وہ سب اس کے گرد دائرہ بنائے بیٹھے تھے ۔۔۔۔۔۔
ہر کسی کو “کیا ہوا تھا ۔۔ کیسے ہوا تھا ۔۔۔” جاننے کی جلدی تھی لیکن میشا کی حالت دیکھتے ہوئے کسی کی کچھ پوچھنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی ۔۔۔۔
“میشا باجی ۔۔۔۔؟؟”
علیشہ نے اس کے قریب کھسک کر اس کا گھٹنہ ہلایا تھا ۔۔۔
وہ میشا کو آئیڈلائز کرتی تھی ۔۔۔ اب اپنی آئیڈیل کو اس حالت میں دیکھ کر اس کے اپنے دل کی حالت بھی خراب ہو رہی تھی ۔۔۔۔
سر گھٹنوں سے اٹھا کر اس نے ایک طویل سانس خارج کی تھی ۔۔۔
ایک محبت بھری اداس نگاہ اس نے ان سب کے چہروں پر ڈالی تھی ۔۔۔ پلکوں پر ٹکے آنسو صاف کر کے اس تینوں بھائیوں کو گھورا تھا ۔۔۔۔۔
“تم لوگ سوئے نہیں اب تک ۔۔؟ اسکول نہیں جانا ۔۔۔۔۔۔؟”
اور اس کا مطلب سمجھ کر ساشہ کے اشارے پر وریشہ تینوں بھائیوں کی “نہ نہ” ان سنی کرتے ہوئے زبردستی ساتھ لیئے اوپر کے پورشن میں چلی گئی ۔۔۔۔۔
اور ان کے جاتے کے ساتھ ہی اس کے رونے میں پھر سے شدت آ گئی تھی ۔۔۔۔
“بس کر جائو میشا ۔۔۔ پلیز چپ ہو جائو ۔۔ کچھ بتائو تو صحیح میری جان ۔۔ ہوا کیا ہے ۔۔ ؟ کچھ بولو تو صحیح ۔۔۔۔۔!
بس روئے جا رہی ہو ۔۔ روئے جا رہی ہو ۔۔۔”
اس کے آنسو اپنے ہاتھوں سے صاف کرتے ہوئے ساشہ خود بھی رونے لگی تھی ۔۔۔۔
کچھ ایسی ہی داستانیں سنا رہے تھے اس کے آنسو ۔۔۔
“کیوں نہ رئوں میں ۔۔۔۔؟
کیسے نہ رئوں میں ۔۔۔۔۔؟
میرا سب کچھ لٹ گیا میری ماں مر گئی ہے ۔۔۔۔ کیسے چپ ہو جائوں میں ۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
رات کے پہر اس کی چیخ یقیناً اڑوس پڑوس کے گھروں میں بھی سنی گئی تھی ۔۔۔۔۔
ساشہ علیشہ اور اس کی سہیلی شمح ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئیں ۔۔۔۔۔ سب ہی کی آنکھیں جھلملا رہی تھیں ۔۔۔۔۔
“اس شخص نے میرے غرور اور اعتماد کو تو ٹھیس پہنچائی ہی ۔۔ میری ماں بھی چھین لی اس سے ۔۔۔۔۔۔ میں کبھی معاف نہیں کروں گی اسے ۔۔۔۔۔۔ کبھی بھی نہیں ۔۔!!!!
