ہر آنے والا دن گزرے ہوئے دن سے زیادہ اذیت ناک تھا-
ہر تیسرے چوتھے دن وہ خالی گاڑی لے کر واپس آتا- سادی کبھی عمر کے کبھی جمیل کے اور کبھی کسی اور کے ساتھ جا چکی ہوتی- گھر میں وہ یہی کہتی کہ اضافی پیریڈ کیوجہ سے دیر ہو گئی یا لائبریری میں مطالعہ کر رہی تھی- الہیٰ بخش اذیت میں تھا کہ سادی غلط راست پر جارہی ہے اور وہ محض تماشائی بنا سب کچھ دیکھ رہا ہے- عشق کا بھی تو کچھ فرض ہوتا ہے- عشق اپنے محبوب کو تباہ ہوتے ہوئے دیکھنے کا نام نہیں-
ایک روز الہیٰ بخش نے سادی سے بات کرنے کافیصلہ کر لیا- یونیورسٹی لے جاتے ہوئے اس نے عقب نما میں سادی کو دیکھا جو کسی سوچ میں گمتھی- “سادی بی بی، آپ کو یاد ہے آپ نے مجھے اختیار دیا تھا کہ غلط بات پر آپ کو ٹوک سکتا ہوں”
سادی نے عقب نما میں اسے دیکھا-“ہاں مجھے یاد ہے”
“وہ حق اب بھی میرے پاس ہے”
“کیوں نہیں ہو گا”
“میں نے سوچا، ممکن ہے آپ نے چپکے سے وہ حق مجھ سے واپس لے لیا ہو”
“یہ کیوں سوچا تم نے؟”
“آپ بہت بدل گئی ہیں سادی بی بی، میں آپ کو ٹوکنا چاہتا ہوں، کیونکہ آپ غلط راستے پر جا رہی ہیں”
“میں سمجھی نہیں”
“یہ لڑکوں کے ساتھ دوستی، ان کے ساتھ جانا، پڑھائی چھوڑ دینا یہ سب غلط ہے، آپ کے لئے نقصان دہ ہے”
سادی نے چونک کر اسے دیکھا “تمہیں کیسے معلوم ہوا؟”
الہیٰ بخش کی نظریں جھک گئیں- “میں نے کبھی کسی سے پوچھا نہیں- ہر بار کوئی نہ کوئی خود ہی بتا دیتا ہے”
“سنا تم نے سچ ہے” سادی نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا” لیکن اس میں حرج کیا ہے”
“بدنامی بھی ہوتی ہے اور عزت بھی کم ہو جاتی ہے- لڑکیوں کی عزت تو کانچ کے برتن کی طرح ہوتی ہے”
“تو تمہاری نظروں میں میری عزت کم ہو گئی ۔——- یا با لکل ہی ختمہو گئی ہے؟” سادی نے عقب نما میں اسے غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا-
“میری بات اور ہے سادی بی بی، میرے لئے آپ اب بھی پہلے جیسی ہیں —– اور ہمیشی ایسی ہی رہیں گی- بلند اور پاکیزہ- میں دنیا کی بات کر رہا ہوں- پھر آدمی محبت تو بس ایک ہی آدمی سے کرتا ہے- ایک وقت میں اتنے لوگوں سے تو محبت نہیں ہو سکتی”
“تو میں ان سب سے محبت نہیں کرتی- محبت تو مجھے بھی بس ایک ہی شخص سے ہے اور ہمیشہ رہے گی البتہ دوستی میں حرج نہیں سمجھتی”
الہیٰ بخش کو یہ پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں تھی کہ وہ کون ہے- وہ جانتا تھا کہ شاہد کی بدتمیزی کے باوجود سادی نے اس سے ملنا نہیں چھوڑا ہے-
الہیٰ بخش جو کہنا چاہتا تھا- اس میں اسے حجاب آ رہا تھا لیکن وہ کہنا بھی ضروری تھا “سادی بی بی، مرد اور عورت کے درمیان دوستی ممکن نہیں- صرف ایک ہی رشتہ یا تعلق ہو سکتا ہے- غلط طریقے سے ہو یا صحیع طریقے سے”
“میں بہت پریشان اور دکھی ہوں الہیٰ بخش- امی اور پاپا کی زندگی میرے سامنے ہے- اور میں ایسی زندگی نہیں گزارنا چاہتی- میں اپنی زندگی کا فیصلہ امی اور پاپا پر نہیں چھوڑ سکتی- وہ تو اپنے لئے درست فیصلہ نہیں کر سکے، میرے لئے کیا کریں گے- الہیٰ بخش یہ درست ہے کہ میں کسی سے محبت کرتی ہوں- بلکہ ——–” وہ کہتے کہتے رکی- پھر بولی “الہیٰ بخش میں نے ایک بات سمجھ لی ہے- شادی اپنے اختیار میں ہوتی ہے محبت نہیں- مجھے جس سے محبت ہوئی، میں جانتی ہوں کہ اس کے ساتھ میری شادی کامیاب نہیں ہو سکتی- میرے بس میں ہوتا تو میں اس محبت کو دل سے نکال دیتی لیکن اس پر میرا اختیار نہیں- اب میں اتنے لڑکوں سے دوستی کرتی ہوں تو انہیں پرکھنے کے لئے، شاید کوئی ایسا مل جائے جو مجھے سمجھ سکے اور جسے میں سمجھ سکوں- ایسے شخص کے ساتھ محبت کے بغیر بھی زندگی گزاری جا سکتی ہے- بس یہی جستجو ہے میری”
“آپ نے جو بات سمجھی، وہ بھی پوری نہیں سمجھی سادی بی بی” الہیٰ بخش نے کہا “انسان کا اختیار نہ محبت پر ہے نہ شادی پر- جوڑے تو آسمانوں پر طے ہوتے ہیں اور لڑکوں سے ملنے میں یہ برائی ہے کہ کسی بھی وقت کوئی آپ کے ساتھ بدتمیزی کر سکتا ہے- آپ کو نقصان پہنچ سکتا ہے سادی بی بی!”
