکل اپنی ہنسی کنٹرول کی تھی ۔
※••••••※
گھر آنے کے بعد وہ کمرے میں بند ہو گئی تھی اور اب تک کمرے میں ہی بند تھی ۔اماں دروازہ کھٹکھٹا کر تھک چکی تھی مگر اس نے دروازہ نہیں کھولا۔
تھوڑی دیر پر اُس کے کمرے کا دروازہ کھلا اماں اسے دیکھتے ہی جھٹکا لگا۔ اس کی آنکھیں مسلسل رونے سے سوج گئی تھی مریم نے کپڑے بھی نہیں بدلے تھے ۔
“مریم یہ تم نے کیا حالت بنائی ہوئی ہے ؟؟ کیا ہوا ہے ؟؟ کسی نے کچھ کہا ہے ؟؟؟”۔ اماں اسے گلے لگاتے ہوئے بولی۔
مریم کی آنکھوں سے بےاختیار آنسو بہنا شروع ہو گئے ۔
اماں۔۔۔ وہ سسکی۔
“مریم کیا بات ہے بیٹا ؟؟ میرا دل ڈوب رہا ہے “۔
اماں کے پریشان چہرے کو دیکھ کر اس نے اپنے آنسو پونچے۔۔۔
“میں ٹیسٹ میں فیل ہو گئی ہوں اماں !!”۔
اماں نے گہری سانس لی۔
“اس میں رونے والی کون سی بات ہے بیٹا امتحان تو زندگی کا حصہ ہیں پریشان مت ہو ۔۔۔۔ چلو منہ ہاتھ دھو کر آؤ۔۔۔”۔
“میں کھانا لگاتی ہوں فٹافٹ سے آ جاؤ۔۔۔۔”۔
مریم اماں کی ہدایت پر سر ہلاتے ہوئے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔”۔
※••••••※
فاطمہ کی رشتے کی بات کرنے کے بعد سے وہ دونوں بہت خوش تھے ۔ شائستہ بیگم نے سارے محلے میں مٹھائی بانٹی تھی۔ فاطمہ چاہتی تھی کہ شادی جلدی ہو جائے۔ رجب علی نے بھی ان کے خیال کی تائید کی تھی۔ شائستہ تو پہلے ہی یہی چاہتی تھی۔ دونوں گھروں میں شادی کی تیاریاں ہو رہی تھی۔زائر تو کسی بھی تیاری میں حصہ نہیں لے رہا تھا۔ ملک میں الیکشن ہو رہے تھے وہ صبح کا گھر سے نکلا رات کو بارہ ایک بجے ہی گھر آتا تھا۔ فاطمہ بہت دنوں سے نوٹ رہی تھی مگر کچھ نہیں بولی۔ عمر اور صائم پر ساری ذمہ داری تھی۔ ابھی بھی وہ بازار کی خاک چھان کر آئے تھے۔زائر کو گھر آرام سے بیٹھے دیکھ کر عمر اور صائم کو تو آگ ہی لگ گئی تھی۔ فاطمہ ایک نظر اسے دیکھنے کے بعد کمرے میں چلی گئی۔
“واہ واہ کیا کہنے آپ کے حضرت خود تو یہاں آرام فرما رہے ہیں اور ہم بیگانی شادی میں دیوانے بنے ہوئے ہیں۔۔۔”۔ صائم جلے دل کے ساتھ طنز کیا۔ زائر نے ایک نظر سنجیدگی سے اسے دیکھا اور پھر سے اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔
عمر آنکھیں بند کیے گہرے گہرے سانس لے رہا تھا۔
زائر خاموشی سے اپنے کام میں مصروف رہا۔
“بھائی بہت غلط بات ہے یہ یار ہم بازاروں کے چکر لگا لگا تھک گئے ہیں اور آپ گھر میں آرام کر رہے ہیں ۔ “۔
“میں مصروف ہوتا ہوں ۔ آج ہی جلدی گھر آیا ہوں اور رہی بات شاپنگ کی تو میرے بھائیو!! زائر نے لیپ ٹاپ بند کیا وہ ان دونوں کی طرف متوجہ تھا جو دھیان سے اُس کی بات سن رہے تھے۔