وہ ایک بار میرے سامنے آجائے میں قتل کردوں گی اسے ۔۔۔۔
اماں ۔۔۔۔۔۔ اماں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں آخری بار انہیں دیکھ بھی نہیں پائی ۔۔ بھلا مجھ سی بدقسمت بیٹی کون ہوگی ۔۔۔۔۔۔؟
میری ماں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
ساشہ کے شانوں سے لگی مچلتے مچلتے وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہو گئی تھی ۔۔۔
ساشہ کے تو ہاتھ پائوں پھول گئے تھے ۔۔۔۔ علیشہ نے حوصلہ دیا تھا ۔۔
“صدمہ چھوٹا تو نہیں ہے ۔۔۔۔۔
سب ٹھیک ہی ہے ۔۔ بس انہیں آرام سے سونے دیں ۔۔۔”
علیشہ اور شمح کمرے سے نکل گئی تھیں ۔۔۔
ساشہ نے جھک کر اس کی پیشانی چومی تھی ۔۔۔۔۔۔ آج پہلی بار اسے میشا اپنی چھوٹی بہن لگی تھی ۔۔ ورنہ اس نے ہمیشہ مضبوط بن کر دکھایا تھا ۔۔ ساشہ خود کو اس سے چھوٹا محسوس کرتی تھی ۔۔۔۔ آج سے پہلے تک ۔۔۔۔!!
کتنی ہی دیر گزر گئی تھی ۔۔ ان تینوں میں سے کوئی کچھ کہنے کے قابل نہیں رہا تھا ۔۔۔
وریشہ چائے بنا لائی تھی ۔۔۔۔۔۔
بلکہ کہنا چاہیے قہوہ ۔۔!!
تھوڑا سا دودھ تھا جو شمح کے کپ میں ڈال دیا تھا ۔۔۔۔
تینوں بہنوں نے اپنا اپنا قہوہ اٹھا کر شمح کی طرف منتظر نظروں سے دیکھا تھا ۔۔۔۔۔ اور ان کی آنکھوں میں موجود سوال پڑھ کر ٹھنڈی سانس خارج کر کے شمح نے انہیں سب بتانا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
**********************
سینے پر بازو لپیٹے سنجیدہ نظروں سے منان نے گاڑی کے اوپر آنکھیں موندے ساتویں سگرٹ پھونکتے پارس کو دیکھا تھا جو اس کی کسی بات کا جواب نہیں دے رہا تھا ۔۔۔ ہاں آنکھوں کے کنارے سے کچھ آنسو وقتاً فوقتاً نکل کر کر اس کے گھنے ہلکے گھنگریالے بالوں میں جزب ہوتے رہے تھے ۔۔۔۔
“کچھ پھوٹے گا بھی یا میں دفع ہو جائوں ۔۔۔۔۔؟”
“احسان کر اور دفع ہو جا ۔۔۔۔۔”
اس کی چیخنے پر اب کی بار جواب دے دیا گیا تھا لیکن ایسا کہ منان کا دماغ گھوم گیا تھا ۔۔۔۔
“ْالو کے پٹھے ۔۔! ہمدانی کی کئی کالز آ چکی ہیں ۔۔ بلوا رہے ہیں وہ ہمیں ۔۔۔۔۔۔ ضروری کام ہے ۔۔ “وہاں” کے بارے میں کچھ نہیں بھونکنا مت بھونک ۔۔۔ ہمدانی کی کال کا جواب ہی دے’دے ۔۔ اس لالچی بڈھے کا دماغ خراب ہوا تو تو وہ ہمارا دماغ اڑانے سے بھی نہیں چوکے گا ۔۔۔”
منان کا بس نہیں چل رہا تھا وہ جس پل پر موجود تھا اس پل سے چھلانگ لگا دے یا پارس کو دھکا دے’دے ۔۔۔
“کیوں کال کر رہا ہوگا ۔۔۔۔؟
وہی ایک کام ہوگا ۔۔۔۔۔۔ بتانا ہوگا کسی اور قسمت کی ماری کا ۔۔”
آنکھیں کھول کر وہ سخت اکتائے لہجے میں بولا تھا ۔۔۔
ساتھ ہی اٹھ کر بیٹھ بھی گیا تھا ۔۔
“اوہو ۔۔۔۔! اب وہ بیچاریاں قسمت کی ماریاں ہو گئیں ۔۔۔۔۔۔!!”
منان کا طنزیہ انداز اس کا دماغ خراب کر گیا تھا جو وہ آپے سے باہر ہوتا اس پر ٹوٹ پڑا تھا ۔۔۔
کم منان بھی نہیں تھا !