“تم اس کی فکر نہ کرو” سادی نے سرد لہجے میں کہا “تم جسے بد تمیزی کہتے ہو وہ کوئی ایسی بڑی بات نہیں- تھوڑا بہت تعلق تو کسی سے بھی رکھا جا سکتا ہے، اس سے عزت پر تو کوئی حرف نہیں آتا”
اس کے بعد کچھ کہنے کی گنجائش نہیں تھی- الہیٰ بخش خاموش ہو گیا-
اس رات الہیٰ بخش کو بہت دیر تک نیند نہیں آئی- وہ سادی کے بارے میں سوچتا رہا- سادی کے الفاظ اس کی سماعت میں گونجتے رہے——— کہا ‘تم جسے بد تمیزی کہتے ہو وہ کوئی ایسی بڑی بات نہیں- تھوڑا بہت تعلق تو کسی سے بھی رکھا جا سکتا ہے، اس سے عزت پر تو کوئی حرف نہیں آتا’
یہ کیا ہو گیا ہے سادی کو- وہ سوچتا رہا، اسے عزت اور آبرو کے فرق کا احساس نہیں رہا- وہ کن گہرائیوں میں گرتی جا رہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ کس حد تک گر چکی ہے- وہ اسے روک بھی تو نہیں سکتا تھا- اس کے پاس اختیار کوئی نہیں- وہ بس اس کے لئے دعا کر سکتا ہے- مسلسل دعا!
اس نے اپنے دل کوٹٹولا- وہاں سادی کا مقام و مرتبہ اب بھی وہی تھا- اس میں رتی بھر بھی فرق نہیں پڑا تھا- یہی تو عشق ہے- اس کے دل میں کسی نے کہا- عشق کی عزت غیر مشروط ہوتی ہے-
اس نے اپنے دل کوٹٹولا- وہاں سادی کا مقام و مرتبہ اب بھی وہی تھا- اس میں رتی بھر بھی فرق نہیں پڑا تھا- یہی تو عشق ہے- اس کے دل میں کسی نے کہا- عشق کی عزت غیر مشروط ہوتی ہے- اس کا عمل اور کردار سے کوئی تعلق نہیں ہوتا- اس میں صرف خوبیاں اور احسان یاد رکھے جاتے ہیں-
اس سے اس کی کروں شکایت کیا
شیشہ ء دل پہ بال بھی تو نہیں
اس کے بعد اس کے وجود میں عجیب سی طمانیت اتر گئی- وہ بے فکر اور پھر بے خود ہو گیا- بہت عرصے کے بعد اس رات سادی پہلے کی طرح اس کے پاس آئی اور وہ دیر تک اس سے باتیں کرتا رہا- اس کی سمجھ میں آ گیا کہ قربت کیسی کثافت پیدا کرتی ہےاور دوری میں کتنی لطافت اور سرشاری ہوتی ہے-
وہ عشق کے عین کو سمجھنے کے مرحلے میں داحل ہو رہا تھا-
——————-٭—————–
اس روز الہیٰ بخش سادی کو چھوڑ کر واپس آ رہا تھا- وہ بہت مطمئن اور پر سکون تھا- اچانک نجانے کہاں سے گاڑی کے عین سامنے مجذوب نمودار ہو گیا- اس نے گھبرا کر پوری قوت سے بریک پر پیر مارا- گاڑی بروقت رک گئی-
الہیٰ بخش نے مجذوب کو حیرت سے دیکھا، جو بہت خوش نظر آ رہا تھا- مجذوب پہلی ملاقات کے بعد بھی دو تین بار اسے نظرآ چکا تھا-
“نیچے آ جا- ہوا کا گھوڑا بہت اڑا لیا” مجذوب نے اسے پکارا- “بس اب زمین پر آ جا”
الہیٰ بخش دروازہ کھول کر کار سے اترا- وہ بہت مودب تھا “جی بابا؟”
“یہ گھوڑا بہت اچھا لگنے لگا ہے نا؟” مجذوب نے کار کی طرف اشارہ کیا “عادی ہو گیا اس کا؟”
“اچھا تو لگتا ہے بابا- سواری جو اس کیہے”
“واپسی کا حکم آ گیا ہے- سنا تو نے؟ تیاری کر لے!”
الہیٰ بخش حیران رہ گیا “میں ۔ ۔ ۔ ۔ میں کیسے جا سکتا ہوں؟”
“جیسے آیا تھا”
“پر بابا، زنجیر تو ابھی ٹوٹی نہیں”
“میں نے واپسی کی بات کی ہے- رہائی کی نہیں”
“میں سمجھا نہیں بابا”
“زنجیر اب بھی موجود ہے- بس لمبی کر دی گئی ہے” مجذوب نے کہا “اور واپسی کا حکم ہو گیا ہے”
الہیٰ بخش گنگ ہو کر رہ گیا- ہونٹ لرزتے رہے- لیکن نہ سے کچھ نہ نکلا-
مجذوب کو غصہ آ گیا “سب معلوم ہے” اس نے گرج کر کہا “تو نافرمان ایسے نہیں جائے گا- خود بھی ذلیل ہو گا اور دوسرے کو بھی کرائے گا”
“میں ۔ ۔ ۔ میں ۔ ۔ ۔ ” الہیٰ بخش نے کہنے کی کوشش کی-
“مگر جانا تو ہے- تو چاہے یا نہ چاہے” مجذوب آگے بڑھ گیا “جا تیرا خدا حافظ” اس نے پلٹ کر کہا- پھر کڑک کر نعرہ لگانے والے انداز میں چلایا “جا ۔ ۔ ۔ چلا جا”
——————٭——————
پھر ایک دن الہیٰ بخش کے لئے واپسی کا حکم ہو گیا!