یہ تم لوگوں نے خود چنی ہے اپنے لیے تم دونوں کو بہت شوق ہو رہا تھا نا گھر میں ہلہ گلا کرنے کا ، اور مسٹر عمر عباس صاحب اُس دن کیا فرما رہے تھے گھر سونا سونا ہے رونق نہیں ہے گھر میں ۔۔۔ سو تم لوگوں کی خواہش کے عین مطابق ہو رہا ہے یہ سب اب اسے ہنس کر کرو یا جیسے بھی تم لوگوں پر ڈیپینڈ کرتا ہے ۔۔۔۔ اب سو جاؤ جا کر کیونکہ کل تم لوگوں نے پھر سے بازار جانا ہے ۔۔۔گڈ نائٹ!!”۔ زائر سکون سے کہہ کر لیپ ٹاپ اٹھائے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
صائم اور عمر منہ کھولے کھڑے تھے۔ دروازہ بند ہونے کی آواز پر وہ دونوں ہوش میں آئے۔ عمر نے اس کی طرف دیکھا صائم منہ کھولے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
“مریم تیار ہو جاؤ بازار جانا ہے بیٹا دن تھوڑے اور کام بہت زیادہ ہے “۔ اماں عجلت میں بولتے ہوئے اس کے کمرے میں آئیں۔
مریم آنکھوں پر بازو رکھے لیٹی تھی اماں کی بات سن کر بھی ایسے ہی لیٹی رہی ۔
“مریم ۔۔۔” اماں نے اس کا بازو ہلایا۔
“جب مجھ سے پوچھے بغیر میرا رشتہ طے کر دیا ہے تو تیاریاں بھی خود کریں “۔ مریم نم آنکھوں سے بولی۔
“تو تمہیں کوئی اعتراض ہے اس رشتے پہ ؟؟”۔ انہوں نے سنجیدگی سے اس سے پوچھا۔
“اگر ہو بھی تو اب فائدہ ۔ جو ہونا تھا ہو گیا”۔ وہ بھی اسی انداز میں بولی۔
“تمہیں اس رشتے پہ اعتراض کیوں ہے کیا کمی ہے زائر میں ؟؟ ہمارے سامنے پلا بڑھا ہے , اچھی نوکری ہے اس کے پاس اور تمہیں کیا چاہئیے؟؟”۔
“بس ہر ماں کی طرح اعتراض کرنے پر لڑکے کی تعریفوں کے پل باندھ دیجیے۔ ایک دفعہ تو کم از کم مجھ سے پوچھ لیتے اتنا بھی گوارا نہیں کیا”۔
“تو اور کیا کروں تمہاری بیوقوفیوں کو سنجیدگی سے لوں ؟؟ اور رہی بات پوچھنے کی تو ہمیں یقین تھا کہ ہماری بیٹی انکار نہیں کرے گی مگر یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے”۔ اماں نے طنز سے کہا۔
“میں کسی بھی چیز میں حصہ نہیں لوں گی خود کریں جو کرنا ہے یا اپنے لاڈلے سے کروائیں”۔ مریم کہہ کر دوبارہ سے لیٹ گئی۔
“آنے دو تمہارے باپ کو کرتی ہوں میں بات ان سے۔۔۔۔۔ باپ اس دن کا ہواؤں میں اڑ رہا ہے اور بیٹی صاحبہ کے مزاج ہی نہیں مل رہے ۔۔۔ اور ایک دفعہ فرصت میں یہ بھی سوچ لینا کہ وہ میرا لاڈلا کیوں ہے ؟؟”۔اماں بڑبڑاتی ہوئی باہر چلی گئی۔
مریم کی آنکھوں سے پھر آنسو بہنے لگ گئے۔
※••••••※
زائر آفس میں اپنے ٹاک شو کی تیاری میں مصروف تھا جب اس کا دوست مرسلین اندھا دھند آفس میں آیا۔
زائر نے حیرت سے اسے دیکھا جو چھپنے کے لیے جگہ ڈھونڈھ رہا تھا۔
“مرسلین کیا ہوا ہے ؟؟”۔
“کچھ مت پوچھ میرے یار کمبے دانتوں والی چڑیل میرے پیچھے پڑ گئی ہے ۔مجھے چھپا لو کہیں “۔
“کیا بکواس کر رہے ہو “۔ زائر نے اسے گھورا۔
دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا ہادیہ ماتھے پہ بل ڈالے اندر داخل ہوئی۔
“زائر مرسلین یہاں ۔۔۔۔” اتنے میں اس کی نظر مرسلین پر پڑی جو زائر کے پیچھے چھپ رہا تھا۔