اچھی خاصی دھینگا مشتی ہوئی تھی ۔۔۔۔ اپنے اپنے اندر کی گھٹن دونوں نے ایک دوسرے کو پیٹ پیٹ کر نکالی تھی ۔۔۔۔ آخری جھٹکے سے منان گاڑی پر گرا تھا اور پارس پل کی دیوار سے جا لگا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
گہری گہری سانسیں لیتے ہوئے دونوں کی نظریں ٹکرائی تھیں اور اگلے ہی پل وہ دونوں ہنس پڑے تھے ۔۔۔۔۔۔ عجیب کھوکھلی سی ہنسی تھی ۔۔ جسے ہنستے ہوئے پارس باقاعدہ سسک اٹھا تھا ۔۔۔۔
گرتا پڑتا منان اس کے پہلو میں جا کر بیٹھ گیا ۔۔۔۔
“معافی مانگ لو جا کر ۔۔۔ بقول تمہارے ‘ تمہاری حقیقت جاننے کے بعد اس نے تمہیں دھتکارنے کی جگہ تمہیں سنوارنے کی کوشش کی تھی ۔۔!
مطلب وہ کافی سے زیادہ سمجھدار ہیں ۔۔ معاف کر دیں گی وہ تمہیں۔۔!”
“نہیں کرے گی ۔۔۔! اس بار نہیں کرے گی ۔۔۔۔۔ مجھے پتا ہے ۔۔۔۔۔۔
میں نے اس کا اعتبار توڑا ہے ۔۔۔۔ میرے ذہن سے اس کی آنکھوں کی وہ پکار نہیں جاتی ۔۔۔۔ تو اس نے بھی میرا نظریں چرانا بھلایا نہیں ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
اس کی اماں کی ڈیتھ ہو گئی ہے مون ۔۔۔ وہ قصوروار بھی مجھے ٹھہرا رہی ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔ اس بار وہ ایسے ٹوٹی ہے نہ ۔۔۔۔ اس بار وہ میری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہے گی ۔۔ دیکھے گی تو قتل کر دے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اس کو اچھی طرح سمجھتا ہوں ۔۔!”
آخر میں پارس کے لب مسکرائے تھے ۔۔ انداز میں فخر سا جھلکا تھا ۔۔۔۔۔
اور نچلا لب کچلتا منان سوجی آنکھ سہلاتے ہوئے سوچ رہا تھا میشا جیسی با ہمت لڑکی جب ایسے ٹوٹ سکتی ہے تو ۔۔۔۔۔
“تو ساشہ پر کیا گزری ہوگی ۔۔۔”
بے دھیانی میں وہ اونچی سرگوشی کر گیا تھا ۔۔
پارس نے ترچھی نظر اس پر ڈالی تھی لیکن کچھ کہا نہیں تھا ۔۔۔
دونوں ہی اپنی اپنی سوچوں میں گم تھے جب کسی نتیجے پر پہنچ کر دونوں کی نظریں ایک بار پھر ٹکرائی تھیں اور اگلے ہی پل وہ گاڑی کی طرف دوڑے تھے ۔۔۔۔
انہیں پھر سے ان ہی چھوٹی چھوٹی اندھیری گلیوں میں جانا تھا ۔۔ اب وہ انہیں تنہا نہیں چھوڑ سکتے تھے زمانے کی سختیاں سہنے کو ۔۔۔۔۔۔!
**********************
نکھری ستھری صبح اسے حیران کر رہی تھی ۔۔۔۔۔
سب کے مزاج بوجھل سے تھے پھر صبح اتنی روشن کیوں ۔۔۔؟
اور عجیب بات یہ تھی کہ ہلکی ہلکی سرد ہوا ۔۔ خوشبوئیں لٹاتا یہ دن اس کے اندر نافہم سے احساس جگا رہا تھا۔۔۔ جیسے کچھ اچھا ہونے والا تھا ۔۔۔ ساری پریشانیاں ختم ہونے کو تھیں ۔۔۔۔
“میشا آگئی ہے نہ ۔۔۔ شائد اسی لیئے دل ہلکا پھلکا ہو رہا یے ۔۔۔”
تینوں بھائیوں کو اسکول کے لیئے جگاتے ہوئے وہ سوچ کر رہ گئی تھی ۔۔۔۔
“آپی ۔۔۔ میشا باجی کو بخار ہو رہا ہے بہت تیز ۔۔۔۔”
وریشہ کی اطلاع پر وہ نیچلے پورشن کی طرف دوڑی تھی ۔۔۔۔
میشا کی تپتی ہوئی پیشانی سے ہاتھ ہٹا کر اس نے اپنے سر پر مار لیا تھا ۔۔۔۔
“اسے تو بہت تیز بخار ہے ۔۔۔۔ !