سادی کے معمولات اب بھی وہی تھے- ہفتے میں دو بار الہیٰ بخش یونیورسٹی سے خالی گاڑی لاتا تھا- مگر اس کی اذیت ختم ہو گئی تھی- اب وہ راضی برضا تھا- شاید اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے بعد اسے سکون آ گیا تھا-
وہ اتوار کا دن تھا- شیخ صاحب بھی گھر پر تھے- گھر کے سب لوگ کسی تقریب میں جانے کی تیاری کر رہے تھے- شام کے وقت کرمو الہیٰ بخش کے کوارٹر میں آیا- “بیگم صاحبہ تجھے اندر بلا رہی ہیں بیٹے”
الہیٰ بخش اندر چلاگیا- بیگم صاحبہ اپنے کمرے میں تھیں- وہ سنگھار میز کے سامنے بیٹھی تیاری کر رہی تھیں- زیورات کے کئی سیٹ مسہری پر بھکرے ہوئے تھے- الہیٰ بخش دستک دے کر کمرے میں گیا تو انہوں نے پلٹ کر اسے دیکھا “آؤ الہیٰ بخش ایک کام ہے تم سے”
حکم کریں بیگم صاحبہ”
“پھول والوں کی دکان دیکھی ہے نا تم نے؟” الہیٰ بخش نے اثبات میں سر ہلایا-
وہاں سے گجرے اور پھول لانے ہیں” انہوں نے تفصیل سے اسے سمجھایا اور پرس سے سو روپے نکال کر اسے دئیے-
“ابھی لایا بیگم صاحبہ”
الہیٰ بخش پھول لینے چلا گیا- واپس آیا تو گھت کی ضا بھی بدلی ہوئی تھی- گھر میں قدم رکھتے ہی اسے اس بات کا احساس ہو گیا- بیگم صاحبہ کے کمرے سے اونچی آوازیں آ رہی تھیں- اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی- اس نے بیگم صاحبہ کے کمرے کے دروازے پر دستک دی اور اندر چلاگیا-
اندر گھستے ہی اس کے احساس کی تصدیق ہو گئی- کمرے میں تمام نوکر اور گھر کے تمام لوگ موجود تھے- نوکروں کے چہرے ستے ہوئے تھے اور مالکوں کے چہرے سرخ ہو رہے تھے-
“میں پھول لے آیا بیگم صاحبہ” الہیٰ بخش نے کہا-
“اور انگوٹھی کا کیا کیا؟”
کون سی انگوٹھی بیگم صاحبہ؟”
“وہی جو تم مسہری سے اٹھا کر لے گئے تھے”
اب الہیٰ بخش کا چہرہ بھی تمتما اٹھا “میں تو مسہری کے قریب گیا بھی نہیں تھا” اس نے احتجاج کیا “وہاں دیکھا تھا کہ آپ کے زیورات مسہری پر بکھرے ہوئے ہیں”
“خود سے بتا دو تو اچھا ہے، ورنہ میں پولیس میں رپورٹ کر دوں گی- وہ سچ اگلوانا جانتے ہیں”
“بیگم صاحبہ آپ مجھے چور سمجھتی ہیں؟” الہیٰ کے لہجے میں حیرت اور دکھ تھا-
“میں تو شروع ہی سے تمہیں چور اور بے ایمان سمجھتی ہوں”
“تو پھر آپ کو مجھے ملازم رکھان ہی نہیں چاہئے تھا”
“میں نے تو نہیں رکھا تمہیں- شیخ صاحب کو بھی منع کیا تھا”
“بس تو اب مجھے پولیس کے حوالے کر دیں- جو میں نے کیانہیں، وہ تو میں موت کے فرشتے کے سامنے بھی تسلیم نہیں کروں گا” الہیٰ بخش نے کہااور کمرے میں موجود ایک ایک شخص کے چہرے کو غور سے دیکھا- شیخ صاحب کے چہرے پر ندامت اور آنکھوں میں معذرت تھی- سادی کے ہونٹ لرز رہے تھے- پتا چلا رہا تھا کہ وہ صرف باپ کے لحاظ سے زبان کو قابو میں رکھنے کی کوشش کر رہی ہے- جمیلہ اور کرمو کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں-
“میں یہی کروں گی- اس وقت تو شادی میں جانا ہے- واپسی تک میری انگوٹھی مجھے مل جانی چاہئے، ورنہ تم حوالات میں ہی رہو گے”
“بس بیگم صاحبہ بہت ہو گیا-” شیخ صاحب بولے- “میں آپ سے کہہ چکا ہوں کہ ہمارے ملازمین میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے- مگر آپ ساری حدیں پھلانگے جا رہی ہیں-”
“تو پھر میری انگوٹھی کہاں گئی؟”
“اپنی چیز کا آدمی خود ذمےدار ہوتا ہے- بجائے انگوٹھی تلاش کرنے کے آپ نے دوسروں کو چور بنانا شروع کر دیا”
“بس اب پولیس ہی یہ مسئلہ حل کر دے گی”
“آپ اپنا یہ شوق بھی پورا کر لیں” شیخ صاحب نے سرد لہجے میں کہا “میں پولیس کے سامنے اس شبے کا اظہار کروں گا کہ کسی نوکر کو پھنسانے کے لئے آپ نے خود ہی انگوٹھی کہیں چھپا دی ہے”
“آپ —— آپ —–” بیگم صاحبہ گنگ ہو گئیں-