“تم ۔۔۔۔۔ تمہیں آج میں نہیں چھوڑوں گی آج تمہارا آخری دن ہے مرسلین حیدر اس دنیا میں “۔ ہادیہ چیخی۔
“تمہارے منہ میں خاک لڑکی ابھی تو میں نے کچھ دیکھا بھی نہیں دنیا میں ۔۔۔ابھی میں نے ورلڈ ٹور پر جانا ہے ۔۔۔”۔
“تم سکائے ٹور پر جاؤ گے اور میں بھیجوں گی تمہیں۔۔۔”۔ہادیہ کے کہنے پر زائر نے مسکراہٹ دبائی۔
“مجھے بھی بتاؤ گے کہ کیا ہو رہا ہے کیوں پاگلوں کی طرح جھگڑ رہے ہو؟؟”۔ زائر نے پہلے ہادیہ کا لال بھبھوکا چہرہ دیکھا اور پھر مرسلین کو جو معصوم سی شکل بنائے کھڑا تھا۔
“اس سے پوچھو یہ کیا کر کے آیا ہے ؟؟”۔ہادیہ نے دانت پیس کر کہا۔
زائر نے مرسلین کی طرف دیکھا۔
“ارے تم کیا بتاؤ گے اپنے کرتوت کون بتاتا ہے زائر میں بتاتی ہوں ۔۔۔۔ کل جو آرٹیکل میں نے لکھا تھا اس نے چھپا دیا ہے اپنے کیبن کو بھی لاک کر دیا ہے اس نے اور بھاگ کر یہاں آ گیا ہے ۔۔۔ دس بجے تک بھیجنا ہے اسے بولو واپس کرئے میں نے اتنی محنت سے لکھا تھا میں نے ۔۔۔اب سر پوچھیں گے تو میں کیا کہوں گی انہیں۔۔۔۔؟؟”۔وہ روہانسی آواز میں بولی۔
“مرسلین بہت غلط بات ہے واپس کرو اس کو فائل۔۔۔”۔زائر نے مسکراہٹ دبائے مرسلین سے کہا۔
“ایک مہینے سے پینڈنگ ٹریٹ دے پہلے مجھے میرے پسند کے ریستورانٹ میں پھر میں سوچوں گا ۔۔۔”۔ ہادیہ نے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا۔
“ٹریٹ کون سی ٹریٹ؟؟؟”
“فائل کون سی فائل؟؟”۔مرسلین بھی اسی کے انداز میں بولا۔
زائر نے دونوں کو دیکھ کر گہری سانس لی وہ جانتا تھا اگلے تین گھنٹوں سے پہلے ان دونوں کی لڑائی ختم نہیں ہو گی۔
※••••••※
عمر ٹی وی میں گم تھا جب صائم دھپ سے اس کے ساتھ جا کر بیٹھا۔ عمر نے ناگوار نظروں سے اسے دیکھا۔ صائم مسکرایا۔
“کیا ہوا ہے منہ لٹکائے کیوں بیٹھے ہو ؟؟”۔
“کچھ نہیں یار “۔ عمر بےزاری سے بولا۔
“تم نے بھائی سے بات کی تھی ؟؟”۔
“نہیں !!”۔
“تو پھر منہ لٹکا کر کیوں بیٹھے ہو “۔
“مجھے پتا ہے بھائی نہیں مانیں گے”۔ وہ یاسیت سے بولا۔
“الحام کب سے ہونے لگ گئے ہیں تمہیں “۔ صائم نے سنجیدگی سے پوچھا۔
“مذاق مت کرو یار “۔
“میں سنجیدہ ہوں عمر ۔۔۔۔ تم بات تو کرو ایک ہفتے کی ہی تو بات ہے ۔”
“یار سیالکوٹ جانا ہے اتنی دور میرا نہیں خیال بھائی جانے دیں گے”۔
“یہ تم دونوں سر جوڑ کر بیٹھے کیا کر رہے ہو؟؟”فاطمہ کچن سے نکل کر بولی۔
“کیا کریں گے ہم ماں جی ۔۔۔۔ ایک تو پورے گھرانے کو صرف میں ہی نظر آتا ہوں “۔ عمر جل کر بولا۔
“بکواس کروا لو جتنی کروانی ہے اس لڑکے سے”۔ فاطمہ اسے گھور کر بولی۔
“امی ہمیں سیالکوٹ جانا ہے “۔ صائم بولا۔
“کیوں؟؟؟”۔
“امی ہماری ٹیم کا میچ ہے وہاں اور ہمیں ضرور جانا ہے “۔ عمر جواب میں بولا۔
یہاں تم لوگوں نے کون سے جھنڈے گاڑ دیے ہیں جو اب وہاں جانا ہے ۔۔۔ بھائی کی شادی سر پہ ہے اور محترم کو سیالکوٹ جانا ہے ۔۔۔۔”۔ وہ طنز سے بولی۔