میشو ۔۔۔۔۔۔ مشو اٹھو ۔۔ ایک بار آنکھیں تو کھولو ۔۔۔۔”
اس کا گال تھپکتے ہوئے وہ دستک کی آواز پر اور جھنجلا گئی تھی ۔۔۔۔۔
“علیشہ دیکھنا زرا کون ہے ۔۔۔۔”
کچن میں مصروف علیشہ ساشہ کی پکار پر داخلی دروازے کی طرف بھاگی تھی ۔۔
“اس وقت کون آ سکتا ہے ۔۔۔؟
اگر یہ کسی گلی کے بچے کی شرارت ہوئی تو میں گلی کے سارے بچوں کو کچا ہی کھا جائوں گی ۔۔۔۔”
“مطلب پکا کر کھا سکتی ہو تم ۔۔۔؟”
شمح جو رات ان کے گھر ہی رک گئی تھی اور اب علیشہ اور ساشہ کے ساتھ ہی اسکول کے لیئے نکلنے والی تھی دلچسپی سے پوچھنے لگی ۔۔۔۔
“ہاں ۔۔! کیوں نہیں ۔۔۔”
ڈائن کی طرح زبان ہونٹوں پر پھیر کر وہ اسے مسکرانے پر مجبور کر گئی تھی ۔۔۔
“کون ہے بھئی ۔۔۔؟”
“دروازہ کھولو ۔۔۔۔۔”
پارس نے بڑے حق سے کہا تھا ۔۔۔
منان اس کے انداز پر ابرو اچکا کر مسکرا دیا ۔۔۔۔
ایک لمحے کو ٹھٹھکنے کے بعد علیشہ نے زرا سا دروازہ کھول کر جھری سے جھانکا تھا ۔۔۔۔
اور ان دونوں کے چہرے دیکھ کر جلدی سے بند کرنا چاہا تھا لیکن پارس ہاتھ دروازے کے درمیان میں لا کر اسے ایسا کرنے سے روک گیا تھا ۔۔۔۔
“آپ لوگوں کی ہمت کیسے ہوئی یہاں آنے کی ۔۔۔۔۔؟
ساری گلی ہمارے جاننے والوں کی ہے ۔۔ شور مچائیں گے اور سب آ جائیں گے ۔۔۔۔!”
علیشہ کی دھمکیاں بیکار گئی تھیں ۔۔۔۔
پارس زرا سا زور لگا کر دروازہ کھلونے میں کامیاب ہو گیا تھا اور اندر بھی آ گیا تھا ۔۔ پیچھے منان بھی جھجکتے ہوئے داخل ہوا تھا ۔۔۔۔
اور حیران پریشان کھڑی شمح اور دوڑی دوڑی آتیں وریشہ اور ساشہ ان دونوں کو دیکھ کر حق دق رہ گئی تھیں ۔۔۔۔۔۔
بے یقینی ، خوف , غم اور غصہ ۔۔۔ کیا کچھ نہیں تھا ان کی نظروں میں ۔۔۔۔!
اس سے پہلے کے اچھا خاصہ گڑبڑا جانے والا پارس کچھ کہہ پاتا وہ تینوں بھائی جو شور سن کر جاگ چکے تھے ۔۔ سیڑھیوں سے گملے اٹھا کر اس پر برسانا شروع کر چکے تھے ۔۔۔۔۔۔۔
***********************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...