“آور دیکھ لیجئے گا، انگوٹھی آپ کے کمرے میں ہی سے ملے گی اور اب آپ شادی کو تو بھول ہی جائیں- دل چاہے تو ابھی پولیس کو بلا لیں، ورنہبہتر یہ ہے کہ انگوٹھی کو کمرے میں ہی تلاش کرلیں” شیخ صاحب نوکروں کی طرف متوجہ ہوئے “تم لوگ جاؤ، میں تم سے معافی چاہتا ہوں”
الہیٰ بخش، کرمو اور جمیلہ کمرے سے نکل آئے- اندر بیگم صاحبہ کہہ رہی تھیں “سنیں شادی میں دیر ہو جائے گی”
“میں نے کہا نا کہ شادی کو بھول جائیے- اب پہلے یہ مسئلہ حل ہو گا- جس طرح آپ پسند کریں”
بیگم صاحبہ جانتی تھیں کہاب شیخ صاحب ماننے والے نہیں- “ٹھیک ہے میں دیکھ لیتی ہوں لیکن میں بتا رہی ہوں کہ یہ آپ کے چہیتے الہیٰ بخش کیحرکت ہے”
پانچ منٹ کے اندر انگوٹھی ڈریسنگ ٹیبل کی دراز میں پڑی مل گئی- بیگم صاحبہ کا بس چلتا تو اسے چھپا دیتیں- لیکن شیخ صاحب ان کے سر پر مسلط تھے “اب سوچیں کہ پولیس کو بلاتیں تو اس وقت آپ کی کیا پوزیشن ہوتی” شیخ صاحب نے فاتحانہ لہجے میں کہا-
“ایسی خاص بات نہیں، غلطی انسان ہی سے ہوتی ہے-” بیگم صاحبہ نے بے پروائی سے کہا-
“آپ کو معلوم ہے کہ کسی پر تہمت لگانا کتنا بڑا گناہ ہے؟” سادی بولی-
“اب تم مجھے اخلاق نہیں پڑھاؤ” بیگمصاحبہ نے جھنجلا کر کہا-
‘آپ کو خود چل کر ان سے معافی مانگنا چاہئے” شیخ صاحب نے کہا-
“یہ بات آپ ہی سوچ سکتے ہیں”
“سوچنے کی بات نہیں- میں اس پر عمل کراؤں گا-” شیخ صاحب نے زور دے کر کہا “ورنہ ابھی میں خود آپ کا میکے جانے کا شوق پورا کروں گا- مجھے صرف اتنا بتائیں کہ آپ شادی میں چلنا چاہتی ہیں یا اپنے میکے؟” شیخ صاحب کے اس لہجے سے بیگم صاحبہ خوب واقف تھیں-
“چلیئے” انہوں نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
الہیٰ بخش اپنے کوارٹر میں بیٹھا الجھ رہا تھا- اسے یاد تھا کہ عشق سے پہلے وہ بہت خود دار ہوا کرتا تھا مگر اب وہ بہت کچھ سن کر پی جاتا تھا- پچھلی بار بیگم صاحبہ نے اسے حرام خور کہا تھا- الہیٰ بخش کا اپنا ایک ضابطہ اخلاق تھا- س کی رو سے وہ کسی کو مطلع کئے بغیر بھی یہاں سے جا سکتا تھا- اتنا کچھ سننے کے بعد اس کی یہ ذمہ داری نہیں تھی کہ نوکری چھوڑنے کا اعلان کرے اور پھر جائے-
لیکن اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی اس کے دل میں یہاں سے جانے کا خیال نہیں آیا تھا- شیخ صاحب بلاشبہ بہت اچھے انسان تھے اور وہ ان کا احترام کرتا تھا لیکن ان کے احترام میں وہ اس توہین کو نہیں پی سکتا تھا، البتہ سادی کے عشق میں اتنی قوت تھی کہ وہ اسے ہلنے نہیں دے رہا تھی-
اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی- اس نے جا کر دروزہ کھولا اور حیران رہ گیا “سر جی آُ؟” اس نے بیگم صاحبہ کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا-
“ہاں الہیٰ بخش” شیخ صاحب نے کہا اور رخسانہ بیگم کی طرف دیکھا-
“انگوٹھی مل گئی ہے الہیٰ بخش!” بیگم صاحبہ نے کہا ‘میری ڈریسنگ ٹیبل کی دراز میں تھی”
“بڑی خوشی کی بات ہے بیگم صاحبہ” الہیٰ بخش نے خشک لہجے میں کہا-
“بس؟” شیخ صاحب نے کڑے لہجے میں رخسانہ بیگم سے کہا “یہی کہنے کے لئے یہاں آئی ہیں آپ؟”
“دیکھئے شیخ صاحب، آپ مجھ سے یہ امید نہ رکھیں کہ میں ایک نوکر سے معافی مانگوں گی” رخسانہ بیگم نے اکڑے لہجے میں کہا-
شیخ صاحب کچھ کہنے ہی والے تھے مگر ان سے پہلے ہی الہیٰ بخش بول اٹھا- “سر جی، معافی سے تو میں شرمندہ ہوں گا- اس کی ضرورت نہیں مگر گستاخی معاف، میں کچھ کہنا چاہتا ہوں”
“کہو الہیٰ بخش”
“سر جی، پہلے میرے باپ نے رزق حلال پر میری پرورش کی، پھر مجھے اس کی تلقین کی- اللہ گواہ ہے سر جی، میں نے کبھی چوری، بے ایمانی، حرام خوری نہیں کی- انسان ہوں، لا علمی میں تو خطا ہو سکتی ہے مگر میں ہمیشہ ان چیزوں سے بچتا رہا- یک بر پہلے بیگم صاحبہ مجھے حرام خور کہہ چکی ہیں- میں صرف اس لئے نوکری چھوڑ کر نہیں گیا کہ آپ کا احسان مانتا ہوں- آپ کی عزت کرتا ہوں- آج انہوں نے بلا وجہ مجھے چور اور بے ایمان کہہ دیا اور یہ بھی کہا کہ یہ شروع ہی سے مجھے ایسا سمجھتی ہیں- اب آپ بتائیں، اب آپ بتائیں اس صورت میں میرا یہاں کام کرنا مناسب ہے؟”