صائم حیرت سے منہ کھولے انہیں دیکھ رہا تھا۔
“بھائی کی شادی کے بعد ہی جائیں گے بس آپ بھائی سے اجازت لے کر دیں ۔۔۔۔”۔
“پہلے شادی ہو جانے دو پھر دیکھیں گے۔۔۔ اور صائم آپا نے بازار جانا ہے تم ان کے ساتھ جاؤ “۔
“جی امی۔۔۔”۔ وہ خوشی خوشی چل پڑا۔ جبکہ اپنے دوستوں کو فون کر کے اپنے جانے کا بتانے لگا۔
※••••••※
مریم اپنے کمرے میں ہی تھی جب رجب علی دروازہ کھٹکھٹا کر اندر داخل ہوئے۔
“اباّ آپ ؟؟”۔ مریم انہیں دیکھ کر شرمندہ سی اٹھ بیٹھی۔
“میری بیٹی تو آج آئی نہیں تھی مجھ سے ملنے میں نے سوچا میں ہی چلا جاتا ہوں “۔ وہ مسکرا کر بولے۔
“اباّ میں آنے لگی تھی”۔ اس نے شرمندہ ہو کر وضاحت دی۔
“اچھا !! کھانا کیوں نہیں کھایا ؟؟”
“بھوک نہیں تھی مجھے!!”۔ وہ آہستگی سے بولی۔
“کیا بات ہے بیٹا ۔ کیا واقعی تم اس رشتے سے خوش نہیں ہو ؟؟؟”۔ ان کے پوچھنے پر مریم کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگ گئے۔
وہ ان کے سینے سے لگی بری طرح رو رہی تھی رجب علی پریشان سے اس کا چہرہ دیکھ رہے تھے۔
“مریم میرا بچہ بتاؤ کیا ہوا ہے؟؟ تم اب مجھے پریشان کر رہی ہو”۔ وہ اس کے آنسو صاف کرتے بولے۔
“میں ابھی ۔۔۔ ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی اباّ میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی ۔۔۔”۔ رجب علی مسکرائے۔
“ہر بیٹی کو جانا ہوتا ہے بیٹا ۔ ہمارے چاہنے نا چاہنے سے کیا ہوتا ہے ۔ زائر کا انتخاب میں نے بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے وہ بہت اچھا لڑکا ہے مجھے تو لگتا ہے اس سے شادی کے بعد تم ہمیں بھول جاؤ گی۔۔۔۔”۔
“ایسا کبھی نہیں ہو گا میں آپ کو نہیں بھول سکتی ۔۔۔۔ کوئی چاہے کتنا ہی اچھا کیوں نا ہو”۔ وہ خفگی سےبولی۔
“ارے میرا بچہ!! رجب علی نے پیار سے اس کاماتھا چوما۔
“تم ہماری زندگی کا سب سے بڑا انعام ہو اللّٰہ کی طرف سے۔۔ شادی کے دس سال بعد جب تم پیدا ہوئی تھی اور جب میں نے پہلی بار تمہیں دیکھا تھا اور اپنی گود میں لیا تھا وہ لمحہ میں کبھی نہیں بھول سکتا ۔ ہم کبھی تمہاری آنکھ میں آنسو نہیں دیکھ سکتے مجھے دنیا پر بھروسا نہیں ہے بیٹا ۔۔۔۔ زندگی کا کیا پتا ہے بیٹا۔ اسی لیے میں اپنی زندگی میں محفوظ ہاتھوں میں دے رہا ہوں فاطمہ اور زائر پر مجھے خود سے بھی زیادہ بھروسا ہے ۔۔۔۔ اسی لیے میں نے زائر کا انتخاب کیا ہے ہمارے اپنے ہیں وہ اور میں تمہارے معاملے میں تمہاری ماں کےبعد فاطمہ کے گھر پر بھروسا کرتا ہوں ۔۔۔۔ مجھے امید ہے میری بیٹی میری بات کو سمجھ گئی ہو گی۔۔۔۔”۔ رجب علی کے کہنے پر مریم نے سر جھکا دیا۔
“چلو شاباش اٹھو منہ دھو اور باہر آ کر کھانا کھاؤ ۔میں اور تمہاری ماں بھی بھوکے بیٹھے ہیں “۔ وہ اس کے سر پر بوسہ دیتے ہوئے بولے۔
رجب علی کے جانے کے بعد وہ گہری سانس لے کر بستر سے اتری۔۔۔۔!
