ہماری کائنات میں ایک اندازے کے مطابق زمین پر ریت کے ذروں سے بھی 26 گنا زیادہ ستارے ہیں یعنی یہ تعداد کھربوں میں ہے۔ کائنات اربوں نوری سالوں پر محیط ہے اور اس میں ہر روز ہزاروں ستارے جنم لیتے ہیں۔ ایک محتاط اندازہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ کائنات میں ہر سال تقریبا 150 ارب نئے ستارے جنم لیتے مگر یہ تعداد اس سے بھی کئی گنا زیادہ ہو سکتی ہے۔
ہماری کہکشاں ملکی وے میں موجود 90 فیصد ہائیڈروجن گیس اب تک ستاروں میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ملکی وے میں سب سے پرانے ستاروں کی عمر کا تعین کر کے ہم یہ جان چکے ہیں کہ ہماری کہکشاں کو بنے کم از کم 13 ارب سال ہو چکے ہیں۔ یعنی یہ کائنات کے بننے کے تقریباً 80 کروڑ بعد بنی۔ ملکی وے میں ہر سال سورج یا سورج سے بڑے تقریباً 7 ستارے جنم لیتے ہیں۔ اسی طرح اوسطاً دو ستارے جو سورج سے ماس میں کئی گنا بڑے ہوتے ہیں وہ سپرنووا بن کر پھٹتے ہیں جبکہ ایک کم ماس کا ستارہ پلینٹری نبیولا میں تبدیل ہوتا ہے۔ اب یہ پلینٹری نبیولا کیا بلا ہے؟ جب سورج یا سورج سے کچھ بڑے ستارے اپنے انجام کو پہنچتے ہیں تو یہ پھیلنے لگتے ہیں۔مستقبل میں سورج بھی اپنے موجودہ سائز سے پھیلتے پھیلتے تقریباً 300 گنا بڑا ہو جائے گا اور یہ عطارد، زہرہ، اور زمین سب کو نگل لے گا۔ اسکے بعد سورج کی باہری سطح میں موجود تمام مواد جس میں گیسیں اورخلائی گرد موجود ہو گی آہستہ آہستہ باہر خارج ہونا شروع ہو جائیں گے۔ یوں سورج اپنے انجام پر ایک۔پلینٹری نبیولا بن جائے گا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ سورج اور نظامِ شمسی کے دیگر سیارے بھی ایسے ہی 4.6 ارب سال پہلے ماضی کے کسی ستارے کے انجام پر بننے والے نبیولا سے بنے ہیں۔
زیرِ نظر تصویر بے حد دلچسپ ہے کیونکہ یہ جمیز ویب خلائی دوربین جو اس وقت زمین سے 15 لاکھ کلومیٹر دور سورج کے گرد چکر لگا رہی ہے، اس سے کھینچی گئی ہے۔ اس تصویر میں ایک ایسے ہی نبیولا کی گرد میں ایک ستارے کی پیدائش کو ہوتا دیکھا جا سکتا ہے۔ یعنی ایک ستارہ جو ابھی مکمل ستارہ نہیں بنا بلکہ بننے کے قریب ہے، اسے پروٹوسٹار کہتے ہیں۔ اس تصویر میں درمیاں میں ایک چھوٹی سی لکیر نظر ا رہی ہو گی جو گرد کے اس بادل کو دو حصوں میں “ریت کی گھڑی” کی طرح تقسیم کر رہی ہے۔ یہ لکیر دراصل اتنی چھوٹی نہیں بلکی یہ نظامِ شمسی کی سائز کی ڈسک ہے اور یہ ظاہر کر رہی ہے کہ ستارہ بننے کا عمل جاری ہے اور ایک جگہ گیس اکٹھی ہو رہی ہے جو مستقبل میں گریویٹی کے زیرِ اثر اس قدر درجہ حرارت حاصل کر لے گی کہ اس میں فیوژن کا عمل شروع ہو جائے گا اور یوں ایک ستارہ بنے گا۔ یہ عمل ہونے میں کئی لاکھوں سےکروڑوں سال لگ سکتے ہیں۔ فی الحال اس عمل کو شروع ہوئے اندازاً ایک لاکھ سال ہو چکے ہیں۔
اسی طرح اس نبیولا میں موجود گرد میں نئے سیارے بنیں گے جن میں شاید زمین جیسا بھی کوئی سیارہ ہو۔
جیمز ویب ٹیلی سکوپ سے لی گئی یہ تصویر اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ اس سے ہم یہ جان سکیں گے کہ ماضی میں ایسے ہی کسی عمل کے تحت ہمارا سورج اور نظامِ شمسی کیسے بنے؟
یہ مہر و ماہ و کواکب کی بزم لا محدود
صلائے دعوت پرواز ہے بشر کے لئے
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...