شیخ صاحب نے ملامت بھری نظروں سے بیوی کو دیکھا- “آپ کو اپنی زیادتی کا احساس بھی نہیں؟”
بیگم صاحبہ کے چہرے پہ نرمی سی بکھر گئی- “مجھے احساس ہے- اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہوں گی” یہ کہہ کر وہ پلٹیں اور گھر کی طرف چلی گئیں-
شیخ صاحب چند لمحے مجرمبنے سر جھکائے کھڑے رہے- پھر انہوں نے کہا کہ “بیٹے الہیٰ بخش، میں شرمندہ ہوں- انشاللہ آئندہ ایسی کوئی حرکت نہیں ہو گی”
“سر جی، مجھے شرمندہ نہ کریں- میں آپ کو شرمندہ نہیں دیکھ سکتا- میرے لئے یہ مر جانے کے برابر ہے”
شیخ صاحب بھی پلٹ کر چلے گئے- الہیٰ بخش کوارٹر میں چلا آیا-
وہ شاید دستک ہی کا دن تھا- شیخ صاحب کے جانے کے کوئی ایک گھنٹے بعد پھر دستک ہوئی- اس بار دروازے پر کرمو تھا “بیٹے تمہیں سادی بی بی نے بلایا ہے”
الہیٰ بخش کہنا چاہتا تھا کہ اب میں گھر میں قدم رکھ کر ایک بار اور چور نہیں بننا چاہتا- لیکن اس کے اندر سے کسی نے ملامت بھرے لہجے میں کہا، ‘سادی کا حکم ٹالے گا- اپنی توہین کا بدلہ اس سے لے گا؟’
“تم جاؤ کرمو بابا، میں ابھی آتا ہوں” الہیٰ بخش نے کہا-
پانچ منٹ بعد الہیٰ بخش بنگلے میں داخل ہوا تو وہاں سناٹا تھا- بات سمجھ میں آنے والی تھی- سب لوگوں کو شادی میں آنا تھا مگر سادی کیوں نہیں گئی؟
اس نے سادی کے کمرے کے دروازے پر دست دی- آ جاؤ الہیٰ بخش!” اندر سے سادی نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا-
الہیٰ بخش کمرے میں داخل ہوا- سادی مسہری پر بیٹھی تھی- اس کی متورم آنکھوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ روتی رہی ہے- اسے اس حال میں دیکھ کر الہیٰ بخش کا دل کٹنے لگا- “یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے سادی بی بی” اس نے دلگرفتگی سے کہا “اور آپ شادی میں بھی نہیں گئیں”
“اتنا کچھ ہو جانے کے بعد جا سکتی تھی؟” سادی نے رندھی ہوئی آواز میں کہا-
“کچھ بھی تو نہیں ہوا سادی بی بی، دیکھں میں تو دکھی نہیں، بلکہ خوش ہوں”
“یہ تو تمہاری بڑائی ہے، جو تمہیں اللہ نے دی ہے- لیکن میں تم سے شرمندہ ہوں الہیٰ بخش، میں امی کی طرف سے تم سے معافی مانگتی ہوں”
“مجھے گناہ گار نہ کریں سادی بی بی”
“امی انسان نہیں ہیں”
“ایسا نہ کہیں، وہ آپ کی ماں ہیں- بہت محترم ہیں آپ کے لئے” الہیٰ بخش نے کہا پھر پوچھا “میرے لئے کیا حکم ہے سادی بی بی؟”
“یہاں آؤ میرے قریب”
الہیٰ بخش مسہری کے قریب چلا گیا-
“یہاں بیٹھو ۔۔۔۔۔۔ میرے پاس” سادی نے مسہری کی طرف اشارہ کیا-
“سادی بی بی، یہ میرا مقامنہیں”
“یہی تو دشواری ہے کہ تمہیں اپنے مقام کا علم نہیں- بہر حلا میرا حکم تو نہیں ٹال سکتے”
الہیٰ بخش بڑھا اور مسہری پر ٹک گیا- اسے احساس ہو رہا تھا کہ کوئی غیر معمولی بات ہونے والی ہے-
“تم آج نوکری چھوڑ کر چلے کیوں نہیں گئے؟” سادی نے پوچھا-
“بس سادی بی بی، جی نہیں چاہا ایسا کرنے کو”
“اپنی عزت کا خیال نہیں تمہیں؟”
“کچھ چیزیں عزت سے بڑی ہوتی ہیں سادی بی بی،”
“ہو سکتا ہے تمہیں بڑی لگتی ہوں، حقیقت میں نہ ہوں گی-”
“جب تک مجھے بڑی لگیں گی، میرے لئے تو بڑی ہی رہیں گی”
“ٹھیک کہتے ہو” سادی نے آہ بھر کر کہا “جانتے ہو میں نے تمہیں کیوں بلایا ہے؟”
“نہیں سادی بی بی، جاننا چاہتا ہوں”
“میں چاہتی ہوں کہ تم مجھ سے محبت کرو”
الہیٰ بخش گڑبڑا گیا- اس بات کا تو اس نے تصور بھی نہیں کیا تھا- اس کا دل بلیوں اچھلنے لگا- وہ عشق کا سارا فلسفہ بھول گیا “میں آپ سے محبت کرتا ہوں سادی بی بی!”