“اب میں خود کروں گی جو کرنا ہے مگر یہ تو پکا ہے زائر عباس سے میں شادی نہیں کروں گی۔”۔ وہ خود کلامی کے انداز میں بولی اور باہر چلی گئی۔
※••••••※
مریم نے کمرے میں آنے کے بعد سب سے پہلا کام زائر کو فون کرنے کا کیا تھا۔ فون کان سے لائے وہ ڈھرکتے دل کے ساتھ ادھر سے ادھر ٹہل رہی تھی۔
زائر ابھی گھر آیا ہی تھا جب فون نے اس کا فون بج اٹھا۔
“ایک تو اتنی دیر لگا کر گھر آئے ہو اور آتے ہی لوگ تم سے اداس بھی ہو گئے ہیں ۔۔۔ حد ہو گئی ہے ۔۔۔ فاطمہ خفگی سے بولی۔
“امی ضروری فون ہو گا “۔
“تم سنو اپنے ضروری فون اور جب فرصت مل جائے تو یہ کافی پی لینا۔۔۔”۔ وہ ناراضگی سے کہہ کر واپس چلی گئی۔
“ہیلو !!
“اسلام علیکم !”
کون ؟؟ زائر کسی لڑکی کی آواز سن کر حیران ہوا۔
“میں مریم بات کر رہی ہوں “۔ وہ آہستگی سے بولی۔
“مریم ۔۔۔”۔ رات کے گیارہ بجے مریم کا فون آنے پر وہ حیران ہوا تھا۔
“سب ٹھیک ہے نا ؟؟”۔
“جی سب ٹھیک ہے یہاں کیا ہونا ہے ۔۔۔”۔ وہ طنز سے بولی۔
“مجھے آپ سے بات کرنی تھی۔۔”۔
“جی بولیے میں سن رہا ہوں “۔
“وہ۔۔۔ میں ۔۔۔ میں یہ شادی نہیں کر سکتی ۔ مطلب مجھے ابھی شادی نہیں کرنی “۔ وہ اٹک اٹک کر بولی۔ اس کی بات پر دوسری طرف خاموشی چھا گئی۔
“تو میں کیا مدد کر سکتا ہوں آپ کی؟؟”۔ زائر سرد آواز میں بولا۔
“آپ اس شادی سے انکار کر دیں “۔ وہ جھٹ سے بولی۔
“شادی آپ کو نہیں کرنی مس تو بہتر ہو گا اس شادی سے انکار بھی خود کریں ۔۔۔ اب جب سب کچھ طے ہو چکا ہے اب آپ کو یاد آیا ہے انکار کرنا جب یہ سارا تماشا شروع ہوا تھا تب کیوں نہیں کیا؟؟”۔
“مجھ سے کسی نے نہیں پوچھا تھا سب کچھ خود ہی طے کر لیا تھا “۔
“بہت افسوس ہوا سن کر ۔۔۔۔ بہر حال میں کچھ نہیں کر سکتا ۔ یا تو انکار کر دو یا پھر جو ہو رہا ہے ہونے دو واویلا کرنے سے اب کچھ نہیں ہو گا ۔۔۔۔”۔ زائر کی بات سن کر اسے اور غصہ آیا۔
“جو ہو رہا ہے میں نہیں چاہتی وہ ہو “۔ وہ جواباً چیخی تھی۔
“مریم رجب علی آواز نیچے میں ایسے لہجے برداشت نہیں کرتا۔ اور آپ کے چاہنے نا چاہنے سی مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ میں انکار نہیں کروں گا ۔ اور یہ شادی صرف اور صرف میری ماں کی خوشی سے ہو رہی تھی ۔۔”۔ وہ جتانے والے انداز میں بولا۔
“تو آپ انکار نہیں کریں گے ؟؟”۔
“انکار کم از کم میری طرف سے نہیں ہو گو کہ چاہتا تو میں بھی یہی ہوں پر افسوس میں نہیں کر سکتا انکار!! “۔
مریم نے دانت پیسے۔۔
“شدید نفرت کرتی ہوں میں آپ سے زائر عباس ۔۔۔ اور آپ کسی خوش فہمی میں مت رہیئے گا یہ شادی نہیں ہو گی “۔
“اوکے میں ویٹ کروں گا “۔ زائر کی پرسکون آواز اسے جلا کر راکھ کر گئی تھی۔ فون بند کرنے کے بعد وہ سر ہاتھوں میں گرائے صوفے پر بیٹھ گئی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...