“اپنی یہ محبت نہیں، وہ محبت جو عام لوگ کرتے ہیں” سادی کی آواز لرز رہی تھی “میں چاہتی ہوں کہ تم مجھ سے محبت کرو” سادی اس کی طرف کھسکی اور اس کا ہاتھ تھام لیا- الہیٰ بخش یوں اچھل کر مسہری سے اٹھا، جیسے وہاں کسی بچھو کو دیکھ لیا ہو-
“یہ کیسے ممکن ہے سادی بی بی، آپ بہت بلند اور پاکیزہ ہیں”
سادی بھی اٹھ کڑھی ہوئی “جیسا تم سمجھتے ہو میں ویسی نہیں، میں انسان ہوں- میری خوائشات بھی انسانی ہیں- میں گوشت پوست کی بنی ہوئی ہوں”
“میرے لئے آپ وہ ہیں جو میری نظر میں ہیں- میرے لئے اہمیت صرف اس بات کی ہے”
سادی اس سے لپٹ گئی “میں جانتی ہوں تم میرا حکم نہیں ٹال سکتے”
الہیٰ بخش نے نرمی سے اسے علیحدہ کر دیا- “وہ حکم مانوں گا جو آپ ہوشمندی کے عالم میں دیں گی- اس وقت آپ ہوش میں نہیں ہیں اور آپ تاوان کیوں ادا کرنا چاہتی ہیں ؟؟؟ جبکہ میں طلب نہیں کر رہا ہوں!”
“یہ محض تمہاری بےعزتی کی قیمت نہیں میری خوائش بھی ہے” سادی بپھر گئی “تم نہیں جانتے، میں تم سے محبت کرتی ہوں”
“محبت” الہیٰ بخش نے حقارت سے کہا “اسے محبت نہیں کچھ اور کہتے ہیں- میں وہ لفظ زبان پر بھی نہیں لا سکتا”
“میں تم سے شادی نہیں کر سکتی- تمہیں وقتی طور پہ حاصل کر سکتی ہوں”
“صادی بی بی میں جا رہا ہوں، یہ سمجھ لیں کہ آیا ہی نہیں تھا” یہ کہہ کر الہیٰ بخش دروازے کی طرف بڑھ گیا-
“الہیٰ بخش!”
الہیٰ بخش نے پلٹ کر دیکھا “جی سادی بی بی”
“تمہیں میرا حکم ماننا پڑے گا ورنہ میں شور مچا دوں گی- کہوں گی کہ تم مجھ سے بدتمیزی کر رہے تھے”
“صادی بی بی، آپ نے یہ الزام لگایا تو میں اس سے انکار نہیں کروں گا- خدا حافظ!”
وہ باہر نکل آیا- سادی کی خوائش میں ڈوبی لرزتی ہوئی آواز دور تک اس کا پیچھا کرتی رہی لیکن اس نے نہیں سنا- وہ یہ آواز اپنی سماعت میں، اپنی یاداشت میں نہیں رکھنا چاہتا تھا-
اپنے کوارٹر میں پہنچ کر اس نے اپنی تمام چیزیں سمیٹ کر صندوق میں رکھیں اور کرمو چاچا کے پاس چلا گیا “چاچا میری روانگی ک حکم آ گیا ہے” اس نے کہا-
“جانتا ہوں بیٹے، اب تو یہاں نہیں رہ سکتا- بیگم صاحبہ نے بڑی زیادتی کی ہے تیرے ساتھ”
“چاچا، صبح صاحب کو بتا دینا کہ میں اب یہاں کام نہیں کر سکتا تھا، اس لئے چلا گیا ہوں- ان سے کہنا، مجھے معاف کر دیں- میری ہر غلطی معاف کر دیں”
“تو کہا ابھی جائے گا؟”
“ہاں چاچا، اب یہاں رات گزارنا ٹھیک نہیں”
“کہاں جائے گا بیٹے؟”
کینٹ جاؤں گا چاچا، شاید رات کی کوئی گاڑی مل جائے”
“میں تجھے چھوڑنے چلوں گا”
“نہیں چاچا، اب میں چلتا ہوں”
“بیٹا میرے گھر سب کو سلام دعا پہنچا دینا- اللہ تجھے حفاظت سے گھر پہنچائے”
کرم دین گیٹ تک الہیٰ بخش کو چھوڑنے آیا-
واپسی کا حکم اوپر ہی سے ہوا تھا- الہیٰ بخش کو رات کو گاڑی مل گئی- صبح ہوتے ہوتے وہ حیدر آباد سے نکل چکا تھا-
زندگی کا ایک اور باب مکمل ہو چکا تھا!
الہیٰ بخش جیسے ہی گھر میں داخل ہوا، اس کے باپ نے اس کی ماں سے کہا “دیکھا، ایسے ہوتے ہیں سعادت مند بیٹے”
الہیٰ بخش نے حیرت سے باپ کو اور پھر ماں کو دیکھا کہ شاید اس پر طنز کر رہے ہیں- لیکن ان کے ہونٹوں پر خیر مقدمی مسکراہٹ کے سوا کچھ بھی نہیں تھا- پھر بیر بخش نے بڑھ کر محبت سے اسے لپٹا لیا- اس کے بعد ماں نے اسے پھر سے چھوٹا سا بچہ بنا دیا-
سکون سے بیٹھے تو اس نے پوچھا “آپ میری سعادت مندی کی بات کر رہے تھے- میں نے ایسا کیا کیا؟”
“میں نے چار دن پہلے خط ڈالا، تو پانچویں دن آ گیا- خط پہنچتے ہی چل پڑا ہوا ہو گا”
الہیٰ بخش مسکرا کر خاموش ہو گیا- خط تو اس تک پہنچا ہی نہیں تھا- اس سے پہلے ہی حکم ہو گیا تھا-
پہلے تین د تو معلومات اپ ڈیٹ ہونے میں ہی نکل گئے کس کے ہاں بچہ ہوا، کون فوت ہوا، کون باہر چلاگیا، کس کی شادی ہوئی، کس کی طلاق ہوئی، پھر جو فوت ہوئے ان کے ہاں دعا کے لئے جانا تھا- ایک ہفتے بعد اسے سکون سے بیٹھنے کا موقع ملا- اچانک اسے خیال آیا تو اس نے باپ سے پوچھا “آپ نے خط لکھ کر مجھے کیوں بلایا تھا؟”
“خط میں وجہ بھی لکھ دی تھی”
“خط تو مجھے ملا ہی نہیں ابا”
ماں اس کے پاس آ بیٹھی “بیٹے، تیری شادی کا ارادہ کیا ہے”
“تیری کیا مرضی ہے بخشو؟”
“میری مرضی ابا، جو تمہارا جی چاہے کرو- پر ابا پیسے کی ضرورت بھی ہو گی-”
“وہ تو ہو گی- پر تو فکر نہ کر سب ہو جائے گا”
‘میں اس لئے کہہ رہا ہوں ابا کہ میرے پاس دس بارہ ہزار روپے ہیں” الہیٰ بخش نے صندوق سے رقمنکال کر باپ کے دامن میں ڈال دی-
“اتنے پیسے” بڈھے پیر بخش کی آنکھیں پھیل گئیں-
“اچھی نوکری تھی ابا ۔ ۔ ۔ ۔ اور خرچہ کوئی نہیں تھا”
“تو شادی کی فکر نہ کر- آگے کی سوچ- کچھ کر لے اس رقم سے- نوکری کی آزار سے بچ”
“شادی کے بعد سوچوں گا ابا، تم یہ پیسے اپنے پاس رکھو- ضرورت پڑے تو خرچ کر لینا- آگے اللہ مالک ہے”
گھر آ کے الہیٰ بخش بہت خوش تھا- سب سے بڑی خوشی یہ تھی کہ اس کی راتیں خوب صورت ہو گئی تھیں- سادی ہر رات اس کے پاس آ جاتی تھی- سادی کی وہ آخری حرکت، اس کا ہر نقش، ہر آواز اس کے ذہن سے محو ہو چکی تھی- الہیٰ بخش کے نزدیک وہ عشق کی آزمائش تھی- جس میں رب نے اسے سرخرو کیا تھا-
دس دن کے بعد ڈاکیے نے اسے خط لا کر دیا- لفافے پر سادی کی تحریر دیکھ کر اس کا دل بے حال ہو گیا- اس نے جلدی سے لفافہ چاک کیا- اندر ایک اور لفافہ تھا- وہ ابا کا بھیجا ہوا خط تھا- ساتھ ایک چھوٹا سا رقعہ بھی تھا- اس نے بے تابی سے اسے پڑھا- رقعہ القاب و آداب سے محروم تھا-
“تمہارے جانے کے بعد اگلے روز یہ خط آیا تھا- پیچھے تمہارے گاؤں کا پتا لکھا تھا- امی کہہ رہی تھیں کہ واپس کر دو، یہ تمہیں مل جائے گا- مگر مجھے اعتبار نہیں تھا- اور کیا پتا، خط اہم ہو، اسی لئے میں اسے رجسٹر کر رہی ہوں- امید ہے اب تم تک ضرور پہنچ جائے گا-
تمہاری سادی-
نوٹ: معذرت کسی بات کی نہیں کر رہی ہوں- تم مجھے معاف بھی نہ کرنا”
الہیٰ بخش نے ابا کا خط کھولا بھی نہیں- سادی کے مختصر سے رقعے کو اس نے لفافے میں رکھ کر صندوق میں رکھ دیا جو اسے بہت پیارا ہو گیا تھا- اس میں سادی کی دی ہوئی خوشبو، سادی کے دلائے ہوئے پینٹ شرٹ اور جوتوں کے سوا کچھ بھی نہیں تھا-
حاجرہ بیوی بن کر اس کے گھر آئی تو زندگی کا ایک اور باب شروع ہو گیا-
شادی کے آٹھویں دن ابا نے اس کے دئیے ہوئے پیسے اس کے ہاتھ میں رکھ دئے “لے بیٹے اب اس سے تو کوئی کاروبار کر لے”
“پر کروں کیا ابا”
“کچھ بھی کر لے- یہ رقم کم نہیں، بہت اچھا کاروبار کر سکتا ہے تو”
الہیی بخش تھوڑی دیر سوچتا رہا پھر بولا “ابا، فروٹ کی دکان ڈال لوں؟”
“جو مناسب سمجھ، کر”
الہیٰ بخش نے منڈیاں چوک پر، جہاں جناح آباد کو روڈ جاتا ہے، دکان لی اور فروٹ کا کام شروع کر دیا- کام اس نے بڑے پیمانے پر شروع کیا تھا- وہ ہری پور، خان پور بلکہ راولپنڈی تک سے مال لاتا تھا-
جس پیمانے پر اس نے کام شروع کیا تھا، کوئی اور ہوتا تو تھوڑے ہی عرصے میں کہیں سے کہیں پہنچ جاتا- لیکن وہ الہیٰ بخش تھا! لوگ کہتے تھے ایسا کاروباری، ایسا دکاندار انہوں نے کہیں نہیں دیکھا- دکان پر وہ دو طرح کا کام کرتا تھا- ایک وہ کھلا پھل بیچتا- دوسرے اور دکان دار اس سے پھلوں کی پیٹیاں لے جاتے- اس دوسرے کام میں بچت کم تھی لیکن اس کی دکان صرف اسی کے زور پر چلتی رہی ورنہ وہ قلاش ہو جاتا- حالانکہ پھل بیچنے میں زیادہ منافع ہوتا ہے لیکن الہیٰ بخش کا مزاج، اس کا طریق کار ایسا تھا کہ اس میں منافع ہو ہی نہیں سکتا تھا-
الہیٰ بخش جب اپنی دکان کے لئے پھلوں کی پیٹی کھولتا تو اچھے پھل ایک طرف کر لیتا- ہر پیٹی میں خراب پھل بھی ہوتے ہیں- کسی میں کم اور کسی میں زیادہ- الہیٰ بخش خراب پھل کبھی نہیں بیچتا تھا-
ایک بار ایک عورت پھل خریدنے آئی اور آلو بخارے کابھاؤ تاؤ کرنے لگی تو الہیٰ بخش نے کہا “بہن، میں دام کم نہیں کرتا- اس سے کم قیمت پر کہیں ملے تو لے لو”
آلو بخارے خوب پکے ہوئے اور اچھے خاصے تھے- عورت للچائی نظروں سے انہیں دیکھتی رہی پھر بولی “سامنے والی دکان سے بارہ آنے سیر مل رہے ہیں”
“تو وہاں سے لے لو بہن، میں روپے سے کم نہیں دوں گا”
“آور یہ لوکاٹ کیسے دئیے ہیں؟”
“یہ دس آنے سیر ہیں”
عورت نے دیکھا وہ صاف ستھرے پکے ہوئے لوکاٹ تھے- یقیناٰ چن کر رکھے گئے تھے- اسی لمحے اسے دوسری طرف لوکاٹ کا ایک اور ٹوکرا نظر آیا- اس میں بہت پکے ہوئے گلنے کی حد تک داغ دار لوکاٹ تھے “یہ کیسے دے رہے ہو؟” اس نے پوچھا-
“یہ بیچنے کے لئے نہیں ہیں بہن ”
“واہ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کیا بات کی تم نے، دکن پر تو ہر چیز بیچنے کے لئے ہوتی ہے”
“جو چیز خود مجھے اچھی نہیں لگتی، وہ میں بیچتا نہیں- جو خود نہیں کھا سکتا، وہ دوسرں کو نہیں کھلاتا
”
عورت ہنسنے لگی “تو پھر یہ مجھے مفت دے دو”
“ہاں مفت دے سکتا ہوں- مگر مفت دوں گا تو اپنی مرضی کے آدمی کو دوں گا، جسے میرا دل چاہے دوں گا”
‘چلو یہ تو اچھی بات ہے کہ جو چیز تمہیں اچھی نہیں لگتی، وہ نہیں بیچتے لیکن میں اپنی مرضی سے یہ خریدنا چاہوں تو پھر؟”
“تب اور بات ہے لیکن انہیں بیچ کر مجھے خوشی نہیں ہو گی”
“تو تم ایسے پھلوں کا کیاکرتے ہو؟”
“کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں، جو پھل خرید نہیں سکتے- یہ پھل میں انہیں دے دیتا ہوں- ان کے بچے بھی پھل کھا لیتے ہیں- پھر بھی بچ جائیں تو بکریوں ، گایوں بھینسوں کے آگے ڈال دیتا ہوں- یوں وہ خراب پھل بھی کارآمد ہو جاتے ہیں-”
“اچھا یہ لوکاٹ مجھے کیا بھاؤ دو گے؟”
الہیٰ بخش سوچ میں پڑ گیا “سامنے والی دکان پر لوکاٹ کیا سیر ہیں؟” اس نے پوچھا-
‘آٹھ آنے”
الہیٰ بخش نے عورت کو بغور دیکھا- وہ متوسط طبقے کی معلوم ہوتی تھی- “چلو میں تمہیں اچھے والے لوکاٹ آٹھ آنے سیر دیتا ہوں- غریبوں کا کام خراب مت کرو- لیکن آئندہ میری دکان پر آ کے یہ پنچایت نہ کرنا”
یہ تھا الہیٰ بخش کے کاروبار کا اسٹائل- پھر وہ بار مروت بھی تھا اور متواضع بھی- ادھار میں بھی اس کا پیسہ پھنسا رہتا تھا- دکان پر کوئی اس سے ملنے آتا تو وہ پھلوں سے اس کی تواضع بھی کیا کرتا- اکثر لوگ تو پھل کھانے کے ارادے ہی سے اس سے ملنے آ جاتے- ایسے میں منافع کا کیا سوال تھا- بس دکان داروں کو جو مال دیتا تھا، اس کی برکت سے گھر کا خرچ فراغت سے چل رہا تھا- الہیٰ بخش اس میں بہت خوش تھا-
الہیٰ بخش نے حاجرہ کو بھی ہمیشہ خوش رکھا- اللہ نے اولاد کے معاملے میں بھی اسے خوب نوازا- پہلے اس کے ہاں مسلسل تین بیٹے ہوئے پھر بیٹی پیدا ہوئی- وہ اس کی بڑی لاڈلی تھی- الہیٰ بخش بہت ذمے دار اور محبت کرنے والا شوہر اور باپ تھا- نماز بھی باقاعدگی سے پڑھتا تھا- بس رات کا ایک پہر وہ اپنے لئے گزارتا تھا، اپنی سادی کے ساتھ- نیند اس کی بہت کم ہو گئی تھی- اس کا اثر اس کی صحت پر بھی پڑ رہا تھا- وہ اپنی عمر سے بڑا لگنے لگا-
———————-٭————————
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...